Wednesday, 30 April 2025

مزدوروں کے اسلامی حقوق ۔۔۔۔تنخواہ کی شرعی مقدار؟

 مزدوروں کے اسلامی حقوق ۔۔۔۔تنخواہ کی شرعی مقدار؟

-------------------------------
اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے ہر انسان کو جسمانی طاقت وقوت بخشی تاکہ وہ جسمانی محنت ومزدوری کرکے اپنی جسمانی ومعاشی ضروریات کی تکمیل کرسکے، اس کے بعد خدا کا کرم واحسان یہ ہوا کہ بعض بندوں اور محنت کشوں کو بعضوں کے ماتحت کرکے اس کا غلام، نوکر، خادم یا مزدور بنادیا، تاکہ وہ از خود محنت مزدوری کرنے سے بچا رہے۔ جو شخص کسی کے ماتحت یعنی ملازم یا نوکر ہو اسے اسلام نے یہ تاکید کی ہے کہ "کھانے، پینے اور رہائش" جیسی اس کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کرے، ارشاد نبوی ہے:
............ إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمْ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُ (صحيح البخاري. كتاب الإيمان 30)
جس شخص کے بھائی کو اللہ اس کا ماتحت بنائے یعنی جو شخص کسی غلام کا مالک بنے تو اس کو چاہئے کہ وہ جو خود کھائے وہی اس کو بھی کھلائے اور جو خود پہنے وہی اس کو بھی پہنائے نیز اس سے کوئی ایسا کام نہ لے جو اس کی طاقت سے باہر ہو اور اگر کوئی ایسا کام اس سے لئے جائے جو اس کی طاقت سے باہر ہو تو اس کام میں خود بھی اس کی مدد کرے). "مزدور" کی مزدوری کے تئیں اسلام کا یہ بنیادی اصول ہے، جس سے "تنخواہ" یعنی بنیادی ضروریات کے تکفل اور مزدوری کی کم سے کم مقدار کے تعین کا اصول مستنبط ہوتا ہے، اسلامی شریعت میں مزدوری کی اقل مقدار کا تعین اگرچہ واضح لفظوں میں لازماً نہیں ہوا ہے بلکہ اس مسئلے کو تراضی طرفین وباہمی رضامندی پہ موقوف کردیا گیا، کہ جس مقدار پر بھی دونوں فریق راضی ہوجائیں اسے اجرت بننا شرعا درست ہے.
(''الموسوعۃ الفقہیۃ": الأجرۃ ہي ما یلزم بہ المستأجر عوضًا عن المنفعۃ التي یتملکہا، وکل مما یصلح أن یکون ثمنًا في البیع یصلح أن یکون أجرۃ في الإجارۃ، وقال الجمہور: إنہ یشترط في الأجرۃ ما یشترط في الثمن ۔ (۱/۲۶۳ ، إجارۃ)
لیکن اوپر کی ذکر کردہ حدیث میں اجرت کی روح اور غرض ومقصد سے روشناس کرادیا گیا کہ مزدور؛ خواہ اجیر خاص ہو یا اجیر مشترک! دونوں کی محنتوں اور کوششوں کے بدلے اتنا محنتانہ دیا جائے جو زمانہ کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور جس سے مزدور اپنی بنیادی ضرورت پوری کرسکے، یعنی شریعت میں مزدوری کی اقل مقدار کی تعیین اشارتی طور پر تکفل ضروریات پہ منحصر کردی گئی ہے، جبکہ مزدوری کی اکثر مقدار کو مزدوروں کی لیاقت، قابلیت، تجربہ، ذہانت وغیرہ پہ منحصر کردیا گیا ہے کہ وہ اپنے فن وہنر واہلیت کے تفاوت کے لحاظ سے زیادہ سے زیادہ اور من پسند مزدوری باہمی رضامندی سے طے کریں۔ اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدوری طے کئے بغیر کسی کو مزدور رکھنے سے منع کیا:
حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ اسْتِئْجَارِ الْأَجِيرِ حَتَّى يُبَيَّنَ أَجْرُهُ وَعَنْ النَّجْشِ وَاللَّمْسِ وَإِلْقَاءِ الْحَجَرِ (مسند أحمد رقم الحديث 11255)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کسی شخص کو مزدوری پر رکھنے سے منع فرمایا ہے جب تک اس کی اجرت واضح نہ کردی جائے، نیز بیع میں دھوکہ، ہاتھ لگانے یا پتھر پھینکنے کی شرط پر بیع کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ اور پسینہ خشک ہونے سے قبل مزدوری دیدینے کا حکم دیا:
[ص: 817]
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ الدِّمَشْقِيُّ حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَطِيَّةَ السَّلَمِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُالرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ. (سنن ابن ماجة.كتاب الرهون. باب أجر الأجراء
رقم الحديث 2443.)
عباس بن ولید، وہب بن سعید بن عطیہ، عبدالرحمن بن زید بن اسلم، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دے دو۔ اقتتصادی ماہرین اور متعدد ملکوں اور ریاستوں کی عدلیہ کی جانب سے مزدوروں، غریبوں اور محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزدوروں کی یومیہ اقل ترین مزدوری کی تعیین کرکے اسے اپنی اپنی ریاستوں میں قانونی وآئینی حیثیت دی جارہج رہی ہے، جس کی خلاف ورزی کو تعزیراتی عمل قرار دیا جارہا ہے، شریعت اسلامیہ میں مزدوروں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے تئیں بڑی سخت تاکید آئی ہے، ان کے حقوق ہضم کرجانے یا ان کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے پہ درد ناک و عید وارد ہوئی ہے۔ اسلام نے۔۔ان کے اموال ومزدوری کو ناحق ہضم کرجانے کو حرام وناجائز قرادیا ہے:
وَلا تَبخَسُوا النّاسَ أَشياءَهُم وَلا تُفسِدوا فِي الأَرضِ بَعدَ إِصلاحِها ذلِكُم خَيرٌ لَكُم إِن كُنتُم مُؤمِنينَ ﴿85٥﴾ سورة الأعراف)
یعنی لوگوں کے حقوق کھاکر ظلم نہ کرو اور ان میں کمی نہ کرو۔ (ولا نفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا) یعنی انبیاء (علیہم السلام) کے بھیجنے اور انصاف کا حکم دینے سے جو اصلاح ہوئی اس کے بعد فساد نہ کرو اور جس نبی کو کسی قوم کی طرف بھیجا گیا تو وہ اس قوم کی اصلاح ہے (ذلکم خیر لکم ان کنتم مئومنین) یعنی جس کا تم کو حکم دیا یہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ حیثیت کے باوجود قرض خواہوں اور مزدوروں کی مزدوری ادا نہ کرنے کو ظلم قرار دیا:
حَدَّثَنَا عَبْدُاللَّهِ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَالِكٌ عَنْ أَبِي الزِّنَادِ عَنْ الْأَعْرَجِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ فَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ (صحيح البخاري. كتاب الحوالة رقم الحديث 2166)
عبداللہ بن یوسف، مالک، ابوالزناد، اعرج، حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مالدار کا ادائے قرض میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی شخص کا قرض مالدار کے حوالہ کر دیا جائے تو اسے قبول کر لینا چاہئے۔ مزدور کے حقوق ہضم کرلینے والوں کو قیامت میں سزا ہوگی اور اللہ تعالی خود مزدور کی طرف سے روز قیامت جگھڑیں گے :
حَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ مَرْحُومٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَالَ اللَّهُ ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلٌ أَعْطَى بِي ثُمَّ غَدَرَ وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَكَلَ ثَمَنَهُ وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ وَلَمْ يُعْطِ أَجْرَهُ (صحيح البخاري. كتاب البيوع رقم الحديث 2114. بَاب إِثْمِ مَنْ بَاعَ حُرًّا)
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ تین شخص ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن جھگڑوں گا، ایک تو وہ شخص جس نے میرے نام اور میری سوگند کے ذریعے کوئی عہد کیا اور پھر اس کو توڑ ڈالا دوسرا وہ شخص ہے جس نے ایک آزاد شخص کو فروخت کیا اور اس کا مول کھایا اور تیسرا شخص وہ ہے جس نے کسی مزدور کو مزدوری پر لگایا اور اس سے کام لیا (یعنی جس کام کے لئے لگایا تھا وہ پورا کام اس سے کرایا) لیکن اس کو اس کی مزدوری نہیں دی). (بخاری)
اسلام کی اس قدر واضح ہدایات اور وعیدوں کے باوجود مزدوروں کے حقوق میں کوتاہی کرنا بہت تشویشناک امر ہے ، مادر وطن ہندوستان کی عدالت عظمی کی طرف سے اس بابت جو مبینہ شرح اجرت ذرائع ابلاغ میں آئی ہے اس پہ اخلاقی طور پہ مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو بھی عمل در آمد کرنا ضروری ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے:
مجریہ 31.10.2018 کے مطابق کم از کم منصفانہ اجرتوں کی شرح درج ذیل ہے:
غیر تربیت یافتہ فی یوم ۵۳۸۔ ماہانہ ۱۴۰۰۰ (چودہ ہزار)۔ تھوڑا تربیت یافتہ: فی یوم ۵۹۲۔ ماہانہ ۱۵۴۰۰ (پندرہ ہزار چار سو)۔ تربیت یافتہ فی یوم ۶۵۲۔ ماہانہ ۱۶۹۶۲ (سولہ ہزار نو سو باسٹھ۔ یہ شرح ناخواندہ طبقے کے لیے ہے۔ جب کہ خواندہ طبقہ کے لیے اگر میٹرک بھی پاس نہیں کرسکا ہے، تو پر دن ۵۹۲۔ ماہانہ ۱۵۴۰۰ (پندرہ ہزار چار سو)۔ میٹرک پاس ہے، مگر گریجویشن نہیں کیا ہے، تو اس کے لیے پر دن ۶۵۲۔ اور ماہانہ ۶۹۶۲۔ اور گریجویشن یا اس سے زیادہ تعلیم یافتہ ہے، تو ایک دن کی شرح اجرت ۷۱۰ ہے۔ اور ماہانہ ۱۸۴۶۲ (اٹھارہ ہزار چار سو باسٹھ ہے)
مدارس اسلامیہ میں عموماً اس وقت تنخواہ کاجو فرسودہ نظام ہے وہ (باستثناء قلیل) کافی حد تک المناک بلکہ ظالمانہ ہے، درسگاہوں سے ہوکے بیت الخلائوں تک کی عمارتوں کی تزئین میں لاکھوں بلکہ کروڑوں روپے جھونک دیئے جاتے ہیں، جبکہ رات ودن طلبہ پہ محنت کرکے اپنی زندگیاں کھپانے والے اساتذہ وہی پانچ یا آٹھ ہزار روپے ماہانہ کے زیرقہر پس رہے ہوتے ہیں، مدارس کے سارے نظام میں جدت آگئی ، جھونپڑی فلک نما عمارتوں میں تبدیلی ہوگئی، آرام وآسائش کی ساری ماڈرن چیزیں دستیاب ہیں، مگر قلت تنخواہ کا فرسودہ نظام جوں کا توں باقی ہے، اس بے رحم نظام کا اثر ہے کہ اچھے، قابل، باصلاحیت اور محنتی اساتذہ مدارس کا رخ نہیں کرتے، معاشی مجبوریوں اور مدارس کی تنخواہ والے نظام سے مجبور ہوکے جید فضلاء اپنی راہیں بدل رہے ہیں، اور یوں قابل ترین فضلاء مدارس، امت اور مدارس اسلامیہ کا قیمتی ترین سرمایہ ضائع ہورہا ہے،
اقل ترین تنخواہ کی مقدار اگرچہ شرعا منصوص ومحدَّد نہیں، لیکن بنیادی ضرورت کی تکمیل کے ساتھ مشروط ضرور ہے، آج مدارس کے اساتذہ کرام مدارس میں رہتے ہوئے خود کو "قید زنداں" میں محسوس کررہے ہیں، بچوں کی تعلیم، اہل خانہ کے علاج معالجہ اور ناگہانی حوادث کے وقت دوسروں سے قرض لیتے پہریں تو اس سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوتے ہیں جو منشاء نبوی کے خلاف ہے۔
اساتذہ مدارس کو مرفّہ الحال کردینے کی وکات کوئی نہیں کرتا لیکن کم از کم ان کی بنیادی ضروریات کی کفایت کے بقدر اجرت تو ضرور متعین کریں، اجرت اور مزدوری کرنے کی غرض بھی یہی ہے، عدالت عظمی کی مذکور شرح تنخواہ کی پیروی ذمہ داران مدارس بھی کریں ،تنخواہوں کے قدامت پسندانہ ، فرسودہ و ظالمانہ نظام تنخواہ میں مناسب حال تعدیل اور جدت لائی جائے۔ اچھی کارکردگی دکھانے والے کارکنان واساتذہ کرام کے لئے "عطاء" یعنی بخشش اور اکرامیہ کا نظام متعارف کرایا جائے، متلعہ ذمہ داریوں سے زیادہ کام لینے پر اضافی رقم دی جائے، تاکہ ان کا حوصلہ بڑھے، اور وہ مزید محنت، لگن، خلوص اور جانفشانی سے طلبہ پہ محنت کرسکیں، نظام بنانے کی دیر ہے، دینے والوں کی کمی نہیں، جو قوم عمارتوں کی مدات میں کروڑوں دے سکتی ہے وہ اساتذہ کی مشاہرات کی مد میں بھی دے گی اور خوب دے گی۔
واللہ اعلم
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
یکم مئی 2023ء
( #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2025/04/blog-post_30.html



"وداعِ جانِ کائنات" (وفاتِ نبوی)

"وداعِ جانِ کائنات" (وفاتِ نبوی )

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی علالت کا آغاز 29 صفر سن 11 ہجری، بروز پیر ہوا، جب آپ جنت البقیع میں ایک جنازے میں شرکت کے بعد لوٹ رہے تھے کہ اچانک سخت بخار اور شدید دردِ سر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگھیرا۔ رنج و تعب کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ روز تک امت کی نمازوں کی امامت فرمائی۔ مرض بڑھتا گیا اور بیماری کا دورانیہ تیرہ 13 یا چودہ 14 دنوں پر محیط ہوگیا۔ جب مرض کی شدت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نڈھال کردیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار استفسار فرمانے لگے: “کل کہاں قیام ہوگا؟” اشارہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کی طرف تھا۔ ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن نے بصد رضا اجازت مرحمت فرمائی. (صحیح البخاري 4450).
یوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے محبوب ترین مقام پر منتقل ہوگئے، جہاں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا دن رات تندہی سے تیمارداری اور دعاء ورقیہ کرتی رہیں۔ بدھ کے دن، مرض میں کچھ افاقہ محسوس ہوا۔ سات مشکیزوں کا پانی منگوایا گیا. (البخاري 4442، ومسلم 418)
غسل فرمایا اور مسجد نبوی میں حاضر ہوکر منبر پر تشریف فرما ہوئے، خطاب فرمایا، جس میں امت کو گمراہی سے بچانے کے لیے یہود و نصاریٰ کی قبور پر تعظیم کی لعنت بیان کی.” (البخاري 4443، ومسلم 529)
اور دعا فرمائی:
“اللهم لا تجعل قبري وثنًا يعبد"
(اے اللہ! میری قبر کو ایسا بت نہ بنانا کہ جس کی پوجا کی جائے. (موطأ الإمام مالك 414 عن عطاء بن يسار مرسلاً)
اسی مجلس میں انصار کے مقام و مرتبہ کو سراہا، ان سے حسن سلوک کی تلقین فرمائی. (البخاري 2801، ومسلم 2510)
اپنے وصال کا اشارہ دیا اور امت کی امارت قریش میں برقرار رکھنے کی وصیت کی، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضیلت و عظمت پر خصوصی گفتگو فرمائی، اور مسجد نبوی میں صرف انہی کا دروازہ کھلا رکھنے کا حکم صادر فرمایا. (البخاري 3904، ومسلم 2382)
وفات سے چار روز قبل جمعرات کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تحریری وصیت لکھوانے کا ارادہ فرمایا تاکہ امت اختلاف سے بچ جائے۔ کاتب طلب کیا گیا، لیکن اہلِ مجلس کے باہمی اختلاف کے باعث آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: “مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہی بہتر ہے۔” پھر زبانی طور پر نصیحتیں فرمائیں: مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکالنے، وفود کی عزت کرنے، اور کتاب وسنت کو مضبوطی سے تھامنے، نماز، خواتین وغلام کے حقوق کے خصوصی لحاظ وغیرہ سے متعلق احکام پر تاکید کی. (البخاري 4431، ومسلم 1637)
جب مرض نے شدت اختیار کرلی اور نقاہت حد کو پہنچ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کی امامت کے لیے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھنے کا حکم دیا. (البخاري 713، ومسلم 418)
ایک دن کچھ افاقہ محسوس ہوا تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ کے سہارے مسجد تشریف لائے، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھ کر نماز ادا فرمائی۔ جب حیاتِ طیبہ کے آفتاب کے غروب کا وقت قریب آیا (وفات سے ایک روز قبل) تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام غلاموں کو آزاد کردیا، اور جو تھوڑا سا مالِ متروکہ تھا (محض سات دینار) اللہ کی راہ میں صدقہ کردیا۔ دولت و دنیا سے دامن یوں خالی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زرہ ایک یہودی کے پاس قرض کے بدلے گروی رکھی ہوئی تھی۔ اور یہ عالمِ فقر و استغنا تھا کہ اس آخری شب میں، جب گھر میں چراغ جلانے کو تیل بھی میسر نہ تھا، تو ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پڑوس کی کسی انصاری خاتون سے ادھار تیل لے کر شبِ وداع کے چراغ کو جلایا۔ (البخاري 2916)
"ہائے اللہ! ایسی غربت، ایسی بے نیازی، کہ دنیا میں تاج بھی جھکے ہوئے تھے، مگر چراغ جلانے کو تیل بھی ادھار مانگنا پڑا۔ اور پھر وہی چراغ، وہی روشنی، تمام دنیا کو قیامت تک کے لیے ہدایت کی جوت بخشنے والا بن گیا۔ اور یہی وہ فقر تھا جس پر انبیاء (علیہم السلام) کو بھی فخر تھا۔ اور یہ وہ آخری شبِ زہد وقناعت تھی جس نے آسمانوں کے در و دیوار پر بھی سکتہ طاری کردیا تھا!"
(وفي الليل استعارت عائشة الزيت للمصباح من جارتها، وكانت درعه صلى الله عليه وسلم مرهونة عند يهودي بثلاثين صاعا من الشعير. الرحيق المختوم ص 429)
زندگی کا آخری سورج طلوع ہوا، پیر کی صبح فجر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرہ کا پردہ اٹھایا، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو صف بستہ نماز میں مشغول دیکھا، خوشی سے چہرہ انور کھل اٹھا، لبوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور ہاتھ کے اشارے سے فرمایا کہ اپنی نماز جاری رکھو. (البخاري 4448، ومسلم 419).
(یہ لمحہ آپ صلی اللہ علیہ کی امت پر آخری عنایت، شفقت ومہربانی تھی۔ دن چڑھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو بلایا، فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا خراماں خراماں چلی آئیں، ان کی چال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چلنے کی تصویر تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے شفقت سے فرمایا: “مرحبا اے جانِ پدر!” اور پہلو میں جگہ دی۔ آہستہ کچھ فرمایا، وہ اشکبار ہوگئیں؛ پھر سرگوشی کی، تو چہرہ فرحت سے کھل اٹھا۔ بعد از وصال نبوی رونے اور ہنسنے سے پردہ اٹھاتے ہوئے گویا ہوئیں: حضور صلی اللہ علیہ نے دنیا سے رخصتی کی خبر دی تھی، جس پر روئی، اور جنتی عورتوں کی سرداری اور اہل بیت میں سب سے پہلے بابا سے آملنے کی بشارت دی، جس پر ہنس پڑی) (صحیح بخاری 3623، 6286، و مسلم 2450)
پھر اپنے نواسوں سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو قرب سے نوازا، دعائیں دیں، اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت فرمائی. (البخاري 4462)
ازواجِ مطہرات کو نصیحتیں کیں اور اللہ کی ملاقات کے لیے خود کو تیار کرنے کا کہا۔ مرض کی شدت کے دوران زبان مبارک پر یہ جملے بار بار جاری تھے: “میں آج بھی خیبر کے دن کھائے گئے زہر کے اثرات کو محسوس کررہا ہوں۔” (البخاري 4428)
جب وقتِ وصالِ حق قریب آیا، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں، ان کے سینے پر ٹیک لگائے، قریب رکھا ہوا پانی کا برتن کبھی ہاتھ میں لیتے، کبھی چہرے پر پھیرتے اور شدتِ مرض سے یہ دعائیں کرتے:
“اللهم اغفرلي، وارحمني، وألحقني بالرفيق الأعلى۔”
(اے اللہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، اور مجھے بلند ترین رفیقوں میں شامل کرلے. (البخاري 4440،4449, ومسلم 2443)
یہ دعا تین مرتبہ دہراتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان، خالقِ حقیقی کے سپرد کردی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
وفات کے وقت عمر مبارک:
یہ روزِ سوموار، چاشت کا وقت، بارہ ربیع الاول سن 11 ہجری کا واقعہ تھا، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت صحیحین میں یے کہ 63 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی (بخاری 3902، 1205، مسلم 2351)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی یہی فرماتی ہیں. (بخاری 3536، مسلم 2349)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق، اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہم، تینوں 63 سال کی عمر میں وفات پائے. (مسلم 2348).
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا شدتِ غم سے پکار اٹھیں:
“وا ابتاه! أجاب ربًا دعاه، جنة الفردوس مأواه، إلى جبريل ننعاه۔”
حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا نے کہا، آہ اباجان کو کتنی بے چینی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا، آج کے بعد تمہارے اباجان کی یہ بے چینی نہیں رہے گی۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں، ہائے اباجان! آپ اپنے رب کے بلاوے پر چلے گئے، ہائے اباجان! آپ جنت الفردوس میں اپنے مقام پر چلے گئے۔ ہم حضرت جبریل علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر سناتے ہیں. (البخاري 4462)
جب تدفین ہوگئی تو انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی آنسوؤں سے تر ہوچکی تھی۔ حضرت فاطمہ بھرائی ہوئی آواز میں ان سے گویا ہوئیں: “انس! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالنے کو تمہارے دل نے کیسے گوارا کرلیا!” (البخاري 4462)
حضرات صحابہ کرام اس قیامت خیز صدمہ سے ہوش وحواس باختہ تھے، عقلیں گم تھیں، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سکتے میں تھے، شدت غم سے بات نہیں کرسکتے تھے، حضرت علی رضی اللہ زاروقطار رورہے تھے، رو روکر ہوش اڑ گئے تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ تلوار سونت کر کھڑے ہوگئے کہ جس کی زبان سے وفات رسول کی بات سنی اس کی گردن ماردوں گا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے رب سے ملنے گئے ہیں، ضرور واپس تشریف لائیں گے، غرض وفات نبوی کا انہیں یقین ہی نہیں ہورہا تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، اپنی قیام گاہ سُنح سے (جو مدینہ سے ایک کوس کے فاصلہ پر) تھی گھوڑے پر سوار ہوکر مدینہ تشریف لائے۔ جب مسجد میں پہنچے تو اہلِ مجلس سے کچھ کلام نہ کیا، بلکہ سیدھے سیدہ عائشہ کے حجرہ میں داخل ہوئے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسدِ اقدس ایک یمنی کپڑے — بُردِ حِبرہ — میں لپٹا ہوا تھا۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آگے بڑھے، چہرہ انور سے کپڑا ہٹایا، پھر جھک کر سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر محبت بھرا بوسہ دیا، اور زار زار رو پڑے۔ عرض کیا: “میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اے اللہ کے نبی! اللہ آپ پر دو موتیں کبھی جمع نہ کرے گا، جو موت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لکھی گئی تھی، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر واقع ہوچکی۔”
پھر حجرے سے باہر نکلے۔ اس وقت حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ لوگوں سے خطبہ دے رہے تھے، اور انکار کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا: “بیٹھ جاؤ!” مگر حضرت عمر انکار پر مصر رہے۔
دوبارہ فرمایا: “بیٹھ جاؤ!” مگر وہ نہ بیٹھے۔ تب حضرت ابوبکر صدیق نے خود خطبہ دیا، تشہد پڑھا، اور لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی، حتیٰ کہ سب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو چھوڑکر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف رخ کرلیا۔ پھر فرمایا: “اما بعد! جو شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا،تو وہ جان لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاچکے ہیں اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے، تو اللہ زندہ ہے، کبھی نہ مرے گا۔” پھر قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی:
{وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَإِنْ مَاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ وَمَنْ يَنْقَلِبْ عَلَى عَقِبَيْهِ فَلَنْ يَضُرَّ اللَّهَ شَيْئًا وَسَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ} (آل عمران: 144)
یعنی: “محمد تو محض ایک رسول ہیں،ان سے پہلے بھی کئی رسول گزر چکے ہیں۔کیا پھر اگر وہ وفات پا جائیں یا شہید کردیئے جائیں، تو تم اپنے قدموں پر الٹے پھر جاؤگے؟ اور جو پلٹ جائے، وہ اللہ کا کچھ نہ بگاڑے گا، اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلد بدلہ دے گا۔” (البخاري 1241 1242).
یوں امت کو سنبھالنے والا سب سے پہلا قدم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی جانب سے اٹھایا گیا اور گویا نئی صبح کی کرن پھوٹی۔ اس کے بعد حجرہ شریف کے دروازہ سے لوگوں کو ایک غیبی آواز سنائی دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل مت دینا کیونکہ آپ طاہر اور مطہر تھے، اس کے بعد دوسری آواز سنائی دی کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دو کیونکہ پہلی آواز کا متکلم شیطان تھا اور میں خضر ہوں. (خلاصہ سیر سیدالبشر ص 179، تاریخ مکہ المشرفہ ص 320)
حضرت خضر رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی تعزیت ان الفاظ میں کی:
"إن في الله عزاء من كل مصيبة، وخلفا من كل هالك، ودركا من كل فائت، فبالله نتقوى، وإياه فارجعوا، فإن المصاب من حرم الثواب."
یعنی اللہ کے نزدیک دلاسہ ہے ہر مصیبت کا اور بدلہ ہے ہر مرنے والے کا اور بدلہ ہے ہر فوت ہونے والا کا پس خدا ہی پر بھروسہ کرو اور اسی کی طرف رجوع کرو حقیقت میں مصیبت زدہ وہ ہے جو مصیبت کے اجر و ثواب سے محروم رہ جائے. (خلاصہ سیر سید البشر ص 180)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کپڑوں میں غسل دیا گیا:
غسل کے وقت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں اختلاف ہوا کہ بدن مبارک سے کپڑے اتار لیں یا کپڑوں کے ساتھ غسل دیں؟ اس اختلاف کے وقت اللہ سبحانہ و تعالی نے ان پر نیند کو مسلط کیا گویا سب سوگئے اور ایک کہنے والے کی آواز سنائی دی جو معلوم نہ ہوا کہ کون تھا؟ آواز یہ تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کپڑوں ہی میں غسل دو، یہ سنتے ہی سب بیدار ہوگئے اور ایسا ہی کیا، کپڑوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا۔
کن لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا؟
غسل کا اہتمام حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس کے دو بیٹے فضل اور قُثَم رضی اللہ عنہم نے کیا، اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو آزاد کردہ غلام شُقران اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی معاونت کے لئے شریک غسل تھے، اوس بن خولٰی انصاری رضی اللہ عنہ بھی اس جگہ حاضر ہوگئے، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ غسل دے رہے تھے، بعض روایت میں ہے اس کام کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہلے سے وصیت کر رکھی تھی۔. (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 282)
انہوں نے اثناء غسل اپنا ہاتھ شکم مبارک پر پھیرا، مگر کوئی چیز فضلہ وغیرہ خارج نہ ہوئی،اس وقت انہوں نے کہا: 
"صلی اللہ علیک لقد طبت حيا وميتا" 
یعنی اللہ کا درود و رحمت کاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حیات اور موت ہر دو حالتوں میں پاکیزہ اور مطہر ہیں. (خلاصہ سیر سیدالبشر ص 180، ابوداؤد 3209)
تین سحولی کپڑوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کفن دیا گیا اور سحول یمن کے قصبے کا نام ہے، یہاں کے بنے ہوئے کپڑے کو سحولی کہتے تھے، ان تین کپڑوں میں کرتہ اور عمامہ نہ تھا بلکہ تینوں چادریں تھیں. (بخاری 1264، مسلم 941)
اور یہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی روایت ہے، شوافع کا عمل اسی پر ہے کہ کفن میں قمیص مسنون نہیں ہے؛ مگر حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے منقول ہے کہ تین کپڑوں میں آپ کو کفن دیا، ان میں ایک وہ قمیص تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض ہوئی تھی. (عن عبدالله بن عباس رضي الله عنهما «أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ كُفِّنَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ، فِي قَمِيصِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَحُلَّةٍ نَجْرَانِيَّةٍ» والْحُلَّةُ: ثَوْبَانِ. (ابن ماجہ 1471، مسنداحمد 1967، ابوداؤد 3153)
حنفیہ اور مالکیہ کا عمل اس پر ہے کہ کفن میں قمیص بھی مسنون ہے؛ کیونکہ مردوں کی روایت اس بارے میں زیادہ مقبول ہے کیونکہ وہ متولی اور متکفل اور مشاہدہ کرنے والے تھے. (دررالحكام لملا خسرو" (1/ 162،الشرح الكبير للدردیر (1/ 417).
غرض حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو تین چادروں میں کفنایا گیا اور ان چادروں کو سیا نہیں گیا۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ کس طرح ادا ہوئی؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ سارے لوگوں نے تنہا تنہا پڑھی، عام امتیوں کی طرح باجمات نماز نہ ہوئی، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں ایک سوال کے جواب میں یہ وصیت فرما رکھی تھی کہ جب لوگ غسل کفن سے فارغ ہوجائیں تو میرا جنازہ قبر کے قریب رکھ کر ہٹ جائیں، پہلے ملائکہ نماز پڑھیں گے، پھر تم لوگ گروہ در گروہ آتے جانا اور نماز پڑھتے جانا، اوّل اہلِ بیت کے مرد نماز پڑھیں، پھر ان کی عورتیں، پھر تم لوگ۔” (مجمع الزوائد 25/9، البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 286، مستدرک حاکم للحاكم (3 / 62)
اس وصیت نبوی کے مطابق گروہ در گروہ کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز جنازہ پڑھی گئی، ایک جماعت داخل ہوتی وہ نمازِ جنازہ پڑھ کر نکل جاتی، اس کے بعد دوسری جماعت آتی اور وہ جنازہ پڑھتی۔ چنانچہ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما مہاجرین وانصار کی ایک جماعت کے ساتھ حجرۂ نبوی میں داخل ہوئے اور جنازہ نبوی کے سامنے کھڑے ہوکر سلام کیا، اور مہاجرین وانصار نے بھی سلام کیا، پھر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ مبارکہ کے سامنے یہ کہا:
"اللَّهُمَّ إِنَّا نَشْهَدُ أَنَّهُ قَدْ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ، وَنَصَحَ لِأُمَّتِهِ، وجاهد في سيبل الله حتَّى أعزَّ الله دِينَهُ وَتَمَّتْ كَلِمَتُهُ، وَأُومِنَ بِهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، فَاجْعَلْنَا إِلَهَنَا مِمَّنْ يَتَّبِعُ الْقَوْلَ الَّذِي أُنْزِلَ مَعَهُ، وَاجْمَعْ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ حتَّى تُعَرِّفَهُ بِنَا وَتُعَرِّفَنَا بِهِ، فَإِنَّهُ كَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رؤوفا رحيماً، لانبتغي بالإيمان به بديلاً، وَلَانَشْتَرِي بِهِ ثَمَنًا أَبَدًا".
”اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سب کچھ پہنچادیا جو ان پر اتارا گیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کی خیر خواہی کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، یہاں تک کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب کیا، اور اس کا بول بالا ہوا، اور صرف ایک معبود وحدہ لاشریک پر ایمان لایا گیا۔ اے اللہ! ہم کو ان لوگوں میں سے بنا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کردہ وحی کی اتباع کرتے ہیں، اور ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمع کر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں پر بڑے مہربان تھے، ہم اپنے ایمان کا کوئی معاوضہ اور قیمت نہیں چاہتے.“
لوگوں نے آمین کہی، جب مرد نماز جنازہ سے فارغ ہوگئے تو عورتوں نے،عورتوں کے بعد بچوں نے اس طرح ادا کیا. (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 286، مسنداحمد 20766، سنن نسائی 7181)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازے میں کیا پڑھا گیا؟
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازے میں خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کے مطابق صرف درود وسلام پڑھا گیا، لوگ ایک دروازے سے داخل ہوئے اور درود وسلام پڑھتے ہوئے دوسرے دروازے سے باہر نکلتے گئے۔ جیسا کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
عَنِ عَبَّاسٍ قَالَ لَمَّا صُلِّيَ رَسُولِ اﷲِصلیٰ الله عليه وآله وسلم اُدْخِلَ الرِّجَالُ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ بِغَيْرِ إِمَامٍ إِرْسَالًا حَتَّی فَرَغُوا ثُمَّ اُدْخِلَ النِّسَاءِ فَصَلَّيْنَ عَلَيْهِ ثُمَّ اُدْخِلَ الصِّبْيَانُ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ ثُمَّ اُدْخِلَ الْعَبِيْدُ فَصَلَّوْا عَلَيْهِ إِرْسَالًا لَمْ يَوُمَّهُمْ عَلَی رَسُولِ صلیٰ الله عليه وآله وسلم اﷲِ اَحَدٌ. (سنن بیہقی 6698، الخصائص الکبری، 2: 483)
’’حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا جب حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرماگئے تو مردوں کو داخل کیا تو انہوں نے بغیر امام کے اکیلے اکیلے صلاۃ و سلام پڑھا پھر عورتوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا پھر بچوں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے بھی حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ و سلام پڑھا۔ پھر غلاموں کو داخل کیا گیا تو انہوں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صلاۃ پڑھا اکیلے اکیلے کسی نے آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت نہ کروائی۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کہاں بنی؟
تدفین کی جگہ کے بارے بھی صحابہ واہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں اختلاف رائے تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کہاں کی جائے؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رہنائی سے یہ اضطراب بھی دور ہوا، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا کہ نبی کی جائے وفات ہی اس کی قبر بنتی ہے. (ترمذی 1018، نسائی 7081، البدایہ والنہایہ 287/5) ۔
چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہدایت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات والی جگہ (حجرہ عائشہ صدیقہ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر بنائی گئی۔ (ترمذی 1018)
قبر مبارک میں قطیفہ سرخ جس کو حضورصلی اللہ علیہ وسلم حین حیات اوڑھا کرتے تھے، بچھائی گئی. (مسلم 967) اور شقران نے اس کو قبر میں بچھایا. (ترمذی 1047)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لحد کھودی گئی اور اس پر نو عدد کچی اینٹیں لگائی گئیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہما میں اختلاف ہوا کہ لحد کھودیں یعنی بغلی قبر یا صندوقی کھودی؟ صحابہ میں ایک شخص بغلی قبر کھودا کرتے تھے اور دوسرے صندوقی۔ سب کا اتفاق اس بات پر ہوا کہ دونوں میں سے جو پہلے آجائے، وہ اپنا کام کرے؛ چنانچہ بغلی قبر کھودنے والے پہلے آئے اور اس نے بغلی قبر کھودی. (ابن ماجہ 1557)
اور قبر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہ کے حجرے میں بنائی گئی، اور بدھ کی رات اسی میں آپ مدفون ہوئے. (مسند احمد 24333)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بعد میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ بھی اسی حجرے میں دفن ہوئے۔ (خلاصة سير سيدالبشر لمحب الدين الطبري ص 182).
وَصلى الله على سيدنَا مُحَمَّد وعَلى آله وَصَحبه وَسلم
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
https://saagartimes.blogspot.com/2025/04/29-11-13-14-4450.html
( #ایس_اے_ساگر)