قرآن کریم کو سمجھے بغیر پڑھنا
عالم مشاہدہ اور عالم غیب کی مقدس اور عظیم ترین مخلوقات؛ کعبہ، انبیاء ورسل علیہم الصلوۃ والسلام، عرش، کرسی، لوح وقلم، مقرب فرشتے، جنت اور اس کی تمام نعمتوں میں بطور خاص "قرآن مجید" ہی وہ واحد کلام ہے جو مخلوق ہونے کی بجائے راست "کلام خداوندی" اور اس کی "حقیقی صفت" ہے۔
اس کا تعلق براہ راست ذات باری تعالی کے ساتھ قائم ہے۔
قرآن کی یہی حیثیت اسے دیگر مقدسات اسلام سے ممتاز کرتی ہے۔
اسی لئے اللہ تعالی نے انسانوں کو اپنی ذات سے قریب کرنے کے لئے اپنے کلام کی "تلاوت محضہ" کی ترغیب دے کر سب سے پہلے اپنے کلام کا گرویدہ بنایا۔
جب کلام ربانی کی قرات و تلاوت کا شغف پیدا ہوجائے گا تو یہی جذبہ قاری کو غور وتدبر کی طرف بھی لے جائیگا جو اصل مقصود ہے ۔
الفاظ ونقوش سے رغبت کے بغیر معانی ومفاہیم میں تدبر ممکن نہیں ۔بلکہ اس سے تنفیر کا سبب بنے گا ۔
دیگر آسمانی کتابیں تحریف وتبدیل سے اس لئے نہ محفوظ نہ رہ سکیں کہ ان کے الفاظ ونقوش یاد کرنے یا پڑھنے کی اس قدر ترغیب نہ دی گئی۔
اسی لئے اسلام نے قرآن کریم سے شغف رکھنے اسے پڑھنے اور دہرانے کو ذکر ودعاء تسبیح وتہلیل سے بھی زیادہ افضل عمل بلکہ عبادت قرار دیا ہے:
انّ افضل عبادة امتی قرأة القرآن (اتقان،ج۱،ص۱۳۷)
(میری امت کی سب سے افضل ترین عبادت قرآن مجید کی تلاوت ہے)
ایک حدیث قدسی میں ارشاد باری تعالی ہے:
عن أبي سعيد قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یقول الرب تبارک وتعالیٰ: من شَغَلَہ القرآنُ عن ذکری ومسئلتی اعطیتُہ افضلَ ما اُعطی السائلین وفضل کلام اللّٰہ علی سائر الکلام کفضل اللّٰہ علی خلقہ (ترمذی بحوالہ فضائل قرآن، ص:۸ )
ذکر، دعا اور درود شریف میں سے امام نووی نے قراء تِ قرآن کو افضل قرار دیتے ہو ئے اسے کبار علماء کا پسندیدہ ومعتمد قول قرار دیا ہے؛ ( التبیان، ص۲۴۔)
قرآن پڑھنا عبادت مقصودہ ہے:
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کی ذیل کی حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ صحیح تلفظ کے ساتھ صرف تلاوت بھی عبادت ہے۔
انّ افضل عبادة امتی قرأة القرآن( اتقان،ج۱، ص۱۳۷ )
غور وتدبر اور سمجھ کی شرط لگائے بغیر محض بندگی اور رضائے رب کے طور پر ادا کئے جانے ہر عمل کو عبادت کہتے ہیں:
العِبَادَةُ : الخضوع للإله على وجْه التعظيم۔
حقيقة العبادة
التذلل الكامل لله تعالى مع كمال المحبة له، وكمال الخضوع، والاستسلام، والخوف، والتواضع لله عز وجل، كما أنّها المُضِّي في هذه الحياة وِفق شرع الله تعالى وابتغاء مرضاته.
العبادةمعناها لغة: التذلل، والخضوع، والطاعة.
ومعناها شرعاً: الخضوع والتذلل لله تعالى وحده تعظيماً له،
(المعجم الوسيط)
شریعت میں جس چیز کو عبادت کہا جائے اسے سمجھ کر بجالانے کی لازمی شرط فضول ہے ۔بس کمال محبت کے ساتھ اظہار بندگی کے طور پر اسے بجالانا ہی مقصود عبادت اور شان ربوبیت کا تقاضہ ہے۔
جب قرآن پڑھنے کو زبان رسالت مآب سے عبادت کہا گیا تو اب جہت عبادت کے لئے سمجھ کر پڑھنے کی شرط لگانا ضلالت ہے یا نہیں ؟؟؟
قرآن کریم کے بنیادی حقوق:
قرآنِ کریم کے بنیادی حقوق یہ ہیں :
(۱) اس کے حق ہونے پر ایمان ویقین۔
(۲) اس کی تلاوت۔
(۳) اس کا ادب واحترام۔
(۴) اس کو سمجھنے کی کوشش۔
(۵) اس پر مکمل عمل۔
ان حقوق خمسہ میں دوسرے نمبر کا حق "تلاوت" بہت ہی اہم عبادت ہے۔ اس پہ اسلام میں کافی زور دیا گیا ہے ۔حضور کی اولیں ذمہ داری اسے قرار دیا گیا ہے۔
قرآن کے ایک حرف کی تلاوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں، قرآن کی تلاوت سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے، تلاوت سے اللہ کی محبت میں ترقی ہوتی ہے، یہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
حضرت انس بن مالک سے مَروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِرشاد فرماتے ہیں:
”إِذَا أَحَبَّ أَحَدُكُمْ أَنْ يُحَدِّثَ رَبَّهُ تَعَالَى فَلْيَقْرَأْ“
جب تم میں سے کوئی اپنے ربّ سے باتیں کرنا چاہے تو اُسے چاہیئے کہ قرآن کریم پڑھے۔ (أخرجہ الخطیب فی تاریخہ : 8/164) (کنز العمال : 2257)
یہ حدیث صاف بتارہی ہے کہ یہ صرف قرآن کا اعزازوامتیاز ہے کہ اسے فہم معانی کے بغیر پڑھنا بھی قربت وطاعت ہے ۔
حضرت ابوہریرہ کی روایت میں تلاوت قرآن کو سب سے بڑی عبادت قرار دیا گیا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے:
”أَعْبَدُ النَّاسِ أَكْثَرُهُمْ تِلَاوَةً لِلْقُرآنِ“
لوگوں میں سب سے بڑا عبادت گزار وہ ہے جو سب سے زیادہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والاہے۔ (کنز العمال : 2260)
حضرت اُسیر بن جابر کی روایت میں قرآن کریم کی تلاوت کو سب سے افضل عبادت قرار دیا گیا ہے:
”أَفْضَلُ الْعِبَادَةِ قِرَاءَةُ الْقُرآنِ“
سب سے افضل عبادت قرآن کریم کی تلاوت ہے۔ (کنز العمال : 2263)
حضرت نعمان بن بشیر کی روایت میں تلاوت قرآن کو سب سے افضل عبادت قرار دیا گیا ہے:
حضرت نعمان بن بشیر سے مَروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
”أَفْضَلُ عِبَادَةِ أُمَّتِي قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ“
میری امّت کی سب سے افضل عبادت قرآن کی تلاوت ہے۔ (شعب الایمان :1865)
حضرت ابوموسیٰ اشعری سے مَروی ہے نبی کریم ﷺ کا اِرشاد ہے:
”مَثَلُ المُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ القُرْآنَ كَمَثَلِ الأُتْرُجَّةِ،رِيْحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ المُؤْمِنِ الَّذِي لاَيَقْرَأُ القُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ،لاَرِيْحَ لَهَا وَطَعْمُهَا حُلْوٌ، وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ القُرْآنَ مَثَلُ الرَّيْحَانَةِ،رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ المُنَافِقِ الَّذِي لاَيَقْرَأُ القُرْآنَ كَمَثَلِ الحَنْظَلَةِ، لَيْسَ لَهَا رِيْحٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ“
جو مومن قرآن کریم پڑھتا ہے اس کی مثال ترنج کی سی ہےکہ اس کی خوشبو بھی عُمدہ ہوتی ہے اور مزہ بھی لذیذ ہوتا ہے، اور جو مومن قرآن شریف نہ پڑھے اُس کی مثال کھجور کی سی ہے کہ خوشبو کچھ نہیں لیکن مزہ میٹھا ہوتا ہے اور جو منافق قرآن شریف نہ پڑھے اُس کی مثال حنظل کے پھل کی سی ہے کہ مزہ کڑوا اور خوشبو کچھ نہیں اور جو منافق قرآن شریف پڑھتا ہےاس کی مثال خوشبودار پھول کی ہے کہ خوشبو عُمدہ اور اور مزہ کڑوا۔ (بخاری:5427)
حضرت عبد اللہ بن مسعودنے حضورﷺکا یہ اِرشاد نقل کیاہے:
”مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللَّهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ،وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا، لَاأَقُولُ:الٰم حَرْفٌوَلٰكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ“
جوشخص کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھے اس کیلئےاس حرف کے بدلےایک نیکی ہےاور ایک نیکی کا اَجر دس نیکی کے برابر ملتا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ سارا ”الٰمٰ“ ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔(ترمذی: 2910)
حضرت عبد اللہ بن عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد نقل فرماتے ہیں:
”إِنَّ هَذِهِ الْقُلُوبَ تَصْدَأُ،كَمَا يَصْدَأُ الْحَدِيدُ إِذَا أَصَابَهُ الْمَاءُ“
بیشک دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہےجیسا کہ لوہے کو پانی لگنے سے زنگ لگتا ہے، پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! اُس کی صفائی کی کیا صورت ہے ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”كَثْرَةُ ذِكْرِ الْمَوْتِ وَتِلَاوَةُ الْقُرْآنِ“
موت کو کثرت سے یاد کرنا اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا۔ (شعب الایمان : 1859)
حدیثِ قدسی میں ہے،اللہ تبارک و تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں:
”يَقُولُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ:مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ عَنْ ذِكْرِيْ
وَمَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِيَ السَّائِلِينَ“
جس شخص کو قرآن کریم میں مشغولیت کی وجہ سے ذکر کرنے اور دعائیں مانگنے کی فرصت نہیں ملتی مَیں اُس کو تمام دعاء مانگنے والوں سے زیادہ افضل اور بہتر چیز عطاء کرتا ہوں۔ (ترمذی:2926)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
(اِقْرَؤوْ ا الْقُرْآنَ فَاِنَّہ یَأتِْ یَوْمَ الْقِیَاْمَةِ شَفِیْعاً لِأصْحَاْبِہ)
( أخرجه مسلم في صحيحه: حديث/ 804، 1/ 553، وأحمد: حديث/ 22246، 5/ 254، والبيهقي في الصغرى: حديث/ 998، 1/ 547، والطبراني في الأوسط: حديث/ 468، 1/ 150.)
ترجمہ: (قرآن کریم کی]خوب زیادہ [تلاوت کیاکرو، کیونکہ یہ] قرآن [قیامت کے روزاپنے ساتھیوں] یعنی قرآن کی تلاوت کرنے والوں [کیلئے شفیع] یعنی سفارش کرنے والا [بن کرآئیگا)
قرآن پڑھنے کے تین درجے:
1۔۔۔۔۔قرات
زبان سے تلفظ اور نطق کو لغوی اعتبار سے قرأت کہتے ہیں ۔ فہم معانی کے بغیر تصحیح حروف کے ساتھ قرآن پڑھنے پر بھی اجر وثواب کا ترتب ہوتا ہے۔ قرآن کی مختلف آیتوں میں تلاوت قرآن کا یہ درجہ "قرات قرآن" مذکور ہوا ہے۔ مثلا:
(( فَإِن كُنتَ فِي شَكٍّ مِّمَّآ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ فَاسْأَلِ ٱلَّذِينَ يَقْرَءُونَ ٱلْكِتَابَ مِن قَبْلِكَ لَقَدْ جَآءَكَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلاَ تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُمْتَرِينَ))
وقال الله (( ٱقْرَأْ كِتَٰبَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ ٱلْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيباً ))
وقال الله (( وَإِذَا قَرَأْتَ ٱلْقُرآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ ٱلَّذِينَ لاَ يُؤْمِنُونَ بِٱلآخِرَةِ حِجَاباً مَّسْتُوراً ))
وقال الله (( إِنَّ رَبَّكَ يَعْلَمُ أَنَّكَ تَقُومُ أَدْنَىٰ مِن ثُلُثَيِ ٱلَّيْلِ وَنِصْفَهُ وَثُلُثَهُ وَطَآئِفَةٌ مِّنَ ٱلَّذِينَ مَعَكَ وَٱللَّهُ يُقَدِّرُ ٱلَّيْلَ وَٱلنَّهَارَ عَلِمَ أَن لَّن تُحْصُوهُ فَتَابَ عَلَيْكُمْ فَٱقْرَءُواْ مَا تَيَسَّرَ مِنَ ٱلْقُرْآنِ ----))
2۔۔۔۔تلاوت
امام راغب لکھتے ہیں:
تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصدره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2]
(ت ل و) تلاہ (ن)
کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے۔ اور آیت کریمہ: ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے۔
التِّلاَوَةُ فِي اللُّغَةِ: الْقِرَاءَةُ، تَقُول: تَلَوْتُ الْقُرْآنَ تِلاَوَةً قَرَأْتَهُ، وَتَأْتِي بِمَعْنَى تَبِعَ، تَقُول: تَلَوْتُ الرَّجُل أَتْلُوهُ تُلُوًّا: تَبِعْتَهُ، وَتَتَالَتِ الأُْمُورُ: تَلاَ بَعْضُهَا بَعْضًا. وَتَأْتِي بِمَعْنَى التَّرْكِ وَالْخِذْلاَنِ ۔
وَالتِّلاَوَةُ اصْطِلاَحًا: هِيَ قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ مُتَتَابِعَةً .
وَفِي فُرُوقِ أَبِي هِلاَلٍ: الْفَرْقُ بَيْنَ الْقِرَاءَةِ وَالتِّلاَوَةُ: أَنَّ التِّلاَوَةُ لاَ تَكُونُ إِلاَّ لِكَلِمَتَيْنِ فَصَاعِدًا، وَالْقِرَاءَةُ تَكُونُ لِلْكَلِمَةِ الْوَاحِدَةِ، يُقَال قَرَأَ فُلاَنٌ اسْمَهُ، وَلاَ يُقَال تَلاَ اسْمَهُ، وَذَلِكَ أَنَّ أَصْل التِّلاَوَةُ اتِّبَاعُ الشَّيْءِ الشَّيْءَ، يُقَال تَلاَهُ: إِذَا تَبِعَهُ، فَتَكُونُ التِّلاَوَةُ فِي الْكَلِمَاتِ يَتْبَعُ بَعْضُهَا بَعْضًا، وَلاَ تَكُونُ فِي الْكَلِمَةِ الْوَاحِدَةِ إِذْ لاَ يَصِحُّ فِيهَا التُّلُوُّ .
وَقَال صَاحِبُ الْكُلِّيَّاتِ: الْقِرَاءَةُ أَعَمُّ مِنَ التِّلاَوَةُ
( لسان العرب، والمصباح المنير مادة (تلو) .
الكليات 2 / 95.
الفروق لأبي هلال العسكري ص 84)
یعنی تلاوت ، حروف کی واضح ادائی اور فہم معانی کے ساتھ پڑھنے کو کہتے ہیں ۔
یہ لفظ قرآن کریم میں دیگر معانی میں بھی مستعمل ہے
جیسے :
مطلق قراءة کے معنی میں جیسے آل عمران/ 93 میں " قل فأتوا بالتوراة فاتلوها إن كنتم صادقين.
اتباع احکام میں جیسے سورہ الشمس/ 2 میں: والقمر إذا تلاها.
عمل کرنے کے معنی میں، جیسے البقرة/ 121 میں: الذين آتيناهم الكتاب يتلونه حق تلاوته، أي يعملون به حق عمله، قاله مجاهد في تفسيره (1/ 87) .
نقل وروايت کے معنی میں، جیسے البقرة/ 102 میں: واتبعوا ما تتلوا الشياطين على ملك سليمان.
وحی بھیجنے کے معنی میں، جیسے (القصص/ 3) میں: نتلوا عليك من نبإ موسى وفرعون بالحق «2» .
لیکن "اتباع احکام" لفظ تلاوت کے سب سے مشہور معنی ہیں۔
الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَاب َيَتْلُونَهُ حَقَّ تِلاَوَتِهِ أُوْلَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمن يَكْفُرْ بِهِ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ [البقرة:121]،
میں یہی معنی مراد ہیں۔
علامہ ابن کثیر اور طبری نے ابن مسعود سے یہاں تلاوت کے معنی یہ نقل کئے ہیں کہ
قرآن کے حلال کو حلال اور حرام کردہ چیز کو حرام سمجھا جائے اور من مانی تاویل وتفسیر یا کسی بھی قسم کی تبدیل وتحریف سے اجتناب کیا جائے۔
"تلاوت" اور "قرأت" میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہے۔ یعنی ہر تلاوت قرات کہلائے گی لیکن ہر قرات تلاوت کو شامل نہیں۔
3۔۔۔۔۔ترتیل
انتہائی سکون کے ساتھ مرتب، متوازن، معتدل ومتناسب انداز واسلوب میں پڑھنے کو " ترتیل " کہتے ہیں۔
جس میں حسن تناسب کے ساتھ خوش الحانی وخوش آوازی بھی داخل ہے۔
نزول قرآن کی ترتیب یہی تھی۔
یہ سب سے اعلی وافضل درجہ ہے۔
قال الله الملك (( أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ ٱلْقُرْآنَ تَرْتِيلاً))
وقال المليك ((وَقَالَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ لَوْلاَ نُزِّلَ عَلَيْهِ ٱلْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَلِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ [ تَرْتِيلاً] ))
چونکہ نزول قرآن کی کیفیت ترتیل تھی ۔اس لئے اس کے مقصود ہونے میں کسی شک وشبہ کی گنجائش یقینا نہیں ہے!
لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء:
اللهم ارزقني تلاوته أناء الليل وأناء النهار
اور شب وروز تلاوت قرآن کو اپنا شغل بنانے والے بندے خدائی نظر میں قابل رشک ہونے کی بات بھی حدیث میں آئی ہے
اس لئے خود صحابہ کرام کا اس بابت اختلاف تھا کہ کثرت تلاوت وختم قرآن افضل ہے یا غور وتدبر اور ترتیل قرآن کے ساتھ پڑھنا ؟؟؟
صحابہ کرام میں دونوں طریقے معمول بہ تھے۔
اختلاد صرف ترجیح میں ہے۔
امام نووی کی تطبیق بہت ہی عمدہ ہے کہ:
افضلیت میں اختلاف لوگوں کے( فہم وذکاوت میں) اختلاف کی وجہ سے ہے پس جو شخص ایسا ہوکہ دقیق فکروں سے قرآن کے لطائف اور معارف اس پر ظاہر ہوتے ہوں تو اس کو چاہیے کہ تلاوت کی اتنی مقدار پر اکتفاء کرے جس سے اس کو اپنی قرأت میں کمال فہم وتدبر حاصل رہے۔ اسی طرح جو شخص علم کے نشر (جیسے تدریس، تصنیف اور تذکیر) میں، مقدمات خصومات کافیصلہ اور دیگر دینی وملی امور کی انجام دہی میں مشغول ہوتو اسے چاہیے کہ اتنی مقدارِ تلاوت پر اکتفاء کرے جس سے اس کے ضروری کاموں میں خلل واقع نہ ہو اور اگر کوئی مذکورہ لوگوں میں سے نہ ہو تو پھر جتنا زیادہ ممکن ہو تلاوت کرے بشرطیکہ اکتاہٹ پیدا نہ ہو اور نہ ایسی رفتار سے کہ حروف مخلوط ہونے لگیں اور پڑھا ہوا سمجھ میں نہ آئے (اتقان،ج۱،ص۱۳۸ عن التبیان۔)
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں "لَاَن أقرأ البقرةَ وآل عمران أرتِّلُہما وأتدبَّرُہما أحبُّ اِلیَّ مِن اَن اقرأ القرآنَ کلَّہ ہذرمة" (التبیان،ص۸۹)
یعنی ترتیل وتدبر کے ساتھ سورئہ بقرہ وآل عمران پڑھوں یہ مجھے پسند ہے اس سے کہ تیز رفتاری سے پورا قرآن پڑھوں۔ حضرت عبیدہ مکی مرفوعاً نقل کرتے ہیں:
"یَا أہلَ القرآنِ لا توسَّدوا القرآنَ واتلوہ حقَّ تلاوتِہ آناءَ اللیلِ وآناءَ النہارِ وافشوہ وتدبَّروا ما فیہ لعلکم تُفلحون "(اتقان،ج۱،ص۱۳۷)
حضرت عبداللہ بن عمرو کی روایت ہے "لا یفقہُ مَنْ قرأ القرآنَ فی اقلِّ من ثلث"ٍ (التبیان)
ہَذْرَمَةٌ کے معنی ”کثرة الکلام“ اور ”السرعة فی القرأة والکلام والمشی“ ہے، جیسے ابن عباس سے منقول ہے لأن اقرأ القرآنَ فی ثلثٍ احبُّ اِلیَّ مِنْ أنْ اقرأہ فی لیلةِ ہذرمةً (لسان العرب،ج۱۵،ص۶۶)۔
بعض صحابہ ایک ہفتہ میں قرآن ختم فرماتے تھے۔ اور تین دن سے کم میں ختم کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي شَهْرٍ) قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً ... حَتَّى قَالَ (فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ) .
رواه البخاري (4767) ومسلم (1159) .
وعَنْ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (لَا يَفْقَهُ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ) .
رواه الترمذي (2949) وأبو داود (1390) وابن ماجه (1347) .
وعن ابن مسعود رضي الله عنه قال: "اقرؤوا القرآن في سبع، ولا تقرؤوه في أقل من ثلاث" .
رواه سعيد بن منصور في "سننه" بإسناد صحيح كما قاله الحافظ ابن حجر في "فتح الباري" (9 / 78) .
وعن معاذ بن جبل رضي الله عنه أنه كان يكره أن يقرأ القرآن في أقل من ثلاث .
رواه أبو عبَيد في "فضائل القرآن" (ص 89) وصححه ابن كثير في "فضائل القرآن" له (ص 254) .
تین دن سے کم میں ختم قرآن کی ممانعت دوام پہ محمول ہے۔
اماکن مخصوصہ (حرمین طیبین آفاقی کے لئے) اور ازمنہ مخصوصہ (رمضان وشب قدر وغیرہ) میں تین دن سے کم میں ختم قرآن بھی مستحب ہے اور اصحاب رسول کے عمل سے ثابت ہے۔ (لطائف المعارف ص 171)
چونکہ دیگر صحابہ کرام کا عمل ایک رات میں ختم کرنے کا بھی رہا ہے۔ اس لئے جمہور علماء کے یہاں کثرت تلاوت مستحب عمل قرار پایا "یُستحبُّ الاکثارُ مِنْ قرأةِ القرآنِ وتلاوتِہ" اتقان )
امام نووی تحریر فرماتے ہیں:
قال النووي في الأذكار:
[فصل] : ينبغي أن يحافظ على تلاوته ليلاً و نهاراً، سفراً و حضراً ، و قد كانت للسلف رضي اللّه عنهم عادات مختلفة في القدر الذي يختمون فيه ، فكان جماعةٌ منهم يختمون في كل شهرين ختمة ، و آخرون في كل شهر ختمة ، و آخرون في كل عشر ليال ختمة ، و آخرون في كل ثمان ليالٍ ختمة ، و آخرون في كل سبع ليالٍ ختمة ، و هذا فعل الأكثرين من السلف ، و آخرون في كل ستّ ليال ، و آخرون في خمس ، و آخرون في أربع ، و كثيرون في كل ثلاث ، و كان كثيرون يختمون في كل يوم و ليلة ختمة ، و ختم جماعة في كل يوم و ليلة ختمتين . و آخرون في كل يوم و ليلة ثلاث ختمات ، و ختم بعضهم في اليوم و الليلة ثماني ختمات: أربعاً في الليل ، و أربعاً في النهار: و ممّن ختم أربعاً في الليل و أربعاً في النهار السيد الجليل ابن الكاتب الصوفي رضي اللّه عنه ، و هذا أكثر ما بلغنا في اليوم و الليلة .
و روى السيد الجليل أحمد الدورقي بإسناده عن منصور بن زاذان بن عباد التابعي رضي اللّه عنه أنه كان يختم القرآن ما بين الظهر و العصر ، و يختمه أيضاً فيما بين المغرب و العشاء ، و يختمه فيما بين المغرب و العشاء في رمضان ختمتين و شيئاً ، و كانوا يؤخرون العشاء في رمضان إلى أن يمضي ربع الليل .
و روى ابن أبي داود بإسناده الصحيح أنّ مجاهداً رحمه اللّه كان يختم القرآن في رمضان فيما بين المغرب و العشاء .
و أما الذين ختموا القرآن في ركعة فلا يُحصون لكثرتهم ، فمنهم *عثمان بن عفان، وتميم الدّاري ، و سعيد بن جبير. اه
الاذکار للنووی (ص 102)
کثرت تلاوت کا عمل اسلاف میں:
تاریخی روایات اس قسم کے واقعات سے بھڑے پڑے ہیں کہ صحابہ و تابعین واسلاف کرام کی زندگیاں تلاوت قرآن کے مشغلے سے لبریز ہیں ۔
چنانچہ اسود بن یزید غیر رمضان میں چھ دنوں میں جبکہ رمضان میں دو راتوں میں قرآن ختم کرتے تھے ۔(سیر اعلام النبلاء للذہبی 4/51 )
سعید بن جبیر رمضان میں عشاء آخر وقت میں پڑھتے اور مغرب وعشاء کے بیچ وہ ایک ختم قرآن کرلیا کرتے تھے (ذہبی 324/4 )
اور اسی کتاب کے صفحہ 325 پہ ان کا عمل دو راتوں میں ایک ختم کرنے کا بھی درج ہے۔
سلام بن ابی مطیع کا بیان ہے کہ حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ عموما سات یوم میں ختم قرآن فرماتے جبکہ رمضان میں ہر تین دن میں اور اخیر عشرہ کی ہر ایک رات میں قرآن ختم فرماتے تھے (ذہبی 276/5 )
منصور بن زاذان صبح سے عصر تک میں ایک ختم اور چاشت نماز میں ایک ختم ، اس طرح دن میں دو ختم قرآن فرمالیتے تھے (سیر ذہبی 442/5 )
ہشام بن حسان مغرب وعشاء کے بیچ ایک ختم قرآن فرمالیتے تھے (ذہبی 442/5 )
ابن شبرمہ کا بیان ہے
حضرت کرز کو اللہ نے اسم اعظم کا علم عطا فرمایا
جس کی بدولت وہ دن رات میں تین ختم قرآن فرمالیتے تھے (ذہبی 85/6 )
عطاء بن سائب ہر رات ایک ختم قرآن فرماتے تھے (ذہبی 112/6 )
ابو بکر بن عیاش چالیس سالوں تک ہر رات ایک ختم قرآن فرماتے تھے (ذہبی 503/8)
یحی بن سعید قطان روزانہ ایک ختم قرآن کرکے ایک ہزار انسانوں کو ایصال ثواب کرتے تھے (ذہبی 178 /9)
امام شافعی رمضان میں نمازوں میں 60 قرآن ختم فرماتے۔ (ذہبی 83/10 )
ابن عمار ہر تین روز میں قرآن ختم کرتے (ذہبی 166/11 )
بقی بن مخلد رات میں نوافل کی 13 رکعتوں میں ختم قرآن کرتے (ذہبی 298/3 )
ابو العاص بن شادل روزانہ ختم قرآن کرتے (ذہبی 263/14 )
شیخ المالکیہ محمد بن عبد اللہ ابو الولید کھڑے کھڑے روزانہ ایک ختم قرآن فرمالیتے (ذہبی 586/17 )
امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
ابو بکر بن عیاش نے اپنے کمرہ میں پوری زندگی میں 24 ہزار قرآن کا ختم فرمایا ۔(شرح مسلم للنووی 79/1)
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے متعلق بھی ہزاروں ختم قرآن کرنا ثابت ہے۔
جس جگہ امام صاحب کا انتقال ہوا صرف وہاں وہ سات ہزار ختم قرآن فرماچکے تھے۔ بقیہ جگہوں کے ختم علیحدہ ہیں۔ (تاريخ بغداد للخطیب : 15 / 484)
بغیر فہم کے قرآت قرآن باعث اجر کیوں؟
طور سینا کی مقدس وادی میں خوش قسمت مبارک درخت کے ذریعہ حضرت موسی کو کلام الہی سنایا گیا۔
جو لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں ان کے نصیبہ میں شجرہ موسوی کا یہ شرف آتا ہے
حصول سعادت کے لئے نہ وہاں فہم معانی ضروری تھا اور نہ یہاں ۔
قرآن پاک کوئی قانونی یا اخلاقی وطبی کتاب نہیں کہ اس کی مراد سمجھے بغیر پڑھنا فضول ہوجائے!
دنیا کی تمام کتابوں میں یہ قرآن ہی کا امتیاز ہے کہ اسے سمجھے بغیر پڑھنا بھی نفع سے خالی نہیں ،بلکہ یہ بھی مستقل عبادت ہے۔اس لئے کہ اللہ کے ساتھ محبت وعبدیت کے تعلق کو ظاہر کرنے والا یہ عمل ہے۔
ہاں کمال نفع اور کماحقہ استفادہ کے لئے کلام کا فہم وتدبر بھی ضروری ہے لیکن رب کی خوشنودی اسی پر موقوف نہیں۔
اگر تدبر ہی ضروری ہوتا تو نماز میں چار بار سورہ فاتحہ پڑھنے کا حکم نہ ہوتا کیونکہ تدبر کے لئے ایک مرتبہ پڑھنا ہی کافی ہے!
علامہ سیوطی لکھتے ہیں کہ
مَن قرأ حرفا من کتاب اللّٰہ فلہ حسنةٌ والحسنةُ بعشر امثالِہا لا أقول ا لم حرفٌ بل الفٌ حرفٌ، ولام حرفٌ، ومیم حرفٌ۔(ترمذی)
یعنی کتاب اللہ کے ہرحرف کے پڑھنے پر کم از کم دس نیکیاں ملنے والی حدیث میں بطور مثال جس حرف "الم" کو ذکر کیا گیا ہے، وہ مسمّیٰ نہیں؛ بلکہ اسم ہے یعنی ہر حرف کو الگ الگ اس کے نام سے پڑھا جاتا ہے اور اس طرح کے حروف چند سورتوں کے شروع میں ہیں جنھیں ”حروف مقطعات“ کہتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر حرف پر دس نیکیوں کے حصول کی مثال ایسے حرف سے دی جس کے معنی اور مراد آج تک کسی امتی کو معلوم نہ ہوسکے اور نہ کسی حکیم وفلسفی کو اس کا سراغ لگ سکا اورنہ ہی قیامت تک کوئی اسے سمجھ سکتا ہے، حتیٰ کہ مختار قول کے مطابق نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی حقیقت کا علم نہیں دیا گیا۔ (اتقان، ج:۲، ص:۱۱)
یہ نبوی تمثیل یہ بتادینے کے لئے کافی ہے کہ فہم معانی کے ساتھ ترتیلا قرآن پڑھنا اگرچہ افضل واولی ہے تاہم جہت عبادت کا تحقق اس پہ موقوف نہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ابتدائی ذمہ داری صحابہ وصحابیات کو قرآن پڑھانا تھی۔ آپ قرآن پڑھتے بھی تھے پڑھاتے بھی تھے ۔جبریل کا دور سننتے اور خود انہیں سناتے بھی تھے۔ رمضان میں یہ تعداد دگنی ہوجاتی ۔صحابہ کو بھی یاد کرواتے، رٹواتے اور پہر بعض صحابہ سے از خود قرآن سنتے تھے ۔
اس یاد کرنے؛ دور سننے، سنانے، رٹنے اور رٹوانے کے عمل میں غور وتدبر قطعی نہیں ہوتا ۔چونکہ یہ عمل ایک عظیم ترین اسلامی ضرورت کی تکمیل یعنی سینوں میں قرآن محفوظ کرنے کا ایک ذریعہ ہے اس لئے یہ بذات خود نفع بخش اور عبادت مقصودہ ہے۔اگر قرآن کے معانی کا سمجھنا ہی لازم ومقصود ہوتا تو قرآن میں آیات متشابہات کو کیوں شامل کیا گیا؟؟
جن کے معانی وتاویل اللہ اور راسخین فی العلم کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
ان آیات کے معانی کے پیچھے پڑنے والے کو قرآن نے فتنہ پرور کیوں کہا؟؟ ۔
الغرض صحت کے ساتھ بغیر سمجھے قرآن پڑھنا مستقل عبادت ہے اور مقصود ہے
احادیث نبویہ اور اجلاء صحابہ سے اس کا عملی توارث وثبوت موجود ہے۔ ہاں غور وتدبر کے ساتھ پڑھنا اولی وافضل ضرور ہے !
کثرت تلاوت کو ضیاع وقت اور فضول شغل کہنا مستشرقین کی گمراہ کن ریشہ دوانی ہے جس کے پس پردہ عزائم لوگوں کو قرآن سے دور کرنا ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی بیگوسرائیوی
14 رمضان المبارک 1439 ہجری