کینڈل مارچ (Candal March) کا شرعی حکم
سوال و جواب:
(مسئلہ نمبر 407)
كتاب الحظر و الإباحة جديد مسائل
(مسئلہ نمبر 407)
كتاب الحظر و الإباحة جديد مسائل
سوال: ظلم کے خلاف یا کسی کو انصاف دلانے کیلئے جو کینڈل مارچ نکالا جاتا ہے کیا یہ صحیح ہے؟ شریعت اس بارے میں کیا کہتی ہے؟
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
الجواب بسم ملہم الصواب
کسی کو انصاف دلانے کیلئے یا ظلم کو روکنے کے لئے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا نا یہ کہ صرف جائز بلکہ مستحسن اور بسااوقات واجب بھی ہے اور اس کے لئے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جو بھی اقدام کیا جائے یا تدبیر اختیار کی جائے وہ جائز اور ضروری ہے، قرآن مجید کی آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے اور لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کا پورا حق مظلوم کو حاصل ہے(١)
کسی کو انصاف دلانے کیلئے یا ظلم کو روکنے کے لئے ظلم کے خلاف آواز اٹھانا نا یہ کہ صرف جائز بلکہ مستحسن اور بسااوقات واجب بھی ہے اور اس کے لئے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جو بھی اقدام کیا جائے یا تدبیر اختیار کی جائے وہ جائز اور ضروری ہے، قرآن مجید کی آیات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے اور لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کا پورا حق مظلوم کو حاصل ہے(١)
احادیث مبارکہ میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ ایک صحابی تھے، ان کا پڑوسی انہیں سخت پریشان کرتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ جاؤ اور اپنا سامان گھر سے باہر نکال کر سڑک پر رکھ دو، انہوں نے ایسا ہی کیا، اب گزرنے والے لوگ ان سے اس کا سبب پوچھتے تو وہ پڑوسی کے ظلم کی روداد سنادیتے، چنانچہ ہر کوئی اسے لعنت ملامت کرتا، جب یہ بات پڑوسی کو معلوم ہوئی تو اس نے انہیں گھر بھیجا اور ہمیشہ کے لئے ظلم سے باز رہنے کا وعدہ کیا(٢)
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ بھی در اصل ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور احتجاج کرنے کی ایک صورت تھی؛ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتائی اور اس کا صحیح نتیجہ بھی برآمد ہوا؛ اس لئے بطورِ احتجاج اپنا حق حاصل کرنے کے لئے یا ظلم کو روکنے کے لئے یا کسی کو انصاف دلانے کیلئے احتجاجاً کینڈل مارچ نکالا جائے تو شرعاً اس کی اجازت ہے؛ کیونکہ اس کا تعلق محض ایک تدبیر سے ہے اور جائز حد میں رہتے ہوئے ایسی تدابیر جو مؤثر ہوں اور مظلوم کو انصاف ملنے کی امید ہو اختیار کی جا سکتی ہیں؛ بشرطیکہ اس میں انسانوں کا جانی و مالی نقصان نہ ہو یا ظلم کے مزید بڑھ جانے کا اندیشہ نہ ہو(٣)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
-------------------------------------
و الدليل على ما قلنا:
(١) لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا (النساء (148)
إلا من ظلم أي إلا جهر من ظلم فإنه غير مسخوط عنده تعالى و ذلك بأن يدعو على ظالمه او يتظلم منه و يذكره بما فيه من السوء (روح المعاني ج ٤ تفسير سوره النساء ١٤٨)
(٢) عن أبي هريرة رضي الله تعالى عنه أن رجلاً جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إن لي جاراً يؤذني فقال: (إنطلق فأخرج متاعك إلى الطريق) ففعل فاجتمع عليه الناس يقولون ما شأنك فجعل يقول جاري يؤذيني فجعلوا يقولون اللهم العنه اللهم اخزه فبلغه ذلك فأتاه فقال أرجع إلى منزلك فوالله لا أؤذيك أبداً. (تفسير القران العظيم لإبن كثير ٧٤٦/٤ سورة النساء ١٤٧)
(٣) الضرر يزال، الضرر الأشد يزال بالضرر الاخف، الضرر يدفع بقدر الإمكان. (شرح المجلة ٣٦/١. ٣٧. ٤١)
كتبه العبد محمد زبير الندوي
مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا
مورخہ 2/7/1439
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے
مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا
مورخہ 2/7/1439
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے
https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/candal-march.html