Thursday, 29 December 2022
متن کے آس پاس
Tuesday, 20 December 2022
پسند کی شادی پر حدیث
Thursday, 8 December 2022
کیا فرض منصبی کی ادائیگی کیلئے دعوت و تبلیغ انتہائی ضروری ہے؟
کیا کوئی شخص ذاتی مطالعہ سے مولوی بن سکتا ہے؟
کیا کوئی شخص ذاتی مطالعہ سے مولوی بن سکتا ہے؟حدیث ’’إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ‘‘ کی تشریح میں امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ علم وہی معتبر ہے جو انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے وارثین اہلِ علم سے سیکھ کر حاصل کیا جائے۔ (فتح الباری: بَاب الْعِلْم قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ) اس لئے اہلِ علم کو چھوڑ کر کسی مذہبی اسکالر، ڈاکٹر، انجینیئر یا موٹیویشنل اسپیکر سے دین کا علم حاصل کرنے سے اجتناب کیجئے! (صححہ: #ایس_اے_ساگر ) (بشکریہ: Mufti Mubeen Ur Rahman Official )
----------
عنوان: کیا کوئی شخص ذاتی مطالعہ سے مولوی بن سکتا ہے؟
سوال : ۔ 1) حدیث "إنما العلم بالتعلم" کا مطلب کیا ہے؟
2) بعض لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں مولویت نہیں ہے. ہر شخص خود سے دین سیکھ سکتا ہے۔ براہ مہربانی قرآن و حدیث کی روشنی میں اس اعتراض کا مفصل جواب عنایت فرمائیں۔ جزاک اللہ (خیرا)
جواب نمبر: 608592
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa : 574-450/M=05/1443
”إنما العلم بالتعلم“ کا واضح اور صحیح مطلب یہی ہے کہ صحیح اور معتبر علم وہی ہے جو اہل علم سے سیکھ کر حاصل کیا جائے، دین کا اتنا علم سیکھنا کہ جس سے عقائد درست ہوجائیں، فرائض کی ادائیگی پر قادر ہوجائے اور حلال و حرام میں تمیز کرسکے، یہ ہر مسلمان پر فرض عین ہے۔ اور تفصیلی طور پر قرآن و حدیث اور شریعت کا علم حاصل کرنا فرض کفایہ ہے، اسی فرض کفایہ کو ادا کرنے والے یہی مولوی حضرات ہیں؛ لہٰذا یہ کہنا کہ ”اسلام میں کوئی مولویت نہیں ہے.“ درست بات نہیں ہے۔ اور یہ کہنا کہ ”ہر شخص خود سے دین سیکھ سکتا ہے.“ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ: ”ہر شخص ازخود ڈاکٹر بن سکتا ہے.“ ظاہر ہے کہ باقاعدہ طور پر کسی ماہر صاحب فن کے پاس رہے بغیر جب کسی فن کا اعتبار نہیں کیا جاتا تو علم دین کے بار ے میں ایسا کہنا کیوں کر درست ہوگا؟
قال ابن حجر فی فتح الباری: قولہ: ”إنما العلم بالتعلّم“ المعنی: لیس العلم المعتبر إلاَّ المأخوز من الأنبیاء وورثتہم علی سبیل التعلّم۔ (1/161، ط: دارالمعرفة، بیروت)۔
وقال الشامی فی شرح عقود رسم المفتی: وقد رأیت في فتاوی العلاّمة ابن حجر، سئل في شخصٍ یقرأ ویطالع الکتب الفقہیة بنفسہ، ولم یکن لہ شیخ، ویفتي، ویعتمد علی مطالعتہ في الکتب، فہل یجوز لہ ذلک أم لا؟ فأجَاب بقولہ: لا یجوز لہ الإفتاء یوجہٍ من الوجوہ؛ لأنہ عاميّ جاہل لا یدري ما یقول۔ (ص: 17، ط: مکتبة البشریٰ)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند (صححہ: #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2022/12/blog-post_27.html?m=1
نفس اور شیطان کے دھوکہ میں فرق
"نفس اور شیطان کے دھوکہ میں فرق"
انسان کو دھوکہ شیطان بھی دیتا ہے اور نفس بھی، مگر دونوں کے طریقہ کار میں فرق ہے، شیطان کسی گناہ کی ترغیب اس طرح دیتا ہے، کہ اس کی تاویل سجھادیتا ہے، کہ یہ کام کرلو اس میں دنیا کا فلاں فائدہ اور فلاں مصلحت ہے، جب کسی کے تاویل و مصلحت دل میں آئے تو سمجھ لو کہ یہ شیطان کا دھوکہ ہے، اور نفس گناہ کی ترغیب لذت کی بنیاد پر دیتا ہے، کہتا ہے کہ یہ گناہ کرلو بڑا مزا آئے گا. جب کسی گناہ کا خیال لذت حاصل کرنے کیلئے آئے تو سمجھ لو کہ یہ نفس کا دھوکہ ہے،
بقول ڈاکٹر عبدالحی عارفی رحمہ اللہ خلیفہ مجاز حضرت حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ
از ملفوظات عارفی صفحہ 179
--------
عنوان: نفس اور شیطان میں کیا فرق ہے؟
سوال: مفتی صاحب! شیطان اور نفس انسان کو کیسے بہکاتے ہیں؟ تھوڑا فرق واضح کردیں۔ جزاکم اللہ خیرا
جواب: نفس انسان کے اند ایک طاقت ہے، جس سے وہ کسی چیز کی خواہش کرتا ہے، خواہ وہ خواہش بھلائی کی ہو یا برائی کی، اس کو نفس کہتے ہیں اورشیطان ہر باغی و سرکش مخلوق کو شیطان کہا جاتا ہے، خواه وه انسانوں میں سے ہو یا جنات و حیوانات میں سے ہو۔
شیطان اپنے خاص معنی کے اعتبار سے ابلیس اور اس کی اولاد پر بولا جاتا ہے، اور معنی عام کے اعتبار سے ہر باغی و سرکش مخلوق کو شیطان کہا جاتا ہے، خواه وه انسانوں میں سے ہو یا جنات و حیوانات میں سے۔
نفس اور شیطان میں مختلف اعتبار سے فرق ہے:
۱۔نفس شیطان سے قوی ہے، کیونکہ جس وقت ابلیس نے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا، اس وقت شیطان نہیں تھا، ابلیس کے نفسِ امّارہ نے اس کو سجدہ کرنے سے روکا تھا، نفس کے بارے اللہ تعالی نے فرمایا ہے: "واما من خاف مقام ربہ ونھی النفس عن الھوی فان الجنۃ ھی الماوٰی"۔ (سورۃ النازعات: ۴۰،۴۱)
ترجمہ: لیکن وہ جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے کا خوف رکھتا تھا اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا تھا، تو جنت ہی اس کا ٹھکانا ہوگی۔
اس آیت سے نفس کی قوت معلوم ہوتی ہے، اور اس کو روکنے اور کنٹرول کرنے کا اہتمام کرنا پڑتا ہے، جب کہ شیطان کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں: "انّ کیدالشیطان کان ضعیفا" (سورۃ النساء: ۷۶)
ترجمہ: (یاد رکھو کہ) شیطان کی چالیں درحقیقت کمزور ہیں۔
اس آیت سے شیطان کی چال کا کمزور ہونا ثابت ہوگیا، لہذا واضح ہوگیا کہ نفس شیطان سے قوی اور بڑا دشمن ہے۔
۲۔ شیطان کا کام انسان کے دل میں صرف وسوسے ڈالنا ہے، لیکن جب انسان زیادہ دھیان نہیں دیتا، تو وہ فوراً ختم ہو جاتا ہے، لیکن اگر بار بار دل میں وسوسے آرہے ہوں اور گناہ کا تقاضہ بار بار ہورہا ہو، تو یہ نفس ہے، اسی طرح اگر بار بار ایک ہی گناہ کا تقاضہ ہو، تو یہ نفس کی طرف سے ہے، لیکن اگر ایک دفعہ ایک گناہ کا تقاضا ہوا اور پھر دوسرے گناہ کا، تو یہ شیطان کی طرف سے تقاضہ ہوگا، کیونکہ شیطان کو مقصود صرف کوئی گناہ کرانا ہے، اور اس کو گناہ سے حَظّ (لذت اور سرور) نہیں ہوتا اور نفس کو حَظّ (لذت اور سرور) ہوتا ہے۔
۳۔ نفس مہیج (ابھارنے والا) ہے، قرآن مجید میں ہے:
"إِنَّ النَّفْسَ لَأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ" (سورۃ یوسف: ۵۳)
ترجمہ: واقعہ یہ ہے کہ نفس تو برائی کی تلقین کرتا ہی رہتا ہے۔
اور شیطان صرف مشورہ دیتا ہے، قرآن مجید میں ہے:
"وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدْتُكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُمْ مِنْ سُلْطَانٍ إِلَّا أَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي" (سورۃ ابراہیم: ۲۲)
ترجمہ: اور جب ہر بات کا فیصلہ ہوجائے گا تو شیطان (اپنے ماننے والوں سے) کہے گا: حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے تم سے سچا وعدہ کیا تھا اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو اس کی خلاف ورزی کی، اور مجھے تم پر اس سے زیادہ کوئی اختیار حاصل نہیں تھا کہ میں نے تمہیں (اللہ کی نافرمانی کی) دعوت دی تو تم نے میری بات مان لی۔
اس آیت میں لفظِ "دعوتکم" (میں نے تمہیں (اللہ کی نافرمانی کی) دعوت دی) سے پتہ چلتا ہے کہ شیطان صرف مشورے ہی دیتا ہے، اور اہل اللہ پر اس کا بس نہیں چلتا، جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (۹۹) إِنَّمَا سُلْطَانُهُ عَلَى الَّذِينَ يَتَوَلَّوْنَهُ وَالَّذِينَ هُمْ بِهِ مُشْرِكُونَ" (سورۃ النحل: ۹۹۔۱۰۰)
ترجمہ: اس کا بس ایسے لوگوں پر نہیں چلتا جو ایمان لائے ہیں، اور اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں، اس کا بس تو ان لوگوں پر چلتا ہے، جو اسے دوست بناتے ہیں، اور اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرتے ہیں۔
لہذا واضح ہوا کہ گناہ کا اصل داعی نفس ہوتا ہے، کیونکہ نفس مہیج ہے اور شیطان مشیر ہے، گناہ کے کرنے کا مشورہ دیتا ہے۔
۴۔ شیطان اس وقت وسوسہ ڈالتا ہے، جب انسان غافل ہو، اور اگر وہ اللہ تعالی کے ذکر میں مشغول ہو، تو اس وقت وہ بھاگ جاتا ہے، لیکن نفس ہر وقت گناہ پر ابھارتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے
"الوسواس الخناس"
کی تفسیر میں منقول ہے کہ
"الشیطانُ جاثمٌ علیٰ قلبِ ابنِ ادمَ، فَإذا سَهَا و غَفَلَ وَسْوَسَ وَإِذا ذَکر الله خنسَ."
یعنی ’’شیطان اولادِآدم کے دل میں بیٹھ جاتا ہے، پس جب بندے سے بھول ہوئی اور غفلت میں پڑا تو شیطان وسوسہ اندازی کرتا ہے اور جب بندہ اللہ کو یاد کرتا ہے تو وہ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
خلاصہ کلام:
یہ نفس اور شیطان دونوں ہی انسان کے دشمن ہیں، اور دونوں سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہیے، حدیث شریف میں ہے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے، میں آپ کے پاس بیٹھ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوذر! شیاطین جن اور شیاطین انس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگو، میں نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ فرمایا : ہاں!
اس لئے نفس اور شیطان دونوں کے شرّ سے اللہ تعالی کی پناہ مانگنی چاہئے، اللہ تعالی ہمیں نفس اور شیطان کے شر سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مصنف ابن أبي شيبة: (رقم الحدیث: 35919، ط: مکتبة دارالقبلة)
جرير، عن منصور، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس في قوله: {الوسواس الخناس} [الناس: ۴]، قال: «الشيطان جاثم على قلب ابن آدم، فإذا سها وغفل وسوس، وإذا ذكر الله خنس»
سنن النسائی: (رقم الحدیث: 5522، ط: دارالحدیث)
عن أبي ذر قال: دخلت المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم فيه، فجئت فجلست إليه، فقال: «يا أبا ذر، تعوذ بالله من شر شياطين الجن والإنس» قلت: أو للإنس شياطين؟ قال: «نعم»
تفسیر الرازی: (120/13، ط: دار إحياء التراث العربی)
اختلفوا في معنى شياطين الإنس والجن على قولين الأول أن المعنى مردة الإنس والجن والشيطان كل عات متمرد من الإنس والجن وهذا قول ابن عباس في رواية عطاء ومجاهد والحسن وقتادة وهؤلاء قالوا إن من الجن شياطين ومن الإنس شياطين وإن الشيطان من الجن إذا أعياه المؤمن ذهب إلى متمرد من الإنس وهو شيطان الإنس فأغراه بالمؤمن ليفتنه والدليل عليه ما،روي عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم أنه قال لأبي ذر: «هل تعوذت بالله من شر شياطين الجن والإنس؟» قال قلت وهل للإنس من شياطين؟ قال «نعم هم شر من شياطين الجن» .والقول الثاني أن الجميع من ولد إبليس إلا أنه جعل ولده قسمين فأرسل أحد القسمين إلى وسوسة الإنس. والقسم الثاني إلى وسوسة الجن فالفريقان شياطين الإنس والجن ومن الناس من قال القول الأول أولى لأن المقصود من الآية الشكاية من سفاهة الكفار الذين هم الأعداء وهم الشياطين ومنهم من يقول القول الثاني أولى لأن لفظ الآية يقتضي إضافة الشياطين إلى الإنس والجن والإضافة تقتضي المغايرة وعلى هذا التقدير فالشياطين نوع مغاير للجن وهم أولاد إبليس.
لسان العرب لابن منظور: (238/13، ط: دار صادر)
الشاطن: البعيد عن الحق، وفي الكلام مضاف محذوف تقديره كل ذي هوى، وقد روي كذلك۔۔۔والشيطان: معروف، وكل عات متمرد من الجن والإنس والدواب شيطان۔
ملفوظات حکیم الامت: (437/26،ط: ادارة تالیفات اشرفیة)
عمدۃ السلوک للشیخ سید زوّار حسین شاہ: (ص: 289، ط: زوار اکیدمی)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص، کراچی (فتویٰ نمبر 8412) (صححہ: #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2022/12/blog-post_8.html?m=1