Thursday, 27 May 2021

مسجد میں بھیک مانگنے اور دینے کے احکام

ان دنوں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر وائرل "مسجد میں بھیک مانگنے اور دینے کے احکام" پر وضاحت  عنایت فرمائیں.
الجواب وباللہ التوفیق:
(1) واضح رہے کہ بلاضرورت سوال کرنا ناجائز اور حرام ہے، چاہے مسجد میں ہو یا مسجد کےباہر ہو، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا، اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا، پس ایسے شخص کو بھیک دینا مکروہ ہے،چاہے مسجد میں ہو یا مسجد سے باہر ہو۔
(2) اگر کوئی شخص انتہائی مجبور ہو اور اس کے پاس ایک دن کا بقدر ضرورت راشن موجود نہ ہو، تو اس  کے لیے درج ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں سوال کرنے کی گنجائش ہے:
(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔ (2) بھیک مانگتے وقت کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً: گردن پھلانگنا وغیرہ (3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے۔
البتہ بہتر یہی ہے کہ یہ شخص مسجد کے باہر سوال کرے۔
ایسے مجبور شخص کو مسجد میں پیسے دینا اگرچہ گناہ تو نہیں، پھر بھی بہتر یہی ہے کہ پیسے مسجد سے باہر جاکر دے
واللہ اعلم بالصواب
----------------------------
مسجد میں بھیک مانگنے کا حکم اور بھیک مانگنے والوں کو بھیک دینے کا حکم
سوال: مسجد میں بھکاری کا بھیک مانگنا اور نمازیوں کا مسجد میں بھیک دینا جائز ہے کیا؟
جواب: وا ضح رہے کہ جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کے لئے  کپڑا ہو اس کے لئے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو اس  کے لئے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلاضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا۔ ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لئے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہا ہے، اب چاہے تو  کم جمع کرے یا زیادہ۔

اس کے علاوہ مسجد میں بھیک مانگنے کی صورت میں مسجد کے بہت سے آداب کی خلاف ورزی بھی لازم آتی ہے، مثلاً: مسجد میں شور و شغب ہونا، نمازیوں کی نماز میں خلل واقع ہونا، نمازیوں کی گردنیں پھلانگنا وغیرہ۔اس لیے  مسجد میں بھیک مانگنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہئے اور لوگوں کو بھی چاہئے کہ جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور بھکاری ہیں، ایسے افراد کو بھیک نہ دے کر ان کی حوصلہ شکنی کریں۔ تاہم اگر کسی نے چندہ دے دیا تو یہ گناہ اور ناجائز نہیں ہے۔
اور اگر کوئی شخص انتہائی مجبور ہو تو اس  کے لئے کچھ شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے مسجد میں سوال کرلینے کی گنجائش ہے، وہ شرائط یہ ہیں:
(1) اس سے کسی نمازی کی نماز میں خلل نہ ہو۔ (2) کسی کو تکلیف نہ دی جائے، مثلاً گردن پھلانگنا وغیرہ (3) مسجد میں شور وشغب نہ کیا جائے (4) چندہ زبردستی نہ لیا جائے اور چندہ نہ دینے پر  کسی کو عار نہ دلائی جائے۔ تاہم بہتر  یہی ہے کہ بوقتِ ضرورت بھی چندہ مسجد سے باہر  کیا جائے، اور ضرورت پر مسجد میں صرف اعلان کرلیا جائے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 164):
"ويكره التخطي للسؤال بكل حال.

(قوله: ويكره التخطي للسؤال إلخ) قال في النهر: والمختار أن السائل إن كان لايمر بين يدي المصلي ولايتخطى الرقاب ولايسأل إلحافاً بل لأمر لا بد منه فلا بأس بالسؤال والإعطاء اهـومثله في البزازية. وفيها: ولايجوز الإعطاء إذا لم يكونوا على تلك الصفة المذكورة. قال الإمام أبو نصر العياضي: أرجو أن يغفر الله - تعالى - لمن يخرجهم من المسجد. وعن الإمام خلف بن أيوب: لو كنت قاضياً لم أقبل شهادة من يتصدق عليهم. اهـ. وسيأتي في باب المصرف أنه لايحل أن يسأل شيئاً من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم".
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201822
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

http://saagartimes.blogspot.com/2021/05/blog-post_27.html?m=1


Monday, 24 May 2021

قرآن مجید رومن انگلش میں لکھنا

قرآن مجید 
رومن انگلش میں لکھنا:
1۔قرآن مجید کو انگریزی رسم الخط 
(رومن عربی) میں لکھنے کی اجازت ہے یا نہیں؟
2۔ کسی دوسرے شخص کو محض سمجھانے کے لئے یا دوران تحریر ایک دو آیات انگریزی رسم الخط میں لکھی جائیں تو اس کی گنجائش ہے یا نہیں؟
نیز اس طرح لکھا ہوا کوئی پیغام کسی دوسرے کو آگے بھیجنا (یعنی فارورڈ کرنا) بھی جائز ہے یا نہیں؟
3۔ عاملین حضرات تعویذ لکھتے وقت قرآن مجید کی آیات یا آیات کےحصے یا حروف مقطعات کو جو ایسے ٹیڑھے انداز میں تحریر کرتے ہیں کہ دیکھنے والا اس کو سمجھ ہی نہیں سکتا۔
تو اس بارے میں سوال ہے کہ آیا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اس کو بھی ہوبہو عثمانی رسم الخط کے مطابق لکھنا ہوگا؟مطلب حروف زائدہ واو، الف وغیرہ کو بھی ضرور لکھنا ہوگا؟
الجواب حامداومصلیاً:
1،2) قرآن مجید کوانگریزی رسم الخط رومن انگلش میں لکھنا مطلقاً ناجائز ہے خواہ پورا قرآن ہو یا ایک دو آیتیں ہوں، خواہ کسی دوسرے شخص کو محض سمجھانے کی غرض سے ہو یا دوران تحریر لکھی جائیں یا کسی اور غرض کے لئے مثلاًً تعلیم دینے کی غرض سے ہو، نیز اس طریقے پر لکھا ہوا کوئی پیغام کسی دوسرے کو بھیجنا بھی جائز نہیں ہے۔ (ماخذہ التبویب 1402/78)
3) عاملین تعویذ لکھتے وقت اگر ان دو سے زیادہ آیات قرآنی لکھتے ہیں تو اس میں بھی رسم عثمانی یعنی حروف زائد واؤ، الف وغیرہ لکھنا اور عربی خط کی رعایت رکھنا ضروری ہے، اور اگر ایک دو آیات یا آیت کا کوئی حصہ یا حروف مقطعات لکھتے ہوں تو عربی کے علاوہ ایسے خط (مثلاً اردو فارسی) میں لکھنے کی گنجائش ہے جس میں رسم عثمانی کی رعایت ہوسکتی ہے. (ماخذہ التبویب 1201/1) لیکن قصداً قرآنی آیت یا اس کے کسی حصے کو ٹیڑھے انداز میں لکھنا اور رسم عثمانی رعایت نہ کرنا قرآن مجید کے آداب تحریر کےخلاف ہے۔
مباحث فی علوم القرآن (ص: 148)
البنایۃ شرح الھندیۃ(12/237)
الفتاوی الھندیۃ (5/323)
واللہ سبحانہ وتعالیٰ
محمد فاروق علی
دارالافتاء جامعہ دارالعلوم کراچی
2 محرم  الحرام 1440
13 ستمبر 2018 
دارالعلوم کراچی فتویٰ نمبر: 185 (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)

Sunday, 23 May 2021

ہم نے دیکھا اک فرشتہ حضرت قاری عثمان رح کی شکل میں

ہم نے دیکھا اک فرشتہ حضرت قاری عثمان رح کی  شکل میں

بقلم: مفتی شکیل منصور القاسمی

مفتی شمشیر حیدر قاسمی 

اس وقت رنج و غم، حزن و ملال اور کرب و بلانے دل کی دنیا میں جو طوفان برپا کر رکھا ہے، اس کی تعبیر تک رسائی سے دست الفاظ دور، بہت دور ہے، کسے معلوم تھا؟ کہ کورونا کی یہ ”آدم خور“ مہاماری اس قدر دلدوز اور جگر سوز ثابت ہوگی کہ قافلۂ علم و معرفت کی روشن قندیلیں ایک ایک کرکے گل ہوتے چلی جائیں گی؟ دین متین کے پاسبان و جان نثار اس طرح بیگانہ ہوتے رہیں گے؟ ہم جیسوں کا مقدر رونا، بس رونا بن جائے گا؟ کیا کبھی کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات  آئی  ہوگی کہ عاشقان قرآن وسنت، شیدایان معرفت و طریقت جب جانا شروع کریں گے تو یکے بعد دیگرے جاتے ہی رہیں گے؟ اور خامۂ نارسا کا کام صرف تعزیتی پیغامات قلمبند کرنا اور دل کے نہاخانے میں بھڑکنے والے شعلوں کی حکایت و ترجمانی کرنا رہ جائے گا؟ ابھی تو کئی عظیم المرتبت شخصیات پر خامہ فرسائی کے لئے ہاتھ دل سے جدا بھی نہیں ہوئے  تھے، کئی محسنین ملت کی یادوں میں اشکہائے چشم کا سیلابی سلسلہ جاری ہی تھا کہ کل روز جمعہ ایک ایسی ”قیامت صغرٰی“ برپا ہوگئی جس نے دل رنجور کو غم و اندوہ کے ایسی گہری کھائی میں ڈال دیا جس سے نکلنے کی سبیل سر دست مفقود نظر آتی ہے۔ درحقیقت نمونۂ سلف، فدائے ختم نبوت، عاشق قرآن و سنت، قائد قوم و ملت، مربی و رہبر، محدث و مفسر استاذ محترم حضرت امیرالہند قاری سید محمد عثمان صاحب منصورپوری استاذحدیث اور کارگزار مہتمم دارالعلوم دیوبند و صدر جمعیت علمائے ہند کا سانحۂ ارتحال نے ذہن و دماغ پر ایسا لرزہ  طاری کردیا کہ یاس و قنوط کے تیر وتار سناٹے نے ہر سمت سے احاطہ کرلیا، توقعات اور تمنائیں خون خون ہوگئیں اور اب ہماری نگاہیں اداسیوں کے بھنور میں پھسی زندگی کو حسین راہوں سے آشنا کرنے والے کی راہ ڈبڈباتی آنکھوں سے  بہت ہی بے صبری کے ساتھ تک رہی ہیں:  

لے گیا چھین کے کون تیرا صبر و قرار؟

بیقراری تجھے اے دل کبھی ایسی تو نہ تھی؟  

حضرت قاری صاحب قدس سرہ کی شخصیت جامع کمالات تھی، مبدأ فیاض نے انھیں بہت سی امتیازی خوبیوں سے نوازا تھا، ایک طرف ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے وہ پیکر حسن و جمال تھے، تو دوسری جانب ان کا باطن نہایت ہی پاکیزہ اور صاف شفاف تھا، ان کی طالب علمانہ زندگی مثالی تھی، ان کی زندگی  کا تربیتی اور تدریسی پہلو بہت ہی دلکش اور حکیمانہ تھا، ان کی رفتار و گفتار سے سنجیدگی، متانت، بلندیِ اخلاق اور رعب و وقار کے خوبصورت اور حسین فوارے پھوٹتے محسوَس ہوتے، اثنائے درس نرم لہجے میں حل عبارت کو ترجیح دیتے، جس سے طلبہ کے لئے نفس عبارت کو سمجھنا بہت آسان ہوجاتا، لاطائل  بحثوں، ہوائی تقریروں اور دراز نفس  فضول ابحاث کے لئے حضرت قاری صاحب کے دروس میں کوئی گنجائش  نہیں تھی، ان کا انداز تربیت بھی بہت نرالا تھا، ایک مرتبہ ہمارے کمرے کے ایک رفیق کی نماز فجر فوت ہوگئی، وہ فجر بعد تک اتفاقاً سوتا رہ گیا، حضرت قاری صاحب نماز فجر پڑھکر دارالاقامہ کا گشت کرتے ہوئے ہمارے کمرے میں آگئے اور اسے سوتا دیکھ لیا، اسے جلدی سے نماز فجر ادا کرنے کی تاکید کرتے ہوئے یہ ڈیوٹی دیدی کہ کل سے نماز فجر سے پہلے ہر روز تم مجھ سے ملاقات کروگے، ہمارے افتاء کے سال  بزم سجاد (طلبہ بہار، اڑیسہ، نیپال کی متحرک وفعال انجمن؛ جس کی صدارت ان دنوں عاجز کے دوش ناتواں پہ تھی) کا سالانہ پروگرام تھا، مشورے سے یہ طے پایا کہ پروگرام حضرت قاری صاحب کی صدارت میں ہونا ہے، ہم تینوں رفقاء (شکیل منصور،شمشیر حیدر اور مرحوم دوست مجتبی حسن) عصر بعد حضرت  کے آستانے پر حاضر ہوئے اور اپنی درخواست پیش کی، حضرت نے اپنی شرکت اور صدارت کی منظوری اس شرط پر معلق کردی کہ پہلے پروگرام کی تفصیلات تحریری شکل میں دکھائیں، کل ہوکر ہم پروگرام کے تعلقات سے ایک ایک چیز کی تفصیل  لکھ کر لے گئے حضرت نے سب کو بغورملاحظہ فرمایا، کچھ ضروی ترمیمات کی طرف اشارے دیئے اور اپنی شرکت کی منظوری دیکر ہم طلبہ کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ 

انتظامی امور میں حضرت قاری صاحب نوراللہ مرقدہ اپنی مثال آپ تھے، مفوضہ امور کو نہایت احسن طریقے پر انجام دیتے؛ اس کا حق ادا کردیتے، حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب قدس سرہ مہتمم دارالعلوم دیوبند کے زمانۂ اہتمام میں جب نیابت اہتمام حضرت کو تفویض کی گئی تو متعدد بار ہم نے یہ مشاہدہ کیا کہ کھانا تقسیم ہوتے وقت حضرت اچانک مطبخ کی طرف تشریف لے آتے اور کھانا لیکر جارہے طالب علم کو روک کر اس کی روٹی اپنے ہاتھ میں لیتے اسے الٹ پلٹ کر دیکھتے کہ جلی کٹی تو نہیں ہے، اور چمچ لیکر شوربہ اور بوٹی کی نوعیت و کیفیت معلوم کرتے پھر مطبخ جاکر باورچیوں کو مناسب مشورے دیتے، اور بوقت ضرورت مناسب تفہیم وتادیب فرماتے۔

خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

چند سال قبل جب کارگزارمہتمم بنائے گئے، میں (شکیل منصور قاسمی) نے سورینام  سے حضرت کو فون کیا، حضرت کی خدمت میں بصد عجز ونیاز ارمغان تبریک و تہنئت پیش کی، حضرت نے ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازا، ابھی دوماہ قبل کی بات ہے، جمعیت علماء ہند کا ذیلی ادارہ مباحث فقہیہ کے سولہویں فقہیی اجتماع کے موقع پر ”مسجد عبدالنبی“ کے سامنے ہم تینوں رفقاء کو حضرت سے سلام و مصافحہ کی سعادت ملی، مصافحہ کے بعد ہم نے دست بوسی کا بھی شرف حاصل کیا، ہاتھ تھامے ہوئے میں (شکیل منصورقاسمی) نے عرض کرڈالا کہ حضرت! جسم مبارک پر کچھ ضعف و نقاہت کے آثار معلوم ہوتے ہیں ؟ فرمانے لگے!  صحت ہمیشہ یکساں نہیں رہتی، عمر بھی بڑھتی چلی جارہی ہے، اس لئے اس کے آثار تو ظاہر ہوں گے ہی،

 لیکن اف! نہیں ایسا بھی نہیں، کہ اتنی  عمر ہوگئی ہو  کہ وہ ہمیں چھوڑ کر چلے جائیں، اور ہم ان کے سایۂ قیادت و تربیت سے محروم ہوجائیں، مگر ہاں یہ آنے جانے کے وقت و گھڑی کا تعین انسان کے بس میں کہاں ہے، یہاں تو آنے سے پہلے ہی طے ہوچکاہے "کل شئی عندہ باجل مسمی" اس میں چھوٹا، بڑا، بچہ، بوڑھا یا جوان  کی کوئی تخصیص تو ہے نہیں، بس سب کو اسی"اجل مسمی" میں چلے جانا ہے، جس کا علم صرف اور صرف ایک اللہ کو ہے۔ 

ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں 

تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے 

یوں تو جب تک چرخ کہن سال اپنے اسی موجودہ ںظام  کے ساتھ باقی ہے، خورشید جہاں تاب کی خوبصورت کرنوں سے دنیا مزین ہوتی رہے گی، سینۂ گیتی پر افراد و اشخاص کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی جاری رہے گا، ہر خالی ہونے والے عہدے و منصب کو کوئی نہ کوئی ہستی رونق بخشتی رہے گی۔

یہ  نظامِ قدرت ہے، جو ابتدائے آفرینش سے چلا آرہا ہے؛ اس لئے حضرت قاری صاحب نوراللہ مرقدہ نے جن جن شعبوں اور میدانوں کو اپنے حسن کار کردگی سے چمکایا اور نکھارا، وہ سب یوں ہی چمکتے اور دمکتے رہیں گے (ان شاء اللہ تعالی)؛ خواہ درس و تدریس کا سلسلہ ہو یا نظم و نسق کا معاملہ، کوچۂ سیادت و قیادت ہو یا میدان تربیت و تزکیہ، دین مبین کی حفاظت و صیانت اور اس کی ترویج و اشاعت کا مسئلہ ہو یا فرقۂ باطلہ کی تردید وبیخ کنی کا مرحلہ، افراد سازی کا عظیم ترین دشوار گزار عمل ہو یا خامۂ دربار سے صفحہ قرطاس کو مزین کرنے کا مہتم بالشان کارنامہ ! ہر جگہ، ہر عہدہ، ہر کرسی، ہر میدان کے لئے افراد و اشخاص آتے جاتے رہیں گے، یقیناً ان آنے جانے والوں میں بہت سے متنوع خصوصیات و کمالات کے حامل افراد ہوں گے، ان میں سے ہر ایک اپنی خاص شناخت و پہچان سے جانا و پہچانا جائے گا؛ لیکن جن نگاہوں  نے حضرت امیر الہند قاری سید محمد عثمان صاحب کو دیکھا ہے، ان کی ہمہ گیر شخصیت کو قریب سے پڑھا ہے، ان کے اوصاف و کمالات کا مشاہدہ کیا ہے، ان کی نگاہ ہر جگہ اور ہر میدان میں “خصوصیاتِ عثمان“ کو تلاش کرتی پھرے گی؛ کیونکہ:

آسائش دو گیتی تفسیر ایں دو حرف است

با دوستاں تلطف با دشمناں مدارا 

کا مصداق شخص کہاں ہے؟ ہے کوئی جو محبت اور دل سوزی کے ساتھ میٹھی میٹھی باتیں اور نصحتیں سنانے والا قائد و رہبر کی ہمیں رہبری فرمادے؟ 

کہاں چلے گئے ہیں ہمارے وہ محسن و مربی حضرت  قاری عثمان؟ جن کی شخصیت علامہ اقبال کے اس شعر کی تفسیر  تھی کہ: 

نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو 

رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز 

ادارہ مباحث فقہیہ کے سولہویں اجتماع کی آخری نشست میں نرم دم گفتگو و گرم دم جستجو کا حامل فصیح اللسان و بلیغ المرام ملت کا یہ قائد و محسن جب نہایت ہی پُردرد اور رقت آمیز لہجہ میں وارثان انبیاء سے ہمکلام تھا تو بعض روشن دل رفقاء کو یہ انکشاف ہو رہا تھا کہ "کأنه  خطاب مودّع" 

آہ! حضرت کا وہ خطاب بھی کیسا نرالا تھا؟ جس میں گویا کہ کنواں خود ہی پیاسوں کو دعوت دے رہاتھا کہ آؤ اپنی تشنگی بجھالو، رخصتوں پر عمل کرکے تم ”آرام پسند، سہل انگار وتن آساں“ بن چکے ہو، آرام و راحت نے نفس کے ہاتھوں تمہیں ہلاکت و تباہی کے گڑھے تک پہنچادیا، مصلحت آمیزی نے تم سے ہمت و شجاعت کا جوہر چھین لیا، خدارا غفلت و کسل مندی کی راہ کو چھوڑو! میدان عمل میں آئو، اپنے ان بزرگوں کے حالات کا مطالعہ کرو، جنھوں نےعزیمت کی راہ اختیار کرکے بڑی سے بڑی طاقتوں کو ملیا میٹ کردیا، جن کے بلند حوصلوں کے سامنے فرعونیت و قیصریت کی فلک بوس عمارتیں زمین دوز ہوگئیں۔

حضرت قاری صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے دل دردمند سے نکلنے والے وہ کلمات ہمارے دلوں میں پیوست ہوتے چلے گئے، جس نے ہمارے  احساسات کے تاروں کوچھیڑ دیا، ہمارے خوابیدہ ضمیروں کو جھنجھوڑکر رکھ دیا اور ہم وہاں سے اس حال مین  لوٹے کہ  ہمارے اندر یقین محکم، عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کا جذبہ موج زن تھا، مگر آہ؛ 

کس سے دہرائیں فسانہ غم دل کا عاجز 

سننے والوں سے زیادہ ہیں سنانے والے  

عاجز کہ جسے چین نہ تھا بستر گل پر

اب چھوڑ کےسب راحت وآرام پڑا ہے 

مخدوم مکرم حضرت مولانا سید قاری محمد عثمان صاحب نوراللہ مرقدہ نے اپنے خداد تربیتی ملکہ سے ایک جہان کو بنایا، سنوارا، سجایا اور چمکایا؛ لیکن سایۂ پدری میں پروان چڑھنے والے ان کے دونوں صاحبزادگان (گرامی قدر عالی مرتبت حضرت مولانا و مفتی سید محمد سلمان صاحب منصور پوری اور رفیق مکرم حضرت مولانا مفتی سید محمد عفان منصور پوری نے والد محترم کی خوبیوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے، اللہ تعالی ان دونوں بھائیوں کو ہر طرح سے صحت و سلامتی عطاء فرمائے اور اپنے والد محترم کے روشن کردار اور ان کی پاکیزہ روایتوں کا امین و ترجمان بنائے، آمین۔

حضرت امیرالہند رحمہ اللہ  کی رحلت کا صدمہ صرف ان کے خانوادے، دارالعلوم دیوبند یا جمعیت العلماء کا تنہا صدمہ نہیں؛ پورے علماء دیوبند اور ملی تنظیموں کا اجتماعی صدمہ ہے، وہ صرف مادرعلمی یا جمعیت کا متاع گراں مایہ نہیں؛ بلکہ پورے حلقہ دیوبند کا قیمتی سرمایہ تھے، ان کی وفات حسرت آیات ہم تمام کے لئے بڑا خسارہ ہے، ہم سب ایک دوسرے کی طرف سے تعزیت مسنونہ کے مستحق ہیں، ہاں! ان کی رحلت  بالخصوص جمعیت علمائے ہند اور دارالعلوم دیوبند کے لئے عالم اسباب میں بظاہر ناقابل بھرپائی خلاء ہے؛ کیونکہ ان کی وفات سے  ان دو اداروں نے اپنا ایک بے لوث ووفاشعار ہشت پہل ہیرا کھودیا ہے، جس پہ  ہم حضرت الاستاذ رحمہ اللہ کے خانوادے کے ساتھ جمعیت العلماء کے ذمہ داران اور مادر علمی کے حضرت مہتمم صاحب مدظلہ العالی کو سب سے زیادہ خصوصی تعزیت وتسلی کا مستحق سمجھتے ہیں اور انہیں بطور خاص تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں اور دعاء کرتے ہیں کہ اللہ تعالی جمعیت العلماء اور دارالعلوم دیوبند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے، اور لواحقین، محبین، منتسبین ومعتقدین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ 

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے 

زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے؟

https://saagartimes.blogspot.com/2021/05/blog-post_23.html



Thursday, 20 May 2021

مولانا نظام الدین اسیرؔ ادروی: حیات اور کارنامے

مولانا نظام الدین اسیرؔ ادروی: حیات اور کارنامے
مولانا نظام الدین اسیرؔ ادروی، اب رحمۃ اللہ علیہ ھوگئے، عاقب انجم ؔ عافی نے ستمبر 19, 2019 میں آپ کے حیات و خدمات پر ایک مضمون لکھا تھا، وہ پیش خدمت ہے: 
-----------------------------------------
مولانا نظام الدین اسیرؔ ادروی: حیات اور کارنامے
عاقب انجم ؔ عافی
بانی و صدر:’’ محدث جونپوری اکیڈمی‘‘
متعلم شعبئہ اسلامیات’’ جامعہ ملیہ اسلامیہ‘‘۔

پھولوں کے لئے سینہ ہمارا ہی سپر ہے
اس صحنِ چمن کے درو دیوار ہمیں ہیں۔

ملت اسلامیہ میں ماضی قریب میں ایسی یگانہ روزگار شخصیات بھی گزری ہیں جنہوںنے اپنے وقت میں کارہائے نمایاں انجام دیے لیکن ہمارے ہی مؤرخین نے ان کا نام تاریخ کے صفحات تک سے خارج کردیا، خدا جانے کیا وجہ رہی ہوگی۔ان شخصیات میں مولانا عبدالقدیر دیوبندی، مولانا نظام الدین اعظمی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔ کچھ ایسی ہی شخصیات عصرِ حاضر میں ہیں کہ وہ گویا متبحر عالم ہیں، ادیب و شاعر ہیں، درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں لیکن لوگوں کی سماعت سے ان کے نام ندارد۔ ایسا ہی ایک نام مولانا نظام الدین اسیرؔ ادروی صاحب کا ہے۔ مولانا اسیرؔ ادروی صاحب مدظلہ بیک وقت کئی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ایک باکمال انشاء پرداز اور مصنف۔ شاعر اور ادیب و سوانح نگار اور مؤرخ۔

پیدائش اور تعلیم
مولانا نظام الدین اسیرؔ ادروی اپنی سنِ ولادت ۱۳۴۵؁ھ یعنی ۱۹۲۶؁ء قرار دیتے ہیں، گو یہ یقینی نہیں۔ اپنی خودنوشت سوانح ’’داستان ناتمام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ جب ہمارے محلہ کوٹ کی مسجد کی بنیاد پڑی تھی اور تعمیر ہورہی تھی، اسی سال ان کی بھی ولادت ہوئی‘۔ مسجد پر ۱۳۴۵؁ھ کندہ دیکھا تو اسی کو اپنا سنِ ولادت مان لیا۔ جائے پیدائش ’’ادری‘‘ ہے، یہ اب ضلع مئو، اتر پردیش میں آتا ہے۔خاندانی نام’’نظام الدین‘‘ ۔ آپ کے والد شیخ عبد الکریم مرحوم اپنے وقت میں پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ مولانا اسیرؔ ادروی صاحب کی مکتبی تعلیم اپنے والدین کے ذیرِسایہ ہوئی۔ جب ’’بغدادی قاعدہ‘‘، ’’پارہ عم‘‘ اور ’’پارہ الم‘‘ پڑھ چکے تو ادری کے ہی ’’مدرسہ فیض الغرباء‘‘ میں داخل کردیئے گئے۔ اس وقت اس مدرسہ کے واحد استاد حضرت اقدس مولانا امام الدین پنجابی قدس سرہ کے فرزندِ ارجمند ’’مولانا محمد زمان خاں شاہ پوری‘‘ قدس سرہ تھے۔ اس مدرسہ میں رہ کر مولانا اسیرؔ ادروی نے قرآن پاک کے ساتھ ساتھ اردو کی بھی کچھ کتابیں پڑھ لیں۔ جب عمر کے نو سال گزرے تو مدرسہ مفتاح العلوم مئو میں داخل کردیا گیا، ان کے والد کے محدث العصر مولانا حبیب الرحمن اعظمی قدس سرہ سے مراسم تھے، تو ان کے سپرد کردیا۔ نانیہال بھی مئو میں ہی واقع تھا، تو صرف تعلیمی اوقات میں مدرسہ آتے۔
مفتاح العلوم میں آپ کے استاذ فارسی منشی ظہیر الحق نشاط سیمابی تھے، وہ خود کو سیماب اکبر آبادی کا شاگرد بتلاتے۔ ان سے مولانا اسیرؔ ادروی نے ’’اخلاق محسنی‘‘، ’’یوسف زلیخا‘‘ ’’سکندر نامہ‘‘ اور ’’انوارِ سہیلی‘‘ جیسی کتابیں پڑھیں۔ دوسرے استاذ مولوی محمد یحیٰ صاحب مرحوم تھے۔ ان سے ’’القراتہ الراشدہ‘‘ اور’’دروس الادب‘‘، ’’میزان منشعب‘‘، ’’نحو میر‘‘، ’’پنج گنج‘‘، ’’فصول اکبری‘‘ اور ’’علم الصیغہ‘‘ جیسی کتابیں پڑھیں۔ تیسرے استاذ مولانا عبداللطیف صاحب نعمانیؒ تھے، ان سے ’’شرح تہذیب‘‘ پڑھی۔ چوتھے استاذ بلکہ سرپرست محدث العصر مولانا حبیب الرحمن اعظمی قدس سرہ العزیز تھے، جو وہاں کے صدرالمدرسین اور شیخ الحدیث تھے۔ مولانا اسیرؔ ادروی نے مفتاح العلوم میں رہ کر ناظمِ مدرسہ مولانا محمد ایوب صاحب اعظمیؒ سے بھی استفادہ حاصل کیا۔ جب مفتاح العلوم میں مولانا اسیرؔ ادروی کو چار سال ہوچکے، اور ’’شرح جامی‘‘ جیسی کتابیں پڑھ چکے تو ادری کے ایک دو لڑکوں کے ہمراہ مدرسہ سے بھاگ گئے، اور ایک غازی پوری مدرس کے مشورہ سے غازی پور کے مدرسہ ’’چشمئہ رحمت‘‘ پہنچے، وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ کل سے گرمیوں کی دو ہفتوں تک تعطیل ہورہی ہے۔تینوں نوعمروں کے پاس جو پیسے تھے وہ غازی پور تک ختم ہوچکے تھے؟ ان تیرہ تیرہ سالہ بچوں نے عہد کرلیا کہ گھر جائیں تو کیا چہرہ دکھائیں؟ تو علی الصباح جونپور کے لئے نکلا جائے۔ ریلوے ٹریک سے ہوتے ہوتے پیدل یہ قافلہ شام ہوتے ہوتے سید پور پہنچے، پھر وہاں سے کراکت۔ کراکت سے بھی شہر جونپور تک کا سفر پیدل طے کیا۔ کیا مصائب راہ میں آئے خدائے ذوالجلال جانے اور یہ تین نوعمر نفوس!
جونپور میں تلاش کرتے کرتے مدرسہ حنفیہ مل گیا۔ مدرسہ کے استاتذہ مسلک بریلویت سے مانوس تھے۔ وہاں رہ کر مشکوٰۃ شریف اور ہدایہ پڑھی۔ مشکوٰۃ صدر مدرس مولانا محمد قائم فرنگی محلی سے پڑھی۔یہاں سے ہوکر مولانااحیاء العلوم مبارکپور پہنچے، اس مدرسہ کے روحِ رواں مولانا شکر اللہ مبارکپوری قدس سرہ العزیز تھے۔ آپ مشہور محدث مانوی مولانا ماجد علی جونپوری قدس سرہ اور متکلم ِ اسلام مولانا انور شاہ کشمیری قدس سرہ کے اجل تلامذہ میں سے تھے۔ مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کے جاں نثار عقیدت مند تھے۔ احیاء العلوم میں ان کے اساتذہ صدرالمدرسین مولانا مفتی محمد یسین قدس سرہ، مولانا محمد عمر صاحب مظاہری قدس سرہہ اور مولانا بشیر احمد مظاہری قدس سرہہ تھے۔ سبعہ معلقہ، دیوانِ حماسہ، مختصر المعانی وغیرہ مولانا محمد عمر صاحب سے پڑھیں اور ہدیہ سعدیہ اور میبذی کے علاوہ منطق و فلسفہ کی دیگر کتابیں مولانا بشیر احمد صاحب سے پڑھیں۔ مفتی محمد یسین صاحب سے بھی بہت سی کتابیں پڑھیں۔
احیاء العلوم مبارکپور میں دو سال قیام کے بعد مولانا نے دارالعلوم مئو کی جانب قدم بڑھایا۔ داخلہ کا امتحان صدر المدرسین قاری ریاست علی صاحب قدس سرہنے لیا۔ دار العلوم مئو میں مشکوۃ شریف مولانا عبدالرشید الحسینی سے پڑھی، جلالین شریف قاری ریاست علی صاحب سے۔ دار العلوم مئو سے کچھ وجوہ سے اخراج ہوا اور مولانا دارالعلوم دیوبند کی جانب چل پڑے۔اس وقت دارالعلوم میں ناظمِ تعلیمات اور ناظمِ امتحان شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہی قدس سرہ تھے۔ انہوں نے مولانا اسیرؔ کا امتحان لیا، اور آخر سنادیا کہ داخلہ نہیں ہوگا۔ مولانا ادریس صاحب جو امام العصر شاہ کشمیریقدس سرہ کے مکان پر مقیم تھے، انہوں نے بلاکر فرمایا کہ ’جامعہ اسلامیہ ڈابھیل‘ کا رُخ کرلیں، سارے اخراجات ہمارے ذمہ ہوں گے۔ اتنے لمبے سفر کے لئے مولوی صاحب کہاں تیار تھے۔دوسرے دن ان اعظمی طلبہ کا مشورہ ہوا جن کا داخلہ دارالعلوم میں رد ہوا ۔ حدیث کہاں اچھی پڑھائی جاتی ہے؟ دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام مدنی قدس سرہ کا درسِ ترمذی شریف اور حضرت اس وقت مرادآباد جیل میں تھے۔ مظاہر علوم سہارنپور میں ابوداؤد شریف اور مدرسہ شاہی مرادآباد میں فخرالمحدثین مولانا سید فخر الدین احمد قدس سرہ کا درسِ بخاری شریف ملک بھر میں مشہور ہے۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ان عقیدت مندوں نے مظاہر علوم پرمدرسہ شاہی مرادآباد کو ترجیح دی۔ مظاہر علوم میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے خیالات کا فوالادی پنجہ تھا، اور مرادآباد میں مولانا سید فخر الدین احمد حضرت مدنی رحمہم اللہ کے ہم خیال تھے۔ دارالعلوم دیوبند سے رُخصت ہوکر یہ قافلہ مرادآباد پہنچا۔ خدائے تعالیٰ کافضل کہ دورہ حدیث شریف میں داخلہ ہوا۔ مدرسہ شاہی میں اس وقت دورہ حدیث میں صرف چار کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔ بخاری شریف، مسلم شریف، ابوداؤد شریف اور ترمذی شریف۔ بخاری شریف اور ابوداؤد شریف کے استاذ مولانا سید فخرالدین احمد قدس سرہ تھے۔ آپ حضرت شیخ الہند قدس سرہ اور علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہ کے علوم و معارف کے امین ہونے کے ساتھ ساتھ محدث مانوی مولانا ماجد علی جونپوری قدس سرہ کے بھی اجل تلامذہ میں سے تھے۔ مسلم شریف کا درس مولانا محمد اسمعیل سنبھلی صاحب قدس سرہ کے ذمہ تھا۔ڈاکٹر مفتی نجیب قاسمی مدظلہ آپ کے خاندان سے ہی آتے ہیں۔ ترمذی شریف کا درس حضرت سیدالملت مولانا محمد میاں دیوبندی قدس سرہ کے ذمہ تھا۔ باکمال مؤرخ اور مصنف۔ درجنوں کتابوں کے مصنف۔’’ علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘،’’ علمائے حق کے مجاہدانہ کارنامے‘‘، ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ وغیرہ ان کی شاہکار ہیں۔ مفتی محمود صاحب قدس سرہ آپ کے اجل تلامذہ میں سے تھے۔ ان باکمال اساتذہ سے مستفیذ ہوکر ۱۹۴۲؁ء میں ۷ا۔ ۱۸ سال کی عمر میں مولانا نظام الدین صاحب مدرسہ شاہی مراد آباد سے فارغ التحصیل ہوئے۔
اردو ادب اور شاعری:
اردو حلقہ میں نظام الدین اسیرؔ ادروی ایک معروف نام ہے۔ شاعری میں تخلص ’’اسیرؔ‘‘ استعمال کرتے ہیں، وجہ کیا ہے خود ہی جانتے ہیں۔ مدرسہ احیاء العلوم میں مولانا کے قیام کے دوران ہی جگرؔ مرادآبادی مرحوم کا مجموعہ کلام ’’شعلئہ طور‘‘ شایع ہوا۔ اور اصغر ؔگونڈوی کے مجموعہ ہائے کلام ’’نشاطِ روح‘‘ اور ’’سرودِزندگی‘‘ مدرسہ کی لائبریری میں موجود تھے۔ ان کے مطالعہ نے اسیرؔ کو جگایا۔ جگرؔ کے اشعار گنگناتے رہتے۔ اُدھر حضرت قاضی اطہر صاحب مبارکپوری قدس سرہ کی شاعری بامِ عروج پر تھی۔ مولانا اسیرؔ بھی لکھنے لگے، جو جی میں آیا لکھ دیا، اصلاح کسی استاذ سے نہ لی۔ گویا خود ہی استاذ ہوگئے اور دوسرے ساتھیوں کی لکھی ہوئی شاعری کی اصلاح کرلیتے۔ اسی سال اسیرؔ کی پہلی نظم رسالہ ’’قائد مرادآباد‘‘ کے صدیق نمبر میں شائع ہوئی، اس رسالہ کے مدیر حضرت سیدالملت مولانا محمد میاں دیوبندی قدس سرہ تھے۔ مولانا اسیرؔ ادروی رسالہ کے صفحات پلٹتے اور اس قدر خوش ہوتے جیسے کسی نوجوان جوڑے کی پہلی اولاد ہوئی ہو۔دارالعلوم دیوبند میں جب داخلہ نہ ہوا، تو وہاں سے رخصت ہونے سے قبل حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہی قدس سرہ کی شان میں ایک نظم لکھ ڈالی اور دارالعلوم کے نوٹس بورڈ پر لگادی۔
آزر کے گھر پہ آگ کو گلشن بنادیا
اور اک آگ دی تو میرے گلستاں کے واسطے
مدرسہ شاہی مرادآباد میں قیام کے دوران وہاں کے طلبہ کی ایک انجمن ’’اصلاح البیان‘‘ تھی۔ مولانا اسیرؔ ادروی اس انجمن سے جاری ہونے والے رسالہ ’’البیان‘‘ کے مدیر بنادیئے گئے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب شاعری کا جنون قدرے زیادہ تھا۔ لمبی لمبی نظمیں لکھتے۔ ایک طویل نظم ’’بانگ سروش‘‘ مسدس کے فارم میں، شکوہ جواب شکوہ کے انداز پر لکھ ڈالی۔ اس نظم میں سلطنت مغلیہ سے لیکر اپنے عہد تک کی سیاسی تاریخ کا عکس پیش کیا تھا۔ اس کو خوشخط میں لکھ کر حضرت قاضی اطہر صاحب مبارکپوری قدس سرہ اور مولانا عبدالمجید قاسمی قدس سرہ سے پیش لفظ لکھوایا تھا۔ لاہور میں قاضی اطہر مبارکپوری قدس سرہکے ساتھ قیام کے دوران اردو کے مقبول و مشہور شاعر احسان دانشؔ سے ہم رقاب ہوئے۔ اور ایک مرتبہ ان سے بھی اپنی ایک غزل جو سات اشعار پر مشتمل تھی، اصلاح کروانا چاہی ۔ جواباََ دانشؔ نے اشعار دہراکر کہہ دیا کہ آپ کے اشعار میں اصلاح کی ضرورت نہیں۔ لیکن ساتھ ہی میں آٹھ نو اشعار ان ہی کی غزل کی بحر و قافیہ میں لکھوادیے۔ فرمایا کہ یہ میری جانب سے آپ کے لئے تحفہ ہے۔ بس مولانا اسیرؔ کا شاعر مزید جاگ گیا۔ ان کا شاعرانہ کمال ان کے اشعار سے خوب نظر آتا ہے، ملاحظہ ہو۔
اس قدر ہے اثرِ کیفِ بہارِ امروز
مجھ پہ کیا گزری خزاں میں یہ مجھے یاد نہیں
داغ تو اب بھی ہیں سینے میں ہزاروں لیکن،
تیر کس کے تھے کماں میں، یہ مجھے یاد نہیں
طنز و تعریض زمانے کی تو ہے یاد مگر،
زہر کتنا تھا زباں میں؟ یہ مجھے یاد نہیں۔
افسانہ نگاری میں بھی مولانا اسیرؔ ادروی نے اپنے گوہر دکھائے ۔ ’’رسالہ دارالعلوم دیوبند‘‘ کے لئے چار پانچ سال تک مسلسل لکھتے رہے، رسالہ ’’کامیاب دہلی‘‘کے لکھنے والوں کی صف میںبھی شامل ہوگئے۔ پہلا افسانہ ’’اتنا‘‘، اور پھر ’’دو لاشیں‘‘، ’’نشیب و فراز‘‘ اور ’’اعترافِ شکست‘‘۔ سماجی مسائل پر ہی لکھتے۔ ’’نوائے پاکستان‘‘ لاہور میں بھی آپ کے متعدد افسانے شایع ہوئے جیسے ’’ہینڈ بیگ‘‘ اور ’’اسپتال‘‘۔ افسانوں کا مجموعہ ’’نشیب و فراز‘‘ اور مجموعہ ہائے کلام ’’رودادِ قفس‘‘ گم شدہ ہیں۔
ایک بزرگ نے ان کی کھدر کے لباس اور جواہر کٹ صدری پر اپنی مجلسوں میں جو تنقید کی تو مولانا اس تنقید کے جواب مین تین بندوں پر مشتمل نظم ’’نکتہ چیں سے‘‘ لکھ ڈالی۔
میرے لباس پر تو نے جو نکتہ چینی کی خدا گواہ ہے مجھ کو کوئی ملال نہیں
نگاہ نکتہ رسی جس کی ہو فلک پیما اسے نمود و نمائش کا کچھ خیال نہیں
ہر ایک بات روا ہے جہاں میں لیکن کسی کی ذات پہ تہمت مگر حلال نہیں
یہ کلام بھی نوائے پاکستان کے صفحہ اول پر جلی قلم سے شایع کیا تھا۔ مولانا نے بیسیوں سال شاعری کی، غزلیں اور نظمیں لکھیں اور قطعات سبھی کچھ لکھے۔ کچھ بھی محفوظ نہیں۔ مشاعروں میں کبھی نہیں جاتے ۔ خود ہی افسوس کرتے کہ ’’ایک ضخیم مجموعہ کلام رودادِ قفس کے نام سے مرتب کیا تھا۔ خدا جانے مسودہ کیا ہوا، زمین نگل گئی یا آسمان نے اچک لیا۔ یا ملہمِ غیبی نے اپنے الہامات واپس لیکر سردخانے میں ڈال دیا۔ اس کا ایک ورق بھی میرے پاس نہیں‘‘۔
مولانا اسیر ؔ ادروی مدظلہ نے اپنی کتابوں کے ذریعہ بھی اردو زبان کی بیش بہا خدمت کی ہے۔ آپ درجنوں تاریخی کتابوں کے مصنف ہیں۔ دار العلوم دیوبند سے وابستہ کئی ایک مشائخ کی سوانح عمریاں لکھ کراردو کی اس صنف کو بلندیاں بخشی ہیں۔ آپ کی کتابیں کچھ دستیاب ہیں، کئی ایک نادر و نایاب۔ کتابوں کی فہرست درج ذیل ہے۔
۱۔ ’’افکارِ عالم: فکرِ اسلامی کی روشنی میں‘‘۔ دو جلدوں پر مشتمل مولانا کے مقالات کا مجموعہ ہے۔ دونوں جلدیں ۸۲۹ صفحات میں سمائی ہوئی ہیں۔ شیخ الھند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۲۔ ’’تحریکِ آزادی اور مسلمان‘‘۔ جنگِ آزادی میں مسلمان علماء اور عوام کی قربانیوں پر مشتمل ایک مختصر انسائیکلوپیڈیا ہے۔ ۳۵۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتب خانہ حسینیہ دیوبند نے شائع کیا ہے۔ دراصل یہ کتاب ان ہی کی’’ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا کردار‘‘کا ترمیم اور اضافہ شدہ ایڈیشن ہے۔ امریکن کانگریس نے واشنگٹن کی پچاس لائبریریوں کے لئے اس کے نسخے بھی خریدے۔’’ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا کردار‘‘ قیامِ لکھنؤ کے دوران لکھی تھی۔ اورمولانا وحیدالزمان کیرانوی قدس سرہ نے اس کو شائع کیا تھا۔ یہ کتاب مولانا اسیرؔ کی پہلی مطبوعہ کتاب تھی۔ اس کتاب پر مولانا کو’’اترپردیش اردو اکیڈمی‘‘ نے ایک ہزار روپے کا انعام دیا تھا۔
۳۔ ’’دارالعلوم دیوبند: احیٔا اسلام کی عظیم تحریک‘‘۔ مشایخِ دیوبند کی علمی، سیاسی اور دیگر خدمات کے متعلق ۴۷۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتب خانہ حسینیہ دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۴۔’’ دبستانِ دیوبند کی علمی خدمات‘‘۔ ۱۸۲ صفحات پر مشتمل معلومات کا خزینہ ہے۔ فکرِ دیوبند سے وابستہ مشایخ کی علمی خدمات کا جائزہ بھی ہے، اور مختصر تاریخ بھی۔تفسیر وحدیث سے متعلق مشاہیرِ دیوبند کی کتب پر تبصرہ،’ ترجمہ شیخ الہند‘ سے شروع کرکے ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی قدس سرہ کی دراسات فی الحدیث النبوی‘ تک، قریب ۱۵۰سے زائد کتب پر تبصرہ ہے۔ دارالمؤلفین دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۵۔ ’’حجتہ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی: حیات اور کارنامے‘‘۔ بانیٔ دارالعلوم دیوبند کی سوانح حیات ہے۔ ۴۲۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ شیخ الھند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۶۔’’ مولانا رشید احمد گنگوہی: حیات اور کارنامے‘‘۔ امامِ ربانی قدس سرہ کی سوانح حیات ہے۔ ۴۱۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ شیخ الھند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۷۔’’ حضرت شیخ الھند: حیات اور کارنامے‘‘۔ مجاہد آزادی۔ اسیرِمالٹا۔ جانشین امام نانوتویقدس سرہ، مولانا محمود الحسن دیوبندی قدس سرہکی سوانح حیات ہے۔ ۳۸۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ شیخ الھند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۸۔’’ مآثر شیخ الاسلام‘‘۔ بطلِ حریت۔ جانشین شیخ الھند قدس سرہ۔ اسیرِمالٹا۔ مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کی سوانح حیات ہے۔ ۴۹۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ دارالمؤلفین دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۹۔ ’’ولی و شیخ: مولانا امام الدین پنجابی‘‘۔ بانی دارالعلوم مئو۔ ایک عظیم مصلح۔ مولانا امام الدین پنجابی قدس سرہ کی سوانح حیات ہے۔ ۹۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب نایاب ہے۔ قمرالباری، ایم ایس سی، دیوریا نے ۲۰۰۲؁ء میں شائع کی تھی۔
۱۰۔ تاریخ جمعیت علماء ہند۔ دو جلدوں پر مشتمل جمعیت علمائے ہند کی تاریخ ہے۔ جمعیت سے ہی شائع ہوئی ہے۔ فی الحال کتاب نایاب ہے۔
۱۱۔ ’’کاروانِ رفتہ یعنی تذکرہ مشاہیرِ ہند‘‘۔ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ لیکن تاریخیں نقل کرنے میں کئی ایک جگہ چوک ہوئی ہے۔ ۳۲۷ صفحات پر مشتمل ہے۔ دارالمؤلفین، دیوبند نے شائع کیا ہے۔
مولانا اسیرؔ ادروی کی دیگر کتابیں:
۱۱۔ فن اسماء الرجال (۱۶۱ صفحات پر مشتمل ہے)۔ ۱۲۔ سوانح مولانا رحمت اللہ کیرانویقدس سرہ۔ ۱۳۔ اردو شرح دیوان متنبی (۵۲۶ صفحات پر مشتمل ہے)۔ ۱۴۔ تاریخ طبری کا تحقیقی جائزہ۔ ۱۵۔ تفسیروں میں اسرائیلی روایات۔ ۱۶۔ عہدِرسالت: غارِ حرا سے گنبد خضری تک۔ ۱۷۔ تبلیغی جماعت: احیاء اسلام کی عالمگیر تحریک۔ ۱۸۔ گلزارِ تعلیم۔ ۱۹۔ عقیدہ توحید اور اس کے عملی تقاضے۔ ۲۰۔ جواہرِ حدیث۔ ۲۱۔ احادیث کے جواہر پارے۔ ۲۲۔ عورت اور اسلام۔ ۲۳۔ معجم رجال البخاری۔ ۴۲۔ داستان ناتمام (خودنوشت سوانح)۔ اور چار کتابیں گُم شدہ۔ ۱۔ کمیونزم: تجربات کی کسوٹی پر۔ ۲۔ غدارانِ وطن۔ ۳۔ نشیب و فراز (افسانوں کا مجموعہ)۔ ۴۔ رودادِ قفس (مجموعہ ہائے کلام)۔
سیاسی، ملی اور دینی خدمات کا مختصر جائزہ:
مدرسی مفتاح العلوم مئو میں مولانا عبداللطیف نعمانی قدس سرہ کی شاگردی، یہ مشہور کانگریسی رہنماء تھے۔ احیاء العلوم مبارکپور میں مولانا شکر اللہ مبارکپوری قدس سرہ کی شاگردی، یہ بھی پکے کانگریسی تھے، مدرسہ شاہی مرادآباد میں قیام کے دوران سید الملت مولانا محمد میاں دیوبندی قدس سرہ کی شاگردی، اور دل میں ویسے ہی شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیقدس سرہکی بے پناہ عقیدت۔ انگریزوں کی سامراجیت کے خلاف اپنے استاتذہ جیسا ہی جذبہ رکھتے۔ اگست ۱۹۴۲؁ء میں جب انگریزوں نے بہت سے مجاہدینِ آزادی کو گرفتار کیا۔ ۹؍ اگست ۱۹۴۲؁ء کی صبح کو مولانا محمد میاں دیوبندیؒ اپنے شاگردوں میں حریت کا صور پھونک کر، ایک غیرمعین مدت کے لئے جیل چلے گئے۔ مولانا اسیرؔ ادروی نے انگریزوں کے خلاف جلوسوں میں حصہ لیا ۔ اس زمانے میں ’’مطالبہ پاکستان‘‘ زوروں پر تھے۔ مولانا اسیرؔ اپنے بیشتر اساتذہ کی طرح اس نظریہ کے مخالف تھے۔ آپ کی اہلیہ کے حقیقی چاچا مولانا محمد امین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اصلاحی تعلق مولانا وصی اللہ صاحب فتحپوری رحمۃ اللہ علیہ سے تھا۔ حکیم الامت کا یہ سارا کارواں کٹر لیگی تھا۔ مولانا محمد امین صاحب اگرچہ امام العصر کشمیری ؒہ کے شاگرد تھے، سیاسی نظریات میں ان سے مختلف۔ بزرگانِ جمعیت کے خلاف ہرزہ سرائیاں اور الزام تراشی۔ شیخ الاسلام مدنی ؒ حد سے زیادہ حملے۔ مولانا اسیرؔ ادروی پر ظاہر ہے اس کا فطری اثر پڑا۔ مولانا اسیرؔ اس روحانی اذیت سے نہیں گھبرائے، آلام و مصائب سے بھرپور سفر طے کیا۔ جب آزادیٔ وطن کی خبر سنی تو اپنے دل کے جذبات کو نہ روک سکے۔ نظم لکھ ڈالی، کچھ اشعارملاحظہ کیجئے:
لطفِ قدرت تجھ کو آخر آسرا دینا پڑا
قسمتِ ہندوستاں پر مسکرا دینا پڑا
اسی نظم کا آخری شعر:
کل سر مغرور جس کا تھا فراز عرش پر
آج ذلت سے اسیرؔ اس کو جھکا دینا پڑا
آزادی کے ایک سال بعد تک کانگریس سے وابستہ رہے۔ کانگریس کے تمام دائیں بازو کے لیڈران مستعفی ہوئے۔ مولانا اسیرؔنے بھی استعفی دیا۔ سوشلسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ اس پارٹی میں اختلاف رونما ہوا اور اسی کے بطن سے’’ پرجا سوشلسٹ پارٹی‘‘ نے جنم لیا۔ مولانا کے ہاں کی کمیٹیاں اسی سے مطلق ہوگئیں۔ آزادی کے بعد جب ملک بھر میں فسادات ہورے تھے تو مولانا اسیرؔ ادروی نے دیگر بڑے مشائخ کے نقشِ پا پہ چل کر قومِ مسلم کو مایوسی سے باہر نکالا۔
۱۹۵۴؁ء میں دارالسلام نام سے ادری میں ایک مدرسہ کی نیو ڈالی۔ اپنے رفیق مولانا محمد قاسمی قدس سرہ کے انتقال کے بعد تنہا رہ گئے۔ بعد میں مدرسہ کا الحاق الہ آباد بورڈ سے کروادیا۔ قریب پندرہ سولہ برسوں تک ادری میں ہی کئی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۷۲؁ء میں جب اعظم گڈھ کے مغربی حصہ میں دو مواضعات ’نوناری‘ اور ’سجتی‘ میں فساد ہوئے بلکہ دونوں گاؤں پر شرپسند ہندو ٹوٹ پڑے اور سب کچھ لوٹ کر گھروں میں آگ لگادی۔ اس دوران مولانا سید اسعد مدنی قدس سرہ وہاں پہنچے۔ ریلیف کے کام میں مولانا اسیرؔ کی بھی خدمات رہیں۔ بعد ازاںمولانا اسیرؔ کو صوبائی جمعیت کے دفتر کا انچارج بنادیا گیا۔ چار برس تک لکھنؤ میں جمعیت کے دفتر سے وابستہ رہے۔ تیس پینتیس ضلعوں میں جمعیتہ علماء کو بیدار کیا۔ دفتر کو ایک ویران کھنڈرسے نکال کر قلبِ شہر امین آباد میں شاہراہِ عام پر ایک خوبصورت سہ منزلہ شاندار عمارت میں منتقل کیا۔ ۴؍ فروری ۱۹۷۸؁ء کو جامعہ اسلامیہ بنارس تشنہ گانِ علم کی پیاس بجھانے پہنچے اور عرصہ تک اسی سے وابستہ رہے۔ آپ نے اپنی بیشتر کتابیں اپنے قیامِ بنارس کے دوران ہی لکھیں۔ اب صاحب فراش ہیں اور اپنے وطن ادری میں ہیں۔ خدائے تعالیٰ ان کا سایہ سلامت رکھے۔ آمین!
________________ 
تاریخ وفات: ٧ شوال ١٤٤٢ھ ٢٠ مئی ٢٠٢١ء بروز جمعرات (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/05/blog-post_20.html


Monday, 10 May 2021

ملت ابراہیم کو حنیف کیوں فرمایا؟

ملت ابراہیم کو حنیف کیوں فرمایا؟
معزز علمائے حضرات سے اپیل ہے کہ میرے معروض کو غور سے سوچئے اور سمجھئے. کہنا یہ ہے کہ اللہ نے بہت سارے رسل اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کو بھیجا ہے پس کسی رسول اور نبی بناکر اور کسی کو صرف نبی بناکر بھیجا. اور فرق اعتباری کی حیثیت رسول اعلی ہے کیونکہ وہ شارع بھی اور مؤسس بھی ہے. انمیں سے اول رسول نوح علیہ السلام پھر داؤد، موسی۔ عیسی علیہما السلام ہے جن پر بڑی بڑی کتاب بھی منزل ہے اور نبی رسول سے کمتر ہے منصب کی اعتبار سے ۔ مراجعت کلام یہ ہے کہ ہمارے رسول خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع اعلی اور افضل درجے کا ہونا چاہئے تھا جو کہ رسول کی اتباع میں ہے نہ کہ نبی کی اتباع میں اور حضرت ابراہیم علیہ صحیفے والے ہے  رسول بھی نہیں اور مستقل کتاب بھی منزل نہیں ہے باوجود یہ سب نہ ہونے پر بھی ملت ابراہیم کو حنیف کیوں فرمایا جس سے واضح ہوا ہمارے اتباع ادنی ہے نہ کہ اعلی؟
براہ کرم راہ صواب فرمائے۔ مشکور ہونگے
الجواب وباللہ التوفیق:
اس طرح کا اشکال یہ تفسیر سے نا واقفیت کی بناء پر ہوا۔
کتب تفسیر میں سے کسی بھی کتاب میں ان آیات کی تفسیر دیکھیں ان شاءاللہ اعتراض دور ہوگا۔ 
جو ملت ابراہیمی کی اتباع کا حکم ہے اور اس کو حنیف کہنے کے کا مطلب جو ہے وہ یہ کہ یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرتے تھے کہتے کہ جب آپ ملت ابراہیمی کی اتباع کا دعوی کرتے ہو (اس لئے کہ آپ بحیثیت توحید ملت ابراہیمی پر ہی تھے ملت ابراہیمی ہی کو مانتے تھے توحید کی حیثیت سے) تو ان کی شریعت میں تو اونٹ کا گوشت حرام تھا تو آپ کیوں کھاتے ہو یہ یہودیوں کی طرف سے اعتراض تھا تو اس کے جواب میں اللہ نے آیت نازل فرمائی فاتبعوا ملۃ ابراھیم حنیفا یعنی ان کی شریعت میں بھی یہ چیزیں حرام نہیں تھی حلال تھی لہذا تم بھی ائے یہود ان کی اتباع کرو اور ان چیزوں کو حرام مت کہو تو اس خاص چیز میں یہود کو کہا گیا کہ ان کی ملت کی پیروی کرو۔
اور پھر اس ملت کی ایک صفت بیان فرمائی کہ وہ حنیف ہے حنیف کا مطلب خالص توحید والی ملت اور خالص توحید تو ہماری اپنی شریعت میں بھی ہے یعنی یہ فرمایا کہ جس طرح وہ خالص موحد تھے آپ بھی خالص موحد رہئے۔
تو توحید خالص میں دونوں برابر ہیں چاہے وہ ملت ابراہیمی ہو یا دین محمدی ہو دونوں میں خالص توحید ہے۔
گویا صرف باعتبار توحید کے یہ کہاگیا کہ ملت ابراہیمی کی اتباع کرو کہ جیسے وہ پکے موحد تھے ویسے ہی تم بھی پکے موحد بنو اور توحید کے اندر دونوں شریعت میں کوئی فرق نہیں ہے.
لہذا یہ کہنا کہ ادنی کا اتباع ہے اعلی کا نہیں ہے یہ درست نہیں اس لیے اتباع بیک وقت دونوں کا ہے فرق اس وقت ہوتا جب دونوں شریعت میں الگ الگ چیز ہوتی۔ 
مستفاد ہدایت القرآن ج ١ ص ٤٤٨ 
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب 
بندہ عبدالرشید قاسمی محمودی شولاپوری 
٢٨رمضان المبارک ١٤٤٢ھ
دارالافتاء جامعہ محمودیہ دیوبند (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
http://saagartimes.blogspot.com/2021/05/blog-post.html?m=1