مولانا نظام الدین اسیرؔ ادروی: حیات اور کارنامے
مولانا نظام الدین اسیرؔ ادروی، اب رحمۃ اللہ علیہ ھوگئے، عاقب انجم ؔ عافی نے ستمبر 19, 2019 میں آپ کے حیات و خدمات پر ایک مضمون لکھا تھا، وہ پیش خدمت ہے:
-----------------------------------------
مولانا نظام الدین اسیرؔ ادروی: حیات اور کارنامے
عاقب انجم ؔ عافی
بانی و صدر:’’ محدث جونپوری اکیڈمی‘‘
متعلم شعبئہ اسلامیات’’ جامعہ ملیہ اسلامیہ‘‘۔
پھولوں کے لئے سینہ ہمارا ہی سپر ہے
اس صحنِ چمن کے درو دیوار ہمیں ہیں۔
ملت اسلامیہ میں ماضی قریب میں ایسی یگانہ روزگار شخصیات بھی گزری ہیں جنہوںنے اپنے وقت میں کارہائے نمایاں انجام دیے لیکن ہمارے ہی مؤرخین نے ان کا نام تاریخ کے صفحات تک سے خارج کردیا، خدا جانے کیا وجہ رہی ہوگی۔ان شخصیات میں مولانا عبدالقدیر دیوبندی، مولانا نظام الدین اعظمی رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔ کچھ ایسی ہی شخصیات عصرِ حاضر میں ہیں کہ وہ گویا متبحر عالم ہیں، ادیب و شاعر ہیں، درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں لیکن لوگوں کی سماعت سے ان کے نام ندارد۔ ایسا ہی ایک نام مولانا نظام الدین اسیرؔ ادروی صاحب کا ہے۔ مولانا اسیرؔ ادروی صاحب مدظلہ بیک وقت کئی صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ ایک باکمال انشاء پرداز اور مصنف۔ شاعر اور ادیب و سوانح نگار اور مؤرخ۔
پیدائش اور تعلیم
مولانا نظام الدین اسیرؔ ادروی اپنی سنِ ولادت ۱۳۴۵ھ یعنی ۱۹۲۶ء قرار دیتے ہیں، گو یہ یقینی نہیں۔ اپنی خودنوشت سوانح ’’داستان ناتمام‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ جب ہمارے محلہ کوٹ کی مسجد کی بنیاد پڑی تھی اور تعمیر ہورہی تھی، اسی سال ان کی بھی ولادت ہوئی‘۔ مسجد پر ۱۳۴۵ھ کندہ دیکھا تو اسی کو اپنا سنِ ولادت مان لیا۔ جائے پیدائش ’’ادری‘‘ ہے، یہ اب ضلع مئو، اتر پردیش میں آتا ہے۔خاندانی نام’’نظام الدین‘‘ ۔ آپ کے والد شیخ عبد الکریم مرحوم اپنے وقت میں پڑھے لکھے لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ مولانا اسیرؔ ادروی صاحب کی مکتبی تعلیم اپنے والدین کے ذیرِسایہ ہوئی۔ جب ’’بغدادی قاعدہ‘‘، ’’پارہ عم‘‘ اور ’’پارہ الم‘‘ پڑھ چکے تو ادری کے ہی ’’مدرسہ فیض الغرباء‘‘ میں داخل کردیئے گئے۔ اس وقت اس مدرسہ کے واحد استاد حضرت اقدس مولانا امام الدین پنجابی قدس سرہ کے فرزندِ ارجمند ’’مولانا محمد زمان خاں شاہ پوری‘‘ قدس سرہ تھے۔ اس مدرسہ میں رہ کر مولانا اسیرؔ ادروی نے قرآن پاک کے ساتھ ساتھ اردو کی بھی کچھ کتابیں پڑھ لیں۔ جب عمر کے نو سال گزرے تو مدرسہ مفتاح العلوم مئو میں داخل کردیا گیا، ان کے والد کے محدث العصر مولانا حبیب الرحمن اعظمی قدس سرہ سے مراسم تھے، تو ان کے سپرد کردیا۔ نانیہال بھی مئو میں ہی واقع تھا، تو صرف تعلیمی اوقات میں مدرسہ آتے۔
مفتاح العلوم میں آپ کے استاذ فارسی منشی ظہیر الحق نشاط سیمابی تھے، وہ خود کو سیماب اکبر آبادی کا شاگرد بتلاتے۔ ان سے مولانا اسیرؔ ادروی نے ’’اخلاق محسنی‘‘، ’’یوسف زلیخا‘‘ ’’سکندر نامہ‘‘ اور ’’انوارِ سہیلی‘‘ جیسی کتابیں پڑھیں۔ دوسرے استاذ مولوی محمد یحیٰ صاحب مرحوم تھے۔ ان سے ’’القراتہ الراشدہ‘‘ اور’’دروس الادب‘‘، ’’میزان منشعب‘‘، ’’نحو میر‘‘، ’’پنج گنج‘‘، ’’فصول اکبری‘‘ اور ’’علم الصیغہ‘‘ جیسی کتابیں پڑھیں۔ تیسرے استاذ مولانا عبداللطیف صاحب نعمانیؒ تھے، ان سے ’’شرح تہذیب‘‘ پڑھی۔ چوتھے استاذ بلکہ سرپرست محدث العصر مولانا حبیب الرحمن اعظمی قدس سرہ العزیز تھے، جو وہاں کے صدرالمدرسین اور شیخ الحدیث تھے۔ مولانا اسیرؔ ادروی نے مفتاح العلوم میں رہ کر ناظمِ مدرسہ مولانا محمد ایوب صاحب اعظمیؒ سے بھی استفادہ حاصل کیا۔ جب مفتاح العلوم میں مولانا اسیرؔ ادروی کو چار سال ہوچکے، اور ’’شرح جامی‘‘ جیسی کتابیں پڑھ چکے تو ادری کے ایک دو لڑکوں کے ہمراہ مدرسہ سے بھاگ گئے، اور ایک غازی پوری مدرس کے مشورہ سے غازی پور کے مدرسہ ’’چشمئہ رحمت‘‘ پہنچے، وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ کل سے گرمیوں کی دو ہفتوں تک تعطیل ہورہی ہے۔تینوں نوعمروں کے پاس جو پیسے تھے وہ غازی پور تک ختم ہوچکے تھے؟ ان تیرہ تیرہ سالہ بچوں نے عہد کرلیا کہ گھر جائیں تو کیا چہرہ دکھائیں؟ تو علی الصباح جونپور کے لئے نکلا جائے۔ ریلوے ٹریک سے ہوتے ہوتے پیدل یہ قافلہ شام ہوتے ہوتے سید پور پہنچے، پھر وہاں سے کراکت۔ کراکت سے بھی شہر جونپور تک کا سفر پیدل طے کیا۔ کیا مصائب راہ میں آئے خدائے ذوالجلال جانے اور یہ تین نوعمر نفوس!
جونپور میں تلاش کرتے کرتے مدرسہ حنفیہ مل گیا۔ مدرسہ کے استاتذہ مسلک بریلویت سے مانوس تھے۔ وہاں رہ کر مشکوٰۃ شریف اور ہدایہ پڑھی۔ مشکوٰۃ صدر مدرس مولانا محمد قائم فرنگی محلی سے پڑھی۔یہاں سے ہوکر مولانااحیاء العلوم مبارکپور پہنچے، اس مدرسہ کے روحِ رواں مولانا شکر اللہ مبارکپوری قدس سرہ العزیز تھے۔ آپ مشہور محدث مانوی مولانا ماجد علی جونپوری قدس سرہ اور متکلم ِ اسلام مولانا انور شاہ کشمیری قدس سرہ کے اجل تلامذہ میں سے تھے۔ مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کے جاں نثار عقیدت مند تھے۔ احیاء العلوم میں ان کے اساتذہ صدرالمدرسین مولانا مفتی محمد یسین قدس سرہ، مولانا محمد عمر صاحب مظاہری قدس سرہہ اور مولانا بشیر احمد مظاہری قدس سرہہ تھے۔ سبعہ معلقہ، دیوانِ حماسہ، مختصر المعانی وغیرہ مولانا محمد عمر صاحب سے پڑھیں اور ہدیہ سعدیہ اور میبذی کے علاوہ منطق و فلسفہ کی دیگر کتابیں مولانا بشیر احمد صاحب سے پڑھیں۔ مفتی محمد یسین صاحب سے بھی بہت سی کتابیں پڑھیں۔
احیاء العلوم مبارکپور میں دو سال قیام کے بعد مولانا نے دارالعلوم مئو کی جانب قدم بڑھایا۔ داخلہ کا امتحان صدر المدرسین قاری ریاست علی صاحب قدس سرہنے لیا۔ دار العلوم مئو میں مشکوۃ شریف مولانا عبدالرشید الحسینی سے پڑھی، جلالین شریف قاری ریاست علی صاحب سے۔ دار العلوم مئو سے کچھ وجوہ سے اخراج ہوا اور مولانا دارالعلوم دیوبند کی جانب چل پڑے۔اس وقت دارالعلوم میں ناظمِ تعلیمات اور ناظمِ امتحان شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہی قدس سرہ تھے۔ انہوں نے مولانا اسیرؔ کا امتحان لیا، اور آخر سنادیا کہ داخلہ نہیں ہوگا۔ مولانا ادریس صاحب جو امام العصر شاہ کشمیریقدس سرہ کے مکان پر مقیم تھے، انہوں نے بلاکر فرمایا کہ ’جامعہ اسلامیہ ڈابھیل‘ کا رُخ کرلیں، سارے اخراجات ہمارے ذمہ ہوں گے۔ اتنے لمبے سفر کے لئے مولوی صاحب کہاں تیار تھے۔دوسرے دن ان اعظمی طلبہ کا مشورہ ہوا جن کا داخلہ دارالعلوم میں رد ہوا ۔ حدیث کہاں اچھی پڑھائی جاتی ہے؟ دارالعلوم دیوبند میں شیخ الاسلام مدنی قدس سرہ کا درسِ ترمذی شریف اور حضرت اس وقت مرادآباد جیل میں تھے۔ مظاہر علوم سہارنپور میں ابوداؤد شریف اور مدرسہ شاہی مرادآباد میں فخرالمحدثین مولانا سید فخر الدین احمد قدس سرہ کا درسِ بخاری شریف ملک بھر میں مشہور ہے۔ حضرت مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے ان عقیدت مندوں نے مظاہر علوم پرمدرسہ شاہی مرادآباد کو ترجیح دی۔ مظاہر علوم میں حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کے خیالات کا فوالادی پنجہ تھا، اور مرادآباد میں مولانا سید فخر الدین احمد حضرت مدنی رحمہم اللہ کے ہم خیال تھے۔ دارالعلوم دیوبند سے رُخصت ہوکر یہ قافلہ مرادآباد پہنچا۔ خدائے تعالیٰ کافضل کہ دورہ حدیث شریف میں داخلہ ہوا۔ مدرسہ شاہی میں اس وقت دورہ حدیث میں صرف چار کتابیں پڑھائی جاتی تھیں۔ بخاری شریف، مسلم شریف، ابوداؤد شریف اور ترمذی شریف۔ بخاری شریف اور ابوداؤد شریف کے استاذ مولانا سید فخرالدین احمد قدس سرہ تھے۔ آپ حضرت شیخ الہند قدس سرہ اور علامہ انور شاہ کشمیری قدس سرہ کے علوم و معارف کے امین ہونے کے ساتھ ساتھ محدث مانوی مولانا ماجد علی جونپوری قدس سرہ کے بھی اجل تلامذہ میں سے تھے۔ مسلم شریف کا درس مولانا محمد اسمعیل سنبھلی صاحب قدس سرہ کے ذمہ تھا۔ڈاکٹر مفتی نجیب قاسمی مدظلہ آپ کے خاندان سے ہی آتے ہیں۔ ترمذی شریف کا درس حضرت سیدالملت مولانا محمد میاں دیوبندی قدس سرہ کے ذمہ تھا۔ باکمال مؤرخ اور مصنف۔ درجنوں کتابوں کے مصنف۔’’ علمائے ہند کا شاندار ماضی‘‘،’’ علمائے حق کے مجاہدانہ کارنامے‘‘، ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ وغیرہ ان کی شاہکار ہیں۔ مفتی محمود صاحب قدس سرہ آپ کے اجل تلامذہ میں سے تھے۔ ان باکمال اساتذہ سے مستفیذ ہوکر ۱۹۴۲ء میں ۷ا۔ ۱۸ سال کی عمر میں مولانا نظام الدین صاحب مدرسہ شاہی مراد آباد سے فارغ التحصیل ہوئے۔
اردو ادب اور شاعری:
اردو حلقہ میں نظام الدین اسیرؔ ادروی ایک معروف نام ہے۔ شاعری میں تخلص ’’اسیرؔ‘‘ استعمال کرتے ہیں، وجہ کیا ہے خود ہی جانتے ہیں۔ مدرسہ احیاء العلوم میں مولانا کے قیام کے دوران ہی جگرؔ مرادآبادی مرحوم کا مجموعہ کلام ’’شعلئہ طور‘‘ شایع ہوا۔ اور اصغر ؔگونڈوی کے مجموعہ ہائے کلام ’’نشاطِ روح‘‘ اور ’’سرودِزندگی‘‘ مدرسہ کی لائبریری میں موجود تھے۔ ان کے مطالعہ نے اسیرؔ کو جگایا۔ جگرؔ کے اشعار گنگناتے رہتے۔ اُدھر حضرت قاضی اطہر صاحب مبارکپوری قدس سرہ کی شاعری بامِ عروج پر تھی۔ مولانا اسیرؔ بھی لکھنے لگے، جو جی میں آیا لکھ دیا، اصلاح کسی استاذ سے نہ لی۔ گویا خود ہی استاذ ہوگئے اور دوسرے ساتھیوں کی لکھی ہوئی شاعری کی اصلاح کرلیتے۔ اسی سال اسیرؔ کی پہلی نظم رسالہ ’’قائد مرادآباد‘‘ کے صدیق نمبر میں شائع ہوئی، اس رسالہ کے مدیر حضرت سیدالملت مولانا محمد میاں دیوبندی قدس سرہ تھے۔ مولانا اسیرؔ ادروی رسالہ کے صفحات پلٹتے اور اس قدر خوش ہوتے جیسے کسی نوجوان جوڑے کی پہلی اولاد ہوئی ہو۔دارالعلوم دیوبند میں جب داخلہ نہ ہوا، تو وہاں سے رخصت ہونے سے قبل حضرت شیخ الادب مولانا اعزاز علی امروہی قدس سرہ کی شان میں ایک نظم لکھ ڈالی اور دارالعلوم کے نوٹس بورڈ پر لگادی۔
آزر کے گھر پہ آگ کو گلشن بنادیا
اور اک آگ دی تو میرے گلستاں کے واسطے
مدرسہ شاہی مرادآباد میں قیام کے دوران وہاں کے طلبہ کی ایک انجمن ’’اصلاح البیان‘‘ تھی۔ مولانا اسیرؔ ادروی اس انجمن سے جاری ہونے والے رسالہ ’’البیان‘‘ کے مدیر بنادیئے گئے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب شاعری کا جنون قدرے زیادہ تھا۔ لمبی لمبی نظمیں لکھتے۔ ایک طویل نظم ’’بانگ سروش‘‘ مسدس کے فارم میں، شکوہ جواب شکوہ کے انداز پر لکھ ڈالی۔ اس نظم میں سلطنت مغلیہ سے لیکر اپنے عہد تک کی سیاسی تاریخ کا عکس پیش کیا تھا۔ اس کو خوشخط میں لکھ کر حضرت قاضی اطہر صاحب مبارکپوری قدس سرہ اور مولانا عبدالمجید قاسمی قدس سرہ سے پیش لفظ لکھوایا تھا۔ لاہور میں قاضی اطہر مبارکپوری قدس سرہکے ساتھ قیام کے دوران اردو کے مقبول و مشہور شاعر احسان دانشؔ سے ہم رقاب ہوئے۔ اور ایک مرتبہ ان سے بھی اپنی ایک غزل جو سات اشعار پر مشتمل تھی، اصلاح کروانا چاہی ۔ جواباََ دانشؔ نے اشعار دہراکر کہہ دیا کہ آپ کے اشعار میں اصلاح کی ضرورت نہیں۔ لیکن ساتھ ہی میں آٹھ نو اشعار ان ہی کی غزل کی بحر و قافیہ میں لکھوادیے۔ فرمایا کہ یہ میری جانب سے آپ کے لئے تحفہ ہے۔ بس مولانا اسیرؔ کا شاعر مزید جاگ گیا۔ ان کا شاعرانہ کمال ان کے اشعار سے خوب نظر آتا ہے، ملاحظہ ہو۔
اس قدر ہے اثرِ کیفِ بہارِ امروز
مجھ پہ کیا گزری خزاں میں یہ مجھے یاد نہیں
داغ تو اب بھی ہیں سینے میں ہزاروں لیکن،
تیر کس کے تھے کماں میں، یہ مجھے یاد نہیں
طنز و تعریض زمانے کی تو ہے یاد مگر،
زہر کتنا تھا زباں میں؟ یہ مجھے یاد نہیں۔
افسانہ نگاری میں بھی مولانا اسیرؔ ادروی نے اپنے گوہر دکھائے ۔ ’’رسالہ دارالعلوم دیوبند‘‘ کے لئے چار پانچ سال تک مسلسل لکھتے رہے، رسالہ ’’کامیاب دہلی‘‘کے لکھنے والوں کی صف میںبھی شامل ہوگئے۔ پہلا افسانہ ’’اتنا‘‘، اور پھر ’’دو لاشیں‘‘، ’’نشیب و فراز‘‘ اور ’’اعترافِ شکست‘‘۔ سماجی مسائل پر ہی لکھتے۔ ’’نوائے پاکستان‘‘ لاہور میں بھی آپ کے متعدد افسانے شایع ہوئے جیسے ’’ہینڈ بیگ‘‘ اور ’’اسپتال‘‘۔ افسانوں کا مجموعہ ’’نشیب و فراز‘‘ اور مجموعہ ہائے کلام ’’رودادِ قفس‘‘ گم شدہ ہیں۔
ایک بزرگ نے ان کی کھدر کے لباس اور جواہر کٹ صدری پر اپنی مجلسوں میں جو تنقید کی تو مولانا اس تنقید کے جواب مین تین بندوں پر مشتمل نظم ’’نکتہ چیں سے‘‘ لکھ ڈالی۔
میرے لباس پر تو نے جو نکتہ چینی کی خدا گواہ ہے مجھ کو کوئی ملال نہیں
نگاہ نکتہ رسی جس کی ہو فلک پیما اسے نمود و نمائش کا کچھ خیال نہیں
ہر ایک بات روا ہے جہاں میں لیکن کسی کی ذات پہ تہمت مگر حلال نہیں
یہ کلام بھی نوائے پاکستان کے صفحہ اول پر جلی قلم سے شایع کیا تھا۔ مولانا نے بیسیوں سال شاعری کی، غزلیں اور نظمیں لکھیں اور قطعات سبھی کچھ لکھے۔ کچھ بھی محفوظ نہیں۔ مشاعروں میں کبھی نہیں جاتے ۔ خود ہی افسوس کرتے کہ ’’ایک ضخیم مجموعہ کلام رودادِ قفس کے نام سے مرتب کیا تھا۔ خدا جانے مسودہ کیا ہوا، زمین نگل گئی یا آسمان نے اچک لیا۔ یا ملہمِ غیبی نے اپنے الہامات واپس لیکر سردخانے میں ڈال دیا۔ اس کا ایک ورق بھی میرے پاس نہیں‘‘۔
مولانا اسیر ؔ ادروی مدظلہ نے اپنی کتابوں کے ذریعہ بھی اردو زبان کی بیش بہا خدمت کی ہے۔ آپ درجنوں تاریخی کتابوں کے مصنف ہیں۔ دار العلوم دیوبند سے وابستہ کئی ایک مشائخ کی سوانح عمریاں لکھ کراردو کی اس صنف کو بلندیاں بخشی ہیں۔ آپ کی کتابیں کچھ دستیاب ہیں، کئی ایک نادر و نایاب۔ کتابوں کی فہرست درج ذیل ہے۔
۱۔ ’’افکارِ عالم: فکرِ اسلامی کی روشنی میں‘‘۔ دو جلدوں پر مشتمل مولانا کے مقالات کا مجموعہ ہے۔ دونوں جلدیں ۸۲۹ صفحات میں سمائی ہوئی ہیں۔ شیخ الھند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۲۔ ’’تحریکِ آزادی اور مسلمان‘‘۔ جنگِ آزادی میں مسلمان علماء اور عوام کی قربانیوں پر مشتمل ایک مختصر انسائیکلوپیڈیا ہے۔ ۳۵۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتب خانہ حسینیہ دیوبند نے شائع کیا ہے۔ دراصل یہ کتاب ان ہی کی’’ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا کردار‘‘کا ترمیم اور اضافہ شدہ ایڈیشن ہے۔ امریکن کانگریس نے واشنگٹن کی پچاس لائبریریوں کے لئے اس کے نسخے بھی خریدے۔’’ہندوستان کی جنگِ آزادی میں مسلمانوں کا کردار‘‘ قیامِ لکھنؤ کے دوران لکھی تھی۔ اورمولانا وحیدالزمان کیرانوی قدس سرہ نے اس کو شائع کیا تھا۔ یہ کتاب مولانا اسیرؔ کی پہلی مطبوعہ کتاب تھی۔ اس کتاب پر مولانا کو’’اترپردیش اردو اکیڈمی‘‘ نے ایک ہزار روپے کا انعام دیا تھا۔
۳۔ ’’دارالعلوم دیوبند: احیٔا اسلام کی عظیم تحریک‘‘۔ مشایخِ دیوبند کی علمی، سیاسی اور دیگر خدمات کے متعلق ۴۷۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتب خانہ حسینیہ دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۴۔’’ دبستانِ دیوبند کی علمی خدمات‘‘۔ ۱۸۲ صفحات پر مشتمل معلومات کا خزینہ ہے۔ فکرِ دیوبند سے وابستہ مشایخ کی علمی خدمات کا جائزہ بھی ہے، اور مختصر تاریخ بھی۔تفسیر وحدیث سے متعلق مشاہیرِ دیوبند کی کتب پر تبصرہ،’ ترجمہ شیخ الہند‘ سے شروع کرکے ڈاکٹر محمد مصطفی اعظمی قدس سرہ کی دراسات فی الحدیث النبوی‘ تک، قریب ۱۵۰سے زائد کتب پر تبصرہ ہے۔ دارالمؤلفین دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۵۔ ’’حجتہ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی: حیات اور کارنامے‘‘۔ بانیٔ دارالعلوم دیوبند کی سوانح حیات ہے۔ ۴۲۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ شیخ الھند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۶۔’’ مولانا رشید احمد گنگوہی: حیات اور کارنامے‘‘۔ امامِ ربانی قدس سرہ کی سوانح حیات ہے۔ ۴۱۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ شیخ الھند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۷۔’’ حضرت شیخ الھند: حیات اور کارنامے‘‘۔ مجاہد آزادی۔ اسیرِمالٹا۔ جانشین امام نانوتویقدس سرہ، مولانا محمود الحسن دیوبندی قدس سرہکی سوانح حیات ہے۔ ۳۸۱ صفحات پر مشتمل ہے۔ شیخ الھند اکیڈمی، دارالعلوم دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۸۔’’ مآثر شیخ الاسلام‘‘۔ بطلِ حریت۔ جانشین شیخ الھند قدس سرہ۔ اسیرِمالٹا۔ مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہ کی سوانح حیات ہے۔ ۴۹۹ صفحات پر مشتمل ہے۔ دارالمؤلفین دیوبند نے شائع کیا ہے۔
۹۔ ’’ولی و شیخ: مولانا امام الدین پنجابی‘‘۔ بانی دارالعلوم مئو۔ ایک عظیم مصلح۔ مولانا امام الدین پنجابی قدس سرہ کی سوانح حیات ہے۔ ۹۳ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب نایاب ہے۔ قمرالباری، ایم ایس سی، دیوریا نے ۲۰۰۲ء میں شائع کی تھی۔
۱۰۔ تاریخ جمعیت علماء ہند۔ دو جلدوں پر مشتمل جمعیت علمائے ہند کی تاریخ ہے۔ جمعیت سے ہی شائع ہوئی ہے۔ فی الحال کتاب نایاب ہے۔
۱۱۔ ’’کاروانِ رفتہ یعنی تذکرہ مشاہیرِ ہند‘‘۔ اپنی نوعیت کی پہلی کتاب ہے۔ لیکن تاریخیں نقل کرنے میں کئی ایک جگہ چوک ہوئی ہے۔ ۳۲۷ صفحات پر مشتمل ہے۔ دارالمؤلفین، دیوبند نے شائع کیا ہے۔
مولانا اسیرؔ ادروی کی دیگر کتابیں:
۱۱۔ فن اسماء الرجال (۱۶۱ صفحات پر مشتمل ہے)۔ ۱۲۔ سوانح مولانا رحمت اللہ کیرانویقدس سرہ۔ ۱۳۔ اردو شرح دیوان متنبی (۵۲۶ صفحات پر مشتمل ہے)۔ ۱۴۔ تاریخ طبری کا تحقیقی جائزہ۔ ۱۵۔ تفسیروں میں اسرائیلی روایات۔ ۱۶۔ عہدِرسالت: غارِ حرا سے گنبد خضری تک۔ ۱۷۔ تبلیغی جماعت: احیاء اسلام کی عالمگیر تحریک۔ ۱۸۔ گلزارِ تعلیم۔ ۱۹۔ عقیدہ توحید اور اس کے عملی تقاضے۔ ۲۰۔ جواہرِ حدیث۔ ۲۱۔ احادیث کے جواہر پارے۔ ۲۲۔ عورت اور اسلام۔ ۲۳۔ معجم رجال البخاری۔ ۴۲۔ داستان ناتمام (خودنوشت سوانح)۔ اور چار کتابیں گُم شدہ۔ ۱۔ کمیونزم: تجربات کی کسوٹی پر۔ ۲۔ غدارانِ وطن۔ ۳۔ نشیب و فراز (افسانوں کا مجموعہ)۔ ۴۔ رودادِ قفس (مجموعہ ہائے کلام)۔
سیاسی، ملی اور دینی خدمات کا مختصر جائزہ:
مدرسی مفتاح العلوم مئو میں مولانا عبداللطیف نعمانی قدس سرہ کی شاگردی، یہ مشہور کانگریسی رہنماء تھے۔ احیاء العلوم مبارکپور میں مولانا شکر اللہ مبارکپوری قدس سرہ کی شاگردی، یہ بھی پکے کانگریسی تھے، مدرسہ شاہی مرادآباد میں قیام کے دوران سید الملت مولانا محمد میاں دیوبندی قدس سرہ کی شاگردی، اور دل میں ویسے ہی شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیقدس سرہکی بے پناہ عقیدت۔ انگریزوں کی سامراجیت کے خلاف اپنے استاتذہ جیسا ہی جذبہ رکھتے۔ اگست ۱۹۴۲ء میں جب انگریزوں نے بہت سے مجاہدینِ آزادی کو گرفتار کیا۔ ۹؍ اگست ۱۹۴۲ء کی صبح کو مولانا محمد میاں دیوبندیؒ اپنے شاگردوں میں حریت کا صور پھونک کر، ایک غیرمعین مدت کے لئے جیل چلے گئے۔ مولانا اسیرؔ ادروی نے انگریزوں کے خلاف جلوسوں میں حصہ لیا ۔ اس زمانے میں ’’مطالبہ پاکستان‘‘ زوروں پر تھے۔ مولانا اسیرؔ اپنے بیشتر اساتذہ کی طرح اس نظریہ کے مخالف تھے۔ آپ کی اہلیہ کے حقیقی چاچا مولانا محمد امین صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اصلاحی تعلق مولانا وصی اللہ صاحب فتحپوری رحمۃ اللہ علیہ سے تھا۔ حکیم الامت کا یہ سارا کارواں کٹر لیگی تھا۔ مولانا محمد امین صاحب اگرچہ امام العصر کشمیری ؒہ کے شاگرد تھے، سیاسی نظریات میں ان سے مختلف۔ بزرگانِ جمعیت کے خلاف ہرزہ سرائیاں اور الزام تراشی۔ شیخ الاسلام مدنی ؒ حد سے زیادہ حملے۔ مولانا اسیرؔ ادروی پر ظاہر ہے اس کا فطری اثر پڑا۔ مولانا اسیرؔ اس روحانی اذیت سے نہیں گھبرائے، آلام و مصائب سے بھرپور سفر طے کیا۔ جب آزادیٔ وطن کی خبر سنی تو اپنے دل کے جذبات کو نہ روک سکے۔ نظم لکھ ڈالی، کچھ اشعارملاحظہ کیجئے:
لطفِ قدرت تجھ کو آخر آسرا دینا پڑا
قسمتِ ہندوستاں پر مسکرا دینا پڑا
اسی نظم کا آخری شعر:
کل سر مغرور جس کا تھا فراز عرش پر
آج ذلت سے اسیرؔ اس کو جھکا دینا پڑا
آزادی کے ایک سال بعد تک کانگریس سے وابستہ رہے۔ کانگریس کے تمام دائیں بازو کے لیڈران مستعفی ہوئے۔ مولانا اسیرؔنے بھی استعفی دیا۔ سوشلسٹ پارٹی میں شامل ہوگئے۔ اس پارٹی میں اختلاف رونما ہوا اور اسی کے بطن سے’’ پرجا سوشلسٹ پارٹی‘‘ نے جنم لیا۔ مولانا کے ہاں کی کمیٹیاں اسی سے مطلق ہوگئیں۔ آزادی کے بعد جب ملک بھر میں فسادات ہورے تھے تو مولانا اسیرؔ ادروی نے دیگر بڑے مشائخ کے نقشِ پا پہ چل کر قومِ مسلم کو مایوسی سے باہر نکالا۔
۱۹۵۴ء میں دارالسلام نام سے ادری میں ایک مدرسہ کی نیو ڈالی۔ اپنے رفیق مولانا محمد قاسمی قدس سرہ کے انتقال کے بعد تنہا رہ گئے۔ بعد میں مدرسہ کا الحاق الہ آباد بورڈ سے کروادیا۔ قریب پندرہ سولہ برسوں تک ادری میں ہی کئی خدمات انجام دیتے رہے۔ ۱۹۷۲ء میں جب اعظم گڈھ کے مغربی حصہ میں دو مواضعات ’نوناری‘ اور ’سجتی‘ میں فساد ہوئے بلکہ دونوں گاؤں پر شرپسند ہندو ٹوٹ پڑے اور سب کچھ لوٹ کر گھروں میں آگ لگادی۔ اس دوران مولانا سید اسعد مدنی قدس سرہ وہاں پہنچے۔ ریلیف کے کام میں مولانا اسیرؔ کی بھی خدمات رہیں۔ بعد ازاںمولانا اسیرؔ کو صوبائی جمعیت کے دفتر کا انچارج بنادیا گیا۔ چار برس تک لکھنؤ میں جمعیت کے دفتر سے وابستہ رہے۔ تیس پینتیس ضلعوں میں جمعیتہ علماء کو بیدار کیا۔ دفتر کو ایک ویران کھنڈرسے نکال کر قلبِ شہر امین آباد میں شاہراہِ عام پر ایک خوبصورت سہ منزلہ شاندار عمارت میں منتقل کیا۔ ۴؍ فروری ۱۹۷۸ء کو جامعہ اسلامیہ بنارس تشنہ گانِ علم کی پیاس بجھانے پہنچے اور عرصہ تک اسی سے وابستہ رہے۔ آپ نے اپنی بیشتر کتابیں اپنے قیامِ بنارس کے دوران ہی لکھیں۔ اب صاحب فراش ہیں اور اپنے وطن ادری میں ہیں۔ خدائے تعالیٰ ان کا سایہ سلامت رکھے۔ آمین!
________________
تاریخ وفات: ٧ شوال ١٤٤٢ھ ٢٠ مئی ٢٠٢١ء بروز جمعرات (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2021/05/blog-post_20.html