تطہیر کلام اور قوت الإستماع
ہم سب عقلاء و متکلمین کو کچھ عرصہ کے بعد تطہیر کلام کے لئے ضرور وقت نکالنا چاہے. تطہیر کلام سے مراد ہے اپنی گفتگو کو پاک صاف کیا جائے۔ عموماً جیسے ملبوسات استعمال سے میلے کچیلے ہو جاتے ہیں ایسے ہی کلام میں ناشائستہ، مبہم اور ناموزوں الفاظ کا جمع ہو جانا عادی ہے۔ اور بالکل ایسے ہی کبھی افکار پر بھی گرد پڑجاتی ہے۔
اس کام کو سر انجام دینے کے لئے ضروری ہے. انسان ایک اچھا سامع ہو تاکہ خود سازی کر سکے۔ خاموش رہے اور دوسروں کو سنے تاکہ جب بولے تو پھر اس کا کلام سحر انگیز ہو۔ اور تمام آلائشوں سے پاک ہو۔
سننے کی طاقت:
اسے عربی میں قوت الإستماع جبکہ انگریزی میں (listening power) کہتے ہیں یہ ایک عام فہم اصطلاح ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اعلیٰ معیار کی استماع سے مراد توجہ، انہماک اور غیر فیصلہ کن رویہ ہوتا ہے۔ اور دوسروں کو سننا نہ صرف سننے والے کی فکر میں وسعت پیدا کرتا ہے بلکہ
🔸️ 1۔ بولنے والوں کے جذبات اور رویوں کو بھی مثبت طور پر تشکیل دے سکتا ہے۔ یعنی ان میں توازنِ فکری پیدا کرے گا۔
🔸️ 2۔ الفاظ کے صحیح چناؤ میں مدد کرے گا۔
وہ فریق نہیں بنیں گے۔
🔸️ 3۔ مقررین و متکلمین اچھے سامعین کے ساتھ زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں۔
🔸️4۔ بولنے والوں کو کسی بھی دلیل کے دونوں پہلوؤں کو جانچنے میں مدد ملتی ہے جسے ہم "رویہ کی پیچیدگی" attitude) complexity) کہتے ہیں۔
🟥 المختصر جہاں انسان کی قوت الإستماع اعلی درجے کی ہو وہ مختلف موضوعات پر بات کرنے میں سماجی اضطراب (social anxiety) سے بچا رہتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ رویہ میں شدت (attitude extremity) میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس کے کام میں سکون (relaxation) پیدا کرتا ہے۔ سننے والے کو خود آگاہی (self awareness) زیادہ ہوتی ہے۔ جس سے وہ اپنی خوبیوں اور خامیوں کو دور کرسکتا ہے۔ سننے والے میں غیردفاعی رویہ (non defensive manner) پیدا ہوتا ہے۔
⭕ الإستماع کی کمی کے اسباب:
🔹️ 1۔ جو دوسروں کو سننا پسند نہیں کرتا شاید وہ اپنے آپ کو مکمل سمجھتا ہے۔ یا اسے اپنی عزت کم ہوتے نظر آتی ہے۔ جبکہ واضح ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی من حیث الکلام و انسان مکمل نہیں۔ خواہ کوئی سپیکر ہو یا کوئی شاعر اسے ہر صورت خوبصورتی و ارتقاء کی ضرورت ہوتی ہے۔
🔹️ 2۔ تعریف پسند admiration
لوگ عموماً اچھے متکلم یا سپیکر نہیں بن سکتے۔ واہ واہ کا عادی ہونا بھی ایک فریب ہے۔
🔹️ 3۔ کسی کو سننے میں وقت اور صبر درکار ہوتا ہے جو ہم میں سے ہر ایک سمجھتا ہے کہ ہمارے پاس نہیں ہے۔ مگر خیال رکھیں وقت بھی پیسے کی طرح اہم اثاثہ ہے جب آپ اسے درست صرف کریں گے تو پھر یہ اچھے مستقبل کی ضمانت دے گا۔
🔹️ 4۔ تبدیلی کا خوف:
جب آپ کو اپنا کلام خود پسند آ جائے اور اس انداز و فکر کے خود ہی جال میں پھنس جائیں تو پھر تطہیرِ کلام ممکن نہیں۔ اس وقت دوسرے کو سننا ایسے ہی ہے جیسے خود کو غلط سمجھ کر تبدیلی کی ضرورت ہو۔ لفظ سیکھیں اور جملہ نئی تراکیب سیکھیں۔ خود میں شائستگی لائیں۔ ملائم بات کریں۔ اس سے خوفزدہ نہ ہوں کہ بدلاؤ آپ کی شخصیت کو خراب کر دے گا۔ بلکہ یہ تو ارتقاء ہے۔
🔹️ 5۔ دوسروں کو سنیں خود اپنی زبان کی مٹھاس کے لئے اور سننے کا بہانہ نہ کریں
Do not pretend to listen
اصل میں یہ بہانہ کرنا کہ میں سن رہا ہوں جبکہ آپ کا خیال کہیں اور محوِ گردش ہے یہ وقت کے ضیاع کا سبب ہے۔
⭕ خلاصہ کلام:
ہم عموماً دوسروں کو سمجھنے اور سمجھنے کے لئے گفتگو یا بات چیت کرتے ہیں۔ چنانچہ اگر ہم بات کر رہے ہیں اور کوئی ہماری بات نہیں سن رہا ہے تو اس کا مطلب ہے ہم مؤثر طریقے سے بات چیت نہیں کر رہے ہیں۔ مؤثر اور حقیقی گفتگو کے تین اہم اصول ہیں۔
🔸️ پہلا: گہرائی اور انہماک سے دوسروں کو سننا۔
🔸️ دوسرا: سامع کی سطحِ عقلی کے مطابق گفتگو کی جائے.
🔸️ تیسرا: اداکاری کے بجائے سنجیدگی اور احترام کا خیال رکھا جائے ۔
❗یہ تینوں اصول دوسروں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے اور رابطہ بحال رکھنے میں معاون ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہم سب سمجھنا چاہتے ہیں۔ جب ہم کسی دوسرے شخص کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں تو ہمارا فوراً خاموش تقاضا یہ ہوتا ہے کہ دوسرے ہمیں فوراً سمجھ لیں۔ یا ہمارا موقف سمجھ لیں۔ لہذا خود سے بات شروع کرکے ایک عنوان پر اظہارِ خیال کرنا سامعین کی سماعت پر گراں گزرتا ہے۔
مگر جب آپ دوسروں کو سننے کے عادی ہوتے ہیں تو نہ صرف آپ کے پاس ایک ایسا موضوع آتا ہے جسے سامع پسند کرتا ہے بلکہ اگر آپ اپنا موقف دیں تو وہ سننے کے لئے بھی آمادہ ہوتا ہے۔
✅ اس لئے گفتارسازی میں معیار قائم کرنے کے لئے لازمی ہے اچھے سامع بنا جائے۔ اس سے ہمیں معلومات بھی ملتی ہیں اور حقائق و غیر حقائق میں امتیاز کی صلاحیت بھی پیدا ہوتی ہے۔ نیز دوسرے کے انداز کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے لئے ذہن سازی اور مشق بھی ہو جاتی ہے۔
❌ضروری نہیں ہر متکلم کچھ معلومات دے رہا ہو جس کا آپ کو علم نہ ہو۔ مگر کبھی کبھی اچھے اندازِ بیان کو بھی سننا ہماری اپنی صحتِ کلام کے لئے اہم ہوتا ہے۔
⭕ فرض کیا کہ دوسرا غیرمعیاری بات کررہا ہے تو پھر ؟
🟥 یہ ایک عادی و فطری سی بات ہے دوسرا شخص ایسی باتیں کہہ سکتا ہے جو غلط تاثرات (wrong perception) تلخی(bitterness) شکایت (accusation) اور الزام تراشی ( blaming ) سے بھری ہوئی ہو سکتی ہے ۔ لہذا اگر ہم ذہن سازی کی مشق نہیں کرتے ہیں، یا ہم میں ہمدردی (compassion) اور حوصلہ نہیں ہے تو ان کے الفاظ ہم میں چڑچڑاپن (irritation)
کمزور رائے (judgement ) اور غصہ (anger)
پیدا کریں گے، اور سننے کی اپنی صلاحیت کھو دیں گے۔ یہ فطرتی امر ہے جب چڑچڑاپن یا غصہ آتا ہے تو ہم سننے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس کی مشق کرنی چاہے، تاکہ سننے کے دوران ہمارے دلوں میں ہمدردی اور دلچسپی قائم رہے۔ لہذا ہمیں پہلے خود کو تربیت دینا ہوگی تاکہ ہم دوسرے شخص کی بات سن سکیں۔ جب ہم نے دوسرے شخص کی بات کو گہرائی سے سن لیا اور دوسرے شخص کو اپنے دل کی ہر بات کا اظہار کرنے کی اجازت دے دی، تو ہمیں بعد میں موقع ملے گا کہ ہم اسے تھوڑی سی معلومات دیں جو اسے اپنا خیال درست کرنے کے لیے درکار ہو - لیکن ابھی ابتدا میں ہی نہیں۔ ابھی ہم صرف اسے سنتے ہیں، چاہے وہ شخص غلط باتیں ہی کہے۔
⭕ کیا میں اسے کافی حد تک سمجھتا ہوں؟
?Do i understand him enough
یہ ایک اہم سوال ہے جو ہر گفتگو اور رائے دینے سے پہلے ہمیں اپنے دل میں سوچنا چاہئے۔ یعنی اگر آپ کسی کو اپنے سحرِ کلام سے خوش و مسخر کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو اپنی بات کرنے سے پہلے خود سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ "کیا میں اسے کافی حد تک سمجھتا ہوں؟ اور اگر ہاں تو مطلب کس حد تک سمجھتا ہوں؟
انسان کے کئی چہرے ہوتے ہیں کچھ ایسے خیالات ہوسکتے ہیں جو آپ سے پوشیدہ رہ گئے ہوں۔ ممکن ہے کچھ فرسودہ اعتقادات بھی ہوں جسے اس نے کسی حیلہ سے اپنے لئے با معنی بنا رکھا ہو۔ بعض تخیلات مجبوری کے سبب ہوسکتے ہیں۔ اس لئے اس جہاں کا مشکل ترین کام مردم شناسی ہے۔ بس چند ایک معلومات سے دوسرے کے بارے میں خاکہ کشی کر کے اپنے کلام و تقریر سے اس میں رنگ بھرنا شروع نہیں کر دینا چاہئے۔ یہ بھی ایک حماقت ہے۔
(بقلم: مسعود حسین) (صححہ: #ایس_اے_ساگر )
http://saagartimes.blogspot.com/2023/02/blog-post_28.html?m=1