ایس اے ساگر
یوں تو دنیا بھر میں انسان کی بنائی ہوئی عظیم تعمیرات کے بیشمار نمونے بکھرے پڑے ہیں لیکن ان میں اہرام مصر ایسے نمونے تسلیم کئے جاتے ہیں جو اپنے دیکھنے والوں کو ان عظیم ہنرمندوں کی یاد دلاتے ہیں جو شاید پراسرار قوتوں کے مالک نہیں تھے، لیکن اس کے باوجود انھوں نے مصر کے لق و دق ریگستان میں کاریگری کا ایسا نمونہ پیش کیا جس کی تعمیر، ساخت اور ترتیب پر دنیا آج بھی حیران ہے۔ ماہرین آثار قدیمہ ششدر ہیں کہ مصر بھر میں اب تک کل 138 اہرام دریافت کئے گئے ہیں جنھیں اندازاً 2,630 قبل از مسیح قدیم بتایا جاتا ہے۔ البتہ قاہرہ سے باہر غزہ کے مقام موجود تین اہراموں خوفو، خافرہ اور مینکاور کا شمار دنیا کے قدیم عجائبات میں ہوتا ہے جن میں سب سے بڑا اہرام خوفو یا بادشاہ چیوپیس کا ہے.
تاکہ لوگ رکھیں یاد :
فرعون خوفو نہ تو جنگجو تھا اور نہ ہی فاتح۔ اس نے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے بھی کوئی خاص کام نہیں کیا۔ وہ قانون ساز یا عالم بھی نہیں تھا لیکن خوفو نے اس بات کا اہتمام ضرور کیا کہ ہزاروں سال گزر نے کے بعد جب ان گنت بادشاہوں اور شاہی خاندانوں کا نام مٹ جائے تو لوگ اِسے یاد رکھیں۔ یہی سوچ کر اس نے ایسا پرشکوہ مقبرہ تعمیر کیا کہ انسانی ہاتھ اس سے بہتر شاید ہی کوئی دوسرا بناسکے۔ یہی شاہکار اِسے نقش دوام دے گیا۔ خوفو کا ہرم دریائے نیل کے مغربی کنارے سے پانچ میل دور الجزیزہ جیزہ Giza گاوں کے قریب واقع ہے۔ یہ ہرم گویا ایک مصنوعی پہاڑ ہے۔ خوفو نے اسے ’اخت‘ یعنی ’عظیم الشان‘ کا نام دیا۔ یہ نام اس عمارت کی تعمیر کے پچاس صدیاں گزر نے کے باوجود ہرم پر موزوں لگتا ہے۔ خوفو کو تاریخ کا حصہ بنے پانچ ہزار سال گزر چکے۔ وہ مصر کا مشہور فرعون گزرا ہے۔ اس کا دور حکومت ۲۹۰۰ سے ۲۸۷۵ قبل از مسیح رہا۔
یوسف علیہ السلام کے دور میں تھا موجود :
مطلب یہ کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر کے وزیر کی حیثیت سے کام کیا تو یہ ہرم کافی قدیم ہو چکا تھا۔ وہ یقینا اس کے قریب سے گزرتے ہوئے اُسے دن کے وقت دمکتے اور رات کو ستاروں سے باتیں کرتے دیکھتے ہوں گے۔ ہرم کے قریب ایک معبد بھی تھا جہاں پروہت دن رات اس بادشاہ کی مناجات کیا کرتے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے دور میں یہ ہرم آج کی نسبت زیادہ اونچا تھا۔ کیونکہ گزشتہ صدیوں میں اس ہرم کے پتھرقلعہ قاہرہ اور محل تعمیر کرنے میں استعمال کر لیے گئے۔ نرم چونے کے پتھروں یا پالش کئے ہوئے گرینائٹس نے اس کی بالائی سطح کو ڈھکا ہوا تھا لیکن اب ان کابھی وجود باقی نہیں۔ اس کی ٹوٹی پھوٹی سطح آج بھی متاثر کن ہے۔ ماضی میں ہرم ۴۸۱ فٹ بلند تھا۔ اب اس کی بلندی ۴۵۵ فٹ رہ گئی ہے۔ اس کے نچلے حصے کی چوڑائی ایک سے دوسرے کونے تک ۵۶ فٹ ہے۔ اس کا رقبہ ساڑھے بارہ ایکڑ ہے۔ اس کی تعمیر میں پتھر کے ۲۳ لاکھ بلاک استعمال کئے گئے جبکہ ہر پتھر کا وزن اڑھائی ٹن کے قریب ہے۔ وقت اور انسان کے ہاتھوں شکست و ریخت کے باوجود اس کا رقبہ ۸ کروڑ ۵۰ لاکھ مربع فٹ تک پہنچتا ہے۔
عدم تحفظ کا احساس :
یہ دیوہیکل عمارت کوئی مندر نہیں کہ دیو تاوں کی عظمت کا ثبوت پیش کرے۔ یہ شاہی دربار یا دفاعی نوعیت کی عمارت بھی نہیں، محض ایک مقبرہ ہے۔ پھر بھی خوفو اپنے محل کی کھڑکیوں سے اسے تعمیر ہوتا دیکھ کر یقینا بہت خوش ہوتا ہو گا۔ تاہم خوشی کی وجہ یہ نہیں تھی کہ فن تعمیر کی محبت نے اسے یہ عظیم عمارت بنانے پر اکسایا بلکہ اس کو بنانے سے اسے احساس تحفظ ملا۔ عدم تحفظ کا یہ خوف کسی عام دشمن سے نہیں تھا کیونکہ اس کی افواج شام یا عرب سے حملہ آور ہونے والے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی تھیں۔ لیکن ایک دشمن ایسا تھا جس کیخلاف کوئی ڈھال کارگر نہ تھی۔ جسے بڑے سے بڑا عظیم لشکر بھی شکست نہیں دے سکتا تھا… اور وہ دشمن موت تھی۔ اُسے بخوبی علم تھا کہ سب انسانوں کی طرح فرعون بھی فانی ہیں۔ وہ دن قریب ہے جب اس کی تمام شان و شوکت اور جاہ و جلال ختم ہو گا اور وہ محض ایک لاش بن جائے گا۔ لیکن وہ موت کو بھی شکست دینا چاہتا تھا۔ اُسے دھوکا دینے کا ایک طریقہ تھا۔ مقدس کتابیں اس کے بارے میں بتاتی تھیں۔ یہ فارمولا چند پروہتوں کو معلوم تھا… ایسے گُر جو اتنے کارگرتھے کہ ان کی مدد سے رو ح کو جسم سے نکلنے کے بعد محفوظ کیا جا سکتا تھا۔
موت کا خوف :
قدیم مصر کی دینیات عجیب و غریب ہے جسے اس کی تمام تر پیچیدگیوں اور گہرائیوں کیساتھ شاید کبھی نہ سمجھا جا سکے۔ مصریوں کاعقیدہ تھا کہ جب تک کسی چیز کا جسم محفوظ ہے‘ تب تک دیوتا روح کو سورج کے نیچے زندہ رہنے کی اجازت دیتے ہیں۔ اسی لئے فرعون اور دوسرے عظیم لوگ اپنی لاش کو گلنے سڑنے سے بچانے کی بھرپور کوششیں کرتے۔ اس سلسلے میں عجیب و غریب طریقے استعمال کئے جاتے تھے۔ بعدازاں لاش کو ایسی جگہوں پر چھپا دیا جاتا جہاں اس کا سراغ نہ لگایا جا سکے۔ اہرام کی تعمیر کے عظیم دور میں یہ رسم تھی کہ ہرم کے وسط میں فرعون کی لاش ایسے کمرے میں رکھتے جسے ایک چٹان تراش کر بنایا جاتا۔ اپنے مقبرے کی تعمیر ہر بادشاہ کی بنیادی دلچسپی بن جاتی۔ وہ بادشاہ بنتے ہی اس کی تعمیر شروع کرتا اور اپنے دور حکومت میں جاری رکھتا۔ اس کی خواہش ہوتی کہ ہرم کی تعمیر کا کام اپنی زندگی ہی میں مکمل ہو جائے۔ یوں اُسے ابدی آرام کی جگہ مل سکتی تھی جہاں اس کا وجود کسی نہ کسی طرح باقی رہتا۔
آخرت کے سفر کا یقین :
عام طور پر لوگوں کو علم نہیں ہے کہ ان قدیم مخروطی میناروں کو فراعنہ مصر نے اپنے مقبروں کیلئے تعمیر کروایا تھا۔ اسی لئے ہر فرعون کہلانے والے سلاطین نے اپنی ممی کو محفوظ رکھنے کیلئے علحیدہ اہرام تعمیر کروائے. یہ اہرام مصریوں کے اس عقیدے کے نتیجے میں وجود میں آئے کہ اگر مرنے کے بعد مرنے والے کا جسم محفوظ رہے تو وہ دوسری زندگی میں زندہ ہو جاتا ہے۔ اسی لئے ان اہرام کی دیواروں پرسلاطین مصر کیلئے آخرت کے سفر میں آسانی اور درجات کی بلندی کے نظریہ سے تصاویر نقش کی گئی ہیں۔ ان اہراموں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے پتھروں کی اینٹیں ناقابل یقین حد تک وزنی اور بڑی ہیں۔ اہرام مصر کی بنیاد اگرچہ مربع شکل میں ہے لیکن اس کے پہلو تکون ہیں یہ تکونیں بلندی پر پہنچ کر ایک نکتے پر ختم ہوجاتی ہیں۔
کیسے بن گئیں یہ عمارات؟
صاف ظاہر ہے کہ اہرام مصر کی تعمیر کیلئے لاکھوں مزدوروں سے کام لیا گیا تھا۔ تاہم ایسے ٹھوس شواہد موجود نہیں جن کے نتیجہ میں یقین سے کہا جا سکے کہ اہرام مصر کی تعمیر میں مزدوروں کی بہت بڑی تعداد کو مامور کیا گیا تھا۔ ماہرین اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش میں صدیوں سے مغز پچی کررہے ہیں کہ مصری ہنرمندوں نے 2.5 ٹن تک وزنی پتھروں کو اہرام مصر کے تعمیراتی حصے تک پہنچانے کیلئے آخرکو نسا طریقہ استعمال کیا ہو گا؟ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ دلی کی شاہجہانی جامع مسجد اور مسجد قوہ الاسلام کے قطب مینار سے معروف عمارات دیکھنے والوں کے دل میں بیشمار سوالات پیدا کرتی ہیں. ایمسٹرڈم یونیورسٹی کے سائنسدانوں کی ٹیم نے اعلان کیا کہ انھوں نے اہرام مصر کی تعمیر کیلئے استعمال کئے جانے والے ایک ممکنہ طریقے کا سراغ لگا لیا ہے۔ جس کا جواب بہت آسان ہے یعنی' گیلی ریت'۔
گیلی ریت میں کھپایا سر :
ماہرین سمجھتے ہیں کہ اہرام مصر کی تعمیر کیلئے قدیم مصریوں کو ریگستان میں بھاری پتھر اور بڑے مجسموں کی نقل وحرکت کرنی پڑی ہوگی اسی لئے انھوں نے بھی اس طریقے کی نقل کرنے کی کوشش کی کہ کس طرح لکڑی کے چھکڑے پر وزنی اینٹیں رکھنے کے بعد اسے ریت پرکھینچا جا سکتا ہے۔ ایک لیبارٹری ٹیسٹ کے دوران یہ حقیقت سامنے آئی کہ مصری ہنر مند شاید چھکڑے کے آگے آگے صحرا کی ریت کو گیلا کرتے جاتے تھے جس سے گیلی ریت پروزنی چھکڑا کھینچنا آسان ہوتا تھا کیونکہ اس طرح چھکڑا گیلی زمین پربہت آسانی سے پھسلتا ہے۔
نیدر لینڈ سے تعلق رکھنے والے محقیقین نے تو اپنی دلیل میں یہاں تک کہا ہے کہ وجہ بہت سادہ ہے، کیونکہ اس طرح گیلی ریت پر چھکڑا گھسیٹنے سے اس کے سامنے ریت کے ڈھیر جمع نہیں ہوتے جیسا کہ خشک ریت پر گھسٹنے کی صورت میں کھڑے ہوتے ہیں۔
موت کو ملی شکست؟
اس طریقہ کار کی وضاحت کیلئے طبیعات کے ماہرین نے ایک لیبارٹری ورژن مال برداری کے استعمال کا چھکڑا تیار کیا جسے مخصوص حد تک گیلی ریت پر وزن کھنچنے کیلئے استعمال کیا گیا. اس تجربے کے دوران ریت میں پانی کی صحیح مقدار اور کھینچنے کی مطلوبہ طاقت دونوں کا تعین کیا گیا ۔ حتی کہ زمین کی سختی جانچنے کیلئے انھوں نے مائع بہاو ناپنے کا آلہ 'رو پیما' بھی استعمال کیا جس سے معلوم ہوا کہ گیلی ریت پر چھکڑا کھنچنے کیلئے کتنی طاقت کی ضرورت تھی۔ سائنسی جریدے 'فزیکل ریویو لیٹرز' میں شائع ہونے والی تحقیق کے تجربہ سے ثابت ہوا کہ ریت میں نمی کی صحیح مقدار کھینچنے کی مطلوبہ طاقت کو نصف کر دیتی ہے جبکہ ریت میں پانی کی صحیح مقدار میں موجودگی سے گیلے صحرا کی زمین خشک ریت کے مقابلے میں دوگنی سخت ہو جاتی ہے۔ ماہرین کو اس بات کا یقین ہے کہ مصری غلام اس طریقہ کار سے بخوبی آگاہ تھے۔ ان مقبروں سے ملنے والی قدیم تصاویر میں بھی مزدوروں کی جانب سے پتھروں اور مجسموں کو کھینچنے کے دوران چھکڑے کے آگے کھڑا شخص ریت گیلی کرتا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ تمام تر مساعی اور مشقت کے باوجود وہ موت کو شکست نہ دے سکے!