Wednesday, 31 May 2017

حدیث اصحابی کالنجوم

 أصحابي كالنُّجومِ بأيِّهمُ اقتديتُمُ اهتديتُمیہ حدیث حسن-مقبول سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ ، وَأَبُو الْفَضْلِ ، قَالا : حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، حَدَّثَنَا التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ” ، وَقَال : "أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ” . (الشفا بأحوال المصطفى للقاضي عياض » الْقَسَمَ الثاني : فِيمَا يجب عَلَى الأنام من حقوقه … » الْبَابِ الثالث : فِي تعظيم أمره ووجوب توقيره وبره …، رقم الحديث: 61, الحكم: إسناده حسن)
ترجمہ حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میرے بعد ابی بکر و عمر کی پیروی کرنا اور کہا کہ میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤگے۔
اس حدیث کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ ضعیف ہے یہ بہت سی کتب میں ایک سے زیادہ سندوں کے ساتھ وارد ہوئی ہے اور ابن حزم اور اس کے ساتھ کچھ محدیثین نے اس کو موضوع حدیث کہا ہے ہم اس مقالے میں انشاء اللہ یہ ثابت کریں گے کہ یہ حدیث نہ صرف کہ قابل استدلال ہے بلکہ ہم اس صحیح سند کے ساتھ بھی پوسٹ کریں گے۔
یہ حدیث صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں نہ صرف قرآن کریم کے عین مطابق ہے بلکہ یہ بہت سی صحیح احادیث کے مطابق بھی ہے چناچہ اس حدیث پر امت کا عمل رہا ہے اور علماء اسے صحیح سمجھتے رہے ہیں.
اصل میں‌ ماجرہ یہ ہے کہ  اس حدیث "اصحابی کالنجوم” کی سند ضعیف ہونے کی وجہ سے ابن حزم یا دوسرے محدیثین نے اس کو موضوع قرار دیا لیکن اس کی ضعیف ہونے کی وجہ اس حدیث کی بنیاد ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور ضعیف ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ موضوع ہو۔ علماء کرام اور تمام امت نے اسے قبول کیا ہے اور  ایسی حدیث  'تلقی بالقبول' کہلاتی ہے۔
ضعیف حدیث "تلقی بالقبول” کے سبب قابل عمل ہے: وقال الحافظ السخاوي في شرح ألفية : إذا تلقت الأمة الضيف بالقبول يعمل به الصحيح حتى أنه ينزل منزلة المتواتر في أنه ينسخ المقطوع به، ولهذا قال الشافعي رحمة الله تعالیٰ في حديث "لا وصية الوارث” أنه لا يثبت أهل العلم بالحديث ولكن العامة تلقته بالقبول وعملوا به حتى جعلوه ناسخا لاية الوصية الوارث…إنتهى 
[المعجم الصغیر لطبرانی: باب التحفة المرضية في حل مشكلات الحديثية، ٢/١٧٩؛ فتح المغيث بشعره ألفية الحديث: ص # ١٢٠]
ترجمہ : علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے'شرح الفیہ' میں کہا ہے کہ:
جب امت حدیث_ضعیف کو قبول کرلے تو صحیح یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جاۓ، یہاں تک کہ وہ یقینی اور قطعی حدیث کو منسوخ کرنے میں ((متواتر حدیث کے رتبہ میں سمجھی جاۓ گی))، اور اسی وجہ سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث : 'لاوصية لوارث' کے بارے میں یہ فرمایا کہ اس کو حدیث کے علم والے (علماۓ حدیث) ((ثابت نہیں)) کہتے ہیں لیکن عامه علماء نے اس کو قبول کرلیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کو آیت_وصیت کا ناسخ قرار دیا ہے.
(فتاویٰ علماۓ_حدیث : ٢/٧٤ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦)
قال العلامة ابن مرعي ألشبرخيتي المالكي رح في "شرح أربعين النووية” : ومحل كونه لايعمل بالضعيف في الأحكام ما لم يكن تلقته الناس بالقبول فان كان كذلك تعين وصار حجة يعمل به في الاحكام وغيرها.[شرح الأربعين النووي]
ترجمہ : اس بات کا محل کہ ضعیف حدیث پر احکام میں عمل نہیں کیا جاتا یہ ہے کہ اس کو تلقی بلقبول حاصل نہ ہو، اگر اسے تلقی بلقبول حاصل ہوجاۓ تو وہ حدیث متعین ہوجاۓ گی اور حجت ہوجاۓ گی اور احکام وغیرہ میں اس پر عمل کیا جاۓگا. فائدہ : معلوم ہوا کہ جب کسی حدیث پر امت، ائمہ_اسلام کی پیروی میں قبول کرتے اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہو تو وہ روایت (سنداً) غیر ثابت ہوکر بھی مقبول ہوتی ہے. تو جو روایت ثابت ہو مگر ضعیف (حفظ/عمل میں کمزور راوی) ہو تو اس کے قبول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں. کیونکہ امت اعمال_دین "دیکھ دیکھ کر” سیکھتی چلی آئی ہے، اور یہ حکم خود حدیث_نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ہے کہ: نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتے دیکھتے ہو.
(بخاری)
https://fbcdn-sphoto…512212079_n.jpg
صحیح روایت سے زیادہ تعامل امت قطعی (حجت) ہے:
جو روایت مشاہدات کے خلاف ہو تو وہ قابل_قبول نہیں:
سنت صرف روایت سے ثابت نہیں ہوتی، اس کے ساتھ امت کا تعامل بھی ضروری ہے کوئی حدیث سند کے لحاظ سے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو؛ اگر اس پر امت کا عمل نہیں تو اس کی حجیت قطعی نہ رہے گی، زیادہ گمان یہی ہوگا کہ وہ عمل منسوخ ہوچکا، محدثین حدیث کی حفاظت پر اس کے معمول بہ ہونے سے بھی استدلال کرتے رہے ہیں، امام وکیع نے اسمعیل ابن ابراہیم مہاجر سے نقل کیا ہے:
"کان یستعان علی حفظ الحدیث بالعمل بہ”۔ (تاریخ ابی زرعہ الدمشقی:۱/۳۱۱)
ترجمہ: حفظ حدیث میں اس کے عمل سے بھی مدد لی جاتی تھی (یعنی یہ کہ اس پر عمل بھی ہو)۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے معمول بہ ہونے کا اس کی صحت اور مقبولیت پر بہت اثر رہا اور محدثین کو ایسی روایات بہت کھٹکتی رہی ہیں جو معمول بہ نہ رہی ہوں۔ امام ترمذی ایک مقام پر لکھتے ہیں:
"جَمِيعُ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ الْحَدِيثِ فَهُوَ مَعْمُولٌ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مَاخَلَا حَدِيثَيْنِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالْمَدِينَةِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ وَحَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجلدوهُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ”۔
(جامع ترمذی، کتاب العلل:۶۲۶/۲، موقع الإسلام) 
ترجمہ: جو کچھ اس کتاب میں ہے اس پر (کسی نہ کسی حلقے میں) عمل ضرور رہا ہے اوراس کے مطابق اہل علم کی ایک جماعت نے فیصلہ کیا ہے سوائے ان دو حدیثوں کے ایک حدیث حضرت ابن عباسؓ کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خوف، سفر اوربارش کے کسی عذر کے بغیر مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر یکجا اورمغرب اور عشاء اکٹھی پڑھی ہیں، اور دوسری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کہ جب کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ اور چوتھی دفعہ پئے تو اس کوقتل کردو۔ یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے لائق استدلال ہیں، لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ ائمہ دین میں کسی نے ان کے ظاہر پر عمل نہیں کیا، بلکہ اس کے ترک پراہل علم کا اجماع رہا ہے۔ ائمہ مجتہدین اوران کے تمسکات کو علم حدیث کے موضوع میں شامل نہ کیا جائے تو بڑی مشکلات پیدا ہو جائیں گی، صحت حدیث کا مدار صرف سند پر نہیں، اہل علم کے عمل سے بھی حدیث قوی ہوجاتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اکثراوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے؛ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کبھی صحت عمل پر بھی متفرع ہوتی ہے۔ مشہور غیر مقلد عالم مولانا عبدالحق سیالکوٹی لکھتے ہیں:
اکثر اوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے اورصحت روایت اصول کی رو سے شروط معتبرہ مجوزہ ائمہ جرح و تعدیل کے ساتھ ہوتی ہے اور بعض دفعہ صحت عمل پر متفرع ہوتی ہے، صورت اول عام ہے،صورت دوم خاص ہے اور اس کی تصریح محققین نے کردی ہے، امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں لکھتے ہیں:
"ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقد صرح غیر واحد بان من دلیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ وان لم یکن لہ اسناد یعتمد علی مثلہ”۔ (تنزیہ الشریعۃ للکنانی:۲/۱۲۰) ترجمہ:اہل علم کے قول اور تعامل کے ساتھ حدیث ضعیف، ضعف سے نکل کر صحیح اور قابل عمل ہوجاتی ہے؛ اگرچہ اس کی اسناد لائق اعتماد نہ ہو، بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے۔ بعض فضلائے امت و امناء ملت میں اس صورت دوم کے اپنے موضع میں پائے جانے کی وجہ سے بعض کوتاہ اندیش جاہل اپنی کج فہمی کی وجہ سے ان پر اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں مولوی حدیث کا تارک ہے۔
(الانصاف لرفع الاختلاف:۷۷۶،مطبوعہ:۱۹۱۰ ء، مطبع: رفاہ عام اسٹیم پریس، لاہور)
حافظ ابن صلاح "مقدمہ ابن صلاح” میں لکھتے ہیں کہ جب ہم کسی حدیث کو صحیح قرار دیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیث یقینا صحیح ہے اور اس کی صحت درجہ علم تک پہنچتی ہے؛ بلکہ اس حکم صحت سے مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اس میں صحیح کی وہ فنی شرائط موجود ہیں جو محدثین کے یہاں صحت حدیث کے لیے درکار ہیں، لہذا گمان یہی ہے کہ وہ حدیث صحیح ہوگی، اسی طرح ضعیف کا مطلب بھی یہ نہیں کہ یقینی طور پر وہ خلاف واقعہ ہے، ہوسکتا ہے کہ نفس الامر میں صحیح ہو؛ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کا تعامل اس کی فنی کمزوریوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔ علامہ ابن حجر العسقلانی رح فرماتے ہیں : کسی حدیث کو "لا یصح” یعنی وہ صحیح نہیں، کہنے سے اس (حدیث) کا موضوع (جھوٹی/من گھڑت) ہونا لازم نہیں آتا.
(شرح الفیہ : ١/١٥)
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عدم_ثبوت سے حدیث کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا.
(تذكرة الموضوعات للقاری : ٨٢)
پس ثابت ہوا کہ اگرچہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف بھی تو بھی قابل استدلال ہے کیونکہ امت مسلمہ نےاسے قبول کر لیا ہے.
یہ مقالا تو تھا اس حدیث کے بارے میں جس کی سند کو ضعیف کیا جاتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی راوی ضعیف ہوتا ہے اب ہم یہاں اس حدیث کو صحیح سند کے ساتھ پیش کریں گے ۔
یہ حدیث حسن-مقبول سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ ، وَأَبُو الْفَضْلِ ، قَالا : حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، حَدَّثَنَا التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ” ، وَقَال : "أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ” . (الشفا بأحوال المصطفى للقاضي عياض » الْقَسَمَ الثاني : فِيمَا يجب عَلَى الأنام من حقوقه … » الْبَابِ الثالث : فِي تعظيم أمره ووجوب توقيره وبره …، رقم الحديث: 61, الحكم: إسناده حسن)
ترجمہ حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میرے بعد ابی بکر و عمر کی پیروی کرنا اور کہا کہ میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤگے۔
تخریج حدیث قاضی عیاض
اس حدیث کے رجال تمام کے تمام ثقہ ہیں
الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ الحسين بن محمد الصدفي
ان کے بارے میں امام ذہبی کا کہنا ہے کہ لإمام العلامة الحافظ، برع في الحديث متنا وإسنادا مع حسن  امام علامہ الحافظ جن کی حدیث متن و سند کے لحاظ سے حسن ہوتی ہے
أَبُو الْحُسَيْنِ المبارك بن عبد الجبار الطيوري
ان کے بارے میں ابن حجر اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ثبت ہیں
وَأَبُو الْفَضْلِ أحمد بن الحسن البغدادي
ان کے بارے میں یحی بن معین السمعانی اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ ثقہ حافظ تھے
أَبُو يَعْلَى أحمد بن عبد الواحد البغدادى
خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں حسن تھے
أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ الحسن بن محمد السنجي
خطیب بغدادی کہتے ہیں یہ بڑے شیخ تھے اور ثقہ تھے
مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ محمد بن أحمد المحبوبی
یہ امام ترمذی کے شاگرد ہیں ان کے بارے میں امام حاکم صاحب مستدرک اور امام ذہبی کا کہنا ہے کہ یہ ثقہ حافظ تھے
لتِّرْمِذِيُّ  محمد بن عيسى الترمذی
یہ امام ترمذی ہیں صاحب السنن الترمزی جن کے حفظ ع ثقات میں کوئی شک نہین ہے
الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الواسطی
ان کے بارے میں امام احمد کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں سنت کے پیرو ہیں اور ابو حاتم و ابن حجر کہتے ہیں صدوق ہیں
سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ
یہ ثقہ و امام ہیں
زائدة بن قدامة الثقفي
ابو حاتم ، امام نسائی ، ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں
عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ
امام ذہبی ، ابو حاتم ، ابن حجر نے اس کی توثیق کی ہے
رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ
ابن سعد ، ذہبی ، ابن حجر نے اسے ثقہ کہا ہے
حُذَيْفَةَ رضی اللہ عنہ
یہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی عدالت پر شق کرنا ہی نقص ایمان کی نشانی ہے۔
اگر اس حدیث کو مقبول ہونے کے باوجود کوئی ضیعف ہی کہتا ہے تو بھی یہ حدیث صرف ضعیف ہی ہوگی اس کا متن پھر بھی  صحیح ہے کیوں کہ ایک اور صحیح  حدیث مین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ستاروں  کی مانند کہا ہے، ملاحظہ ہو ۔۔
صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ باب بيان أن بقاء النبي صلى الله عليه وسلم أمان لأصحابه
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وإسحق بن إبراهيم وعبد الله بن عمر بن أبان كلهم عن حسين قال أبو بكر حدثنا حسين بن علي الجعفيعن مجمع بن يحيى عن سعيد بن أبي بردة عن أبي بردة عن أبيه قال  صلينا المغرب مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قلنا لو جلسنا حتى نصلي معه العشاء قال فجلسنا فخرج علينا فقال ما زلتم هاهنا قلنا يا رسول الله صلينا معك المغرب ثم قلنا نجلس حتى نصلي معك العشاء قال أحسنتم أو أصبتم قال فرفع رأسه إلى السماء وكان كثيرا مما يرفع رأسه إلى السماء فقال النجوم أمنة للسماء فإذا ذهبت النجوم أتى السماء ما توعد وأنا أمنة لأصحابي فإذا ذهبت أتى أصحابي ما يوعدون وأصحابي أمنة لأمتي فإذا ذهب أصحابي أتى أمتي ما يوعدون
سیدنا ابوبردہ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ہم نے مغرب کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر ہم نے کہا کہ اگر ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہوگا۔ پھر ہم بیٹھے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہیں بیٹھے رہے ہو؟
ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اللہ! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز مغرب پڑھی،
پھر ہم نے کہا کہ اگر ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء کی نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہوگا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا یا ٹھیک کیا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے، پھر فرمایا کہ ستارے آسمان کے بچاؤ ہیں، جب ستارے مٹ جائیں گے تو آسمان پر بھی جس بات کا وعدہ ہے وہ آجائے گی (یعنی قیامت آجائے گی اور آسمان بھی پھٹ کر خراب ہو جائے گا)۔ اور میں اپنے اصحاب کا بچاؤ ہوں۔ جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب پر بھی وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی فتنہ اور فساد اور لڑائیاں)۔ اور میرے اصحاب میری امت کے بچاؤ ہیں۔ جب اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی اختلاف و انتشار وغیرہ)

Tuesday, 30 May 2017

روزہ؛ دیگر اقوام میں

ایس اے ساگر
قرآن مجید میں روزے کا حکم نازل ہوا تو
اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ ہی اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ تم پر روزوں کا یہ فرض کیا جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہم نے تم سے پہلی امتوں پر بھی روزے اسی طرح فرض کیے تھے جیسے تم پر کئے جا رہے ہیں۔

ارشادِ خداوندی ہے:

“شھر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن ھدًی للناس وبینٰت من الھدٰی والفرقان، فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ، ومن کان مریضًا او علٰی سفر فعدة من ایام اخر، یرید الله بکم الیسر ولا یرید بکم العسر ولتکملوا العدة ولتکبروا الله علٰی ما ھدٰکم ولعلکم تشکرون۔” 

(البقرة:۱۸۵)

ترجمہ:…”ماہِ رمضان ہے جس میں قرآن مجید بھیجا گیا، جس کا وصف یہ ہے کہ لوگوں کے لئے (ذریعہ) ہدایت ہے اور واضح الدلالت ہے، من جملہ ان کتب کے جو (ذریعہ) ہدایت (بھی) ہیں اور (حق و باطل میں) فیصلہ کرنے والی (بھی) ہیں۔ سو جو شخص اس ماہ میں موجود ہو اس کو ضرور اس (ماہ) میں روزہ رکھنا چاہئے، اور جو شخص بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دُوسرے ایام کا (اتنا ہی) شمار (کرکے ان میں روزہ) رکھنا (اس پر واجب) ہے۔ اللہ تعالیٰ کو تمھارے ساتھ (اَحکام میں) آسانی کرنا منظور ہے اور تمھارے ساتھ (اَحکام و قوانین مقرّر کرنے میں) دُشواری منظور نہیں، اور تاکہ تم لوگ (ایام ادا یا قضا کی) شمار کی تکمیل کرلیا کرو (کہ ثواب میں کمی نہ رہے) لہٰذا تم لوگ اللہ تعالیٰ کی بزرگی (و ثنا) بیان کیا کرو اس پر کہ تم کو (ایک ایسا) طریقہ بتلادیا (جس سے تم برکات و ثمراتِ رمضان سے محروم نہ رہوگے) اور (عذر سے خاص رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت اس لئے دے دی) تاکہ تم لوگ (اس نعمتِ آسانی پر اللہ کا) شکر ادا کیا کرو۔” (ترجمہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ)

احادیثِ مبارکہ:

حدیث:… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

“جب رمضان داخل ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں (اور ایک روایت میں ہے کہ: جنت کے دروازے۔ اور ایک اور روایت میں ہے کہ: 

رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں)، اور جہنم کے دروازے بند ہوجاتے ہیں، اور شیاطین پابندِ سلاسل کردئیے جاتے ہیں۔”
(بخاری و مسلم)
حضرت معاذ، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس رضوان اللہ علیہم اجمعین اور عطا، قتادہ اور ضحاک رحمہم اللہ کا فرمان ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے ہر مہینہ مں تین روزوں کا حکم تھا پھر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی امت کے لئے اس حکم کو بدل دیا گیا اور ان پر مبارک مہینہ رمضان کے روزے فرض ہوئے۔ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ گزشتہ امتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے اگلی اُمتوں پر فرض تھے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی نماز ادا کر لیں اور سو جائیں تو ان پر کھانا پینا اور عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہوجاتا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں گزشتہ اُمتوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ ایک روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السلام پر ہر ماہ کے ایام بیض (١٣،١٤ ،١٥ تاریخوں) کے روزے فرض تھے۔ یہودیوں پر عاشورہ کا روزہ فرض تھا اور ہر ہفتہ کے ہفتہ کے روز و دیگر چند روزے بھی فرض تھے۔ نصاریٰ پر رمضان المبارک کا روزہ فرض تھا، لیکن موسم گرما میں رمضان کا مہینہ آجانے کی وجہ سے یہ لوگ روزوں سے کترانے لگے اور اس کے بدلے موسم ربیع میں پچاس روزے رکھنے لگے۔
روزہ کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسان بات چیت اور گفتگو سے رک جائے۔ یہ طریقہ یہودیوں میں رائج تھا۔ قرآن کریم میں حضرت مریم علیہا السلام کی زبان میں اس کی تعبیر یوں ہے آج کسی انسان سے بات نہیں کروں گی۔”
(مریم)
اسپنسر اور جیلن نے اپنی تصانیف میں وسطی آسٹریلیا کے باشندوں کے حالات میں لکھا ہے کہ جب کسی عورت کا شوہر مرجاتا تھا تو اس کی بیوی سال بھر بات نہ کرنے کا روزہ رکھتی تھی۔ ناجائز باتوں اور حرام گفتگو سے بچنا اسلام میں ثواب ہے، لیکن خاموش رہنے کا روزہ رکھنا اسلام میں کالعدم اور منسوخ کردیا گیا ہے۔
اسلام اور روزہ:
مسلمانوں پرصیام رمضان کی فرضیت 2 ھ میں ہوئی۔ اس سے قبل حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عاشورہ (دسویں محرم الحرام) اور ایام بیض (قمری ماہ کی 15,14,13 تاریخوں) کے روزے رکھتے تھے۔ (اللباب جلد 1 صفحہ 162) ۔ صوفیاء کرام رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ شجر ممنوعہ کے استعمال سے حضرت آدم علیہ السلام کے اندر جو جراثیم باقی رہ گئے تھے، ان کے خاتمے کے لئے حضرت آدم علیہ السلام نے تیس روزے رکھے تھے جنہیں بعد میں نبی آخرالزمان اور ان کے امتیوں پر فرض کیا گیا ہے۔
1. اسلام میں روزے کے اندر تین بار تبدیلیاں ہوئیں ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ میں تشریف لائے تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورے کا روزہ رکھا کرتے تھے یہ پہلی تبدیلی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے
”کتب علیکم الصیام”
نازل فرماکر رمضان کے روزے فرض کئے۔
2. رمضان کے روزے فرض ہونے کے بعد شروع میں یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے، جو چاہے روزہ نہ رکھے اور فدیہ دیدے۔ پھر یہ آیت اُتری
”فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ”
تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں اقامت کی حالت میں ہو، وہ روز رکھا کرے پس جو شخص مقیم ہو مسافر نہ ہو، تندرست ہو، بیمار نہ ہو، اس پر روزہ رکھنا ضروری ہوگیا۔ ہاں بیمار اور مسافر کے لئے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا معذور جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو، اسے بھی رخصت دی گئی۔ یہ دوسری تبدیلی تھی۔
3. تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ ابتدا میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا، سو گیا تو پھر گو رات ہی کو جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لئے منع تھا۔ پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابی دن بھر کام کاج کرکے رات کو تھکے ہارے گھر آئے، عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آگئی، دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا، لیکن حالت بہت نازک ہوگئی. حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟
انھوں نے سارا واقعہ سنا دیا۔ یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا، ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سوجانے کے بعد اپنی بیوی سے جماع کرلیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا۔ ان دونوں واقعات کے بعد یہ آیت
”احل لکم لیلۃ الصیام الرفث الٰی نسائکم”
سے
”ثم اتموا الصیام الی الیل”
تک نازل ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور اپنی بیوی سے جماع کرنے کی رخصت دی گئی۔
اسماعیلیہ اور روزہ:
ان کے نزدیک زکوٰۃ کے بدلے دسواں حصہ امام زمانہ کو دینا لازم ہے۔ حج کے بدلے امام زمانہ کا دیدار ہے۔ پہلے یہ لوگ بمبئی حج کرنے جاتے تھے۔ اب وہ بھی منسوخ ہے۔ روزہ ان کے مذہب میں فرض نہیں ہے۔
آغا خانی اور روزہ:
روزہ تو اصل میں آنکھ، کان، اور زبان کا ہوتا ہے، کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ ان کا روزہ سوا پہر کا ہوتا ہے جو صبح دس بجے کھول لیا جاتا ہے۔ وہ بھی اگر مومن رکھنا چاہے ورنہ فرض نہیں ہے۔ البتہ سال بھر میں مہینے کا چاند جب بھی جمعہ کے روز کا ہوگا اس دن یہ لوگ روزہ رکھتے ہیں۔
نصیریہ اور روزہ:
فرقہ نصیریہ کے متبعین زکوٰۃ کے قائل نہیں ہیں البتہ اپنی کمائی کا پانچواں حصہ بنام امام دیتے ہیں۔ ان کا روزہ صرف بیوی کی میل میلاپ سے بچنا ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ تیس مردوں اور تیس عورتوں سے بات چیت ترک کردینا روزہ ہے۔
عیسائی اور روزہ:
ان کے نزدیک صرف حیوان اور چربی والی چیزوں کو کھانے سے بچنے کا نام روزہ ہے۔
یہودیوں کا روزہ:
ان کے نزدیک صرف عید یوم التکفیر، جس کو یوم التوبہ بھی کہا جاتا ہے کے دن روزہ ہے۔ یہ یہودی کیلنڈر کے مطابق دسویں مہینے کو منائی جاتی ہے۔ اس میں نو دن تک دنیاوی رشتہ ختم کرنا، عبادت کرنا، روزے رکھنا اور کھانا پینا چھوڑ دینا ہوتا ہے۔ اس کو یوم کپر اور یوم کفارہ بھی کہا جاتا ہے۔
پرانے زمانے میں یہودی ہفتہ کے دن اور ہر چاند کے ماہ پہلی تاریخ کو روزہ رکھا کرتے تھے ان دنوں میں کوئی کام نہیں کیا کرتے تھے، اس کے بعدیہ روزہ ختم ہوگیا۔ ان سے کہا گیا کہ وہ ان دنوں میں صرف کام نہ کریں۔ یہودیوں کا سب سے اہم روزہ عیسوی ماہ کی دسویں تاریخ کا روزہ ہے۔ جسے وہ کفارہ کے دن کا روزہ کہتے ہیں۔ یہ روزہ یہودیوں پر اپنے گناہوں سے معافی کے تعلق سے فرض کیا گیا ہے۔
بدھ مت اور روزہ:
واسوWasco (جولائی) اس ماہ کے پورے چاند کے موقع پر مہاتما بدھ کی زندگی کے واقعات کے حوالے سے تقریبات ہوتی ہیں۔ اس ماہ سے بدھ کے چلے کا بھی آغاز ہوتا ہے جو تین مہینے تک جاری رہتا ہے۔ ان تین مہینوں میں بھکشوؤں کو سفر کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ چلے کے دوران مخصوص احکامات پر عمل بھی کرنا ہوتا ہے اور موسیقی، رقص، خوشبو، اونچی جگہ (آرام دہ بستر اور پلنگ) پر سونے سے بچنا ہوتا ہے، اس عرصہ میں شادی بیاہ کی اجازت نہیں ہے۔ ان تینوں مہینوں میں دن کے بارہ بجے کے بعد روزہ رکھنا ہوتا ہے۔ یہ چلہ اکتوبر میں ختم ہوتا ہے۔
بودھ مذہب کے پیروکار چاند کی پہلی تاریخ، نویں تاریخ، پندرھویں تاریخ اور بائیسویں تاریخ کو طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک روزہ رکھتے ہیں اور وہ ان چار دنوں میں پورا آرام کرتے ہیں۔ روزے میں آگ کی پکی ہوئی چیزوں کے علاوہ بقیہ چیز (پھل فروٹ) کھا سکتے ہیں۔
فرقہ صابئہ مندائیون اور روزہ:
ان کا روزہ یہ ہے کہ پورے سال میں 36 دن گوشت سے پرہیز کرنا ہے۔ ابن ندیم رحمہ اللہ متوفی 385ھ / 1004ء نے اپنی کتاب 'الفہرست' میں اور ابن عبری متوفی 685ھ / 1286ء نے اپنی کتاب ”تاریخ مختصر الدول” میں صراحت کی ہے کہ یہ لوگ بھی شروع میں مسلمانوں کی طرح تیس روزے رکھتے تھے لیکن بعد میں تبدیلی کردی گئی۔
برہمن اور روزہ:
برہمنوں میں جوگی خزاں اور بہار کے شروع موسم میں روزہ رکھتے ہیں۔ چھتری ،سردی اور گرمی کے شروع موسم کے علاوہ ہر چاند کے ماہ کے شروع دو دنوں میں اور چودھویں تاریخ کا روزہ رکھتے ہیں۔
فرقہ یزیدیہ اور روزہ:
یہ لوگ پورے سال میں صرف تین روزے رکھتے ہیں اور عید میلاد یزید مناتے ہیں۔
ذکری فرقہ اور روزہ:
ان کے نزدیک رمضان کے روزے منسوخ ہیں، اس کے بدلے میں ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں کے روزے رکھنے ہیں۔
فرقہ بلالی اور روزہ:
یہ لوگ رمضان المبارک کے بجائے دسمبر میں روزے رکھتے ہیں۔
http://www.suffahpk.com/roza-or-mazahib-aalam/

تو ان کو کتنی لگی ہوگی!

السلام علیکم و رحمۃاللہ و برکاتہ، 
میرے زخمی بھائی 
لگی
کیا؟؟؟ 
مرچ
کونسی؟ 
لال والی
کیسی؟؟ 
موٹی موٹی
جب اسکو اتنی لگی تو انکو کتنی لگی ہوگی؟؟
اسکو، کسکو؟ 
انکو، کن کو، اسکو یعنی عامر شیخ  بہاری کو، انکو یعنی بھائی فاروق صاحب کو،
کس بات پر؟؟ 
ندوہ کے فتوے پر،
عامر شیخ کہتا ہے کہ بھائی فاروق صاحب بنگلور نے آیت نہیں پڑھی تھی، بلکہ لوگوں کے احوال کا ترجمہ کیا تھا، سوال یہ ہے کہ ۔ لوگوں کے احوال کی ترجمانی عربی میں کیوں کرنی چاہی؟ جس سے قرآنی آیت میں کاٹ چھانٹ کرنی پڑی، نیز مولانا سعد صاحب نے بھی یہ جملہ کہا تھا، کہ آج دنیا کا حال یہ ہے کہ حرمین کے بعد قابل احترام قابل تقدس قابل اتباع وہ یہ جگہ بنگلہ والی مسجد ہے، اس کی اوڈیو یوٹیوپ پر موجود ہے، انہی الفاظ کے ساتھ،تو اس وقت تو تم جیسے جاہل کو کیا رونا، بڑے بڑے دارالافتا میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے کسی قسم کی تاویل 
کی  
بجائے مولانا کو مطعون کیا تھا، اسی گناہ کی وجہ سے تو اللہ نے تم کو اس مرض میں مبتلا کیا ہے، کہ نشہ میں آکر ایک آیت پڑھ گئے، اب جھیلو، روتے کیوں ہو؟توبہ کرو، جس گڈھے کو اپنے بھائی کے لیے کھودا تھا، اسی میں تو گرے ہو، اب مرچ لگی تو رونا روو، لیکن اللہ کے سامنے، اوڈیو میں نہیں، دوسری بات یہ کہی کہ ندوہ نے جلد بازی سے کام لیا، تو یاد رکھو، جلد بازی کا گڈھا بھی کوئ اور پہلے کھود چکا تھا، باقاعدہ حدیث اس میں تم لوگوں کو گرنا ہی تھا، یہ بھی کہا کہ ندوہ نے تمہارے 12 سوالات کے جوابات نہیں دیے، دوسری طرف کہتے ہو کہ دارالعلوم ایسا بصیرت والا ادارہ ہے کہ وہ جواب دینے سے پہلے تحقیق کرتا ہے، تو تمہارے دعوی اور دلیل کو ملانے سے پتہ چلا کہ ندوہ تمہارے سوالات کی تحقیق کرکے اپنی بصیرت کا ثبوت دے رہا ہے، اب جتنی لمبی مدت تمہارے جواب کی تاخیر میں گزرے ندوہ کو اتناہی بڑا صاحب بصیرت ادارہ سمجھنا  تم یہ چاہتے ہو، کہ بھائی فاروق کے خلاف فتوی دینے میں تحقیق کرنا، بصیرت ہے، اور مولانا سعد صاحب کے خلاف فتوی دینے میں جلدی کرنا، بصیرت اور کار خیر ہے،
اور یہ یاد رکھو کہ ہمارے بھی بہت سے سوالات دارالعلوم دیوبند کے دارالافتا میں پچھلے ایک سال سے پڑے ہوئے ہیں، لیکن نہ دارالعلوم دیوبند نے اس بارے میں ہماری رہبری کی ہے، اور ہمارا اب یقین یہ ہے کہ نہ آئندہ رہبری کرے گا، وہ مصعب ابن پروفیسر عبدالمننان علی گڑھ کی دنیا و آخرت برباد ہونے پر ہی موقوف ہے، (اللہ تعالٰی نے اگر دارالعلوم دیوبند کے تقدس کی حفاظت کرنی چاہی تو یاتو مصعب ابن پروفیسر عبدالمننان علی گڑھ جیسے کم عمر مسند نشینوں کو توبہ کی توفیق دینگے، یا پھر دارالعلوم دیوبند سے انکو فارغ کرینگے، (ان شاء اللہ )
صرف مولانا سعد صاحب اور نظام الدین مرکز کے خلاف جو فتاوے معلوم کئے جایئنگے، انکے جوابات دینے کی تنخواہ لی جاتی ہے، اور بس،
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر
یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں کا گلا نہیں،
تیری رہبری کا سوال ہے،
لباس رہزن میں چھپے ہیں رہبر
فقط والسلام۔
ابوالحسن  صدیقی ۔ بمبئی ۔ممرا ۔
اب رمضان المبارک شروع ہونے والا ہے، دھمچکڑ پنا چھوڑ کر توبہ کرو، اللہ تعالٰی تمہیں رمضان المبارک میں کم از کم ذہنی سکون دے آمین
میم الف سین

تین یا پانچ روز کی تراویح کا حکم

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نمازِ تراویح فرض نہیں؛ بلکہ سنت موٴکّدہ ہے۔ البتہ ۱۴۰۰ سال سے جاری عمل کے خلاف بعض حضرات ۲۰ رکعت نمازِ تراویح کو بدعت یا خلاف ِسنت قرار دینے  میں ہر سال رمضان اور رمضان سے قبل اپنی صلاحیتوں کا بیشتر حصہ صرف کرتے ہیں، جس سے امت مسلمہ کے عام طبقہ میں انتشار پیدا ہوتا ہے؛ حالانکہ اگر کوئی شخص ۸ کی جگہ۲۰ رکعت پڑھ رہا ہے تو یہ اس کے لیے بہتر ہی تو ہے؛ کیونکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ساری امت مسلمہ متفق ہے کہ رمضان کی  راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے، نیز حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت سے امت مسلمہ جماعت کے ساتھ ۲۰ ہی رکعت تراویح پڑھتی آئی ہے، حرمین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں آج تک کبھی بھی ۸ رکعت تراویح نہیں پڑھی گئیں۔
          اس موضوع سے متعلق احادیث کا جتنا بھی ذخیرہ موجود ہے، کسی بھی ایک صحیح ،معتبر ،اور غیرقابل نقد وجرح حدیث میں نبی اکرم اسے تراویح کی تعداد رکعت کا واضح ثبوت نہیں ملتا ہے، اگرچہ بعض احادیث میں جن کی سند میں یقینا کچھ ضعف موجود ہے ۲۰ رکعت  کا ذکر ملتا ہے۔
          خلیفہٴ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں بیس رکعت تراویح اورتین رکعت وتر جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام ہوا،جیساکہ محدثین،فقہاء ، موٴرخین اور علماء کرام نے تسلیم کیا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرفاروق رضی  اللہ عنہ نے سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت تراویح  اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ حضرت عمر فاروق ان خلفاء راشدین میں سے ہیں، جن کی بابت نبی اکرم انے فرمایا ہے کہ میری  سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرو اور اسی کو ڈاڑھوں سے مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاڑھوں کا ذکر اس لیے کیا کہ ڈاڑھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے، لہٰذا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام عینِ سنت ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ۲ ص ۴۰۱، ج۲۲ ص ۴۳۴)
          ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات ۵۷ یا ۵۸ ہجری میں ہوئی او ر حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ۱۵ ہجری میں تراویح کی جماعت حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں باقاعدہ شروع فرمائی، اگر بیس رکعات تروایح کا  عمل بدعت ہوتا تو ۴۲سال کے طویل عرصہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا آٹھ رکعت والی حدیث کو بیس رکعت پڑھنے والوں کے خلاف پیش کرنا ثابت ہوتا؛ حالانکہ ایسا نہیں ہوا، بلکہ سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی ۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے جس میں ثابت کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے آج تک حرمین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں کبھی بھی ۲۰ سے کم تراویح نہیں پڑھی گئیں۔
تراویح کے معنی:
          بخاری شریف کی مشہور ومعروف شرح لکھنے والے حافظ ابن حجر العسقلانی  نے تحریر کیا ہے کہ تراویح، ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی: ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔  رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے بعد باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس امر پر ہوگیا کہ ہر دوسلاموں (یعنی چار رکعت ) کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح)
نماز تراویح کی فضیلت:
          * حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ا نے ارشاد فرمایا: 
جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو ، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لیے نہیں؛ بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عبادت کی جائے۔
نماز تراویح کی تعدادِ رکعت:
           تراویح کی تعداد ِرکعت کے سلسلہ میں علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ تراویح پڑھنے کی اگرچہ بہت فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے؛ لیکن فرض نہ ہونے کی وجہ سے تراویح کی تعدادِ رکعت میں یقینا گنجائش ہے۔ جمہور محدثین اورفقہاء کی رائے ہے کہ تراویح ۲۰رکعت پڑھنی چاہئیں۔ تراویح کی تعداد ِرکعت میں علماء کرام کے درمیان اختلاف کی اصل بنیاد یہ ہے کہ تراویح اور تہجد ایک نماز ہے یا دو الگ الگ نمازیں۔ جمہور محدثین، فقہائے کرام نے اِن دونوں نمازوں کو الگ الگ نماز قرار دیا ہے، اُن کے نقطہٴ نظر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ا رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے۔ جس کے انہوں نے مختلف دلائل دیے ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں :
          (۱) امام بخاری  نے اپنی مشہور کتاب (بخاری) میں نمازِ تہجد کا ذکر (کتاب التہجد) میں؛ جبکہ نماز تراویح کو (کتاب صلاة التراویح) میں ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا کہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں، جیساکہ جمہور علماء اور ائمہٴ  اربعہ نے فرمایا ہے، اگر دونوں ایک ہی نماز ہوتی تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو دو الگ الگ باب باندھنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوتی۔ حضرت عائشہ  رضی اللہ عنہا والی حدیث کتاب التہجد میں ذکر فرماکر امام بخاری نے ثابت کردیا کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے۔
          (۲) تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے، اور اِس حدیث میں ایسی نماز کا ذکر ہے جو رمضان کے علاوہ بھی پڑھی جاتی ہے۔
          (۳) اگر حضرت عائشہ  کے فرمان کا تعلق تراویح کی نماز سے ہے تو حضرت عمر فاروق  کے زمانے میں جب باضابطہ جماعت کے ساتھ ۲۰ رکعت تراویح کا اہتمام ہوا تو کسی بھی صحابی نے اِس پر کوئی تنقید کیوں نہیں کی؟ (دنیا کی  کسی کتاب میں ، کسی زبان میں بھی، کسی ایک صحابی کا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ۲۰رکعت تراویح کے شروع ہونے پر کوئی اعتراض مذکور نہیں ہے) اگر ایسی واضح حدیث تراویح کی تعداد کے متعلق ہوتی تو حضرت عمر فاروق  اور صحابہٴ کرام کو کیسے ہمت ہوتی کہ وہ ۸ رکعت تراویح کی جگہ ۲۰ رکعت تراویح شروع کردیتے۔ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تو ایک ذرا سی چیز میں بھی آپ ا کی تعلیمات کی مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے۔ اور نبی اکرم ا کی سنتوں پر عمل کرنے کا جذبہ یقینا صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں ہم سے بہت زیادہ تھا؛ بلکہ ہم (یعنی آج کے مسلمان) صحابہ کی سنتو ں پر عمل کرنے کے جذبہ سے اپنا کوئی مقارنہ بھی نہیں کرسکتے۔ نیز نبی اکرم ا کا فرمان ہے : ہم خلفاء راشدین کی سنتوں کوبھی مضبوطی سے پکڑلیں۔ (ابن ماجہ)
          (۴) اگر اس حدیث کا تعلق واقعی تراویح کی نماز سے ہے (اور تہجد و تراویح ایک نماز ہے) تو رمضان کے آخری عشرہ میں نمازِ تراویح پڑھنے کے بعد تہجد کی نماز کیوں پڑھی جاتی ہے؟
          (۵) اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جیساکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ (ملاحظہ ہو : مسلم ج۱ ص ۱۵۴، ابوداوٴد ج۱ ص ۱۹۶، ترمذی ج۱ ص ۵۸، نسائی ج۱ ص ۱۵۴، موٴطا امام مالک ص ۴۲) ۔
          علامہ شمس الدین کرمانی (شارح بخاری) تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں ہے اور حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کا مذکورہ بالا سوال اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جواب تہجد کے متعلق تھا۔ (الکوکب الدراری شرح صحیح البخاری ج ۱ ص ۱۵۵۔۱۵۶)
          حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی  فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ حضور اکرم ا گیارہ رکعت (وتر کے ساتھ) پڑھتے تھے وہ تہجد کی نماز تھی۔
          حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کی نماز پر محمول ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں برابر تھی۔ (مجموعہ فتاوی عزیزی ص ۱۲۵)
نمازِ تراویح نبی اکرم ا کے زمانے میں:
          * حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ انے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ اکے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ ا نماز  تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم ، الترغیب فی صلاة التراویح)․․․․․․اِن دو یا تین رات کی تراویح کی رکعت کے متعلق کوئی تعداد احادیثِ صحیحہ میں مذکور نہیں ہے۔
          * حضرت ابوہریرہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ ا قیام رمضان کی ترغیب تو دیتے تھے؛ لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے۔ آپ ا فرماتے کہ جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیں گے۔ رسول اللہ ا کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتداء عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاة التراویح)
          صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم ا کی حیات میں ، حضرت ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت اور حضرت عمر فاروق  کے ابتدائی دور خلافت میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب  دی جاتی تھی؛ البتہ حضرت عمر فاروق  کے عہد خلافت میں یقینا تبدیلی ہوئی ہے، اس تبدیلی کی وضاحت مضمون میں محدثین اورفقہائے کرام کی تحریروں کی روشنی میں آرہی ہے۔
          * حضرت عائشہ  کی روایت (جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ا رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعت سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے) میں لفظ ِتراویح کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے؛ کیونکہ  محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے، نہ کہ تراویح کے باب میں۔ (ملاحظہ ہو : مسلم ج۱ ص ۱۵۴، ابوداوٴد ج۱ ص ۱۹۶، ترمذی ج۱ ص۵۸، نسائی ج۱ ص۱۵۴، موٴطا امام مالک ص ۴۲) اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان محدثین کے نزدیک یہ حدیث تہجد کی نماز سے متعلق ہے نہ کہ تراویح سے۔
          امام محمد بن نضر مروزی نے اپنے مشہور کتاب (قیام اللیل ، ص ۹۱ اور ۹۲) میں قیام رمضان کا باب باندھ کر بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل فرمائی ہیں؛ مگر مذکورہ بالا حدیث ِعائشہ نقل نہیں فرمائی؛ اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث تراویح کے متعلق ہے ہی نہیں۔
          علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (زاد المعاد ص ۸۶) میں قیام اللیل (تہجد) کے بیان میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت کے متعلق حافظ حدیث امام قرطبی  کا یہ قول بھی نظر انداز نہیں  کیا جانا چاہیے کہ بہت سے اہل علم حضرات اس روایت کو مضطرب مانتے ہیں۔ (عینی شرح بخاری ج۷ ص ۱۸۷)
نمازِ تراویح خلفاء راشدین کے زمانے میں:
          * حضرت ابو بکر صدیق  کے عہد میں کتنی تراویح پڑھی جاتی تھیں، احادیث صحیحہ میں صحابہٴ کرام کا کوئی واضح عمل مذکور نہیں ہے۔ گویا اس دور کا معمول حسب سابق رہا اور لوگ اپنے طور پر نماز تراویح پڑھتے رہے، غرضے کہ حضرت ابو بکر صدیق  کے عہدِ خلافت (یعنی دو رمضان) میں نماز تراویح باقاعدہ جماعت کے ساتھ ایک مرتبہ بھی ادا  نہیں ہوئی ۔
          * حضرت عمر فاروق  نے جب اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو دیکھا کہ تنہا تنہا تراویح کی نماز پڑھ رہے ہیں تو حضرت عمر فاروق  نے سب صحابہ کو حضرت ابی بن کعب کی امامت میں جمع کیا، اور عشاء کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے باجماعت ۲۰رکعت نماز تراویح میں قرآن کریم مکمل کرنے  کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔
          * حضرت عبد الرحمن قاری  فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر فاروق کے ہمراہ رمضان میں مسجد میں گیا تو دیکھا کہ لوگ مختلف گروپوں میں علیحدہ علیحدہ نماز تراویح پڑھ رہے ہیں، کوئی اکیلا پڑھ رہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں، اس پر حضرت عمر فاروق  نے فرمایا کہ واللہ! میرا خیال ہے کہ اگر ان سب کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کردیا  جائے تو بہت اچھا ہے اور سب کو حضرت ابی بن کعب  کی اقتداء میں جمع کردیا ۔ ۔۔۔ حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ پھر جب ہم دوسری  رات نکلے اور دیکھا کہ سب لوگ ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کررہے ہیں تو حضرت عمر فاروق  نے فرمایا کہ یہ بڑا اچھا طریقہ  ہے اور مزید فرمایا کہ ابھی تم رات کے جس آخری حصہ (تہجد) میں سوجاتے ہو ،وہ اس (تراویح) سے بھی بہتر ہے جس کو تم نماز میں  کھڑے ہوکر گزارتے ہو۔ (موٴطا امام مالک ، باب ماجاء فی قیام رمضان)
          * حضرت یزید بن رومان  فرماتے ہیں کہ لوگ (صحابہٴ کرام) حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں ۲۳ رکعت (۲۰ تراویح اور۳وتر) ادا فرماتے تھے۔ (موٴطا امام مالک ، باب ماجاء فی قیام رمضان، ص ۹۸)
          * علامہ بیہقی نے کتاب المعرفہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت سائب بن یزید  فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  کے دور حکومت میں ہم ۲۰ رکعت تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔ امام زیلعی  نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ (نصب الرای ج ۲ ص ۱۵۴)
          * حضرت ابی بن کعب  سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے انہیں حکم دیا کہ رمضان کی راتوں میں نماز پڑھائیں؛ چنانچہ فرمایا کہ لوگ سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور قراء ت اچھی طرح نہیں کرسکتے۔ اگر آپ رات  کو انہیں (نماز میں) قرآن سنائیں تو بہت اچھا ہوگا۔ پس حضرت ابی بن کعب  نے انہیں ۲۰ رکعتیں پڑھائیں۔ (مسند احمد بن منیع بحوالہ اتحاف الخیرة المہرة للبوصیری علی المطالب العالیہ ج۲ ص ۴۲۴)
          * موطا امام مالک میں یزید بن خصیفہ کے طریق سے سائب بن یزید  کی روایت ہے کہ عہد فاروقی میں بیس رکعت تراویح تھیں۔ (فتح الباری لابن حجر ج ۴ ص ۳۲۱، نیل الاوطار للشوکانی ج۲ ص ۵۱۴)
          * حضرت محمد بن کعب القرظی  (جو جلیل القدر تابعی ہیں) فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر  کے دور میں بیس رکعت تراویح پڑھتے تھے۔ ( قیام اللیل للمروزی ص ۱۵۷)
          * حضرت یحییٰ بن سعید  کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ (مصنف بن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)
          * حضرت حسن  سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب  کی امامت پر جمع فرمایا۔ وہ لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھاتے تھے۔ (ابو داوٴد ج۱ ص ۲۱۱، باب القنوت والوتر)
          * حضرت سائب بن یزید  فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  کے دور میں تین رکعت (وتر) اور بیس رکعت (تراویح) پڑھی جاتی تھیں۔ (مصنف عبد الرزاق ج ۴ ص ۲۰۱، حدیث نمبر ۷۷۶۳)
          * حضرت سائب بن یزید  فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  کے زمانے میں ہم ۲۰ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے، اور قاری صاحب سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان غنی  کے دور میں لاٹھیوں کا سہارا  لیتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج۲ ص ۴۹۶)
          * حضرت ابو الحسناء سے روایت ہے کہ حضرت علی  نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)
          * حضرت ابو عبدالرحمن السلمی سے روایت ہے کہ حضرت علی  نے رمضان میں قاریوں کو بلایا۔ پھر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعت تراویح پڑھائے اور حضرت علی  خود انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج ۲ ص ۴۹۶)
نماز ِ تراویح سے متعلق صحابہ وتابعین کا عمل:
          * حضرت اعمش  فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود  کا معمول بھی بیس رکعت تروایح اور تین رکعت وتر پڑھنے کا تھا۔ (قیام اللیل للمروزی ص ۱۵۷)
          * حضرت حسن بصری حضرت عبد العزیز بن رفیع  سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب  رمضان میں لوگوں کو بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)
          * حضرت عطا بن ابی رباح  (جلیل القدر تابعی، تقریباً ۲۰۰ صحابہٴ کرام کی زیارت کی ہے) فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں (صحابہ ) کو بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھتے پایا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)
          * حضرت ابراہیم نخعی  (جلیل القدر تابعی، کوفہ کے مشہور ومعروف مفتی) فرماتے ہیں کہ لوگ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعت پڑھتے تھے۔ (کتاب الآثار بروایت ابی یوسف ص ۴۱)
          * حضرت شیتر بن شکل رحمہ اللہ (نامور تابعی، حضرت علی  کے شاگرد) لوگوں کو رمضان میں بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج ۲ ص ۴۹۶)
          * حضرت ابو البختری  (اہل کوفہ میں اپنا علمی مقام رکھتے تھے، حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت عمر  اور حضرت ابو سعید  کے شاگرد) ۔ آپ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)
          * حضرت سوید بن غفلہ  (حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود وغیرہ صحابہ کی زیارت کی ہے آپ کے بارے میں ابو الخضیب فرماتے ہیں کہ حضرت سوید بن غفلہ  رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج ۲ ص ۴۹۶)
          * حضرت ابن ابی ملیکہ  (جلیل القدر تابعی، تقریباً تیس صحابہٴ کرام کی زیارت سے مشرف ہوئے) آپ کے متعلق حضرت نافع بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن ابی ملیکہ  ہمیں رمضان میں بیس رکعت تراویح پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ ص ۲۸۵)
نماز ِ تراویح سے متعلق اکابرین امت کے اقوال:
امام ابو حنیفہ : علامہ ابن رشد  لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ  کے ہاں قیام رمضان بیس رکعت ہے۔ (بدایہ المجتہد ج۱ ص ۲۱۴)
          امام فخر الدین قاضی خان  لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ  فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہر رات بیس یعنی پانچ ترویحہ وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے۔ (فتاوی قاضی خان ج۱ ص۱۱۲)
          علامہ علاء الدین کاسانی حنفی  لکھتے ہیں کہ جمہور علماء کا صحیح قول یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے حضرت ابی بن کعب کی امامت میں صحابہٴ کرام کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انہوں نے بیس رکعت تراویح پڑھائی اور صحابہ کی طرف سے اجماع تھا۔ (بدائع الصنائع)
امام مالک: امام مالک  کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی ۳۶ رکعت ہیں؛جبکہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعت سنت ہیں۔ علامہ ابن رشدقرطبی مالکی  فرماتے ہیں کہ امام مالک  نے ایک قول میں بیس رکعت تراویح کو پسند فرمایا ہے۔ (بدایہ المجتہد ج۱ ص۲۱۴)
          مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعت کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ کے لوگ ایک طواف کرلیا کرتے تھے، جس پر مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعت نفل پڑھنی شروع کردیں تو اس طرح امام مالک کی ایک رائے میں ۳۶ رکعت (۲۰ رکعت تراویح اور ۱۶ رکعت نفل) ہوگئیں۔
امام شافعی : امام شافعی  فرماتے ہیں کہ مجھے بیس رکعت تراویح پسند ہیں، مکہ مکرمہ میں بیس رکعت ہی پڑھتے ہیں۔ (قیام اللیل ص۱۵۹) ایک دوسرے مقام پر امام شافعی  فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعت نماز تراویح پڑھتے پایا ہے۔ (ترمذی ج ۱ ص ۱۶۶) علامہ نووی شافعی  لکھتے ہیں کہ تراویح کی  رکعت کے متعلق ہمارا (شوافع) مسلک وتر کے علاوہ دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعت کا ہے، اور بیس رکعت پانچ ترویحہ ہیں اور ایک ترویحہ چار رکعت کا دوسلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ  اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل  اور امام داوٴد ظاہری کا مسلک ہے اور قاضی عیاض  نے بیس رکعت تراویح کو جمہور  علماء سے نقل کیا ہے۔ (المجموع)
امام احمد بن حنبل: فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان علامہ ابن قدامہ  لکھتے ہیں : امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کا پسندیدہ قول بیس رکعت کا ہے اور حضرت سفیان ثوری  بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمر فاروق  نے صحابہٴ کرام کو حضرت ابی بن کعب  کی اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعت پڑھتے تھے، نیز حضرت امام احمد ابن حنبل  کا استدلال حضرت یزید وعلی کی روایات سے ہے۔ ابن قدامہ  کہتے ہیں کہ یہ بمنزلہ اجماع کے ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ جس چیز پر حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہعمل پیرا رہے ہوں ، وہی اتباع کے لائق ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ج۲ ص۱۳۹، صلاة التراویح)
          امام ترمذی  فرماتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک وہی ہے جو حضرت علیو حضرت عمر  اور دیگر صحابہٴ کرام سے منقول ہے کہ تراویح میں بیس رکعت ہیں، حضرت سفیان ثوری، ابن مبارک  اور امام شافعی  کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ میں نے اہل مکہ کو بیس رکعت پڑھتے دیکھا۔ (ترمذی، ما جاء فی قیام شہر رمضان) امام ترمذی نے اس موقع پر تحریر کیا ہے کہ بعض حضرات مدینہ منورہ میں ۴۱ رکعت تراویح پڑھا کرتے تھے۔ لیکن امام ترمذی  نے اہل مکہ یا اہل مدینہ میں سے ۸ تراویح پر کسی کا عمل نقل نہیں کیا۔
          مسلم شریف کی سب سے مشہور ومعروف شرح لکھنے والے علامہ نووی  جو ریاض الصالحین کے مصنف بھی ہیں فرماتے ہیں کہ قیام رمضان سے مراد تراویح ہے اور تمام علماء متفق ہیں کہ یہ نماز اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے؛  البتہ اس میں کچھ اختلاف ہے کہ گھر میں اکیلا پڑھنا بہتر ہے یا مسجد میں باجماعت؟ تو امام شافعی  ، امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل ، بعض مالکی اور دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ باجماعت پڑھنا بہتر ہے؛ چونکہ حضرت عمر فاروق  اور حضرات صحابہٴ کرام نے ایسا ہی کیا اور اس  پر مسلسل عمل جاری ہے حتی کہ یہ مسلمانوں کی ظاہری علامات میں سے ایک علامت ہے۔ (شرح مسلم للنووی، ملخص: الترغیب فی قیام رمضان)
          نیز علامہ نووی  فرماتے ہے کہ جان لو کہ نماز تراویح کے سنت ہونے پر تمام علماء کا اجماع ہے اور یہ بیس رکعت ہیں، جن میں ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ (الاذکار ص ۸۳)
          علامہ عینی (بخاری شریف کی شرح لکھنے والے) تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان ، حضرت علی کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعت پڑھی جاتی تھیں۔ (عینی ج۷ ص ۱۷۸)
          شیخ امام غزالی  فرماتے ہیں کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں جن کا طریقہ معروف ومشہور ہے اور یہ سنت موٴکدہ ہے۔ (احیاء العلوم ج۱ص ۱۳۲)
          شیخ عبد القادر جیلانی  فرماتے ہیں کہ تراویح نبی اکرم ا کی سنت مبارکہ ہے اور یہ بیس رکعت ہیں۔ (غنیہ الطالبین ص ۲۶۷، ۲۶۸)
          مولانا قطب الدین خان محدث دہلوی  فرماتے ہیں : اجماع ہوا صحابہ کا اس پر کہ تراویح کی بیس رکعت ہیں۔ (مظاہر حق ج۱ ص۴۳۶)
          حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  نے اپنی سب سے مشہور ومعروف کتاب (حجة اللہ البالغہ) میں تحریر کیا ہے کہ صحابہٴ کرام اور تابعین کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعت مقرر ہوئی تھیں؛ چنانچہ فرماتے ہیں کہ صحابہٴ کرام اور تابعین نے قیام رمضان میں تین چیزیں زیادہ کی ہیں :
          (۱) مسجدوں میں جمع ہونا؛ کیونکہ اس سے عوام وخواص پر آسانی ہوتی ہے۔
          (۲) اس کو شروع رات میں ادا کرنا؛ جبکہ اخیر رات میں پڑھنا زیادہ افضل ہے جیساکہ حضرت عمر فاروق  نے اس طرف اشارہ  فرمایا۔
          (۳) تراویح کی تعداد بیس رکعت۔ (حجة اللہ البالغہ ج۲ ص ۶۷)
          مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالی  نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت عمرفاروق کے دور میں جو طریقہ بیس رکعت پڑھانے کا ہوا ، اس کو علماء نے اجماع کے مثل شمار کیا ہے۔ (عون الباری ج۴ ص ۳۱۷)
حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کی حدیث کی
مکمل عبارت اور اس کا صحیح مفہوم:
          عَنْ اَبِی سَلْمیٰ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّہ اَخْبَرَہ اَنَّہ سَألَ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَیْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَان رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِہ عَلَی اِحْدَی عَشَرَةَ رَکْعَةً یُصَلِّیْ اَرْبَعاً فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ اَرْبَعاً فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلَاثاً قَالَتْ یَارَسُولَ اللّٰہِ اَتَنَامُ قَبْلَ اَنْ تُوتِرَ فَقَالَ: یَا عَائِشَةُ! اِنَّ عَیْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ․․ (بخاری، کتاب التہجد)
          حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کی کیا کیفیت ہوا کرتی تھی؟ تو حضرت عائشہ  نے فرمایا کہ اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھاکرتے تھے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پہلے چار رکعت ادا کرتے تھے اوران کی خوبی اور ان کی لمبائی کے بارے میں مت پوچھو (کہ وہ کتنی خوب اور کتنی لمبی ہوا کرتی تھیں) پھر آپ چار رکعت اسی طرح پڑھا کرتے تھے۔ پھر تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں، میرا دل نہیں سوتا۔
          ﴿وضاحت﴾: یاد رکھیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا اصل تعلق تہجد کی نماز سے ہے اور تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں، یہی جمہور علماء کا مسلک ہے۔
          اس حدیث میں حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کی گئی کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم پہلے خوب لمبے قیام ورکوع وسجدہ والی چار رکعت ادا کرتے تھے پھر خوب لمبے قیام ورکوع وسجدہ والی چار رکعت ادا کرتے تھے، اور پھر تین رکعت وتر پڑھا کرتے تھے۔ حدیث کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سوال اور جواب کا اصل مقصد حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت کو بیان کرنا ہے، نہ کہ تعداد رکعت کو۔ بعض حضرات نے تہجد اور تراویح کی نماز کو ایک سمجھ کر حدیث میں وارد گیارہ میں سے آٹھ کے لفظ کو تراویح کے لیے لے لیا؛ لیکن گیارہ رکعت پڑھنے کی کیفیت اور تین رکعت وتر کو نظرانداز کردیا۔
          اگر نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح ایک ہی نماز ہے اور تراویح کے آٹھ رکعت ہونے کی یہی حدیث دلیل ہے، تو چاہیے کہ اس حدیث کے تمام اجزاء پر عمل کیا جائے اور اس میں بیان کردہ پوری کیفیت کے ساتھ نماز تراویح ادا کی جائے یا کم از کم اس کے مسنون ہونے کو بیان کیا جائے؛مگر اس حدیث سے صرف آٹھ کا لفظ تو لے لیا؛ مگر آٹھ رکعت نماز کی کیفیت کو چھوڑ دیا؛ کیونکہ اس میں لمبی لمبی چار چار رکعت پڑھنے کاذکر ہے اور تین رکعت وتر کا ذکر ہے، نیز وتر کے لیے تین کے لفظ کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رکعت وتر کو اپنی سہولت کے لیے اختیار کرلیا۔ اس حدیث میں ہے کہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ رکعت پڑھنے کے بعد سوجاتے پھر وتر پڑھتے تھے؛ حالانکہ ماہِ رمضان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت سے سارے حضرات نماز عشاء کے ساتھ تراویح پڑھنے کے فوراً بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ بخاری کی اس حدیث کے صرف آٹھ کے لفظ کو لے کر باقی تمام امور کو چھوڑ نا، یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل کرنا نہیں ہوا؛ بلکہ اپنے اسلاف کے قرآن وحدیث فہمی پر قناعت کرنا ہے اور یہی تقلید ہے؛ حالانکہ بخاری میں ہی حضرت عائشہ  کی دوسری حدیث ہے : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّی بِالَّیْلِ ثَلَاثَ عَشَرَةَ رَکْعَةً ثُمَّ یُصَلِّیْ اِذَا سَمِعَ النِّدَا بِالصُّبْحِ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ (باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر) یعنی اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز تیرہ رکعت پڑھتے تھے اور جب فجر کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعت ادا کرتے (یعنی فجر کی سنت)۔غور فرمائیں کہ گیارہ رکعت والی حدیث بھی بخاری میں ہے اور تیرہ رکعت والی حدیث بھی بخاری میں اور دونوں حدیثیں حضرت عائشہ  سے ہی مروی ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ گیارہ رکعت والی حدیث میں  سے لفظ آٹھ کو تو لے لیا اور تیرہ رکعت والی حدیث کو بالکل ہی چھوڑدیا؛ حالانکہ تیرہ رکعت والی حدیث میں ”کان“ کالفظ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ماضی استمرار کے لیے ہے یعنی آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا تیرہ رکعت پڑھنے کا معمول تھا۔ نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح کو ایک کہنے والے حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں احادیث میں تطبیق دینے سے قاصر ہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ کی آٹھ رکعت والی حدیث میں تو چار چار رکعت پڑھنے کا تذکرہ ہے؛ لیکن عمل دو دو رکعت پڑھنے کا ہے تو جواب میں دوسری حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، جس میں نماز تہجد کو دو دو رکعت پڑھنے کا تذکرہ ہے، اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس  کی حدیث ہے جو بخاری ہی (کتاب الوتر) میں ہے: ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ اَوْتَرَحضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر نماز تہجد پہلے دو رکعت ادا کی، پھر دورکعت ادا کی،پھر دورکعت ادا کی،پھر دورکعت ادا کی،پھر دورکعت ادا کی،پھر دورکعت ادا کی،پھر وتر پڑھے۔ بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ وتر کے علاوہ دو دو رکعت کرکے تہجد کی کل بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ آٹھ رکعت تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو ان احادیث میں تطبیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ غرضے کہ حضرت عائشہ کی پہلی حدیث سے آٹھ کا لفظ لیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس کی اس حدیث سے دو دو رکعت پڑھنے کو لیا، تو نہ تو حضرت عائشہ کی حدیث پر عمل ہوا اور نہ حضرت عبداللہ بن عباس  کی حدیث پرعمل ہوا؛ بلکہ اپنے اسلاف کی تقلید ہوئی؛ حالانکہ یہ تینوں احادیث صحیح بخاری کی ہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجد کو ایک قرار دینا ہی غلط ہے؛ کیونکہ اس کا ثبوت دلائل شرعیہ سے نہیں دیا جاسکتا ہے۔ چاروں ائمہ میں سے کوئی بھی دونوں نمازوں کو ایک قرار دینے کا قائل نہیں ہے۔ امام بخاری  تو تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھا کرتے تھے، امام بخاری  تراویح باجماعت پڑھا کرتے تھے اور  ہر رکعت میں بیس آیتیں پڑھا کرتے تھے اور پورے رمضان میں تراویح میں صرف ایک ختم کرتے تھے، جب کہ تہجد کی نماز امام بخاری  تنہا پڑھا کرتے تھے اور تہجد میں ہر تین رات میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ (امام بخاری کے اس عمل کی تفصیلات پڑھنے  کے لیے صحیح بخاری کی سب سے مشہورومعروف شرح "فتح الباری" کے مقدمہ کا مطالعہ فرمائیں)۔
          بس بات صحیح یہی ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں، تہجد کی نماز تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے متعین ہوئی ہے، سورة المزمل کی ابتدائی آیات (یَااَیَّہَا الْمُزَمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلا......) پڑھ لیں؛ جبکہ تراویح کا عمل حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مشروع ہوا ہے، جیساکہ آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : سَنَنْتُ لَہ قِیَامَہ (نسائی، ابن ماجہ) تراویح کا عمل میں نے مسنون قرار دیا ہے۔ حضرت عمر فاروق  کے عہد میں جماعت کے ساتھ بیس  رکعت کا باقاعدہ اہتمام کے ساتھ شروع ہونا، روز روشن کی طرح واضح ہے، جیساکہ محدثین وعلماء کرام کے اقوال، حوالوں کے ساتھ اوپر تحریر کیے جاچکے ہیں۔لہٰذا اس حقیقت کا انکار کرنا صرف اور صرف ہٹ دھرمی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کم کبھی زیادہ پڑھا کرتے تھے۔
ایک شبہ کا ازالہ:
          بعض حضرات نے ابن خزیمہ وابن حبان میں وارد حضرت جابر کی روایت سے ثابت کیا ہے کہ آپ ا نے رمضان میں آٹھ رکعات تراویح پڑھیں؛ حالانکہ یہ روایت اس قدر ضعیف ومنکر ہے کہ اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے؛ کیونکہ اس میں ایک راوی عیسیٰ  بن جاریہ ہے، جس کی بابت محدثین نے تحریر کیا ہے کہ اس کے پاس منکر روایات ہیں، جیساکہ ۸ رکعت تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات نے دوسرے مسائل میں اس طرح کے راویوں کی روایات کو تسلیم کرنے سے منع کیا  ہے۔ اس نوعیت کی متعدد احادیث جمہور مسلمین کے پاس بھی موجود ہیں، جن میں مذکور ہے کہ حضور اکرم انے بیس رکعت تروایح پڑھیں: حضرت عبد اللہ بن عباس  سے روایت ہے کہ بیشک نبی اکرم ا ماہِ رمضان میں بلاجماعت بیس رکعت اور وتر پڑھتے تھے۔ (بیہقی، ج۱ ص ۴۹۶، اس حدیث کو طبرانی نے کبیر میں، ابن عدی نے مسند میں اور علامہ بغوی نے مجمع صحابہ میں ذکر کیا ہے) (زجاجة المصابیح)۔۔۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے امام رافعی کے واسطہ سے نقل کیا ہے کہ حضورِ اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بیس رکعت دو راتیں پڑھائیں پھر تیسری رات کو لوگ جمع ہوگئے؛ مگر آپ باہر تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح کو فرمایا کہ مجھے اندیشہ تھا کہ یہ تمہارے اوپر فرض نہ ہوجائے اور تم اس کو ادا نہ کرسکو؛اس لیے باہر نہیں آیا۔
دوسرے شبہ کا ازالہ:
          بعض حضرات نے ایک روایت کی بنیا د پر تحریر کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے گیارہ رکعت تراویح کا حکم دیاتھا؛ حالانکہ یہ حدیث تین طرح سے منقول ہے اور حدیث کی سند میں شدید ضعف بھی ہے۔ ۔۔ نیز حضرت عمر فاروق  کے زمانہ میں بیس رکعت تراویح پڑھی گئیں، یہ بات سورج کی روشنی کی طرح محدثین واکابر امت نے تسلیم کی ہے، جیساکہ محدثین وعلماء کرام کے اقوال حوالوں کے ساتھ اوپر تحریر کیے جاچکے ہیں۔ لہٰذا اس حقیقت کا انکار کرنا صرف ہٹ دھرمی ہے۔ امام ترمذی، امام غزالی ، علامہ نووی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، علامہ ابن قدامہ ، علامہ ابن تیمیہ  اور مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالی  نے بھی وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ مشہور غیر مقلد عالم مفتی محمد حسین بٹالوی نے جب پہلی دفعہ ۱۲۸۴ھ میں باضابطہ طور پر فتوی جاری کیا کہ آٹھ رکعت تراویح سنت اور بیس رکعت بدعت ہے تو اس انوکھے فتوے کی ہر طرف سے مخالفت کی گئی۔ مشہور غیر مقلد بزرگ عالم مولانا غلام رسول صاحب نے خود اس فتویٰ کی سخت کلمات میں مذمت کی، اور اس کو سینہ زوری قرار دیا۔ (رسالہ تراویح ص ۲۸،۵۶)
تیسرے شبہ کا ازالہ:
          کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نبی اکرم ا اور صحابہٴ کرام کے اقوال میں اگر کوئی تضاد ہو تو صحابہ کے اقوال کو چھوڑکر نبی اکرم ا کے قول کو لیا جائے گا۔ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ اگر کوئی اِس میں شک بھی کرے ، تو اُسے اپنے ایمان کی تجدید  کرنی ہوگی؛ لیکن یہاں کوئی تضاد نہیں ہے؛ کیونکہ نبی اکرم ا کے اقوال وافعال میں کہیں بھی تراویح کی کوئی تعداد مذکور نہیں ہے ۔ نبیِ اکرم ا کی سنتوں سے صحابہٴ کرام کو ہم سے زیادہ محبت تھی۔ اور دین میں نئی بات پیدا کرنے سے صحابہٴ کرام ہم سے زیادہ ڈرنے والے تھے۔
خصوصی توجہ:
          سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی۱۹۹۹) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویحُ أکْثَرُ مِنْ ألْفِ عَامٍ فِی الْمَسْجِدِ النبوی) لکھی ہے۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح  ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعت پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعت تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ،لہٰذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں؛ تاکہ ان لوگوں کے شکوک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعت تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے․․․․ اس کتاب میں ۱۴۰۰ سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم  لکھتے ہیں: اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا  ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح  پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ ۸ سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو ؟
http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/05-Namaz%20Tarawih_MDU_07_08_July%20&%20August_13.htm

عبادات - صوم (روزہ )

India
سوال # 60129
ہمارے یہاں اخیر رمضان میں شبینہ ہوتا ہے جس میں 6 ،7 حافظ مل کر قرآن کریم مکمل کرتے ہیں اور اسی دوران ناشتہ بھی چلتا ہے اور کسی نے مجھے بتایا ہے کہ شبینہ پڑھنا بدعت ہے تو آپ سے پوچھنا یہ ہے کہ شبینہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر جائز ہے تو کن شرائط کے ساتھ؟
Published on: Jul 9, 2015
جواب # 60129
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 939-768/D=9/1436-U

ایک مفصل فتوی تین روز یا پانچ روز میں ختم قرآن کے حکم سے متعلق منسلک کیا جاتا ہے، 
ایک روزہ شبینہ میں یہ خرابیاں اگر مستزاد ہوکر پائی جاتی ہوں تو اس کا قابل ترک ہونا صاف ظاہر ہے، ورنہ منسلکہ فتوے کی روشنی میں آپ اپنے یہاں کے شبینہ کے اوصاف تحریر کریں۔
--------------------------------------
تین روزیا پانچ روزکی تراویح کا حکم
(جس میں آدابِ قرآن کی رعایت ملحوظ نہ رکھی جائے)
محترمی ،مکرمی حضرت مفتی صاحب مدظلہ! ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید کہ درج ذیل سوال کا جواب مرحمت فرما کر ممنون فرمائیں گے ۔
سوال:﴿۳۹﴾ ہر شخص بخوبی اس با ت سے واقف ہے کہ رمضان المبارک میں بہت سی جگہوں پر نماز تراویح میں قرآن پاک پورا ہوتا ہے اور مساجد کے علاوہ گھروں میں، کارخانوں میں اور دیگر بہت سی جگہوں پرتین، پانچ، سات اور نو شب میں پورا کردیا جاتا ہے، اور حفاظ کرام جس تیزی سے پورا کرتے ہیں، اس کو سن کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کلام پاک کا کوئی ادب ملحوظ رکھاجاتا ہے، ایسے تیز رو حفاظ کرام عوام میں بھی بے حد مقبول ہوتے ہیں، آں جناب سے معلوم یہ کرنا ہے کہ اگر اس طریقہ سے قرآن کریم پڑھنا اور سننا ممنوع ہے، تو عوام مقتدیوں کو کس طریقہ سے منع کیا جائے اور ان کو سمجھانے کا کیا طریقہ اختیار کیا جائے ؟نیز آں جناب ممانعت کے اسباب پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالیں۔
ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس سلسلہ میں ایک تفصیلی اور جامع فتوی آپ کے دار الافتاء سے ایسا جاری ہو کہ ماہِ مبارک میں قرآن کریم کی بے ادبی کو حتی الامکان روکا جاسکے اور پورے مہینے مساجد کلامِ الٰہی کے انوار سے آباد ومعمور رہیں اور چند شب میں پورا کرنے کا یہ سلسلہ قطعاً بند ہوسکے۔
فقط 
محمد اظہر انصاری محلہ قاضی سہارن پور (۱۱۹۷/د ۱۴۲۹ئھ) 
الجواب وباللہ التوفیق:
نمازتراویح میں تین چیزیں خاص طور پر قابلِ لحاظ ہیں :
(الف) قرآن شریف کا جو حصہ پڑھاجائے، وہ تصحیح اور ترتیل کے ساتھ پڑھاجائے، ارشاد خداوندی ہے : وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلاً (مزمل:۴)، یعنی (قرآن کو خوب صاف صاف پڑھو، ایک ایک حرف الگ الگ ہو)، لہٰذا ایسی تیز رفتاری سے پڑھنا جس میں حروف کٹ جائیں اور الفاظ کی ادائیگی، صحیح وصاف نہ ہو درست نہیں ہے، قال في الفتاویٰ الہندیة:ویکرہ الإسراع في القراء ة وفي أداء الأرکان کذا في السراجیة، وکلما رتل فہوحسن کذا في فتاوی قاضي خاں(۱)۔
(ب) پورے رمضان میں نماز تراویح کے اندر ایک قرآن کا ختم کرنا سنت ہے، جس میں قرآن پڑھنے اور سننے کے آداب کا پور الحاظ رکھنا ضروری ہے، جس کا مستحب طریقہ یہ ہے کہ ایک رکعت میں ایک رکوع یا دس آیتیں پڑھی جائیں، قال في الہندیة:ویکرہ أن یعجل ختم القرآن في لیلة إحدی وعشرین أو قبلہا، وحکی أن المشائخ رحمہم اللّہ تعالٰی جعلوا القرآن علی خمس مائة وأربعین رکوعاً واعلموا ذلک في المصاحف حتی یحصل الختم في لیلة السابع والعشرین، وفي غیرہذا البلدکانت المصاحف معلمة بعشرمن الآیات وجعلوا ذٰلک رکوعاً لیقرأ في کل رکعة من التراویح القدر المسنون، کذا في فتاوی قاضی خان (۲)، وقال الزیلعي: ومنہ من استحب الختم في لیلة السابع والعشرین رجاء أن ینالوا لیلة القدر، لأن الأخبار تظاہرت علیہا، وقال الحسن عن أبي حنیفة رحمة اللہ علیہ: یقرأ في کل رکعة عشر آیات ونحوہا، وہو الصحیح لأن السنة الختم فیہا مرة وہو یحصل بذلک مع التخفیف(۳)، قال في العالمگیري:وینبغي للإمام إذا أراد الختم أن یختم في لیلة السابع والعشرین کذا فی المحیط (۴)۔
عبارتِ مذکورہ بالا سے معلوم ہوا کہ مقدار مسنون کا خیال کرتے ہوئے، ایک رکعت میں ایک رکوع یا دس آیتیں پڑھی جائیں، اس مقدار کو مشائخ فقہاء نے مستحب قرار دیا ہے اور یہی امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے، تاکہ ستائیسویں شب میں قرآن کا ختم ہوجائے، جس سے لیلة القدر کی فضیلت بھی حاصل ہوسکے گی، اور تخفیف وسہولت کی رعایت کے ساتھ ایک قرآن ختم ہوجائے گا، کیوں کہ امام کو نماز میں تخفیف کی ہدایت فرمائی گئی ہے، قرآن سننے میں اگر لوگ کسل مندی کریں اور آداب استماع (غور سے سننے) کی رعایت ملحوظ نہ رکھیں تو مقدار مذکور میں تخفیف بھی کی جا سکتی ہے؛ کیوں کہ قرأت قرآن اور اس کے استماع کے آداب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، کم از کم ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیتیں سورہ فاتحہ کے ساتھ پڑھ کر نماز تراویح اگر ادا کی جائے تو بھی درست ہے کہ لوگ رغبت سے تراویح کی نمازیں ادا کریں او ر مسجد یں غیر آباد نہ ہوں ، قال في الدر المختار: والختم مرة سنة أي قرائة الختم في صلاة التراویح سنة، ومرتین فضیلة، وثلاثا أفضل ولا یترک الختم لکسل القوم لکن في الاختیار الأ فضل في زماننا قدرما لا یثقل علیہم، وأقرہ المصنف وغیرہ، وفي المجتبی عن الإمام لو قرأ ثلا ثاً قصاراً أو آیة طویلة في الفرض، فقد أحسن ولم یسئی فما ظنک بالتراویح؟ وفي فضائل رمضان للزاہدی أفتی أبو الفضل الکرمانی الوبری أنہ إذا قرأ في التراویح الفاتحة وآیة أو آیتین لایکرہ ومن لم یکن عالما بأہل زمانہ، فہو جاہل(۱)، قال في البحر:فالحا صل أن المصحح في المذہب أن الختم سنة لکن لا یلزم منہ عدم ترکہ إذا لزم منہ تنفیر القوم وتعطیل کثیرمن المساجد خصوصا في زماننا، فالظاہر اختیار الأخف علی القوم(۲)، والمتأخرون کانوا یفتون في زماننا بثلاث آیات قصاراً أو آیة طویلة حتی لا یمل القوم ولا یلز م تعطیل المساجد وہذا أحسن کذا في الزّاہدي (۳)۔
پس معلوم ہوا کہ جس طرح قرآن پڑھنے میں جلد بازی کرنا مکروہ ہے، اسی طرح اتنی مقدار پڑھنا کہ لوگوں کو گرانی ہو اور بے رغبتی سے لوگ سنیں مکروہ ہے ۔
(ج) تراویح کی بیس رکعت رمضان کے پورے ماہ پڑھنا، جس میں ایک قرآن جو اطمینان کے ساتھ صحیح اور درست پڑھا گیا ہو، لوگ پورا سن لیں ، پھر مہینہ کے باقی دنوں میں مختصر سورتوں کے ساتھ تراویح پڑھتے رہیں یا قرآن سننے کے شوق میں ایک کی بجائے دو تین قرآن بھی دل چسپی اور رغبت کے ساتھ سن لیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ؛بلکہ موجبِ فضیلت وثواب ہے ،قال في الدر: والختم مرة سنة ومرتین فضیلة وثلاثا أفضل(۱)لیکن قرآن پوراہونے کے بعد باقی دنوں میں نماز تراویح چھوڑدینا مکروہ اور بڑی فضیلت سے محرومی ہے ،قال في الہندیہ: لو حصل الختم لیلة التاسع عشر أوالحادی والعشرین لا تترک التراویح في بقیة الشہر لأنہا سنة کذا في الجوہرة النیرة،الأصح أنّہ یکرہ لہ الترک کذا في السّراج الوہاج(۲)۔ 
اس سے معلوم ہوا کہ رمضان کے بعض دنوں میں تراویح میں ایک قرآن ختم کرلینے سے باقی دنوں کی نماز تراویح ساقط نہیں ہوتی؛ بلکہ تراویح کی سنیت بر قرار رہتی ہے اور اس کا ترک کرنا مکروہ اور فضیلت سے محرومی کا باعث ہے ۔
حاصل یہ کہ تراویح میں ختم قرآن کے لیے یہ چند امور ضروری ہیں جن کا خاص لحاظ رکھنا چاہیے؛ (۱)قرآن صاف صاف پڑھاجائے، اتنی جلدی نہ پڑھا جائے کہ حروف سمجھ میں نہ آئیں، 
(۲) سننے والوں کا آدابِ استماع کا خیال رکھنا
(۳) اتنی مقدار پڑھی جائے کہ قوم کسل مند نہ ہو، 
(۴) سنانے والے کا معاوضہ نہ لینا، 
(۵) حفاظ کو ریا ونمود مقصود نہ ہو نا، 
(۶) ختم قرآن ایک مرتبہ کرلینے کی بنا، پر باقی ایام کی تراویح کا تارک نہ بننا، (۷) تراویح غیر مسجد میں پڑھنے کی صورت میں نماز عشاء مسجد کی جماعت کے ساتھ پڑھی جائے ۔
ان امور مذکورہ کی رعایت کرتے ہوئے اگر لوگ رغبت وشوق سے سننے کے لیے تیار ہوں تو ۳/۵/۷/۱۰/۱۵/ دن میں بھی ختم قرآن کرنے میں مضائقہ نہیں ہے ۔ 
لیکن ۳/۵/۷/دن میں ختم قرآن کا جو رواج شہروں میں پایا جارہا ہے، اس میں بالعموم درج ذیل مفاسد کل یا بعض پائے جاتے ہیں:
(۱) ترتیل وتجوید کو جلدی کی وجہ سے ترک کردیا جاتا ہے، بعض جگہ تو اس قدر پڑھنے میں جلدی کی جاتی ہے کہ حروف سمجھ میں نہیں آتے ،نہ زبر کی خبرنہ زیر کی، نہ غلطی کا خیال، نہ تشابہ کا،
(۲) حفاظ کو عوض مالی کی امید ہونا،
(۳) امام کو تخفیف صلاة کا حکم ہے اس کی مخالفت کا پایا جانا، 
(۴) جماعت میں شرکت کرنے والوں کاآدابِ استماع کا ضائع کرنا؛ کوئی بیٹھا ہے ، تو کوئی سو رہا ہے، تو کوئی باتیں کر رہاہے، تو کوئی امام کے رکو ع میں جانے کا منتظر ہے، کوئی 
”إذا قاموا إلَی الصّلاة قاموا کسالٰی“
کا مصداق بنا ہوا ہے، لوگوں کا شور وشغب کرنا، اور ان کے آمد ورفت کی چہل پہل مستزاد ہے، 
(۵) بہت کم لوگ قرآن سے شغف یا اس کے سننے سے دلچسپی کی وجہ سے شرکت کرتے ہیں ، 
(۶) اکثر لوگ رمضان کے باقی دنوں کی تراویح سے چھٹی حاصل کرنے کی غرض سے شریک ہوتے ہیں ، (۷) تراویح کی معیت میں عشاء کی فرض نماز غیر مسجد میں جماعت سے پڑھنے کے رواج کا عام ہونا، (۸) اس بنا پر مسجد کی جماعت کا کم ہوجانا، 
(۹) ریاء ونمائش کے ساتھ ۳/۵/۷/ دن میں ختم قرآن کا انتظام واعلان کیا جانا، دعوت شیرینی کا اہتمام ہونا،(۱۰) اس کے لیے باقاعدہ چندہ کیا جانا،اس وقت نوجوانوں میں ا س رسمی مروجہ ختم قرآن کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہاہے، جس کی وجہ سے مسجدوں میں نماز تراویح کے لیے لوگوں کی شرکت کم ہونے لگی، بھیڑنمازیوں کی ان جگہوں میں اکٹھا ہوتی ہے، جہاں ۳ / ۵ / ۷ /دنوں میں ختم قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے، پھر ان مسجدوں میں بھی اخیر ماہ مبارک تک تراویح میں اقل قلیل افرادرہ جاتے ہیں، اور ختم قرآن کے بعد باقی دنوں میں کم ہی لوگ تنہا یا جماعت سے نماز تراویح ادا کرنے کی فکر کرتے ہیں ۔
لہٰذا مذکورہ بالا قباحتوں کی وجہ سے اس رجحان کو کم کرنے اور لوگوں کو نماز تراویح، نیزختم قرآن کا اصل حکم بتلانے کی ضرورت ہے؛ تاکہ لوگ مروجہ طریقہ کو ختم کرتے ہوئے تراویح کا اہتمام مسجدوں ہی میں کریں اور قرآن سننے سنانے کا عمل پورے ماہ برقرار رکھیں، تاکہ نمازیوں کی تعداد اخیر عشرہ کی تراویح میں بھی اسی قدر نظر آئے، جتنی کہ آغاز ماہ میں نظر آتی ہے۔ 
فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ الاحقرزین الاسلام قاسمی# الٰہ آبادی نائب مفتی دار العلوم دیوبند ۲۵/۷/۲۹ھ
الجواب صحیح :حبیب الرحمن عفا عنہ،محمد ظفیر الدین غفرلہ، محمود حسن غفرلہ بلند شہری ،
فخر الاسلام عفی عنہ،وقار علی غفر لہ،
حواشی
----------------------------------------------------
(۱-۲) الفتاوی الہندیة،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
(۳) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۷․
(۴) الفتاوی الہندیة، فصل في التروایح:۱/۱۱۸․
(۵-۶) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۸․
(۷) الفتاوی الہندیة․،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
(۸) الدر مع الرد، باب الوتر والنوافل:۲/۴۹۷․
(۹) الفتاوی الہندیة،فصل في التراویح:۱/۱۱۸۔
--------------------------------------

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Sawm-Fasting/60129