أصحابي كالنُّجومِ بأيِّهمُ اقتديتُمُ اهتديتُمیہ حدیث حسن-مقبول سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ ، وَأَبُو الْفَضْلِ ، قَالا : حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، حَدَّثَنَا التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ” ، وَقَال : "أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ” . (الشفا بأحوال المصطفى للقاضي عياض » الْقَسَمَ الثاني : فِيمَا يجب عَلَى الأنام من حقوقه … » الْبَابِ الثالث : فِي تعظيم أمره ووجوب توقيره وبره …، رقم الحديث: 61, الحكم: إسناده حسن)
ترجمہ حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میرے بعد ابی بکر و عمر کی پیروی کرنا اور کہا کہ میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤگے۔
اس حدیث کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ یہ ضعیف ہے یہ بہت سی کتب میں ایک سے زیادہ سندوں کے ساتھ وارد ہوئی ہے اور ابن حزم اور اس کے ساتھ کچھ محدیثین نے اس کو موضوع حدیث کہا ہے ہم اس مقالے میں انشاء اللہ یہ ثابت کریں گے کہ یہ حدیث نہ صرف کہ قابل استدلال ہے بلکہ ہم اس صحیح سند کے ساتھ بھی پوسٹ کریں گے۔
یہ حدیث صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں نہ صرف قرآن کریم کے عین مطابق ہے بلکہ یہ بہت سی صحیح احادیث کے مطابق بھی ہے چناچہ اس حدیث پر امت کا عمل رہا ہے اور علماء اسے صحیح سمجھتے رہے ہیں.
اصل میں ماجرہ یہ ہے کہ اس حدیث "اصحابی کالنجوم” کی سند ضعیف ہونے کی وجہ سے ابن حزم یا دوسرے محدیثین نے اس کو موضوع قرار دیا لیکن اس کی ضعیف ہونے کی وجہ اس حدیث کی بنیاد ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور ضعیف ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ موضوع ہو۔ علماء کرام اور تمام امت نے اسے قبول کیا ہے اور ایسی حدیث 'تلقی بالقبول' کہلاتی ہے۔
ضعیف حدیث "تلقی بالقبول” کے سبب قابل عمل ہے: وقال الحافظ السخاوي في شرح ألفية : إذا تلقت الأمة الضيف بالقبول يعمل به الصحيح حتى أنه ينزل منزلة المتواتر في أنه ينسخ المقطوع به، ولهذا قال الشافعي رحمة الله تعالیٰ في حديث "لا وصية الوارث” أنه لا يثبت أهل العلم بالحديث ولكن العامة تلقته بالقبول وعملوا به حتى جعلوه ناسخا لاية الوصية الوارث…إنتهى
[المعجم الصغیر لطبرانی: باب التحفة المرضية في حل مشكلات الحديثية، ٢/١٧٩؛ فتح المغيث بشعره ألفية الحديث: ص # ١٢٠]
ترجمہ : علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے'شرح الفیہ' میں کہا ہے کہ:
جب امت حدیث_ضعیف کو قبول کرلے تو صحیح یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جاۓ، یہاں تک کہ وہ یقینی اور قطعی حدیث کو منسوخ کرنے میں ((متواتر حدیث کے رتبہ میں سمجھی جاۓ گی))، اور اسی وجہ سے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث : 'لاوصية لوارث' کے بارے میں یہ فرمایا کہ اس کو حدیث کے علم والے (علماۓ حدیث) ((ثابت نہیں)) کہتے ہیں لیکن عامه علماء نے اس کو قبول کرلیا ہے اور اس پر عمل کرتے ہیں ، یہاں تک کہ اس کو آیت_وصیت کا ناسخ قرار دیا ہے.
(فتاویٰ علماۓ_حدیث : ٢/٧٤ ; فتاویٰ غزنویہ : ١/٢٠٦)
قال العلامة ابن مرعي ألشبرخيتي المالكي رح في "شرح أربعين النووية” : ومحل كونه لايعمل بالضعيف في الأحكام ما لم يكن تلقته الناس بالقبول فان كان كذلك تعين وصار حجة يعمل به في الاحكام وغيرها.[شرح الأربعين النووي]
ترجمہ : اس بات کا محل کہ ضعیف حدیث پر احکام میں عمل نہیں کیا جاتا یہ ہے کہ اس کو تلقی بلقبول حاصل نہ ہو، اگر اسے تلقی بلقبول حاصل ہوجاۓ تو وہ حدیث متعین ہوجاۓ گی اور حجت ہوجاۓ گی اور احکام وغیرہ میں اس پر عمل کیا جاۓگا. فائدہ : معلوم ہوا کہ جب کسی حدیث پر امت، ائمہ_اسلام کی پیروی میں قبول کرتے اس پر عمل کرتی چلی آرہی ہو تو وہ روایت (سنداً) غیر ثابت ہوکر بھی مقبول ہوتی ہے. تو جو روایت ثابت ہو مگر ضعیف (حفظ/عمل میں کمزور راوی) ہو تو اس کے قبول کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں. کیونکہ امت اعمال_دین "دیکھ دیکھ کر” سیکھتی چلی آئی ہے، اور یہ حکم خود حدیث_نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ہے کہ: نماز پڑھو جیسے مجھے پڑھتے دیکھتے ہو.
(بخاری)
https://fbcdn-sphoto…512212079_n.jpg
صحیح روایت سے زیادہ تعامل امت قطعی (حجت) ہے:
جو روایت مشاہدات کے خلاف ہو تو وہ قابل_قبول نہیں:
سنت صرف روایت سے ثابت نہیں ہوتی، اس کے ساتھ امت کا تعامل بھی ضروری ہے کوئی حدیث سند کے لحاظ سے کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو؛ اگر اس پر امت کا عمل نہیں تو اس کی حجیت قطعی نہ رہے گی، زیادہ گمان یہی ہوگا کہ وہ عمل منسوخ ہوچکا، محدثین حدیث کی حفاظت پر اس کے معمول بہ ہونے سے بھی استدلال کرتے رہے ہیں، امام وکیع نے اسمعیل ابن ابراہیم مہاجر سے نقل کیا ہے:
"کان یستعان علی حفظ الحدیث بالعمل بہ”۔ (تاریخ ابی زرعہ الدمشقی:۱/۳۱۱)
ترجمہ: حفظ حدیث میں اس کے عمل سے بھی مدد لی جاتی تھی (یعنی یہ کہ اس پر عمل بھی ہو)۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حدیث کے معمول بہ ہونے کا اس کی صحت اور مقبولیت پر بہت اثر رہا اور محدثین کو ایسی روایات بہت کھٹکتی رہی ہیں جو معمول بہ نہ رہی ہوں۔ امام ترمذی ایک مقام پر لکھتے ہیں:
"جَمِيعُ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ مِنْ الْحَدِيثِ فَهُوَ مَعْمُولٌ بِهِ وَبِهِ أَخَذَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مَاخَلَا حَدِيثَيْنِ حَدِيثَ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِالْمَدِينَةِ وَالْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ مِنْ غَيْرِ خَوْفٍ وَلَا مَطَرٍ وَحَدِيثَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ إِذَا شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجلدوهُ فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ”۔
(جامع ترمذی، کتاب العلل:۶۲۶/۲، موقع الإسلام)
ترجمہ: جو کچھ اس کتاب میں ہے اس پر (کسی نہ کسی حلقے میں) عمل ضرور رہا ہے اوراس کے مطابق اہل علم کی ایک جماعت نے فیصلہ کیا ہے سوائے ان دو حدیثوں کے ایک حدیث حضرت ابن عباسؓ کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خوف، سفر اوربارش کے کسی عذر کے بغیر مدینہ منورہ میں ظہر اور عصر یکجا اورمغرب اور عشاء اکٹھی پڑھی ہیں، اور دوسری حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کہ جب کوئی شراب پیئے تو اسے کوڑے لگاؤ اور چوتھی دفعہ پئے تو اس کوقتل کردو۔ یہ دونوں حدیثیں سند کے اعتبار سے لائق استدلال ہیں، لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ ائمہ دین میں کسی نے ان کے ظاہر پر عمل نہیں کیا، بلکہ اس کے ترک پراہل علم کا اجماع رہا ہے۔ ائمہ مجتہدین اوران کے تمسکات کو علم حدیث کے موضوع میں شامل نہ کیا جائے تو بڑی مشکلات پیدا ہو جائیں گی، صحت حدیث کا مدار صرف سند پر نہیں، اہل علم کے عمل سے بھی حدیث قوی ہوجاتی ہے، یہ صحیح ہے کہ اکثراوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے؛ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ کبھی صحت عمل پر بھی متفرع ہوتی ہے۔ مشہور غیر مقلد عالم مولانا عبدالحق سیالکوٹی لکھتے ہیں:
اکثر اوقات عمل صحت پر متفرع ہوتا ہے اورصحت روایت اصول کی رو سے شروط معتبرہ مجوزہ ائمہ جرح و تعدیل کے ساتھ ہوتی ہے اور بعض دفعہ صحت عمل پر متفرع ہوتی ہے، صورت اول عام ہے،صورت دوم خاص ہے اور اس کی تصریح محققین نے کردی ہے، امام جلال الدین سیوطی اپنی کتاب التعقبات علی الموضوعات میں لکھتے ہیں:
"ان الحدیث اعتضد بقول اھل العلم وقد صرح غیر واحد بان من دلیل صحۃ الحدیث قول اھل العلم بہ وان لم یکن لہ اسناد یعتمد علی مثلہ”۔ (تنزیہ الشریعۃ للکنانی:۲/۱۲۰) ترجمہ:اہل علم کے قول اور تعامل کے ساتھ حدیث ضعیف، ضعف سے نکل کر صحیح اور قابل عمل ہوجاتی ہے؛ اگرچہ اس کی اسناد لائق اعتماد نہ ہو، بہت سے اہل علم کا یہ قول ہے۔ بعض فضلائے امت و امناء ملت میں اس صورت دوم کے اپنے موضع میں پائے جانے کی وجہ سے بعض کوتاہ اندیش جاہل اپنی کج فہمی کی وجہ سے ان پر اعتراض کرتے ہیں کہ فلاں مولوی حدیث کا تارک ہے۔
(الانصاف لرفع الاختلاف:۷۷۶،مطبوعہ:۱۹۱۰ ء، مطبع: رفاہ عام اسٹیم پریس، لاہور)
حافظ ابن صلاح "مقدمہ ابن صلاح” میں لکھتے ہیں کہ جب ہم کسی حدیث کو صحیح قرار دیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ حدیث یقینا صحیح ہے اور اس کی صحت درجہ علم تک پہنچتی ہے؛ بلکہ اس حکم صحت سے مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ اس میں صحیح کی وہ فنی شرائط موجود ہیں جو محدثین کے یہاں صحت حدیث کے لیے درکار ہیں، لہذا گمان یہی ہے کہ وہ حدیث صحیح ہوگی، اسی طرح ضعیف کا مطلب بھی یہ نہیں کہ یقینی طور پر وہ خلاف واقعہ ہے، ہوسکتا ہے کہ نفس الامر میں صحیح ہو؛ یہی وجہ ہے کہ اہل علم کا تعامل اس کی فنی کمزوریوں کو ڈھانپ لیتا ہے۔ علامہ ابن حجر العسقلانی رح فرماتے ہیں : کسی حدیث کو "لا یصح” یعنی وہ صحیح نہیں، کہنے سے اس (حدیث) کا موضوع (جھوٹی/من گھڑت) ہونا لازم نہیں آتا.
(شرح الفیہ : ١/١٥)
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عدم_ثبوت سے حدیث کا موضوع ہونا لازم نہیں آتا.
(تذكرة الموضوعات للقاری : ٨٢)
پس ثابت ہوا کہ اگرچہ یہ حدیث سند کے لحاظ سے ضعیف بھی تو بھی قابل استدلال ہے کیونکہ امت مسلمہ نےاسے قبول کر لیا ہے.
یہ مقالا تو تھا اس حدیث کے بارے میں جس کی سند کو ضعیف کیا جاتا ہے جس میں کوئی نہ کوئی راوی ضعیف ہوتا ہے اب ہم یہاں اس حدیث کو صحیح سند کے ساتھ پیش کریں گے ۔
یہ حدیث حسن-مقبول سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْحُسَيْنِ ، وَأَبُو الْفَضْلِ ، قَالا : حَدَّثَنَا أَبُو يَعْلَى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، حَدَّثَنَا التِّرْمِذِيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اقْتَدُوا بِاللَّذِينَ مِنْ بَعْدِي أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ ” ، وَقَال : "أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ” . (الشفا بأحوال المصطفى للقاضي عياض » الْقَسَمَ الثاني : فِيمَا يجب عَلَى الأنام من حقوقه … » الْبَابِ الثالث : فِي تعظيم أمره ووجوب توقيره وبره …، رقم الحديث: 61, الحكم: إسناده حسن)
ترجمہ حضرت حزیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا میرے بعد ابی بکر و عمر کی پیروی کرنا اور کہا کہ میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤگے۔
تخریج حدیث قاضی عیاض
اس حدیث کے رجال تمام کے تمام ثقہ ہیں
الْقَاضِي أَبُو عَلِيٍّ الحسين بن محمد الصدفي
ان کے بارے میں امام ذہبی کا کہنا ہے کہ لإمام العلامة الحافظ، برع في الحديث متنا وإسنادا مع حسن امام علامہ الحافظ جن کی حدیث متن و سند کے لحاظ سے حسن ہوتی ہے
أَبُو الْحُسَيْنِ المبارك بن عبد الجبار الطيوري
ان کے بارے میں ابن حجر اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ثبت ہیں
وَأَبُو الْفَضْلِ أحمد بن الحسن البغدادي
ان کے بارے میں یحی بن معین السمعانی اور امام ذہبی کہتے ہیں کہ ثقہ حافظ تھے
أَبُو يَعْلَى أحمد بن عبد الواحد البغدادى
خطیب بغدادی کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں حسن تھے
أَبُو عَلِيٍّ السِّنْجِيُّ الحسن بن محمد السنجي
خطیب بغدادی کہتے ہیں یہ بڑے شیخ تھے اور ثقہ تھے
مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ محمد بن أحمد المحبوبی
یہ امام ترمذی کے شاگرد ہیں ان کے بارے میں امام حاکم صاحب مستدرک اور امام ذہبی کا کہنا ہے کہ یہ ثقہ حافظ تھے
لتِّرْمِذِيُّ محمد بن عيسى الترمذی
یہ امام ترمذی ہیں صاحب السنن الترمزی جن کے حفظ ع ثقات میں کوئی شک نہین ہے
الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الواسطی
ان کے بارے میں امام احمد کہتے ہیں کہ ثقہ ہیں سنت کے پیرو ہیں اور ابو حاتم و ابن حجر کہتے ہیں صدوق ہیں
سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ
یہ ثقہ و امام ہیں
زائدة بن قدامة الثقفي
ابو حاتم ، امام نسائی ، ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ ثقہ ہیں
عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ
امام ذہبی ، ابو حاتم ، ابن حجر نے اس کی توثیق کی ہے
رَبْعيِّ بْنِ حِرَاشٍ
ابن سعد ، ذہبی ، ابن حجر نے اسے ثقہ کہا ہے
حُذَيْفَةَ رضی اللہ عنہ
یہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی عدالت پر شق کرنا ہی نقص ایمان کی نشانی ہے۔
اگر اس حدیث کو مقبول ہونے کے باوجود کوئی ضیعف ہی کہتا ہے تو بھی یہ حدیث صرف ضعیف ہی ہوگی اس کا متن پھر بھی صحیح ہے کیوں کہ ایک اور صحیح حدیث مین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ستاروں کی مانند کہا ہے، ملاحظہ ہو ۔۔
صحیح مسلم کتاب فضائل صحابہ باب بيان أن بقاء النبي صلى الله عليه وسلم أمان لأصحابه
حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وإسحق بن إبراهيم وعبد الله بن عمر بن أبان كلهم عن حسين قال أبو بكر حدثنا حسين بن علي الجعفيعن مجمع بن يحيى عن سعيد بن أبي بردة عن أبي بردة عن أبيه قال صلينا المغرب مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قلنا لو جلسنا حتى نصلي معه العشاء قال فجلسنا فخرج علينا فقال ما زلتم هاهنا قلنا يا رسول الله صلينا معك المغرب ثم قلنا نجلس حتى نصلي معك العشاء قال أحسنتم أو أصبتم قال فرفع رأسه إلى السماء وكان كثيرا مما يرفع رأسه إلى السماء فقال النجوم أمنة للسماء فإذا ذهبت النجوم أتى السماء ما توعد وأنا أمنة لأصحابي فإذا ذهبت أتى أصحابي ما يوعدون وأصحابي أمنة لأمتي فإذا ذهب أصحابي أتى أمتي ما يوعدون
سیدنا ابوبردہ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ہم نے مغرب کی نماز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی، پھر ہم نے کہا کہ اگر ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہوگا۔ پھر ہم بیٹھے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم یہیں بیٹھے رہے ہو؟
ہم نے عرض کیا کہ جی ہاں یا رسول اللہ! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز مغرب پڑھی،
پھر ہم نے کہا کہ اگر ہم بیٹھے رہیں یہاں تک کہ عشاء کی نماز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھیں تو بہتر ہوگا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا یا ٹھیک کیا۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے، پھر فرمایا کہ ستارے آسمان کے بچاؤ ہیں، جب ستارے مٹ جائیں گے تو آسمان پر بھی جس بات کا وعدہ ہے وہ آجائے گی (یعنی قیامت آجائے گی اور آسمان بھی پھٹ کر خراب ہو جائے گا)۔ اور میں اپنے اصحاب کا بچاؤ ہوں۔ جب میں چلا جاؤں گا تو میرے اصحاب پر بھی وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی فتنہ اور فساد اور لڑائیاں)۔ اور میرے اصحاب میری امت کے بچاؤ ہیں۔ جب اصحاب چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آ جائے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی اختلاف و انتشار وغیرہ)