Sunday, 30 October 2022

نجات کے تین ذرائع

نجات کے تین ذرائع:
1. اپنی زبان قابو میں رکھو
2. بلاضرورت گھر سے باہر نہ نکلو 
3. اپنے گناہوں پر رویا کرو
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین نصائح: دنیا وآخرت میں نجات کا ذریعہ 
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں، کئی احادیث آپ سے منقول ہیں، ترمذی شریف میں آپ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث منقول ہے، اس میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
’’قُلْتُ یَا رَسُولَ اللّٰہِ! مَا النَّجَاۃُ؟ قَالَ: أَمْسِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ وَلْیَسَعْکَ بَیْتُکَ وَابْکِ عَلٰی خَطِیْئَتِکَ۔‘‘               
(سنن ترمذی، باب ماجاء فی حفظ اللسان)
میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گزارش کی: اے اللہ کے رسول! مجھے بتلایئے کہ دنیا اور آخرت میں نجات کا ذریعہ کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوال کے جواب میں تین چیزوں کی نصیحت فرمائی، تین باتوں کو نجات کا سبب بتلایا:
۱:- اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔
۲:- تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے، یعنی اپنے گھر میں رہا کرو۔ 
۳:- اپنے گناہوں پر رویا کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے سوال کے جواب میں نجات کا ذریعہ اور سبب جن تین چیزوں کو بتلایا ہے، ان میں سے ہر ایک  سے متعلق کچھ تفصیل درج ذیل ہے:
پہلی نصیحت: زبان کو قابومیں رکھنا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی چیز جس کو نجات کا سبب بتلایا ہے، وہ ہے:
’’أَمْسِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ‘‘ 
ارشاد فرمایا: ’’اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھنا۔‘‘
یعنی اپنی زبان کو ایسی چیزوں اور ایسی باتوں سے پاک رکھوجن باتوں میں کوئی خیر اور بھلائی نہ ہو، لایعنی گفتگو سے اپنی زبان کو بند رکھو۔
انسانی اعضاء میں سے زبان بڑی اہمیت رکھتی ہے، اسے علماء نے دودھاری تلوار قرار دیا ہے، یہ حق میں بھی چلتی ہے اور باطل میں بھی۔ انسان کی زبان زندوں پر بھی چلتی ہے اور کبھی مُردوں کو بھی نہیں بخشتی. اس لئے انسان جوبول اپنی زبان سے نکالے، سوچ سمجھ کر نکالے، ساتھ ساتھ اپنی گفتگو کے بارے میں یہ سوچ بھی رکھے کہ میرا کہا ہوا سب کچھ لکھا جارہا ہے، مجھے اپنے ہر ایک بول کا حساب دینا ہوگا، جو کچھ میں کہہ رہا ہوں، کیا میں اس کا حساب دے سکتا ہوں؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے: 
’’مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلاَّ لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ‘‘ 
کہ انسان کی زبان سے کوئی لفظ ایسا نہیں نکلتا جسے لکھنے کے لئے حاضرباش فرشتہ نگران موجود نہ ہو، یعنی میری اور آپ کی تمام تر گفتگو لکھی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے اس کے لئے مقرر کر رکھے ہیں، اس لئے ہمیں اپنی گفتگو میں، گپ شپ میں، ہنسی مذاق میں بھی احتیاط سے کام لینا چاہئے، زبان سے غلط بول نکل جائے تو بندہ اللہ کے حضور صدقِ دل سے معافی مانگے اور آئندہ کے لئے اپنی زبان کو فضولیات سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے۔
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا عجیب واقعہ:
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے وقت کے عظیم محدث اور عالم تھے، ان کی دینِ اسلام پر استقامت بے مثل تھی، وقت کی تمام طاقتیں انہیں ان کے دینی موقف سے پیچھے نہ ہٹاسکیں، ان کا صبر بعد میں آنے والوں کے لئے ایک مثال بنا۔ ان کے بارے میں سورۂ 'ق' کی مذکورہ آیت کے تحت مفسرین نے ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہے کہ: 
امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری ایام میں علیل تھے، بیمار تھے، اور عام طور پر بیماری میں انسان کراہتا ہے، کراہنے کی آواز منہ سے نکلتی ہے، جسے ہم آہ آہ کرنا کہتے ہیں، تو امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کراہ رہے تھے، حضرت طاؤس رحمۃ اللہ علیہ بزرگ بھی ہیں اور محدث بھی ہیں، وہ اُن کے قریب تشریف فرما تھے، انہوں نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ: 
’’یکتب الملک کل شیء حتی الأنین‘‘ 
یعنی فرشتے انسان کی زبان سے نکلا ہوا ہر کلام ہر لفظ لکھ لیتے ہیں، محفوظ کرلیتے ہیں، حتیٰ کہ مریض کا کراہنا بھی لکھ لیا جاتا ہے، امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے جب یہ بات سنی تو:
’’فلم یئن أحمد حتی مات رحمہ اللّٰہ‘‘ 
یعنی ’’امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے کراہنا بھی ختم کردیا، یہاں تک کہ دنیا سے تشریف لے گئے۔‘‘
اس سے اندازہ لگائیں کہ یہ حضرات اپنی زبان کے معاملے میں کتنی احتیاط کرتے تھے، مباح باتیں بھی بلاضرورت اپنی زبان سے نہیں نکالتے تھے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے بیماری اور مرض کی وجہ سے کراہنا بھی ختم کردیا کہ کہیں اس پر قیامت میں پوچھ گچھ نہ ہو۔
فسادات کا ایک بڑا سبب:
اگر ہم غور کریں تو ہمیں اکثر لڑائی، جھگڑوں اور فسادات کی بنیاد اور سبب انسانی زبان کی بے احتیاطی اور بے باکی نظر آئے گی۔ ہماری زبانیں آج بڑی بے احتیاط ہوچکی ہیں، جو کچھ ہماری زبانوں پر آتا ہے، ہم بولتے چلے جاتے ہیں، سوچتے بھی نہیں کہ ہماری یہ باتیں برائیوں کے پلڑے کو بھاری کرنے کا سبب بن رہی ہیں، ان پر قیامت میں ہماری سخت پکڑ ہوسکتی ہے اور ہماری غیرمحتاط باتیں ہمیں دوزخ کی آگ میں دھکیل سکتی ہیں۔
زبان کی بے احتیاطیوں کا نتیجہ:
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ مشہور صحابی ہیں، وہ ارشاد فرماتے ہیں: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ: یا رسول اللہ! 
’’أَخْبِرْنِیْ بِعَمَلٍ یُدْخِلُنِی الْجَنَّۃَ وَیُبَاعِدُنِیْ مِنَ النَّارِ‘‘۔۔۔۔۔
’’مجھے ایسا عمل بتلادیجئے جس کی وجہ سے میں جنت میں داخل ہوسکوں اور جہنم سے دور کردیا جاؤں۔‘‘ 
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
’’لَقَدْ سَأَلْتَنِیْ عَنْ أَمْرٍ عَظِیْمٍ‘‘۔۔۔۔۔
’’اے معاذ! تم نے بہت بڑی بات پوچھی ہے۔‘‘ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عبادات بتلائیں کہ نماز کا اہتمام کرنا، زکوۃ ادا کرنا، حج کی استطاعت ہو تو حج کرنا، شرک سے بچنا اور ساتھ ساتھ کچھ نفلی عبادات سے بھی آگاہ فرمایا۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’أَلاَ أُخْبِرُکَ بِمَلاَکِ ذٰلِکَ کُلِّہٖ‘‘۔۔۔۔۔
’’اے معاذ! کیا میں تمہیں وہ چیز بھی بتلادوں جس پر گویا ان سب کا دارومدار ہے۔‘‘ یعنی ان عبادات کا مدار اس چیز پر ہے،جس کے بغیر یہ سب چیزیں ہیچ اور بے وزن ہیں، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا کہ: یارسول اللہ! ضرور وہ چیز بھی بتلادیں، 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک پکڑی اور ارشاد فرمایا: 
’’کُفَّ عَلَیْکَ ہٰذَا‘‘۔۔۔۔۔ 
’’اس کو روکو۔‘‘ یعنی زبان کو قابو میں رکھو، یہ چلنے میں بے احتیاط اور بے باک نہ ہو۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! 
’’وَإِنَّا لَمُؤَاخَذُوْنَ بِمَا نَتَکَلَّمُ بِہٖ‘‘۔۔۔۔۔
’’ہم جو باتیں کرتے ہیں کیا ان پر بھی ہم سے مواخذہ ہوگا؟‘‘ 
بازپُرس کی جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 
’’ثَکِلَتْکَ أُمُّکَ یَا مُعَاذُ!‘‘ ۔۔۔۔۔
’’اے معاذ! تجھے تیری ماں روئے۔‘‘
(عربی زبان کے محاورہ میں یہ کلمہ یہاں پیار ومحبت کے لئے ہے) 
’’وَہَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْہِہِمْ إِلاَّ حَصَائِدُ أَلْسِنَتِہِمْ‘‘ 
لوگوں کو دوزخ میں ان کے منہ کے بل زیادہ تر ان کی زبانوں کی بے باکانہ باتیں ہی ڈلوائیں گی، یعنی آدمی جہنم میں اوندھے منہ زیادہ تر زبان کی بے احتیاطیوں کی وجہ سے ہی ڈالے جائیں گے۔
اس حدیث کو سامنے رکھ کر ہم اپنے آپ کو دیکھ سکتے ہیں کہ زبان سے سرزد ہونے والے بڑے بڑے گناہ آج ہمارے درمیان وبا کی طرح پھیل چکے ہیں اور ان گناہوں سے بچنے والے لوگ نہایت ہی کم ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدالانبیاء والمرسلین ہیں، قیامت تک کے لئے آخری پیغمبر ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دنیا میں سب سے زیادہ بولنے کی حاجت وضرورت تھی، اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت تک پیدا ہونے والے انسانوں کے لئے مقتدیٰ اور پیشوا تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری انسانیت کو ہر لحاظ سے ہدایات دینی تھیں، اور اس ضرورت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بولنے میں کوئی کمی بھی نہیں فرماتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کی ہر چھوٹی بڑی بات بتلائی اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلق راہنمائی فراہم کی، اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ارشاد فرماتے ہیں: 
’’کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم طویل الصَّمت ولا یتکلم إلا فیما یرجوا ثوابہ‘‘
کہ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ خاموش رہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف وہی بات فرماتے تھے جس پر ثواب کی امید ہوتی تھی، اس سے زبان کی احتیاط کا اندازہ لگائیں۔
زبان کی آفتیں:
زبان کے ذریعہ ہم سے بے شمار گناہ سرزد ہوتے ہیں، ان گناہوں میں غیبت، چغل خوری، گالم گلوچ، دوسرے مسلمانوں کو ایذاء رسانی شامل ہے، اس لئے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے: 
’’الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِہٖ وَیَدِہٖ‘‘ 
اصل حقیقی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، یعنی مسلمان کی زبان غیبت، چغلی، بدگوئی اور فحش باتوں سے محفوظ رہے۔ یہاں زبان کو پہلے ذکر فرمایا اور ہاتھ کو بعد میں، علماء لکھتے ہیں: 
’’قدم اللسان لأن التعرض بہٖ أسرع وقوعًا وأکثر‘‘ 
کہ زبان سے سرزد ہونے والی خطائیں جلدی بھی ہوتی ہیں اور اکثر بھی۔ عام طور پر دوسروں کو تکلیف دینے کے لیے انسان زبان کا استعمال زیادہ کرتاہے اور جوشخص دوسروں کو ہاتھ سے تکلیف نہیں دے سکتا، وہ بھی زبان کے ذریعہ ایذاء پہنچاتا ہے۔
آج ہماری مجلسیں اور بیٹھکیں غیبت سے بھری ہوتی ہیں، ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہوتاکہ دوسروں کی غیبت کرکے ہم اپنے اعمال بھی ضائع کررہے ہیں اور گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہورہے ہیں، یعنی غیبت کے گناہ ہونے کا احساس بھی ہمارے دلوں سے رخصت ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ ہمارے حالات پر رحم فرمائے اور ہمیں سمجھ نصیب فرمائے ۔
حضرت داؤد الطائی رحمۃ اللہ علیہ کا غیبت کی وجہ سے بے ہوش ہونا:
ایک بزرگ گزرے ہیں جن کا نام ابوسلیمان داؤد الطائی ؒ ہے، یہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے شاگردوں میں سے ہیں، یہ بڑا عجیب ذوق رکھتے تھے، ساری زندگی انتہائی زہد واستغناء کے ساتھ گزاری، روٹی کو پانی میں بھگولیتے تھے، جب وہ گھل جاتی تو شربت کی طرح اسے پی لیتے اور فرماتے تھے: جتنے وقت میں میں ایک ایک لقمہ توڑ کر کھاؤں گا، اتنے عرصہ میں قرآن کریم کی پچاس آیتیں تلاوت کرسکتا ہوں، لہٰذا روٹی کھانے میں عمر کیوں ضائع کروں؟
ایک دن ایک شخص ان کے پاس آئے اور نصیحت کرنے کی درخواست کی، حضرت داؤدطائی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’دیکھوکہ اللہ تمہیں اس جگہ نہ دیکھے جہاں کا اس نے تمہیں منع فرمایا ہے، اور جہاں کا تمہیں حکم دیا ہے، وہاں تمہیں غیرحاضر نہ پائے۔‘‘ مختصر الفاظ میں کتنی عمدہ اور گہری بات فرمائی ہے۔
ان کے بارے میں بعض محدثین نے شروحاتِ حدیث میں یہ واقعہ لکھا ہے کہ یہ ایک مرتبہ کسی جگہ سے گزررہے تھے، یکدم وہاں بے ہوش ہوکر گرپڑے، انہیں اُٹھاکران کے گھر لے جایا گیا، جب بے ہوشی سے افاقہ ہوا تو پوچھا گیا کہ اس جگہ آپ پر بے ہوشی کیوں طاری ہوئی اور آپ کیوں گرپڑے تھے؟
جواب میں انہوں نے کیا کہا؟ یہ سمجھنے کی بات ہے، ارشاد فرمایا: 
’’ذُکرتُ أنی اغتبتُ رجلاً فی ہذا الموضع، فذکرت مطالبتہٗ إیاي بین یدی اللّٰہ تعالی‘‘ 
جب میں اس جگہ پہنچا تو مجھے یاد آیا کہ اس مقام پر ایک مرتبہ کسی کی غیبت ہوگئی تھی، اور مجھے وہاں پہنچ کر یہ احساس پیدا ہوا کہ کل قیامت کے دن اللہ کے سامنے مجھ سے اس بارے میں مطالبہ ہوا، حساب کتاب کیا گیا، مجھ سے پوچھا گیا تو میں کیا جواب دوں گا؟ اس محاسبہ اور اللہ کے سامنے پیشی کے خوف نے مجھے بے ہوش کردیا۔
ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کا ایک دعوت میں شریک ہونا:
حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ بڑے بزرگ گزرے ہیں، طویل واقعہ ہے کہ انہوں نے شہنشاہیت چھوڑ کر فقیری اختیار کرلی تھی اور اللہ تعالیٰ کے مقرب اور برگزیدہ بندے بن گئے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کو ایک دعوت میں بلایا گیا، ضیافت کا اہتمام کیا گیا، آپ وہاں تشریف لے گئے۔ جب وہاں پہنچے اور بیٹھ گئے تو جو لوگ وہاں موجود تھے:
’’أخذوا فی الغیبۃ.‘‘ 
انہوں نے کسی کی  غیبت شروع کردی، ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ نے بڑے احسن انداز میں انہیں سمجھایا، ارشاد فرمایاکہ: دیکھو: 
’’عندنا یؤکل اللحم بعدالخبز‘‘ 
ہمارے ہاں پہلے لوگ روٹی کھاتے ہیں، پھر گوشت کھاتے ہیں، یعنی روٹی توڑ کر شوربے میں ڈالی، ثرید بنائی اور پھر بوٹیاں رکھ دیں، تو روٹی کے بعد لوگ گوشت کھالیتے ہیں اور تم لوگ ایسے ہو کہ: 
’’وأنتم ابتدأتم بأکل اللحم؟‘‘ 
تمہارے یہاں روٹی سے پہلے ہی گوشت خوری شروع ہوگئی، یعنی ابھی کھانا شروع بھی نہیں کیا اور گوشت کھانا شرع کردیا، یعنی تم لوگوں نے دوسروں کی غیبت شروع کردی، ابراہیم بن ادہم رحمۃ اللہ علیہ کا اشارہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف تھا کہ:
’’أَیُحِبُّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَّأْکُلَ لَحْمَ أَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِہْتُمُوْہُ‘‘ 
’’کیا تم میں سے کوئی پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ سو اس کو تو تم ناپسند کرتے ہو۔‘‘
یعنی غیبت کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے، لہٰذا جس طرح وہ تمہیں پسند نہیں، اسی طرح غیبت سے بھی اپنے آپ کو دور رکھو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نصیحت کا حاصل اور خلاصہ یہ ہے کہ زبان اللہ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے، اس کا بے جا استعمال نہ کیا جائے۔ ہرانسان اپنی زبان کو قابو میں رکھے اور بلاضرورت، لایعنی کلام، فضول گفتگو، گپ شپ سے اپنے آپ کو بچائے۔ یہ نجات کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ ہے اور فسادات، لڑائی اور جھگڑوں سے بچنے کے وسائل میں سے ایک اہم وسیلہ ہے۔
دوسری نصیحت: اپنے گھر میں رہنا:
سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری نصیحت یہ فرمائی کہ:
’’وَلْیَسَعْکَ بَیْتُکَ‘‘
تمہارے گھر میں تمہارے لئے گنجائش ہونی چاہئے. تمہارا گھر تمہاری کفایت کرے، یعنی بری مجلسوں اور برے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے کی بجائے یکسوئی کے ساتھ اپنے گھر میں رہا کرو، اور اپنے گھر میں رہنے کو اپنے لیے غنیمت جانو، اس لیے کہ یکسوئی کے ساتھ گھر میں رہنا، بہت سارے فتنوں، فسادات اور برائیوں سے نجات پانے کا ذریعہ اور سبب ہے۔ جب انسان کا گھر سے باہر کوئی دینی یا دنیاوی کام نہ ہو، کوئی ضرورت اور حاجت نہ ہو تو اب بلاضرورت گھر سے باہر رہنا، بلاضرورت گھومتے پھرتے رہنا، یہ شریعت میں پسندیدہ عمل نہیں ہے، البتہ کسی کے جنازے میں شریک ہونا، عیادت کے لئے جانا،دینی محافل مجالس میں شریک ہونا، یہ چیزیں انسان کے لئے مفید اور باعث اجر وثواب ہیں، مطلقاً بلاکسی ضرورت اور حاجت کے گھومنا پھرنا اس کو اچھا نہیں سمجھا گیا۔ 
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں، یہ اور اُن کے فرزند سائب ان افراد میں شامل ہیں جنہوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی، اور یہ مہاجرین میں سے پہلے صحابی ہیں جنہوں نے مدینہ منورہ میں سن ۲ ہجری میں وفات پائی تھی، اور ان کا یہ اعزاز ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نعش مبارک کو بوسہ دیا تھا۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چند سوالات کئے، ان سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ: اے اللہ کے رسول!
’’ائْذَنْ لَنَا فِی السِّیَاحَۃِ‘‘ 
یعنی ’’ہمیں سیر و سیاحت کی اجازت عنایت فرمائیے۔ گھومنے پھرنے کی اجازت عطا فرمائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا: 
’’إِنَّ سِیَاحَۃَ أُمَّتِی الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ۔‘‘ 
یعنی ’’میری امت کے لئے سیر وسیاحت یہی ہے کہ: اللہ کے راستہ میں جہاد کیا جائے۔‘‘
دیکھئے! اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر کسی منفعت کے سیر وسیاحت کرنے کی اجازت عنایت نہیں فرمائی، بلکہ اس سے  منع فرمایا، کیونکہ زمین پر گھومنا پھرنا اور دور دراز کا سفر اختیار کرنا جہاد فی سبیل اللہ میں مطلوب و محمود ہے۔ محض سیر و سیاحت کی خاطر خواہ مخواہ دنیا کے چکر کاٹنا، جیسا کہ بعض فقیر قسم کے لوگ کرتے ہیں، عقلمندی کی بات نہیں ہے اور نہ اس سے کوئی اُخروی منفعت و بھلائی حاصل ہوتی ہے۔ بلاضرورت گھر سے باہر رہنے اور گھومنے پھرنے سے بہت سارے گناہوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہتا ہے، خاص کر فتنے کے زمانے میں گھر میں رہناانسان کے لئے فتنوں اور پریشانیوں سے بچاؤ کی بہترین تدبیر ہے۔ فضول کی محافل اور مجلسیں لگانا اور ان میں دوسروں کی غیبت اور تبصروں میں مشغول ہونا اپنی زندگی کے قیمتی وقت کو ضائع کرنا ہے۔
 دوسری نصیحت میں ہمیں یہی بتایا گیا ہے کہ بری محافل، مجالس اور غلط دوستی، اور صحبت سے اپنے آپ کو دور رکھیں، باہر گھومنے پھرنے کی بہ نسبت اپنے گھر میں رہنا اسی میں عافیت ہے۔ بعض دوستیاں اور تعلقات انسان کو حق سے دور کردیتے ہیں اور انسان قیامت کے دن ایسے برے لوگوں کی دوستی پر افسوس اور ندامت کرے گا، مگر اس دن کی ندامت انسان کو نجات نہیں دلاسکے گی۔سورۂ فرقان میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: 
’’وَیَوْمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَی یَدَیْہِ یَقُوْلُ یَا لَیْتَنِی اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُوْلِ سَبِیْلاً  یَا وَیْلَتٰی لَیْتَنِیْ لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلاً۔‘‘ (الفرقان: ۲۷،۲۸)
 ’’اور جس دن کاٹ کاٹ کھائے گا گناہ گار اپنے ہاتھوں کو، کہے گا: اے کاش! میں نے پکڑا ہوتا رسول کے ساتھ راستہ۔ ہائے افسوس! کاش! میں نے فلاں شخص کو دوست نہ بنایا ہوتا۔‘‘
 اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے نافرمانوں سے دوستی اور وابستگی نہیں رکھنی چاہئے اس لئے کہ اچھی صحبت سے انسان اچھا اور بری صحبت سے انسان برا بنتا ہے۔ اکثر لوگوں کی گمراہی کی وجہ غلط دوستوں کا انتخاب اور صحبتِ بد کا اختیار کرنا ہی ہے۔ اس لیے حدیث میں بھی صالحین کی صحبت کی تاکید اور بری صحبت سے اجتناب کا حکم دیاگیا ہے۔
تیسری نصیحت: اپنی خطاؤں اور گناہوں پر رونا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری نصیحت یہ فرمائی کہ:
’’وَابْکِ عَلٰی خَطِیْئَتِکَ‘‘
یعنی اپنی خطاؤں، اپنے گناہوں اور نافرمانیوں پر اللہ کے حضور شرمسار ہوکر گڑگڑاؤ، اشک بہایا کرو، رویا کرو۔
احساسِ ندامت اور خوفِ خدا میں بہنے والے آنسو اللہ تعالیٰ کو بڑے محبوب ہیں۔ مومن آدمی جتنا اشکِ ندامت گراتا ہے، اتناہی اللہ کے ہاں محبوب بنتا چلا جاتا ہے۔ تفسیر کبیر میں امام رازی رحمۃ اللہ علیہ اور تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث قدسی نقل کی ہے، یعنی اللہ رب العالمین کا یہ ارشاد نقل فرمایا ہے کہ:
’’لَأَنِیْنُ الْمُذْنِبِیْنَ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ زَجَلِ الْمُسَبِّحِیْنَ‘‘
کہ گناہگاروں کا رونا، احساسِ گناہ میں آنسو بہانا، اللہ کے سامنے عاجزی کرنا، یہ اللہ تعالیٰ کو تسبیح خوانوں کی آواز سے زیادہ پسندیدہ ہے، اس لئے ہمیں یہ نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے پروردگار کے سامنے اپنی خطاؤں پر رویا کرو۔
کَھمَس بن حسن قیسی رحمۃ اللہ علیہ کا چالیس برس تک رونا:
حضرت کَھمَس بن حسن قیسی رحمۃ اللہ علیہ بصرہ میں ایک بڑے پایہ کے بزرگ گزرے ہیں، حدیث کی کتابوں میں ان کی سند سے کئی روایات بھی موجود ہیں، وہ مشہور روایت جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو شب قدر کی دعا سکھائی ہے: 
’’اللّٰہم إنک عفو کریم تحب العفو فاعف عنی.‘‘ 
یہ روایت ان ہی کی سند سے ترمذی شریف میں منقول ہے۔ ۱۴۹ ہجری میں ان کا انتقال ہوا ہے۔ انہوں نے اپنی والدہ کی بڑی خدمت کی ہے ۔ ان کی سوانح میں لکھا ہے کہ جب ٹھنڈا پانی پیتے تو یہ ایک نعمت بھی ان کے نزدیک اتنی بڑی قیمت رکھتی تھی کہ ٹھنڈا پانی پی کر اس کے بدلے میں، مصلی میں آنسو بہایا کرتے تھے، کہ: اے اللہ! آپ نے اپنے فضل سے ٹھنڈے پانی کی نعمت عطا کی۔
ان کے بارے میں کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک معمولی غلطی پر چالیس سال تک آنسو بہاتے رہے۔ ایک دن یہ بیٹھے ہوئے ایک دوسرے بزرگ ابوسلمہ رحمۃ اللہ علیہ کے سامنے اپنے گناہوں کا شکوہ کرنے لگے، اور کہنے لگے: میں نے ایک ایسا گناہ کیا ہے جس پر چالیس سال سے رو رہا ہوں۔ ابوسلمہ رحمۃ اللہ علیہ نے یہ بات سنی تو حیران ہوئے اور پوچھا: ایسا کون سا گناہ سرزد ہوا ہے؟ کہمس رحمۃ اللہ علیہ کہنے لگے: ایک دن میرے بھائی مجھ سے ملنے آئے، میں نے ایک دینار کی مچھلی خریدی، چنانچہ میرے بھائی نے وہ مچھلی کھائی، میں نے اُٹھ کر اپنے پڑوسی کی دیوار سے مٹی کا ایک ٹکڑا اُٹھالیا، تاکہ وہ اس سے ہاتھ پونچھ لے، صاف کرلے۔ اس مٹی کے ٹکڑے کے اُٹھانے پر میں چالیس سال سے رو رہا ہوں، کیوں کہ وہ ٹکڑا میں نے اپنے پڑوسی کی اجازت اور اس کے علم میں لائے بغیر اُٹھالیا تھا۔ اللہ اکبر! کیسا احساس اور کیسا خدا کا خوف ان کے دلوں میں رچا بسا تھا، اور آخرت کا محاسبہ ہر وقت ان کی آنکھوں کے سامنے رہتا تھا، چڑھتے سورج کی طرح حساب کتاب اور پوچھ گچھ پر یقین واعتقاد تھا۔
ترمذی شریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد منقول ہے، آپ صلی اللہ علیہ نے فرمایا: 
’’لاَ یَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَکٰی مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ۔‘‘ 
یعنی ’’اس آدمی کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جو اللہ کے خوف سے روتا ہو۔‘‘
نیز ایک طویل روایت میں حضرت ابوہریرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 
’’سَبْعَۃٌ یُظِلُّہُمْ اللّٰہُ فِی ظِلِّہٖ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّہٗ‘‘
کہ ’’قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے سائے میں رکھے گا جس روز اللہ کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔‘‘ ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ اپنے دامن رحمت میں جگہ دے گا اور انہیں آخرت کی سختیوں سے بچائے گا۔ قیامت کے روز جب کہ تمام لوگ پریشان و حیران ہوں گے تو یہ سات قسم کے لوگ عرش کے سائے میں رحمتِ الٰہی کی نعمت میں آرام وسکون سے ہوں گے۔ان سات آدمیوں میں ایک وہ آدمی بھی شامل ہے جو تنہائی میں اللہ کو یاد کرتا ہے اور اللہ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں۔
حضرت ثابت بنانی رحمۃ اللہ علیہ کا خوف خدا میں رونا:
حضرت ثابت بنانی رحمۃ اللہ علیہ تابعی ہیں، ائمہ حدیث میں سے ہیں، اللہ کے خوف اور خشیت سے بہت کثرت کے ساتھ رویا کرتے تھے، یہاں تک کہ ان کی آنکھیں دکھنے لگیں، طبیب نے کہاکہ ایک بات کاوعدہ کرلو، آنکھ اچھی ہوجائے گی، اور وہ بات یہ ہے کہ رویا نہ کرو۔ حضرت ثابت بنانی رحمۃ اللہ علیہ نے طبیب کی یہ بات سنی تو فرمایا: 
’’فَمَا خَیْرُہُمَا إِذَا لَمْ یَبْکِیَا۔‘‘ 
اس آنکھ میں کوئی خوبی ہی نہیں، اگر وہ روئے نہیں، وہ آنکھ ہی کیا جو اللہ کے خوف سے نہ روئے۔
حاصل یہ ہے کہ انسان اپنی خطاؤں پر رویا کرے، اور اگر رونا نہ آئے تو کم ازکم رونے کی شکل ہی بنالیا کرے، بتکلف رونے کی کوشش کیا کرے، اس سے دل کی سختی دور ہوتی ہے۔ آنکھوں کا خشک رہنا، جامد رہنا، آنکھوں سے اللہ کی یاد میں آنسوؤں کا نہ بہنا، یہ اچھی علامت نہیں ہے، ایک حدیث مبارکہ میں اس کو بدبختی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 
مفتی غلام مصطفی رفیق
https://saagartimes.blogspot.com/2022/10/blog-post_14.html


گروی رکھی ہوئی چیز سے مالک کی اجازت سے فائدہ حاصل کرنا؟

گروی رکھی ہوئی چیز سے مالک کی اجازت سے فائدہ حاصل کرنا؟ 

-------------------------------
--------------------------------

سوال: کیا گروی رکھی ہوئی چیز سے مرتہن کا نفع اٹھانا جائز  ہے کیا؟ جب کہ گروی رکھنے والے نفع اٹھانے کی اجازت دے رہے ہیں

الجواب وباللہ التوفیق: 

یہ مسئلہ مشائخ حنفیہ کے یہاں اختلافی ہے. عام متون میں مالک کی اجازت سے انتفاع مرتہن کی گنجائش دی گئی ہے، جبکہ بعض مشائخ ربا یا شبہ ربا کے باعث اجازت راہن کے بعد بھی انتفاع مرتہن کے جواز کے قائل نہیں ہیں؛ کہ ربا وشبہ ربا کسی کے اذن واجازت سے حلال وطیب نہیں بن جاتا. بعض فقہاء یہ تفریق وتفصیل کرتے ہیں کہ صلب عقد میں انتفاع مرتہن کی شرط لگالی گئی ہو تو انتفاع مرتہن جائز نہیں؛ واگرنہ گنجائش ہے. مالی لین دین خصوصا دیون وقرض میں شبہ ربا سے بچنا بڑا اہم ہے. احتیاط کا تقاضہ یہ ہے کہ مرتہن کے لئے انتفاع مرہون کی گنجائش نہ رکھی جائے گوکہ راہن نے حالات کی مجبوری کے باعث اس کی اجازت دے رکھی ہو۔ بعض ساہو کار اور پیسہ والے لوگ مفت کے انتفاع کے ارادے سے قرض دیکر چیزیں گروی رکھتے پھرتے ہیں.

مادة (750) الانتفاع بالرهن

ليس للمرتهن الانتفاع بالرهن بدون إذن الراهن، أما إذا إذن الراهن وأباح الانتفاع فللمرتهن استعمال الرهن وأخذ ثمره ولبنه ولا يسقط من الدين شيء في مقابلة ذلك

مجلة الأحكام العدلية

https://saagartimes.blogspot.com/2022/10/blog-post_9.html



ہم اپنے بچوں کو پہلے حفظ کیوں کروائیں؟

ہم اپنے بچوں کو پہلے حفظ کیوں کروائیں؟
امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے حلقۂ درس میں ایک صاحب اپنے بچے کو لے کر آئے اور اسے اپنے درس میں بٹھانے کی اجازت چاہی. حضرت الامام نے پوچھا کہ بچہ حافظ قرآن ہے؟ جواب دیا: نہیں۔ فرمایا: بچے کو پہلے قرآن حفظ کراؤ پھر لے کر آنا۔۔۔۔۔۔۔۔ سات روز ہی اس واقعہ کو گزرے تھے کہ وہ صاحب اپنے بچے کو لے کر پھر حاضر خدمت ہوئے۔ امام صاحب نے کہا: میں نے کہا نہیں تھا کہ اس بچے کو پہلے قرآن حفظ کرواؤ پھر آنا۔ ان صاحب نے جواب دیا: بچے نے اللہ کے فضل و کرم سے قرآن حفظ کرلیا ہے.
(بلوغ الأمانی للشیخ زاہدالکوثری)
یہی بچہ بعد میں حدیث و فقہ کا امام و مجتہد، عابد و زاہد اور ایسا عالم و فقیہ بنا جس نے ایک لاکھ سے زائد فقہی مسائل مستنبط و مستخرج فرمائے، تقریباً ایک ہزار کتابیں تصنیف کیں اور بے شمار قابل فخر شاگرد چھوڑے جس کو تاریخ میں امام محمدبن حسن الشیبانی کے نام سے جانا جاتا ہے! (صححہ: #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2022/10/blog-post_29.html

واٹس ایپ پر پیغامات پڑھنے کی رسیدوں کو غیرفعال کرنا؟

واٹس ایپ پر پیغامات پڑھنے کی رسیدوں کو غیرفعال کرنا؟
-------------------------------
--------------------------------
بہت سے لوگ اپنے واٹس ایپ پر میسیج سگنل گرین نہیں ہونے دیتے ہیں ، جس سے پتہ نہیں چلتا کہ انہوں نے میسیج پڑھا،دیکھا یا نہیں؟ واٹس ایپ بھی روز مرہ کی زندگی کی ضروریات میں داخل ہونے کی وجہ سے بہت سے مختلف امور اس سے انجام دیئے جارہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح اپنے واٹس ایپ کو رکھنا جس سے پتہ ہی نا چلے کہ پڑھا گیا یا نہیں، دھوکا تو نہیں ھے؟ شرعاً کیا حکم ہے؟
واضح فرما کر مشکور ہوں
سائل: محمد منصور ہاشمی قاسمی 
کھگڑیا
الجواب وباللہ التوفیق: 
واٹس ایپ کے ذریعے پیغامات کی ترسیل حد وحساب سے باہر ہورہی ہے۔ ایک ایک دن میں لوگ ایک دوسرے کو سینکڑوں پیغامات بھیج دیتے ہیں، بعض وہ بھی ہوتے ہیں جن سے کبھی کوئی شناسائی تک نہیں ہوتی ۔ ملنے والے پیغامات کی رسید وخواندگی،  پھر سب کے جوابات قلمبند کرنا ، ناممکن ومتعذر ہوجاتا ہے، ان پریشان کُن پیغامات کی کثرت وبہتات انسان کی واجبی مشغولیات کی انجام دہی کو بری طرح متاثر؛ بلکہ گاہے معطل کردیتی ہے۔
ان پیغامات کو فوری دیکھنا، ان میں غور کرنا پھر ری پلائی کرنا کوئی واجب شرعی نہیں؛ بلکہ امر مستحسن ہے۔ اگر ان میں انہماک واشتغال  کے باعث انسان کی شخصی ونجی، مصروفیات، ذمہ داریاں  اور اوقات راحت وآرام یا مخصوص نظامہاے عمل متاثر ہوجا تے ہوں تو واٹس ایپ پر وصول شدہ پیغامات پڑھنے کی تصدیق کرنے والے 'نیلے نشانات' کو غیرفعال کردینے کے دست یاب آپشن کو زیراستعمال لانا شرعاً درست ہے۔ واٹس ایپ پہ موصول پیغامات 'اشیاء مایحتاج' کے ذیل میں داخل نہیں ہیں جنہیں کتاب الہی میں 'ماعون' کہا گیا ہے اور جن سے اعراض وانکار پہ وعید وارد ہوئی ہے ۔ فراغ وفرصت کے لمحات میں اپنی سہولت و بشاشت کے ساتھ ہی ان چیزوں کے لئے وقت نکالا جاسکتا ہے. 
اگر وصول کنندہ کی جانب سے فوری خواندگی کی رسید دیدی جائے تو دیکھا گیا ہے کہ پھر'مُرسِلین' مغز چاٹنا شروع کردیتے ہیں، لہذا رفع حرج اور دفع مشقت جیسے مسلمہ شرعی ضابطے کے پیش نظر واٹس ایپ پیغامات پڑھنے کی رسیدوں کو غیر فعال کرنے کی شرعی گنجائش ہوگی ، یہ غش وخدع کے زمرے میں داخل نہیں ہوگا ۔ واللہ اعلم بالصواب 
https://saagartimes.blogspot.com/2022/10/blog-post_30.html



Saturday, 15 October 2022

کیا سود دینا سود لینے سے کم گناہ ہے؟

کیا سود دینا سود لینے سے کم گناہ ہے؟
-------------------------------
--------------------------------
کیا سود دینا سود لینے سے کم گناہ ہے؟
فأذنوا بحرب من الله ورسوله 
کی وعید میں سود دینے والا کیا داخل نہیں ہے؟
مناظر احسن قاسمی ،امام و خطیب قطر
الجواب وباللہ التوفیق: 
جس حدیث میں پانچ لوگوں پر لعنت آئی ہے اس میں سود دینے والا بھی ہے: 
لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه، وقال هم سواء. رواه مسلم.
آکل سے مراد سود لینے والا (آخذ الربا)
اور مؤکل سے مراد سود دینے والا (معطی الربا) ہے. لعنت وحرمت کے عموم میں پانچوں اقسام برابر داخل ہیں. البتہ چونکہ مقاصد شرع کے ذیل میں جان ومال کا تحفظ بھی ہے، اس لئے جان ومال کے تحفظ کے لئے انتہائی سخت پریشانی اور اضطرار کی حالت میں استقراض بالربح کی گنجائش بھی نص قرآنی: 
{فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [المائدة: 3]
سے ثابت ہے. اعطاء ربا اضطرار کی حالت میں قابل تحمل ہے اور حرمت و لعنت سے مستثنی ہوگا. جبکہ اخذ ربا کی گنجائش کسی حال میں بھی نہیں ہے کیونکہ اخذ ربا میں کوئی مجبوری نہیں. 
واللہ اعلم 
https://saagartimes.blogspot.com/2022/10/blog-post_7.html



نفسانی خواہشات سے نجات کیسے نصیب ہو؟

نفسانی خواہشات  سے نجات کیسے نصیب ہو؟

(تألیف: امام ابن القیم رحمہ اللہ)

نفسانی خواہشات کی پیروی دنیا وآخرت کی بہت ساری بلاؤں کا سبب ہے اور اس کی مخالفت بہت ساری بھلائیوں کا ضامن۔ ایسے لوگ جو نفسانی خواہشات کے جال میں گرفتار ہوجاتے ہیں اس سے آزادی بڑی مشکل ہوتی ہے لیکن اللہ کی توفیق پھر بندہ کی ہمت وعزیمت سے ہر کام آسان ہوجاتا ہے۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے افادات علمیہ میں سے  ایک کاوش خواہشات کے دام فریب میں گرفتار لوگوں کے لئے علامہ کا نام لے لینا ہی کسی تحریر کی قیمت وافادیت بتلانے کے لئے کافی ہے۔

ترجمہ: عبدالہادی عبدالخالق مدنی

 خواہش کا مفہوم:

            اپنی طبیعت اور مزاج کے موافق کسی چیز کی طرف میلان کا نام خواہش ہے۔ انسانی بقا کے پیش نظر انسان کے اندر اس میلان اور خواہش کی تخلیق کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر انسان کے اندر کھانے پینے اور نکاح کرنے کا میلان نہ ہو تو کھانے پینے اور نکاح سے رک جانے کی وجہ سے ہلاک ہوجائے۔

            خواہش انسان کو اپنا مقصد ومراد حاصل کرنے پر آمادہ کرتی ہے. جیسا کہ غصہ وغضب انسان سے اذیت رساں چیزوں کو دفع کرتا ہے. لہذا خواہش نہ ہی مطلقاً قابل مذمت ہے اور نہ ہی مطلقاً قابل تعریف۔ جیسا کہ غضب ہے کہ نہ وہ مطلقاً مذموم ہے اور نہ ہی مطلقاً محمود۔ بلکہ خواہش یا غضب دونوں کی برائی میں قدرے تفصیل ہے۔ وقت، حالات اور مواقع کے لحاظ سے کبھی یہ بہتر ہوتے ہیں اور کبھی بدتر۔

خواہش کی مذمت کیوں؟

            چونکہ بیشتر خواہشات کے پیچھے چلنے والے، شہوات کا اتباع کرنے والے، غضب پرست لوگ نفع بخش حد پر نہیں رکتے، اس لئےعمومی غلبۂ ضرر کو دیکھتے ہوئے خواہش، شہوت اور غضب کی مذمت مطلقاً کردی جاتی ہے کیونکہ بہت کم ایسے لوگ ہیں جو ان قوتوں میں عدل کرسکتے ہوں اور حدود پر ٹھہر جاتے ہوں۔ جیسا کہ مزاجوں میں ہوتا ہے کہ ہر طرح سے معتدل مزاج انسان کم یاب ہوتے ہیں، کسی نہ کسی خلط اور کیفیت کا غلبہ ضرور ہوتا ہے۔ لہذا ایک ناصح کو شہوت وغضب کی قوتوں کو اعتدال پر لانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔

             چونکہ خواہش میں اعتدال افراد عالم کی اکثریت کے لئے نہایت ہی دشوار ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں جب جب خواہش کا ذکر کیا تو اس کی مذمت فرمائی اور حدیث نبوی میں بھی اس کی مذمت ہی آئی ہے. البتہ جب کوئی قید اور تخصیص ہو تو معاملہ مختلف ہوجاتا ہے جیسا کہ نبی صلی الله عليه وسلم نے فرمایا:

 ''تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ ہوجائیں.''  (شرح السنة)

 یہ مقولہ مشہور ہے کہ خواہش غیرمحفوظ جائے پناہ ہے۔ 

            امام شعبی فرماتے ہیں کہ خواہش، خواہش پرست کو پستی میں گرادیتی ہے۔ انجام کی فکر کے بغیر وقتی لذت کی طرف بلاتی اورفوری طور پر شہوت پوری کرنے کے لئے آمادہ کرتی ہے. خواہ اس کی بنا پر دنیا وآخرت میں عظیم آلام و مصائب کا سامنا کرنا پڑے۔ 

            واضح رہے کہ آخرت سے پہلے دنیا میں ہی ہر عمل کا ایک انجام ہوتا ہے لیکن خواہش انسان کی عاقبت اندیشی ختم کرکے اسے انجام کے دیکھنے سے اندھا کردیتی ہے۔ جبکہ عقل اور دین ومروت انسان کو ہر ایسی لذت وشہوت سے روکتے ہیں جن کا انجام ندامت وشرمندگی اور درد والم ہو۔ نفس جب ان لذتوں اور شہوتوں کی طرف بڑھتا ہے تو دین وعقل ومروت میں سے ہر ایک اس سے مخاطب ہوکےکہتے ہیں کہ ایسا نہ کر۔ لیکن اطاعت اسی کی ہوتی ہے جو غالب ہو۔ 

            آپ دیکھتے ہیں کہ ایک بچہ اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے. خواہ اس کے نتیجے میں بربادی ہاتھ آئے کیونکہ وہ عقل کا کچا ہوتا ہے۔ ایک بے دین آدمی اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے. خواہ اس کا نتیجہ آخرت کی تباہی ہو کیونکہ وہ دین کا کچا ہوتا ہے اور ایک بے مروت انسان اپنی خواہش کو ترجیح دیتا ہے خواہ اس کی مروت داغدار یا ختم ہوجائے کیونکہ وہ مروت کا کچا ہوتا ہے۔ 

            امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول سنہرے حروف سے لکھنے کے قابل ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ ٹھنڈا پانی پینے سے میری مروت میں خلل پڑے گا تو میں اسے نہیں پی سکتا !!

خواہشات آزمائش ہیں:

            چونکہ انسان کا امتحان خواہشات کےذریعے رکھا گیا ہے اور وہ ہروقت کسی نہ کسی حادثہ سے دوچار ہوتا رہتا ہے، اس لئےاس کے وجود میں دوحاکم بنا دئیے گئے، ایک عقل اور دوسرا دین۔ پھرانسان کو حکم دیاگیا کہ خواہشات کے حوادث کو ہمیشہ ان دونوں حاکموں کے پاس لے جائے اور ان کےفیصلوں پر سر تسلیم خم کرے۔ انسان کو چاہئے کہ ایسی خواہشات کو بھی دبانے کی عادت ڈالے جن کا انجام مامون ومحفوظ ہو، تاکہ اس میں اذیت ناک انجام والی خواہشات کےچھوڑ دینے کی قوت پیدا ہو۔ 

خواہش کی غلامی سے نجات کیسے؟

            اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس شخص کےنجات کی کیا صورت ہے جو خواہشات کا غلام بن چکا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ الله  کی توفیق اور مدد سے آئندہ سطور میں ذکر کئےگئے چند امور کے اپنانے سے اس کی نجات ممکن ہے۔

آزادانہ عزیمت:

            ١۔ ایسی آزادانہ عزیمت جس میں اپنے نفس کے موافق ومخالف غیرت موجود ہو۔

صبرکا تلخ گھونٹ:

            ٢۔ صبر کا تلخ گھونٹ جس کی تلخی گوارہ کرنے پر اس گھڑی اپنے نفس کو آمادہ کرسکے۔

نفسانی قوت:

            ٣۔ وہ نفسانی قوت جو اس تلخ گھونٹ کے پینے پر حوصلہ افزائی کرے۔ درحقیقت شجاعت ایک گھڑی کی صبر ہی کا نام ہے۔ اور وہ زندگی کتنی پرکیف زندگی ہے جسے بندہ نے اپنے صبر سے پایا ہو۔

عاقبت اندیشی:

            ٤۔ حسن عاقبت اور خوش انجامی کو پیش نظر رکھنا اور اس کو تلخی کا علاج سمجھنا۔

لذت والم کا موازنہ:

            ٥۔ اس بات کو مدنظر رکھنا کہ خواہشات کی لذت سے وہ تکلیف اور سزا کہیں زیادہ ہے جو اس کے نتیجہ میں آتی ہے۔ 

اپنےمقام ومرتبہ کا خیال:

            ٦۔الله کے نزدیک اور اس کے بندوں کےدلوں میں موجود اپنے مقام ومرتبہ کو بچانے کی کوشش کرنا کیونکہ یہ چیز خواہشات کی لذت سے بہت بہتر اور زیادہ سودمند ہے۔ 

پاکدامنی کی مٹھاس کو ترجیح:

            ٧۔ عفت وپاکدامنی کی لذت ومٹھاس کوگناہ ومعصیت کی لذت پر ترجیح دینا۔

شیطان کی عداوت:

            ٨۔ اس بات پر خوش ہونا کہ اپنے دشمن(شیطان )پر غلبہ حاصل کرلیا اور اسے غیظ وغضب اور فکر وغم کے ساتھ ناکام ونامرادواپس کردیا اور اس کی امید وآرزو پوری نہ ہوسکی۔

            معلوم ہونا چاہئے کہ الله  تعالیٰ کو اپنے بندے سے متعلق یہ بات بہت پسند ہے کہ وہ اپنے دشمن کی ناک مٹی میں ملائے اور اسے غصہ دلائے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری ہے:

(وَلَا یَطَئُوْنَ مَوْطِئًا یَّغِیْظُ الْکُفَّارَ وَلَا یَنَالُوْنَ مِنْ عَدُوٍّنَّیْلاً اِلَّا کُتِبَ لَہُمْ بِہِ عَمَل صَالِح) التوبة١٢٠ 

(اورجو کسی ایسی جگہ چلے جو کفار کے لئے موجب غیظ ہوا ہو اور دشمنوں کی جوکچھ خبر لی ان سب پر ان کے نام ]ایک ایک[ نیک کام لکھا گیا۔) 

نیزفرمایا: 

(لِیَغِیْظَبِہِمُ الْکُفَّارَ) الفتح/ ٢٩ 

(تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے۔) 

نیزفرمایا: 

(وَمَنْیُّہَاجِرْ فِيْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِيْ الارْضِ مُرَاغَماً کَثِیْراًوَّسَعَةً ) النساء /١٠٠ 

(جوکوئی الله کی راہ میں وطن کو چھوڑے گا وہ زمین میں بہت سی قیام کی جگہیں بھی پائے گا اور کشادگی بھی۔) 

            قیام کی جگہوں سے مراد وہ جگہیں ہیںجن کے ذریعے الله کے دشمنوں کی ناک مٹی میں ملا سکے۔  

            سچی محبت کی علامت یہ ہے کہ محبوب کےدشمنوں کو مبتلائے غیظ کیا جائے اور ان کی ناک خاک آلود کی جائے۔

مقصدتخلیق پر غور:

            ٩۔ اس بات پر غور کرنا کہ اس کی تخلیق خواہشات کے پیچھے چلنے کے لئے نہیں ہوئی بلکہ ایسے عظیم کام کے لئے اسے وجود بخشاگیا ہے جس کا پانا خواہشات سے دوری کے بغیر ناممکن ہے۔

تمیزنفع وضرر:

            ١٠۔ اپنے نفس کو ایسی چیزوں کا خوگر نہ بنائے جس کی بنا پر ایک بے عقل چوپایہ اس سے بہتر قرار پائے کیونکہ حیوان طبعی طورپر اپنے نفع وضرر کی تمیز کرلیتا ہے اور نقصان پر فائدہ کو ترجیح دیتا ہے۔ انسان کو اسی مقصد کی خاطر عقل سے نوازا گیا،اگر وہ نفع وضرر میں تمیز نہ کرسکے یا تمیزومعرفت کے باوجود ضرر کو ترجیح دے تو ظاہر ہے کہ ایک بے خرد چوپائے کی حالت اس سےبہتر قرار پائے گی۔

برےانجام پر غور:

            ١١۔ اپنے دل میں خواہشات کے انجام پرغور کرے اور دیکھے کہ گناہوں اور نافرمانیوں کی بنا پر کتنی فضیلتیں فوت ہوگئیںاور کتنی ذلتوں سے ہمکنار ہونا پڑا۔ایک لقمہ نے کتنے لقموں سے محروم کردیا۔ ایکلذت نے کتنی لذتوں سے دور کردیا۔ 

            کتنی ہی خواہشات اور شہوتیں ایسی ہیںجو انسان کی شان وشوکت کو مٹی میں ملادیتی ہیں۔ اس کا سر جھکادیتی اور اس کی نیکنامی کو بدنامی سے بدل دیتی ہیں۔ اس کی رسوائی کا سامان فراہم کرتی اور اس کے وجودکو ایسی ذلت وعار سے لت پت کردیتی ہیں جسے پانی سے دھوکر صاف نہیں کیا جاسکتا مگرکیا کیا جائے کہ خواہش پرست کی آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں۔

کیا کھویا کیا پایا؟

            ١٢۔ جس سے اس کی خواہش متعلق ہے اس سےمقصد کی تکمیل کے بعد کا تصور کرے اور ضرورت پوری ہونے کے بعد اپنی حالت کا جائزہ لے اور غور کرے کہ اس نے کیا کھویا اور کیا پایا۔

اپنی ذات شریف:

            ١٣۔ دوسروں کے بارے میں اس بات کا کماحقہ تصور کرے پھر اپنے آپ کو اس مقام پر لے جائے اور دیکھے :کیا دونوں معاملے میں اس کی عقل کا فیصلہ ایک ہی ہے ؟؟

عقل ودین کا فیصلہ:

            ١٤۔ اپنے نفس کے مطالبہ پر غور کرےاور اپنی عقل اور اپنے دین سے اس کے متعلق دریافت کرے، یہ دونوں اسے بتائیں گے کہیہ کوئی اہم بات نہیں ہے۔

             عبداللہ بن مسعود رضي الله عنه  فرماتے ہیں: جب تم میں سے کسی شخص کو کوئی عورت اچھی لگے تو اس کی گندی اور بدبودار جگہوں کا خیال کرے (وہ بری لگنے لگے گی)۔

ذلت سے برتری:

            ١٥۔ خواہش کی غلامی کی ذلت سے اپنے آپکو بلند تصور کرے۔ جو شخص ایک بار بھی اپنی خواہش کے پیچھے چلتا ہے لازمی طور پراپنے آپ میں ذلت محسوس کرتا ہے۔ بندگانِ خواہشات کے اکڑفوں اور کبر وغرور سے دھوکانہیں کھانا چاہئے کیونکہ وہ اندرونی طور پر کافی ذلیل اور پست ہوتے ہیں لیکن عجب انداز سے ذلت وغرور (احساس کمتری وبرتری) دونوں ان میں یکجا ہوتا ہے۔ 

خیروشر کا موازنہ:

            ١٦۔ دین وآبرو اور مال وجاہ کی سلامتی ایک طرف اور مطلوبہ لذت کا حصول ایک طرف، دونوں میں موازنہ کرے۔ان دونوں کے درمیان قطعی کوئی نسبت نہیں۔ اس سے بڑا نادان کون ہوگا جو ایک کے بدلہ میں دوسرے کو فروخت کرے!

بلند ہمتی:

            ١٧۔ اپنے دشمن کے زیر اقتدار اور اسکے قابو میں رہنے سے اپنے آپ کو بلند تصور کرے کیونکہ شیطان جب بندہ میں ہمتوعزیمت کی کمزوری اور خواہشات کی طرف جھکاؤ اور میلان دیکھتا ہے تو اس کو زیر کرنےکی لالچ کرتا ہے اور موقع پاتے ہی اسے چت کردیتا اور خواہشات کی لگام پہنا کر جہاں چاہتا ہے لے جاتا ہے۔ لیکن شیطان جب بندہ میں قوت وعزیمت، شرف نفس اور علو ہمتدیکھتا ہے تو اس کی اسیری کا حریص نہیں ہوتا البتہ چوری، چپکے اور دھوکے سے اسےضرور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ 

خواہش کے نقصانات:

            ١٨۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ خواہش جسچیز میں مل جاتی ہے اسے بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔

             اگر علم میں خواہش نفس کی ملاوٹ ہوجائے تو بدعتوضلالت جنم لیتی ہے اور ایسا عالم خواہش پرستوں کی صف میں شامل ہوجاتا ہے۔

             اگر زہد میں اس کی آمیزش ہوجائے تو ریاکاری اورسنت رسول سے روگردانی پیدا ہوجاتی ہے۔

            اگر فیصلہ کرنے میں اس کی ملاوٹہوجائے تو حق تلفی پر اکساتی ہے اور انسان کو ظالم بنادیتی ہے۔

            اگر تقسیم میں اس کی ملاوٹ ہوجائے توعادلانہ کے بجائے اسے ظالمانہ بنادیتی ہے۔ 

            اگر مناصب کی تولیت ومعزولی میں اس کیملاوٹ ہوجائے تو انسان الله تعالیٰ اور مسلمانوں کی خیانت میں مبتلا ہوجاتا ہے پھروہ اپنی خواہش سے اہلیت وصلاحیت کو دیکھے بغیر جسے چاہتا ہے عہدہ ومنصب سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے اس سے معزول کرتا ہے۔

            اگر عبادت میں خواہش کی ملاوٹ ہوجائے تو وہ اطاعت اور تقرب کا ذریعہ باقی نہیں رہ جاتی۔

             غرضیکہ جس چیز میں بھی خواہش نفس کی ملاوٹہوجاتی ہے اسے بگاڑ کے رکھ دیتی ہے۔

شیطان کا چور دروازہ:

            ١٩۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہنفسانی خواہشات ہی کے چور دروازے سے شیطان انسان پر داخل ہوتا ہے۔ انسان کے دلودماغ، فکرونظر، اور اعمال وکردار میں فساد اور بگاڑ پیدا کرنے کے لئے شیطاندروازے کی تلاش میں ہوتا ہے پھر جب خواہشات کا دروازہ پاجاتا ہے تو اس کے ذریعہداخل ہوکر تمام اعضاء میں زہر کی طرح پھیل جاتا ہے۔

شریعت کی خلاف ورزی:

            ٢٠۔ الله سبحانہ وتعالیٰ نے خواہشا ت کو اپنے رسول پر نازل کردہ شریعت کے منافی بنایا ہے اور خواہشات کی اتباع کو رسول کی اتباع کے مقابل قرار دیا ہے نیز لوگوں کی دو قسمیں بتائی ہیں: ایک وہ جو وحی کا اتباع کرتے ہیں، دوسرے وہ جو خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔ قرآن مجید میں اس کا ذکربکثرت ہوا ہے۔ فرمان باری ہے: 

(فَاِنْلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ أَہْوَائَہُمْ) قصص/٥٠

(پھراگر یہ آپ کی بات نہ مانیں توآپ یقین کرلیں کہ یہ صرف اپنی خواہش کی پیروی کررہے ہیں۔)

دوسریجگہ ارشاد ہے : 

(وَلَئِنِاتَّبَعْتَ أَہْوَائَہُمْ بَعْدَ الَّذِيْ جَآء کَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَکَ مِنَاللّٰہِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلاَ نَصِیْرٍ) البقرة١٢٠

(اور اگر آپ نے باوجود اپنے پاس علم آجانے کے پھر ان کی خواہشوں کی پیروی کی تو الله کے پاس آپ کا نہ تو کوئی ولی ہوگا اور نہ مددگار) 

اس طرح کی اور بھی دیگر آیات ہیں۔

حیوانات کی مشابہت:

            ٢١۔ الله تعالیٰ نے خواہش پرستوں کیتشبیہ ان حیوانات سے دی ہے جو صورت ومعنی دونوں لحاظ سے سب سے حقیر اور خسیس مانے جاتے ہیں۔ کبھی کتے سے تشبیہ دی اور فرمایا: 

(وَلٰکِنَّہُأَخْلَدَ اِلَیٰ الارْضِ وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ فَمَثَلُہُ کَمَثَلِ الْکَلْب)ِ أعراف/١٧٦ 

(لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی۔)

اور کبھی گدہے سے تشبیہ دی اور فرمایا: 

(کَأَنَّہُمْ حُمُر مُّسْتَنْفِرَة فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ) مدثر٥٠ـ٥١

(گویا کہ وہ بدکے ہوئے گدھے ہیں جو شیر سے بھاگے ہوں)۔

اورکبھی الله تعالیٰ نے ان کی صورتیں بندروں اور سوروں کی شکل میں تبدیل فرمادی۔

نااہلی ونالائقی:

            ٢٢۔ خواہش کا پیروکار قیادت وسیادتاور امامت وپیشوائی کا اہل نہیں ہوتااور نہ ہی اس لائق ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کیجائے اور بات مانی جائے اسی ناطے الله تعالیٰ نے ایسے شخص کو امامت سے معزولفرمایا ہے اور اس کی بات ماننے سے روکا ہے۔ الله تعالیٰ نے اپنے خلیل ابراہیم علیہالسلام کو مخاطب کرکے فرمایا : 

(ِانِّيْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَاماً قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتيِْ قَالَ لَایَنَالُ عَہْدِيْ الظَّالِمِیْنَ) البقرة ١٢٤

(میں تمھیں لوگوں کا امام بنادوں گا، عرض کرنے لگے اور میری اولاد کو، فرمایا: میرا وعدہ ظالموں سے نہیں۔)

            یعنی خواہش کے پیروکار سب کے سب ظالمہیں لہذا اس وعدہ کے مستحق نہیں ہیں جیسا کہ الله تعالیٰ نے مزید فرمایا: 

(بَلِاتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا أَہْوَآء ہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ) روم/٢٩

(بلکہ بات یہ ہے کہ ظالم تو بغیر علم کے خواہش کے پیچھے چل رہے ہیں۔) 

            ایک اور مقام پر الله تعالیٰ نے ایسےلوگوں کی اطاعت سے منع کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

(وَلَاتُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَہُ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ہَوَاہُ وَکَانَأَمْرُہُ فُرُطاً) الکہف/٢٨

(دیکھ اس کا کہنا نہ ماننا جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور جو اپنی خواہش کے پیچھے پڑا ہوا ہے اور جس کا کام حد سے گذر چکا ہے۔)

بت پرستی:

            ٢٣۔ الله تعالیٰ نے خواہش پرست کو بتپرست کے درجہ میں رکھا ہے۔ فرمایا:

(أَرَأَیْتَمَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہُ ہَوَاہُ) فرقان٤٣ 

(کیاآپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے)۔

 الله تعالیٰ نے یہ بات دو مقامات پر ارشادفرمائی۔

            امام حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسسے وہ منافق مراد ہے کہ جس چیز کی بھی خواہش کرتا ہے کربیٹھتا ہے۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ منافق اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے، اس کا نفس جس بات کی خواہش کرتا ہے وہ کرتا جاتا ہے۔

جہنم کا باڑھ:

            ٢٤۔ نفسانی خواہشات ہی جہنم کا باڑھہیں، اسی سے جہنم گھری ہوئی ہے لہذا جو نفسانی خواہشات کا شکار ہوگا جہنم سے دوچارہوگا۔ جیسا کہ صحیحین میں نبی صلى الله عليه وسلم کاارشاد ہے: 

''جنت کو ناپسندیدہ چیزوں سے اور جہنم کو نفسانی خواہشات سے گھیردیا گیا ہے.''

ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضى الله عنه سے مرفوعاً روایت ہے کہ:

''جب الله تعالیٰ نے جنت کی تخلیق فرمائی، جبریل علیہ السلام کو  یہ حکم دے کر بھیجا کہ جنت کو اور اہل جنت کےلئے جو کچھ میں نے اس میں تیار کر رکھا ہے اس کو دیکھ کر آؤ۔ چنانچہ جب وہ جنت دیکھکر واپس ہوئے تو کہا: تیری عزت کی قسم! تیرا جو بندہ اس کے بارے میں سنے گا وہ ضرور اس میں داخل ہوگا۔ پھر الله تعالیٰ کے حکم سے جنت کو ناگوار چیزوں سے گھیردیا گیا۔ الله تعالیٰ نے جبریل کو دوبارہ جاکر دیکھنے کا حکم دیا. جب کہ اسے ناپسندیدہ چیزوں سے گھیرا جاچکا تھا. جبریل علیہ السلام نے واپس آکر کہا: تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس میں کوئی نہ داخل ہوسکے گا۔ پھر الله تعالیٰ نے فرمایا: جہنم اور اہل جہنم کے لئے میں نے جو کچھ تیار کر رکھا ہے اس کو جاکر دیکھو،جبریل آئے اور دیکھا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ پر چڑھا جاتا ہے۔ لوٹ کر آئے اورباری تعالیٰ سے عرض کیا: تیری عزت کی قسم! اس کا حال جو سنے گا ا س میں نہیں داخل ہوگا۔ پھر الله کے حکم سے اس کو نفسانی خواہشات سے گھیر دیا گیا۔ الله تعالیٰ نےفرمایا پھر جاکر دیکھو۔ اب دیکھا تو اسے شہوات سے گھیرا جاچکا تھا۔ لوٹ کرآئے اورکہا: تیری عزت کی قسم! مجھے اندیشہ ہے کہ اس سے کوئی نجات نہ پاسکے گا۔"  

(امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث حسن صحیحہے)۔

اندیشۂ کفر:

            ٢٥۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنے والے کے بارے میں اسلام سے لاشعوری طور پر نکل جانے کا اندیشہ ہے۔ نبی صلى الله عليه وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے:

 ''تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جبتک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہوجائے۔'' 

اورصحیح حدیث میں یہ بھی ہے کہ نبی صلى الله عليه وسلم نےفرمایا : 

''مجھے تمھارے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ تمھارے پیٹ اور شرمگاہ کی بہکا دینے والی شہوتیں اور نفسانی خواہشات کی گمراہ کن باتیں ہیں۔''

موجبِ ہلاکت:

             ٢٦۔ نفسانی خواہشات کے پیچھے چلنا موجب ہلاکت ہے۔

 نبی صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: 

''تین چیزیں باعث ِنجات اور تین چیزیں باعث ہلاکت ہیں: نجات دینے والی

1. پہلی چیز کھلے اور چھپے الله  کا تقوی ہے۔ 

2. دوسری چیز خوشی اور ناراضی ہرحال میں حق گوئی، 

3. تیسری چیز فقیری اور امیری ہر حال میں میانہ رویہ ہے۔ اور ہلاک کرنے والی 

1. پہلی چیز وہ نفسانی خواہش ہے جس کی اتباع کی جائے۔ 

2. دوسری چیز وہ بخل ہے جس کی بات مانی جائے اور 

3. تیسری چیز آدمی کی خودپسندی ہے''۔ 

باعث فتح وظفر:

            ٢٧۔ نفسانی خواہش کی مخالفت کرنے سے بندہ اپنے جسم اور دل وزبان میں قوت پاتا ہے۔ 

            بعض سلف کا قول ہے کہ اپنی خواہش پر غلبہ حاصل کرنے والا اس سے بھی زیادہ طاقتور ہے جو تنہا کسی ملک کو فتح کرتا ہے۔ صحیح حدیث میں نبی صلى الله عليه وسلم کافرمان ہے: 

''پہلوان وہ نہیں جو کسی کو پچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو پالے۔'' 

            آدمی جب جب اپنی خواہش کی مخالفت کرتا ہے اپنی قوت میں برابر اضافہ کرتا جاتا ہے۔

اخلاق و مروت:

            ٢٨۔ اپنی خواہش کے خلاف چلنے والا سب سے زیادہ بامروت انسان ہوتا ہے۔ معاویہ رضى الله عنه فرماتے ہیں: خواہشات کوچھوڑدینا اور ہوائے نفس کی بات نہ ماننا یہی مروت ہے۔ خواہشات کے پیچھے چلنا مروتکو بیمار کردیتا ہے۔ اور اس کی مخالفت، مروت کو افاقہ عطا کرتی اور شفادیتی ہے۔

عقل اور خواہش کی جنگ:

            ٢٩۔ ہر دن خواہش اور عقل باہم دستوگریباں ہوتے ہیں جو جیت جاتا ہے شکست خوردہ کو بھگادیتا ہے اور خود حکومت و تصرفکرتا ہے۔ ابودرداء رضى الله عنه فرماتے ہیں: آدمی جب صبح کرتا ہے اس کی عقل اورخواہش اکٹھا ہوتی ہے۔ اگر اس کی عقل خواہش کے تابع ہوئی تو وہ ایک برا دن ہوتا ہےاور اگر خواہش عقل کے تابع ہوئی تو وہ ایک اچھا دن ہوتا ہے۔

غلطی کا امکان:

            ٣٠۔ الله تعالیٰ نے خطا اور اتباع ہوا(غلطی اورخواہش کی پیروی) کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا ہے۔ اسی طرح درستی اور خواہش کی مخالفت کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا ہے جیسا کہ بعض سلف کا قول ہے: جب تمھیں دو باتوں میں شبہ ہوجائے کہ زیادہ سخت کون ہے تو جو تمھاری خواہش کے قریب ہو اس کی مخالفت کرو کیونکہ خواہش کے پیچھے چلنے ہی میں غلطی کا زیادہ امکان ہے۔

بیماری اور علاج:

            ٣١۔ خواہش بیماری ہے اور اس کا علاجاس کی مخالفت ہے۔ کسی عارف کا قول ہے: اگر تم چاہو تو تم کو تمھارا مرض بتادوں اوراگر چاہو تو اس کی دوا بھی بتادوں؟ نفسانی خواہش تمھارامرض ہے، اس کو چھوڑ دینا اور اس کی مخالفت کرنا اس کی دوا ہے۔ 

            بشرحافی فرماتے ہیں: ساری بلائیں نفسانی خواہشات کی بنا پر ہیں اور سارا علاج اس کی مخالفت میں ہے۔

جہاد:

            ٣٢۔ خواہشات سے جہاد اگر جہادِکفارسے بڑھ کر نہیں تو اس سے کم تر بھی نہیں ہے۔

            ایک شخص نے حسن بصری سے کہا: اے ابوسعید! کون سا جہاد افضل ہے؟ فرمایا: خواہشات نفسانی سے جہاد کرنا۔

             شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتےہیں: نفس اور خواہش سے جہاد، کفار ومنافقین سے جہاد کی بنیاد ہے کیونکہ ان سے اس وقت تک کوئی جہاد نہیں کرسکتا جب تک کہ ان کی طرف نکلنے کے لئے اپنے نفس اور خواہش سے جہاد نہ کرے۔

مرض بڑھتا گیا:

            ٣٣۔ خواہش بیماری کو بڑھادینے والی چیز ہے اور اس کی مخالفت پرہیز ہے۔ ایسا شخص جو مرض بڑھانے والی چیز کا استعمال کرے اور پرہیز سے دور رہے اس کے انجام کے بارے میں خطرہ یہی ہے کہ بیماری اسے دبوچ لے گی۔

محرومی و بے توفیقی:

            ٣٤۔ خواہشات کی اتباع سے توفیق کے دروازے بند ہوجاتے اور محرومی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ ایسے لوگ اپنی زبان سے کہتے رہتے ہیں کہ اگر الله توفیق دے تو ایسا اور ایسا کرگذریں مگرخواہشات کی اتباع کرکے انھوں نے اپنے لئے توفیق کے راستے مسدود کرلئے ہیں۔

            فضیل بن عیاض کا قول ہے: جس شخص پرشہوت اور خواہش  غالب آجاتی ہے توفیق اس سےمنقطع ہوجاتی ہے۔

            کسی عالم کا قول ہے کہ کفر چار چیزوں میں ہے: غضب اور شہوت میں، لالچ اور خوف میں۔ پھر فرمایا کہ دو کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا: ایک شخص غصہ میں آیا اور اس نے اپنی ماں کو قتل کرڈالا، دوسرا شخص مبتلائے عشق ہوکر نصرانی ہوگیا۔

فسادعقل وخرد:

            ٣٥۔ جو آدمی اپنی خواہشات کو ترجیح دیتا ہے اس کی عقل فاسد اور رائے بگڑجاتی ہے۔ اس لئے کہ اپنی عقل کے معاملے میں اس نے الله کی خیانت کی تو الله نے اس کی عقل کو فاسد کردیا۔ تمام امور میں  الله کی سنت یہی ہے کہ جو کوئی اس میں خیانت کرتا ہے الله تعالیٰ اسے فاسد کردیتا اور بگاڑدیتا ہے۔

قبروآخرت کی تنگی:

            ٣٦۔ جو اپنی خواہشات کی تکمیل میں اپنے نفس پر کشادگی کرتا ہے تو اس پر قبر اور آخرت میں تنگی ہوگی۔ اس کے برخلاف جونفس کی مخالفت کرکے اس پر تنگی کرتا ہے اس کی قبر اور آخرت میں اس پرفراخی ہوگی۔ الله تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں اسی طرف اشارہ کیا ہے:

(وَجَزَاہُمْبِمَاصَبَرُوْا جَنَّةً وَّحَرِیْراً) الدہر١٢

(اورانہیںان کے صبر کے بدلہ جنت اورریشمی لباس عطافرمائے۔) 

            چونکہ صبر جوکہ خواہشات سے نفس کوروکنے کانام ہے اس میں کھردرا پن اور تنگی ہے اس لئے بدلے میں نرم وگداز ریشم اورجنت کی وسعت عطافرمائی۔

             ابوسلیمان دارانی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں: شہوتوں سے صبر کرنے پر یہ بدلہ عطا فرمایا۔

رکاوٹ:

            ٣٧۔ نفسانی خواہشات قیامت کے دن نجات یافتہ بندوں کے ساتھ اٹھ کر دوڑنے سے رکاوٹ بن جائیں گے، جس طرح دنیا میں ان کا ساتھ دینے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ 

            محمد بن ابی الورد کا قول ہے کہ الله تعالیٰ نے ایک دن ایسا بنایا ہے جس کی مصیبت سے خواہشات کے پیچھے چلنے والا نجات نہیں پاسکتا۔ قیامت کے دن جو شخص سب سے دیر سے اٹھے گا وہ شہوتوں کا پٹخا ہوا ہوگا۔ عقلیں جب طلب کے میدان میں دوڑتی ہیں تو سب سے زیادہ حصہ کی مستحق وہ ہوتی ہے جس کے پاس سب سے زیادہ صبر ہو۔ عقل معدن ہے اور فکر اس معدن سے خزانے نکالنے کا آلہ ہے۔

عزائم کی پستی:

            ٣٨۔ خواہشات کی غلامی عزائم کی پستیاور کمزوری کا سبب ہے اور اس کی مخالفت عزائم کو مضبوطی اور طاقت عطا کرتی ہے۔عزموہ سواری ہے جس کے ذریعہ بندہ الله اور آخرت کی طرف سفر کرتا ہے، اگر سواری خرابہوجائے تو مسافر کی منزل بہت دور ہوجاتی ہے۔

             یحییٰ بن معاذ سے دریافت کیا گیا: عزم کےاعتبار سے صحیح ترین انسان کون ہے؟ فرمایا: وہ جو اپنی خواہشات پر غالب آجائے۔ 

بدترین سواری:

            ٣٩۔ خواہش پرست کی مثال اس گھڑ سوار کیسی ہے جس کا گھوڑا نہایت تیز رفتار، بے قابو، سرکش اور بے لگام ہو، دوڑنے کے دوران اپنے سوار کو پٹخ دے یا کسی ہلاکت کے مقام پر پہنچادے۔

            ایک عارف کا کلام ہے: جنت کو پہنچانے والی سب سے تیز رفتار سواری دنیا سے بے رغبتی ہے اور جہنم تک پہنچانے والی سب سے تیزرفتار سواری خواہشات کی محبت ہے۔ خواہشات کا سوار ہلاکتوں کی وادی میں نہایت تیزی کے ساتھ پہنچ جائے گا۔ 

            ایک دوسرے عارف کا کلام ہے کہ سب سے زیادہ صاحب شرف وہ عالم ہے جو اپنے دین کی حفاظت کے لئے دنیا سے بھاگے اور خواہشات کے پیچھے چلنا اس کے لئے دشوار ہو۔ 

            عطا فرماتے ہیں: جس کی خواہش اس کی  عقل پر اور بے قراری اس کے صبر پر غالب آجائے وہ رسوا ہوجائے گا۔

توحید کی ضد:

            ٤٠۔ توحید اور نفسانی خواہش کا اتباع ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ نفسانی خواہش ایک بت ہے اور ہر خواہش پرست کے دل میں اس کی خواہش کے مطابق بت موجود ہیں۔ الله تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو اسی لئے بھیجا کہ وہبتوں کو توڑیں اور ایک الله وحدہ' لاشریک کی عبادت کا غلغلہ بلند کریں۔ الله تعالیٰ کا یہ مقصود ہرگز نہیں کہ جسمانی اور ظاہری بتوں کو توڑ دیا جائے اور دلوں کے بتوں کو چھوڑ دیا جائے بلکہ دلوں کا بت ہی سب سے پہلے توڑنا ہے۔ 

            حسن بن علی مطوعی کا قول ہے: ہر انسان کا بت اس کی نفسانی خواہش ہے، جس نے خواہشات کی مخالفت کرکے اس بت کو توڑ دیا وہیجوان کہلانے کا مستحق ہے۔ ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے جو بات کہی تھی ذرا اس پر غور کرو، فرمایا:

(مَاہٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِيْ أَنْتُمْ لَہَا عَاکِفُوْنَ) انبیاء/٥٢

(یہ مورتیاں کیا ہیں جن کے تم مجاور بنے بیٹھے ہو؟)

            ان کی بات ان بتوں پر کس قدر فٹ آتی ہے جنھیں خواہشات کی شکل میں انسان دل میں بٹھائے ہوتا ہے، ان میں منہمک رہتا اور الله کو چھوڑکر ان کی پرستش کرتا ہے۔ الله تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

(أَرَأَیْتَمَنِ اتَّخَذَ ِالٰہَہُ ہَوَاہُ أَفَأَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلاً أَمْتَحْسَبُ أَنَّ أَکْثَرَہُمْ یَسْمَعُوْنَ أَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ہُمْ اِلاَّکَالانْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ سَبِیْلاً) فرقان/ ٤٣ـ٤٤

(کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنائے ہوئے ہے، کیا آپاس کے ذمہ دار ہوسکتے ہیں؟ کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں، وہ تو نرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے)۔

بیماریوں کی جڑ:

            ٤١۔ خواہش کی مخالفت سے دل اور بدن کی بیماریاں ختم ہوتی ہیں۔ جہاں تک دل کی بیماریوں کا معاملہ ہے تو وہ ساری کی ساری خواہش پرستی ہی کا نتیجہ ہوتی ہیں اور اگر آپ تحقیق کریں تو معلوم ہوگا کہ بیشترجسمانی بیماریوں کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ کسی چیز کے چھوڑ دینے کے عقلی فیصلہ پرخواہش نفس کو ترجیح دی جاتی ہے۔ 

عداوتوں کی بنیاد:

            ٤٢۔ لوگوں کی آپسی عداوت اور شروحسد کی بنیاد خواہش پرستی ہے۔ جو شخص خواہش پرستی سے دور ہوتا ہے وہ اپنے قلب وجگر اورجسم واعضاء کو راحت پہنچاتا ہے۔ خود بھی آرام میں ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی اس سےآرام ہوتا ہے۔ 

            ابوبکر وراق کا قول ہے: جب خواہش غالب آتی ہے دل کو تاریک کردیتی ہے۔ جب دل تاریک ہوتا ہے سینہ تنگ ہوجاتا ہے۔ جب سینہ تنگ ہوجاتا ہے. اخلاق برے ہوجاتے ہیں۔ جب اخلاق برے ہوجاتے ہیں تو مخلوق اسے ناپسند کرنے لگتی ہے اور وہ بھی دوسروں کو ناپسند کرنے لگتا ہے اور جب نوبت اس باہمی بغض وعداوت تک پہنچ جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں انتہائی شروفساد اور ترک حقوق وغیرہ پیدا ہوتا ہے۔ 

ایک ہی فاتح:

            ٤٣۔ الله تعالیٰ نے انسان میں دو قوتیں پیدا فرمائی ہیں۔ ایک خواہش اور دوسری عقل۔ ان دونوں میں سے جب ایک قوت نمایاں ہوتی ہے تو دوسری قوت چھپ جاتی ہے۔ 

            ابوعلی ثقفی کا قول ہے: جس پر خواہش کا غلبہ ہوتا ہے. اس کی عقل چھپ جاتی ہے۔ بھلا اس کا انجام کیا ہوگا جس کی عقل غائب ہو اور بے عقلی ظاہر ہو!!

            علی بن سہل کا قول ہے: عقل اور خواہش باہم لڑتے ہیں۔ توفیق عقل کے ساتھ ہوتی ہے اور محرومی خواہش کے ساتھ۔ نفس ان دونوں کے بیچ ہوتی ہے۔ ان میں سے جس کی فتح ہوتی ہے نفس اسی کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ 

شیطان کا ہتھیار:

            ٤٤۔ الله تعالیٰ نے دل کو اعضاء کا بادشاہ بنایا ہے اور اپنی محبت ومعرفت اور عبودیت کا معدن قرار دیا ہے اور دو بادشاہوں، دو لشکروں، دو مددگاروں اور دو ہتھیاروں سے اس کی آزمائش فرمائی ہے۔ حق وہدایت اور زہد وتقوی ایک بادشاہ ہے، جس کے مددگار ملائکہ ہیں، جس کا لشکر وہتھیار صدق واخلاص اور خواہشات سے دوری ہے۔ باطل دوسرا بادشاہ ہے، شیاطین اس کے مددگار ہیں، اس کا لشکر وہتھیار خواہشات کی اتباع ہے۔ نفس ان دونوں لشکروں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے۔ دل پر باطل کے لشکروں کا حملہ اسی کی جانب اور اسی کی سرحد سے ہوتا ہے۔ نفس دل کو مدہوش کرکے اس کے خلاف اس کے دشمنوں سے مل جاتا ہے۔ نفس ہی دل کے دشمنوں کو ہتھیار اور سامان رسد پہنچاتا ہے اور قلعہ کا دروازہ ان کے لئے کھول دیتا ہے. چنانچہ دل بے سہارا ہوجاتا ہے اور باطل کی فتح ہوجاتی ہے۔

سب سے بڑا دشمن:

            ٤٥۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن اس کا شیطان اور خود اس کی اپنی خواہش ہے اور اس کا سب سے بڑا دوست اس کی عقل اور اس کا فرشتہ ہے۔ جب انسان اپنے خواہش کی پیروی کرتا ہے اور ہوائے نفس کا اسیر ہوجاتا ہےاور اپنے دشمن کو خوش ہونے کا موقع دیتا ہے تو اس کا دوست اور محبوب اس بات کو ناپسندکرتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس سے الله کے نبی صلى الله عليه وسلم پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ فرماتے: 

''اَللّٰہُمَّ اِنِّيْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ جَہْدِالْبَلاَءِ وَدَرَکِ الشَّقَآءِ وَسُوْءِ الْقَضَآءِوَشَمَاتَةِ الاعْدَآءِ''

[اےالله میں تیری پناہ چاہتا ہوں سخت بلا سے اور بدبختی آنے سے اور بری قضا سے اور دشمنوں کی خوشی سے۔]

آغاز و انجام:

            ٤٦۔ ہر انسان کا ایک آغاز اور ایک انجام ہوتا ہے۔ جس کا آغاز خواہشات کی اتباع سے ہوگا اس کا انجام ذلت وحقارت، محرومی اور بلائیں ہوں گی۔ جس قدر وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلے گا اسی قدر دلی عذاب میں مبتلا رہے گا۔ کسی بھی بدحال شخص پر آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اس کا آغاز یہ تھا کہ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے چلتا رہا اور اپنی عقل پر اسے ترجیح دیتارہا۔ اس کے برخلاف جس شخص کی ابتدا اپنی خواہشات کی مخالفت اور اپنی سوجھ بوجھ کی اطاعت سے ہوگی اس کا انجام عزوشرف، جاہ واقتدار اور مال ودولت ہوگا۔ لوگوں کےنزدیک بھی اور الله کے نزدیک بھی ہرجگہ اس کا ایک مقام ہوگا۔

            ابوعلی دقاق کا قول ہے کہ جو اپنی جوانی میں اپنی خواہشات پر قابو رکھتا ہے بڑھاپے میں الله تعالیٰ اسے عزت عطاء فرماتا ہے۔ 

            مہلب بن ابی صفرة سے پوچھا گیا کہ آپ اس مقام پر کس طرح پہنچے؟ فرمایا: ہوش و خرد کی اطاعت کرکے اور خواہشات کی نافرمانی کرکے۔

            یہ تو دنیا کا آغاز وانجام ہے۔ آخرت کا بھی یہی معاملہ ہے کہ خواہش کی مخالفت کرنے والوں کے لئے الله تعالیٰ نے جنت بنائی ہے اور اس کے پیچھے چلنے والوں کے لئے جہنم تیار کر رکھا ہے۔

پاؤں کی بیڑیاں:

            ٤٧۔ نفسانی خواہشات دل کی غلامی، گلےکا طوق اور پاؤں کی بیڑیاں ہیں۔ خواہش پرست ہربدکردار کا غلام ہوتا ہے لیکن خواہش کی مخالفت کرتے ہی اس کی غلامی سے نکل کر آزاد ہوجاتا ہے۔ گلے کا طوق اور پاؤں کیبیڑیاں نکال پھینکتا ہے۔

لید کے بدلے موتی:

            ٤٨۔ خواہش کی مخالفت بندہ کو اس مقامپر لا کھڑا کرتی ہے کہ اگر وہ الله کے نام کی قسم کھالے تو الله تعالیٰ اس کی قسم پوری فرماتا ہے۔ خواہشات کی جتنی لذت سے وہ محروم رہتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ الله تعالیٰ اس کی ضروریات کی تکمیل کرتا ہے۔ اس کی مثال اس شخص جیسی ہوتی ہے جس نےجانور کی لید سے اعراض کیا تو اس کے بدلہ اسے موتی سے نوازا گیا۔ 

            خواہش پرست اپنی خواہشات سے جتنی لذت نہیں پاتا. اس سے کہیں زیادہ دنیاوی اور اخروی مصلحتیں اور زندگی کی خوش گواریاں فوت کردیتا ہے۔ یوسف علیہ السلام نے جب اپنے آپ کو حرام سے بچایا تو قید سے نکلنے کے بعد ان کا دست وزبان اور نفس وقدم جس قدر آزاد تھا غور کرنے کی چیز ہے۔

            عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں: میں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کو خواب میں دیکھا۔ میں نے ان سے کہا: الله نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ؟ انھوں نے کہا: جوں ہی مجھے لحد میں رکھا گیا مجھے الله تبارک وتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہونا پڑا۔ الله تعالیٰ نے میرا ہلکا حساب لیا۔ پھر جنت کیطرف لے جانے کا حکم فرمایا۔ ایک دن جب کہ میں جنت کے درختوں اور نہروں کے درمیان گھوم رہا تھا، نہ کوئی آہٹ تھی نہ حرکت، اچانک میں نے ایک شخص کو سنا جو میرا نام لے کر پکار رہا تھا، سفیان بن سعید! تمھیں وہ دن یاد ہے جب تم نے اپنی خواہش کےخلاف الله تعالیٰ کے حکم کو ترجیح دی تھی۔ میں نے کہا: ہاں! الله کی قسم۔ پھر ہرطرف سے مجھ پر پھول برسنے لگے۔

مقامِ عزت:

            ٤٩۔ خواہش کی مخالفت دنیا وآخرت کےشرف کا باعث اور ظاہر وباطن کی عزت کا موجب ہے اور اس کی موافقت دنیا وآخرت کی پستی اور ظاہر وباطن کی ذلت کا باعث ہے۔ جب قیامت کے دن الله تعالیٰ تمام انسانوں کو ایک ہموار زمین پر اکٹھا فرمائے گا تو ایک پکارنے والا پکارے گا: آج محشر والوں کو معلوم ہوجائے گا کہ عزت والا کون ہے؟ متقی کھڑے ہوجائیں۔ چنانچہ وہ سب مقام عزت کی طرف چل پڑیں گے۔ خواہشات کی اتباع کرنے والے سروں کو جھکائے ہوئے خواہشات کی گرمی، اس کے پسینے او ر اس کی تکلیفوں میں پریشان ہوں گے جب کہ متقی عرش کے سایہ میں ہوں گے۔ 

عرش الٰہی کا سایہ:

            ٥٠۔ اگر آپ ان سات لوگوں کے بارے میں غور کریں جنھیں الله تعالیٰ اس دن عرش کا سایہ نصیب فرمائے گا جب اس کے سایہ کےسوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کو عرش کا سایہ خواہشات کی مخالفت کی بنا پر حاصل ہوا ہے۔

            ایک حاکم جو مضبوط اقتدار اور مستحکم سلطنت کا مالک ہو اپنی خواہشات کی مخالفت کئے بغیر عدل نہیں کرسکتا۔ 

            ایک جوان خواہشات کی مخالفت کے بغیر اپنی جوانی کے جذبات پر عبادت الٰہی کو ترجیح نہیں دے سکتا۔ 

            ایک مسلمان لذت گاہوں کی طرف جانے پر آمادہ کرنے والی خواہشات کی مخالفت کے بغیر اپنا دل مساجد میں معلق نہیں رکھ سکتا۔

            ایک صدقہ دہندہ اگر اپنی خواہشات پرغالب نہ ہو تو اپنا صدقہ بائیں ہاتھ سے نہیں چھپاسکتا۔

            ایک مرد اپنی خواہشات کی مخالفت کے بغیر کسی خوبصورت اور صاحب منصب عورت کے بلانے پر الله عزوجل سے ڈر کر اسے نہیں چھوڑسکتا۔  

            ایک مسلمان اپنی خواہشات کی مخالفت کرکے ہی تنہائی میں ﷲ کو یاد کرتا ہے اور ﷲ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ 

            یہ سب کچھ خواہشات کی مخالفت کی بنا پر ہی ہوسکتا ہے. لہذا ایسے لوگوں پر قیامت کے دن کی گرمی، شدت اور پسینہ کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ اس کے برعکس خواہش پرست انتہائی گرمی اور پسینہ میں شرابور ہوں گے اور خواہشات کے قید خانہ میں داخل ہونے کا انتظار کررہے ہوں گے۔ 

            الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم کواپنے نفس امارہ کی خواہشات سے اپنی پناہ میں رکھے اور ہماری خواہشات کو اپنی محبت ورضا کے تابع بنادے۔ وہ ہر چیز پر قادر ہے اور وہی دعائیں سنتا ہے۔

والحمدللہ رب العالمین وصلی اللہ علی نبینا وسلم (صححہ: #ایس_اے_ساگر )

https://saagartimes.blogspot.com/2022/10/blog-post_15.html