Friday, 29 April 2022

تراویح میں ختم قرآن پر بغیر متعین کئے ہدیہ دینا اور لینا

تراویح میں ختم قرآن پر بغیر متعین کئے ہدیہ دینا اور لینا
محترمین، بعد سلام عرض ہے کہ تراویح کی امامت کی اجرت لینا دینا کیسا ہے؟ 
اگر جائز نہیں ہے تو ایسے امام کے پیچھے اقتداء کرکے تراویح اداء کرنا کیسا ہے؟
احقر: سیف الاسلام المغفورلہ بالاپارہ بنگائی گاؤں, آسام, انڈیا
الجواب حامدا ومصلیا ومسلما امابعد:
تراویح میں ختم قرآن پربغیرمتعین کیے ہدیہ دینا اور لینا جائز ہے۔ اس مسئلے سے متعلق امدادالفتاوی جلداول از صفحہ 471 تا 485 اور جلد سوم صفحہ نمبر 366.334 پر تحقیقی بحث کی گئی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اجرت طے کرکے تراویح پڑھانے والے کی اقداء درست ہے۔ تراویح میں قرآن مجید کی سماعت کرنے کی اجرت جائز ہے۔ تراویح میں قرآن ختم کرنے والے حافظ امام کی اجرت کے بارے میں ایک قول بہرصورت ممنوع اور دوسراقول گنجائش کا ہے۔ آخر میں قولِ اول کو اختیار فرمایا۔ جلداول صفحہ 485 پرحاشیہ میں فتاوی رحیمیہ جلد دوم صفحہ 5 کے حوالے سے مفتی کفایت اللہ صاحب کا فتویٰ نقل کیا گیا کہ امامِ تراویح کو ایک دو وقت کی نمازوں کی امامت سے جوڑ کر اجرت لیناجائز ہے، لیکن محشی نے اس کا علمی اور تحقیقی رد فرمایا ہے۔ عدمِ جواز کی اصل وجہ اور علت ”ختم قرآن“ یعنی ”اجرت علی الطاعۃ“ قرار دیا ہے۔ 
دورنبوی اور دور صحابہ وخیرالقرون میں اس کے جواز اور عدم جواز کی کوئی صراحت نہیں ملتی ہے۔ البتہ دورنبوی میں امامت کے لیے اقرأ القرآن کو فضیلت و اکرام اور امامت کی اہلیت اور ان امام (حضرت عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ) کے لئے عوامی چندہ سے کرتا دینے کا ثبوت کتب حدیث میں موجود ہے۔ (مشکوة برقم الحدیث 1126 من البخاری) جس سے معلوم ہوا کہ جودۃ قرأۃ قرآن کی بناء پر امامت اور پھر ایسے امام کے لئے عوامی چندہ سے لباس کی فراہمی جائز ہے۔ ایک شخص حافظ قرآن ہے وہ تراویح سناتا ہے تو فطری طور پرلوگ تراویح نہ سنانے والے حافظ کی بہ نسبت اس حافظ کی زیادہ عزت و اکرام اور اس کے لیے کھانے، نا شتے کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ اس اکرام و انتظام کے سلسلے میں کوئی بھی طبقہ عدم جواز کا قائل نہیں ہے۔اس سے آگے بڑھ کر عام مسلمان طے کیے بغیر روپے پیسے سے ان حفاظ کا تعاون کریں تو یہ بھی جائز ہوگا۔ 
حضرات صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم اجمعین ایک سفر میں تھے، وہاں قبیلہ کے ایک شخص کو بچھونے کاٹ لیا، قبیلہ کا ایک شخص صحابہ کی جماعت کے پاس آیا اور رقیہ کے بارے میں معلوم کیا۔ اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شرط کے ساتھ دم کرنے کے لئے گئے کہ انہیں دم کرنے کے بدلے میں چند بکریاں دینی ہوں گی. اُن صحابی نے بچھو کاٹے ہوئے شخص پرسورہ فاتحہ پڑھ کردم کیا، وہ اچھا ہوگیا۔ شرط کے مطابق قبیلہ کے ایک آدمی نے بکریاں ان صحابی کے ساتھ کردیں۔ جب وہ بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں (صحابہ کرام رضوان اللهم تعالی علیھم اجمعین کی جماعت کے پاس آئے تو دوسرے صحابہ نے اس معاوضہ کو پسند نہیں کیا۔ 
۔۔..فلما قدموا على رسول الله (صلى الله عليه)، اتوا رسول الله فاخبرواه بذالك ، فدعا رسول الله (صلى الله عليه) الرجل فسأله فقال: يا رسول الله (صلى الله عليه) انا مررنا بحي من أحياء العرب فيهم لدیغ اوسليم فقالوا هل فيكم من راق؟ فرقيته بفاتحة الكتاب فبرأ، فقال رسول الله (صلى الله عليه): ان احق ما اخذتم عليه اجرا كتاب الله. (مسند ابن حبان رقم الحديث 5146) 
   ۔۔۔۔۔ حتى قدموالمدينة، فقالوا:يارسول الله (صلى الله عليه) اخذت على كتاب الله اجرا، فقال رسول الله (صلى الله عليه): ان احق مااخذتم علیه اجرا كتاب الله. (بخاری رقم الحديث 5737) 
۔۔۔۔۔ فقدموا على رسول الله (صلى الله عليه): فذكروا له، فقال: ومایدریک انها رقية؟ ثم قال: قداصبتم اقسموا واضربوا الى سهما معکم فضحك رسول الله (صلى الله عليه). 
(بخاری برقم الحدیث 5749و 5007,) 
”..... اور پھر جب مدینہ میں تشریف لائے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس معاملے کو پیش کیا گیا، اس پر آپ نے ارشاد فر مایا کہ: جن چیزوں میں تم اجرت لے سکتے ہوں ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہے۔ “ مسند ابن حبان۔ 
”.....رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم نے صحیح  کیا، اس کو تقسیم کردو، اور اس کے حصے لگاکر اپنے ساتھ ایک حصہ مجھے بھی دو۔ آپ مسکرائے.“ بخاری 
(بخاری، کتاب 66 فضائل قرآن، باب فضل فاتحة الكتاب، حديث نمبر 5007 کتاب الطب، 76 باب 3 الرقي بفاتحة الكتاب حديث نمبر 5736 اورباب النفث في الرقية، حديث نمبر 5747. صحيح مسلم کتاب السلام، باب جواز أخذ الاجرة عن الرقية والاذكار، حديث نمبر 5733. ابوداوود كتاب البيوع، باب کیف الرقی حدیث نمبر 3900، جامع الترمذی، کتاب الطب، باب ماجاء في اخذ الاجرة على التعويذ، حديث نمبر 2063۔سنن ابن ماجه ، كتاب التجارات، باب اجر الراقى، حديث نمبر 2106۔ مسند احمد ج 3  ص 2 ،10,49,50,83۔ الفتح الرباني لترتيب مسند احمد بن حنبل الشيباني ج 17 ص 185,184) 
اس روایت میں صاف صاف اجرت علی کتاب اللہ کے جواز کی نص وارد ہے۔ اس حدیث سے اجرت على الطاعۃ کے جواز پرتو استدلال نہیں کیاجا سکتا ہے لیکن قرآن کی تلاوت کی وجہ سے بغیر طے کیے اگر نذرانہ، ہدیہ، تحفہ، تحائف عنوان سے کچھ دیاجائے، تو اس کے عدم جواز پر اصرار نہیں کرنا چاہئے۔ 
     اس مسئلہ میں غیرمتعین نذرانہ اوراکرامیہ کے جواز پرایک دوسری حدیث سے بھی رہنمائی ملتی ہے۔ 
عن انس ابن مالك أن رجلا من کلاب سأل رسول الله (صلى الله عليه): عن عسب الفحل فنهاه فقال يا رسول الله (صلى الله عليه) انا نطرق الفحل فنكرم فرخص له في الكرامة وقال الترمذي وقد رخص قوم في قبول الكرامة على ذالک. (رواه الترمذي وقال هذا حديث حسن جلد اول ص 240) 
”حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنوکلاب کے ایک شخص نے سانڈ سے مادہ کو جوڑا کھلانے کی اجرت کے بارے میں پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس اجرت کے لینے سے منع فرمایا، اس پر اس شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اس کو کوداتے ہیں تو بغیر طے کئے اکراماہمیں کچھ دیاجاتا ہے، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس کی اس طرح غیر متعینہ اجرت لینے کی اجازت دے دی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں علماء کی ایک جماعت نے اس کام پر اس طرح غیرمقرر اورغیر معین نذرانہ لینے کی رخصت دی ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو حديث حسن کہا ہے۔“ ترمذی 
اس سے معلوم ہوا کہ اجرت طے نہ کی جائے بلکہ قیام وطعام کی طرح اکراما حفاظ وائمہ کو کچھ تحفہ دیاجائے تووہ جائز ہے۔     
    حضرت مفتی عبدالتواب صاحب اناوی زیدمجدہ، مہتمم وبانی جامعه اسلامیہ، با نگرمئو، ضلع اناؤ، یوپی) نے 'معاوضہ على التراویح' نامی کتا ب تالیف فرمائی ہے. جس میں مروجہ تحائف کے عدم جواز کوثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں اکابرعلماء کے فتاوی نقل کیے گئے ہیں۔ سطور ذیل میں و ہیں سے کچھ اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں، جن سے واضح ہوجائے گا کہ طے کئے بغیر تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر عام مسلمان اپنی مرضی سے امام تراویح کو نذرانہ اورتحفہ و تحائف دیں تو وہ جائز ہے۔
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے فتاواجات سے نقل کرتے ہیں۔ 
”ہاں اگر کسی اجرت کے بغیر کسی حافظ نے تراویح پڑھائی اور کوئی شخص اپنی خوشی سے بطور ہدیہ اس کو کچھ پیش کرے تو اس کا لینا جائز ہے،“
(فتاوی عثمانی باب کتاب الصلوةج 1/ ص 504) 
(معاوضہ على التراویح 51، ناشر، شعبہ نشر واشاعت، جامعه اسلامیہ با نگرمؤ، اناؤ، یوپی) 
”(2) امسال رمضان المبارک میں ختم والی رات رقم لینے سے انکار کردیا، لیکن اس کے بعد کچھ آدمی مخفی طور پر احقر کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کی خدمت اس لئے نہیں کرتے کہ آپ نے قرآن مجید سنایا بلکہ طالب علم جان کر بطور پر ہدیہ یا صدقہ کے دیتے ہیں تو احقر نے ان کے اصرار پر کچھ رقم قبول کی، کیوں کہ اس سے پہلے احقرکو کسی قسم کا اشراف وانتظام اس رقم کانہ تھا، وہ رقم میرے لیے حرام تونہیں تھی؟ اگرحرام تھی تو اس سے خلاصی کی کیا صورت ہے؟ 
جواب (2) صورت مسئولہ میں جو رقم لے لی گئی وہ اجرت نہیں، ہدیہ ہے جس کا وصول کرنا جائز ہے۔ 
والله اعلم، الجواب صحیح: بندہ محمد شفیع عفاللہ عنہ“ (فتاوی عثمانی کتاب الصلوة ج 1/ص 505/ 
(معاوض على التراویح ص 52) 
”پہلے سے طے کئے بغیر تراویح کے اختتام پرکچھ دیدیناجائز ہے، بشرطیکہ یہ بات اتنی معروف و مشہور نہ ہوئی ہو کہ طے کئے بغیر بھی طے سمجھی جاتی ہو۔“ (فتاوی عثمانی، ج1/ص 512، و513/ نعیمیہ دیوبند) (معاوضہ على التراویح ص 54) 
حضرت مفتی نظام الدین صاحب صدرمفتی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند، رکن رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے فتاوی سے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں۔ 
”...اور اگرکوئی ہدیہ یا تحفہ کہہ کر دے تو اس کے لینے کی گنجائش رہے گی، اور یہ بھی کر سکتے ہیں کہ تمام نمازپنجگانہ کی امامت کا یا صرف دو ایک وقت کی امامت کا معاملہ یا تنخواہ طے کرے او حسب معمول تنخواہ معقول طے کرے پھر امامتِ تراویح بغیر کسی معاوضہ کے کر لیا کرے تو یہ بھی درست رہے گا۔۔۔۔۔ورنہ على الطاعة اجرة ممنوعه سے محفوظ نہ رہے گا۔“ (نظام الفتاوی، باب: تراویح کے احکام/ ج 6/ ص 83/82/ کتب خانہ دیوبند) 
(معاوضہ علی التراویح ص 45/)
اگر شروع معاملہ میں ہی حافظ صاحب سچے دل سے اعلان کے ساتھ کہہ دیں کہ میں اس سنانے کے عوض میں کچھ نہیں لوں گا اور پھر کوئی بعد میں بطور تحفہ نذرانہ دیدے تو اس کا لینا درست رہے گا۔۔۔۔ پس اگر خموشی سے کوئی خود با چندلوگ بغیر چندہ کے خود دیدیں تو وہ اس حدیث کی نکیر میں نہ آئیں گے۔“ 
(نظام الفتاوی باب: تراویح کےاحکام : ج 6/ ص 86/85/ دیوبند) (معاوضہ على التراویح ص 48)
حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب لاجپوری کے فتووں کا کچھ حصہ ذیل میں ملاحظہ کریں:
      ”امام صاحب لوجه الله تراویح پڑھائیں اور مقتدی اپنی خوشی سے ہدایا پیش کرکے امام صاحب کی خدمت کرنا چاہیں تو اس میں گنجائش ہے، امام صاحب کا متعین رقم کا مطالبہ کرنا اور نہ ملنے پر شکایت کرنادرست نہ ہوگا۔“
 (فتاوی رحیمیہ کتاب الصلوۃ باب التراویح، ج 6/ ص 264،265،266/) 
(معاوضہ التراویح 40/) 
”(1) رمضان المبارک میں امام و مؤذن کے لیے چندہ کرنا۔جواب 256, [1-2 ] چندہ جبرا وصول نہ کیا جاتا ہو تو مضائقہ نہیں ہے۔ اگر اس طرح امام و مؤذن کی امداد نہ کی گئی تو ان کا گذر کیسے ہوگا؟ اور وہ کس طرح رہ سکیں گے؟ بہتر تو یہی ہے کہ تنخواہ معقول دی جائے اور چندہ کی رسم کو ختم کیاجائے۔۔۔۔۔ [4] چندہ بخوشی دیتے ہوں اور امام و مؤذن کی مددکرنا مقصود ہوتومضائقہ نہیں ہے۔ (فتاوی رحیمیہ، کتاب الصلوة، باب التراویح، ج 6، ص، 258،260/) (معاوضہ على التراویح 48/) 
   شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اپنے ایک فتوی میں لکھتے ہیں:
”اور اگر حافظ نے کوئی شرط زبانی یاعملی شرط نہیں کی، اخلاص سے لوجه الله سناتا ہے اور مقتدی اس کو بلاطلب کچھ دیتے ہیں خواہ کم ہو یا زیادہ تو اس کو لینا جائز ہے۔ اور کسی کی نماز اورثواب میں کوئی خلل نہیں بلکہ مقتدیوں کومزید ثواب کی امید ہے۔ فتاوی شیخ الاسلام.“ (معاوضہ علی التراوت 24/) 
فتاوی دارالعلوم دیو بند مکمل و مدلل میں حضرت مفتی عزیزالرحمن صاحب عثانی لکھتے ہیں:
”جواب: - آمد ورفت کا کرایہ دے کر ان کو باہر سے بلانا اور اس کا قرآن شریف بلامعاوضہ سننا جائز اور موجب ثواب ہے اور جب کہ وہ باہر سے آیا ہو اور بلایا ہوا مہمان ہے تو اس کو عمدہ کھلاناجائز ہے اور ثواب ہے۔“ فتاوی دارالعلوم دیوبند مدلل ومکمل، باب مسائل تراویح، ج 4، ص 294 /295) 
(معاوضہ علی التراویح ص 19/) 
حضرت مفتی عبیدالله صاحب اسعدی دامت برکاتہم ان تمام فاواجات کو ملاحظ فرمانے کے بعد بطور خلاصه کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
”...پنچ وقتہ نمازوں کا امام تراویح بھی پڑھائے اور اس میں قرآن مجید سنائے تو مسجد کے منتطمین اس کو ماہ رمضان میں ماہانہ تنخواہ سے زائد دے سکتے ہیں، یہ زیادتی کارکردگی اور حسن کارکردگی کا انعام ہوگا کسی کو رمضان میں پنج وقتہ نمازوں کا امام طے کیا جائے یا دو کا، (دو وقت کی نمازوں کا۔ اشرف) تو جو اجرت طے ہوجائے لینا دینا گنجائش رکھتا ہے۔“ (مقدمہ معاوضہ علی التراویح ص 10)
سطور بالا سے واضح ہوتا ہے کہ تراویح میں ختم قرآن پرمعاوضہ طے کئے بغیر عام مسلمان اپنی مرضی سے امام تراویح کو نذرانہ اور تحفہ وتحائف دیں تو جائز ہے۔ 
مسئلہ کی صورتِ جواز سامنے آجانے کے بعد سب سے پہلے میں حفاظ سے کہتا ہوں کہ وہ اگر مالی لحاظ سے خوشحال ہوں تو بھی  تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر ملنے والے ہدایا اور تحائف کو ہر حال میں قبول کریں۔ اگرچه خود استعمال کرنے کے بجائے کسی غریب کو دے دیں. اس سے مسلمانوں میں حافظوں اور عالموں کے تعاون کا سلسلہ قائم رہے گا.
اس کے بعد عام مسلمانوں سے التماس ہے کہ رمضان و عیدین اور خوشی کے مواقع کے علاوہ بھی علماء وحفاظ کی مالی ضروریات پوری کرنے کی کوششیں کرتے رہیں۔
فقط: واللہ اعلم بالصواب
کتبه: (مفتی) محمد اشرف قاسمی 
27 شعبان المعظم 1443ھ، 
مطابق 31 مارچ 2022ء،
خادم الافتاء: مہدپور، اُجین، ایم پی۔ 
ashrafgondwi@gmail.com
تصدیق: مفتی محمد سلمان ناگوری 
ترتیب: ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی۔ آلوٹ، رتلام، ایم پی (صححہ: #S_A_Sagar )
http://saagartimes.blogspot.com/2022/04/blog-post_29.html?m=1


Tuesday, 26 April 2022

صدقۂ فطر ————معیار ومقدار

صدقۂ فطر ————معیار ومقدار 
----------------------------------
----------------------------------
اسلام قیامت تک کے لئے دائمی اور ابدی مذہب ہے، اِس کے جملہ اَحکام میں الوہی حِکم ومصالح، بندوں کی دنیاوی بہتری اور اُخروی فلاح، نرمی، یسر وسہولت، تقاضاے دہر وعصر کی رعایت، بدلتے حالات، ازمنہ و امکنہ، ان کے تغیر وتبدل اور حوادث وواقعات کو اپنے اندر سمو لینے کی زبردست اِستعداد موجود ہے۔اسی باعث  اسلامی احکام شرع دائمی بھی ہیں  اور ہمہ گیر بھی ۔زمانے کے کسی بھی موڑ پہ وہ انسانیت کی کامل رہبری سے قاصر نہیں ہیں. دیگر شرعی احکام کی طرح زکاتِ اموال وابدان میں بھی اسی یسر وسہولت کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے معیارات متعین کئے گئے ہیں جو، ہر زمانے میں ہر کسی کے دسترس میں ہو اور ممکن العمل بھی ہو، نقود اور دراہم ودنانیر کے بالمقابل اوقیہ اور صاع وغیرہ کے ذریعے تحدید زکات اسی لئے ہوئی ہے کہ زمانے کی معاشی ترقی اور کساد بازاری کے باوجود ان پیمانوں میں کوئی فرق نہ پڑسکے اور ہر جگہ کے لوگ بآسانی اس فریضے کو ادا کرسکیں؛ کیونکہ وزن اور کیل کے پیمانے تغیرات زمانہ سے متاثر نہیں ہوتے جبکہ نقود کی مالیت زمانے و حالات کے اختلاف و تغیرات سے بری طرح متاثر ہوتی رہتی ہے.
بدنی زکات: یعنی صدقہ فطر کا وجوب بھی 
شریعت اسلامیہ کے ضابطۂ یسر وسہولت پر مبنی ہے۔ عہدنبوی میں صحابہ کرام کی جو عمومی غذائی اجناس دست یاب اور فراہم تھیں انہی غالب ومروج غذاء و خوراک کو صدقہ فطر کا معیار بنایا گیا؛ تاکہ فطرہ دینے والے کو بھی سہولت ہو اور لینے والے فقراء ومساکین کے لیے بھی غذائی ضرورت  کی تکمیل ہو اور جورِ شکم نمٹانے کے لئے انہیں در بدر دست سوال دراز نہ کرنا پڑے؛ یعنی معطی کے لئے بھی آسانی ہو اور فقراء کے لئے بھی انفع ہو. عہدصحابہ میں، خصوصاً مدینہ منورہ میں کھجور کی کاشت سب سے زیادہ تھی، زیادہ گزران اسی پہ ہوتا تھا ، یہی عمومی غذاء تھی، اس لئے سب سے پہلے نمبر پہ سب سے زیادہ تکرار کے ساتھ احادیث میں اسی کو معیار صدقہ فطر بنایا گیا، اس کے بعد جَو کی کاشت بھی ہوتی تھی اور مویشی پالن کا رواج بھی زیادہ تھا، جانور پالنے والوں کی سہولت کے لئے جمے ہوئے دودھ یعنی پنیر کو، جبکہ جَو اور انگور کاشت کرنے والوں کی سہولت کے لئے جو اور کشمش کو معیار صدقہ فطر بنایا گیا۔ اور دوسرے شہروں سے ایمپورٹ کرنے والوں یا خرید کرنے والوں کے لیے گیہوں کو معیار بنایا گیا، لیکن چونکہ عہد نبوی میں مدینہ پاک میں گیہوں کی پیداوار نہیں ہوتی تھی، گیہوں شام یا یمن سے در آمد کیا جاتا تھا؛ اس لئے بعض صحابہ سے گیہوں کا معیار ہونا مستور و مخفی رہ گیا، اور انہوں نے گیہوں سے تحدید فطرہ کو بعض صحابہ کی طرف منسوب کردیا؛ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کھجور و کشمش وجو جیسی اجناس کی طرح گیہوں کو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی معیار مقرر فرمایا اور باضابطہ اس کے ذریعے فطرے کی ادائی کی منادی کروائی، جیساکہ ہم آگے بیان کریں گے۔ ان شآءاللہ! 
جن غذائی اشیا کو منصوص طور پہ صدقۃ الفطر کا معیار بنایا گیا تھا، یعنی کھجور، کشمش، جو، پنیر اور گندم، تو ان کی تعیین وتنصیص کا مناط یسر وسہولت ہے، اہل علم کے علم میں یہ بات یقیناً ہے کہ احکام شرع اسباب وعلل سے مربوط ہوتے ہیں، احادیث میں منصوص اجناس کی تحقیق مناط اُس وقت علاقے  میں دست یاب ومروج خوراک کو متعین کرنا ہے، گیہوں کے علاوہ باقی اجناس تو مدینہ والوں کی غذاء تھی، اہل مدینہ و حجاز کے لئے اس میں سہولت تھی، جبکہ گندم شام والوں کی مروج غذاء تھی، اس لئے  گندم کو معیار بنانا  منشاء نبوی  کی تکمیل اور مناط حدیث کی تحقیق ہے. دیگر اجناس کے بالمقابل گندم کو دو مد یعنی نصف صاع اس لئے طے کیا گیا کہ اُس وقت یہ سب سے مہنگی چیز بھی تھی اور کمیاب بھی تھی، ایک صاع طے کرنے میں معطیین کے لئے دشواری تھی اس لئے معطی کی سہولت کے پیش نظر بطور خاص اسے نصف صاع رکھا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ اشیائے منصوصہ کو معیار فطرہ بنانے میں نفع فقراء کے ساتھ معطی کی سہولت زیادہ ملحوظ رکھی گئی ہے، اسی لئے متعدد اجناس واصناف میں اختیار دیا گیا ہے، صرف نفع فقراء ہی ملحوظ ہوتا تو اختیار دینے کے بجائے کسی ایک قیمتی جنس کو محدّد کردیا جاتا.
کن چیزوں سے عہد نبوی و صحابہ میں صدقہ فطر ادا کیا جاتا تھا؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مدینہ پاک میں عموماً کھجور، جو، کشمش، پنیر اور گندم (اس کا استعمال عہدفاروقی تک قلیل تھا) بطور خوراک مستعمل تھیں، عید کے دن فقراء کا اشتہاء ومیلان بھی انہی مروج ومعتاد خوردنی اشیاء کی طرف ہوتا تھا، انہی اجناس سے ان کی خوراکی ضرورت بھی وابستہ تھی ، انہیں ذخیرہ کرنا بھی سہل و ممکن تھا؛ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معطیین کی سہولت اور فقراء کے میلان واشتہاء (نفع) کے پیش نظر انہی اجناس خمسہ میں سے  کسی ایک سے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم فرمایا، چنانچہ متعدد احادیث میں پانچ اجناس: کھجور، جو، منقی، پنیر اور گندم کا بیان آیا ہے، ان پانچ اجناس کی تحدید کی علت یہ ہے کہ اُس وقت اہل حجاز کی یہی عموماً خوراک تھی، اس لئے انہیں معیار فطرہ بنایا گیا۔ ان اجناس خمسہ میں سے حسب سہولت جس جنس سے بھی فطرہ ادا کرے  وجوب ساقط ہوجائے گا، کسی ایک جنس کو دوسری پہ ترجیح و برتری حدیث سے ثابت نہیں ہے۔ درج ذیل احادیث میں ان اجناس کو مقرر کیا گیا ہے:
عن ابن عمر رضي الله تعالى عنهما قال: {فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر صاعاً من تمر، أو صاعاً من شعير، على العبدِ والحرِّ، والذكرِ والأنثى، والصغيرِ والكبير من المسلمين ... } . رواه البخاري (1503—
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک صاع کھجور کا یاایک صاع جو (وغیرہ) کا صدقہء فطر کے طور پر مسلمان غلام، آزاد، مرد، عورت، بچے اور بالغ پر فرض قراردیا ہے۔")
عن أبي سعيدالخدري رضي الله عنه يقول: {کنا نُخْرِج زكاة الفطر صاعاً من طعام أو صاعاً من شعير أو صاعاً من تمر أو صاعاً من أقِط أو صاعاً من زبيب} رواه البخاري (1506 ومسلم والطحاوي والدارمي .—-
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  ہم لوگ خوردنی اشیاء: جو، کھجور، پنیر اور کشمش سے ایک صاع صدقہ فطر نکالتے تھے)
عن معمر عن الزهري عن عبد الرحمن الأعرج عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: {زكاة الفطر عن كل حرٍّ وعبدٍ، ذكرٍ أو أنثى، صغيرٍ أو كبيرٍ، غنيٍّ أو فقيرٍ، صاعٌ من تمر، أو نصفُ صاع من قمح}. رواه الطحاوي (2/45 وعبدالرزاق والبيهقي ورواه أحمد (7710) بلفظ {عن أبي هريرة في زكاة الفطر: على كل حرٍ وعبدٍ، ذكرٍ أو أنثى، صغيرٍ أو كبيرٍ، فقيرٍ أو غنيٍ، صاعٌ من تمر، أو نصف صاع من قمح قال معمر: وبلغني أن الزُّهري كان يرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم} . وسنده صحيح .—-
حضرت ابوہریرہ ارشاد فرماتے ہیں ہر آزاد وغلام، مذکر ومؤنث ، چھوٹے یا بڑے ، مالدار وفقیر پر کھجور سے ایک صاع اور گیہوں سے آدھا صاع صدقہ فطر واجب ہے، حضرت معمر فرماتے ہیں مجھے معلوم ہوا ہے کہ امام زہری اس حدیث کو مرفوعاً بیان کرتے تھے؛ یعنی نصف صاع گیہوں سے فطرہ کی ادائی حضور کا ارشاد مبارک ہے)
وروی الدارَقُطني (2/141) والترمذي (674) من طريق عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده رضي الله عنه{ أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث منادياً ينادي في فِجاج مكة: ألا إنَّ زكاة الفطر واجبة على كل مسلم على كل ذكرٍ وأنثى، حرٍّ وعبدٍ، وصغيرٍ وكبيرٍ مُدَّان من قمح، أو صاع مما سواه من الطعام ۔۔۔۔عمر بن شعیب عن ابیہ عن جدہ 
سے مروی ہے حضور نے مکہ کی گلیوں میں یہ اعلان کروایا تھا کہ صدقہ فطر ہر مسلمان مرد وعورت ،آزاد وغلام اور بالغ ونابالغ پر گیہوں سے نصف صاع اور دیگر خوردنی اجناس سے ایک صاع واجب ہے}
عن أسماء بنت أبي بكر الصديق رضي الله عنهما قالت: "كُنا نُؤدي زكاة الفِطر على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مُدَّين مِن قمْح بالمدِّ الذي تُقتاتون به" (رواه أحمد (26396)، وحميد في الأموال (2377)، والطحاوي في شرح معاني الآثار (2/ 43— حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم لوگ حضور کے زمانے میں گیہوں سے صدقہ فطر دو مد یعنی نصف صاع نکالتے تھے، وہی مد جس سے تم لوگ غلہ و خوردنی اشیاء کی پیمائش کرتے ہو)۔
قال رسول اللہ ﷺ أدّوا زکوٰۃ الفطر صاعاً من تمر أو صاعاً من شعیر أو نصف صاع من بر، الحدیث: (طحاوی شریف، المکتبۃ الاشرفیہ دیوبند۱/۳۵۰— 
حضور کا ارشاد گرامی ہے صدقہ فطر کھجور اور جو سے ایک صاع اور گیہوں سے آدھا صاع نکالو)
 صدقہ فطر کی مقدار کیا ہے؟
صحابہ، تابعین، ائمہ مجتہدین اور جملہ فقہاء  کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ احادیث میں منصوص صدقہ فطر کی اصناف میں گیہوں کے سوا بقیہ اجناس میں قدیم پیمانے کے لحاظ سے ایک صاع نکالنا واجب ہے، البتہ گیہوں میں صدقہ فطر کی مقدار کے تئیں ائمہ کے مابین اختلاف ہوا ہے. امام مالک، امام شافعی اور امام احمد رحمہم اللہ  کے نزدیک گیہوں میں بھی صدقۃ الفطر ایک صاع ہی واجب ہے؛ کیونکہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے منقول ہے کہ کوئی بھی کھانے کی چیز ہو، ہم لوگ اس میں ایک صاع صدقۃ الفطر کے طورپر نکالا کرتے تھے:
كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِن طَعَامٍ، أوْ صَاعًا مِن شَعِيرٍ، أوْ صَاعًا مِن تَمْرٍ، أوْ صَاعًا مِن أقِطٍ، أوْ صَاعًا مِن زَبِيبٍ. صحيح البخاري: 1506. وصحیح مسلم: 985
 عن عياض بن عبدالله عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال {كنا نخرج ، إذ كان فينا رسولُ الله صلى الله عليه وسلم، زكاةَ الفطر عن كل صغير وكبير، حرٍّ أو مملوكٍ، صاعاً من طعام، أو صاعاً من أَقِطٍ، أو صاعاً من شعير، أو صاعاً من تمر، أو صاعاً من زبيب، فلم نزل نخرجه حتى قدم علينا معاوية بن أبي سفيان حاجاً، أو معتمراً، فكلَّم الناس على المنبر، فكان فيما كلَّم به الناس أن قال: إني أرى مُدَّين من سمراء الشام تعدل صاعاً من تمر، فأخذ الناس بذلك، قال أبو سعيد: فأما أنا فلا أزال أُخْرِجُه كما كنت أُخْرِجه أبداً ما عشتُ} رواه الإمام مسلم (2284) وأبوداود والترمذي وابن ماجة وابن خُزيمة وابن حِبَّان.
(حضرت ابوسعید خدری کا بیان ہے، ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے ملک کی خوراک سے جو، کجھور، منقی، جو اور پنیر وغیرہ پر مشتمل تھی، ایک صاع ہی صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ہمارا یہ معمول تھا، تاآنکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کے لیے آئے، تو انہوں نے منبر پر خطبہ کے دوران کہا، میری رائے میں شامی گیہوں کے دو مد (نصف صاع قیمت میں) کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں، چنانچہ لوگوں نے اس پر عمل شروع کردیا، مگر میں توجب تک زندہ ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے دستور کے مطابق (جس جنس سے بھی دوں گا) ایک صاع ہی دوں گا)۔‘‘
جبکہ خلفاے اربعہ سیدنا أبوبكر الصِّدِّيق، عمر بن الخطاب، عثمان بن عفان، علي بن أبي طالب، عبدالله بن عباس، عبدالله بن مسعود، جابر بن عبدالله، أبوهريرة، امیرمعاویہ، عبدالله ابن الزبير اور ان کی ماں أسماء بنت أبي بكر، أبو قلابة، جمہور صحابہ، امام ابوحنیفہ، سعيد بن المسيِّب، سعيد بن جبير، سفيان الثوري، عبدالله بن المبارك، عروة بن الزبير، عطاء، طاووس مجاھد، عمر بن عبدالعزيز، علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن قیم جوزیہ، قاسم بن سلام، ناصر الدین البانی رضي الله عنهم اجمعین کے نزدیک نصف صاع گیہوں کا نکالنا کافی ہے. اس موقف کی تائید میں بیشمار صحیح احادیث وآثار وارد ہوئے ہیں، ہم ان میں سے چند صحیح و متصل الاسناد روایت نقل کررہے ہیں:
۱: حضرت عبداللہ ثعلبہ کی حدیث ہے، جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر سے دو دن قبل خطبہ دیا اور گیہوں سے ایک صاع دو آدمیوں کا فطرہ ادا کرنے کا حکم فرمایا (تو ایک آدمی کا فطرہ نصف صاع گیہوں ہوا):
{حدثنا عبدالرزاق حدثنا ابن جُرَيج قال: وقال ابن شهاب: قال عبدالله بن ثعلبة بن صُعَير العُذْري {خطب رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس قبل الفطر بيومين، فقال: أدُّوا صاعاً من بُرٍّ أو قمحٍ بين اثنين، أو صاعاً من تمر أو صاعاً من شعير، على كل حرٍّ وعبدٍ، وصغيرٍ وكبيرٍ} رواه أحمد (24063) وأبو داود وعبد الرزاق بإسنادٍ رجالُه ثِقات.  ورواه الدارَقُطني (2/148) من عدَّة طرق بلفظ - عن عبد الله بن ثعلبة بن صُعَير عن أبيه - فصار مُسنداً متصلاً.  وكذا رواه ابن خُزيمة – عن أبيه – (2410)
اس روایت کے کئی طرق ہیں، نعمان بن راشد ائمہ جرح وتعدیل کے یہاں ضعیف ہیں، ان کے طریق سے جب یہ روایت آئے گی تو ضعیف ہوگی، مسند احمد میں (24064) کی حدیث اور ابودائود میں (1619) کی حدیث اسی سند سے آئی ہے ؛اس لئے ضعف کا حکم لگا ہے، لیکن ہم نے جو مسند احمد کی 24063 کی حدیث نقل کی ہے اس کی سند میں نعمان بن راشد نہیں ہیں، بقیہ تمام رواۃ ثقہ ہیں؛ لہذا یہ سند بالکل صحیح اور عمدہ ہے، اس سند سے مروی نصف صاع گندم والی حدیث صحیح الاسناد اور قابل احتجاج واستناد ہے، سنن ابی دائود حدیث نمبر  (1621) اور مصنف عبد الرزاق حدیث نمبر (5785 ) میں اسی صحیح سند سے حدیث مروی ہے. سنن دار قطنی (2/148) میں اس روایت کو صحیح سند سے مسنداً بھی بیان کیا گیا ہے. اب اس کے بعد یہ کہنا کہ صدقہ فطر میں نصف صاع گندم کا کافی ہوجانا حضور سے ثابت نہیں یا ضعیف روایت سے ثابت ہے کس قدر حیران کُن بلکہ افسوسناک بات ہے؟
۲: مکہ کی گلیوں میں نصف صاع گندم نکالنے کی منادی کروانے والی حدیث اوپر آچکی ہے:
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه عن جده رضي الله عنه {أن النبي صلى الله عليه وسلم بعث منادياً في فِجاج مكة: ألا إن صدقة الفطر واجبةٌ على كل مسلمٍ ، ذكرٍ أو أنثى، حرٍّ أو عبدٍ، صغيرٍ أو كبيرٍ، مُدَّان من قمحٍ، أو سواه صاع من طعام} رواه الترمذي (669) والدارَقُطني . قال الترمذي [هذا حديث غريبٌ حسن] 
اس روایت کی سند میں سالم بن نوح ہیں جو ابن حِبَّان، اور أبو زُرعة کے ہاں ثقہ اور امام  أحمد بن حنبل کے یہاں مقبول راوی ہیں؛ لہذا یہ روایت بھی قابل احتجاج ہوئی، اس کی تضعیف ناقابل تسلیم ہے۔
۳: ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب گیہوں کی ارزانی وفراوانی  ہوگئی تو انہوں نے نصف صاع کو صدقہ فطر کا معیار قرار دیا: 
اس کی سند میں عبدالعزيز بن أبي رواد ہیں، جنہیں يحيى القطان، يحيى بن معين اور أبو حاتم الرازي نے ثقہ مانا ہے، لہذا یہ روایت بھی قابل احتجاج واستدلال ہوئی.
گیہوں سے نصف صاع فطرے کی ادائی سے متعلق آثار صحابہ:
۱: خلیفہ اوّل حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  کا یہی موقف تھا، دیکھئے: مصنف عبدالرزاق (5774)، (5776)، مصنف ابن أبي شيبة (3/ 170)، کتاب الأموال لحميد بن مخلد (2372)،  شرح معاني الآثار  للطحاوی  (2/ 46)
۲: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہی موقف تھا، دیکھئے: کتاب الأموال لحميد بن مخلد  (2373)، شرح معاني الآثار للطحاوی (2/ 46)
۳: حضرت عثمان بن عفان رضي الله عنه کا یہی موقف تھا: دیکھئے مصنف ابن أبي شيبة (3/ 170)، کتاب الأموال لحميد بن مخلد (2374)، شرح معاني الآثار للطحاوی (2/ 47)
٤: حضرت علي بن أبي طالب رضي الله عنه کا یہی موقف تھا، دیکھئے: مصنف عبدالرزاق (5772)، مصنف ابن أبي شيبة (3/ 172)، کتاب الأموال لحميد بن مخلد (2375)
۵: حضرت عبدالله بن زبير رضي الله عنهما بھی اسی کے قائل تھے، دیکھئے: مصنف عبدالرزاق (5766)، مصنف ابن أبي شيبة (3/ 171)، کتاب الأموال لحميد بن مخلد (2380)
٦: حضرت جابر بن عبدالله رضي الله عنهما کا بھی یہی موقف تھا دیکھئے: مصنف عبدالرزاق (5772)
۷: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسی کے قائل تھے، دیکھئے: مصنف عبدالرزاق (5761)
۸: حضرت عبداللہ بن مسعود رضي الله عنه کا یہی خیال تھا، دیکھئے مصنف عبدالرزاق (5769)، مصنف ابن أبي شيبة (3/ 171)
۹: حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہی منسوب ہے، دیکھئے: کتاب الأموال لحميد بن مخلد (2379)، شرح معاني الآثار للطحاوی  (2/ 47)،مصنف عبدالرزاق (5768). مزید تفصیلات کے لئے دیکھیں: التمهيد (4/ 137)، المحلى (6/ 130 - 131)، الأموال؛ لأبي عبيد (ص: 521)، وشرح معاني الآثار (2/ 4 - 47)، بدائع الصنائع (2/ 72)، الاختيارات (ص: 102)، زاد المعاد (2/ 19)، تنقيح التحقيق (2/ 1472)، عمدة القاري (7/ 377)، تمام المنة (ص: 387)
کیا نصف صاع کو معیار فطرہ بنانا تنہا امیر معاویہ کا اجتہاد تھا؟ 
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اپنے ملک کی خوراک سے جو، کجھور، منقی، جَو اور پنیر وغیرہ پر مشتمل تھی، ایک صاع ہی صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی ہمارا یہ معمول تھا، تاآنکہ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کے لئے آئے، تو انہوں نے منبر پر خطبہ کے دوران کہا، میری رائے میں شامی گیہوں کے دو (نصف صاع قیمت میں) کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں، چنانچہ لوگوں نے اس پر عمل شروع کردیا، مگر میں تو جب تک زندہ ہوں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے دستور کے مطابق (جس جنس سے بھی دوں گا) ایک صاع ہی دوں گا۔‘‘ (صحيح مسلم: 985).
یہ حدیث صاف بتارہی ہے بطورخاص (فَاَخَذ النَّاسُ بِذالِكَ) کہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع قائم تھا کہ گیہوں کا معیار نصف صاع تھا، جمہور صحابہ کے بالمقابل اکیلے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی رائے جداگانہ تھی۔ اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت نے کھجور سے ایک صاع صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، لیکن بعد میں لوگوں نے ایک صاع کے بدلے گیہوں کے دو مد (نصف صاع) دینے شروع کردئیے۔‘‘
(أَمَرَ النبيُّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ بزَكَاةِ الفِطْرِ صَاعًا مِن تَمْرٍ، أوْ صَاعًا مِن شَعِيرٍ قالَ عبدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عنْه: فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَهُ مُدَّيْنِ مِن حِنْطَةٍ. صحيح البخاري: 1507).
یہ بھی صریح ہے کہ عہدنبوی کے بعد سارے لوگوں (فجعل الناس عدلہ) یعنی تمام صحابہ کرام کا عمل اجماعی طور پر نصف صاع سے ادائی پر تھا. غور کیا جاسکتا ہے کہ جب تک صحابہ کرام کی نظروں میں نصف صاع ادائی کی کوئی نبوی ہدایت ورہنمائی نہ ہوگی یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک صاع چھوڑ کے نصف صاع پہ سب کے سب آجائیں؟ کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ اصحاب رسول نے معاذ اللہ سنت کے خلاف عمل کیا؟ لامحالہ ان کے پیش نظر کوئی ٹھوس اور ثابت ارشاد نبوی ہوگا جس کی بنیاد پر وہ گندم میں ایک صاع کی بجائے نصف صاع پہ اکٹھے ہوگئے، اور یہ وہی نبوی ارشادات وآثار صحابہ ہیں جو اوپر مذکور ہوئے ہیں، علاوہ ازیں اجماع صحابہ بذات خود حجت ہے، جمہور صحابہ کے اجماع میں ایک یا دو صحابی کا شذوذ وتفرد قادح نہیں ہے. جہاں تک حضرت امیر معاویہ رضی اللہ کا ایک صاع کو نصف صاع گندم سے معادلہ کی بات ہے تو جیساکہ اوپر اشارہ کیا گیا کہ اصناف خمسہ منصوصہ میں مناط حکم علاقے کی عام خوراک (غالب قوت البلد) تھا، حجاز مقدس کی عام خوراک کھجور، جو، کشمش پنیر وغیرہ تھی جبکہ ملک شام کی عام خوراک دور معاویہ میں گیہوں تھی، لہذا تحقیق مناط کے تحت نصف صاع سے معادلہ کرکے انہوں نے عین ارشاد نبوی کی حسین تطبیق وتعمیل پیش  کی، وہ بھی اجلاء صحابہ کے اقوال اور بعض نبوی ارشادات کے تناظر میں. اس تطبیق وتحقیق مناط کو نرا اجتہاد کہنا جیساکہ ابن المنذر، ڈاکٹر یوسف قرضاوی اور ان کی اتباع وتقلید میں آج کل کے بعض فضلاء لکھتے آئے ہیں اور نصف صاع گندم سے ادائی فطرہ والی تمام صحیح وثابت روایات وآثار کو بیک جنبش قلم ضعیف و ساقط الاعتبار قرار دینے کی روش انتہا درجے کی تفریط ہے جو کسی طور لائق اعتناء اور علمی دیانت وانصاف کے ملائم  نہیں۔
صدقہ فطر میں اجناس کی بجائے قیمت دینا؟
ائمہ مجتہدین کے مابین امام ابوحنیفہ، سفیان ثوری، عمر بن عبدالعزیز، اور حسن بصری وغیرہم کا خیال یہ ہے کہ صدقہ فطر کی منصوص اجناس کی بجائے مقدار محدّد کی قیمت دینا بھی جائز ہے. امام سرخسی نے فقیہ ابو جعفر کے حوالے سے اجناس کے بالمقابل قیمت دینے کو افضل بتایا ہے کہ اس سے فقراء کی حاجت روائی زیادہ بہتر طریقے سے ہوسکتی ہے جوکہ وجوب فطرہ کی غرض وغایت بھی ہے تاکہ نقود سے اشیائے مایحتاج خرید کرسکیں، عہدنبوی میں مدینہ پاک میں نقود کا رواج کم تھا. اشیاء خوردنی سے لین دین کا رواج زیادہ تھا، زمانے کے حالات و تقاضے کی رعایت میں زبان رسالت مآب سے اجناس خمسہ کو معیار فطرہ بنایا گیا ؛ تاکہ ادائی بھی آسان ہو اور فقراء کی حاجت روائی بھی بہتر طور پہ ہوسکے 
جبکہ آج کے زمانے کا عرف یکسر تبدیل ہوگیا ، نقود نے اجناس کی جگہ لے لی. نہ اب فقراء کو اجناس کی چنداں ضرورت بچی؛ کیونکہ فطرہ میں وصول کردہ اجناس کو سستے اور اونے پونے داموں میں وہ بیچتے نظر آتے ہیں، اور نہ معطیین کے دست رس میں اجناس بچیں؛ لہذا آج گندم، جو، کھجور سے زیادہ اہم اور قیمتی شئے نقود ہوگئے، تیسیر وتسہیل کے اصول کے پیش نظر امام ابوحنیفہ کے نزدیک اجناس کی بجائے اس کی قیمت دینا بھی جائز ہے، دیکھئے (مبسوط سرخسی 2/149)
اجناس کی بجائے قیمت کی ادائی کے جواز کی دلیل اوپر گزری ہوئی وہی حدیث ابی سعید خدری ہے جس میں مذکور ہے کہ کھجور، جو، اور کشمش کے بالمقابل گیہوں میں نصف صاع واجب کیا گیا کیونکہ اس وقت گیہوں کھجور وغیرہ کے بالمقابل کافی مہنگا تھا، تو کھجور و کشمش وغیرہ ایک صاع واجب تھا جبکہ گیہوں اس کا آدھا یعنی نصف صاع! اس سے معلوم ہوا کہ جنس سے زیادہ مالیت ملحوظ رکھی گئی. علاوہ ازیں مصنف عبدالرزاق کی یہ روایت بھی مستدل ہے:
عن قرة : قال: (جاءنا كتاب عمر بن عبدالعزيز في صدقة الفطر نصف صاع - أي من بُرّ - عن كل إنسان، أو قيمته نصف درهم)، وعن الحسن قال: لا بأس أن تعطى الدرهم في صدقة الفطر، وأبو اسحاق قال: (أدركتهم وهم يعطون في صدقة رضمان الدراهم بقيمة الطعام. يراجع: مصنف أبي شيبة (3/174)
تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں:
بدائع الصنائع (2/205) طد. دار إحياء التراث العربي ، ومؤسسة التاريخ العربي2000 م، وحاشية ابن عابدين (2/79) والشرح الكبير مع الدسوقي (1/805) ونهاية المطلب (3/420) والروضة (2/301) ومغني المحتاج (3/116) والفروع (2/540).
وجوب واحتیاط میں فرق ملحوظ رہے:
اصناف منصوصہ میں سے جس صنف سے بھی آسانی ہو  مذکورہ مقدار میں صدقہ فطر ادا کردینے سے وجوب ساقط ہوجاتا ہے، تشریعی اور وجوبی طور پہ کسی ایک صنف کو دوسری پہ رجحان وفضیلت حاصل نہیں ہے لیکن چونکہ حنطہ کے مقدار واجب میں ائمہ کا اختلاف ہے، ہمارے یہاں آدھا صاع بھی کافی ہے جبکہ ائمہ ثلاثہ کے یہاں ایک صاع ہی ضروری ہے. لہذا اختلاف سے بچتے ہوئے اگر کوئی احتیاطی پہلو پر عمل کرلے اور فی کس ایک صاع یعنی ساڑھے تین کیلو گیہوں  یا اس کی قیمت نکالنا چاہے تو بڑی اچھی بات ہے، اس طرح تمام دلیلوں اور تمام فقہی رایوں کے مطابق فطرہ  درست ہوجائے گا۔ 
جن علاقوں میں اصناف منصوصہ موجود ہوں نہ وہاں ان کے استعمال کا رواج ہو تو  وہاں کے لوگوں کا اپنی رائج غذاؤں میں سے کسی چیز کا صدقۂ فطر میں دے دینا کافی نہیں ہوگا؛ بل کہ منصوص اشیاء خمسہ  میں سے کسی ایک صنف کی قیمت (آس پاس کے علاقوں میں دست یاب جنس کے نرخ کے اعتبار سے) دینا ہوگی ۔الدرالمختار‘‘میں ہے:
ومالم ینص علیه یعتبر فیه القیمة —-
جو چیزیں منصوص نہیں، ان میں قیمت کا اعتبار ہوگا (الدرالمختارمع الشامی: ۳/۳۱۹)
احناف کے یہاں صدقہ فطر:
کے وجوب کے لئے ”غناے شرعی“ ہونا ضروری ہے. یعنی نصاب زکات رکھنے والے شخص پر ہی صدقہ فطر بھی واجب ہے. جبکہ ائمہ ثلاثہ کے یہاں ایک دن رات کے اخراجات رکھنے والے غربا پر بھی صدقہ فطر ہے. ہمارے یہاں صاحب نصاب پر زکات اور صدقہ فطر دونوں واجب ہیں، لہذا یہ ضروری نہیں ہے کہ صدقہ فطر میں فقیر کو ہر اعتبار سے آسودہ کردینے کی بیجا فکر سوار کرلیا جائے. صدقہ فطر کے بہ نسبت زکات کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، مد زکات سے فقراء و مستحقین کی خاطر خواہ مالی مدد ممکن ہوتی ہے. آج کل ہمارے دیار کے عرف کے مطابق کھجور اور کشمش کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں جبکہ گیہوں اور جو بالکل سستا ہے۔ ایسے میں کھجور اور کشمش سے صدقہ فطر نکالنے پہ شدت آمیز بیجا زور صرف کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہمارے ملک میں شاید ہی کھجور و کشمش بطور عمومی غذا و خوراک کہیں استعمال ہوتے ہوں، جبکہ یہی مدار حکم ہے، پہر اس سے فطرہ نکالنے پہ اتنی توانائی صرف کیوں ہورہی ہے؟ اصناف منصوصہ میں کسی ایک کو دوسرے پہ فضیلت حاصل نہیں ہے. معطیین اپنی سہولت سے جس معیار کو چاہیں اپنائیں. وجوب فطرہ کو اصناف متعددہ میں دائر کرنے کی حکمت تیسیر وتسہیل فراہم کرنا ہے. کسی خاص صنف سے ادائی کی مہم چلانا یا اس بابت تیز وتند جملے کسنا درست رویہ نہیں ہے. فی کس نصف صاع گیہوں کی ادائی کی تفصیلات اوپر کی سطروں میں آپ پڑھ چکے ہیں، غالب قوت البلد مناط حکم ہے، جس آبادی میں کھجور و کشمش یا گیہوں عمومی اشیائے خوردنی نہ ہو وہاں کے لوگ آس پاس کے علاقوں میں دستیاب جنس کے نرخ کے مطابق اصناف منصوصہ کی قیمت ادا کریں. گیہوں کا بعینہ پہانکنا یا استعمال کرنا مراد نہیں ہے. بلکہ اس سے بنی جملہ چیزیں اسی کے حکم میں ہونگی، صدقہ فطر کے ذریعے ہی فقراء کو آسودہ کردینا ضروری نہیں، اگر ایسا ہوتا تو فی کس اتنی معمولی مقدار واجب نہ کی جاتی، خدا تعالی ہی بہتر جانتا ہے کہ صاع یا نصف صاع جیسی قلیل مقدار واجب کرنے میں کیا حکمت ومصلحت کار فرما ہے؟ زکات مال میں انہی فقراء کی دل کھول کر مدد کیجئے! صاحب ثروت لوگ زکات بدن میں بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کھجور و کشمش کی قیمتوں سے صدقہ فطر ادا کریں تو بڑی اچھی بات ہے. اس کی ترغیب وتحسین ہونی چاہئے، لیکن جو صاحب نصاب صاحب ثروت نہ ہو وہ گیہوں سے ایک صاع (احتیاطاً) یا نصف صاع (کفایۃً) ادا کرے تو اسے ہدف طعن بنانا اور نصف صاع گیہوں سے ادائی فطرہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر ثابت مان کر بیجا تشویش وتشکیک کی فضا ہموار کرنا محتاط رویہ نہیں ہے، وجوب الگ چیز ہے اور احتیاط الگ! حیثیتوں کے اس فرق کو ملحوظ رکھنا ازبس ضروری ہے،
واللہ اعلم
(شبِ ۲۳ رمضان ١٤٤٣ چار بجے شب)
------------------------------------------------------------
اسی موضوع پر دیگر تحریر:
s_a_sagar#
http://saagartimes.blogspot.com/2022/04/blog-post_26.html

Sunday, 3 April 2022

رویت ہلال اور فلکی حسابات پہ اعتبار سے متعلق ایک چشم کشا محاضرہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم 
رویت ہلال اور فلکی حسابات پہ اعتبار سے متعلق ایک چشم کشا محاضرہ 
—————-
مورخہ ۲٤ شعبان المعظم ۱٤٤۳ بہ مطابق ۲۸ مارچ ۲٠۲۲ بہ روز پیر بعد نماز عشاء ۹:۱۵ تا ۱٠:۱۵ بہ عنوان "رؤیت ہلال کے شرعی اصول و ضوابط" زیرصدارت حضرت مولانا ابوحنظلہ عبدالاحد قاسمی حفظہ اللہ اور بحیثیت محاضر شیخ الحدیث حضرت مفتی شکیل منصور القاسمی دامت برکاتہم مقیم حال سورینام (جنوبی امریکہ) منعقد ہوا, محاضر موصوف نے خطبہ مسنونہ کے بعد موضوع پر کلام فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ آج کے موضوع کے دو جزء ہیں: 
۱ : رؤیت، 
۲ : ہلال۔ 
موضوع کے محاصرہ کیلئے مناسب معلوم ہوتا ہے لفظ "ہلال" کی لغوی و اصطلاحی تحقیق بیان کردی جائے, ہلال کے لغوی معنی ظہور اور آواز بلند کرنے  کےہیں اور یہ لفظ کئی صیغوں میں مستعمل ہے جیسے تہلیل, اہلال بالحج, استہلال الشھر وغیرہ. اصطلاحی معنی قمری مہینہ کی شروع یا اخیر کی دو یا تین راتوں کے چاند کو ہلال سے تعبیر کرتے ہیں، درمیان ماہ کی راتوں کے چاند کو عموما قمر؛ جبکہ چودہویں کے چاند کو خصوصا بدر کہا جاتا ہے ,فرمایا کہ شریعت اسلامیہ کے ہزاروں احکام کی بنیاد چاند پر ہے۔ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ بتصریح قرآن کریم پچھلی امتوں پر بھی روزہ فرض تھا جس سے واضح ہے کہ امم ماضیہ کے ہاں بھی قمری مہینوں پر ہی عمل ہوتا تھا۔ شریعت اسلامیہ میں احکام شرع میں قمری مہینوں ہی کا اعتبار کیا گیا ہے، حضرت عمر رضی اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی مشاورت سے ہجرت نبوی سے اس کا آغاز فرمایا، قمری مہینوں کی تحدید ایجاد بندہ نہیں؛ بلکہ من جانب اللہ ہے جیسا کہ قران کریم میں مذکور ہے: 
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَاللَّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ۚ (التوبة 36)۔
بخاری میں ہے:
الزَّمانُ قَدِ اسْتَدارَ كَهَيْئَتِهِ يَومَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَواتِ والأرْضَ، السَّنَةُ اثْنا عَشَرَ شَهْرًا، مِنْها أرْبَعَةٌ حُرُمٌ، ثَلاثَةٌ مُتَوالِياتٌ: ذُو القَعْدَةِ وذُو الحِجَّةِ والمُحَرَّمُ، ورَجَبُ مُضَرَ، الذي بيْنَ جُمادَى وشَعْبانَ. (صحيح البخاري. (3197)
مذہب اسلام جغرافیائی سرحدوں سے پاک اور منزہ ہے، عامی وعالم ،شہری و بدوی وصحراوی ہر کوئی یکساں اس کا مکلف ہے، اسلام سب کے لئے قابل عمل چیزوں پر احکام کی بنیاد رکھتا ہے، چاند پہ مہینوں کے آغاز وانتہاء کی بنیاد اسی لئے رکھا گیا ہے ہر کوئی ہر جگہ سے دیکھ کر اسے محسوس ومعلوم کرسکتا ہے، سورج کے بالمقابل چاند کو اسی لیے معیار بنایا گیا ہے کہ اسے  محسوس کیا جاسکتا ہے  اور اسکو آسانی سے دیکھا بھی جاسکتا ہے کیونکہ چاند کا حجم اور جسم گھٹتا بھی ہے اور بڑھتا بھی ہے, جس کی رؤیت غروب آفتاب کے بعد ہوتی ہے ، برخلاف شمس اور آفتاب کے کہ اس کو دیکھنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں اور سورج ہر وقت ایک ہی حالت پر رہتا ہے۔ اگر ریاضی و فلکیات کی موشگافیوں اور ظن وتخمینات سے مہینوں اور رمضان وفطر کا آغاز ہونے لگے تو جو لوگ ان چیزوں سے واقف نہیں، یا جو جزیروں وپہاڑوں میں آباد ہیں وہ عمل کیسے کریں گے؟ یہ تو اسلام کی آفاقیت کے خلاف ہے۔ موضوع کا دوسرا جزء تھا "رؤیت" جس کو بخاری شریف کی اس  روایت سے مستدل فرمایا:
صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فإنْ غُبِّيَ علَيْكُم فأكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ.
صحيح البخاري. 1909.
مذکورہ روایت کے ذیل میں حضرت مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی علیہ الرحمہ کا قول نقل فرمایا کہ رویت آنکھ سے دیکھنے کو کہتے ہیں، دیگر معانی میں اس کا استعمال مجاز ہے، فلک پر چاند کا وجود کافی نہیں ہے۔ بلکہ احکام کے ثبوت کیلئے چاند کا قابل دید و قابل رؤیت بصریہ ہونا مدار حکم ہے۔ عمل بالحقیقہ کے امکان کے باوجود مجاز کی طرف رجوع صحیح نہیں، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے مجموع الفتاوی کے حوالہ سے ارشاد فرمایا کہ ہلال کے معنی ہی ظہور کے ہیں وجود فوق الافق کافی نہیں؛ بلکہ ظہور ہونا ضروری ہے تبھی تو ہلال کی حقیقت لغویہ کا تحقق ہوسکے گا۔ فلکی حساب سے پیدا شدہ چاند کو ہلال کہنا ہی صحیح نہیں۔ اگر وجود فوق الافق ہی کافی ہوجاتا تو انتیس تیس کا جھگڑا ہی ختم؛ کیونکہ چاند پورے مہینہ اپنے مدار میں کہیں نہ کہیں رہتا ہی ہے، کبھی معدوم نہیں ہوتا، چھبیس و ستائیس کو بھی دور بیں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ مفتی صاحب  نے شریعت کے ایک اہم اصول کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ نئی ایجادات سے کوئی وحشت ونفور نہیں، سائنس خدائی مخلوقات سے استفادے کی شکلیں بتاتی ہے، لیکن اس سے اسوقت تک ہی انتفاع جائز ہے جبتک کہ اصول شریعت سے متصادم نہ ہو، مسلمان احکام خداوندی کی پیروی کا پابند عمل ہے، سیارات کی گردشوں و موشگافیوں میں انشغال کا نہیں، باری تعالی کا ارشاد ہے:
اتبعو مآ انزل الیکم من ربکم ولاتتبعو من دونہ اولیآء۔
فلکیات سے امکان رویت ہلال تک استفادے کی تو گنجائش ہے؛ لیکن رویت بصریہ کے اہتمام اور التماس ہلال کے بغیر اصول فلکیات سے ہی محدّد طور پر مہینوں کا آغاز واختتام کردینا اصول شرع "صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ" کے معارض و متصادم ہونے کے باعث مردود و ناقابل عمل وغیر معتبر ہے۔ حدیث نبوی سے ہی پتہ چلتا ہے کہ چاند اپنے وجود کے بعد کسی عارض کے باعث تمہاری نظروں سے مستور ہوجائے تو تیس دن مکمل کرو.
"فان غمّ علیکم" غُمّ کا مفہوم لغوی یہ ہے کہ موجود ہوتے ہوئے. اگر چاند نہ دکھ سکے، کذا فی تاج العروس، تو اب تیس روز مکمل کئے جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کو فوق الافق موجود مانتے ہوئے تیس روز مکمل کرنے کی ہدایت فرمائی ہے، اس سے صاف ظاہر ہے کہ چاند کا وجود محض معتبر نہیں، وقوع رویت کا اعتبار ہے، فلکیات وریاضی کے ماہرین کی ساری تگ ودو وجود محض تک محدود ہے، پھر چوتھی صدی ہجری کے ممتاز اسلامی فلاسفر علامہ ابو ریحان بیرونی نے اپنی مایہ ناز کتاب "الآثارالباقیہ" میں علماے فلکیات کا اجماع نقل کردیا ہے کہ یہ لوگ جو کچھ بھی تحدید کرتے ہیں وہ ظن وتخمین سے زیادہ کچھ بھی نہیں، ان کی تخمینات کسی بھی متفق علیہ ومنضبط قطعی اصول پہ مبنی نہیں ہے.“ تو پھر بھلا ایسی موہوم چیزوں پہ ہلال رمضان وفطر کے اثبات میں کیسے بھروسہ کرلیا جائے؟ طول البدل وعرض البدل کے اختلاف کے باعث فقہاء کے یہاں مسئلہ اتفاقی ہے کہ دنیا کے تمام علاقوں کے مطالع ایک نہیں ہوسکتے، اختلاف مطالع کی حقیقت ہر ایک کے یہاں مسلم ہے، اسی لیے نمازوں کے اوقات سے لیکر دنوں تک میں اختلاف ہے؛ البتہ اختلاف اس میں ہے کہ ثبوت ہلال میں یہ اختلاف مطالع موثر ہے یا نہیں ؟ یعنی اگر دنیا کے ایک کنارے میں رویت ہوگئی تو دوسرے کنارے والوں پر بھی یہ رویت نافذ ہوجائے گی یا ان کے یہاں جب دوسرے روز رویت ہوگی تب ان کی اپنی رویت کا اعتبار ہوگا؟ تو اس بابت فقہاء حنفیہ کا اختلاف ہے، ظاہر مذہب یہ ہے کہ ایک جگہ کی رویت دنیا کے دوسرے کنارے والوں کے لئے بھی رویت قرار پائے گی اور سب کے لئے ایک روز ہی ہلال ثابت ہوگا؛ کیونکہ "صومو لرویتہ" والا حکم سب کے لئے علی الاطلاق عام ہے۔ جبکہ علامہ کاسانی، امام زیلعی، صاحب فتاوی تاتار خانیہ، علامہ شبیر احمد عثمانی، علامہ انور شاہ کشمیری، علامہ سید محمد یوسف بنوری اور مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی جیسے علمائے محققین قدرے تفریق کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ: 
بلادِ قریبہ میں اختلافِ مطالع معتبر نہیں ہے، یعنی ایک جگہ رویت ثابت ہوجانے سے سب کے لئے ثابت ہوجائے گی ۔قریب کی حد یہ ہے کہ اس جگہ کی معتبر خبرکو مان لینے سے اپنے یہاں کا مہینہ ۲۹؍ دن سے کم یا ۳۰؍ دن سے زیادہ لازم نہ آتا ہو۔ جبکہ بلادِ بعیدہ میں اختلافِ مطالع کا شرعاً اعتبار ہے، یعنی ایک جگہ کی رویت سب کے لئے لازم نہ ہوگی۔ بعیدہ کی حد یہ ہے کہ وہاں کی رؤیت تسلیم کرنے سے اپنے یہاں کا مہینہ ۲۹؍دن سے کم یا ۳۰؍دن سے زیادہ کا لازم آجاتا ہو، ایسی جگہوں کی خبریں تسلیم نہیں کی جائیںگی، اگرچہ کتنے ہی وثوق کے ساتھ کیوں نہ آئیں، اس لئے کہ شریعت کی نظر میں کوئی مہینہ نہ تو ۲۹؍ دن سے کم ہوسکتا ہے اور نہ ۳۰؍ دن سے زیادہ ہوسکتا ہے۔ مکہ معظمہ اور خلیجی ممالک کی رؤیت پوری دنیا کے لئے اسی اصول پہ معتبر نہیں ہے. بلکہ مکہ معظمہ کی رؤیت صرف انہی علاقوں تک مانی جاسکتی ہے جہاں اس رؤیت کو تسلیم کرلینے سے ان علاقوں کا مہینہ ۲۹؍ دن سے کم یا ۳۰؍ دن سے زیادہ کا ماننا لازم نہ آتا ہو، اور مکہ معظمہ سے دور دراز کے وہ علاقے جہاں مکہ معظمہ کی رؤیت تسلیم کرنے سے مہینہ میں کمی بیشی ماننی پڑتی ہو تو ان میں مکہ معظمہ کی رؤیت کا اعتبار نہیں ہوگا۔ سلسلہ خطاب جاری رکھتے ہوئے مفتی صاحب نے فرمایا کہ جب رؤیت عام نہ ہو تو عیدین (اور دیگر مہینوں) کے چاند کے ثبوت کے لئے ضروری ہے کہ درج ذیل چار ذرائع میں سے کوئی ذریعہ پایا جائے:
(۱) شہادۃ علی الرؤیۃ: یعنی چاند دیکھنے والے دو عادل شخص خود قاضی یا کمیٹی کے روبرو چاند دیکھنے کی گواہی دیں۔
(۲) شہادۃ علی شہادۃ الرؤیۃ: یعنی چاند دیکھنے والے خود تو حاضر نہ ہوں، لیکن ان میں سے ہر ایک کی گواہی پر دو دو عادل شخص گواہی دیں کہ ہمارے سامنے فلاں فلاں شخص نے چاند کی گواہی دی ہے۔
(۳) شہادۃ علی القضاء: یعنی کسی جگہ قاضی یا کمیٹی شرعی ثبوت پر چاند کا فیصلہ کردے پھر اپنے فیصلہ کو دو گواہوں کے سامنے مہربند کرکے دوسرے شہر کی کمیٹی یا قاضی کو بھیجے۔
(۴) استفاضہ: یعنی کسی جگہ سے چاند کی خبر یا قاضی کے فیصلہ کے بعد اس کی خبر دوسرے شہر تک اس تواتر سے پہنچے کہ اس سے چاند کے ثبوت کا علم یقینی ہوجائے۔
ان میں سے اگر ایک ذریعہ بھی متحقق ہوجائے تو عید کے چاند کا ثبوت ہوجائے گا۔
اگر مطلع بالکل صاف ہو تو اس وقت تک رمضان یا عیدین کے چاند کا ثبوت نہ ہوگا جب تک کہ ایک بڑی معتد بہ جماعت چاند نہ دیکھ لے، یا اطراف سے متواتر ناقابلِ انکار خبریں استفاضہ کے طور پر نہ آجائیں؛ لہٰذا ایسی صورت میں اگر دو ایک آدمی گواہی دیں تو ان کی گواہی معتبر نہ ہوگی۔ اگر مطلع ابر آلود یا غبار آمیز ہو تو رمضان کے چاند کے ثبوت کے لئے ایک شخص کی خبر کافی ہے جس میں گواہی کے الفاظ کو کہنا ضروری نہیں۔
مفتی صاحب نے فرمایا کہ جن ملکوں میں اقتدارِاعلیٰ مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو وہاں چاند کا اعلان وہی معتبر ہوگا جو حکومت کی طرف سے مقرر کردہ افراد یا کمیٹی کی طرف سے کیا جائے، اپنے طور پر عوام کو روزہ رکھنے یا عید منانے کا اختیار نہ ہوگا۔ مسلم اقلیتوں والے ممالک میں چاند کے اعلان کا اختیار معتمد علیہ رؤیت ہلال کمیٹیوں یا علاقہ کے بااثر ائمہ اور علماء کو ہوگا، انہی کے سامنے چاند کی شہادتیں پیش کی جائیںگی، اور انہی کے اعلان پر روزہ یا عید کا فیصلہ ہوگا، اور جس کمیٹی اور عالم کا جتنا دائرۂ اثر ہے اسی حد تک اس کا فیصلہ نافذ العمل ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی فاضل محاضر نے اثناء خطاب بیش بہا وچشم کشا علمی نکات کی طرف اشارے فرمائے، اختصار کے خاطر انہیں شامل نہیں کیا گیا، یہ محاضرہ انتہائی اور وقیع تھا، دریا کو کوزے میں بند کردینے کا مظہر جمیل تھا، اللہ تعالی حضرت مفتی صاحب کے علوم سے امت کو مستفید ہونے کی توفیق ارزانی فرمائے، آمین۔
رپورٹ: بندہ محمد شکیل قاسمی بھرت پوری (حال مقیم راجستھان) s_a_sagar#
http://saagartimes.blogspot.com/2022/04/blog-post_3.html?m=1

تراویح میں ختم قرآن —— حقیقت، حیثیت اور ہماری بے اعتدالیاں

تراویح میں ختم قرآن —— حقیقت، حیثیت اور ہماری بے اعتدالیاں!
----------------------------------
قرآن کریم کائنات کی عظیم ترین دولت اور نعمت ہے۔ زمین آسمان میں خدا کو سب سے محبوب چیز قرآن کریم ہے۔ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خدا نے خود اپنے ذمہ لی ہے۔ اس میں دنیا وآخرت کی بھلائی اور ہدایت ہے۔ اس کا پڑھنا بھی عبادت، سننا بھی عبادت، اور دیکھنا بھی عبادت ہے۔ یہ کتاب تمام آسمانی کتابوں کا عرق وخلاصہ ہے۔ پچھلی امتوں کو بغرض اصلاح جو مضامین مختلف زمانوں میں دیئے گئے وہ سب قرآن کریم میں جمع کردیئے گئے ہیں، ترغیب وتحریض کے مقصد سے مخصوص سورتوں کے مخصوص فضائل بیان کئے گئے ہیں، نمازوں میں اس کی قرأت اس حد تک لازم کی گئی ہے کہ اس کے بغیر نماز کا وجود ہی تسلیم نہیں کیا گیا. چونکہ منبعِ خیرات و برکات قرآن کریم کا قدوم میمنت، لزوم ونزول اسی مہینے میں ہوا ہے؛ اس لئے اس مہینے میں قرآن کریم کے ختم کرنے کو مسنون قرار دیا گیا، جو شخص اس مہینہ میں قرآن کریم کو ختم کرتا ہے، گویا وہ ساری اصلی اور ظلی برکات کا وارث ہوجاتا ہے، ختم قرآن کے مقصد سے ہی تراویح کی مشروعیت عمل میں آئی؛ تاکہ امت نزول قرآن کے ماہ مقدس میں ذوق وشوق کے ساتھ قرآن پڑھنے یا سننے میں مشغول رہ کر ہر خیر وبرکت کو دامن مراد میں سمیٹ سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ نفس نفیس تین راتوں تک تراویح پڑھائی، اس میں حضور علیہ السلام کا ختم قرآن کرنا تو کسی روایت سے ثابت نہیں ہے؛البتہ سنت خلفاے راشدین اور عمل صحابہ سے تراویح میں ختم قرآن کی سنیت ثابت ہوتی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت کی طرح اپنے خلفاء کی سنت کو بھی مضبوط پکڑنے کا حکم دیا ہے، خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تراویح کی امامت کے لئے حافظوں کو بلاکر ان کی قرأت سنی، پھر تیز پڑھنے والے کو تین ختم کرنے کا حکم دیا. اور معمولی تیز پڑھنے والے (یعنی تدویراً پڑھنے والے) کو دو ختم کرنے کے لئے فرمایا۔ اور آہستہ یعنی ترتیل سے پڑھنے والے کو ایک ختم کرنے کے لئے کہا۔ اور صحابہ رضوان ﷲ علیہم اجمعین کو ان کے شوق اور ہمت کے مطابق مذکورہ اماموں میں سے کسی ایک کی اقتداء کی ہدایت فرمائی۔ اب ظاہر ہے کہ امیرالمؤمین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے تراویح میں قرآن ختم کرنے کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی لازماً کوئی دلیل ہوگی؛ ورنہ آپ اس کا حکم نہ فرماتے اور نہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین اس کو تسلیم کرتے۔ اسی لئے جمہور ائمہ کے یہاں رمضان میں ختم قرآن سنت ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جن قراء کو امامت تراویح کے لئے متعین فرمائے تھے. وہ تراویح میں اتنی طویل قرات فرماتے کہ فجر کے قریب لوگ تراویح سے فارغ ہوتے اور بعضوں کو طول قرأت کے باعث لاٹھی کا سہارا لینا پڑتا تھا، یہ دلیل ہے کہ تراویح میں لمبی قرأت کا معمول موجود تھا اور ختم قرآن کا اہتمام دورصحابہ میں بھی تھا؛ اسی لئے ہمارے یہاں پورے رمضان میں ترتیب وار کم از کم ایک ختم قرآن کو مؤکدہ قرار دیا گیا ہے، فقہی کتابوں میں لوگوں کی سستی کے باعث ختم قرآن کو ترک نہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جس سے اس کا مؤکد ہونا معلوم ہوتا ہے، جبکہ بعض فقہاء  حنفیہ فرماتے ہیں کہ کسی جگہ کے لوگ اتنے سست اور بد دل اور بدشوق ہوں کہ پورا قرآن مجید سننے کی تاب نہ رکھتے ہوں تو اتنا پڑھے کہ مسجد جماعت سے خالی نہ پڑجائیں۔ کیونکہ تکثیر جماعت تطویل قراءت سے زیادہ اہم ہے، ایسی ابتر حالت نہ ہو تو ایک ختم سے کم نہ کرے کیونکہ یہی سنت ہے۔ صحابہ و تابعین اور اسلاف امت کا اب تک اس پہ توارث چلا آرہا ہے، جس کی پیروی ضروری ہے، علامہ ابن تیمیہ اور علامہ طحطاوی جیسے محققین علماء کا کہنا ہے کہ ختم قرآن کے مقصد سے ہی تراویح مشروع ہوئی ہے. ہر محلے کی مسجد میں  باجماعت تراویح کے تاکیدی قیام کی غرض بھی یہی ہے کہ عوام جو حافظ نہیں ہیں وہ تراویح میں قرآن سن سکیں اور ختم قرآن کی سنت اور فضیلت سے محروم نہ رہیں۔ اگر ختم قرآن کا تاکُّد ختم کردیا جائے تو چند سالوں بعد حفظ قرآن کے سلسلے پہ انتہائی منفی اور تکلیف دہ اثرات مرتب ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا، پھر کیا بعید ہے کہ حفاظ بھی عنقاء ہوجائیں، اگر نام کے حفاظ دستیاب بھی ہوجائیں تو محراب سنانے کے قابل نہ بچیں، ختم قرآن کے تاکُّد کے باعث اختیاراً نہیں تو؛ اضطراراً ہی سہی؛ لیکن دورِ قرآن کا عملی سلسلہ اور عوام کا مکمل ذوق وشوق کے ساتھ تراویح میں شرکت کا قابل رشک سلسلہ تو ہنوز باقی ہے. حفاظت قرآن جیسے عظیم مصالح ومقاصد اور عمل صحابہ کے تحت تراویح میں ختم قرآن کے تاکد کا قول متقدمین احناف نے اپنایا ہے، لیکن ان تمام حکمتوں کے باوجود ختم قرآن ہے سنت ہی! اسے فرض واجب کا درجہ دیدینا اور فرض وواجب کی طرح ہر حال میں اس قدر لازمی اہتمام کرنا اور قرآن کریم کو اتنی تیز رفتاری کے ساتھ پڑھنا کہ یعلمون وتعلمون کے سوا کچھ بھی سمجھ میں نہ آئے، ثواب کی بجائے الٹا وبال کا باعث ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ سے حسن کی روایت ہے کہ ایک رکعت میں دس آیات کے بقدر جوکہ بیس رکعات میں ایک جزء کے مماثل ہوتا ہے پڑھے، اس طرح پورے مہینے میں ختم بآسانی ہوجائے گا. بادام کے چھلکے پہ قناعت کرنے والے اور مغز کو پھینک دینے والے شخص کی عقل پہ اگر ماتم کیا جاسکتا ہے تو ختم قرآن کے خبط میں تلاوت قرآن کے واجبی آداب کو نظرانداز کر کے ناقابل فہم رفتار میں تلاوت کرنے والا امامِ تراویح اس سے زیادہ قابل افسوس ہے۔ خوب اچھی طرح ذہن نشیں رہے کہ تراویح میں قرآن شریف صاف اور واضح انداز میں پڑھنا ضروری ہے۔ ایسی تیز رفتاری اور عجلت سے قرآن پڑھنا جس سے حروف کٹ جائیں اور الفاظ کی ادائی، صحیح وصاف نہ ہو درست نہیں؛ بلکہ مکروہ ہے، ایسی تراویح ثواب کے بجائے گناہ کا باعث بنتی ہے۔حفاظ اور انتظامیہ دونوں کو چاہئے کہ ایسی عجلت آمیز تلاوت کہ حروف کٹ جائیں اور کچھ سمجھ میں نہ آئے کہ کیا پڑھا جارہا ہے؟ سے لازمی گریز کریں، یہ کار ثواب کی بجاے کار گناہ اور وبال جان ہے، ایک سنت (ختم قرآن) کی ادائی کے لئے ترتیل قرآن کا بے رحمی کے ساتھ یوں حشر نشر کردینا اور کتاب مقدس کی حق تلفی کرنا انتہائی افسوسناک والمناک عمل ہے، واللہ الموفق لکل صواب.
شکیل منصور القاسمی 
مركز البحوث الإسلامية العالمي.
(یکم رمضان 1443 ہجری، روز ہفتہ) s_a_sagar#
http://saagartimes.blogspot.com/2022/04/blog-post.html?m=1