تراویح میں ختم قرآن پر بغیر متعین کئے ہدیہ دینا اور لینا
محترمین، بعد سلام عرض ہے کہ تراویح کی امامت کی اجرت لینا دینا کیسا ہے؟
اگر جائز نہیں ہے تو ایسے امام کے پیچھے اقتداء کرکے تراویح اداء کرنا کیسا ہے؟
احقر: سیف الاسلام المغفورلہ بالاپارہ بنگائی گاؤں, آسام, انڈیا
الجواب حامدا ومصلیا ومسلما امابعد:
تراویح میں ختم قرآن پربغیرمتعین کیے ہدیہ دینا اور لینا جائز ہے۔ اس مسئلے سے متعلق امدادالفتاوی جلداول از صفحہ 471 تا 485 اور جلد سوم صفحہ نمبر 366.334 پر تحقیقی بحث کی گئی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ: اجرت طے کرکے تراویح پڑھانے والے کی اقداء درست ہے۔ تراویح میں قرآن مجید کی سماعت کرنے کی اجرت جائز ہے۔ تراویح میں قرآن ختم کرنے والے حافظ امام کی اجرت کے بارے میں ایک قول بہرصورت ممنوع اور دوسراقول گنجائش کا ہے۔ آخر میں قولِ اول کو اختیار فرمایا۔ جلداول صفحہ 485 پرحاشیہ میں فتاوی رحیمیہ جلد دوم صفحہ 5 کے حوالے سے مفتی کفایت اللہ صاحب کا فتویٰ نقل کیا گیا کہ امامِ تراویح کو ایک دو وقت کی نمازوں کی امامت سے جوڑ کر اجرت لیناجائز ہے، لیکن محشی نے اس کا علمی اور تحقیقی رد فرمایا ہے۔ عدمِ جواز کی اصل وجہ اور علت ”ختم قرآن“ یعنی ”اجرت علی الطاعۃ“ قرار دیا ہے۔
دورنبوی اور دور صحابہ وخیرالقرون میں اس کے جواز اور عدم جواز کی کوئی صراحت نہیں ملتی ہے۔ البتہ دورنبوی میں امامت کے لیے اقرأ القرآن کو فضیلت و اکرام اور امامت کی اہلیت اور ان امام (حضرت عمروبن سلمہ رضی اللہ عنہ) کے لئے عوامی چندہ سے کرتا دینے کا ثبوت کتب حدیث میں موجود ہے۔ (مشکوة برقم الحدیث 1126 من البخاری) جس سے معلوم ہوا کہ جودۃ قرأۃ قرآن کی بناء پر امامت اور پھر ایسے امام کے لئے عوامی چندہ سے لباس کی فراہمی جائز ہے۔ ایک شخص حافظ قرآن ہے وہ تراویح سناتا ہے تو فطری طور پرلوگ تراویح نہ سنانے والے حافظ کی بہ نسبت اس حافظ کی زیادہ عزت و اکرام اور اس کے لیے کھانے، نا شتے کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔ اس اکرام و انتظام کے سلسلے میں کوئی بھی طبقہ عدم جواز کا قائل نہیں ہے۔اس سے آگے بڑھ کر عام مسلمان طے کیے بغیر روپے پیسے سے ان حفاظ کا تعاون کریں تو یہ بھی جائز ہوگا۔
حضرات صحابہ کرام رضی الله تعالی عنهم اجمعین ایک سفر میں تھے، وہاں قبیلہ کے ایک شخص کو بچھونے کاٹ لیا، قبیلہ کا ایک شخص صحابہ کی جماعت کے پاس آیا اور رقیہ کے بارے میں معلوم کیا۔ اس جماعت میں سے ایک صحابی اس شرط کے ساتھ دم کرنے کے لئے گئے کہ انہیں دم کرنے کے بدلے میں چند بکریاں دینی ہوں گی. اُن صحابی نے بچھو کاٹے ہوئے شخص پرسورہ فاتحہ پڑھ کردم کیا، وہ اچھا ہوگیا۔ شرط کے مطابق قبیلہ کے ایک آدمی نے بکریاں ان صحابی کے ساتھ کردیں۔ جب وہ بکریاں لے کر اپنے ساتھیوں (صحابہ کرام رضوان اللهم تعالی علیھم اجمعین کی جماعت کے پاس آئے تو دوسرے صحابہ نے اس معاوضہ کو پسند نہیں کیا۔
۔۔..فلما قدموا على رسول الله (صلى الله عليه)، اتوا رسول الله فاخبرواه بذالك ، فدعا رسول الله (صلى الله عليه) الرجل فسأله فقال: يا رسول الله (صلى الله عليه) انا مررنا بحي من أحياء العرب فيهم لدیغ اوسليم فقالوا هل فيكم من راق؟ فرقيته بفاتحة الكتاب فبرأ، فقال رسول الله (صلى الله عليه): ان احق ما اخذتم عليه اجرا كتاب الله. (مسند ابن حبان رقم الحديث 5146)
۔۔۔۔۔ حتى قدموالمدينة، فقالوا:يارسول الله (صلى الله عليه) اخذت على كتاب الله اجرا، فقال رسول الله (صلى الله عليه): ان احق مااخذتم علیه اجرا كتاب الله. (بخاری رقم الحديث 5737)
۔۔۔۔۔ فقدموا على رسول الله (صلى الله عليه): فذكروا له، فقال: ومایدریک انها رقية؟ ثم قال: قداصبتم اقسموا واضربوا الى سهما معکم فضحك رسول الله (صلى الله عليه).
(بخاری برقم الحدیث 5749و 5007,)
”..... اور پھر جب مدینہ میں تشریف لائے تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس معاملے کو پیش کیا گیا، اس پر آپ نے ارشاد فر مایا کہ: جن چیزوں میں تم اجرت لے سکتے ہوں ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہے۔ “ مسند ابن حبان۔
”.....رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم نے صحیح کیا، اس کو تقسیم کردو، اور اس کے حصے لگاکر اپنے ساتھ ایک حصہ مجھے بھی دو۔ آپ مسکرائے.“ بخاری
(بخاری، کتاب 66 فضائل قرآن، باب فضل فاتحة الكتاب، حديث نمبر 5007 کتاب الطب، 76 باب 3 الرقي بفاتحة الكتاب حديث نمبر 5736 اورباب النفث في الرقية، حديث نمبر 5747. صحيح مسلم کتاب السلام، باب جواز أخذ الاجرة عن الرقية والاذكار، حديث نمبر 5733. ابوداوود كتاب البيوع، باب کیف الرقی حدیث نمبر 3900، جامع الترمذی، کتاب الطب، باب ماجاء في اخذ الاجرة على التعويذ، حديث نمبر 2063۔سنن ابن ماجه ، كتاب التجارات، باب اجر الراقى، حديث نمبر 2106۔ مسند احمد ج 3 ص 2 ،10,49,50,83۔ الفتح الرباني لترتيب مسند احمد بن حنبل الشيباني ج 17 ص 185,184)
اس روایت میں صاف صاف اجرت علی کتاب اللہ کے جواز کی نص وارد ہے۔ اس حدیث سے اجرت على الطاعۃ کے جواز پرتو استدلال نہیں کیاجا سکتا ہے لیکن قرآن کی تلاوت کی وجہ سے بغیر طے کیے اگر نذرانہ، ہدیہ، تحفہ، تحائف عنوان سے کچھ دیاجائے، تو اس کے عدم جواز پر اصرار نہیں کرنا چاہئے۔
اس مسئلہ میں غیرمتعین نذرانہ اوراکرامیہ کے جواز پرایک دوسری حدیث سے بھی رہنمائی ملتی ہے۔
عن انس ابن مالك أن رجلا من کلاب سأل رسول الله (صلى الله عليه): عن عسب الفحل فنهاه فقال يا رسول الله (صلى الله عليه) انا نطرق الفحل فنكرم فرخص له في الكرامة وقال الترمذي وقد رخص قوم في قبول الكرامة على ذالک. (رواه الترمذي وقال هذا حديث حسن جلد اول ص 240)
”حضرت انس ابن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنوکلاب کے ایک شخص نے سانڈ سے مادہ کو جوڑا کھلانے کی اجرت کے بارے میں پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس اجرت کے لینے سے منع فرمایا، اس پر اس شخص نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اس کو کوداتے ہیں تو بغیر طے کئے اکراماہمیں کچھ دیاجاتا ہے، تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس کی اس طرح غیر متعینہ اجرت لینے کی اجازت دے دی ۔ امام ترمذی کہتے ہیں علماء کی ایک جماعت نے اس کام پر اس طرح غیرمقرر اورغیر معین نذرانہ لینے کی رخصت دی ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو حديث حسن کہا ہے۔“ ترمذی
اس سے معلوم ہوا کہ اجرت طے نہ کی جائے بلکہ قیام وطعام کی طرح اکراما حفاظ وائمہ کو کچھ تحفہ دیاجائے تووہ جائز ہے۔
حضرت مفتی عبدالتواب صاحب اناوی زیدمجدہ، مہتمم وبانی جامعه اسلامیہ، با نگرمئو، ضلع اناؤ، یوپی) نے 'معاوضہ على التراویح' نامی کتا ب تالیف فرمائی ہے. جس میں مروجہ تحائف کے عدم جواز کوثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں اکابرعلماء کے فتاوی نقل کیے گئے ہیں۔ سطور ذیل میں و ہیں سے کچھ اقتباسات پیش کئے جاتے ہیں، جن سے واضح ہوجائے گا کہ طے کئے بغیر تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر عام مسلمان اپنی مرضی سے امام تراویح کو نذرانہ اورتحفہ و تحائف دیں تو وہ جائز ہے۔
حضرت مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کے فتاواجات سے نقل کرتے ہیں۔
”ہاں اگر کسی اجرت کے بغیر کسی حافظ نے تراویح پڑھائی اور کوئی شخص اپنی خوشی سے بطور ہدیہ اس کو کچھ پیش کرے تو اس کا لینا جائز ہے،“
(فتاوی عثمانی باب کتاب الصلوةج 1/ ص 504)
(معاوضہ على التراویح 51، ناشر، شعبہ نشر واشاعت، جامعه اسلامیہ با نگرمؤ، اناؤ، یوپی)
”(2) امسال رمضان المبارک میں ختم والی رات رقم لینے سے انکار کردیا، لیکن اس کے بعد کچھ آدمی مخفی طور پر احقر کے پاس آئے اور کہا کہ ہم آپ کی خدمت اس لئے نہیں کرتے کہ آپ نے قرآن مجید سنایا بلکہ طالب علم جان کر بطور پر ہدیہ یا صدقہ کے دیتے ہیں تو احقر نے ان کے اصرار پر کچھ رقم قبول کی، کیوں کہ اس سے پہلے احقرکو کسی قسم کا اشراف وانتظام اس رقم کانہ تھا، وہ رقم میرے لیے حرام تونہیں تھی؟ اگرحرام تھی تو اس سے خلاصی کی کیا صورت ہے؟
جواب (2) صورت مسئولہ میں جو رقم لے لی گئی وہ اجرت نہیں، ہدیہ ہے جس کا وصول کرنا جائز ہے۔
والله اعلم، الجواب صحیح: بندہ محمد شفیع عفاللہ عنہ“ (فتاوی عثمانی کتاب الصلوة ج 1/ص 505/
(معاوض على التراویح ص 52)
”پہلے سے طے کئے بغیر تراویح کے اختتام پرکچھ دیدیناجائز ہے، بشرطیکہ یہ بات اتنی معروف و مشہور نہ ہوئی ہو کہ طے کئے بغیر بھی طے سمجھی جاتی ہو۔“ (فتاوی عثمانی، ج1/ص 512، و513/ نعیمیہ دیوبند) (معاوضہ على التراویح ص 54)
حضرت مفتی نظام الدین صاحب صدرمفتی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند، رکن رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کے فتاوی سے کچھ اقتباسات درج ذیل ہیں۔
”...اور اگرکوئی ہدیہ یا تحفہ کہہ کر دے تو اس کے لینے کی گنجائش رہے گی، اور یہ بھی کر سکتے ہیں کہ تمام نمازپنجگانہ کی امامت کا یا صرف دو ایک وقت کی امامت کا معاملہ یا تنخواہ طے کرے او حسب معمول تنخواہ معقول طے کرے پھر امامتِ تراویح بغیر کسی معاوضہ کے کر لیا کرے تو یہ بھی درست رہے گا۔۔۔۔۔ورنہ على الطاعة اجرة ممنوعه سے محفوظ نہ رہے گا۔“ (نظام الفتاوی، باب: تراویح کے احکام/ ج 6/ ص 83/82/ کتب خانہ دیوبند)
(معاوضہ علی التراویح ص 45/)
اگر شروع معاملہ میں ہی حافظ صاحب سچے دل سے اعلان کے ساتھ کہہ دیں کہ میں اس سنانے کے عوض میں کچھ نہیں لوں گا اور پھر کوئی بعد میں بطور تحفہ نذرانہ دیدے تو اس کا لینا درست رہے گا۔۔۔۔ پس اگر خموشی سے کوئی خود با چندلوگ بغیر چندہ کے خود دیدیں تو وہ اس حدیث کی نکیر میں نہ آئیں گے۔“
(نظام الفتاوی باب: تراویح کےاحکام : ج 6/ ص 86/85/ دیوبند) (معاوضہ على التراویح ص 48)
حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب لاجپوری کے فتووں کا کچھ حصہ ذیل میں ملاحظہ کریں:
”امام صاحب لوجه الله تراویح پڑھائیں اور مقتدی اپنی خوشی سے ہدایا پیش کرکے امام صاحب کی خدمت کرنا چاہیں تو اس میں گنجائش ہے، امام صاحب کا متعین رقم کا مطالبہ کرنا اور نہ ملنے پر شکایت کرنادرست نہ ہوگا۔“
(فتاوی رحیمیہ کتاب الصلوۃ باب التراویح، ج 6/ ص 264،265،266/)
(معاوضہ التراویح 40/)
”(1) رمضان المبارک میں امام و مؤذن کے لیے چندہ کرنا۔جواب 256, [1-2 ] چندہ جبرا وصول نہ کیا جاتا ہو تو مضائقہ نہیں ہے۔ اگر اس طرح امام و مؤذن کی امداد نہ کی گئی تو ان کا گذر کیسے ہوگا؟ اور وہ کس طرح رہ سکیں گے؟ بہتر تو یہی ہے کہ تنخواہ معقول دی جائے اور چندہ کی رسم کو ختم کیاجائے۔۔۔۔۔ [4] چندہ بخوشی دیتے ہوں اور امام و مؤذن کی مددکرنا مقصود ہوتومضائقہ نہیں ہے۔ (فتاوی رحیمیہ، کتاب الصلوة، باب التراویح، ج 6، ص، 258،260/) (معاوضہ على التراویح 48/)
شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اپنے ایک فتوی میں لکھتے ہیں:
”اور اگر حافظ نے کوئی شرط زبانی یاعملی شرط نہیں کی، اخلاص سے لوجه الله سناتا ہے اور مقتدی اس کو بلاطلب کچھ دیتے ہیں خواہ کم ہو یا زیادہ تو اس کو لینا جائز ہے۔ اور کسی کی نماز اورثواب میں کوئی خلل نہیں بلکہ مقتدیوں کومزید ثواب کی امید ہے۔ فتاوی شیخ الاسلام.“ (معاوضہ علی التراوت 24/)
فتاوی دارالعلوم دیو بند مکمل و مدلل میں حضرت مفتی عزیزالرحمن صاحب عثانی لکھتے ہیں:
”جواب: - آمد ورفت کا کرایہ دے کر ان کو باہر سے بلانا اور اس کا قرآن شریف بلامعاوضہ سننا جائز اور موجب ثواب ہے اور جب کہ وہ باہر سے آیا ہو اور بلایا ہوا مہمان ہے تو اس کو عمدہ کھلاناجائز ہے اور ثواب ہے۔“ فتاوی دارالعلوم دیوبند مدلل ومکمل، باب مسائل تراویح، ج 4، ص 294 /295)
(معاوضہ علی التراویح ص 19/)
حضرت مفتی عبیدالله صاحب اسعدی دامت برکاتہم ان تمام فاواجات کو ملاحظ فرمانے کے بعد بطور خلاصه کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
”...پنچ وقتہ نمازوں کا امام تراویح بھی پڑھائے اور اس میں قرآن مجید سنائے تو مسجد کے منتطمین اس کو ماہ رمضان میں ماہانہ تنخواہ سے زائد دے سکتے ہیں، یہ زیادتی کارکردگی اور حسن کارکردگی کا انعام ہوگا کسی کو رمضان میں پنج وقتہ نمازوں کا امام طے کیا جائے یا دو کا، (دو وقت کی نمازوں کا۔ اشرف) تو جو اجرت طے ہوجائے لینا دینا گنجائش رکھتا ہے۔“ (مقدمہ معاوضہ علی التراویح ص 10)
سطور بالا سے واضح ہوتا ہے کہ تراویح میں ختم قرآن پرمعاوضہ طے کئے بغیر عام مسلمان اپنی مرضی سے امام تراویح کو نذرانہ اور تحفہ وتحائف دیں تو جائز ہے۔
مسئلہ کی صورتِ جواز سامنے آجانے کے بعد سب سے پہلے میں حفاظ سے کہتا ہوں کہ وہ اگر مالی لحاظ سے خوشحال ہوں تو بھی تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر ملنے والے ہدایا اور تحائف کو ہر حال میں قبول کریں۔ اگرچه خود استعمال کرنے کے بجائے کسی غریب کو دے دیں. اس سے مسلمانوں میں حافظوں اور عالموں کے تعاون کا سلسلہ قائم رہے گا.
اس کے بعد عام مسلمانوں سے التماس ہے کہ رمضان و عیدین اور خوشی کے مواقع کے علاوہ بھی علماء وحفاظ کی مالی ضروریات پوری کرنے کی کوششیں کرتے رہیں۔
فقط: واللہ اعلم بالصواب
کتبه: (مفتی) محمد اشرف قاسمی
27 شعبان المعظم 1443ھ،
مطابق 31 مارچ 2022ء،
خادم الافتاء: مہدپور، اُجین، ایم پی۔
ashrafgondwi@gmail.com
تصدیق: مفتی محمد سلمان ناگوری
ترتیب: ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی۔ آلوٹ، رتلام، ایم پی (صححہ: #S_A_Sagar )
http://saagartimes.blogspot.com/2022/04/blog-post_29.html?m=1