Saturday, 30 June 2018

وہ کیسی عورتیں تھیں

وہ کیسی عورتیں تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں ...
جو گیلی لکڑیوں کو پھونک کر چولہا جلاتی تھیں
جو سل پر سرخ  مرچیں پیس کر سالن پکاتی تھیں
صبح سے شام تک مصروف، لیکن مسکراتی تھیں
بھری دوپہر میں سر اپنا ڈھک کر ملنے آتی تھیں
جو پنکھے ہاتھ کے جھلتی تھیں اور بس پان کھاتی تھیں
جو دروازے پہ رک کر دیر تک رسمیں نبھاتی تھیں
پلنگوں پر نفاست سے دری چادر  بچھاتی  تھیں
بصد اصرار مہمانوں  کو سرہانے  بٹھاتی تھیں
اگر گرمی  زیادہ ہو تو  روح افزا  پلاتی تھیں
جو اپنی بیٹیوں کو سوئیٹر بننا سکھاتی تھیں
سلائی کی مشینوں پر کڑے روزے بتاتی تھیں
بڑی پلیٹوں میں جو افطار کے حصّے بناتی تھیں
جو کلمے کاڑھکرلکڑی کےفریموں میں سجاتی تھیں
دعا ئیں پھونک کر بچوں کو بستر پر سلاتی تھیں
اور اپنی جا نمازیں  موڑ کر تکیہ  لگاتی تھیں
کوئی سائل جو دستک دے اسے کھانا کھلاتی تھیں
پڑوسن مانگ لے کچھ، باخوشی دیتی دلاتی تھیں
جو رشتوں کو برتنے کے کئی نسخے بتاتی تھیں
محلے میں کوئی مرجائے تو آنسو بہاتی تھیں
کوئی بیمار پڑجائے تو اسکے پاس جاتی تھیں
کوئی تہوار ہو تو خوب مل جل کر مناتی تھیں
وہ کیسی عورتیں تھیں .....
میں جب گھر اپنےجاتا ہوں تو فرصت کے زمانوں میں
انہیں ہی ڈھونڈتا پھرتا ہوں  گلیوں اور مکانوں میں
کسی میلاد میں، جزدان میں، تسبیح  دانوں میں
کسی برآمدے  کے طاق پر، باورچی خانوں میں
مگر اپنا زمانہ  ساتھ لیکر کھوگئی ہیں وہ
کسی اک قبر میں ساری کی ساری سوگئی ہیں وہ

سمندر میں میٹھے اور تلخ پانی کا وجود

سمندر میں میٹھے اور تلخ پانی کا وجود
مَرَجَ الْبَحْرَ یْنِ یَلْتَقِیٰنِ ہ بَیْنَھُمَا بَرْ زَ خُ لَّا یَبْغِیٰنِ ہ[3]
ترجمہ:۔ دو سمندروں کو اس نے چھوڑ دیا کہ باہم مل جائیں پھر بھی ان کے درمیان ایک پردہ حائل ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ان آیات مبارکہ کے عربی متن میں لفظ برزخ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب رکائوٹ یا آڑ (partition) کے ہے۔ تا ہم اسی تسلسل کا ایک اور عربی لفظ مرج بھی وارد ہوا ہے۔ جس کا مطلب وہ دونوں ایک دوسرے سے ملتے اور آپس میں ہم آمیز ہوتے ہیں بنتا ہے۔
ابتدائی ادوار کے مفسرین قرآن کے لیے یہ وضاحت کرنا بہت مشکل تھا کہ پانی کے دو مختلف اجسام سے متعلق دو متضاد مفہوموں سے کیا مراد ہے۔ مطلب یہ کہ دو طرح کے پانی ہیں جو آپس میں ملتے بھی ہیں اورا نکے درمیان آڑ(رُکاوٹ ) بھی ہے۔ جدید سائنس نے دریافت کیا ہے کہ جہاں جہاں دومختلف بحیرے آپس میں ملتے ہیں وہاں وہاں ان کے درمیان آڑ بھی ہوتی ہے۔ دو بحیروں کو تقسیم کرنے والی رکائوٹ یہ ہے کہ ان میں ایک بحیرہ کا درجہ حرارت، شو ریدگی (Salinity) اور کثافت (Density) دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔[4] آج ماہرین بحریات مذکورہ آیات مبارکہ کی بہتر وضاحت کرسکتے ہیں۔ دو بحیروں کے درمیان پانی ہی کی ایک نازک رکاوٹ (طبعی قوتوں کی وجہ سے ) قائم ہوتی ہے۔ جس سے گزر کر ایک بحیرے کا پانی دوسرے بحیرے میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنی امتیازی خصوصیات کھو دیتا ہے اور دوسرے کے پانی کے ساتھ ہم جنس آمیزہ بنالیتا ہے، گویا ایک طرح سے یہ رکاوٹ کسی عبوری ہم آمیزی والے علاقے کا کام کرتی ہے، جو دونوں بحیروں کے درمیان واقع ہوتا ہے۔
.......
سمند ر میں میٹھے اور تلخ پانی کا وجود
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے:
(مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ  . بَیْنَھُمَا بَرْزَخ لَّا یَبْغِیٰنِ)
''اس نے دو دریا یا سمندررواں کیے جو باہم ملتے ہیں (پھر بھی )ان کے درمیان ایک پردہ ہے،وہ اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے'' (1)
دوسرے مقام پر ارشاد ربّانی ہے:
(وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْب فُرَات وَّھٰذَا مِلْح اُجاَج ج وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا)
'' اور وہی تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھاہے جن میںسے ایک کا پانی لذیذ وشیریں ہے اور دوسرے کا کھاری کڑوا۔پھر ان کے درمیان ایک پردہ اور سخت روک کھڑی کر دی ہے.'' (2)
مرج کا لغوی معنی دوچیزوں کو اس طرح ملانایا ان کا آپس میں اس طرح ملنا ہے کہ ان دونوں کی انفرادی حیثیت اور خواص برقرار رہیں۔ جیسے غصن مریج باہم گتھی ہوئی ٹہنی (مفردات امام راغب)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک نہایت محیرالعقول نشانی بتائی ہے۔(3)
جدید سائنس نے انکشاف کیا ہے کہ دو مختلف سمندر جہاں آپس میں ملتے ہیں وہا ں ان کے درمیان ایک ایسا پردہ حائل ہوتاہے جو ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھتا ہے اور ہر سمندر کا اپنا درجہ حرارت ،کھاری پن اور کثافت ہوتی ہے (4)
مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ اسی آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں: '' یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے جہا ں کوئی بڑا دریا سمندر میں آ کر گرتا ہے۔اس کے علاوہ سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس قائم رکھتا ہے۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی ) اپنی کتاب مرأة الممالک میں جو سولہویں صد ی عیسوی کی تصنیف ہے ،خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ وہا ں آ ب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں ،جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لیے پینے کا پانی حا صل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکی کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداً وہ بھی خلیج فارس کے ان چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بعد میں ظہران کے پاس کنویں کھود لیے گئے اوران سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمند رکی تہہ میں آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ  کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ (5)
اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ دنیا میں کئی جگہ پر رونما ہو ا ہے مثلاً ''جبل طارق'' کے مقام پر جہاں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیپ پوائنٹ،کیپ پیننسولا اور ساؤتھ افریقہ کے ان مقامات پر جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند ملتے ہیں۔علاوہ ازیں مصرمیں بھی اس مقام پر جہا ں دریائے نیل ،بحیرہ روم میں جاکر گرتا ہے ،یہی عمل ظہور میں آتا ہے۔(6)
بحیرہ روم کا پانی بحر اوقیانوس کے پانی کے مقابلہ میں گرم،کھارااورکم کثیف ہوتاہے۔ جب بحیرہ روم جبل طارق پر سے بحر اوقیانوس میں داخل ہوتاہے تو یہ بحر اوقیانوس کے دہانے پر سے تقریباً ایک ہزار میٹر کی گہرائی تک اپنی گرمی ، کھارا  پن اورکم کثافتی خصوصیات کے ساتھ کئی سوکلومیٹر دور تک بہتا ہے اور بحیرہ روم کا پانی اپنی گہرائی پر مستحکم رہتاہے۔
تاہم یہ قدرتی رکاوٹ بڑی بڑی لہروں ،طاقتورموجوں اورمدوجزر کو آپس میں ملنے یا حدود سے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ قرآن مجیدمیں اسی بات کو بڑے واضح انداز میں بیان کیاگیاہے کہ دو سمندروں کے پانی جہاں آپس میں ملتے ہیں تو ان کے درمیان ایک قدرتی اور انسانی آنکھ کو نظر نہ آنے والی ایک رکاوٹ حائل ہوتی ہے جو ان دونوں پانیوںکو آپس میں ملنے او رگڈمڈ ہونے سے روکتی ہے۔یعنی بظاہر ملے ہوئے ہونے کے باوجود دونوں سمندروں کے پانیوں کے خواصاپنی اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔
یہاں ایک اوربات قابل غورہے کہ اللہ تعالیٰ سورة الرحمٰن میں جب دو سمندروں کے آپس میں ملنے کا ذکر کرتاہے توان کے درمیان رکاوٹ کو صرف ایک لفظ ''برزخ'' سے ظاہر کرتاہے مگر سورة الفرقان میں جب میٹھے اورکھاری پانی کا ذکر فرماتاہے تو ان کے درمیان رکاوٹ کے لیے الفاظ ''برزخاً وحجرًامحجورًا '' استعمال فرماتاہے۔جس سے ظاہر ہوتاہے کہ محل وقوع کے لحاظ سے رکاوٹوں کی قسموں اورنوعیت میں فرق ہے۔
اسی چیز کو جدید سائنس نے حال ہی میں معلوم کیا ہے کہ سمندر کے مدوجزر والے دہانوں میں جہاں میٹھے اورنمکین پانی آپس میں ملتے ہیں صورت حال اس جگہ سے مختلف ہوتی ہے جہاں دو سمندر ملتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلاہے کہ دریاؤں کے دہانوں میں تازہ پانی اورکھارے پانی کے درمیان ایک گاڑھے پانی کا حجاب ہوتاہے جو تازہ پانی اورکھارے پانی کی پرتوں کوملنے نہیں دیتا۔ یہ حجاب(پردہ)تازہ پانی اورکھارے پانی کے انفرادی خواص سے مختلف کھارے پن کا حامل ہوتاہے۔ یہ معلومات حال ہی میں حرارت ،کثافت ،کھارے پن اورآکسیجن کی حل پذیری معلوم کرنے والے جدید ترین آلات کی مدد سے دریافت ہوئی ہیں۔
انسانی آنکھ جس طرح دوسمندروں کے ملاپ کے فرق کو نہیں دیکھ سکتی ، اسی طرح مدوجزر کے دہانے میں تین اقسام کے پانی کو نہیں دیکھ سکتی۔ یعنی صا ف و شفاف ،نمکین پانی اوران کی علیحدگی یعنی (Zone of Separation)۔(7)
چنانچہ اس مسٔلہ میں بھی قرآن اورجدید سائنس میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے جبکہ قدرت کے اس کرشمے کو قرآن کے نزول کے صدیوں بعد بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔
موٴلف ۔ طارق اقبال سوہدروی ۔  جدہ ۔ سعودی عرب
حواشی
(1)۔   الرحمن ، 55- 19,20          
(2)۔   الفرقان۔ 25:53 
(3)۔بحوالہ تیسیرالقرآن ،از مولانا عبدالرحما ن کیلانی  ،جلد سوم ،حاشیہ 65
(4)۔ بحوالہ Principles of Oceangraphy,Davis,Page 92:93
(5)۔  تفہیم القرآن ،جلد سوم ۔سورة الفرقان ،حاشیہ 68
(6)۔بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک  صفحہ  28,29    
www.islam-guide.com
(7)۔ (سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ149-152)
www.islam-guide.com
....................
http://www.quran-m.com/firas/en1/index.php?option=com_content&view=article&id=253:the-description-of-the-barrier-between-two-seas&catid=35:universe&Itemid=91
........
سمند ر میں میٹھے اور تلخ پانی کا وجود
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے :
(مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ  . بَیْنَھُمَا بَرْزَخ لَّا یَبْغِیٰنِ)
'' اس نے دو دریا یا سمندررواں کیے جو باہم ملتے ہیں (پھر بھی )ان کے درمیان ایک پردہ ہے،وہ اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے'' (1)
دوسرے مقام پر ارشاد ربّانی ہے:
(وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْب فُرَات وَّھٰذَا مِلْح اُجاَج ج وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا)
'' اور وہی تو ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھاہے جن میںسے ایک کا پانی لذیذ وشیریں ہے اور دوسرے کا کھاری کڑوا۔پھر ان کے درمیان ایک پردہ اور سخت روک کھڑی کر دی ہے'' (2)
مرج کا لغوی معنی دوچیزوں کو اس طرح ملانایا ان کا آپس میں اس طرح ملنا ہے کہ ان دونوں کی انفرادی حیثیت اور خواص برقرار رہیں۔ جیسے غصن مریج باہم گتھی ہوئی ٹہنی (مفردات امام راغب)اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی ایک نہایت محیرالعقول نشانی بتائی ہے۔(3)
جدید سائنس نے انکشاف کیا ہے کہ دو مختلف سمندر جہاں آپس میں ملتے ہیں وہا ں ان کے درمیان ایک ایسا پردہ حائل ہوتاہے جو ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھتا ہے اور ہر سمندر کا اپنا درجہ حرارت ،کھاری پن اور کثافت ہوتی ہے (4)
مولانا مودودی رحمتہ اللہ علیہ اسی آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں: '' یہ کیفیت ہر اس جگہ رونما ہوتی ہے جہا ں کوئی بڑا دریا سمندر میں آ کر گرتا ہے۔اس کے علاوہ سمندر میں بھی مختلف مقامات پر میٹھے پانی کے چشمے پائے جاتے ہیں جن کا پانی سمندر کے نہایت تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس قائم رکھتا ہے۔ ترکی امیر البحر سیدی علی رئیس (کاتب رومی ) اپنی کتاب مرأة الممالک میں جو سولہویں صد ی عیسوی کی تصنیف ہے ،خلیج فارس کے اندر ایسے ہی ایک مقام کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ وہا ں آ ب شور کے نیچے آب شیریں کے چشمے ہیں ،جن سے میں خود اپنے بیڑے کے لیے پینے کا پانی حا صل کرتا رہا ہوں۔ موجودہ زمانے میں جب امریکی کمپنی نے سعودی عرب میں تیل نکالنے کا کام شروع کیا تو ابتداً وہ بھی خلیج فارس کے ان چشموں سے پانی حاصل کرتی تھی۔ بعد میں ظہران کے پاس کنویں کھود لیے گئے اوران سے پانی لیا جانے لگا۔ بحرین کے قریب بھی سمند رکی تہہ میں آب شیریں کے چشمے ہیں جن سے لوگ  کچھ مدت پہلے تک پینے کا پانی حاصل کرتے رہے ہیں۔ (5)
اللہ تعالیٰ کی قدرت کا یہ کرشمہ دنیا میں کئی جگہ پر رونما ہو ا ہے مثلاً ''جبل طارق'' کے مقام پر جہاں بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس ملتے ہیں۔ اس کے علاوہ کیپ پوائنٹ،کیپ پیننسولا اور ساؤتھ افریقہ کے ان مقامات پر جہاں بحر اوقیانوس اور بحر ہند ملتے ہیں۔علاوہ ازیں مصرمیں بھی اس مقام پر جہا ں دریائے نیل ،بحیرہ روم میں جاکر گرتا ہے ،یہی عمل ظہور میں آتا ہے۔(6)
بحیرہ روم کا پانی بحر اوقیانوس کے پانی کے مقابلہ میں گرم،کھارااورکم کثیف ہوتاہے۔ جب بحیرہ روم جبل طارق پر سے بحر اوقیانوس میں داخل ہوتاہے تو یہ بحر اوقیانوس کے دہانے پر سے تقریباً ایک ہزار میٹر کی گہرائی تک اپنی گرمی ، کھارا  پن اورکم کثافتی خصوصیات کے ساتھ کئی سوکلومیٹر دور تک بہتا ہے اور بحیرہ روم کا پانی اپنی گہرائی پر مستحکم رہتاہے۔
تاہم یہ قدرتی رکاوٹ بڑی بڑی لہروں ،طاقتورموجوں اورمدوجزر کو آپس میں ملنے یا حدود سے آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ قرآن مجیدمیں اسی بات کو بڑے واضح انداز میں بیان کیاگیاہے کہ دو سمندروں کے پانی جہاں آپس میں ملتے ہیں تو ان کے درمیان ایک قدرتی اور انسانی آنکھ کو نظر نہ آنے والی ایک رکاوٹ حائل ہوتی ہے جو ان دونوں پانیوںکو آپس میں ملنے او رگڈمڈ ہونے سے روکتی ہے۔یعنی بظاہر ملے ہوئے ہونے کے باوجود دونوں سمندروں کے پانیوں کے خواصاپنی اپنی جگہ برقرار رہتے ہیں۔
یہاں ایک اوربات قابل غورہے کہ اللہ تعالیٰ سورة الرحمٰن میں جب دو سمندروں کے آپس میں ملنے کا ذکر کرتاہے توان کے درمیان رکاوٹ کو صرف ایک لفظ ''برزخ'' سے ظاہر کرتاہے مگر سورة الفرقان میں جب میٹھے اورکھاری پانی کا ذکر فرماتاہے تو ان کے درمیان رکاوٹ کے لیے الفاظ ''برزخاً وحجرًامحجورًا '' استعمال فرماتاہے۔جس سے ظاہر ہوتاہے کہ محل وقوع کے لحاظ سے رکاوٹوں کی قسموں اورنوعیت میں فرق ہے۔
اسی چیز کو جدید سائنس نے حال ہی میں معلوم کیا ہے کہ سمندر کے مدوجزر والے دہانوں میں جہاں میٹھے اورنمکین پانی آپس میں ملتے ہیں صورت حال اس جگہ سے مختلف ہوتی ہے جہاں دو سمندر ملتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلاہے کہ دریاؤں کے دہانوں میں تازہ پانی اورکھارے پانی کے درمیان ایک گاڑھے پانی کا حجاب ہوتاہے جو تازہ پانی اورکھارے پانی کی پرتوں کوملنے نہیں دیتا۔ یہ حجاب(پردہ)تازہ پانی اورکھارے پانی کے انفرادی خواص سے مختلف کھارے پن کا حامل ہوتاہے۔ یہ معلومات حال ہی میں حرارت ،کثافت ،کھارے پن اورآکسیجن کی حل پذیری معلوم کرنے والے جدید ترین آلات کی مدد سے دریافت ہوئی ہیں۔
انسانی آنکھ جس طرح دوسمندروں کے ملاپ کے فرق کو نہیں دیکھ سکتی ، اسی طرح مدوجزر کے دہانے میں تین اقسام کے پانی کو نہیں دیکھ سکتی۔ یعنی صا ف و شفاف ،نمکین پانی اوران کی علیحدگی یعنی (Zone of Separation)۔(7)
چنانچہ اس مسٔلہ میں بھی قرآن اورجدید سائنس میں زبردست مماثلت پائی جاتی ہے جبکہ قدرت کے اس کرشمے کو قرآن کے نزول کے صدیوں بعد بھی کوئی نہیں جانتا تھا۔
موٴلف ۔ طارق اقبال سوہدروی ۔  جدہ ۔ سعودی عرب
حواشی
(1)۔   الرحمن ، 55- 19,20          
(2)۔   الفرقان۔ 25:53 
(3)۔بحوالہ تیسیرالقرآن ،از مولانا عبدالرحما ن کیلانی  ،جلد سوم ،حاشیہ 65
(4)۔ بحوالہ Principles of Oceangraphy,Davis,Page 92:93
(5)۔  تفہیم القرآن ،جلد سوم ۔سورة الفرقان ،حاشیہ 68
(6)۔بحوالہ قرآن اینڈ ماڈرن سائنس از ڈاکٹر ذاکر نائیک  صفحہ  28,29    
www.islam-guide.com
(7)۔ (سائنسی انکشافات قرآن وحدیث کی روشنی میں ۔ صفحہ149-152)
www.islam-guide.com
http://www.quran-m.com/firas/en1/index.php?option=com_content&view=article&id=253:the-description-of-the-barrier-between-two-seas&catid=35:universe&Itemid=91
http://quraaninurdu.blogspot.com/2010/04/blog-post_2837.html?m=1
.......
http://abdulqadirsre.blogspot.com/2017/08/blog-post_4.html?m=1

کے ایف سی اور میک ڈونلڈس چکن کا کھانا حرام ہے یا حلال؟

کے ایف سی اور میک ڈونلڈس چکن کا کھانا حرام ہے یا حلال؟
جواب: ان دونوں اداروں کی مرغی کے بارے  میں غالب اطلاعات  یہ ہیں کہ ان کا ذبیحہ غیر شرعی طور پر مشینی ہوتا ہے اس لئے احتیاط کا تقاضا یہ ہے جب تک ان کی تصدیق کسی  مستند حلال اتھارٹی سے نہ ہوجائے اس وقت تک ان کا کھانا نہ کھایا جائے۔
واللہ اعلم 
فتوی نمبر : 143711200015
سوال # 154637
حضرت مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ کے ایف سی (KFC) اور میک ڈونلڈس چکن (Mcdonald's chicken) کا کھانا حرام ہے یا حلال؟

Published on: Oct 7, 2017
جواب # 154637
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1418-1329/SD=1/1439
میک ڈونالڈ، پزا ہٹ اور کے ایف سی کے کھانے میں اگر حرام یا ناپاک چیز کی ملاوٹ نہ ہو، تو کھانے میں مضائقہ نہیں اورگوشت کے سلسلے میں جب تک حلال ہونے کا مکمل یقین نہ ہو، نہیں کھانا چاہیے، آج کل ہوٹلوں میں گوشت کو حلال بتایا جاتا ہے؛ لیکن اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
..........
http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/5769














Fast food chains McDonald’s, Kentucky Fried Chicken (KFC), and Pizza Hut have all REJECTED a demand from an Islamic Imam to have Islam-approved meat served in their chains.
In Hong Kong, Mufti Muhammad Arshad contacted these popular, global chains demanding they use “halal meat” to please Muslims. He said it would be a “shrewed business move,” too.
Halal is an Arabic word that means “permissible.” Halal meat comes from an animal slaughtered according to Islamic law. That means Allah’s (God’s) name must be pronounced during slaughter, the instrument used must be very sharp (the animal must be slit at the throat), the animal must not be unconscious, and it must be hung upside down and allowed to bleed dry.
In other words, it’s an extra-painful process for the animals. No pork prepared in any way is allowed, neither are certain parts of other animals (such as the rear end).
“It’s disappointing that we could not convince the companies,” Arshad said. “It doesn’t have to be Hong Kong-wide. In the main areas, like Central, Wan Chai, Tsim Sha Tsui, the New Territories and at the airport, it would be a great service. The companies have to realise there is a need for this and that it is good business for them.”
Tourism sector lawmaker Paul Tse Wai-chun said he would welcome anything that would increase the diversity of Hong Kong and cater for people from different religious backgrounds. He said it would also be good for local businesses.
Arshad is not happy with the decision, but believes it’s only a time before every restaurant in the world serves it, just like they do in other Asian markets, such as Singapore.
Fast food chains McDonald’s, Kentucky Fried Chicken (KFC), and Pizza Hut have all REJECTED a request from an Islamic cleric to have Islam-approved meat served in their chains throughout Hong Kong. Businesses that serve halal food all pay a special hidden tax for the ‘privilege,’ part of which goes toward funding Muslim terrorism and Islamization around the world.

مسجد کے شرعی حدود میں اذان دینا ناجائز ہے مکروہ یا خلاف ادب؟

مسجد کے شرعی حدود میں اذان دینا ناجائز ہے مکروہ یا خلاف ادب؟
سوال: مسجد کے شرعی حدود میں اذان دینا ناجائز ہے مکروہ یا خلاف ادب؟
ممبئی کے وہ مساجد جو مکاتب یا مدارس کے نام سے منسوب ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟
الجواب وبا لله التوفيق:-
مسجد کے اندر بلا مائیک کے اذان دینا خلاف اولی ہے
مائک کا ہارن اندر ہو تو اب داخل مسجد اذان خلاف اولی بھی نہیں ہے
واعلم أن الأذان لا یکرہ في المسجد مطلقًا کما فہِم بعضہم من بعض العبارات الفقہیۃ وعمومہ ہٰذا الأذان؛ بل مقیدًا بما إذا کان المقصود إعلام ناس غیر حاضرین کما في رد المحتار، وفي السراج: وینبغي للمؤذن أن یؤذن في موضع یکون أسمع للجیران ویرفع صوتہ، ولا یجہد نفسہ؛ لأنہ یتضرر - إلی قولہ - في الجلابي: أنہ یؤذن في المسجد أو ما في حکمہ لا في البعید عنہ۔ قال الشیخ: قولہ في المسجد صریح في عدم کراہۃ الأذان في داخل المسجد وإنما ہو خلاف الأولی إذا مست الحاجۃ إلی الإعلان البالغ وہو المراد بالکراہۃ المنقولۃ في بعض الکتب فافہم۔ (إعلاء السنن، أبواب الجمعۃ / باب التأذین عند الخطبۃ ۸؍۸۶-۸۷
دار الکتب العلمیۃ بیروت)
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے: بسم الله الرحمن الرحيم
(۱) مسجد میں اذان دینا خلافِ اولیٰ ہے؛ کیونکہ اذان سے مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اس کا علم ہوجائے کہ جماعت قائم ہونے والی ہے، اور ظاہر ہے کہ مسجد کے اندر اذان دینے سے آواز اتنی دور نہیں جاتی جتنی مسجد سے باہر اور اونچی جگہ پر اذان دینے سے 
قال في الہندیة: وینبغي أن یوٴذن علی المأذنة أو خارج المسجد ولا یوٴذن في المسجد (الہندیة: ۱/۵۵) 
پتہ چلا کہ مسجد میں اذان دینے سے مقصود صرف تبلیغ صوت ہے، آج کل عام طور پر لاوٴڈ اسپیکر پر اذان ہوتی ہے جس کی وجہ سے مسجد میں اذان دی جائے یا دوسری نیچی جگہ پر رفعِ صوت بہرحال ہوجاتا ہے؛ اس لیے لاوٴڈ اسپیکر پر مسجد میں اذان دینے میں کوئی کراہت معلوم نہیں ہوتی؛ البتہ مسجد کے اندر جہر مفرِط بالخصوص مسقف حصہ میں خلافِ ادب معلوم ہوتا ہے؛ اس لیے بہتر یہ ہے کہ لاوٴڈ اسپیکر مسجد سے باہر رکھا جائے، اگر باہر کوئی انتظام بسہولت نہ ہوسکے تو مسجد کے اندر بھی کوئی مضائقہ نہیں۔ 
(مزید من التفصیل راجع احسن الفتاوی: ۲/۴/۲۹۴، ۲۹۵)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

صدقۂ نافلہ اور صدقۂ واجبہ

صدقۂ نافلہ اور صدقۂ واجبہ
مسئلہ (۹۹): ثواب کی نیت سے راہِ خدا میں کوئی چیز خرچ کرنے کو صدقہ اور خیرات کہا جاتا ہے، پھر صدقہ کی دو قسمیں ہیں:
(۱) صدقۂ نافلہ: اس میں دی جانے والی چیز میں سے خود صدقہ دینے والا ، اس کے گھر والے، مالدار اور غریب سب ہی کھاسکتے ہیں۔
(۲) صدقۂ واجبہ: جیسے نذر، منت، صدقۂ فطر، فوت شدہ نماز وروزوں کے فدیہ کی رقم وغیرہ، اس کا مصرف اور حق دار صرف فقیر اور مسکین ہی ہیں، اسے خود صدقہ کرنے والا، اس کے گھر والے اور مالدار لوگ استعمال نہیں کرسکتے۔
ما في ’’بدائع الصنائع‘‘ : وقول النبي ﷺ ’’لا تحل الصدقۃ لغني‘‘ ولأن الصدقۃ مال تمکن فیہ الخبث لکونہ غسالۃ الناس لحصول الطہارۃ لہم بہ من الذنوب، ولا یجوز الانتفاع بالخبث إلا عند الحاجۃ، والحاجۃ للفقیر لا لغني، وأما صدقۃ التطوع فتجوز صرفہا إلی الغني، لأنہا تجري مجری الہبۃ۔ (۲/۴۷۶، کتاب الزکاۃ، مصارف الزکاۃ)
ما في ’’البحر الرائق‘‘ : وقید بالزکاۃ لأن النفل یجوز للغني کما للہاشمي، وأما بقیۃ الصدقات المفروضۃ والواجبۃ کالعشر والکفارات والنذور وصدقۃ الفطر فلا یجوز ==صرفہا للغني لعموم قولہ علیہ السلام ’’لا تحل الصدقۃ لغني‘‘ خرج النفل منہا، لأن الصدقۃ علی الغني ہبۃ ۔ کذا في البدائع ۔ (۲/۴۲۷، کتاب الزکاۃ، باب المصرف)
ما في ’’الموسوعۃ الفقہیۃ‘‘ : الأصل أن الصدقۃ تعطی للفقراء والمحتاجین ، وہذا ہو الأفضل کما صرح بہ الفقراء ، وذلک لقولہ تعالی : {او مسکینًا ذا متربۃ} واتفقوا علی أنہا تحل للغني، لأن صدقۃ التطوع کالہبۃ فتصح للغني والفقیر، قال السرخسي : ثم التصدق علی الغني یکون قربۃ یستحق بہا الثواب ۔
(۲۶/۳۳۲ ، صدقۃ ، التصدق علی الفقراء والأغنیاء)
ما في ’’التنویر مع الدر والرد‘‘ : (ویجوز أکلہ من ہدي التطوع والمتعۃ والقران فقط) ولو أکل من غیرہا ضمن ما أکل ۔ تنویر مع الدر ۔ وفي الشامیۃ: قولہ: (ولو أکل من غیرہا) أي غیر ہذہ الثلاثۃ من بقیۃ الہدایا ، کدماء الکفارات کلہا والنذور وہدي الإحصار والتطوع الذي لم یبلغ الحرم ، وکذا لو أطعم غنیًا أفادہ في البحر ۔ (۴/۳۹ ، کتاب الحج ، باب الہدي ، بیروت) (فتاویٰ جامعہ بنوریہ، رقم الفتویٰ: ۱۶۸۱۵)
ما في ’’فتح القدیر‘‘ : وجملۃ الکلام فیہ أن الدماء نوعان: ما یجوز لصاحبہ الأکل منہ وہو دم المتعۃ والقران والأضحیۃ وہدي التطوع إذا بلغ محلہ ، وما لا یجوز وہو دم النذور والکفارات والإحصار ۔ (۳/۱۵۰، کتاب الحج ، باب الہدي)
 

..............
سوال # 15621
مرحوم کے ثواب کے لیے جو رقم دی جاتی ہے وہ صدقہ ہوگا یا عطیہ کہلائے گا، نیز اس رقم کو مسجد میں دینا کیسا ہے؟
Published on: Aug 25, 2009 
جواب # 15621
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1392=1392/1430/م
مرحوم کے روزہ، نماز کے فدیہ کے طور پر جو رقم دی جاتی ہے، اس کو صدقہ واجبہ کہتے ہیں، اس کومسجد میں دینا درست نہیں، اور جو رقم وارث اپنی ملکیت سے محض اپنے مرحوم کے ثواب کے لیے دیتا ہے اس کو صدقہ نافلہ یا عطیہ دونوں کہہ سکتے ہیں، اس کو مسجد میں دینا درست ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

گانا‘ باجہ‘ ڈھول وغیرہ ہر وقت ناجائز ہے

گانا‘ باجہ‘ ڈھول وغیرہ ہر وقت ناجائز ہے
(سوال) آلات لہو و لعب ریڈیو باجے وغیرہ سننا و بجانا مطلقاً حرام ہے یا گھر میں بیوی بچوں اور اپنی طبعیت بہلانے کے خیال سے لگانا یا ہوٹل اور دوکان میں کثرت گاہک کے لئے لگانا و بجانا جب کہ گرد و پیش کے ہوٹلوں اور دوکانوں میں آلات مذکورہ ہونے کی وجہ سے لوگ بکثرت ہوٹل میں آئیں جائیں اور ہمارے یہاں نہ ہونے کی وجہ سے لوگ کم ہونے سے تجارت پر برا اثر پڑتا ہو جائز ہے یا نہیں؟
المستفتی نمبر ۲۳۰۳ جناب حاجی سلیمان کریم صاحب ( بمبئ) ۹ ربیع الثانی ۱۳۵۷؁ھ م ۹ جون ۱۹۳۸؁ء

(جواب) (از نائب مفتی )
آلات لہو و لعب کا بجانا مطلقاً ناجائز ہے اور ناجائز چیز کے ذریعہ کسی طرح کا مفاد دنیاوی حاصل کرنا بھی جائز نہ ہوگا۔ (۱) فقط اجابہ و کتبہ حبیب المرسلین عفی عنہ نائب مفتی مدرسہ امینیہ
(جواب ۲۶۷) ( از مفتی اعظم ؒ) آلات لہو و لعب کا استعمال تجارتی فروغ کے لئے مباح نہیں ہوسکتا۔ محمد کفایت اللہ کان اللہ لہ‘ دہلی
کفایت المفتی جلد 9

مسافر کا جمعہ کی امامت کرنا

مسافر کا جمعہ کی امامت کرنا
سوال ]۳۴۰۵[: کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں: مسافر پر جمعہ کی نماز واجب نہیں، اگر کوئی مسافر جمعہ کی امامت کرلے، تو مقیم کی نماز ادا ہوجاتی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
المستفتي: عبدالرحیم بن محمود رنگون

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
مسافر کے لئے جمعہ ترک کرنے کی رخصت ہے اور پڑھنا عزیمت ہے، اس کو ترک جمعہ کی اجازت ورخصت اس لئے دی گئی ہے، تاکہ پریشانی میں نہ پڑے؛ لیکن اس نے خود عزیمت پر عمل کرکے جمعہ پڑھ لیا، تو اس کی نماز صحیح ہوگئی۔ اور جب خود اس کی نماز صحیح ہوگئی ہے، تو اس کی امامت بھی صحیح ہوجائے گی، خود حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال جمعہ کی نماز پڑھائی ہے، حالانکہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسافر تھے۔
عن عمران بن حصین -رضي اﷲ عنہ- قال: غزوت مع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم، وشہدت معہ الفتح، فأقام بمکۃ ثماني عشرۃ لیلۃ لا یصلي إلا رکعتین یقول: یا أہل البلد! صلوا أربعا، فإنا قوم سفر۔ (سنن أبي داؤد، الصلاۃ، باب متی یتم المسافر، النسخۃ الہندیۃ ۱/ … دارالسلام، رقم: ۱۲۲۹، مسند أحمد بن حنبل ۴/ ۴۳۰، رقم: ۲۰۱۰۵، ۴/ ۴۳۲، رقم: ۲۰۱۱۹)
ولنا ما روي عن النبي صلی اﷲ علیہ وسلم أنہ صلی الجمعۃ بالناس عام فتح مکۃ وکان مسافرا۔ (بدائع الصنائع، فصل في بیان شرائط الجمعۃ، کراچی ۱/ ۲۶۲، ۱/ ۵۸۸، فتاوي عالمگیری، الباب السادس عشر في صلاۃ الجمعۃ، زکریا قدیم ۱/ ۱۴۵، جدید ۱/ ۲۰۹، شامي، کتاب الصلاۃ، باب الجمعۃ کراچی ۲/ ۱۵۵، زکریا ۳/ ۳۰، الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ ۲۷/ ۲۰۰)

فقط واﷲ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اﷲ عنہ
۲؍ شعبان ۱۴۱۹ھ
(الف فتویٰ نمبر: ۳۴/ ۵۸۷۵)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۲؍ ۸؍ ۱۴۱۹ھ
ناقل نورالحسن پرتاپگڑھی
.........
سوال # 18466
کیا مسافر جمعہ کی نماز کی امامت کرسکتا ہے؟

جواب # 18466
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی(ل):
2072=1637-1/1431
جی ہاں کرسکتا ہے، 
ویصلح للإمامة فیہا من صلح لغیرہا فجازت لمسافر وعبد ومریض وتنعقد الجمعة
بہم (الدر المختار مع الشامي: ۳/۳۰، باب الجمعة ، ط: زکریا دیوبند)

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
................
نمازِجمعہ میں مسافر کی امامت کا حکم
سوال (۲۸۳) ’تعلیم الاسلام‘ مؤلفہ حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ چوتھا حصہ صفحہ ۶پر لکھا ہے:
مسافروں پر نماز جمعہ فرض نہیں۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا مسافر نماز جمعہ کی امامت کرسکتا ہے؟ زیدکہتا ہے کہ جب مسافر پر نماز جمعہ فرض نہیں تو امامت نہیں کرسکتا، اور اگر کرتا ہے، تو تمام مقتدیوں کی جمعہ کی نماز ادا نہ ہوگی،قرآن وحدیث سے مفصل جواب دیاجائے کہ صحیح طریقہ کیا ہے؟
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے پیچھے نماز عشاء پڑھ کر جاتے تھے، اور اپنی مسجد میں عشاء کی جماعت کی امامت کرتے تھے، اس کو علمائے احناف نہیں مانتے، پھر اس حدیث کا کیا مطلب ہے؟ تفصیلی جواب کا خواستگار ہوں۔  بینوا توجروا
الجواب:  حامداً و مصلیاً و مسلماً:
صورت مسئولہ میں مسافر نماز جمعہ کی امامت کرسکتاہے، اس میں کسی طرح کی کوئی کراہت نہیں ہے۔
مراقی الفلاح میں ہے:  
جاز للمریض والعبد والمسافر أن یؤم فیہا ۔ (مراقي الفلاح:۳۸)
واللّٰہ أعلم بالصواب
کتبہٗ: محمدراشد جامعہ حسینیہ لال دروازہ جونپور ۲۲؍۳؍۱۴۱۰ھ 
الجواب: حامداً و مصلیاً و مسلماً:
فتویٰ بالکل صحیح ہے، اورتعلیم الاسلام میں جو مسئلہ لکھا ہے وہ بھی صحیح ہے، تعلیم الاسلام میں مذکور مسئلہ کا مطلب یہ ہے کہ مسافر اگر جمعہ کی نماز نہ ادا کرے، تو وہ گنہ گار نہیں ہوگا، یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر جمعہ کی نماز اداکرے تو وہ گنہ گار ہوگا، بخلاف مقیم کے کہ اگر وہ جمعہ کی نماز نہ اداکرے جب کہ جمعہ کی نماز اس پر فرض ہے تو وہ گنہگار ہوگا۔ اور آپ کا استدلال بالکل غلط ہے، اولاً وہ واقعہ حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کا نہیں ہے، بلکہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ کا ہے،
(۱) دوسرے یہ کہ حدیث مذکور میں فرض ادا کرنے کے بعد پھر اسی فرض کو پڑھانے کا مسئلہ ہے، اس کی صورت جمعہ میں یہ ہوگی کہ ایک شخص جمعہ کی نماز پڑھ لے، پھر وہی شخص دوسری مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھائے، تو یہ درست نہیں، اس پر استدلال اس واقعہ سے کریں تو درست ہے، لیکن مسافر کے مسئلہ میں استدلال بالکل غلط ہے۔
واللّٰہ أعلم بالصواب
کتبہٗ: حبیب اللہ القاسمی ۲۴؍۴؍۱۴۱۱ھ
الجواب صحیح: محمدحنیف غفرلہٗ
مستفاد از فتاوٰی ریاض العلوم
نقله
ابوامامه رشیدی پالنپوری
...............
سوال نمبر1: فتوی نمبر:4093
س 1: کیا جمعہ کی نماز میں مسافر کی امامت جائز ہے؟
ج 1: علما کے اصح قول کے مطابق جمعہ کی نماز میں مسافر كى امامت مقیم مقتدیوں کے لئے جائز ہے اگر وہ امامت کے اہل ہے، اور یہی ابو حنیفہ اور مالک اور شافعی کا مذہب ہے، صاحب مغنی نے اس کا ذکر کیا ہے، اور مذہب احمد کی بھی ایک روایت صاحب انصاف نے ذکر کی ہے، ہمیں ایسے شرعی دلائل معلوم نہیں ہیں جو اس کو منع کرتے ہيں۔
وباللہ التوفیق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
ممبر ممبر نائب صدر برائے کمیٹی صدر
عبد اللہ بن قعود عبد اللہ بن غدیان عبدالرزاق عفیفی عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز

Friday, 29 June 2018

مارو تالی

مارو تالی!
زندگی بھی کتنی عجیب ہے!
جو ٹیڑھا ہو اسے چھوڑ دیا جاتا ہے.
اور جو سیدھا ہو اسے ٹھونک
 دیا جاتا ہے.
مشہور ہے کہ افغانستان کے صدر سردار داؤد کے پاس ایک آدمی آیا اور سردار داؤد سے کہا کہ،
"کابل میں تانگے کا کرایہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔"
سردار داؤد نے فوراً عام لباس پہنا اور بھیس بدل کر ایک کوچوان کے پاس پہنچ کر پوچھا کہ،
" محترم، پُل چرخی تک کا کتنا کرایہ لوگے؟"
کوچوان نے سردار داؤد کو پہچانے بغیر جواب دیا کہ،
"میں سرکاری نرخ پر کام نہیں کرتا۔"
داؤد خان: 20؟
کوچوان: اوراوپر جاؤ۔
داؤد خان: 25؟
کوچوان: اور اوپر جاؤ۔
داؤد خان: 30؟
کوچوان: اور اوپر جاؤ۔
داؤد خان: 35؟
کوچوان : مارو تالی۔
داؤد خان تانگے پر سوار ہوگیا۔ تانگے والے نے داؤد خان کی طرف دیکھا اور پوچھا کہ فوجی ہو؟
داؤد خان: اوپر جاؤ۔
کوچوان: اشتہاری ہو؟
داؤد خان: اور اوپر جاؤ۔
کوچوان: جنرل ہو؟
داؤد خان: اور اوپر جاؤ۔
کوچوان: مارشل ہو؟
داؤد خان: اور اوپر جاؤ۔
کوچوان: کہیں داؤد خان تو نہیں ہو؟
داؤد خان: مارو تالی۔
کوچوان کا رنگ اُڑگیا۔ داؤد خان نے اُس سے پوچھاکہ ڈر گئے؟
کوچوان: اور اوپر جاؤ۔
داؤد خان: کانپ گئے؟
کوچوان: اور اوپر جاؤ۔
داؤد خان: شلوار گیلی ہوگئی؟
کوچوان: اور اوپر جاؤ۔
داؤد خان: بول وبراز؟
کوچوان: مارو تالی۔
کوچوان نے داؤد خان سے کہا کہ مجھے جیل بھیجوگے؟
داؤد خان: اور اوپر جاؤ۔
کوچوان: جلاوطن کروگے؟
داؤد خان: اور اوپر جاؤ۔
کوچوان: پھانسی پر چڑھاؤ گے؟
داؤد خان: مارو تالی!

قرآن کریم لوح محفوظ میں کب لکھا گیا؟

قرآن کریم لوح محفوظ میں کب لکھا گیا؟
السلام علیکم ورحمتہ اللہ
وبرکاتہ
سوال: کیا قرآن مجید لوح محفوظ میں جب دنیا بنی تب سے لکھا ہوا تھا یا بعد میں لکھا گیا؟
مفصل جواب عنایت فرمائیں نوازش ہوگی
تنویر احمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کی تخلیق سے دو ہزار برس پہلے کتاب لکھی یعنی لوح محفوظ میں فرشتوں کو لکھنے کا حکم دیا۔ اس کتاب میں سے وہ دونوں آیتیں نازل فرمائیں جن پر سورت بقرہ کا اختتام ہوتا ہے یعنی آمن الرسول سے آخری سورت تک یہ آیتیں جس مکان میں تین رات تک پڑھی جاتی ہیں شیطان اس کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتا۔
وعن النعمان بن بشير قال: قال
رسول الله صلى الله عليه و سلم: "إن الله كتب كتابا قبل أن يخلق السموات والأرض بألفي عام أنزل منه آيتين ختم بهما سورة البقرة ولا تقرآن في دار ثلاث ليال فيقربها الشيطان" . رواه الترمذي والدارمي وقال الترمذي: هذا حديث غريب
الراوي: النعمان بن بشير المحدث: الترمذي - المصدر: سنن الترمذي - الصفحة أو الرقم: 2882
خلاصة حكم المحدث: حسن غريب

واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

اگر عرفہ کے دن جمعہ پڑجائے تو جمعہ کی نماز وخطبہ کا کیا حکم ہے؟

اگر عرفہ کے دن جمعہ پڑجائے تو جمعہ کی نماز وخطبہ کا کیا حکم ہے؟
سوال
السلام علیکم ـ
اگر عرفہ جمعہ کے دن ہو تو کیا جمعہ کی نماز کا کیا حکم ہے؟
جمع بین الصلوتین کے ساتھ کیا جمعہ کا خطبہ الگ سے بھی ہوگا؟
الجواب وباللہ التوفیق:
جی نہیں!
عرفہ کے دن جمعہ پڑجائے تو جمہور ائمہ کے یہاں جمعہ کی نماز نہیں ہے صرف ظہر پڑھی جائے گی.
آپ علیہ السلام کے حجة الوداع میں عرفہ کے روز ہی جمعہ پڑگیا تھا،
مسلم شریف میں حضرت جابر کی طویل روایت ہے کہ آپ نے خطبہ عرفہ کے بعد اذان کہلوائی اور پھر ظہر کی نماز دو رکعت قصرا ادا فرمائی پھر اقامت کہلوائی اور عصر ادا فرمائی (جمع بین الظہر والعصر فرمایا)
روایت ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَإِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعًا عَنْ حَاتِمٍ قَالَ أَبُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَعِيلَ الْمَدَنِيُّ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فَسَأَلَ عَنْ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ فَقُلْتُ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي فَنَزَعَ زِرِّي الْأَعْلَى ثُمَّ نَزَعَ زِرِّي الْأَسْفَلَ ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ فَقَالَ مَرْحَبًا بِكَ يَا ابْنَ أَخِي سَلْ عَمَّا شِئْتَ فَسَأَلْتُهُ وَهُوَ أَعْمَى وَحَضَرَ وَقْتُ الصَّلَاةِ فَقَامَ فِي نِسَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبِهِ رَجَعَ طَرَفَاهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا وَرِدَاؤُهُ إِلَى جَنْبِهِ عَلَى الْمِشْجَبِ فَصَلَّى بِنَا فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ بِيَدِهِ فَعَقَدَ تِسْعًا [ص: 887] فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ ثُمَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَعْمَلَ مِثْلَ عَمَلِهِ فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَصْنَعُ قَالَ اغْتَسِلِي وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلَ ذَلِكَ وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلَ ذَلِكَ وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلَ ذَلِكَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ وَمَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا بِهِ ِ فَأَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَيْئًا مِنْهُ وَلَزِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلْبِيَتَهُ قَالَ جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ثُمَّ نَفَذَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام فَقَرَأَ ( وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ) فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ فَكَانَ أَبِي [ص: 888] يَقُولُ وَلَا أَعْلَمُهُ ذَكَرَهُ إِلَّا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ وَقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ ثُمَّ خَرَجَ مِنْ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا فَلَمَّا دَنَا مِنْ الصَّفَا قَرَأَ ( إِنَّ الصَّفَا والْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ ) أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَوَحَّدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ وَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ أَنْجَزَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ قَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي سَعَى حَتَّى إِذَا صَعِدَتَا مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ طَوَافِهِ عَلَى الْمَرْوَةِ فَقَالَ لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحِلَّ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ فَشَبَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ وَاحِدَةً فِي الْأُخْرَى وَقَالَ دَخَلَتْ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ مَرَّتَيْنِ لَا بَلْ لِأَبَدٍ أَبَدٍ وَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ بِبُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مِمَّنْ حَلَّ وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا فَقَالَتْ إِنَّ أَبِي أَمَرَنِي بِهَذَا قَالَ فَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ بِالْعِرَاقِ فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَرِّشًا عَلَى فَاطِمَةَ لِلَّذِي صَنَعَتْ مُسْتَفْتِيًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا ذَكَرَتْ عَنْهُ فَأَخْبَرْتُهُ أَنِّي أَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهَا فَقَالَ صَدَقَتْ صَدَقَتْ مَاذَا قُلْتَ حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ قَالَ قُلْتُ اللَّهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ قَالَ فَإِنَّ مَعِيَ الْهَدْيَ فَلَا تَحِلُّ قَالَ فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ [ص: 889] الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةً قَالَ فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ تَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى فَأَهَلُّوا بِالْحَجِّ وَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهَا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتْ الشَّمْسُ وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ تُضْرَبُ لَهُ بِنَمِرَةَ فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَأَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتْ الشَّمْسُ أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَهُ فَأَتَى بَطْنَ الْوَادِي فَخَطَبَ النَّاسَ وَقَالَ إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ
وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللَّهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ [ص: 890] وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنْ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابُ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّي فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ قَالُوا نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ أَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَذَهَبَتْ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ وَدَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ [ص: 891]وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللَّهِ وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ [ص: 890] وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنْ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابُ اللَّهِ وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّي فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ قَالُوا نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ثُمَّ أَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَذَهَبَتْ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ وَدَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ [ص: 891]حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ وَيَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى أَيُّهَا النَّاسُ السَّكِينَةَ السَّكِينَةَ كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنْ الْحِبَالِ أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا حَتَّى تَصْعَدَ حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ وَصَلَّى الْفَجْرَ حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَدَعَاهُ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ وَكَانَ رَجُلًا حَسَنَ الشَّعْرِ أَبْيَضَ وَسِيمًا فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِهِ ظُعُنٌ يَجْرِينَ فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ فَحَوَّلَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ فَحَوَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ مِنْ الشِّقِّ الْآخَرِ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ يَصْرِفُ وَجْهَهُ مِنْ الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ حَتَّى أَتَى بَطْنَ مُحَسِّرٍ فَحَرَّكَ قَلِيلًا ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى [ص: 892]
الَّتِي تَخْرُجُ عَلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا مِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بِيَدِهِ ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ فَأَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ فَقَالَ انْزِعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمْ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ وَحَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنِي أَبِي قَالَ أَتَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ فَسَأَلْتُهُ عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ حَاتِمِ بْنِ إِسْمَعِيلَ وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ وَكَانَتْ الْعَرَبُ يَدْفَعُ بِهِمْ أَبُو سَيَّارَةَ عَلَى حِمَارٍ عُرْيٍ فَلَمَّا أَجَازَ [ص: 893] رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْمُزْدَلِفَةِ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ لَمْ تَشُكَّ قُرَيْشٌ أَنَّهُ سَيَقْتَصِرُ عَلَيْهِ وَيَكُونُ مَنْزِلُهُ ثَمَّ فَأَجَازَ وَلَمْ يَعْرِضْ لَهُ حَتَّى أَتَى عَرَفَاتٍ فَنَزَلَ
صحیح مسلم :1228 ' کتاب الحج ،بَاب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
اس روایت میں
"ثم أذن ثم أقام فصلى الظهر ثم أقام فصلى العصر ولم يصل بينهما شيئا"
اس بات کی دلیل ہے کہ عرفہ کے دن جمعہ ہوجانے کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر ادا فرمایا نہ کہ جمعہ!
موطا مالک کتاب الحج ، کتاب نمبر ۲۰ باب نمبر ۶۴ حدیث نمبر ۸۸۷ میں امام مالک رحمہ اللہ نے صراحت فرمائی ہے کہ اگر عرفہ کے دن جمعہ ہوجائے تو صرف ظہر قصرا اور سراً پڑھی جائے گی جمعہ کی نماز ہی نہیں ہے تو پھر خطبہ کے کیا معنی؟
صرف خطبہ عرفہ ہوگا اور وہ بھی اذان سے پہلے
جبکہ جمعہ کا خطبہ اذان کے بعد ہوتا ہے نہ کہ پہلے۔
قال الإمام مالك - رحمه الله - في موطائه : ( وَالْأَمْرُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا أَنَّ الْإِمَامَ لَا يَجْهَرُ بِالْقُرْآنِ فِي الظُّهْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ وَأَنَّهُ يَخْطُبُ النَّاسَ يَوْمَ عَرَفَةَ وَأَنَّ الصَّلَاةَ يَوْمَ عَرَفَةَ إنَّمَا هِيَ ظُهْرٌ وَإِنْ وَافَقَتْ الْجُمُعَةَ فَإِنَّمَا هِيَ ظُهْرٌ وَلَكِنَّهَا قُصِرَتْ مِنْ أَجْلِ السَّفَرِ قَالَ مَالِكٌ فِي إمَامِ الْحَاجِّ إذَا وَافَقَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ يَوْمَ عَرَفَةَ أَوْ يَوْمَ النَّحْرِ أَوْ بَعْضَ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ أَنَّهُ لَا يَجْمَعُ فِي شَيْءٍ مِنْ تِلْكَ الْأَيَّامِ)
مسئلہ مذکور میں ائمہ اربعہ متفق ہیں صرف ابن حزم ظاہری کا اختلاف ہے جو مذکوری صورت میں وجوب جمعہ کے بھی قائل ہیں
حضرت شیخ زکریا صاحب قدس سرہ نے اوجز کی آٹھویں جلد میں اس مسئلے پہ تفصیلی بحث فرمائی ہے.
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
15 شوال 1449 ہجری

تربيت حج کے لئے کعبة الله و مقامات مقدسہ کی نمونہ سازی؟

تربيت حج کے لئے کعبة الله و مقامات مقدسہ کی نمونہ سازی؟
السلام علیکم رحمت اللہ و برکاتہ
طواف کا طریقہ سکھانے کیلئے بیت اللہ کا ماڈل بناسکتے ہیں؟
محمد شاہجہاں قاسمی
الجواب وباللہ التوفیق:
سداً لباب  الفتنہ ماڈل بنانے کو میں درست نہیں (ناروا) سمجھتا ہوں، بیت اللہ کی دستیاب مطبوعہ تصاویر سے بھی تعلیم و تربیت کا یہ مقصد پورا ہوسکتا ہے
مجسمہ و ماڈل بنانے سے مستقبل میں سنگین مفاسد وخطرات کے امکان سے انکار  نہیں کیا جاسکتا! واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی
.........
مجھے تھوڑی سی اس میں تشویش ہے کیونکہ آج کل کے عوام کو سمجھانے کے لئے چھوٹے چھوٹے ہی سہی نمونے ہوں
پھر طواف سعی وغیرہ سمجھائیں تو شائد جلدی بات دماغ میں اتر جائیگی
آپ نے جس فتنے کا ذکر فرمایا اس کی وضاحت فرمادیجئے اور کیا اس فتنے کا وقوع بھی ہوا ہے یا امکان بھی ہے اس کی وضاحت فرمادیجے
محمد شاہجہاں قاسمی
الجواب وباللہ التوفیق:
بیت اللہ یا دیگر مقامات مقدسہ کا لکڑی، اینٹ یا پتھر  وغیرہ سے ماڈل ونمونے بنانے سے ان کی تعظیم و توقیر میں کمی واقع ہوگی. حج کی عملی تربیت دیتے ہوئے اس کے گرد طواف بھی کروانا ہوگا
کچھ دنوں بعد لوگ اسی کو اصل سمجھنے لگیں گے
اسی کی توقیر و تعظیم کرنے لگیں گے
جیسے افریقہ کے بعض ملکوں میں دیکھنے کو ملا ہے
لوگ اسے اٹھاکے گاڑیوں میں لے جائیں گے
اس کا استدبار بھی ہوگا
ضرورت پوری ہوجانے پہ بچے اسے کھلونا بھی بنائیں گے یا اسے توڑ پھوڑ کے ختم کردیا جائے گا جس سے دھیرے دھیرے اصل کعبة الله کی عظمت دلوں میں کم سے کم تر ہوتی چلی جائے گی
اسی لئے عالم اسلام کے موقر ترین ارباب افتاء نے اسے ناپسند کیا ہے
میں نے بھی اسے ناجائز نہیں بلکہ “ناروا“ لکھا ہے وہ بھی اصالةً نہیں بلکہ سد ذریعہ کے طور پر۔ سعودی عرب کی فتوی کمیٹی نے بھی اسے بدعت ومنکر و نامناسب ہی کہا ہے:
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، سيدنا ونبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلم.
أما بعد: فإن مجلس المجمع الفقهي الإسلامي ، برابطة العالم الإسلامي، في دورته الثالثة عشرة ، المنعقدة بمكة المكرمة ، والتي بدأت يوم السبت 5 شعبان 1412هـ الموافق 8/ 2/1992م : قد نظر في الموضوع وقرر :
أن الواجب سد هذا الباب ومنعه ؛ لأن ذلك يفضي إلى شرور ومحظورات.
وصلى الله على سيدنا محمد، وعلى آله وصحبه وسلم تسليمًا كثيرًا . والحمد لله رب العالمين .
رئيس مجلس المجمع الفقهي: عبد العزيز بن عبد الله بن باز .
نائب الرئيس: د. عبد الله عمر نصيف.
الأعضاء : محمد بن جبير ، د. بكر عبد الله أبو زيد ، عبد الله العبد الرحمن البسام ، صالح بن فوزان بن عبد الله الفوزان (متوقف) ، محمد بن عبد الله بن السبيل ، مصطفى أحمد الزرقا ، محمد رشيد راغب قباني ، أبو بكر جوسي ، عبد الرحمن حمزة المرزوقي ، د. أحمد فهمي أبو سنة ، محمد الحبيب بن الخوجه ( بدون توقيع ) ، فضيلة الدكتور يوسف القرضاوي ، الشيخ محمد الشاذلي النيفر ، فضيلة الشيخ أبو الحسن علي الحسني الندوي ( بدون توقيع ) ، أبو بكر جوسي ، محمد محمود الصواف ( بدون توقيع ) .
مدير عام المجمع الفقهي الإسلامي: د. طلال عمر بافقيه " .
انتهى من " قرارات المجمع الفقهي " (ص/285) .
وجاء في "فتاوى اللجنة الدائمة " (11/14) في المجموعة الثانية ، جوابا على سؤال نصه:
"رجل يعلم الناس مناسك الحج بطريقة عملية ، وذلك أنه صنع لهم إطارا خشبيا ملونا بالأسود يشبه الكعبة ، وكذلك مقام إبراهيم ، والصفا والمروة ، وزمزم والجمرات .. وغير ذلك مما يتعلق بمناسك الحج ، وعملية التدريب تتم بأن يأتي الناس بإحرامهم ويلبسونه ، ويقومون بالمناسك، ابتداء من العمرة إلى نهاية الحج ، ويرفعون أصواتهم بالتلبية داخل المسجد بأصوات جماعية ، وإن هذه الظاهرة بدأت تنتشر في كل مناطق المغرب ، بحيث إذا دخلت بعض المساجد ، تجد إطارا خشبيا يشبه الكعبة ، وكل ما له علاقة بالمناسك على طول السنة "
فأجابت اللجنة الدائمة بقولها:
"صناعة المجسمات من الخشب وغيره لبعض الشعائر الإسلامية كالكعبة ومقام إبراهيم والجمرات وغيرها لغرض استعمالها في التعليم لأداء مناسك الحج والعمرة على الوجه المذكور في السؤال لا يجوز ، بل هو بدعة منكرة ؛ لما يفضي إليه من المحاذير الشرعية، كتعلق القلوب بهذه المجسمات ولو بعد حين، وتعريضها للامتهان وغير ذلك ، مع عدم الحاجة إلى هذه الطريقة، إذ الشرح والبيان باللسان والاستعانة على ذلك بالكتابة التوضيحية كاف شاف في إيصال المعاني الشرعية إلى عموم الناس ، وقد صح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال : ( من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد ) أخرجه مسلم في صحيحه " انتهى .
الرئيس عبد العزيز بن عبد الله بن باز – نائب الرئيس عبد العزيز آل الشيخ – عضو عبد الله بن غديان – عضو صالح الفوزان – عضو بكر أبو زيد .
وجاء أيضا في المجموعة الثانية (1/ 323) في جواب سؤال مجسمات للكعبة والقبة الخضراء على شكل "مداليات".
فجاء في الفتوى:
"لا يجوز تصنيع مجسم للكعبة المشرفة وللقبة التي على قبر النبي صلى الله عليه وسلم ، ولا التجارة فيهما ؛ وذلك لأن صناعتهما والتجارة بهما وتداولهما يفضي إلى محظورات يجب الحذر منها ، وسد كل باب يوصل إليها" انتهى.
الرئيس عبد العزيز بن عبد الله بن باز – نائب الرئيس عبد العزيز آل الشيخ – عضو عبد الله بن غديان – عضو صالح الفوزان – عضو بكر أبو زيد

تمثیل کلب وعنکبوت سے جواز پہ استشہاد بالکل ہی غلط ہے
وہاں تمثیل ہے اور یہاں تجسیم صوری۔ دونوں میں بعد المشرقین ہے۔
ہمیشہ سے لوگوں کو زبانی طور پہ ہی حج کے مسائل سمجھائے جارہے ہیں اور بحمد اللہ سب سمجھتے بھی آرہے ہیں
اب کمپیوٹر کے دور میں لوگوں کی ذہانتیں اتنی خراب ہوگئیں کہ بغیر ماڈل کے حج کے مسائل سمجھ میں نہ آئیں؟
یہ بالکل عذر لنگ ہے، قدیم دور سے متعارف سیدھے سادھے طریقہ تعلیم وتربیت ہی کو رواج دینے کی ضرورت ہے،
ماڈل سازی کی گنجائش نکالنے میں مختلف مفاسد وخرابیاں در آنے کا یقین ہے، اس لئے ایسے توسع کی گنجائش نہیں۔
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی

جمعہ کی فرضیت کب اور کہاں ہوئی؟

جمعہ کی فرضیت کب اور کہاں ہوئی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم و رحمہ اللہ
نماز جمعہ کب اور کہاں اور کیسے ابتداءً ہوئی
یعنی نماز جمعہ کا تاریخی پس منظر بیان فرمائیں نوازش ہوگی
حضرت الاستاذ مفتی شکیل صاحب کی توجہ کا طالب
امجد اللہ صدیقی بوکاروی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
جمعہ کی نماز مستقل فرض عین ہے، ظہر کا بدل نہیں، ظہر سے بھی زیادہ موکد فرض ہے، قرآن، حدیث اور اجماع امت سے اس کی فرضیت ثابت ہے، جمعہ کا منکر کافر اور بلا عذر تارک گنہگارہے ۔:
﴿إِذَا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ﴾۔(الجمعۃ:9)
عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْجُمُعَةُ حَقٌّ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ فِي جَمَاعَةٍ إِلَّا أَرْبَعَةً : عَبْدٌ مَمْلُوكٌ ، أَوِ امْرَأَةٌ ، أَوْ صَبِيٌّ ، أَوْ مَرِيضٌ " ( رواه ابوداؤد :
1067

ترجمہ: طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا ہر مسلمان پر لازم اور واجب ہے۔ اس وجوب سے چار قسم کے آدمی مستثنیٰ ہیں: ایک غلام جو بے چارہ کسی کا مملوک ہو، دوسرے عورت، تیسرے لڑکا جو ابھی بالغ نہ ہوا ہو، چوتھے بیمار۔ (سنن ابی داؤد)
وعَنِ بْنَ عُمَرَ وَأَبِىْ هُرَيْرَةَ أَنَّهُمَا قَالَ: سَمِعْنَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَعْوَادِ مِنْبَرِهِ : «لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمُ الْجُمُعَاتِ، أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ ، ثُمَّ لَيَكُونُنَّ مِنَ الْغَافِلِينَ» (رواه مسلم :428)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بر سر منبر فرما رہے تھے کہ: جمعہ چھوڑنے والے لوگ یا تو اپنی اس حرکت سے باز آئیں یا یہ ہوگا کہ ان کے گناہ کی سزا میں اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگادے گا، پھر وہ غافلوں ہی میں سے ہوجائیں گے (اور اصلاح کی توفیق سے محروم کر دئیے جائیں گے) ۔ (صحیح مسلم)
فتح القدير میں تمام مسلمانوں کا اِس کی فرضیت پر اِجماع منقول ہے۔ (فتح القدیر:2/49)
جمعہ کی فرضیت مکہ مکرمہ میں ہی ہوگئی تھی، لیکن مخالفت کے زور اور نامساعد حالات کی وجہ سے وہاں اس کی ادائی ممکن نہ ہوسکی تھی، ہجرت مدینہ کے بعد اولیں جمعہ اسعد بن زرارہ کی امامت میں مدینہ پاک میں ادا کی گئی، چالیس کے قریب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس میں شریک تھے،
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے بعد آپ کی اقتداء میں مدینہ منورہ کے محلہ بنو سالم بن عوف میں آپ کی پہلی جمعہ ادا ہوئی:
أخرج الدارقطني من طریق المغیرۃ بن عبد الرحمٰن عن مالک عن الزہري عن عبید اللّٰہ عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: أذن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم الجمعۃ قبل أن یہاجر ولم یستطع أن یجمع بمکۃ، فکتب إلی مصعب بن عمیر: أما بعد! فانظر الیوم الذي تجہر فیہ الیہود بالزبور، فأجمعوا نساء کم وأبناء کم فإذا مال النہار عن شطرہ عن الزوال من یوم الجمعۃ فتقربوا إلی اللّٰہ برکعتین قال: فہو أول من جمع حتی قدم النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم المدینۃ فجمع عند الزوال من الظہر وأظہر ذلک، ذکرہ الحافظ في ’’التلخیص الحبیر‘‘ ۱:۱۳۳، وسکت عنہ۔ (إعلاء السنن ۸؍۳۳-۳۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت)
تتمۃ أولی: احتج بعض أکابرنا للمسألۃ بأن فرض الجمعۃ کان بمکۃ، ولکن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم لم یتمکن من إقامتہ ہناک؛ وأقامہا بالمدینۃ حین ہاجر إلیہا، ولم یقمہا بقباء مع إقامتہ بہا أربعۃ عشر یوماً، وہذا دلیل لما ذہبنا إلیہ من عدم صحۃ الجمعۃ بالقری۔ (إعلاء السنن ۸؍۳۳-۳۴ دار الکتب العلمیۃ بیروت، فتاوی دارالعلوم ۵؍۶۸-۷۱)
قال الإمام أبو جعفر محمد بن جریر الطبري حدثني یونس بن عبد الأعلی قال: أخبرنا ابنا وہب قال: حدثني سعید بن عبد الرحمن الجمعي أنہ بلغہ عن خطبۃ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم في أول جمعۃ صلاہا بالمدینۃ في بني سالم بن عوف، الحمد للّٰہ، أحمدہ واستعینہ الخ۔ (تاریخ الطبري ۷۲)
فتح القدیر اور شامی میں ہے:
وأول جمعۃ أقیمت في الإسلام الجمعۃ التي اقامہا أسعد بن زرارۃ رضي اللّٰہ عنہ أحد النقباء الاثنی عشر فصلاہا بالمدینۃ بأمرہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل قدومہ المدینۃ … وأما أول جمعۃ جمعہا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فہو أنہ لما قدم المدینۃ مہاجر أنزل قباء علی بني عمرو بن عوف، وأقام بہا یوم الاثنین والثلاثاء، والأربعاء، والخمیس، وأسس مسجدہم ثم خرج یوم الجمعۃ عامداً المدینۃ فأدرکتہ صلاۃ الجمعۃ في بني سالم بن عوف في بطن وادٍ لہم، فخطب، وصلی الجمعۃ بہم۔ (حاشیۃ رد المحتار ۳؍۳ زکریا، فتح القدیر ۲؍۵۱،)

واللہ  اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
14 شوال
1439

امام کو مقتدیوں کی کس قدر رعایت کرنی چاہئے

امام کو مقتدیوں کی کس قدر رعایت کرنی چاہئے
سوال ]۲۰۹۷[: کیا فرماتے ہیں علماء کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں:
کہ (۱) امام کو مقتدی کی رعایت کرنی چاہئے یا نہیں؟
(۲) امام صاحب کواگر رعایت کرنی چاہئے تو کس قدر اور کن کن رکن میں کرنی چاہئے ہر رکن میں یا بعض رکن میں؟
(۳) امام رکوع سے اٹھ کر سجدہ میں کتنی دیر کے بعد جائے، اٹھتے ہی فوراً چلا جائے یا تھوڑا رک کر اگر رک کر جائے تو اس کی مقدار بیان فرمائیے ؟
(۴) امام کو ایک رکن سے دوسرے رکن میں منتقل ہونے کیلئے کتنی دیر تک ٹھہرنا چاہئے، نیز یہ بھی تحریر فرمائیے کہ نماز سکون کے ساتھ امام کو کب کب پڑھنی چاہئے؟ اور کب کب نہ پڑھنی چاہئے؟
المستفتي: احقر محمد نزیر ، متعلم مدرسہ شاہی، مرادآباد

باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:
(۱) امام کو مقتدیوں کی رعایت کرنی چاہئے۔
عن أبي ہریرۃ ؓ أن رسول الله ﷺ قال إذا صلی أحدکم للناس فلیخفّف فإن فیہم الضعیف والسقیم والکبیر، وإذا صلی أحدکم لنفسہ فلیطوّل ماشاء۔ (بخاری شریف ، کتاب الأذان، باب تخفیف الإمام فی القیام واتمام الرکوع والسجود ۱/۹۷، رقم:۶۹۴، ف: ۷۰۳)
أن الإمام ینبغی لہ أن یراعی حال قومہ۔ (مبسوط سرخسی ۱/۱۶۲)

(۲) امام کو صرف قرأت میں مقتدیوں کی رعایت کرنی چاہئے، اس طور پر کہ مقدار مسنونہ یعنی فجر اور ظہر میں طوال مفصل عصر اور عشاء میں اوساط مفصل اور مغرب میں قصار مفصل سے زیادہ قرأت کرنے کو مقتدیوں کی رعایت کی بنیاد پر ترک کردے، ہاں البتہ ارکان وواجبات وسنن مکمل طور پر اداکرے، اس رعایت کی بنیاد پر کوتاہی نہ کرے۔
ویسن فی الحضر لإمام ومنفرد طوال المفصل فی الفجر والظہر، وأوساطہ فی العصر والعشاء ، وقصارہ فی المغرب۔ (درمختار مع الشامی زکریا۲/۲۶۱، کراچی ۱/۴۹۲)
ویکرہ تحریماً تطویل الصلوٰۃ علی القوم زائداً علی قدر السنۃ ، فی قراء ۃ وأذکار رضی القوم أولا لإطلاق الأمر بالتخفیف۔ (شامی زکریا۲/۳۰۴، کراچی۱/۵۶۴)
ولا یزید علی القراء ۃ المستحبۃ ولا یثقل علی القوم ، ولکن یخفف بعد أن یکون علی التمام والإستحباب ۔(عالمگیری، زکریا قدیم ۱/۷۸، جدید۱/۱۳۵)

(۳) امام کو رکوع سے سر اٹھانے کے بعد اطمینان کیساتھ قومہ کرنا چاہئے کہ تمام اعضاء اپنی حالت پر صحیح سالم آجائیں، جس کی مقدار ایک تسبیح کے بقدر ہے، اور قومہ میں جو دعاء پڑھنا حدیث سے ثابت ہے، وہ دعا پڑھنا بھی افضل اور مستحب ہے۔
عن أبی سعید الخدری قال:کان رسول الله ﷺ إذا رفع رأسہ من الرکوع قال ربنا لک الحمد ملئُ السموات والأرض، وملئُ ما شئت من شییء بعد، أہل الثناء و االمجد أحق ما قال العبد وکلنا لک عبد، اللّٰہمّ: لا مانع لما أعطیت، ولا معطی لما منعت، ولا ینفع ذاالجد منک الجد۔ (مسلم شریف، الصلاۃ، باب ما یقول إذا رفع رأسہمن الرکوع النسخۃ الہندیۃ ۱/۱۹۰، بیت الأفکار رقم:۴۷۷)
وتعدیل الأرکان أي تسکین الجوارح قدر تسبیحۃ فی الرکوع والسجود وکذا فی الرفع منہما علیٰ ما اختارہ الکمال۔ (درمختارمع الشامی، کتاب الصلاۃ، باب صفۃ الصلاۃ ،کراچی۱/۴۶۴، زکریا۲/۱۵۷)

(۴) امام کو ایک رکن سے دوسرے رکن میں منتقل ہونے میں تعدیل ارکان کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، اور تعدیل ارکان میں جتنا وقت لگ جائے اتنی دیر ٹھہرے۔
عن أبي ہریرۃ ؓ أن رسول الله ﷺ ، دخل المسجد فدخل رجل فصلی، فسلم علی النبی ﷺ فرد وقال: ارجع فصل فإنک لم تصل فرجع فصلی کما صلی ثم جاء فسلم علی النبی ﷺ فقال: ارجع فصلّ فإنک لم تصل ثلثاً فقال والذی بعثک بالحق ما أحسن غیرہ فعلمنی، فقال: إذا قمت إلی الصلاۃ فکبر، ثم اقرأ ما تیسر معک من القرآن، ثم ارکع حتی تطمئن راکعاً، ثم ارفع حتی تعتدل قائماً ، ثم اسجد حتی تطمئن ساجداً، ثم ارفع حتی تطمئن جالساً وافعل ذلک فی صلاتک کلہا۔(صحیح البخاری، کتاب الأذان ، باب وجوب القرأۃ للإمام والماموم فی الصلوات کلہا الخ النسخۃ الہندیۃ ۱/۱۰۴، رقم:۷۴۸، ف:۷۵۷)
ومقتضی الدلیل وجوب الطمانینۃ في الأربعۃ أي فی الرکوع والسجود وفي القومۃ والجلسۃ۔ (شامی، کتاب الصلاۃ ، صفۃ الصلاۃ کراچی ۱/۴۶۴، زکریا۲/۱۵۷)

(۵) امام چونکہ مقتدیوں کی نماز کا ضامن ہوتا ہے، اس لئے اسے ہر حال میں نماز خشوع وسکون کے ساتھ پڑھنی چاہئے، ہاں البتہ اگر کوئی خوف کی حالت ہو یا کوئی اور ضرورت وغیرہ ہو تو نماز میںزیادہ سے زیادہ اختصار کرنا بہتر ہے، مثلاً نماز شروع ہوگئی، اور اسی اثناء میں بارش ہونے لگے اور کچھ لوگ مسقف حصہ سے باہر بھیگ رہے ہوں یا سخت گرمی کا زمانہ ہے اور کچھ لوگ دھوپ میں کھڑے ہوں ، یا اسٹیشن میں نماز پڑھی جارہی ہے، اور گاڑی نکل جانے کا خطرہ ہے تو اس قسم کے حالات میں زیادہ سے زیادہ اختصار کرکے ماتجوز بہ الصلوٰۃ کے ساتھ جلد نماز ختم کردینی چاہئے، اور عام حالات میں مفصلات سے مسنون قرأت کرنا مسنون اور افضل ہے۔
عن أبي ہریرۃ ؓ أن رسول الله ﷺ قال: إذا صلی أحدکم للناس فلیخفّف، فإن فیہم الضعیف، والسقیم ، والکبیر ، وإذا صلٰی أحدکم لنفسہ، فلیطوّل ماشاء۔ (بخاری شریف ، کتاب الأذان ، باب إذا صلی لنفسہ فلیطول ماشاء النسخۃ الہندیۃ ۱/۹۷، رقم:۶۹۴، ف:۷۰۳)
الإمام ضامن أي متکفل لصلوٰۃ المؤتمین بالإتمام - إلی قولہ - فالضامن ھنا لیس لمعنی الغرامۃ بل یرجع إلی الحفظ والرعایۃ۔ (مرقاۃ المفاتیح ، شرح مشکوٰۃ المصابیح امدادیہ ملتان۲/۱۶۵)
فقد ظہر من کلامہ أنہ لا ینقص عن المسنون، إلا لضرورۃ کقراء تہ بالمعوذتین لبکاء الصبی۔ (شامی، کتاب الصلاۃ ، باب الإمامۃ کراچی ۱/۵۶۵، زکریا۲/۳۰۵)

فقط والله سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا الله عنہ
یکم؍ربیع الاول۱۴۲۶ھ
(الف فتویٰ نمبر:۳۷/۸۷۵۵)
الجواب صحیح:
احقر محمد سلمان منصورپوری غفر لہ
۱؍۳؍۱۴۲۶ھ
.....
مقتدیوں کی رعایت
(98) عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : « إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ ، فَإِنَّ فِيهِمُ السَّقِيمَ وَالضَّعِيفَ ، وَالْكَبِيرَ ، وَإِذَا صَلَّى اَحَدُكُمْ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ. (رواه البخارى ومسلم) 
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی لوگوں کا امام بن کر نماز پڑھائے تو چاہئے کہ ہلکی نماز پڑھائے (یعنی زیادہ طول نہ دے) کیوں کہ مقتدیوں میں بیمار بھی ہوتے ہیں اور کمزور بھی اور بوڑھے بھی (جن کے لئے طویل نماز باعث زحمت ہو سکتی ہے) اور جب تم میں سے کسی کو بس اپنی نماز اکیلے پڑھنی ہو تو جتنی چاہے لمبی پڑھے ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح ..... بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو اپنے قبیلہ یا حلقہ کی مسجدوں میں نما پڑھاتے تھے اپنے عبادتی ذوق وشوق میں بہت لمبی نماز پڑھتے تھے جس کی وجہ سے بعض بیمار یا کمزور یا بوڑھے یا تھکے ہارے مقتدیوں کو کبھی کبھی بڑی تکلیف پہنچ جاتی تھی، اس غلطی کی اصلاح کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف موقعوں پر اس طرح کی ہدایت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء اس سے یہ تھا کہ امام کو چاہئے کہ وہ اس بات کا لحاظ رکھے کہ مقتدیوں میں کبھی کوئی بیمار یا کمزور یا بوڑھا بھی ہوتا ہے، اس لئے نماز زیادہ طویل نہ پڑھے ۔ یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ اور ہر وقت کی نماز میں بس چھوٹی چھوٹی سورتیں ہی پڑھی جائیں اور رکوع سجدہ میں تین دفعہ سے زیادہ تسبیح بھی نہ پڑھی جائے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسی معتدل نماز پڑھاتے تھے وہی امت کے لئے اس بارے میں اصل معیار اور نمونہ ہے اور اس کی روشنی میں ان ہدایات کا مطلب سمجھا چاہئے ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ وہ حدیثیں آگے اپنے موقع پر آئیں گی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی تفصیلی کیفیت اور قرأت وغیرہ کی مقدار معلوم ہوگی۔
(99) عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو مَسْعُودٍ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَأَتَأَخَّرُ عَنْ صَلاَةِ الغَدَاةِ مِنْ أَجْلِ فُلاَنٍ مِمَّا يُطِيلُ بِنَا ، فَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْهُ يَوْمَئِذٍ ، ثُمَّ قَالَ: « إِنَّ مِنْكُمْ مُنَفِّرِينَ ، فَأَيُّكُمْ مَا صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيَتَجَوَّزْ ، فَإِنَّ فِيهِمُ الضَّعِيفَ وَالكَبِيرَ وَذَا الحَاجَةِ » (رواه البخارى ومسلم) 
ترجمہ: قیس بن ابی حازم سے روایت ہے کہ مجھ سے ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! بخدا میں فلاں شخص کی وجہ سے صبح کی نماز میں شریک نہیں ہوتا (مجبوراً اپنی نماز الگ پڑھتا ہوں) کیوں کہ وہ بہت طویل نماز پڑھاتے ہیں (جو میرے بس کی نہیں) حدیث کے راوی ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس بارے میں خطبہ دیا) اور میں نے کبھی آپ کو وعظ اور خطبہ کی حالت میں اس دن سے زیادہ غضبناک نہیں دیکھا ۔ پھر اس خطبے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : تم میں سے بعض وہ لوگ ہیں جو اپنے غلط طرز عمل سے اللہ کے بندوں کو دور بھگانے والے ہیں جو کوئی تم میں سے لوگوں کا امام بنے اور ان کو نماز پڑھائے تو اس کے لئے لازم ہے کہ مختصر نماز پڑجئے (زیادہ طویل نہ پڑھائے) کیوں کہ ان میں ضعیف بھی ہوتے ہیں اور بوڑھے بھی اور حاجت والے بھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح ..... یہ صحابی جن کی طویل نماز پڑھانے کی شکایت اس حدیث میں مذکور ہوئی ہے حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں۔
اس قسم کا ایک دوسرا واقعہ صحیح بخاری و صحیح مسلم ہی میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا بھی مروی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ عام طور سے نمازِ عشاء دیر کر کے پڑھتے تھے۔ ایک دن حسبِ معمول نماز دیر سے شروع کی اور اس میں سورہ بقرہ پڑھنی شروع کر دی۔ مقتدیوں میں سے ایک صاحب نے (جو بےچارے دن بھر کے تھکے ہارے تھے) نیت توڑ کے اپنی الگ نماز پڑھی اور چکے گئے۔ آخر معاملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذؓ کو ڈانٹا اور فرمایا افتان أنت يا معاذ (اے معاذ! کیا تم لوگوں کے لئے باعث فتنہ بننا چاہتے ہو اور ان کو فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو) آگے اسی حدیچ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ:
وَ الشَّمْسِ وَ ضُحٰىهَا اور وَ الَّيْلِ اِذَا يَغْشٰى اور وَ الضُّحٰى وَ الَّيْلِ اِذَا سَجٰى اور سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى یہ سورتیں پڑھا کرو ۔ (1)
(100) عَنْ أَبِىْ قَتَادَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: « إِنِّي لَأَدْخُلُ فِي الصَّلاَةِ ، فَأُرِيدُ إِطَالَتَهَا ، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ ، فَأَتَجَوَّزُ مِمَّا أَعْلَمُ مِنْ شِدَّةِ وَجْدِ أُمِّهِ مِنْ بُكَائِهِ» (رواه البخارى) 

ترجمہ: حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: (کبھی ایسا ہوتا ہے کہ) میں نماز شروع کرتا ہوں اور میرا ارادہ کچھ طویل پڑھنے کا ہوتا ہے، پھر میں کسی بچے کے رونے کی آواز سُن لیتا ہوں تو نماز میں اختصار کر دیتا ہوں ۔ کیوں کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے رونے کی آوز سے اس کی ماں کا دل کتنا زیادہ پریشان ہوگا۔ (صحیح بخاری)
تشریح ..... رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھانے کی حالت میں جب کسی بچے کے رونے کی آواز میرے کان میں آ جاتی ہے تو میں اس خیال سے کہ شاید اس بچے کی ماں جماعت میں شریک ہو اور اس کے رونے سے اس کا دل پریشان ہو رہا ہو ، میں نماز مختصر پڑھ کے جلدی ختم کر دیتا ہوں۔
(101) عَنْ أَنَسِ « مَا صَلَّيْتُ وَرَاءَ إِمَامٍ قَطُّ أَخَفَّ صَلاَةً ، وَلاَ أَتَمَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنْ كَانَ لَيَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ ، فَيُخَفِّفُ مَخَافَةَ أَنْ تُفْتَنَ أُمُّهُ » (رواه البخارى ومسلم) 
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں نے کبھی کسی امام کے پیچھے ایسی نماز نہیں پڑھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے ہلکی اور ساتھ ہی مکمل ہو (یعنی آپ کی نماز ہلکی بھی ہوتی تھی اور بالکل مکمل بھی) اور ایسا ہوتا تھا کہ نماز پڑھانے کی حالت میں کسی بچے کے رونے کی آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سن لیتے تو نماز کو مختصر اور ہلکا کر دیتے اس خطرے کی وجہ سے کہ اس کی ماں بےچین ہو (اور اس بےچاری کی نماز خراب ہو) ۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)
تشریح ..... امام کے لئے صحیح معیار اور رہنما اصول یہی ہے کہ اس کی نماز ہلکی سُبک بھی ہو اور ساتھ ہی مکمل اور تام بھی ۔ یعنی ہر رکن اور ہر چیز ٹھیک ٹھیک اور سنت کے مطابق ادا ہو جس کی تفصیلات ان شاء اللہ آئندہ اپنے موقع پر آئیں گی ۔
معارف الحدیث


کن جانوروں کو مارنے کی اجازت ہے؟

کن جانوروں کو مارنے کی اجازت ہے؟
جن پانچ جانوروں کو ہر جگہ مارنا جائز ہے
(1760)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏- عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ : " خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ : الْحَيَّةُ، وَالْغُرَابُ الْأَبْقَعُ ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ ، وَالْحُدَيَّا ".
رواه مسلم
‏قال الشيخ عبدالله بن عقيل رحمه الله :
خمسُ فواسق حدأةُ مع فأرةٍ
                    كلبُ عقورُ والغراب وعقربُ
حدیا کا صحیح ترجمہ کیا ہوگا؟
وضاحت فرمائیں بہتر ہوگا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ الْفَأْرَةُ وَالْعَقْرَبُ وَالْحُدَيَّا وَالْغُرَابُ وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ
صحيح البخاري: 3136۔ كتاب بدأ الخلق .بَاب خَمْسٌ مِنْ الدَّوَابِّ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ
أخرجه مسلم في الحج ٦٧\٦٨.٦٩.والنساي في المناسك باب ١١٣.١١٤.١١٩.وابن ماجة في المناسك باب ٩١ .ومالك في الحج ٩٠.ومسند أحمد ٦\٣٣.
٨٧.٩٧.٢٥٩\٢٦١
(والحديا) تصغير حدأة على وزن عنبة قلبت الهمزة بعد ياء التصغير ياء وأدغمت ياء التصغير فيه فصار حدية ثم حذفت التاء وعوض عنها الألف لدلالته على التأنيث أيضا، كذا في المرقاة.
یعنی "چیل" کو مصغرا حدیا کہتے ہیں
موطأ مالك اور نسائی کی روایت میں مکبرہ یعنی "الحدأة" کے ساتھ آیا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ نبی کریم ﷺ سے نقل کرتی ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ایذاء پہنچانے والے پانچ جانور ہیں جن کو حدود حرم سے باہر بھی اور حدود حرم میں بھی مارا جا سکتا ہے (مارنے والا خواہ احرام کی حالت میں ہو خواہ احرام سے باہر ہو) سانپ، ابلق کوا، چوہا، کٹ کھنا کتا، چیل۔ (بخاری ومسلم)
اس کتے کو مارنا حرام ہے جس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے، اسی طرح اس کتے کو بھی مارانا حرام ہے جس سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو تو اس سے کوئی ضرر و نقصان بھی نہ پہنچتا ہو۔
مذکورہ بالا حدیث میں جن جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے مارنے کی اجازت صرف انہیں پر منحصر نہیں بلکہ یہی حکم ان تمام جانروں کا بھی ہے جن سے ایذاء پہنچتی ہو جیسے چیونٹی، پسو، چچری اور کھٹمل وغیرہ۔ ہاں اگر حالت احرام میں جوئیں ماری جائیں گی تو پھر حسب استطاعت و توفیق صدقہ دینا واجب ہوگا۔
گرگٹ اور چھپکلی کو مارنا باعث اجر وثواب فعل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حدیثوں میں اسے ماڈالنے کا نہ صرف حکم دیا ہے بلکہ پہلی مرتبہ مارنے پر زیادہ ثواب بتایا ہے۔
ارشاد نبوی ہے: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَسَمَّاهُ فُوَيْسِقًا۔ (صحیح مسلم، کتاب السلام، باب استحباب قتل الوزغ حدیث نمبر 2238 )
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ’وزغ‘ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اسے 'فاسق' قرار دیا ہے۔
بخاری کی روایت میں ہے:
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَقَالَ كَانَ يَنْفُخُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام۔(صحیح بخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب قول اللہ تعالی واتخذ اللہ ابراھیم خلیلا ۔حدیث نمبر 3180)
اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ’وزغ‘ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے جلائی آگ میں پھونکیں مارتی تھی۔
گرگٹ کی بہت ساری قسمیں ہیں۔ ہر قسم اپنی طبعیت کے اعتبار سے نوع انسانی کے لئے مضر ہے۔ اس لئے ضرر سے بچانے کے لئے اسے مار ڈالنے کا حکم ہے۔
ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ پہلی ہی مرتبہ میں مار ڈالنے والے کو زیادہ ثواب ملتا ہے:
عن أبي ہریرة أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من قتل وزغة بالضربة الأولی کان لہ کذا وکذا حسنة فإن قتلہا في الضربة الثانیة کان لہ کذا وکذا حسنة فإن قتلہا في الضربة الثالثة کان لہ کذا وکذا حسنة․ (رواہ الترمذي وقال: حدیث أبي ہریرة حدیث حسن صحیح: ۱/۲۷۳، أبواب الصید، باب في قتل الوزغ، ط: مریم أجمل فاوٴنڈیشن ممبئی إنڈیا)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی
١٤\٦\١٤٣٩ہجری
.......
(۱) مکڑی مارنا اور اس کے جالے صاف کرنا 
(۲) چھپکلی مارنا:
(سوال ۲۴۴) کہتے ہیں کہ مکڑی کو نہیں مارنا چاہئے، کیونکہ اس نے غار ثور پر جالا تن کرحضور ﷺ کی حفاظت کی تھی، گاہے گاہے گھر میں ان کی وجہ سے بہت جالے ہوجاتے ہیں جسے نحوست کہتے ہیں، تو شرعاً ان کے مارنے کی اجازت ہے؟ اسی طرح چھپکلی کے مارنے کے متعلق کچھ ممانعت ہے ؟بینوا توجروا۔ (از حیدرآباد)
(الجواب) مکڑی کی مختلف قسمیں ہیں ایک قسم وہ ہے جو زمین میں گھر بناتی ہے وہ موذی ہے، اس کو مارنے کی اجازت ہے، روح المعانی میں ہے،
النوع الآخر الذی یحفر بیتہ فی الارض ویخرج فی اللیل کسائر الھوام وھی علی ما ذکر ہ غیرواحد من دوات السموم فیسن قتلھا (روح المانی ج۲۰ ص ۱۶۱ سورۂ عنکبوت) اور جو گھروں میں جالا تنتی ہے وہ موذی جانور نہیں ہے، بلا ضرورت اسے تکلیف پہنچانے اور مارنے سے، خصوصاً جب کہ مذکور واقعہ مشہور ہے۔ احتراز کرنا چاہئے۔ روح المعانی میں ہے:
وقیل لا یسن قتلھا فقد اخرج الخطیب انا وابوبکر الغار فاجتمعت العنکبوت فنسجت بالباب فلا تقتلوھن ذکر ھذا الخبر جلال الدین السیو طی فی الدر المنثور، واﷲ اعلم بصحتہ وکونہ مما یصلح للاحتجاج بہ (روح المعانی ج۲۰ ص ۱۶۱ سورۂ عنکبوت)
یعنی: مکڑی کو مارنا نہ چاہئے، خطیب نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا میں اور ابوبکر غار میں داخل ہوئے تو مکڑیوں نے جمع ہوکر فوراً جالا بن دیا اس لئے تم ان کو قتل مت کرو۔
گھر میں اگر مکڑی کے جالے ہوگئے ہوں تو صاف کرسکتے ہیں،
وذکر انہ یحسن ازا لۃ بیتھا من البیوت، لما اسند الثعلبی وابن عطیۃ وغیرھما عن علی کرم اﷲ وجھہ انہ قال طھرو ابیو تکم من نسج العنکبوت فان ترکہ فی البیت یورث الفقر وھذا ان صح عن الا مام کرم اﷲ وجہ فذاک والا فحسن الا زالۃ لما فیھا من النظافۃ ولا شک بندبھا۔
یعنی ثعلبی اور ابن عطیہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے نقل کیا ہے، مکڑی کے جالوں سے اپنے گھر ں کو صاف رکھا کرو کیونکہ اس کے چھوڑ دینے سے فقر پیدا ہوتا ہے اگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اس اثر کا ثبوت ہو تو یہی دلیل ہے، ورنہ جالے صاف کرنا مستحب ہی ہے اس لئے کہ اس میں نظافت ہے (روح المعانی ج۲۰ ص ۱۶۱)
چھپکلی موذی جانور گاہے وہ کھانے پینے کی چیزوں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال دیتی ہے تو ا س میں زہریلے اثرات پیدا ہوجاتے ہیں اور اس کی کھانے سے طبیعت پر بہت برا اثر پڑتا ہے، ہمارے علم میں ایسے واقعات ہیں کہ ایساکھانا کھانے کی وجہ سے پورے گھر والوں کو ایک دم اسپتال جانا پڑا۔ اور حدیث میں وزغ کو مارنے کا حکم ہے (مسلم شریف ج۲ ص ۲۳۵ باب فی قتل الوزغ) (ترمذی شریف ج۱ ص ۱۷۹ باب فی قتل الوزغ) وزغ وزغۃ کی جمع ہے اور وزغ کا مصداق جس طرح گرگٹ ہے اسی طرح چھپکلی بھی ہے، مصباح اللغات اور المنجد اردو میں تو ورغۃ کا ترجمہ چھپکلی کیا گیا ہے، چنانچہ مصباح اللغات میں ہے۔
الوزغۃ چھپکلی وزغ ووزاغ واوزاع وزغان (مصباح اللغات) المنجد مترجم اردو میں ہے ۔
الوزغۃ: چھپکلی ج وزع ووزاغ واوزاغ ووزغان (المنجد)
فقط واﷲ اعلم۔
فتاوی رحیمیہ
ناقل نورالحسن پرتاپگڑھی