حالت قیام مرد وعورت کے ہاتھ باندھنے میں فرق کیوں ہے اور کہاں سے ہے؟
-------------------------------
--------------------------------
تکبیر تحریمہ کے بعد ہاتھ باندھے جائیں یا چھوڑدیئے جائیں؟ اس بارے میں ائمہ مجتہدین کی آراء مختلف ہیں، حضرت امام مالک رحمہ اللہ کا مشہور اور جمہور تلامذہ کا مذہب یہ ہے کہ فرائض میں ہاتھ چھوڑدیئے جائیں، نوافل میں طول قیام کے باعث ہاتھ باندھ کر سہارا لینے میں مضائقہ نہیں، یہ ابن قاسم اور لیث بن سعد کی روایت ہے، جمہور موالک کا یہی مشہور وراجح قول ہے، مدونہ میں ہے:
(وَقَالَ مَالِكٌ: فِي وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ؟ قَالَ: لَا أَعْرِفُ ذَلِكَ فِي الْفَرِيضَةِ وَكَانَ يَكْرَهُهُ، وَلَكِنْ فِي النَّوَافِلِ إذَا طَالَ الْقِيَامُ فَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ يُعِينُ بِهِ نَفْسَهُ")
(امام) مالک نے نماز میں ہاتھ باندھنے کے بارے میں کہا: "مجھے فرض نماز میں اس کا ثبوت معلوم نہیں." وہ اسے مکروہ سمجھتے تھے، اگر نوافل میں قیام لمبا ہوتو ہاتھ باندھنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس طرح وہ اپنے آپ کو مدد دے سکتا ہے۔ (المدونة 76/1)
جبکہ ان کے مدنی تلامذہ ابن نافع، عبدالمالک اور مطرف کی روایت یہ ہے کہ فرض اور نفل دونوں نمازوں میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر باندھنے کی گنجائش ہے.
وروی ابن نافع وعبدالمالک ومطرف عن مالک أنہ قال: توضع الیمنیٰ علی الیسریٰ فی الصلوٰۃ فی الفریضة والنافلة، قال: لا باس بذلك ، قال ابو عمر: وھو قول المدنیین من اصحابه"
ابن نافع، عبدالمالک اور مطرف نے (امام) مالک سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: "فرض اور نفل (دونوں نمازوں) میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا چاہئے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔" ابوعمر (ابن عبدالبر) نے کہا: اور ان (امام مالک) کے مدنی شاگردوں کا یہی قول ہے۔" (الاستذکار: ۲۹۱/۲). موطا امام مالک میں اگرچہ اس روایت کے مطابق باب باندھا گیا ہے:
(15- باب وضع اليدين إحداهما على الأخرى في الصلاة) حدثني يحيى عن مالك، عن عبد الكريم بن أبي المخارق البصري أنه قال: (من كلام النبوة إذا لم تستح فاصنع ما شئت، و وضع اليدين إحداهما على الأخرى في الصلاة، يضع اليمنى على اليسرى، و تعجيل الفطر، و تأخيرالسحور۔ 158/1)
اس باب میں امام مالک سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ والی حدیث لائے ہیں:
"کان الناس یؤمرون أن یضع الرجل الیدالیمنیٰ علی ذراعه الیسریٰ فی الصلوٰۃ"
لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ آدمی اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھے۔
(159/1 ح 377 والتمہید 96/21، والاستذکار: 347 والزرقانی: 377)
لیکن جمہور مالکیہ کا مشہور وظاہر مذہب ہاتھ چھوڑنا ہی ہے، کیونکہ مدونہ میں ابن قاسم کی روایت میں امام مالک رحمہ اللہ سے ارسال اور وضع الیدین کی کراہت کی صراحت مذکور ہے، مدونہ مذہب مالکی کی مشہور کتاب ہے، اس روایت کو جمہور علماء مالکیہ نے اختیار کیا ہے، یہ روایت مشہور بھی ہے اور راجح بھی! موطا مالک میں صاحب مذہب سے قبض یدین کے تئیں کوئی صریحی قول یا موقف منقول نہیں، قبض وارسال کی روایت نقل کرنا امر آخر ہے، اور اپنا موقف ومذہب نقل کرنا امر آخر! جبکہ مدونہ میں صاف لفظوں میں اس بابت ان کا موقف بھی مروی ہے، لہذا مدونہ کی روایت مقدم بھی ہوئی اور راجح بھی۔ امام ابن القیم جوزیہ رحمہ اللہ امام مالک سے مروی قبض یدین والی روایات کی تردید امام مالک سے ابن قاسم کی اس روایت کے ذریعے کی ہے:
[فهذه الآثار قد رُدَّتْ برواية ابن القاسم عن مالك قال: "تركه أحب إلى" ولا أعلم شيئا قد ردت به سواه]
ہاتھ باندھنے کی یہ روایات مسترد ہوگئیں ابن قاسم کی اس روایت سے جس میں امام مالک فرماتے ہیں کہ ہاتھوں کا چھوڑنا میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے، ابن قاسم کی اس روایت کی تردید میرے علم کی حد تک کسی جگہ نہیں کی گئی ہے، اعلام الموقعین 292/4، ط: دار ابن الجوزی) دیکھئے: المدونة 169/1، أحكام القرآن لإبن العربي 1990/4، الإشراف 266/1، مسألة 682)
ہاتھ باندھنے کی شرعی حیثیت:
حالت قیام میں وضع یدین کے قائل ائمہ کے یہاں یہ نماز کی من جملہ سنتوں میں سے ایک ہے، ناف کے نیچے یا اوپر ہاتھ باندھنا فرض واجب نہیں؛ بلکہ مسنون ومستحب عمل ہے، اگر کسی وجہ سے یہ متروک ہوجائے تو صحت نماز پہ کوئی فرق نہیں پڑے گا:
عن عليٍّ رضي اللهُ عنهُ أنه قال: من السُّنَّةِ في الصلاةِ وَضْعُ الأَكُفِّ على الأَكُفِّ تحتَ السُّرَّةِ. (المجموع: 3/313، عمدة القاري: 5/408، السنن الكبرى للبيهقي: 2/31) وأخرجه ابن أبي شيبة في «مصنفه»، كتاب الصلاة، باب وضع اليمين على الشمال (3945)؛ والدارقطني (1/ 286)؛ وأبوداؤد، كتاب الصلاة، باب وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة (756)؛ وضعَّفه الإمام أحمد، والنووي في «المجموع» (3/ 313)؛ والزيلعي في «نصب الراية» (1/ 314)، وابن حَجَر في «الفتح» (2/ 186)
علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں:
"أما وضع اليمنى على اليسرى في الصلاة : فمن سنتها في قول كثير من أهل العلم, يروى ذلك عن علي وأبي هريرة والنخعي وأبي مجلز وسعيد بن جبير والثوري والشافعي وأصحاب الرأي , وحكاه ابن المنذر عن مالك" انتهى ."المغني" (1/281)
ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟
امام شافعی رحمہ اللہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ ہاتھ سینہ کے نیچے اور ناف کے اوپر باندھے جائیں. ان کے پیش نظر بنیادی طور پر حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی روایت ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت حاضر ہوا جب آپ مسجد کے لئے تشریف لے جارہے تھے، تو آپ محراب میں داخل ہوئے، اور تکبیر تحریمہ کے لئے ہاتھ اٹھایا، اور دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینہ کے اوپر رکھا:
وفيه: ثم وضَعَ يَمينَهُ على يُسراهُ على صَدرِهِ. [في حَديثِ: أنَّهُ رَأى النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يَرفَعُ يَدَيْهِ مع التَّكبيرةِ، ويَضَعُ يَمينَهُ على يَسارِهِ في الصَّلاةِ] أخرجه مسلم (401)، وأبوداؤد (727)، والنسائي (889)، وأحمد (18870) مطولاً بنحوه، والبيهقي (2429) واللفظ له.
روایت میں اگرچہ ہاتھ کا سینے کے اوپر باندھنے کی صراحت ہے، لیکن امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ مسلک نہیں ہے، وہ اسے تحت الصدر یعنی سینہ کے نیچے پر محمول فرماتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ، سفیان ثوری، اسحاق بن راہویہ، اور اسحاق مروزی شافعی رحمہم اللہ وغیرہم کا مذہب یہ ہے کہ ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا مستحب ہے۔ یہ حضرات بھی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ ہی کی ایک صحیح، مرفوع اور متصل السند روایت سے استدلال کرتے ہیں جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ثقہ، معتبر اور غیرمتکلم فیہ راویوں سے مروی ہے:
حدثنا وکیع عن موسیٰ بن عمیر عن علقمة بن وائل بن حجر عن أبیه قال: رأیت النبي صلی اللہ علیه وسلم وضع یمینه علی شماله في الصلاۃ تحت السّرۃ (رجاله کلّهم ثقاتُ إثبات) (مصنف ابن أبي شیبة، رقم: 3959)
(حضرت وائل ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اندر دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھ کر دونوں ہاتھوں کو ناف کے نیچے رکھا)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا اس مسئلے میں دو ٹوک کوئی ایک قول نہیں ہے، ان سے اس بابت تین قسم کی روایات مروی ہیں، ایک میں ناف کے نیچے، (موافق احناف) دوسری میں سینہ کے نیچے (موافق شوافع) جبکہ تیسری میں نمازی کو اس بابت اختیار دیتے ہیں کہ وہ جہاں چاہے ہاتھ رکھے۔ أبوالمظفر قاضى يحى بن محمد بن هبيرة الشيبانى حنبلی متوفى ٥٦٠ هجري تحریر فرماتے ہیں:
واختلفوا في محل وضع اليمين على الشمال، فقال أبو حنيفة: يضعهما تحت السرة.وقال مالك والشافعي: يضعهما تحت صدره وفوق سرته. وعن أحمد ثلاث روايات أشهرها كمذهب أبي حنيفة وهي التي اختارها الخرقي، والثانية كمذهب مالك والشافعي. والثالثة التخيير بينهما وأنهما في الفضيلة سواء. (اختلاف الأئمة العلماء ج 1 ص 107)
(ثُمَّ يَضَعُ كَفَّ يَدِهِ الْيُمْنَى عَلَى كُوعِ الْيُسْرَى ... وَيَجْعَلُهُمَا تَحْتَ سُرَّتِهِ، هَذَا الْمَذْهَبُ, وَعَلَيْهِ جَمَاهِيرُ الْأَصْحَابِ, وَعَنْهُ – أي: الإمام أحمد - يَجْعَلُهُمَا تَحْتَ صَدْرِهِ, وَعَنْهُ يُخَيَّرُ الانصاف ج 2 ص 41)
الشرح الممتع على زاد المستقنع میں: "يقبض كُوعَ يسراه تحت سرته" کے تحت مذکور ہے:
"وهذه الصفة ـ أعني: وَضْع اليدين تحت السُّرَّة ـ هي المشروعة على المشهور مِن المذهب, وفيها حديث علي - رضي الله عنه - أنه قال: «مِن السُّنَّةِ وَضْعُ اليدِ اليُمنى على اليُسرى تحت السُّرَّةِ», وذهب بعضُ العلماء: إلى أنه يضعها فوق السُّرة، ونصَّ الإِمام أحمد على ذلك, وذهب آخرون مِن أهل العِلم: إلى أنه يضعهما على الصَّدرِ، وهذا هو أقرب الأقوال، والوارد في ذلك فيه مقال، لكن حديث سهل بن سعد الذي في البخاري ظاهرُه يؤيِّد أنَّ الوَضْعَ يكون على الصَّدرِ، وأمثل الأحاديث الواردة على ما فيها من مقال حديث وائل بن حُجْر أن النبيَّ صلّى الله عليه وسلّم: «كان يضعُهما على صدرِه» .انتهى.(الشرح الممتع على زاد المستقنع لابن عثیمین ج 3 ص 36)
فقہ حنبلی میں ابن مفلح کی مشہور کتاب "المبدع شرح المقنع" میں ہے:
(وَيَجْعَلُهُمَا تَحْتَ سُرَّتِهِ) فِي أَشْهَرَ الرِّوَايَاتِ، وَصَحَّحَهَا ابْنُ الْجَوْزِيِّ وَغَيْرُهُ؛ لِقَوْلِ عَلِيٍّ: مِنَ السُّنَّةِ وَضْعُ الْيُمْنَى عَلَى الشِّمَالِ تَحْتَ السُّرَّةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَأَبُو دَاوُدَ، وَذُكِرَ فِي "التَّحْقِيقِ" أَنَّهُ لَا يَصِحُّ ... وَعَنْهُ: تَحْتَ صَدْرِهِ، وَفَوْقَ سُرَّتِهِ، وَعَنْهُ: يُخَيَّرُ، اخْتَارَهُ فِي "الْإِرْشَادِ" لِأَنَّ كُلًّا مِنْهُمَا مَأْثُورٌ، وَظَاهِرُهُ يُكْرَهُ وَضْعُهُمَا عَلَى صَدْرِهِ، نُصَّ عَلَيْهِ مَعَ أَنَّهُ رَوَاهُ. المبدع شرح المقنع: ج 1 ص 431)
امام نووی رحمہ اللہ اس مسئلے میں مذاہب ائمہ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
يجعلهما تحت صدره فوق سرته، هذا مذهبنا المشهور، وبه قال الجمهور، وقال أبوحنيفة وسفيان الثوري وإسحاق بن راهويه وأبوإسحاق المروزي من أصحابنا: يجعلهما تحت سرته، وعن علي بن أبي طالب رضي الله عنه روايتان كالمذهبين، وعن أحمد روايتان كالمذهبين، ورواية ثالثة أنه مخير بينهما ولا ترجيح، وبهذا قال الأوزاعي وابن المنذر، وعن مالك رحمه الله روايتان إحداهما يضعهما تحت صدره، والثانية يرسلهما ولا يضع إحداهما على الأخرى، وهذه رواية جمهور أصحابه وهي الأشهر عندهم، وهي مذهب الليث بن سعد، وعن مالك رحمه الله أيضاً استحباب الوضع في النفل، والإرسال في الفرض، وهو الذي رجحه البصريون من أصحابه، وحجة الجمهور في استحباب وضع اليمين على الشمال حديث وائل المذكور هنا، وحديث أبي حازم عن سهل بن سعد رضي الله عنه قال: كان الناس يؤمرون أن يضع الرجل اليد اليمنى على ذراعيه في الصلاة. قال أبو حازم: ولا أعلمه إلا ينمي ذلك إلى النبي صلى الله عليه وسلم. رواه البخاري. ودليل وضعهما فوق السرة حديث وائل بن حجر قال: صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ووضع يده اليمنى على يده اليسرى على صدره. رواه ابن خزيمة في صحيحه. وأما حديث علي رضي الله عنه أنه قال: من السنة في الصلاة وضع الأكف على الأكف تحت السرة ضعيف متفق على تضعيفه. رواه الدارقطني والبيهقي من رواية أبي شيبة عبد الرحمن بن إسحاق الواسطي. وهو ضعيف بالاتفاق، قال العلماء: والحكمة في وضع إحداهما على الأخرى أنه أقرب إلى الخشوع ومنعهما من العبث. انتهى. صحیح مسلم بشرح النووی، کتاب الصلوة، باب 16، باب التشھد فی الصلوة، حدیث نمبر 55، (402)
ان تفصیلات سے واضح ہے کہ قیام میں ہاتھ باندھنے کے سلسلے میں بنیادی طور پر تین مذاہب ہیں:
1: امام مالک اپنے مشہور قول کے مطابق ارسال وسدل کے قائل ہیں۔
2: احناف ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں۔
3: شوافع ناف کے اوپر اور سینہ کے نیچے ہاتھ باندھنے کے قائل ہیں، حنابلہ دونوں فریق کے ساتھ ہیں، کوئی ایک حتمی مذہب ان کا نہیں ہے۔
مرد کا سینہ پہ ہاتھ باندھنا خرق اجماع ہے:
سینہ پہ ہاتھ باندھنا ائمہ اربعہ متبوعین میں سے کسی کا بھی مذہب نہیں، یعنی مردوں کے لئے سینہ کے اوپر ہاتھ باندھنا خلاف اجماع ہے، علامہ خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
(فانحصر مذاهب المسلمين في ثلاثة: أحدها: الوضع تحت السرة. وثانيها: فوق السرة تحت الصدر. وثالثها: الإرسال. بل انحصر الوضع في هيئتين: تحت الصدر، وتحت السرة. ولم يوجد مذهب من مذاهب المسلمين أن يكون الوضع على الصدر، فقول الوضع على الصدر قول خارج عن مذاهب المسلمين، وخارق لإجماعهم المركَّب. (بذل المجهود فی حل ابی داؤد: 4 ص 222، حدیث نمبر 757، ط دارالکتب العلمیہ)
عورت ومرد کے مابین بالکلیہ مساوات نہیں ہے:
عورت اور مرد کے مابین صنفی اعتبار سے بین فرق ہے، خلقی اعتبار سے خواتین میں بدیہی ضعف ہے، عقل ودرک، فکری بلوغت وپختگی اور جسمانی ساخت وقوت کے لحاظ سے بھی وہ ضعیف ہے۔ عورت سراپا پردہ پر ہے:
1173: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُوَرِّقٍ، عَنْ أَبِي الأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: «المَرْأَةُ عَوْرَةٌ، فَإِذَا خَرَجَتْ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ».سنن الترمذی 1173)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’عورت سراپا پردہ ہے، جب وہ نکلتی ہے تو شیطان اس کو جھانکتا ہے۔‘‘ ننگے سر، کہنیاں اور ٹخنے کھولکر عورت کی نماز جائز نہ ہونا، مسجد کی بجائے گھر میں ان کی نماز کا افضل ہونا، ان کی اذان اقامت اور امامت کا مکروہ ہونا، بعض اعذار ومصالح کے پیش نظر اندرون خانہ عورتوں کی امامت کے وقت مردوں کے امام کی طرح صف کے آگے نہ بڑھنا، ایام حیض میں ان سے نماز کا معاف ہونا، قرأت اور آمین بالجہر کی اجازت نہ ملنا، جماعت میں شرکت ان کے لئے ضروری نہ ہونا اور ان پہ جمعہ وعیدین واجب نہ ہونا بتاتا ہے کہ ستر وپردے کی رعایت کی وجہ سے وہ بیشتر مسائل دین میں مردوں سے الگ ہیں۔ دونوں میں تمام احکام نماز میں مساوات کا مطالبہ کرنا اور بعض احکام میں دونوں کے مابین فرق کو بے اصل کہنا بجائے خود بے اصل ہے۔ اسی وجہ سے اندرون نماز بھی رکوع، سجود اور جلسے کی ہیئتوں میں عورت مرد سے مختلف ہے، متعدد احادیث، آثار واقوال ائمہ سے دونوں میں ہیئتوں اور کیفیتوں کا اختلاف وفرق ثابت اور مسلم ہے۔ تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے
احکام نماز میں عورت ومرد کے مابین اصولی فرق امام بیہقی کی نظر میں:
امور دین میں جس حکم کا تعلق بھی ستر وپردہ پوشی سے ہو وہ عورتوں کے لئے ثابت ہے، اوپر ذکر کردہ نظائر اس کا بین ثبوت ہے. اسی وجہ سے چوتھی صدی ہجری کے حدیث وفقہ کے یکتائے روزگار، عظیم محدث وناقد حدیث، امام حاکم، ابواسحاق اسفرائینی اور عبداللہ بن یوسف اصبہانی جیسے ائمہ حدیث کے بلند مرتبہ شاگرد، ابوبکر احمد بن حسین بن علی بیہقی خراسانی 384ھ ۔۔۔ 458 ھ نے اپنی مشہور کتاب "السنن الکبری" (جو اپنی جامعیت، ہمہ گیری احاطہ استیعاب کے لحاظ سے تحقیق ونقد حدیث کے طرق میں باریکیوں و رموز سے آگاہی کے متمنی ارباب علم ونظر ومسافران علم وتحقیق کے لئے سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے) میں باضابطہ باب قائم کرکے ان تمام روایات کا احاطہ کیا ہے جو عورتوں کے لئے ستر وپردہ پوشی کے مقصد سے ہیئتوں اور کیفیتوں میں مردوں سے ممتاز کرتی ہیں. باب کا عنوان ہے:
وَجُمَّاعُ مَا يُفَارِقُ الْمَرْأَةَ فِيهِ الرَّجُلُ مِنْ أَحْكَامِ الصَّلَاةِ رَاجِعٌ إِلَى السِّتْرِ، وَهُوَ أَنَّهَا مَأْمُورَةٌ بِكُلِّ مَا كَانَ أَسْتَرَ لَهَا وَالْأَبْوَابُ الَّتِي تَلِي هَذِهِ تَكْشِفُ عَنْ مَعْنَاهُ وَتُفَصِّلُهُ، وَبِاللهِ التَّوْفِيقُ۔ (السنن الكبرى للبيهقي ج ٢ ص ٣١٤، شاملہ ۔۔۔ مرد اور عورت کی نماز میں باہمی فرق کے تمام تر مسائل کی بنیاد ستر اور پردہ ہے، چنانچہ عورت کو نماز میں اسی طریقے کا حکم دیا گیا ہے جو عورت کے لئے زیادہ ستر اور پردے کا باعث ہو)
اس میں "أَنَّهَا مَأْمُورَةٌ بِكُلِّ مَا كَانَ أَسْتَرَ لَهَا" خصوصیت کے ساتھ قابل غور ہے، یہی وہ بنیادی اصول ہے جس پہ مرد وعورت احکام نماز میں ایک دوسرے سے ممتاز ہوتے ہیں۔
عورت اور مرد کے درمیان ہیئتوں میں فرق کی چند روایات انہوں نے ذکر کی ہیں جو درج ذیل ہیں:
335 باب ما يستحب للمرأة من ترك التجافي في الركوع والسجود قال إبراهيم النخعي كانت المرأة تؤمر إذا سجدت أن تلزق بطنها بفخذيها كيلا ترتفع عجيزتها ولا تجافي كما يجافي الرجل). 3014- أخبرنا أبو عبد الله الحافظ أنبأ أبوبكر بن إسحاق الفقيه أنبأ الحسن بن علي بن زياد قال ثنا سعيد بن منصور ثنا أبوالأحوص عن أبي إسحاق عن الحارث قال قال علي رضي الله عنه: إذا سجدت المرأة فلتضم فخذيها وقد روي فيه حديثان ضعيفان لا يحتج بأمثالهما أحدهما حديث عطاء بن العجلان عن أبي نضرة العبدي عن أبي سعيد الخدري صاحب رسول الله صلى الله عليه و سلم عن رسول الله صلى الله عليه و سلم أنه قال خير صفوف الرجال الأول وخير صفوف النساء الصف الأخر وكان يأمر الرجال أن يتجافوا في سجودهم ويأمر النساء ينخفضن في سجودهن وكان يأمر الرجال أن يفرشوا اليسرى وينصبوا اليمني في التشهد ويأمر النساء أن يتربعن وقال يا معشر النساء لا ترفعن أبصاركن في صلاتكن تنظرن إلى عورات الرجال أخبرناه أبو عبد الله الحافظ ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا العباس بن الوليد بن مزيد البيروتي أنبأ محمد بن شعيب أخبرني عبدالرحمن بن سليم عن عطاء بن عجلان أنه حدثهم فذكره واللفظ الأول واللفظ الآخر من هذا الحديث مشهوران عن النبي صلى الله عليه و سلم وما بينهما منكر والله أعلم والآخر حديث أبي مطيع الحكم بن عبد الله البلخي عن عمر بن ذر عن مجاهد عن عبد الله بن عمر قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا جلست المرأة في الصلاة وضعت فخذها على فخذها الأخرى وإذا سجدت الصقت بطنها في فخذيها كأستر ما يكون لها وإن الله تعالى ينظر إليها ويقول يا ملائكتي أشهدكم أني قد غفرت لها. 3015 - أخبرنا أبو سعد الصوفي أنبأ أبو أحمد بن عدي ثنا عبيد بن محمد السرخسي ثنا محمد بن القاسم البلخي ثنا أبو مطيع ثنا عمر بن ذر: فذكره قال أبوأحمد أبومطيع بين الضعف في أحاديثه وعامة ما يرويه لا يتابع عليه قال الشيخ رحمه الله وقد ضعفه يحيى بن معين وغيره وكذلك عطاء بن عجلان ضعيف وروي فيه حديث منقطع وهو أحسن من الموصولين قبله. 3016 - أخبرناه أبوبكر محمد بن محمد أنبأ أبوالحسين الفسوي ثنا أبوعلي اللؤلؤي ثنا أبوداود ثنا سليمان بن داود أنبأ بن وهب أنبأ حيوة بن شريح عن سالم بن غيلان عن يزيد بن أبي حبيب: أن رسول الله صلى الله عليه و سلم مر على امرأتين تصليان فقال إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلى الأرض فإن المرأة ليست في ذلك كالرجل۔ [سنن البيهقي الكبرى 223/2]
اسی طرح زمانہ خیرالقرون 126 ہجری میں پیدا ہونے والے، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، عبداللہ بن مبارک، عبدالرحمن بن عمرواوزاعی، فضیل بن عیاض، مالک بن انس، معمر بن راشد اور جعفر بن سلیمان جیسے ائمہ حدیث کے شاگرد، امام احمد بن حنبل، علی بن مدینی، یحی بن معین اور محمد بن یحی ذہلی جیسے ائمہ حدیث کے استاذ اور صحیح بخاری، صحیح مسلم، صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن الجارود، صحیح ابن حبان، صحیح ابی عوانہ اور مستدرک حاکم وغیرہ کے رجال میں سے ایک اہم رجل امام عبدالرزاق بن ہمام بن نافع حمیری یمانی صنعانی ہیں، آپ اپنی مایہ ناز کتاب مصنف عبدالرزاق میں اندرون نماز عورتوں کے لئے مخصوص احکام کی روایات ذکر کی ہیں، ایک نظر ان پر بھی ڈالتے چلیں:
امام عبدالرزاق بن ہمام صنعانی کی نظر میں مرد وعورت کے مابین ہیئتوں میں فرق:
قلت لعطاء أتشير المرأة بيديها کالرجال بالتکبير؟ قال لا ترفع بذلك يديها کالرجال وأشار أفخفض يديه جدا وجمعهما إليه وقال إن للمرأة هية ليست للرجل. مصنف عبدالرزاق، 3: 137، الرقم: 5066
’’میں نے عطا سے پوچھا کہ عورت تکبیر کہتے وقت مردوں کی طرح ہاتھوں سے اشارہ کرے گی؟ انہوں نے کہا عورت تکبیر تحریمہ کے وقت مردوں کی طرح ہاتھ نہیں اٹھائے گی، اشارہ سے بتایا عطاء نے اپنے ہاتھ بہت نیچے کئے اور اپنے ساتھ ملائے اور فرمایا عورت کی صورت مرد جیسی نہیں۔‘‘ حضرت عطا کہتے ہیں:
تجمع المراة يديها فی قيامهاما استطاعت
’’عورت کھڑے ہوتے وقت نماز میں جہاں تک ہوسکے ہاتھ جسم سے ملاکر رکھے۔‘‘ مصنف عبدالرزاق، 3: 137، الرقم: 5067. حسن بصری اور قتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
إذا سجدت المرأة فأنها تنفم ما استطاعت ولا تتجافی لکی لا ترفع عجيزتها. عبدالرزاق، المصنف، 3 : 137، الرقم: 5068
جب عورت سجدہ کرے تو جتنا ہوسکے سمٹ جائے اعضاء کو جدا نہ کرے مبادا جسم کا پچھلا حصّہ بلند ہوجائے۔
کانت تؤمر المرأة ان تضع زراعيها بطنها علی فخذيها إذا سجدت ولا تتجا فی کما يتجا فی الرجل. لکی لا ترفع عجيز تها. مصنف عبدالرزاق، 3 : 138، الرقم : 5071
’’عورت کو حکم دیا گیا ہے کہ سجدہ کرتے وقت اپنے بازو اور پیٹ رانوں پر رکھے اور مرد کی طرح کھلا نہ رکھے تاکہ اس کا پچھلا حصہ بلند نہ ہو۔‘‘
عن علی قال إذا سجدت المرأة فلتحتفر ولتلصق فخذ يها ببطنها. مصنف عبدالرزاق، 3: 138، الرقم : 5072
’’حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے جب عورت سجدہ کرے تو سمٹ جائے اور اپنے ران اپنے پیٹ سے ملائے۔‘‘
عن نافع قال کانت صفية بنت أبی عبيد إذا جلست فی مثنی أوأربع تربعت.
مصنف عبدالرزاق، 3: 138، الرقم: 5074. صفیہ بنت ابوعبید جب دو یا چار رکعت والی نماز میں بیٹھتیں مربع ہوکر بیٹھیتں۔
عن قتاده قال جلوس المرأة بين السجدتين متورکة علی شقها الأيسر وجلوسها تشهد متربعة. مصنف عبدالرزاق، 3: 139، الرقم: 5075
’’عورت دو سجدوں کے درمیان بائیں طرف سرینوں کے بل بیٹھے اور تشہد کے لئے مربع صورت میں۔‘‘ ان روایات وآثار سے واضح ہے کہ عورت اور مرد کی ہیئات نماز میں فرق ہے، دونوں کا حکم یکساں نہیں ہے، عورت کے لئے ستر مقدم ہے، جس ہیئت میں عورت کی پردہ پوشی زیادہ ہو وہ ہیئت اس کے لئے مطلوب ومستحب ہوگی ۔ یہ بنیادی نکتہ اور اصولی فرق امام بیہقی کے ترجمہ میں اوپر ذکر ہوچکا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ بھی دونوں کے مابین فرق کے قائل ہیں. فرماتے ہیں:
’’و قد أدّب اللّٰہ تعالیٰ النسائَ بالاستتار، و أدَّبَھُنَّ بذلک رسولُ اللّٰہ ﷺ، وأحبَّ للمرأۃ في السجود أن تَضُمَّ بعضَھا إلی بعض، و تلصق بطنَھا بِفَخِذَیْھا، و تسجُدَ کأسْترِ ما یَکُوْنَ لھا، و ھکذا أحَبَّ لھا في الرکوع، و الجلوس، و جمیع الصلوۃ أنْ تَکُوْنَ فیھا کأسْتَرِ ما یَکُوْنُ لھا، وأحبَّ أن تکفت جلبابھا، وتجافیہ راکعۃً وساجدۃً علیھا لئلایصفھا ثیابھا‘‘
(اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو پوشیدہ اور مستور رہنے کی تعلیم دی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کو اس کی تعلیم دی ہے اور عورت کے لئے اس بات کو پسند فرمایا، کہ وہ سجدے میں اپنے بعض حصے کو بعض سے اور اپنے پیٹ کو رانوں سے ملاکر رکھے اور اس طرح سجدہ کرے کہ اس کے حق میں زیادہ سے زیادہ پردہ ہوجائے، نیز اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لئے رکوع اور جلسے اور پوری نماز میں اس بات کو پسند فرمایا ہے، کہ وہ اس اندازسے نماز پڑھے کہ زیادہ سے زیادہ مستور وپوشیدہ رہے اور یہ بھی پسند فرمایاکہ وہ اپنی چادر کو سمیٹ لے اور چادر کو رکوع اور سجدہ کرتے ہوئے اپنے اوپر ڈھیلا رکھے؛ تاکہ اس کے کپڑے (چست ہونے کی وجہ سے) اس کی تصویر نہ کھینچیں۔ حاصل کلام یہ کہ ان احادیث اور آثار سے بہ طور قدر ِمشترک یہ بات ثابت ہوتی ہے، کہ مرد وعورت کی نمازمیں فرق ہے اور یہ فرق اس بات پر مبنی ہے کہ عورت زیادہ سے زیادہ مستور وپوشیدہ رہے۔ (کتاب الأم للإمام شافعي:۱/۱۱۵) مستفاد دلیل نماز بہ جواب حدیث نماز ص 175)
عورت قیام میں ہاتھ کہاں رکھے گی؟ اس کا سینے پر ہاتھ باندھنا کس حدیث سے ثابت ہے؟
احناف کے یہاں مردوں کے لئے ناف کے نیچے جبکہ عورتوں کے لئے سینہ پر ہاتھ باندھنا درج ذیل دلائل کی وجہ سے مسنون ہے:
1: حضرت عطا کا صحیح قول مصنف عبدالرزاق کے حوالے اوپر آچکا ہے. "تجمع المراة يديها فی قيامها ما استطاعت" ’’عورت کھڑے ہوتے وقت نماز میں جہاں تک ہوسکے ہاتھ جسم سے ملاکر رکھے۔‘‘
مصنف عبدالرزاق، 3: 137، الرقم : 5067، جامع احکام النساء ج 1ص 372، جملة أخرى من الآثار)
یہ روایت صاف بتارہی ہے کہ قیام کی حالت میں عورت اپنے ہاتھوں کو جتنا سمیٹ سکتی ہے سمیٹے گی، سینہ پہ ہاتھ رکھنے میں پردہ کی رعایت زیادہ ہے جو اس کے لئے مطلوب ومستحب ہے؛ لہذا اسی لئے عورت کے حق میں سینہ پہ ہاتھ رکھنا مستحب ہے۔
2: سنن بیہقی، مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں عورت ومرد کی ہیئتوں کا جو فرق بیان کیا گیا ہے اس کے "اقتضاء واشارة النص" سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کے لئے سینہ پر ہاتھ باندھنا مسنون ومستحب ہے کہ اس میں اس کے ستر کا زیادہ لحاظ ہے.
3: روى أبو وائل عن أبي هريرة قال: من السنة أن يضع الرجل يده اليمنى تحت السرة في الصلوة (أخرجه أبوداؤد باب وضع اليمنى على اليسرى في الصلوة ١٩٤/١، والدار قطني باب في أخذ الشمال باليمين في الصلوة ٢٨٤/١)
اس روایت میں ناف کے نیچے ہاتھ رکھنے کا مسنون ہونا بہ صراحت مردوں کے لئے کہا گیا ہے. مرد کی صراحت اشارہ ہے کہ یہ حکم عورت کے لئے نہیں ہے، عورت کے لئے وہ ہیئت اختیار کی جائے گی جو اس کے لئے زیادہ ستر اور پردے کا باعث ہو، اور وہ سینے پہ ہاتھ رکھنا ہے جو عطا کے حوالے سے گزرچکا۔
4: اسی لئے فقہ حنفی کی تمام متون میں اس بات کی صراحت ہے کہ عورت کے لئے سینہ پہ ہاتھ رکھنا مسنون ہے اور وہ اس حوالے سے مرد سے مختلف ہے۔ متون حنفیہ میں عورت کے سینہ پر ہاتھ رکھنے کی صراحت. علامہ کاسانی لکھتے ہیں:
وأما محل الوضع فما تحت السرة في حق الرجل والصدر في حق المرأة، وقال الشافعي: محله الصدر في حقهما جميعا واحتج بقوله تعالى {فصل لربك وانحر} (بدائع الصناع 2/281)
علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:
واستدل مشايخنا بما روى عن النبي - ﷺ - أنه قال: (ثلاث من سنن المرسلين وذكر من جملتها وضع اليمين على الشمال تحت السرة لكن المخرجين لم يعرفوا فيه مرفوعا وموقوفا تحت السرة ويمكن أن يقال في توجيه المذهب أن الثابت من السنة وضع اليمين على الشمال ولم يثبت حديث يوجب تعيين المحل الذي يكون فيه الوضع من البدن إلا حديث وائل المذكور وهو مع كونه واقعة حال لاعموم لها يحتمل أن يكون لبيان الجواز فيحال في ذلك كما في فتح القدير على المعهود من وضعهما حال قصد التعظيم في القيام والمعهود في الشاهد منه أن يكون ذلك تحت السرة فقلنا به في هذه الحالة في حق الرجل بخلاف المرأة فإنها تضع على صدرها لأنه أستر لها فيكون في حقها أولى (البحرالرائق 561/1 زکریا)
اللباب في شرح الكتاب ج1 ص 62 میں ہے:
وتضع المرأة الكف على الكف تحت الثدى
علامہ قہستانی جامع الرموز شرح النقایہ میں لکھتے ہیں:
وإذا كبر يضع يمينه على شماله تحت سرته لانه من سنن الرسل وفي الاكتفاء إشعار بان المرأة في ذالك كالرجل لكن في المضمرات وغيرها انها تضع على صدرها ولا يبعد أن يشار بتذكير الضمير الى مخالفه الحكم (جامع الرموز شرح مختصرالوقاية المسمى بالنقاية ص 83، لشمس الدين الخراساني القهستاني ط كلكته سنة 1858، 1272هجري)
علامہ ابراہیم بن محمد بن ابراہیم حلبی کبیر وصغیر میں لکھتے ہیں:
وأما المرأة فانها تضعهما ثدييها بالاتفاق لانه استر لها (غنية المتملي شرح منية المصلي المشتهر بحلبي كبير ص 301) وفي حلبي صغير ص 148: ويضعهما الرجل تحت السرة وعند الشافعي على الصدر وهو رواية عن مالك واحمد والمرأة تضعهما تحت ثديها بالاتفاق لانه استر لها (حلبي صغير ص 148) وتضع یمینها علی شمالها تحت ثدییها (البحرالرائق 561/1 زکریا) ویسن وضع المرأۃ یدیها علی صدرها من غیر تحلیق؛ لأنه أستر لها(مراقي الفلاح علی حاشیۃ الطحطاوي 259) ولهذا تضع المرأۃ یدیها علی صدرها۔ (البنایۃ شرح ہدایۃ 610/1) ثم یعتمد بیمینه علی رسغ یسارہ تحت أسرته، وعند الشافعي تحت الصدر کما في وضع المرأۃ عندنا۔ (مجمع الأنهر 470/1 زکریا) والمرأۃ تضعها علی ثدییها (الفتاویٰ الهندیۃ 73/1) قوله تحت السرۃ، وفي النهر الفائق إلا المرأۃ والخنثی المشکل ففوق الصدر۔ (النهرالفائق شرح کنز الدقائق للشیخ سراج الدین عمر بن نجیم المصري ۱؍۲۰۷، فتاوی رحیمیہ 222/7)
5: ہاتھ باندھنے میں عورت ومرد کی تفریق کی دلیل اتفاق ائمہ بھی ہے:
امام مالک کا مشہور مذہب تو ارسال کا ہے، وہ درمیان سے نکل گئے، حنابلہ کے مذہب میں تین روایتیں ہیں، ایک امام شافعی کے موافق دوسری تخییر کی، تیسری احناف کے موافق، موافق احناف روایت کو چھوڑ دیں تو ان کا مذہب بھی موافق شوافع وضع علی الصدر کا ہوا، عورت کے لئے باعث پردہ ہونے کی وجہ سے وضع علی الصدر کے قائل ہم بھی ہوئے، شوافع بھی اور حنابلہ بھی، امام مالک کی روایت موافق شافعی وضع علی الصدر کا بھی ہے، دیکھیئے اختلاف ائمہ پہ ابن ہبیرہ کی دستاویزی کتاب: أبوالمظفر قاضى يحى بن محمد بن هبيرة الشيبانى حنبلی متوفى ٥٦٠ هجري تحریر فرماتے ہیں:
واختلفوا في محل وضع اليمين على الشمال، فقال أبو حنيفة: يضعهما تحت السرة. وقال مالك والشافعي: يضعهما تحت صدره وفوق سرته. وعن أحمد ثلاث روايات أشهرها كمذهب أبي حنيفة وهي التي اختارها الخرقي، والثانية كمذهب مالك والشافعي. والثالثة التخيير بينهما وأنهما في الفضيلة سواء. (اختلاف الأئمة العلماء ج 1 ص 107)
اس اعتبار سے امام مالک بھی عورت والے مسئلے میں ہم سب کے ساتھ ہوگئے، اور یوں عورت کے لئے وضع علی الصدر پہ ائمہ اربع کا اجماع واتفاق ہوگیا، اجماع مستقل دلیل وحجت شرع ہے، لہذا اس دلیل سے بھی عورت کا سینہ پہ ہاتھ رکھنا ثابت ہورہا ہے. عبدالرحمن جزیری صاحب نے الفقہ علی المذاہب الاربعہ ج 1 ص 227 میں حنابلہ کا جو یہ مذہب نقل کیا ہے:
"الحنابلة قالوا: السنة للرجل والمرأة أن يضع باطن يده اليمنى على ظهر يده اليسرى ويجعلها تحت سرته."
وہ بلا دلیل ومصدر ہونے کے باعث ناقابل اعتبار واستدلال ہے، یہ کتاب فقہ حنبلی کی کتاب نہیں ہے کہ اس سے ان کے مذہب پہ استدلال کیا جاسکے، مذہب حنابلہ کی مستند ومعتبر کتابوں کے حوالے سے مسلک حنابلہ اوپر کی سطروں میں تفصیل کے ساتھ ذکر کردیا گیا ہے، لہذا عورت کا سینے پہ ہاتھ باندھنا ائمہ اربعہ متبوعین کے درمیان اتفاقی مسئلہ ہوا، اسی لئے ہمارے فقہاء لکھتے ہیں:
"وَ الْمَرْاَة تَضَعُ [یَدَیْها]عَلٰی صَدْرِها بِالْاِتِّفَاقِ". (مستخلص الحقائق شرح کنزالدقائق: ص 153)
عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی، اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔
"وَالْمَرْاَةُ تَضَعُ [یَدَیْها]عَلٰی صَدْرِها اِتِّفَاقًا؛ لِاَنَّ مَبْنٰی حَالِها عَلَی السَّتْرِ". (فتح باب العنایة: ج 1 ص 243 سنن الصلاة)
عورت اپنے ہاتھ سینہ پر رکھے گی، اس پر سب فقہاء کا اتفاق ہے، کیوں کہ عورت کی حالت کا دارو مدار پردے (ستر) پر ہے۔
"وَاَمَّا فِي حَقِّ النِّسَاءِ فَاتَّفَقُوْا عَلٰی أَنَّ السُّنَّةَ لَهُنَّ وَضْعُ الْیَدَیْنِ عَلَی الصَّدْرِ لِأَنَّهَا أَسْتَرُ لَهَا". (السعایة ج 2 ص 156)
رہا عورتوں کے حق میں [ہاتھ باندھنے کا معاملہ] تو تمام فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ان کے لئے سنت سینہ پر ہاتھ باندھنا ہے؛ کیوں کہ اس میں پردہ زیادہ ہے۔ ان تفصیلات سے واضح ہے کہ عورت کا سینے پہ ہاتھ باندھنا اتفاق واجماع ائمہ سے ثابت ہے. اور عورت ومرد کے مابین نماز کی ہیئت اور ہاتھ باندھنے کی کیفیت میں فرق و امتیاز، روایات، آثار، اقوال ائمہ واجماع ائمہ اربعہ سے ثابت ہے، اس فرق کو بے اصل کہنا خود بے اصل اور ناواقفیت پر مبنی ہے۔
واللہ اعلم بالصواب