کچھ تو ہے جس کی ...
(ساگر ٹائمز)انگریزی دور کی آخری نصف صدی میں نیتاجی سبھاش چندر بوس اس
برصغیر کے واحد لیڈر تھے جنہیں سارے ہندوستانیوں کا اعتماد حاصل تھا۔
انکے علاوہ کوئی دوسرا شخص پیدا ہی نہیں ہوا جس پر سبھی ہندوستانیوں کو
اعتماد ہوتا۔ گاندھی جی لیڈر تھے، لیکن صرف طبقہ اعلیٰ کے ہندووں کے۔
قائد اعظم محمد علی جناح لیڈر تھے، لیکن صرف مسلمانوں کے۔ ماسٹر تارا گھ
لیڈر تھے لیکن صرف سکھوں کے۔ ڈاکٹر امبیڈکر لیڈر تھے، لیکن صرف اچھوتوں
اور چند مسلمانوں و چند پچھڑوں کے۔
اس حالت سے 1939میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی۔ نیتا جی سبھاش چندر بوس نے
اعلان کیا کہ جب تک انگریز اعلان نہ کردے کہ ہم جنگ کے بعد بھارت چھوڑ کر
چلے جائیں گے تب تک انگریزی فوج کے ہندوستانیوں کو جنگ میں حصہ نہیں لینا
چاہئے، لیکن فوراً گاندھی جی نے جوابی اعلان کردیا کہ ایسی حالت میں جب
انگریز پریشانیوں سے گھر گیا ہوگا ان سے تعاون نہ کرنا ستیہ اور اہنسا کے
اصولوں کےخلاف ہے۔اس حالت میں مسٹر جناح کو کوئی بیان دینے کی ضرورت ہی
نہ تھی۔اسکے بعد انگریزہی نہیں کانگریسی بھی نیتا جی کے خون کے پیاسے
ہوگئے ۔ ایسی حالت میں ضلع مروان صوبہ سرحد کے فارورڈ بلاک لیڈر بھگت رام
تلوار نیتا جی کو پٹھانی لباس پہنا کر کلکتہ سے پشاور ٹرین سے لیکر گئے
اور پھر وہاں سے انہیں کابل پہونچادیا۔ کابل سے افغان لوگوں نے انہیں
جرمنی پہونچایا۔ 1941 میں جاپان بھی جنگ میںکودا۔ اور اس نے فلپائن،
انڈونیشیا، ملیشیا، تھائی لینڈر اور برما پر قبضہ کرلیا۔ اس وقت میرے
والد رنگون میں تھے۔ برما 1932تک بھارت کا ایک صوبہ رہا ہے۔ برما کی
راجدھانی رنگون انگریزوں کا بسایا ہوا جدید شہر تھا۔ وہاں کی تجارت معیشت
اور جائیدادوں کے زیادہ تر مالک سورت کے مسلمان تھے۔ یہاں شمالی ہند اور
بنگال کے لوگ بھی بڑی تعداد میں تھے ۔یہ سب بنگالی کہے جاتے تھے جبکہ
گجراتی تاجروں کو وہاں سورتی کہا جاتا تھا۔میرے والد بتاتے تھے کہ انکے
وہاں رہتے نیتا جی رنگون پہونچے اور مشرق بعید میں ہتھیار ڈالنے والی
انگریزی فوج کے ہندوستانی سپاہیوں افسران اور وہاں کی ہندوستانی آبادی
میں سے نوجوانوں کی نئی بھرتی کر کے آزاد ہند فوج بنائی۔ فوجی اخراجات
کےلئے نیتا جی تقریر کرتے اور حاضرین اپنی دولت جمع کرکے نیتا جی کو
دیتے۔ تقریر کے بعد نیتا جی کی قلم، ٹوپی، رومال اور چشمہ نیلا م کیا
جاتا جس سے اس زمانے میں بھاری رقمیں جمع ہوتیں۔ پردہ نشین خواتین اپنے
سارے زیور اتار کر ان پر نثار کردیتیں۔ چند دنوں میں اتنی دولت جمع ہوگئی
جس سے فوج کے اخراجات بہ آسانی پورے ہوئے۔ یہ واضح کردوں کہ آزاد ہند فوج
میں لگ بھگ پچاس فیصد سپاہی اور آفیسر مسلمان تھے اور مشرق بعید میں جتنا
چندہ جمع ہوا اس کا ستر فیصدی پیسہ مسلمانوں نے دیا۔ تیاری پوری کر کے
نیتا جی برما کے پہاڑوں کو عبور کر کے بھارت میں داخل ہوئے اور منی پور
پر قبضہ کر کے امپھال کو اپنا ہیڈکوارٹر بنایا۔ اور جاپان کی فوجی مدد
اور بھاری اسلحہ پہونچنے کا انتظار کررہے تھے۔ بھارت پر قبضہ کرنے میں
ایک مہینہ بھی نہ لگتا کیونکہ انگریزی فوج یہاں تھی ہی نہیں ۔وہ ہٹلر سے
برطانیہ کو بچانے کےلئے یورپ میں تھی۔لیکن قسمت بھی کوئی چیز ہوتی ہے
!اسی دوران یورپ میں جرمنی کو شکست ہوگئی۔ ہٹلر اور اس سے پہلے مسولینی
نے خود کشی کرلی اور یورپ وامریکہ کی متحدہ طاقت جاپان پر ٹوٹ پڑی جسکی
وجہ سے نیتا جی کو جاپان کی فوجی مدد نہیں پہونچ پائی۔ دنیا کی متحدہ
طاقت جب جاپان سے کچھ بھی علاقہ واپس لینے میں ناکام رہی تب امریکہ نے
5اگست 1945کو ہیروشیما پر اور 8اگست 1945کو ناگا ساکی پر ایٹم بم گرادیا۔
اور اعلان کیا کہ اگر جاپان نے ہتھیار نہ ڈالا توہم جاپان کے ہر شہر پر
ایٹم بم گرائیں گے۔ جاپان نے 10اگست 1945 کو ہتھیار ڈال دیئے جنگ ختم
ہوگئی۔برطانیہ میں فوراً انتخابات ہوئے اور لیبر پارٹی نے اپنے منشور میں
کہا کہ اگر لیبر پارٹی چناوجیتی تو ہم دنیا بھر کے ملکوں کو آزاد کر کے
برطانیہ تک محدود ہوجائینگے۔ لیبر پارٹی نے جیتتے ہی پوری دنیا کو
خوشخبری ادی کہ ہر ملک اپنا انتظام چلانے کی فکر کرلے۔
یہ صحیح ہے کہ انگریز نے جن لوگوں کو جنگی مجرم ہونے کا اعلان کیا تھا ان
میں نیتا جی سبھاش چندر بوس بھی تھے۔ انکے کچھ قریبیوں سے میری بار بار
ملاقات ہوئی۔ انکا خیال تھا کہ نہرو انہیں پکڑ کر انگریزوں کے حوالے
کردیتا اس لئے نیتا جی منی پور سے چلے گئے۔ میرے گاوں کے جتنے لوگ آزاد
ہند فوج میں بھرتی ہوئے تھے سب ایک ساتھ منی پورسے آگئے۔ میرے والد برما
سے چٹگاو ¿ں تک پیدل پھر وہاں سے ریل سے فروری 1942میںاعظم گڑھ اپنے گاوں
آئے تھے۔ وہ کٹر مسلم لیگی تھے لیکن اس سے زیادہ نیتا جی سبھاش چندر بوس
کے بھگت تھے۔ وہ 2000تک زندہ رہے اور یہی کہتے رہے کہ اگر نیتا جی منی
پور سے واپس کلکتہ چلے آتے تو انگریز انہیں گرفتار کرتا، لیکن پورا ملک
اسطرح انکے ساتھ کھڑا ہوجاتا کہ انگریزمیں یہ ہمت نہیں تھی کہ انہیں
سزادیتا اگر نیتاجی آجاتے تو نہ تو ملک کا بٹوارہ ہوتا نہ ہی لاکھوں
انسان مارے جاتے ،نہ ہی کروڑوں انسان ہجرت پر مجبور ہوتے کیونکہ ہندو
مسلمان سکھ عیسائی سب انہیں اپنا لیڈر مان لیتے۔
اب سوال یہ ہے کہ نیتا جی گئے کہاں؟ ایک کہانی یہ سرکاری طور پر چلی کہ
وہ فضائی حادثہ میں ہلاک ہوگئے۔ دوسری کہانی یہ چلی کہ وہ روس چلے گئے
تھے۔ وہاں نہرو کے دباو پر اسٹالن نے انہیں جیل میں ڈال دیا پھر نہرو کی
خواہش پر اسٹالن نے انہیں مروادیا۔ نہرو اور اسٹالن کو جو لوگ جانتے ہیں
وہ اس کہانی پر یقین کرسکتے ہیں۔ تیسری کہانی یہ ہے کہ وہ بھیس بدل کر
ملک میں ہی چھپے رہے زیادہ وقت انہوں نے فیض آباد میں گمنامی بابا کی
حیثیت سے گذارا اور وہیں فوت ہوئے۔مجھے اب یاد آیا۔ کراچی سے ایک عالمی
شہرت کا رسالہ اردو ڈائجسٹ نکلتا تھا۔ اس میں آزاد ہند فوج کے ایک ایسے
بڑے آفیسر کا مضمون چھپا تھا جو رہنے والا تو مشرقی یوپی کا تھا، لیکن
پاکستان چلا گیا تھا ۔مجھے نام یاد نہیں آرہا ہے۔ ابھی چند دن پہلے کسی
ہندی اخبار میں اس کا نام چھپا تھا کہ وہ رنگون سے منی پور تک ہر وقت
نیتا جی کےساتھ رہتا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ میں پاکستان سے اپنے گاوں
آیا۔ وہاں سے میں دون ایکسپریس سے واپس جارہا تھا ۔ میرا سارا سامان ٹرین
میں تھا ۔میں کھڑکی سے لگ کر بیٹھا تھا۔ ٹرین فیض آباد میں رکی، میں نے
دیکھا کہ ایک شخص سادھو کے بھیس میں باہر سے آکر ٹرین کی طرف بڑھ رہا۔
بےساختہ میرے منہ سے نکلا ”ارے نیتاجی“ سادھو کی آنکھیں مجھ سے چار
ہوئیں۔ میں تیزی سے بوگی سے اترا ،لیکن سادھو اتنی دیر میں مڑکر تیز
قدموں سے باہر کیطرف چلا۔ میں گیٹ سے باہر ہوا توتیزی سے کافی آگے جاچکا
تھا ۔اتنی دیر میں ٹرین نے وِسل بجائی اور میں سامان کے لالچ میں بھاگ کر
ٹرین پر چڑھ گیا۔ اس نے لکھا کہ مجھے اپنے آپ پر غصہ آیا کہ میں نے سامان
کے چکر میں ٹرین کیوں پکڑی؟ پھر میں ٹرین سے کودنے کے چکر میں دروازے تک
آیا تب تک رفتار اتنی تیز ہوچکی تھی کہ کودنا ممکن نہ تھا۔ اس کا دعویٰ
تھا کہ نیتا جی کا میک اپ کر کے ایک لاکھ کی بھیڑ میں چھوڑ دیا جائے تب
بھی میں انہیں پہچان لوں گا کیونکہ انکی آنکھیں اور آنکھوں کی چمک سب سے
الگ تھیں۔اس کے کئی سال بعد ایک ہندی اخبار میں خبر چھپی کہ فیض آباد میں
گمنامی بابا کا انتقال ہوگیا ۔کئی دن تک اخباروں میں مضامین اور خبریں
آتی رہی کہ گمنامی بابا ہی نیتا جی سبھاش چندر بوس تھے ۔پھر سرکار کی طرف
سے تردید آئی کہ نیتا جی تو 1945میں ہی تائیون میں فضائی حادثے میں ہلاک
ہوچکے تھے۔ میں یقین کےساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن فضائی حادثے کی
کہانی پر مجھے کبھی یقین نہیں آیا۔ نہ ہی گمنامی بابا کی موت سے پہلے ملک
کے کسی حصے میں کوئی غیر کانگریسی حکومت ہی بنی۔ مجھے یہ یقین ہے کہ یا
تو اسٹالن والی کہانی سچ ہے یا پھر گمنامی بابا کی کہانی سچ ہے۔ جو بھی
ہو میں اسکو ملک کی تاریخ کا سب سے کالا دن مانتا رہوں گا۔
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو؟
الیاس اعظمی سابق ممبرآف پارلیمنٹ، ترجمان و پی اے سی رکن عام آدمی پارٹی
Monday, 27 April 2015
نیتاجی کی موت...
Sunday, 26 April 2015
السؤال....
163821: هل تشرع الصلاة عند حصول زلزلة أو رياح شديدة ؟
السؤال : إذا حصل زلزال أو غير ذلك من الآيات في بعض البلاد فهل يشرع لأهلها أن يصلوا ؟
الجواب :
الحمد لله
نعم ، تستحب الصلاة عند حصول آية من الآيات ، كالكسوف والزلازل ، والعواصف الشديدة والرياح المستمرة المخيفة والفيضانات المدمرة...؛ لما صح عن ابن عباس رضي الله عنهما : أنه صلى في زلزلة بالبصرة كصلاة الكسوف ، ثم قال : هكذا صلاة الآيات .
رواه ابن أبي شيبة (2/472) وعبد الرزاق (3/101)، والبيهقي في "السنن الكبرى" (3/343) وقال: " هو عن ابن عباس ثابت " انتهى. وصححه الحافظ في "فتح الباري"(2/521)
وقال الكاساني رحمه الله:
"تستحب الصلاة في كل فزع: كالريح الشديدة، والزلزلة، والظلمة، والمطر الدائم؛ لكونها من الأفزاع، والأهوال..." انتهى من "بدائع الصنائع" (1/282)
وجاء في "منح الجليل شرح مختصر خليل" (1/333): " وتندب الصلاة للزلزلة ونحوها من الآيات المخوفة كالوباء والطاعون أفذاذاً وجماعة ركعتين أو أكثر " انتهى.
واقتصر الحنابلة على استحباب صلاة الزلزلة لورود ذلك عن ابن عباس وأما غيرها من الآيات فلا تشرع لها الصلاة.
وانظر : كشاف القناع (2/66) .
وذهب الشافعي رحمه الله إلى مشروعية صلاة الآيات على وجه الانفراد ولا تشرع لها الجماعة .
وانظر : "المجموع" (5/61) للنووي .
واختار شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله أنه تشرع الصلاة لكل آية ، فقال رحمه الله :"وتصلى صلاة الكسوف لكل آية كالزلزلة وغيرها ، وهو قول أبي حنيفة ورواية عن أحمد ، وقول محققي أصحابنا وغيرهم" انتهى من "الفتاوى الكبرى" (5/358) .
وذكر الشيخ ابن عثيمين رحمه الله ثلاثة أقوال في المسألة :
القول الثالث : "يصلى لكل آية تخويف"... ثم قال رحمه الله : وهذا الأخير هو اختيار شيخ الإسلام ابن تيمية رحمه الله ، له قوة عظيمة . وهذا هو الراجح" انتهى من "الشرح الممتع" (5/93) .
والله أعلم
http://islamqa.info/ar/163821
Friday, 24 April 2015
The Samosa Vendor
The Samosa Vendor
Bombay meri jaan....It was my regular train journey home from work.
I boarded the 18:50pm train from Church Gate.
When the train was about to leave Marinelines,
A samosa vendor with an empty basket got on and took
the seat next to me.
As the compartment was sparsely occupied and my
destination was still far away,
I got into a conversation with him.
Me: "Seems like you've sold all your samosas today."
Vendor (smiling): "Yes. By God's grace, full sales today."
Me: "I really feel sorry for you people. Don't you get tired doing
This tiresome job the whole day?"
Vendor: "What to do, sir? Only by selling samosas like this every day do
We get a commission of 75 paise for each samosa that we sell."
Me: "Oh, is that so ? How many samosas do you sell on an average each day?"
Vendor: "On peak days, we sell 4,000 to 5,000 samosas per day.
On an average, we sell about 3,000 samosas a day."
I was speechless.....for a few seconds.
The guy says he sells 3,000 samosas a day; at 75 paise each,
He makes about 2,000 rupees daily, or 60,000 rupees a month.
That's Rs. 60,000 a month. OMG.
I intensified my questioning and this time it was not for time pass.
Me: "Do you make the samosas yourself?"
Vendor: "No Sir. we gets the samosas through a samosa manufacturer
And we just sell them. After selling we give him the money
And gives us 75 paise for each samosa that we sell."
I was unable to speak a single word more but the vendor continued...
"But one thing...most of our earnings are spent on living expenses.
Only with the remaining money are we able to take care of other business."
Me: "Other business? What is that?"
Vendor: "It is a land business. In 2007 I bought 1.5 acres in
Palghar for 10 lakh rupees and I sold it a few months back for 60 lakhs.
Now I have bought land in umroli for 20 lakh rupees."
Me: "What did you do with the remaining amount?
Vendor: "Of the remaining amount,
I have set aside 20 lakhs for my daughter's wedding.
I have deposited the other 20 lakhs in the bank."
Me: "How much schooling have you had?"
Vendor: "I studied up to third standard;
I stopped my studies when I was in the 4th standard.
But I know how to read and write.
Sir, there are many people like yourself,
Who dress well, wear a tie, wear shoes,
Speak English fluently and work in air-conditioned rooms.
But I don't think you guys earn as much
As we do wearing dirty clothes and selling samosas."
At this point, what could I reply. After all, I was talking to a
Millionaire! The train chugged into khar station
And the samosa vendor got up from his seat.
Vendor: "Sir, this is my station...have a good day."
Me: "Take care.".
Welcome to the real world
تبلیغی جماعت پر شکنجہ کی تیاری !
MHA's intelligence surveillance on preachers
http://www.deccanchronicle.com/150424/nation-current-affairs/article/deport-tablighi-preachers-mha-advises-all-states
Deccan Chronicle
Deport Tablighi preachers, MHA advises all states
DC | Namrata Biji Ahuja | April 24, 2015, 01.04 am IST
New Delhi: The intelligence agencies have warned the Narendra Modi government of a threat posed by rising instances of Tablighi preachers entering India on tourist visas and starting religious preaching. The Union home ministry has alerted all states and UTs in an advisory that there is a major surge in individuals coming to India with tourist visas and then preaching Tablighi doctrine.
The Tablighi Jamaat is a kind of back-to-basis movement that aims to turn ordinary Muslims into believers and to revive the faith. The movement has been banned in many countries as it is seen as encouraging extremism. The MHA letter last week says foreigners coming from Saudi Arabia, Indonesia, UAE, Qatar, Myanmar, France and Bangladesh, among others, were found indulging in this practice, and it asked states to identify such persons on an urgent basis and deport them immediately. Other countries from where such individuals have come include Algeria, Sri Lanka and Malaysia.
The home ministry has reminded the state governments that they already have the power to deport those violating visa conditions. In all such cases, the relevant MHA division must be informed so that these individuals can be put on the Central government’s blacklist for future travel. As of now, India gives specific visas to individuals to attend religious conferences and seminars, but foreigners are not allowed to indulge in religious preaching.
تبلیغی مبلغین کو ملک بدر
وزارت داخلہ تمام ریاستوں کو مشورہ دیتا ہے
نئی دہلی: انٹیلی جنس ایجنسیوں سیاحتی ویزے پر بھارت میں داخل ہونے کے تبلیغی مبلغین کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور مذہبی تبلیغ شروع ہونے والے کی طرف سے درپیش خطرہ نریندر مودی حکومت کو خبردار کیا ہے. مرکزی وزارت داخلہ تبلیغی نظریے کی تبلیغ پھر سیاحتی ویزے کے ساتھ بھارت کے لئے آنے والے اور افراد میں ایک اہم اضافہ ہے کہ ایک مشاورتی میں تمام ریاستوں اور متحدہ قومی علاقوں کو الرٹ روانہ کیا ہے.
تبلیغی جماعت مومنوں میں عام مسلمانوں کی طرف رجوع کرنے اور ایمان کو بحال کرنا ہے کہ واپس ٹو بنیاد تحریک کی ایک قسم ہے. یہ انتہا پسندی کی حوصلہ افزائی کے طور پر دیکھا جاتا ہے کے طور پر نقل و حرکت کے بہت سے ممالک میں پابندی عائد کر دی گئی ہے. وزارت داخلہ کے خط گزشتہ ہفتے سعودی عرب، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، قطر، میانمار، فرانس اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر ملکیوں، دوسروں کے درمیان، اس عمل میں ملوث پائے گئے کہتے ہیں، اور یہ ایک ہنگامی بنیادوں پر ایسے افراد کی نشاندہی اور انہیں فوری طور پر ملک بدر کرنے کی ریاستوں سے پوچھا . ایسے افراد آئے ہیں، جہاں سے دوسرے ممالک الجیریا، سری لنکا اور ملائیشیا شامل ہیں.
وزارت داخلہ انہوں نے پہلے ہی ان لوگوں کے خلاف ورزی کا ویزا حالات جلاوطن کرنے کی طاقت ہے کہ ریاستی حکومتوں یاد دلایا ہے. ان افراد کو مستقبل کے سفر کے لئے مرکزی حکومت کی بلیک لسٹ میں ڈالا جا سکتا ہے تاکہ اس طرح کے تمام معاملات میں، متعلقہ وزارت داخلہ ڈویژن میں مطلع کیا جائے ضروری ہے. اب کے طور پر، بھارت میں مذہبی کانفرنسوں اور سیمینارز میں شرکت کرنے والے افراد کے لئے مخصوص ویزے دیتا ہے، لیکن غیر ملکیوں کو مذہبی تبلیغ میں قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے
MHA's Intelligence Surveillance On Preachers
MHA's intelligence surveillance on preachers
http://www.deccanchronicle.com/150424/nation-current-affairs/article/deport-tablighi-preachers-mha-advises-all-states
Deccan Chronicle
Deport Tablighi preachers, MHA advises all states
DC | Namrata Biji Ahuja | April 24, 2015, 01.04 am IST
New Delhi: The intelligence agencies have warned the Narendra Modi government of a threat posed by rising instances of Tablighi preachers entering India on tourist visas and starting religious preaching. The Union home ministry has alerted all states and UTs in an advisory that there is a major surge in individuals coming to India with tourist visas and then preaching Tablighi doctrine.
The Tablighi Jamaat is a kind of back-to-basis movement that aims to turn ordinary Muslims into believers and to revive the faith. The movement has been banned in many countries as it is seen as encouraging extremism. The MHA letter last week says foreigners coming from Saudi Arabia, Indonesia, UAE, Qatar, Myanmar, France and Bangladesh, among others, were found indulging in this practice, and it asked states to identify such persons on an urgent basis and deport them immediately. Other countries from where such individuals have come include Algeria, Sri Lanka and Malaysia.
The home ministry has reminded the state governments that they already have the power to deport those violating visa conditions. In all such cases, the relevant MHA division must be informed so that these individuals can be put on the Central government’s blacklist for future travel. As of now, India gives specific visas to individuals to attend religious conferences and seminars, but foreigners are not allowed to indulge in religious preaching.
ادبی انجمن بزمِ خیال کے تحت محفلِ بیت بازی کا انعقاد
جمعیة علماءہند کے دینی تعلیمی بورڈ کی اہم میٹنگ
تعلیمی حالت کو بہتربنانے کے مدنظر مختلف امور پرتبادلہ خیالا ت، دینی
تعلیمی بیدار ی پیداکرنے کیلئے منعقد کئے جائیں گے پروگرام
موصولہ پریس ریلیزکے مطابق آج24اپریل2015کو دیوبندمیں جمعیةعلما ہند کے
شعبہ دینی تعلیمی بورڈ کی ایک اہم میٹنگ اس کے صد ر مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند کی صدارت میں منعقد ہوئی ،جس میں مسلمانوں کی دینی تعلیمی حالت کو بہتربنانے کے مدنظر مختلف امور پرتبادلہ ¿ خیالا ت ہوا،شرکاءکی متفقہ رائے سے یہ طے پایا کہ دینی تعلیمی بیدار ی پیداکرنے کیلئے گاو ں ،گاو ں ،شہر ،شہر پروگرام منعقد کئے جائیں ،نیز مکاتب قائم کرکے نظام کو درست طور پر چلانے کیلئے بہتر او رمستحکم انتظام کیا جائے۔اس سلسلے میں علاقائی مدارس کا بھی تعاون لیا جائے،میٹنگ میں اس کا بھی فیصلہ کیاگیا کہ ہر صوبہ میں دینی تعلیمی بورڈ قائم کیا جائے اور جہاں پہلے سے بورڈ قائم ہے ،وہاں اسے مزید فعال بنایاجائے،بورڈ کے تحت قائم مکاتب ومدارس میں جونصاب تعلیم رائج ہے اس پر مزید کام کرکے اسے حالات کے مدنظر بہتر بنایا جائے۔ساتھ ہی مبلغین میں بھی اضافہ کیا جائے۔اس موقع پر مو ثر اور نتیجہ خیز کام کے پیش نظر چھ نفری کمیٹی بھی بنائی گئی ،جس کے ارکان مندرجہ ذیل حضرات ہیں: (1)مفتی محمد سلمان منصور پوری مرادآباد(2)مولانا نیاز احمد فاروقی دہلی(3)مولانا معزالدین دہلی(4)پروفیسر سید نعمان شاجہاں پور(5)مولا نا مفتی شمس الدین بجلی بنگلور(6)مولانا عبدالقادر آسام ۔اس نصاب کمیٹی کی میٹنگ دہلی میں 15مئی2015 کو منعقد کی جائے گی۔ میٹنگ میں یہ بھی طے پایا کہ عربی ماہ کے شوال اخیر (اگست )یا ماہ ذیقعدہ کے اوائل (یااگست کے اخیر)میں صوبائی ذمہ داران اوراس کام سے وابستہ پچاس افراد کی میٹنگ دہلی میں کی جائے گی۔ میٹنگ میں تمام شرکانے اتفاق رائے سے خواتین کی حالت اور مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ طے کیا ہے کہ ان میں بیداری پیداکرنے کیلئے ضروری انتظام کیا جائے۔ اس اہم میٹنگ میں صدر محترم اور مذکورہ بالا حضرات کے علاوہ جن مو قر حضرات نے شرکت کی ان میںسے یہ اسمائے گرامی خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔ مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری صدر جمعیة علما ءہند،مولانا محمودمدنی جنرل سکریٹری جمعیة علماءہند ،مولانا ریاست علی بجنوری،پیر شبیر احمد آندھرا پردیش،زین العابدین مظاہری رشادی،مولانا محبوب آسام ،مولانا محمد ناظم ، مولانا محمد قاسم پٹنہ ،مولانا متین الحق اسامہ کانپور،قاری محمد امین راجستھان،مولانا حسیب صدیقی ،مفتی عبداللہ معروفی دیوبنداور قاری شوکت علی ویٹ ۔ |
Thursday, 23 April 2015
مولانا اسرارالحق قاسمی کامتاثرہ بلاکوں کاہنگامی دورہ
Wednesday, 22 April 2015
علم لسانیات کااہم پہلو
دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں کے متعلق دلچسپ معلومات
ایک تازہ انگلش لسانی جائزے کے مطابق دنیا میں اس وقت کُل چھ ہزار آٹھ سو نوزبانیں بولی جاتی ہیں۔ لیکن ان کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے کیونکہ نوے فیصد زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی کم ہے۔537 زبانیں ایسی بھی ہیں جن کے بولنے والے پچاس سے بھی کم رہ گئے ہیں، لیکن زیادہ افسوس ناک حالت ان 46 زبانوں کی ہے جو آئندہ چند برسوں میں ختم ہونے والی ہیں کیونکہ ان کو بولنے والا صرف ایک ایک انسان باقی ہے
۔چین میں بولی جانے والی مینڈرین زبان آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی زبان سمجھی جاتی ہے جبکہ انگریزی زبان دوسرے نمبر پر ہے۔ ’اردو - ہندی‘ کو اگر ایک زبان تصور کیا جائے تو آبادی کے لحاظ سے تیسرا نمبر اسیزبان کا ہے لیکن اگر ہندی کو الگ زبان کے طور پر دیکھا جائے تو عالمی زبانوں کی فہرست میں اس کا نمبر چھٹا بنتا ہے )پانچویں نمبر پر بنگالی ہے( اور اردو بائیسویں نمبر پر چلی جاتی ہے
۔اس کے علاوہ عربی اور ہسپانوی بھی دنیا کی بڑی زبانوں میں شامل ہیں۔ لیکن انگریزی کا معاملہ سب سے جدا ہے۔ اگر چہ دنیا میں صرف 32 کروڑ افراد کی مادری زبان انگریزی ہے جن کی اکثریت امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزیلینڈ میں آباد ہے، لیکن دنیا بھر کے ملکوں میں مزید 35 کروڑ افراد ایسے ہیں جو انگریزی کو ایک ثانوی زبان کے طور پر استعمال کرتے ہیں یعنی اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ وہ انگریزی بھی روانی سے بول لیتے ہیں۔ان کے علاوہ دس سے پندرہ کروڑ تک ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے ضرورتاً انگریزی سیکھی ہے۔ لیکن ایسے افراد کی تعداد اب تیزی سے بڑھ رہی ہےجن کی نہ تو یہ مادری زبان ہے اور نہ ہی ثانوی زبان، البتہ تعلیم، روزگار یا محض ذہنی افق کو وسیع کرنے کی غرض سے انہوں نے انگریزی میں دسترس حاصل کی ہے۔ریڈیو، ٹی وی، فلم اور خاص طور پر انٹرنیٹ کا استعمال بڑھنے کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کا استعمال اور اس کی افادیت بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ایک زبان کے طور پر انگریزی کی ساخت کو پوری طرح سمجھنے کے لیے لسانیات کے چند بنیادی نکات کا علم ضروری ہے۔ مثلاً ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دنیا بھر کی زبانیں کئی خاندانوں میں بٹی ہوئی ہیں اور کسی بھی زبان کو پوری طرح سمجھنے کے لیے اس کا شجرہء نسب جاننا ضروری ہے۔
دنیا بھر میں بولی جانے والی سات ہزار کے قریب زبانوں کو کم ازکم دس خاندانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں سے میں صرف چار خاندانوں کا ذکر کر تاہوں
۔The Indo - European Familyہند - یورپی گروہ زبانوں کا سب سے بڑا خاندان ہے اور ہمارے مطالعے کے لیے سب سے اہم بھی، کیونکہ انگریزی، اردو، ہندی، بنگالی، پنجابی اور فارسی یہ تمام زبانیں اسی گروہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ سنسکرت اور لاطینی جیسی کلاسیکی زبانوں کا تعلق بھی اسی خاندان سے ہے، لیکن عربی ایک بالکل مختلف خاندان سے تعلق رکھتی ہے
۔The Sino - Tibetan Familyدنیا میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی زبان مینڈرین اسی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ چین اور تبت میں بولی جانے والی کئی زبانوں کے علاوہ برمی زبان بھی اسی قبیلے کی ہے۔ ایک ماترے کی آوازیں )monosyllabic( اور ٹون )tone( یعنی سُر لہر ان زبانوں کی خاص بات ہے۔ ایک ہی آواز اگر اونچی یا نیچی سُر میں ادا کی جائے تو لفظ کا مطلب بدل جاتا ہے
۔The Afro - Asiatic Familyزبانوں کے اس خاندان کو Hamito-Semitic یا سامی خاندان بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی قدیم زبانوں میں آرامی، اسیری، سمیری، اکادی اور کنعانی وغیرہ شامل تھیں لیکن آج کل اس گروپ کی مشہور ترین زبانیں عربی اور عبرانی ہیں
۔The Dravidian Familyزبانوں کا دراوڑی خاندان اس لحاظ سے بڑی دلچسپی کا حامل ہے کہ اگر چہ یہ زبانیں ہندوستان کے جنوب میں بولی جاتی ہیں لیکن ان کا شمالی ہندوستان کی زبانوں سے بالکل کوئی تعلق نہیں۔ چنانچہ اردو یا ہندی کا انگریزی یا جرمن زبان سے تو کوئی رشتہ نکل سکتا ہے لیکن ملیالم زبان سے نہیں۔ جنوبی بھارت اور سری لنکا میں دراوڑی گروپ کی کوئی 26 زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان میں زیادہ معروف تمل، تلیگو، ملیالم اور کنڑ ہیں۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا انگریزی کا تعلق ہند - یورپی خاندان سے ہے۔ اس لحاظ سے انگریزی کی ہماری زبانوں کے ساتھ دور کی رشتہ داری نکلتی ہے اورہماری زبان کے کئی الفاظ اس کی گواہی دیتے ہیں مثلاً ’جھنگی‘ اور ’جنگل‘ کے الفاظ گھنی جھاڑیوں کے معانی میں ہمارے یہاں صدیوں سے مستعمل ہیںاور انگریزی کا لفظ Jungle یہیں سے ماخوذ ہے، اور اردو - ہندی کا لفظ ’کونا‘ انگریزی میں corner ہو گیا ہے۔یہ مماثلت صرف اردو اور انگریزی ہی میں نہیں بلکہ اس خاندان کی سبھی زبانوں میں ایک جیسے الفاظ مل سکتے ہیں مثلاً مہینہ کے لیے انگریزی میں month کا لفظ استعمال ہوتا ہے، ڈچ میں maand ، جرمن میں monat ، سویڈش میں manad ، یونانی میں minas اور فارسی میں ’ماہ‘۔اس مماثلت کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام زبانیں ایک ہی لسانی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔
علی میاں ندوی رحمۃ الله علیہ
حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی
رحمتہ اﷲ علیہ
ایک
فردنہیں
ادارہ تھے....
دنیا میں ایسے لوگ بہت کم آتے ہیں جو آفتاب ہدایت بن کر طلوع ہوں، انسانیت کے ہرفرد کو اسکی صلاحیت اور ضرورت کے اعتبار سے روشنی اور حرارت عطا کریں اور جب وہ اپنی مختصر زندگی پوری کرکے غروب ہونے لگیں تو پورے ایک عالم کو نئی زندگی عطا کرکے جائیں۔مفکرو مؤرخ اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی قدس اﷲ سرہ انہی مایہ ناز شخصیات میں سے ایک تھے۔ آپ ۶محرم ۳۳۳۱ھ میں پیدا ہوئے۔آپ ؒ کے والدمحترم مولانا حکیم عبدالحیؒ آپکی چھوٹی عمر میں انتقال فرماگئے۔آپ کے بڑے بھائی ڈاکٹر عبدالعلی اور آپکی والدہ ماجدہ نے آپکی خاص انداز میں تربیت کی، بالخصوص زمانہ تعلیم کے دوران آپ کی والدہ نے آپ کو جو ترغیبی خطوط لکھے ہیں وہ بلا کی تاثیر رکھتے ہیں ۔بلاشبہ حضرت مولانا کی ذات کو عبقری شخصیت بنانے میں ان خطوط اور والدہ کی تربیت کا بے حداثر ہے خط کے درمیان میں جب وہ اپنے اس ہونہار ولاڈلے بیٹے کو” علی! ‘کہہ کر مخاطب ہوتیں تو اگلا جملہ آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہوتا۔
آپ کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا بے انتہا شوق تھا۔ بچپن میں اپنے ذوق مطالعہ کا حال لکھتے ہوئے حضرت مولانا ؒ اپنی خود نوشت سوانح” کاروان زندگی“ میں تحریر فرماتے ہیں: ’کتب بینی کا یہ ذوق، ذوق سے بڑھ کر لت، اور بیماری کی حد تک پہنچ گیا تھا کہ کوئی چھپی ہوئی چیز سامنے آجائے تو اس کو پڑھے بغیر چھوڑ نہیں سکتے تھے، جو پیسے ملتے ان کا ایک ہی محبوب مصرف تھا کہ ان سے کوئی کتاب خریدی جائے، اس سلسلے میں میری ایک دلچسپ کہانی یہ ہے کہ میرے پاس کچھ پیسے آگئے، میں اتنا چھوٹا تھا کہ مجھے یہ بھی معلوم نہ تھا کہ کتاب کتب فروشوں کے یہاں ملتی ہے اور ہرچیز کی دوکان الگ ہوتی ہے، میں کسی دوا فروش کی دوکان پر پہنچا غالباً سالومن کمپنی تھی ،میں نے پیسے بڑھائے کہ کتاب دیجئے۔ دوکان دار نے سمجھا کہ شریف گھرانے کا بھولا بھالا بچہ ہے، کیمسٹ کی دوکان پر کتاب تو کیا ملتی اردو میں دواؤں کی فہرست مجھے بڑھادی اور پیسے بھی واپس کردئیے، میں پھولے نہ سماتا ،کہ کتاب بھی مل گئی اور پیسے بھی واپس آگئے خوش خوش گھر پہنچا اور اسے اپنے چھوٹے سے کتب خانہ میں سجایا“۔(ص۸۵)
مولانا ابوالحسن علی ندویؒ المعروف مولانا علی میاں کو اﷲ رب العزت نے عرب وعجم اور پورے عالم اسلام میں یکساں قبولیت سے سرفراز فرمایا تھا۔ پورے عالم اسلام میں متعدد دینی اور علمی ادارے آپ کی سرپرستی اور رہنمائی میں چل رہے تھے۔ آپ متعدد اداروں کے مجلس شوریٰ کے صاحب الرائے رکن تھے۔ اسلام کی نشاہ ثانیہ کے لیے آپ نے دنیا کے طول وعرض میں، عرب وعجم میں متعدد اسفار کیے۔ اﷲ رب العزت نے آپ کو اعلیٰ درجے کا فہم، اسلام اور مسلمانوں کا درد رکھنے والا دل، نپی تلی، جانچی، پرکھی وزن دار اور اذ ہان وقلوب کو اپیل کرنے والی رائے، طاقتور قلم، پر تاثیر زبان جیسی خوبیوں سے نوازا تھا۔ آپ کی صلاحیتوں، کوششوں، کاوشوں، قربانیوں او رخدمات کے اعتراف کے طور پر آپ کو شاہ فیصل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا تھا۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی بیک وقت مختلف اور متنوع خصوصیات کے مالک تھے۔ وہ ایک ممتاز عالم دین ومحقق تھے۔
آپ دارالعلوم ندوة العلمائ(لکھنو) کے فضلامیں سے تھے۔ندوہ کو ان کے زمانے میں غیرمعمولی ترقی حاصل ہوئی۔۔ بیسوی صدی میں اٹھنے والی تقریباً تمام بڑی بڑی اسلامی تحریکوں سے ان کا براہِ راست یا بالواسطہ تعلق تھا۔ وہ ہر حلقے اور ہر گروہ میں یکساں طور پر عزت واعتماد کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔مولانا موصوف نے ایک طرف دارالعلوم ندوة العلماءجیسے ادارہ کے ذریعہ مسلمانوں کو علم دین سے بہرہ ور کرنے کی کوشش کی اوردوسرے بے شمارعلمی تحقیقی اداروں کے ذریعہ، لوگوں کے لیے عصری معرفت کا سامان کیا۔ ایک طرف انہوں نے اپنی موثر تقریروں کے ذریعہ مسلمانوں میں عملی جوش کو ابھارا اور دوسری طرف انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعہ انہیں گہرے علمی شعور سے آشنا کیا۔ایک طرف انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعہ مسلمانوں کے ملی تحفظ کا انتظام کیا تو دوسری طرف ”پیام انسانیت“ کی تحریک کے ذریعہ انہیں داعی کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوشش کی۔ ایک طرف انہوں نے رابطہ العالم الاسلامی کے اہم رکن کی حیثیت سے عالمی مسلم اتحاد کی کوشش کی اور دوسری طرف رابطہ ادب اسلامی کے صدر کی حیثیت سے، مسلمانوں کے اندر علم وادب کے حصول کا شوق ابھارا۔ ایک طرف انہوں نے مدارس دینیہ کے قیام کے ذریعہ قدیم علوم کو زندہ کیا اور دوسری طرف آکسفورڈ یونیورسٹی کے اسلامک سینٹر کے صدر کی حیثیت سے، مسلمانوں کے اندر جدید علوم کے ماہر پیدا کرنے کی کوشش کی۔
متعدد موضوعات اور تاریخ اسلام پر آپ کے پرزور قلم سے نکلنے والی تحریریں علمی کتب خانوں (لائبریریوں) کا ایک عظیم بیش بہا گرانقدر سرمایہ اور اثاثہ ہیں۔ وہ کتب خانہ (لائبریری) ہمیشہ نامکمل رہے گا ،جس میں مولانا علی میاں کی تحریر شدہ کتابوں کا ذخیرہ نہ ہو ۔متعدد کتابیں عربی زبان میں تحریر فرمائیں جن کے بعد میں اردو او رانگریزی زبانوں میں تراجم ہوئے۔ بے شمار کتابیں اردو زبان میں تحریر فرمائیں جن کے انگریزی اور عربی زبانوں میں تراجم کی ضرورت محسوس ہوئی اور اس ضرورت کو پورا کیا گیا۔
مولانا نے اپنی علمی تقریروں سے بھی ہمیشہ سامعین کے دلوں کو گرمایا۔ موضوع کا احاطہ کرنے میں بھی مولانا ٰیدطولیٰ رکھتے تھے۔ مجمع کی مناسبت سے بات کرنا مولانا کا ایک خصوصی وصف تھا۔ مولانا کو جہاں عوامی دلوں میں بلاکسی رکاوٹ کے رسوخ تھا ،وہاں وہ حکمرانوں کے دلوں میں بھی دھڑکنے کی صلاحیتوں سے آراستہ تھے۔ ہر جگہ مولانا نے بلاخوف لومة لائمین حکمت سے بھرپور انداز میں حق کا پیغام پہنچانے کا حق ادا فرمایا۔ تمام اہل علم اس بات کے معترف اور شاہد ہیں کہ مولانا پر جو بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی تھیں مولانا نے ان کوکماحقہ پوری زندگی بھرپور انداز میں نبھایا۔
مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کی ذات بہت سی اعلیٰ قدروں کا نمونہ تھی۔ مولانا موصوف ساری زندگی اہل دنیا سے بے نیاز رہے۔ مگر اہل دنیا نے خود اپنی ساری متاع ان کے سامنے پیش کردی۔سخاوت اور استغنا بھی خوب تھا، بین الاقوامی طورپر آپ کوبا رہا ایوارڈز اور انعامی رقومات ملتی رہیں ،آپ ان رقومات کو دینی مدارس اوردیگر فلاحی اور سماجی امور میں خرچ کرتے رہے ۔ مولانا موصوف کی ذات اس حقیقت کی ایک عملی مثال تھی کہ مال، عہدہ، عزت سب انسانوں کے تابع ہیں، نہ کہ انسان ان چیزوں کے۔ انسان اگر اپنی انسانی اقدار کو بلند کرلے تو بقیہ تمام چیزیں اپنے آپ اس کوحاصل ہوجائیں گی،کیوں کہ یہ سب انسان کے لیے ہی پیداکی گئی ہیں ۔
مولانا سیدابوالحسن علی ندوی کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن بلکہ ایک عالم(دنیا) تھے ، ان کے اندر بیک وقت مختلف اورمتنوع خصوصیات موجود تھیں۔ مولانا سید مناظراحسن گیلانی ؒ نے کہا تھا کہ یورپ میں جو کام ا یک اکیڈمی مل کرکرتی ہے، وہ ہمارے یہاں ”ایک آدمی“ کرتا ہے۔ مولانا سیدابوالحسن علی ندوی اس قول کا ایک زندہ نمونہ تھے۔ وہ ایک فرد تھے، مگر انہوں نے کئی اداروں کے برابر کام کیا۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک فرد اپنی قوم میں تمام لوگوں کے لیے مرجع کی حیثیت حاصل کرلیتا ہے، ایسا شخص کسی قوم کے لیے بے حد قیمتی ہوتااور اپنی اس حیثیت کی بنا پر، وہ پوری قوم کے لیے نقطہ اتحاداور اپنی قوم اور دوسری قوموں کے درمیان عملاً رابطہ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔مولانا سیدابوالحسن علی ندوی ؒ کومسلمانان ہندبلکہ مسلمانان عالم میں یہی مقام ومرتبہ حاصل تھا۔ مولاناسید ابوالحسن علی ندوی کا کارنامہ حیات تقریباً پوری صدی پر پھیلا ہوا ہے۔
حضرت مولانا ؒ کو اپنے اکابر سے بلا تفریق والہانہ عقیدت تھی ۔ ندوہ میں طلبہ سے ایک پُر سوز خطاب میں فرمایا کہ آپ حضرات کو علمی اور فکری محاذوں پر کام کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آپ میں تقویٰ ضرور ہو اس کے لیے میری نظر میں سب سے بہتر شخصیت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ قدس اﷲ سرہ‘ کی ہے، آ پ ان کے ملفوظات ومواعظ کا مطالعہ کریں ،کیونکہ اﷲ تعالی نے ان سے اس موضوع پر خاص طور سے بڑا کام لیا ہے ۔ ایک مرتبہ آپؒ ختم نبوت کے ایک اجلاس میں دارالعلوم دیوبند تشریف لائے۔ اور”ماکان محمّد ابااحدمن رجالکم ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین“پر عجیب انداز میں فصیح وبلیغ تقریر فرمائی اور فرمایا کہ مجھے دارالعلوم میں اپنا طالب علمی کا زمانہ یاد آتا ہے کہ جب شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ دارالحدیث میں اپنی مخصوص آواز میں دل کی ایک عجیب کیفیت کے ساتھ قال اﷲ وقال الرسولﷺ کی صدا بلند کر تے تھے۔
اس عظیم شخصیت کا ۱۳/دسمبر ۹۹۹۱ءکو انتقال ہوگیا۔ ان کی شخصیت گویا سوسالہ دور کا احاطہ کیے ہوئی تھی۔ تاریخ میں وہ اس دور کی علامت کے طور پر دیکھے جائیں گے۔ ان کو بلاشبہ صدی کی شخصیت (Man of the Century)کہا جاسکتا ہے۔ اﷲ رب العزت مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے ،کروٹ کروٹ راحت نصیب فرمائے ،تمام سئیات کو حسنات سے مبدل فرمائے۔ قبر کو تاحد نگاہ کشادہ فرماکر جنت کا باغ بنائے،جنت میں فی مقعد صدق عندملیک مقتدر کا مصداق بنائے اورہمیں ان کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطافرمائے
( امین یارب العلمین بجاہ سیدالانبیاءوالمرسلین
واصحابہ اجمعین)