Tuesday 18 December 2018

شیخ ابن باز رحمه الله کے حوالے سے ایک تحریر

(کل سے شیخ ابن باز رحمه الله کے حوالے سے ایک تحریر گردش کررہی ہے، 
طلباء کےاخراج پرعلامہ ابن باز ؒ کا دانشمندانہ فیصلہ   
 ایک بار کی بات ہے کہ اس زمانے میں ایک طالب علم کی شرارت اور یونیورسیٹی کے قوانین کا لحاظ نہ رکھنے کے سبب وہاں کے تمام اساتذہ نے اس کو یونیورسیٹی سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ، کیوں کہ سب اس کی حرکتوں سے تنگ آچکے تھے لیکن اس فیصلے پر آخری رائے علامہ ابن باز کی لینی باقی تھی، تمام اساتذہ اس مسئلہ کو لے کر ان کے پاس پہونچے اور سب نے مل کر کہا محترم ! اس طالب علم کی وجہ سے یونیورسیٹی کا ماحول خراب ہورہا ہے کئی بار ہم لوگوں نے اپنے طور پر چاہا کہ وہ اپنی عادت سے باز آجائے ، اپنے اندر تبدیلی پیدا کرلے ، لیکن وہ اپنی عادت سے باز آنے کا نام نہیں لیتا ، دن بدن اس کی شرارتیں بڑھتی ہی جارہی ہیں ، اگر اس کو یونیورسیٹی سے نکال باہر نہ کیا گیا تو آنے والے وقت میں حالات اور بھی پیچیدہ ہو سکتے ہیں ، اسی لئے آپ اس کے بارے میں ہم لوگوں کی رائے کو مان لیجئے ، اور اس طالب علم کو باہر کا راستہ دکھادیجئے ، تاکہ یونیورسیٹی کے اندر امن وامان کی فضاء قائم ہو ، علامہ ابن بازؒ نے اساتذہ کی بات سننے کے بعد فوراً ہنگامی میٹنگ طلب کی اور اس طالب علم کو بھی علامہ کی خدمت میں حاضر کیا گیا ، وہ دل ہی دل یہ سوچ رہا تھا کہ شاید یہ اس کا آخری دن ہے کیونکہ معاملہ بہت آگے تک بڑھ گیا ہے ، لیکن اس وقت اس کی حیرت کی انتہاء نہ رہی جب اس نے دیکھا کہ وقف کے مایہ ناز محقق، بے پناہ شہرت وعزت کے حامل علامہ ابن بازؒ کھڑے ہوئے اساتذہ سے مخاطب ہو کر اللہ کی حمدوثنا بیان کرنے کے بعد کہا ، بھائیو! اسلام ایک سیدھا دین ہے ہم خیر امت ہیں ، ہم ایک ایسی قوم ہیں جس کی پیدائش کا مقصد ہی دنیا کو غلط راستے سے ہٹاکر سیدھا راستہ دکھانا ہے ، ہم اس دنیا میں دین سے دور لوگوں کو ہدایت کی طرف بلانے کے لئے بھیجئے گئے ہیں ، جس طالب علم کے بارے میں آپ لوگ ہمارے پاس شکایت لے کر آئے ہیں وہ نہ تو میرا رشتہ دار ہے اور نہیں اس سے مجھے کوئی ناجائز ہمدردی ہے ، بس میں اتنا جانتا ہوں کہ یہ قوم کا ایک فرد ہے ، جس کا ضائع ہو جانا افسوس کی بات ہوگی ، یہ اپنی ماں باپ کو چھوڑ کر سات سمندر پار علم حاصل کرنے آیا ہے ممکن ہے شیطان کے بہکاوے میں مبتلا ہو کر اس نے ایسی حرکتیں کی ہوں گی ، جو یونیورسیٹی کے نظام کے خلاف ہے ، یا جس سے آپ لوگوں کی عزت پہ حرف آتا ہو لیکن ذرا مجھے بتائیے کہ ہم تمام لوگ جن کے سینوں میں اسلام کی سربلندی اور اللہ کے پیغام کو عام کرنے کے لئے ارمان مچل رہے ہیں کیا ہمارا ایمان اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ سارے لوگ مل کر بھی ایک بچے کی اصلاح نہیں کرسکتے ہیں ؟ ؟ کیا ہمارے اندر سے استقامت اور صبر کا جذبہ ختم ہوگیا ہے ؟ علامہ ابن باز بولتے بولتے جذباتی ہوگئے اور ان کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے ، لبوں پہ تھرتھراہٹ پیدا ہوگئی ، علامہ کی یہ کیفیت دیکھ کر وہاں پہ موجود تمام اساتذہ کے آنکھیں بھی بھر آئیں ، وہ طالب علم بہت شرمندہ ہوا اور علامہ ؒ کی بات سن کر رونے لگا ، چند منٹ تک پوری مجلس میں خاموشی چھائی رہی اس کے بعد سبھی اساتذہ کھڑے ہوئے اور سبھوں نے مل کر بیک زبان کہا کہ محترم! ہم لوگوں نے جذبات میں غلط فیصلہ کرلیا ہے ، یہ طالب یونیورسیٹی میں ہی رہے گا ہم تمام لوگ آپ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ انشاء اللہ اس کو پورے طور پر ایک نیک انسان بنادیں گے جہاں تک ممکن ہوگا اس کی اصلاح کی کوش کریں گے ۔
اس و اقعہ کو گذرے ہوئے بیس سال کا طویل عرصہ بیت گیا اس بیچ کتنے طالب علم آئے گئے ، یونیورسیٹی کی پچھلی تمام یادیں ماضی کا حصہ بن کر رہ گئیں ، اس طالب علم کو فراغت حاصل کر کے نکلے ہوئے بھی زمانہ گذرگیا بیس سال کی لمبی مدت کے بعد علامہ ابن باز ؒ افریقہ تشریف لے گئے ، وہاں کے مختلف تاریخی جگہوں کو دیکھا وعظ ونصیحت کا سلسلہ ہر جگہ جاری رہا اسی بیچ ان کا گذر ایک ایسی جگہ سے ہوا جہاں کا چپہ چپہ مسلمانوں کی شان وشوکت کا گواہ تھا ، ہر طرف ٹوپی کرتا میں ملبوس لوگ سڑکوں پہ دکھائی دے رہے تھے، بلند وبالا مسجدوں سے آتی ہوئی اذان کی آوازیں اس پورے علاقے کو ایمان کی روشنی سے منور کئے ہوئی تھیں، گھروں سے قرآن کی تلاوت کی صدائیں صاف سنائی دے رہی تھیں، علامہ ابن بازؒ کے ساتھ جو لوگ ان کی رہنمائی کررہے تھے، انہوں نے بتایا کہ محترم یہ پورا علاقہ کبھی کفر کا گہوارہ تھا، مختلف قسم کی بدعتیں یہاں رائج تھیں، ایک خدائے واحد کی پرستش چھوڑ کر لوگ اپنی من مانی زندگی گذاررہے تھے لیکن سالوں قبل کی بات ہے کہ ایک عالم دین یہاں آئے انہوں نے کمر توڑ کوشش کی ، لوگوں کو ایک اللہ کی عباد ت کی طرف بلایا ، سکون واطمینان کو ترس رہے یہاں کے باشندوں نے جب اسلام کا پیغام سنا تو ماضی کی تمام خرافات سے توبہ کر کے اسلام قبول کرتے گئے ، اور آج الحمدللہ ! یہ بستی ہی نہیں پورا علاقہ اسلام کی روشنی سے جگمگا رہا ہے ، علامہؒ نے پوچھا کہ کیا وہ عالم دین ابھی حیات سے ہیں؟ پتہ چلا کہ کچھ دور کے فاصلے پر جہاں لوگوں کا ہجوم ہے دو دراز مقامات سے لوگ ڈھیرسارے مسائل لے کر آتے ہیں ، وہ ہر وقت ان کے مسائل کا تشفی بخش جواب دیتے ہیں ، وہ وہیں پہ موجود ہوں گے ، علامہؒ نے اسلام کے اس داعی سے ملنے کی خواہش ظاہر کی چند لوگوں کے ساتھ ان کے پاس پہونچے قریب جاکر اس داعی سے علامہ کی نگاہیں ٹکرائیں تو وہاں پہ موجود تمام لوگوں نے جو منظر دیکھا اس سے سبھی لوگ حیران رہ گئے انہوں نے کیا دیکھا کہ جیسے ہی علامہؒ دعوت وتبلیغ کرنے والے اس عالم دین کے پاس پہونچے تو وہ علامہؒ کو دیکھتے ہی دوڑتے ہوئے آئے اور گلے سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ، علامہ کو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ معاملہ کیا ہے ؟ بالآخر اس عالم دین نے اپنے آنسو پوچھتے ہوئے اپنا تعارف پیش کیا اور کہا کہ محترم ! ممکن ہے آپ کو یاد نہ ہو میں وہی طالب علم ہوں جو آج سے بیس سال پہلے آپ کی مہربانی کی بنا پر مدینہ یونیورسیٹی سے نکلتے نکلتے بچ گیا ، اور میرا مستقبل تاریکی سے محفوظ رہا ، آپ کی نصیحتوں کا ہی اثر ہے کہ اللہ نے مجھے اس لائق بنادیا کہ آج لوگ امنڈتے ہوئے سیلاب کی طرف میرے ہاتھوں اسلام قبول کررہے ہیں پورا علاقہ اللہ کی وحدانیت سے گونج رہا ہے یہ سن کر علامہ نے انہیں ڈھیر ساری دعاؤں سے نواز ا اور کہا بیٹا! زندگی کے آخری سانس تک اسی طرح اپنے مشن میں لگے رہنا کیوں کہ ’’یہ دنیا کی زندگی تو بس دھوکے کا سامان ہے اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے اور جو تم کررہے ہو یہ آخرت کی سب سے اچھی تیاری ہے‘‘ 
دوستو! یہ واقعہ بتلاتا ہے کہ کسی بھی ادارے کے ذمہ دار کو علامہ ابن باز ؒ ہی کی طرح دریا دل ہونی چاہئے آج بہت سارے اداروں میں چھوٹی چھوٹی غلطیوں کے سبب بچوں کا داخلہ کاٹ کر ان کی زندگی کو تباہ کردیا جاتا ہے بلا شبہ اس طرح کا فیصلہ بہتر نہیں کہا جاسکتا ہے کیوں کہ ادارہ سے باہر کردینا بہر صورت ایک بڑا قدم ہے ، دیکھا جاتا ہے کہ ایسے حالات میں ذہنی دباؤ کے شکار ہو کر جذبات میں بعض بچے یا تو پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں یا ایسی راہوں کا انتخاب کرلیتے ہیں ، جو ایک بامقصد زندگی جینے والے انسان کا راستہ نہیں ہوتا اسی لئے اداروں کے ذمہ داران کو ایسے فیصلوں سے بچنا چاہئے انہیں یہ سوچنا چاہئے کہ بچیں کسی بھی قوم کے معمار ہوتے ہیں، ایک طالب علم اگر بہتر ہو جاتا ہے، نیک بن جاتا ہے اپنے اندر قابلیت پیدا کرلیتا ہے تو وہ جدھر بھی جائے گا علم کی روشنی جلاتا جائیگا اس سے ایک زمانے کو روشنی ملتی رہے گی اور اس کی کامیابی کا سہرا اسی ادارے کے ہی سر جائیگا جس کے علمی ماحول میں اسے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا ہے، اللہ ہمیں نیک سمجھ دیں۔  آمین
منقول
مگر اس کا حوالہ کہیں مذکور نہیں، لہذا بڑی کوشش کے بعد الحمدللہ اسکا حوالہ مل گیا ہے۔ واضح رہے واقعہ اپنی جگہ درست ہے مگر شیخ ابن باز کے اس افریقی ملک میں جانے اور سفر کرنے اور اس طالبعلم سے ملنے کی بات درست نہیں ہے)

حوالے میں مذکور عربی تحریر کا ترجمہ یہ ہے:
_______

شیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ جب جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کے وائس چانسلر تھے تو ان کے دور میں ایک واقعہ پیش آیا۔ واقعہ یہ تھا کہ کچھ وجوہات کی بنا پر ایک بچے کو جامعہ سے نکالنے کا معاملہ ایک میٹنگ میں پیش کیا گیا، میٹنگ کے تمام ممبران نے بچے کو جامعہ سے نکالنے کے فیصلے کی تائید کی اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ ان سب کی باتوں کو بغور سماعت فرما رہے تھے، لیکن انہوں نے اس معاملے میں اپنی کوئی رائے ظاہر نہیں کی۔ جب گفتگو ختم ہوئی تو میٹنگ کے بعض ممبران نے شیخ ابن باز سے کہا: شیخ! ہم اس معاملے میں اب آپ کی راۓ سننا چاہتے ہیں۔ 
شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا: آپ لوگوں کا فیصلہ بہتر ہے۔ آپ نے صرف اتنا کہنے پر اکتفا کیا اور مزید اپنی کوئی رائے ظاہر نہیں کی، کیونکہ شیخ اپنے معزز ممبران کے اجماعی فیصلے کے خلاف کوئی راہے دینا نہیں چاہ رہے تھے۔ لیکن لوگ شیخ کی رائے لینے پر بضد تھے کیونکہ وہ شیخ الجامعہ اور وائس چانسلر تھے۔ لوگوں کے اصرار پر شیخ نے فرمایا: میری رائے یہ ہے کہ بچے کو ایک آخری موقع اور دیا جائے، نیز میری درخواست ہے کہ مجلس کے سارے ممبران اس بچے کے لئے ہدایت کی دعا کریں، ہوسکتا ہے اللہ تعالی اس کی اصلاح فرما دے اور اس کے ذریعے سے اسلام اور مسلمانوں کا بھلا ہو جائے۔ چنانچہ شیخ نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور بچے کے لئے ہدایت و توفیق کی دعا کرنے لگے اور مجلس کے سارے ممبران آپ کی دعا پر آمین کہہ رہے تھے ۔ 

تقریبا ایک دہائی کے بعد جامعہ نے افریقہ کے کسی ملک میں اپنا ایک وفد بھیجا۔ اس وفد میں شیخ عمر بن محمد فلاتہ رحمہ اللہ بھی شامل تھے اور یہ شیخ اس وقت جامعہ کے جنرل سیکریٹری تھے۔ اس دورے میں شیخ نے جن طلبا سے ملاقات کی تو ان کے علمی اور اخلاقی معیار کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آپ نے جب ان بچوں سے ان کے مدرسے کے بارے میں پوچھا تو ان طلباء نے جواب دیا : ہم نے فلاں مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہے۔ 
شیخ عمر رحمہ اللہ نے اس مدرسے کی زیارت اور وہاں کے مدیر سے ملاقات کرنا چاہا تاکہ ان کی کوششوں کا شکریہ ادا کریں۔ 
شیخ عمر فلاتہ رحمہ اللہ جب وہاں مدرسے میں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ اس مدرسے کا بانی اور مؤسس وہی طالبعلم ہے جس کو جامعہ سے اخراج کرنے کا فیصلہ کیا جا رہا تھا اور پھر اسی میٹنگ میں اس کے لئے اجتماعی دعا کی گئی تھی۔
(حوالہ:  جهود الجامعة الإسلامية في مجال إعداد الكفاءات الدعوية ورعايتهم. مؤلف, د .سلطان بن عمر الحصين. صفحہ 24-25)
https://saagartimes.blogspot.com/2018/12/blog-post_80.html

الشيخ ابن باز


No comments:

Post a Comment