Wednesday 26 December 2018

قنوت کتنی ہیں؟ قنوت نازلہ کیا ہے؟ کیوں پڑھی جاتی ہے؟ طریقہ کیا ہے؟ کب تک پڑھی جاسکتی ہے؟

قنوت کتنی ہیں؟ قنوت نازلہ کیا ہے؟ کیوں پڑھی جاتی ہے؟ طریقہ کیا ہے؟ کب تک پڑھی جاسکتی ہے؟
-------------------------------
--------------------------------
قنوت کتنی ہیں؟
الجواب وباللہ التوفیق
تین قنوت ہیں:
لفظ قنوت کے معنی ہیں دعا، اور قنوت تین ہیں؛ 
(۱) ایک وہ جو وتر میں پڑھی جاتی ہے 
(۲) دوسری قنوتِ نازلہ ہے، یعنی وہ قنوت جو دشمن کی طرف سے آنے والی اُفتاد کے وقت میں پڑھی جاتی ہے، یہ قنوت اجتماعی ہے جب مسلمانوں کو دشمن کی طرف سے کسی آفت کا سامنا ہو تو انھیں قنوتِ نازلہ پڑھنی چاہیے ۔ پھر امامِ اعظم رحمہ اللہ کا مشہور قول یہ ہے کہ یہ قنوت صرف نمازِ فجر کی دوسری رکعت کے قومے میں پڑھی جائے اور دوسرا قول یہ ہے کہ تمام جہری نمازوں میں پڑھ سکتے ہیں، اور امام شافعی کے نزدیک پانچوں نمازوں میں قنوتِ نازلہ پڑھ سکتے ہیں 
(۳) تیسری قنوت قنوتِ راتبہ یعنی ہمیشہ پڑھا جانے والی قنوت اس کے صرف امام مالک اور امام شافعی قائل ہیں۔ پھر امام مالک رحمہ اللہ اس کو مستحب گر دانتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ سنت، باقی دو امام اس قنوت کو تسلیم نہیں کرتے اور یہ قنوت صرف فجر کی نماز میں دوسری رکعت کے قومے میں پڑھتے ہیں۔ (تحفة الالمعی: ۲/۲۳۶)
نیز درست یہ ہے کہ قنوتِ نازلہ جنگ کے ساتھ مخصوص نہیں؛ بلکہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آجائے یا فتنے میں مبتلا ہوں تو اسے پڑھا جائے۔ (خیر الفتاویٰ: ۲/۲۸۸) جب طاعون یا ہیضے وغیرہ کی وبا پھیل جائے جس سے لوگ مضطرب اور پریشان ہوں، تو قنوتِ نازلہ پڑھی جاسکتی ہے؛ تاآں کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کو دور کر دے۔ (فتاویٰ رحیمیہ: ۶/۲۱ صالح)
قنوتِ نازلہ سب کے لیے:
قنوتِ نازلہ کا حکم عام ہے، مرد، عورت، امام، منفرد ہر ایک کو شامل ہے۔ جماعت کی قید اور مَردوں کی تخصیص اور منفرد یا عورتوں کے لیے ممانعت کی صریح اور صحیح دلیل منقول نہیں ہے۔ ”قَنَتَ الامامُ“ اس کے لیے کامل دلیل نہیں ہے۔(حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب کابھی یہی نظریہ ہے) لہٰذا منفرد اور عورتیں اپنی نماز میں دعاے قنوت پڑھ سکتی ہیں؛ مگر عورتیں زور سے نہ پڑھیں۔ (فتاویٰ رحیمیہ:۶/۲۳)
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ:
اس لیے عام مصیبت کے وقت بالاتفاق نماز ِفجرکی جماعت میں قنوتِ نازلہ پڑھنا مسنون و مستحب ہے، جس میں نہ قنوتِ وتر کی طرح ہاتھ اٹھائیں نہ تکبیر کہیں۔(جواہر الفقہ:۶/۱۲۶) یعنی قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد سَمِعَ اللہ لِمَنْ حَمِدَہ کہہ کر امام قومہ کرے،اور اسی حالت میں دعاے قنوت پڑھے اور جہاں جہاں وہ ٹھہرے، وہاں سارے مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں، پھر دعا سے فارغ ہوکر اللّٰہ اکبرکہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں اور بقیہ نماز امام کی اقتدا میں معمول کے مطابق ادا کریں۔ ’عمدة الفقہ‘ میں ہے کہ بہ اعتبارِ دلیل کے قوی یہ ہے کہ (قنوتِ نازلہ) رکوع کے بعد پڑھی جائے، یہی اولیٰ اور مختار ہے۔ دعا سے فارغ ہوکر اللّٰہ اکبر کہہ کر سجدے میں جائیں۔ اگر یہ دعامقتدیوں کو یاد ہو، تو بہتر ہے کہ امام بھی آہستہ پڑھے اور سب مقتدی بھی آہستہ پڑھیں اور اگر مقتدیوں کو یاد نہ ہو، جیسا کہ اکثر تجربہ اس کا شاہد ہے تو بہتر یہ ہے کہ امام زور سے پڑھے اور سب مقتدی آہستہ آہستہ آمین کہتے رہیں۔ (عمدة الفقہ:۲/۲۹۶)
—————————
قنوت نازلہ کیا ہے؟ کیوں پڑھی جاتی ہے؟ طریقہ کیا ہے؟ کب تک پڑھی جاسکتی ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق:
لغت عرب میں "قنوت" دعاء کو کہتے ہیں. مسلمانوں کی ملی، قومی، ملکی ،مذہبی اجتماعی افتاد، مصائب، بلایا، قحط اورمشکلات کے وقت نماز میں جو ماثور دعا کی جاتی ہے اسے "قنوت نازلہ" کہتے ہیں۔ جس طرح مشکلات، مصائب ومصاعب اور فِتَن وحوادث کے وقت مسلمانوں کی مادی مدد کرنا اسلام کی تعلیم ہے، اسی طرح اجتماعی ظلم وجور، اور جبر و تشدد کے وقت مظلومین سے اظہار یکجہتی اور ان کے تحفظ ونجات اور ظالمین کی تباہی و بربادی کے لئے خدا تعالی سے نماز میں دعا کرنا (قنوت نازلہ) مسنون ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں پیچھے رہ  جانے والے مظلوم ومقہور مسلمانوں کے لئے دعائیں کی اور کفارومشرکین اور قبائل عرب کا نام لے لے کے بد دعائیں فرمائیں. اسی طرح بئرمعونہ میں شہید قراء کرام کے لئے دعائیں اور ان کے قاتلین کے لئے بددعائیں کیں. قنوت نازلہ پڑھنے کی اس سنت پر اصحاب رسول، تابعین، تبع تابعین، ائمہ مجتہدین اور اسلاف کرام بھی عمل پیرا رہے، حضرات شیخین ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما نے بھی فجر میں قنوت نازلہ پڑھی ہے:
سالم عن أبیہ أنہ سمع رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إذا رفع رأسہ من الرکوع من الرکعۃ الآخرۃ من الفجر یقول: ’’اللہم العن فلانا وفلانا وفلانا‘‘ بعد ما یقول: سمع اﷲ لمن حمدہ ربنا ولک الحمد، کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یدعو علی صفوان بن أمیۃ، وسہیل بن عمرو، والحارث بن ہشام۔ (بخاري شریف، کتاب المغازي، باب قولہ ثم انزل علیکم من بعد الغم الآیۃ، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۵۸۲، رقم: ۳۹۲۲، ف: ۴۰۶۹)
إن نبي اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم قنت شہرا في صلاۃ الصبح یدعو علی أحیاء من أحیاء العرب علی رعل وذکوان وعصیۃ، وبني لحیان، … أولئک السبعین من الأنصار قتلوا ببئر معونۃ۔ (بخاري، کتاب المغازي، باب غزوۃ الرجیع، ورعل وذکوان، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۵۸۶، رقم: ۳۹۴۳، ف: ۴۰۹۰)
اللہم أنج الولید بن الولید، ومسلمۃ بن ہشام وعیاش ابن أبي ربیعۃ، اللہم اشدد وطأتک علی مضر واجعلہا سنین کسني یوسف یجہر بذلک۔ (بخاري شریف، کتاب التفسیر، باب قولہ: لیس لک من الأمر شيء، النسخۃ الہندیۃ ۲/ ۶۵۵، رقم: ۴۳۷۴، ف: ۴۵۶۰)
أن أبا بکر قنت في الفجر۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، الصلاۃ، من کان یقنت فی الفجر ویراہ، مؤسسۃ علوم القرآن جدید ۵/ ۳۰، رقم: ۷۰۷۴، قدیم: ۲/ ۳۱۱)
عن زید بن وہب قال: ربما قنت عمر في صلاۃ الفجر۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ، الصلاۃ، من کان یقنت فی الفجر ویراہ، قدیم: ۲/ ۳۱۱، موسسۃ علوم القرآن جدید ۵/ ۳۱، رقم: ۷۰۷۹)
عن أنس بن مالك رضي اللہ عنه، أن رعلا، وذكوان، وعصية، وبني لحيان، استمدوا رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم على عدو، فأمدهم بسبعين من الأنصار، كنا نسميهم القراء في زمانهم، كانوا يحتطبون بالنهار، ويصلون بالليل، حتى كانوا ببئر معونة قتلوهم وغدروا بهم، فبلغ النبي صلى اللہ عليه وسلم، فقنت شهرا يدعو في الصبح على أحياء من أحياء العرب، على رعل، وذكوان، وعصية، وبني لحيان.(صحیح البخاري:۲؍۵۸۵، رقم الحدیث: ۴۰۹۰، کتاب المغازي، باب غزوة الرجيع، ورعل، وذكوان، وبئر معونة، وحديث عضل، والقارة، وعاصم بن ثابت، وخبيب وأصحابه، ط: البدر-دیوبند٭ الصحیح لمسلم:۱؍۲۳۷، رقم الحدیث:۲۹۹-(۶۷۷)، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب استحباب القنوت في جميع الصلاة إذا نزلت بالمسلمين نازلة، ط: البدر- دیوبند)
احناف وحنابلہ کے نزدیک قنوت نازلہ سنت دائمہ نہیں ہے، بلکہ یہ بمنزلۂ علاج کے ہے، جب تک مرض ہے علاج جاری رہتا ہے، یعنی جب عمومی مشکلات کا سامنا ہو تو اسے جہری نمازوں میں پڑھا جاتا ہے، فجر کی دوسری رکعت کے قومہ میں پڑھنا راجح ومشہور ہے، بلاوجہ سال بھر اسے پڑھنا مسنون نہیں، اور جب تک حالات بہتر نہ ہوجائیں تب تک پڑھنا مشروع ہے، جن روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمومی حالات میں فجر کی نماز میں قنوت پڑھنا وارد ہو ا ہے وہ تمام روایات قنوتِ نازلہ پر محمول ہیں۔ (مرعاۃ المفاتیح: 4/300) (المغنی لابن قدامۃ: 2/114)
ہمارے یہاں قنوت نازلہ سخت اور عالمگیر مصیبت کے وقت ہی مسنون و مشروع ہے، اور جب تک یہ مرض رہے تب تک علاج (قنوت نازلہ) کی اجازت ہے، اکثر ِمدت کی شرعا کوئی تحدید نہیں ہے حسب ضرورت اس کے دورانیہ کو طویل بھی کیا جاسکتا ہے لیکن مرشد تھانوی رحمہ اللہ کا اس سلسلے میں خیال یہ ہے کہ سنت نبوی کی اتباع میں ایک ماہ مسلسل پڑھ کے بند کردیا جائے، اس اتباع سنت کے طفیل حالات نارمل ہوجائیں گے، وہ اس سلسلے کے ایک جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
حوادث میں قنوت نازلہ صرف ایک ماہ تک مسلسل پڑھنا مسنون ہے. ایک مولوی صاحب کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ میں مدت سے خود اس مسئلہ کی تلاش میں تھا کہ قنوت نازلہ اگر پڑھے تو کب تک پڑھا کرے بہت سے علماء سے دریافت کیا، کسی نے شافی جواب نہیں دیا۔اب الحمد للہ حدیث سے سمجھ میں آگیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ماہ زائد منقول نہیں حالانکہ حوادث بعد میں بھی باقی رہے تھے ۔ اس سے زیادت زیادت علی المنقول ہے رہا یہ شبہ کہ جب حوادث رفع نہ ہوں تو دعا کیسے منقطع کردی جائے اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ہی مہینہ تک پڑھنے کی برکت سے انشاء اللہ تعالٰٰی رحمت ہوجائے گی نیزعقلاً اس کو اس طرح سمجھ لیا جائے کہ اگر کسی پر کوئی حادثہ آجائے تو کیا جب تک وہ حادثہ رہے برابر ہاتھ پھیلائے بیٹھارہے یہ تکلیف مالا یطاق کیسے ہوسکتی ہے آخر انقطاع گو اوقات خاصہ کے لئے یہاں بھی پایا گیا تو نفس انقطاع کی مشروعیت ثابت ہوگئی باقی ویسے مثل دوسری دعائو کلے دعا کرتے رہنا مسنون ہے کلام دعا بضمن قنوت میں ہے”۔ (الاضافات الیومیہ ج ۴ ص۱۲۹) (اشرف الاحکام ص:۱۰۱)
آپ کے علوم کے وارث و امین بیہقی ثانی، علامہ ظفر احمد عثمانی تحریر فرماتے ہیں:
’’قلت و فیہ بیان غایۃ القنوت للنازلۃ أنہ ینبغی أن یقنت أیاماً معلومۃً عن النبیا، وھی قدرُ شھرٍ، کما فی الروایات عن أنسؓ: ’’أنہ قنَت شھراً ثم ترک‘‘ فاحفظْہ فھذا غایۃُ اتباع السنۃ النبویۃ‘‘۔ (إعلاء السنن، أحکام القنوت النازلۃ:6/118، إدارۃ القرآن، کراتشی)
قنوتِ نازلہ پڑھنے کا طریقہ یہ ہے کہ نمازِ فجر کی دوسری رکعت میں رکوع کے بعد ”سَمِعَ اللّٰہ ُ لِمَنْ حَمِدَہ“ کہہ کر امام کھڑا ہوجائے، اور قیام کی حالت میں دعائے قنوت پڑھے اور مقتدی اس کی دعا پرآہستہ آواز سے آمین کہتے رہیں، پھر دعا سے فارغ ہوکر ”اللہ اکبر“ کہتے ہوئے سجدے میں چلے جائیں۔ بقیہ نماز امام کی اقتداء میں اپنے معمول کے مطابق ادا کریں۔
وأنہ یقنت بعد الرکوع لا قبلہ، بدلیل أن ما استدل بہ الشافعي علی قنوت الفجر، وفیہ تصریح بالقنوت بعد الرکوع، حملہ علماوٴنا علی القنوت للنازلة، ثم رأیت الشرنبلالي في مراقي الفلاح صرح بأنہ بعدہ؛ واستظھر الحموي أنہ قبلہ، والأظھر ما قلناہ، واللّٰہ أعلم․ (حاشیة ابن عابدین، کتاب الصلاة، مطلب: في القنوت للنازلة: 2/542، دار المعرفة، بیروت)
قنوتِ نازلہ کے دوران دعا میں ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھنے  ،جیسا کہ عام طور سے قیامِ نماز میں باندھے جاتے ہیں۔ اور دونوں ہاتھ نیچے کی طرف لٹکانے کی بھی اجازت ہے، لیکن دعا مانگنے کے انداز میں ہاتھ اُوپراٹھا لینا مناسب نہیں۔ 
(بوادر النوادر، نوے واں نادرہ، تحقیق اِرسال یا وضع یدین در قنوتِ نازلہ: 6/122،123، ادارہ اسلامیات)
دُعا قنوت کیلئے کوئی خاص الفاظ متعین نہیں ہیں۔ ہر وہ دعا کی جا سکتی ہے جو مطلوب ہو۔ امام نوو ی رحمہ اللہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں۔ 
والصحیح انہ لا یتعین فی دعا مخصوص بل یحصل بکل دعاء فیہ وجہ انہ لا یحصل الا بالدعاء (شرح مسلم للنوی ۱١/۲۳۷)
''صحیح بات یہ ہے کہ ا س بارے میں کوئی خاص دعا نہیں بلکہ ہراس دعا کو پڑھا جا سکتا ہے جس سے یہ مقصود حاصل ہوتا ہو۔ البتہ بہتر اور اولیٰ یہی ہے کہ جو دعائیں قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں موجود ہیں وہ پڑھے۔ علاوہ ازیں اپنی اپنی حاجات کے لئے مختلف دعائیں کی جاسکتی ہیں''۔
اس بارے میں تمام روایات کو سامنے رکھ کر علماء کرام نے یہ دعا نقل کی ہے 
﴿اللّٰہمَّ اھْدِنَا فِيْ مَنْ ھَدَیْتَ، وَعَافِنَا فِيْ مَنْ عَافَیْتَ، وَتَوَلَّنَا فِيْ مَنْ تَوَلَّیَتَ، وَبَارِکْ لَنَا فِيْ مَا أَعْطَیْتَ، وَقِنَا شَرَّ مَا قَضَیْتَ، إِنَّکَ تَقْضِيْ وَلَا یُقْضیٰ عَلَیْکَ، وَإِنَّہ لَا یَذِلُّ مَنْ وَالَیْتَ، وَلَا یَعِزُّ مَنْ عَادَیْتَ، تَبَارَکْتَ رَبَّنا وَتَعالَیْتَ، نَسْتَغْفِرُکَ وَنَتُوْبُ إِلَیْکَ، وَصَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِيِّ الْکَرِیْمِ، اَللّٰہُمَّ اغْفِرْلَنَا وَلِلْمُوٴْمِنِیْنَ وَلِلْمُوٴْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ، وَأَلِّفْ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ وَأَصْلِحْ ذَاتَ بَیْنِہِمْ، وَاجْعَلْ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الْإِیْمَانَ وَالْحِکْمَةَ،وَثَبِّتْھُمْ عَلیٰ مِلَّةِ رَسُوْلِکَ، وَاَوْزِعْھُمْ أَنْ یَشْکُرُوا نِعْمَتَکَ الَّتِيْ أَنْعَمتَ عَلَیْھِمْ وَأَنْ یُوْفُوْا بِعَھْدِکَ الَّذِيْ عَاھَدتَّھُمْ عَلَیْہِ، وَانْصُرْھُمْ عَلَی عَدُوِّکَ وَعَدُوِّھِمْ، اِلٰہَ الْحَقِّ، سُبْحَانَکَ؛ لَا اِلٰہَ غَیْرُکَ، اَللّٰھُمَّ انْصُرْ عَسَاکِرَ الْمُسْلِمِینَ، وَالْعَنِ الْکَفَرَةَ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَمَنْ حَذَا حَذْوَھُمْ مِنَ الْأَحْزَابِ وَالْمُنَافِقِیْنَ الَّذِیْنَ یُکَذِّبُوْنَ رُسُلَکَ، وَیُقَاتِلُوْنَ أَوْلِیَاءَ کَ مِنَ الطُّلَّابِ وَالْعُلَمَآءِ وَالْمُسْلِمِیْنَ، اَللّٰھُمَّ خَالِفْ بَیَنَ کَلِمَتِھِمْ، وَفَرِّقْ جَمْعَھُمْ، وَشَتِّتْ شَمْلَھُمْ، وَزَلْزِلْ أَقْدَامَھِمْ، وَاَلْقِ فِيْ قُلُوْبِھِمُ الرُّعْبَ، وَخُذْھُمْ أَخْذَ عَزِیْزٍ مُّقْتَدِرٍ، وَأَنْزِلْ بِھِمْ بَأْسَکَ الَّذيْ لَا تَرُدُّہ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ﴾․ 
ترجمہ: یا اللہ! ہمیں راہ دکھلا اُن لوگوں میں جن کو آپ نے راہ دکھلائی، اور عافیت دے اُن لوگوں میں جن کو آپ نے عافیت عطا فرمائی، اور کارسازی فرمائیے ہماری ان لوگوں میں جن کے آپ کارسازہیں، اور ہمیں ان چیزوں میں برکت عطا فرمائیے جو آپ نے ہمیں عطا فرمائی، اور ہماری ان چیزوں کے شر سے حفاظت فرمائیے جن کا آپ نے فیصلہ فرمایا، کیوں کہ آپ ہی فیصلہ کرنے والے ہیں، اور آپ کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، بے شک آپ جس کی مدد فرمائیں وہ ذلیل نہیں ہو سکتا، اور عزت نہیں پا سکتا وہ شخص جو آپ سے دشمنی کرے، اے ہمارے رب آپ بابرکت ہیں اور بلند و بالا ہیں۔ہم تجھ ہی سے مغفرت طلب کرتے ہیں اورآپ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ رحمتیں نازل فرمائیے اس نبی پر جو بڑے کریم ہیں، اے اللہ! ہمارے اور موٴمن مردوں اور عورتوں کے اور مسلمان مَردوں اور عورتوں کے گناہ معاف فرمادے، اور ان کے دلوں میں باہم الفت پیدا فرما دیجیے، اور ان کے باہمی تعلقات کو درست فرمادیجیے، اور ان کے دلوں میں ایمان و حکمت کو قائم فرما دیجیے، اور ان کو اپنے رسول کے دین پر ثابت قدم رکھ، اور توفیق دے انہیں کہ شکر کریں آپ کی اس نعمت کا جو آپ نے انہیں دی ہے اور یہ کہ وہ پورا کریں آپ کے اس عہد کو جوآپ نے ان سے لیا ہے، اور ان کی اپنے اور ان کے دشمنوں کے خلاف مدد فرما، اے اللہ! ان کافروں اور مشرکوں پر لعنت فرما، اور ان گروہوں پر جو ان کے نقشِ قدم پرچلتے ہیں اور منافقین پر جو آپ کے رسولوں کو جھٹلاتے ہیں، اور آپ کے اولیاء کو قتل کرتے ہیں،بالخصوص علماء، طلبہ اور عامة المسلمین کو، اے اللہ! خود انہیں کے اندر آپس میں اختلاف پیدا فرما، اور ان کی جماعت کو متفرق کر دے، اور ان کی طاقت پارہ پارہ کردے، اور ان کے قدموں کو اُکھاڑ دے، اور ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب ڈال دے، اور ان کو ایسے عذاب میں پکڑلے جس میں قوت و قدرت والا پکڑا کرتا ہے اور اُن پر اپنا ایسا عذاب نازل فرما جو آپ مجرم قوموں سے دور نہیں کرتے۔
واللہ اعلم 
https://saagartimes.blogspot.com/2018/12/blog-post_4.html


2 comments:

  1. قنوت وتر کے متعلق کہیں بھی ذکر نہیں کیا جبکہ اصل دعا وتر کی وہ ہے

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ مضمون در اصل ایک سوال کا جواب ہے ، جس میں قنوت نازلہ اور اس سے متعلقہ احکام دریافت کئے گئے تھے
      سوال قنوت نازلہ کے متعلق ہی تھا ؛ اسی لئے اسی کی تفصیلات ذکر کی گئیں
      قنوت وتر سائل نے نہیں پوچھا تھا ؛ اس لئے اس کی تفصیلات ذکر نہیں کی گئیں ، شروع میں اجمالا قنوت کی اقسام بیان کرنے پر اکتفا کیا گیا ۔
      اگر قنوت وتر کے متعلق کچھ جاننا چاہتے ہوں تو بتائیں !

      Delete