Monday 17 December 2018

"وبه قال حدثنا" کیوں کہتے ہیں

"وبه قال حدثنا" کیوں کہتے ہیں 

علم حدیث کے دو بنیادی حصے ہیں: 
۱ : سند
۲: متن۔ 
حدیث کی کتاب کو ترتیب دینے والے امامِ حدیث (Compiler) سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ و سلم تک کے تمام راویوں (حدیث بیان کرنے والے) کی مکمل یا نامکمل زنجیر (Chain of Narrators) کی تفصیلات بیان کرنے کو"سند" کہتے ہیں۔
         رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم کا کوئی ارشاد، آپ کا کوئی عمل یا آپ سے متعلق کوئی حالت بیان کئے جانے کو "متن" کہتے ہیں۔
 سند کی تحقیق میں سند کا حدیث کی کتاب کے مصنف سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ملا ہوا ہونا اور راویوں پر جرح و تعدیل شامل ہیں جبکہ متن کی تحقیق کو درایت حدیث کہا جاتا ہے۔
حدیث بیان کرنے والے محدث سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک سند ملی ہوئی حدیث کو "متصل السند" کہتے ہیں 
واگر نہ حدیث کو "منقطع السند" (ٹوٹی ہوئی سند) کہتے ہیں۔
جب فن حدیث کی مصطلحات  قائم کی گئیں اور اخذ وتحملِ حدیث کے اصول، آداب وضوابط ترتیب دیئے گئے تو محدثین نے یہ اصول بھی طے کئے کہ:
جب حدیث بیان کرنے والا اپنے استاذ کی سند سے ایک حدیث بیان کردے، پہر اسی سند سے دوسری حدیث بلا فصل و انقطاع بیان کرنا چاہے تو اپنے شیخ کی تمام اسناد کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے 
بلکہ دوسری حدیث کی ابتدا میں "وبه قال" کہ دینے سے بھی شیخ کی سند متصل ہوجاتی ہے، مطلب یہ ہوتا ہے کہ مذکور الصدر سند سے ہی میرے استاذ نے یہ حدیث روایت کرنے کی بھی اجازت دی ہے 
حافظ عراقی نے الفیہ میں جمہور محدیثین کا یہ طریقہ لکھا ہے:
"والأغلب البدء به".

.............................ويُذكرُ
ما بعده معْ وبه والأكثرُ
(من ألفية العراقي)

حافظ قسطلاني کا کہنا ہے: "إذا قرأ المحدث إسناد شيخه المحدث أول الشروع، وانتهى، عطف عليه بقوله في أول الذي يليه: "وبه قال حدثنا" ليكون كأنه أسنده إلى صاحبه في كل حديث أي لعود ضمير: "وبه" على السند المذكور كأنه يقول: "وبالسند المذكور، قال: أي صاحب السند لنا فهذا معنى قولهم: وبه قال.

قسطلانی نے ارشاد الساری شرح صحیح البخاری میں اس اغلبی طریقے کا عملاً التزام بھی فرمایا ہے 
ہر باب کے آغاز میں وہ اپنی اسناد مکمل ذکر کرتے ہیں 
پہر اس باب کے تحت آنے والی دوسری حدیثوں میں اپنی  اس مکمل اسناد کا اعادہ نہیں کرتے بلکہ "وبه قال حدثنا " سے ہی کام چلاتے ہیں 

صحت حدیث کی اہمیت کے پیش نظر اتصال سند کے لئے 
محدثین کرام کے اس عملی طریقے پر عمل در آمد ضرور کرنا چاہئے، دوران قراتِ حدیث اگر طلبہ بھول جائیں تو حضرات  شیوخ و محدثین اسے ضرور کہ لیں! 
تاکہ فن حدیث کا مبارک اخذ وتحمل جمہور محدثین کے خطوط پہ ہو ، ان  کی ڈگر اور طور طریق سے ہٹ کے اس فن میں اشتغال بے معنی ہے:

تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو 
کر اس کی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ 
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
------------------------------
https://saagartimes.blogspot.com/2018/12/blog-post_73.html



No comments:

Post a Comment