Saturday, 25 February 2017

لا وصیۃ لوارث الا ان یجیزھا الورثۃ

ایس اے ساگر

انسان اپنی زندگی میں اپنے مال وسامان و جائیداد کا خود مالک ہے۔ اپنی عام صحت کی زندگی میں اپنی اولاد میں حتی الامکان برابری کرتے ہوئے، جس طرح چاہے اپنی جائیداد تقسیم کرسکتا ہے، البتہ موت کے بعد صرف اور صرف قرآن وسنت میں مذکورہ میراث کے طریقہ سے ہی ترکہ تقسیم کیا جائے گا، کیوں کہ مرتے ہی ترکہ کے مالک شریعت اسلامیہ کے حصوں کے مطابق بدل جاتے ہیں. کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ آپ کو ایک دن دنیا سے رخصت ہونا ہے اور آپ کو علم نہیں کہ مالی وصیت کیسے اور کن کے لئے کریں.  اس سلسلہ مفتی محمد فیاض عالم قاسمی رقمطراز ہیں کہ اسلام کا یہ طرہ امتیاز ہے کہ اس نے انسان کی جان ومال کا حقیقی مالک اللہ رب العزت کو قرار دیا ہے، اور زمین پر اللہ کی نیابت اور خلافت حاصل ہونے کی وجہ سے اسے اپنے مال وجان پر عارضی ملکیت عطا کی ہے، اور اسی بناء پر اپنے مال پر کسی قدر تصرف کر نے کا اختیار بھی دیا ہے، تاکہ وہ اپنے لئے کھانے پینے اور بودو باش کا انتظام کرے نیز اپنے قریبی رشتہ داروں کے نان و نفقہ کا بھی بند وبست کرسکے۔
انسان کی روح اس کے جسم سے نکلتے ہی اس کی یہ ملکیت اس سے سلب ہوجاتی ہے اور مال مکمل طور پر اسی مالکِ حقیقی کے قبضہ میں رہ جاتاہے، لیکن چوں کہ موت سے قبل اس نے اس مال کی حفاطت کی تھی، اس لیے اس کے کفن ودفن اور قرض وغیر ہ میں اس مال متروکہ کو استعمال کر نے کی اجازت دی گئی ہے۔اس کے بعد بھی اگرمال بچ جائے تو جن لوگوں کا اس میت کے ساتھ قریبی رشتہ تھا اور جن کے نان ونفقہ کا انتظام وہ اسی مال سے کیا کر تا تھا تو خداوند قدوس نے اس مال متروکہ کو انہی لوگوں کے درمیا ن متعینہ حصوں میں تقسیم فرمادیا اور اس مال کی حفاظت ان پر لازم کر دیا۔ اس سے استفادہ کر نے نیز اس کے قریبی رشتہ داروں کے نان و نفقہ کا بند وبست کر نے کو ضروی قرار دیا۔
جب انسان بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے تو اسے قدم قدم پر دوسروں کے تعاون کی ضرورت پڑتی ہے۔ اگر کوئی اس کی اچھی طرح سے خدمت کرتا ہے اور قدم قدم پر ساتھ دیتا ہے، وہ اس احسان کے بدلے اپنی وفات سے پہلے اسے کچھ مال یا جائداد میں سے کچھ حصہ دئے جانے کی وصیت کرتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ انسان اپنی جائداد کا کچھ حصہ کسی مدرسہ یا مسجد یا کسی رفاہی ادارہ کو وصیت کرنا چاہتا ہے، مگر ناواقفیت کی وجہ سے وصیت باطل ہوجاتی ہے۔ ہم نے علماء ہند کے اردو فتاویٰ کے باب الوصیۃ کا جائزہ لیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ وصیت کے اکثر سوالوں میں وصیت باطل ہوئی ہے، اس طرح وصیت کرنے والوں کی خواہشات اپنے محسنین کے حوالہ سے پوری نہیں ہوپاتی ہیں۔ اسی طرح اگر اس کے کسی بیٹے یابیٹی نےدیگر وارثین کے مقابلہ میں اپنے والد بزرگوار کی زیادہ خدمت کی تو اس کے لئے بھی ہبہ کی بجائے وصیت کئے جانے کی رسم موجود ہے۔
وصیت کیا ہے؟ متروکہ مال سے میت کی تجہیز وتکفین اور قرض کی ادائیگی کے بعد اور اس کے وارثین میں مال تقسیم ہونے سے قبل وصیت کا درجہ ہے۔ وصیت یہ ہے کہ مر نے والا اپنی موت کے بعد اپنے مال کا تعلق کسی غیروارث سے کر دے، مثلا یوں کہے کہ میرے مرنے کے بعد میرا اتنا مال فلاں کو دے دیا جائے، یا فلاں کام میں تصرف کیا جائے۔
الوصیۃ اسم لما اوجبہ الموصی فی مالہ بعد موتہ۔
(بدائع الصنائع: ۶/۴۲۷)

وصیت کی شرائط:

چوں کہ تجہیز وتکفین اور قرض سے میت کا حق متعلق ہے اور وارثین کے درمیان تقسیم کرنے میں خودمال کا حق ِحفاظت متعلق ہے، اس لئے اس میں کوئی خاص شرط نہیں لگائی گئی، جب کہ وصیت جو خالص اجنبی اور غیر کے لئے ہوتی ہے، اس میں دو شرطوں کو ملحوظ رکھا گیا ۔

پہلی شرط:

وصیت کسی وارث کے لئے نہ ہو، یعنی بیٹا بیٹی، ماں باپ، اور بیٹے کی موجودگی میں بھائی بہن کے لئے وصیت جائز نہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا:
بے شک اللہ تعالیٰ نے ہر صاحب حق کا حق متعین کر دیا ہے، لہذا وارث کے لئے وصیت نہیں ہے۔
(ترمذی:۲/۳۲)

دوسری شرط:

وصیت ثلث مال یعنی ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو۔ چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فتح مکہ کے سال میں بیمار ہوکر قریب المرگ ہوگیا تو آں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے تو میں نے کہا،
"اے اللہ کے رسول! میرے پاس بہت سارا مال ہے اور میری صرف ایک بیٹی ہے تو کیا میں دوسروں کے لئے پورے مال کی وصیت کردوں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نہیں!
میں نے کہا تو کیا آدھے کی کردوں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نہیں!
میں نے کہا ایک تہائی کی کردوں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک تہائی بھی بہت ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی اولاد کو مالدار بناکر چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ انھیں مفلس بناکر چھوڑا جائے اور وہ دردر ٹھوکریں کھاتا پھرے۔
(مسلم ۲/۴۰، ترمذی ۲/۳۴)
پس اگر کوئی ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت کرے یا اپنے وارث ہی کے لئے وصیت کرے مثلاً اس کے مر نے کے بعد فلاں کو ایک تہائی سے زیادہ مال دیا جائے یا اس کے مرنے کے بعد اس کے فلاںوارث کو اتنامال (اس کے شرعی حصہ کے علاوہ) دیا جائے، تو ایسی وصیت معتبر نہیں، البتہ اگر دیگر ورثاء مورث کی وفات کے بعد راضی ہوجائیں تو پھر اس کااعتبار ہوگا، مورث کی وفات سے پہلے ان کی رضامندی کا کوئی اعتبار نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لاوصیۃ لوارث الا ان یجیز ھا الورثۃ۔
(سنن سعید بن منصور: ۴۲۶)
حضرت ابن مسعودؓ ،شریح ؒ، طاوسؒ ، سفیان ثوریؒ، امام ابوحنیفہ ؒ، امام شافعی ؒاور دیگر فقہاء کایہی مسلک ہے۔
(اوجز المسالک ۱۴/۳۴۸)
(الدرالمختارمع ردالمحتار ۱۰/۳۴۰)

وصیت کرنے کاحکم؟

غیر وارث کے لئے وصیت کے سلسلے میں یہ تفصیل ملحوظ ہے کہ اگر مورث کے وارثین مالدار ہیں یا مال بہت زیادہ ہے توان کے لئے وصیت کر نا مستحب ہوگا، چنانچہ مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ محمد ولی اللہ قاسمی فرماتے ہیں:
باجماع امت یہ ظاہر ہے کہ جن رشتہ داروں کا میراث میں کوئی حصہ نہیں ہے ان کے لئے میت پر وصیت کرنا فرض اور لازم نہیں ہے، البتہ بشرط ضرورت صرف مستحب رہ جاتی ہےاور اگر وارثین غریب ہیں یا مال کم ہے تو وصیت کرنا بہتر نہیں ہے۔
(معارف القرآن: ۱/۴۳۹)
فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ اگر کسی کے چھوٹے بچے ہوں، یا بڑے ہوں لیکن مال کم ہو تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کے نزدیک وصیت نہ کرنا بہتر ہے اور اگر اولاد بڑے ہوں اور مال بھی زیادہ ہو تو پہلے واجبات کی وصیت کرے پھر رشتہ داروں کے لئے، اس کے بعد پڑوسیوں کے لئے کرے۔ 
(فتاویٰ قاضیخان علی الہندیۃ ۳/۴۹۳)
حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی بھی مسلمان کے پاس کوئی مال ہوجس کی اسے وصیت کرنی ہے، تو اس کے لیے یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ دو راتیں گزر جائیں اور اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی نہ ہو۔
(صحیح بخاری: ۲۷۳۸)
اس حدیث میں جہاں ایک طرف وصیت کرنے کی ترغیب دی گئی ہے وہیں دوسری طرف اس بات کابھی حکم دیاگیاہے کہ وصیت نامہ بنوالیاجائے، تاکہ وارثین اوروصی کے درمیان کسی طرح کااختلاف نہ ہو۔ واضح رہے کہ قانونی طور پر وصیت کی بہت زیادہ اہمیت ہے اس لیے کسی بھی طرح کی جائز وصیت ہو، اس کو قلمبند کرلینا چاہئے، اس کے لئے کسی شرعی ادارہ مثلا دارالقضاء سے وثیقہ اور وصیت نامہ بنوالینا چاہئے تاکہ بعد وفات کسی طرح کی کوئی شرعی قباحت اور اختلاف نہ ہو۔
اس سلسلہ میں مولانا محمد نجیب قاسمی فرماتے ہیں کہ

علم میراث کے تین اہم اجزا ہیں
مورِث:وہ میت جس کا ساز وسامان وجائیداد دوسروں کی طرف منتقل ہورہی ہے۔

وَارِثْ: وہ شخص جس کی طرف میت کا ساز وسامان وجائیداد منتقل ہورہی ہے۔ وارث کی جمع ورثاء آتی ہے۔

مَوْرُوْث : ترکہ، یعنی وہ جائیداد یاساز وسامان جو مرنے والا چھوڑ کر مرا ہے۔

میت کے سازوسامان اور جائیداد میں چار حقوق ہیں:
1.. میت کے مال وجائیداد میں سے سب سے پہلے اس کے کفن ودفن کا انتظام کیا جائے۔
2.. دوسرے نمبر پر جو قرض میت کے اوپر ہے اس کو ادا کیا جائے۔
٭...اللہ تبارک وتعالیٰ نے اہمیت کی وجہ سے قرآن کریم میں وصیت کو قرض پر مقدم کیا ہے، لیکن باجماع امت حکم کے اعتبار سے قرض وصیت پر مقدم ہے۔ یعنی اگر میت کے ذمہ قرض ہو تو سب سے پہلے میت کے ترکہ میں سے وہ ادا کیا جائے گا۔ پھر وصیت پوری کی جائے گی اور اس کے بعد میراث تقسیم ہوگی۔
3.. تیسرا حق یہ ہے کہ ایک تہائی حصہ تک اس کی جائز وصیتوں کو نافذ کیا جائے۔

شریعت اسلامیہ میں وصیت کا قانون بنایا گیا، تاکہ قانون ِ میراث کی رو سے جن عزیزوں کو میراث میں حصہ نہیں پہنچ رہا ہے اور وہ مدد کے مستحق ہیں، مثلاً کوئی یتیم پوتا یا پوتی موجود ہے یا کسی بیٹے کی بیوہ مصیبت زدہ ہے یا کوئی بھائی یا بہن یا کوئی دوسرا عزیز سہارے کا محتاج ہے تو وصیت کے ذریعہ اس شخص کی مدد کی جائے۔ وصیت کرنا اور نہ کرنا دونوں اگرچہ جائز ہیں، لیکن بعض اوقات میں وصیت کرنا افضل وبہتر ہے۔ وارثوں کے لیے ایک تہائی جائیداد میں وصیت کا نافذ کرنا واجب ہے، یعنی اگر کسی شخص کے کفن ودفن کے اخراجات اور قرض کی ادائیگی کے بعد 9 لاکھ روپے کی جائیداد بچتی ہے تو 3لاکھ تک وصیت نافذ کرنا وارثین کے لیے ضروری ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ وصیت نافذ کرنے اور نہ کرنے میں وارثین کو اختیار ہے۔

نوٹ…کسی وارث یا تمام وارثین کو محروم کرنے کے لیے اگر کوئی شخص وصیت کرے تو یہ گناہ کبیرہ ہے، جیسا کہ نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے وارث کو میراث سے محروم کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کو محروم رکھے گا (کچھ عرصہ کے لیے)۔ (ابن ماجہ-باب الحیف فی الوصیہ)

4.. چوتھا حق یہ ہے کہ باقی سازوسامان اور جائیداد کو شریعت کے مطابق وارثین میں تقسیم کردیا جائے۔

﴿نَصِیْباً مَّفْرُوْضاً﴾ (النساء 7)﴿ فَرِیْضَةً مِنَ اللّٰہِ﴾ (النساء 11) ﴿وَصِیَّةً مِّنَ اللّٰہِ﴾ (النساء 12)﴿ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ﴾(النساء 13) سے معلوم ہوا کہ قرآن وسنت میں ذکر کیے گئے حصوں کے اعتبار سے وارثین کو میراث تقسیم کرنا واجب ہے۔

ورثاء کی تین قسمیں
1.. صاحب الفرض: وہ ورثاء جو شرعی اعتبار سے ایسا معین حصہ حاصل کرتے ہیں جس میں کوئی کمی یا بیشی نہیں ہوسکتی ہے۔ایسے معین حصے جو قرآن کریم میں ذکر کیے گئے ہیں وہ چھ ہیں:1/8 ( آٹھواں)2/3 ( دو تہائی)1/3( ایک تہائی)1/6 ( چھٹا)1/2( آدھا)1/4 (چوتھائی)۔

قرآن وسنت میں جن حضرات کے حصے متعین کیے گئے ہیں وہ یہ ہیں: بیٹی (بیٹی کی عدم موجودگی میں پوتی)، ماں وباپ (ماں باپ کی عدم موجودگی میں دادا ودادی)، شوہر ،بیوی،بھائی وبہن۔

2.. عصبہ: وہ ورثاء جو میراث میں غیر معین حصے کے حق داربنتے ہیں، یعنی اصحاب الفروض کے حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی ساری جائیداد کے مالک بن جاتے ہیں، مثلاً بیٹا۔ نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قرآن وسنت میں جن ورثاء کے حصے متعین کیے گئے ہیں ان کو دینے کے بعد جو بچے گا وہ قریب ترین رشتہ دار کو دیا جائے گا۔ (بخاری ومسلم)

3.. ذوی الارحام: وہ رشتے دار جو نمبر ۱ (صاحب الفرض) اور نمبر2 (عصبہ) میں سے کوئی وارث نہ ہونے پر میراث میں شریک ہوتے ہیں۔

میراث کس کو ملے گی؟
تین وجہوں میں سے کوئی ایک وجہ پائے جانے پر ہی وراثت مل سکتی ہے۔
1.. خونی رشتے داری : یہ دو انسانوں کے درمیان ولادت کا رشتہ ہے، البتہ قریبی رشتہ دار کی موجودگی میں دور کے رشتہ داروں کو میراث نہیں ملے گی، مثلاً میت کے بھائی وبہن اسی صورت میں میراث میں شریک ہوسکتے ہیں جب کہ میت کی اولاد یا والدین میں سے کوئی ایک بھی حیات نہ ہو۔یہ خونی رشتے اصول وفروع وحواشی پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اصول (جیسے والدین ،دادا ، دادی وغیرہ)

وفروع (جیسے اولاد ، پوتے،پوتی وغیرہ) وحواشی (جیسے بھائی، بہن، بھتیجے وبھانجے، چچا اور چچازاد بھائی وغیرہ)۔

وضاحت…سورہٴ النساء آیت نمبر 7 ﴿مِمَّا تَرَکَ الْوَالِدَان وَالاقْرَبُون﴾سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ میراث کی تقسیم ضرورت کے معیار سے نہیں، بلکہ قرابت کے معیار سے ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری نہیں کہ رشتے داروں میں جو زیادہ حاجت مند ہو اس کو میراث کا زیادہ مستحق سمجھا جائے، بلکہ جو میت کے ساتھ رشتے میں قریب تر ہوگا وہ بہ نسبت بعید کے زیادہ مستحق ہوگا۔ غرضیکہ میراث کی تقسیم الاقرب فالاقرب کے اصول پر ہوتی ہے، خواہ مرد ہوں یا عورت، بالغ ہوں یا نابالغ۔

2.. نکاح (میاں بیوی ایک دوسرے کی میراث میں شریک ہوتے ہیں)۔

3.. غلامیت سے چھٹکارا (اس کا وجود اب دنیا میں نہیں رہا، اس لیے مضمون میں اس سے متعلق کوئی بحث نہیں کی گئی ہے)۔

شریعت ِ اسلامیہ نے صنف نازک (عورتوں) اور صنف ضعیف (بچوں)کے حقوق کی مکمل حفاظت کی ہے اور زمانہٴ جاہلیت کی رسم ورواج کے برخلاف انہیں بھی میراث میں شامل کیا ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم (سورہٴ النساء آیت :7) میں ذکر فرمایا ہے۔

مردوں میں سے یہ رشتے دار بیٹا، پوتا، باپ، دادا،بھائی، بھتیجا، چچا، چچازاد بھائی، شوہر وارث بن سکتے ہیں۔

عورتوں میں سے یہ رشتے دار بیٹی، پوتی، ماں، دادی، بہن، بیوی وارث بن سکتے ہیں۔

نوٹ…اصول وفروع میں تیسری پشت (مثلاً پڑدادایا پڑپوتے) یا جن رشتے داروں تک عموماً وراثت کی تقسیم کی نوبت نہیں آتی ہے، ان کے احکام یہاں بیان نہیں کیے گئے ہیں۔ تفصیلات کے لیے علماء سے رجوع فرمائیں۔

شوہر اور بیوی کی حصے: شوہر اور بیوی کی وراثت میں چار شکلیں بنتی ہیں۔ (سورہٴ النساء 12)
٭...بیوی کے انتقال پر اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں شوہر کو 1/2(آدھا)ملے گا۔
٭... بیوی کے انتقال پر اولاد موجود ہونے کی صورت میں شوہر کو 1/4(چوتھائی)ملے گا۔
٭...شوہر کے انتقال پر اولاد موجود نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/4(چوتھائی)ملے گا۔
٭...شوہر کے انتقال پر اولاد موجود ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/8(آٹھواں)ملے گا۔

وضاحت…اگر ایک سے زیادہ بیویاں ہیں تو یہی متعین حصہ (1/4 یا 1/8)(آٹھواں) باجماع امت ان کے درمیان تقسیم کیا جائے گا۔

باپ کا حصہ
٭...اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے والد حیات ہیں اور میت کا بیٹا یا پوتا بھی موجود ہے تو میت کے والد کو 1/6(چھٹا)ملے گا۔
٭...اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے والد حیات ہیں، البتہ میت کی کوئی بھی اولاد یا اولاد کی اولاد حیات نہیں ہے تو میت کے والد عصبہ میں شمار ہوں گے، یعنی معین حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی ساری جائیداد میت کے والد کی ہوجائے گی۔
٭... اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے والد حیات ہیں اور میت کی ایک یا زیادہ بیٹی یا پوتی حیات ہے، البتہ میت کا کوئی ایک بیٹا یا پوتاحیات نہیں ہے تو میت کے والد کو 1/6(چھٹا)ملے گا۔ نیز میت کے والد عصبہ میں بھی ہوں گے، یعنی معین حصوں کی ادائیگی کے بعد باقی سب میت کے والد کا ہوگا۔

ماں کا حصہ
٭...اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کی ماں حیات ہیں البتہ میت کی کوئی اولاد نیز میت کا کوئی بھائی بہن حیات نہیں ہے تو میت کی ماں کو 1/3(ایک تہائی)ملے گا۔
٭...اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کی ماں حیات ہیں، اور میت کی اولاد، میں سے کوئی ایک یا میت کے دو یا دو سے زیادہ بھائی موجود ہیں تو میت کی ماں کو 1/6(چھٹا)ملے گا۔
٭...اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کی ماں حیات ہیں، البتہ میت کی کوئی اولاد نیز میت کا کوئی بھائی بہن حیات نہیں ہے، لیکن میت کی بیوی حیات ہے تو سب سے پہلے بیوی کو 1/4(چوتھائی) ملے گا، باقی میں سے میت کی ماں کو 1/3(ایک تہائی) ملے گا۔ حضرت عمر فاروق  نے اسی طرح فیصلہ فرمایا تھا۔

اولاد کے حصے:

٭...اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے ایک یا زیادہ بیٹے حیات ہیں، لیکن کوئی بیٹی حیات نہیں ہے تو ذوی الفروض میں سے جو شخص (مثلاً میت کے والد یا والدہ یا شوہریابیوی) حیات ہیں، ان کے حصے ادا کرنے کے بعد باقی ساری جائیداد بیٹوں میں برابر برابر تقسیم کی جائے گی۔
٭...اگر کسی شخص کی موت کے وقت اس کے بیٹے اور بیٹیاں حیات ہیں تو ذوی الفروض میں سے جو شخص (مثلاً میت کے والد یا والدہ یا شوہر،یابیوی) حیات ہیں، ان کے حصے ادا کرنے کے بعد باقی ساری جائیداد بیٹوں اور بیٹیوں میں قرآن کریم کے اصول (لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر) کی بنیاد پر تقسیم کی جائے گی۔
٭...اگر کسی شخص کی موت کے وقت صرف اس کی بیٹیاں حیات ہیں، بیٹے حیات نہیں تو ایک بیٹی کی صورت میں اسے 1/2(آدھا)ملے گا اور دو یا دو سے زیادہ بیٹیاں ہونے کی صورت میں انہیں 2/3(دوتہائی)ملے گا۔

وضاحت : اللہ تعالیٰ نے (سورہٴ النساء ۱۱) میں میراث کا ایک اہم اصول بیان کیا ہے:﴿ یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثیین ﴾ اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے متعلق حکم کرتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔

شریعت اسلامیہ نے مرد پر ساری معاشی ذمہ داریاں عائد کی ہیں چناں چہ بیوی اور بچوں کے مکمل اخراجات عورت کے بجائے مرد کے ذمہ رکھے ہیں، حتی کہ عورت کے ذمہ خود اس کا خرچہ بھی نہیں رکھا، شادی سے قبل والد اور شادی کے بعد شوہر کے ذمہ عورت کا خرچہ رکھا گیا۔ اس لیے مرد کا حصہ عورت سے دو گنا رکھا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لڑکیوں کو میراث دلانے کا اس قدر اہتمام کیا ہے کہ لڑکیوں کے حصہ کو اصل قرار دے کر اس کے اعتبار سے لڑکوں کا حصہ بتایاکہ لڑکوں کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔

بھائی و بہن کے حصے
٭...میت کے بہن بھائی کو اسی صورت میں میراث ملتی ہے جب کہ میت کے والدین اور اولاد میں سے کوئی بھی حیات نہ ہو۔ عموماً ایساکم ہوتا ہے، اس لیے بھائی بہن کے حصے کا تذکرہ یہاں نہیں کیا ہے۔ تفصیلات کے لیے علماء سے رجوع فرمائیں۔

خصوصی ہدایت: میراث کی تقسیم کے وقت تمام رشتے داروں کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اگر میت کا کوئی رشتہ دار تنگ دست ہے اور ضابطہٴ شرعی سے میراث میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے، پھر بھی اس کو کچھ نہ کچھ دے دیں، جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے (سورہٴ النساء 8 و 9) میں اس کی ترغیب دی ہے۔ 10ویں آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں درحقیقت وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں اور وہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونکے جائیں گے۔

تنبیہ: میراث وہ مال ہے جو انسان مرتے وقت چھوڑکر جاتا ہے اور اس میں سارے ورثاء اپنے اپنے حصے کے مطابق حق دار ہوتے ہیں۔ انتقال کے فوراً بعد مرنے والے کی ساری جائیداد ورثاء میں منتقل ہوجاتی ہے۔ لہٰذا اگر کسی شخص نے میراث قرآن وسنت کے مطابق تقسیم نہیں کی تو وہ ظلم کرنے والا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تقسیم میراث کی کوتاہیوں سے بچنے والا بنائے اور تمام وارثوں کو قرآن وسنت کے مطابق میراث تقسیم کرنے والا بنائے۔ یہاں اہل علم حضرات کے چند اہم مسائل اختصار کے ساتھ ذکر کئے گئے ہیں، بہتر ہے کہ تفصیلات کے لئے علمائے کرام سے رجوع ضروری ہوجاتا ہے۔

No comments:

Post a Comment