Wednesday, 15 February 2017

تصوف کی تعریف

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تصوف کے جتنے بھی لغوی اعتبار سے معنی و مطالب بیان کیے گئے ہیں ان سب میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ تصوف اللہ رب العزت سے ایسی بے لوث اور بے غرض دوستی اور محبت کا نام ہے جو نہ صرف دنیاوی لالچ، اخروی طمع سے یکسر پاک ہو بلکہ اس راہ پر چلنے والے (سالک) کا قلب تعلق باﷲ میں دنیا و آخرت کے تمام نفع و نقصان کے اندیشوں سے بالکل بے نیاز ہو جائے اور اخلاص کا جذبہ ظاہر و باطن میں اس قدر رچ بس جائے کہ انسان کی بندگی محض لوجہ اﷲ ہوجائے، بندے کی عبادت کا مقصد صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا دیدار ہو جائے اس کی عبادت نہ مال و دولت، عزت و شہرت کے لئے ہو نہ جنت کے لالچ کے لئے اور نہ ہی دوزخ کے خوف سے۔ الغرض تعلق باﷲ کی لذت و حلاوت اور محبت الٰہی کی چاشنی و شرینی بندے کو اس طرح محبوب تر ہو جائے کہ بارگاہ الٰہی میں حاضری کے وقت اس کے دل میں کسی غیر کا خیال تک بھی نہ گزرنے پائے اور وہ ہر وقت بندگی کی اسی کيفیت میں رہے۔ حقیقت تصوف تمام تر حسن نیت، حسن احوال، حسن اخلاق، حسن اعمال سے عبارت ہے۔
خدا کے بہت سے بندے ایسے بھی ہیں جو دیدارِ الہٰی کے مقابلے میں جنت کو بھی اچھا نہیں سمجھتے
حضرت بایزید بسطامیؒ
تذکرۃُ الاولیاء
تصوف کی تعریف مختلف بزرگان دین سے اس طرح نقل کی گئی ہے کہالتصوف ھو علم یعرف بہ احوال تزکیۃ النفوس و تصفیۃ الاخلاق و تعمیر الظاھر والباطن لنیل السعادۃ الابدیۃ
(شرح شیخ الاسلام ابی یحییٰ زکریا الانصاری)
”یعنی تصوف ان کیفیات کا علم ہے جن کے ذریعہ نفس کا تزکیہ اور اخلاق کا تصفیہ اور ظاہر و باطن کی تعمیر ہوتی ہے، تاکہ انسان ابدی سعادت حاصل کرسکے۔“حضرت ابوالحسن نوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیںالتصوف ترک کل حظ للنفس
”تصوف تمام لذات نفسانی کو ترک کردیتے کا نام ہے۔“حضرت ابو علی قزوینی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد گرامی ہےالتصوف ھو الاخلاق المرضیۃ
”تصوف پسندیدہ اخلاق (کو اختیار کرنے) کا نام ہے۔“ابومحمد جریری رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہےالتصوف الدخول فی کل خلق سنی والخروج من کل خلق دنی
”تصوف ہر اخلاق حمیدہ کو اختیار کرنے اور ہر اخلاق (شنیعہ) رذیلہ کو ترک کرنے کا نام ہے۔“حضرت کتانی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہالتصوف خلق فمن زاد علیک فی الخلق فقد زاد علیک فی الصفا
”تصوف اچھے اخلاق کا نام ہے، سو جس کے اخلاق تیرے اخلاق سے زیادہ عمدہ ہیں وہ صفا (تصوف و قلبی صفائی) میں بھی تجھ سے زیادہ ہے۔“    مندرجہ بالا تمام تعریفات سے یہ معلوم ہوا کہ تمام اخلاق حسنہ کو اختیار کرنے، تمام اخلاق رذیلہ کو ترک کرنے بالخصوص ظاہر کے ساتھ باطن کی اصلاح اور تعلق مع اللہ قائم کرنے، دنیا کو آخرت پر ترجیح دینے اور ہر معاملہ میں رضائے الٰہی کی طلب اور اس پر راضی رہنے کو تصوف کہا جاتا ہے۔فائدہ: معترضین تصوف کو انصاف سے یہ سوچنا چاہیے کہ تصوف ہے کیا چیز؟ اگر تصوف مذکورہ بالا چیزوں کا نام ہے تو ان میں وہ کون سی بات ہے جس پر انہیں اعتراض ہے یا وہ قرآن و سنت کے خلاف ہے۔ ہاں اگر بعض جہلاء نے اپنی غلط حرکت کا نام تصوف رکھا ہے یا غیر شرعی کام کرنے کے باوجود وہ خود کو صوفی کہلاتے ہیں تو اس میں ان کا قصور ہے نہ کہ تصوف کا۔ فتفکروا یاولی الالباب۔    مذکورہ بالا باتوں کو اختیار کرنے کا نام زہد، سلوک، احسان وغیرہ بھی ہے۔ ولا مشاحنۃ فی الاصطلاح۔ صوفیاء کرام نے اتفاق کیا ہے کہ اصطلاح کے بدلنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا کیونکہ سوال صرف یہ ہوتا ہے کہ نفس حقیقت کی حیثیت کیا ہے۔ جب کوئی حقیقت معین ہوگئی تو اس کا حکم اسی کی مناسبت سے جاری ہوگا، چاہے اس کا نام کچھ بھی رکھا جائے۔
صوفی کی تعریف

    تصوف کو عملی طور پر اختیار کرنے والے کا نام صوفی رکھا گیا ہے۔ حضرت شیخ ابو علی رودباری رحمۃ اللہ علیہ کار ارشاد ہےالصوفی من لبس الصوف علی الصفا واذاق الھویٰ طعم الجفا ولزم طرق المصطفیٰ و کانت الدنیا منہ علی القفاء
”صوفی وہ ہے جو قلب کی صفائی کے ساتھ صوف پوش (سادہ لباس) ہو اور نفسانی خواہشات کو (زہد کی) سختی دیتا ہو اور شریعت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو لازم پکڑتا ہو اور دنیا کو پسِ پشت (غیر مقصود) ڈال دیتا ہو۔“    حضرت شیخ جنید بغدادی علیہ الرحمۃ نے فرمایا ”صوفی فانی ز خویش اور باقی بحق ہوتا ہے۔“ حضرت عمر بن عثمان مکی رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہےالصوفی ھو ان یکون العبد فی کل وقت بما ھو اولیٰ بہ فی الوقت
”صوفی وہ ہے جو ہر وقت اسی کا ہوکر رہتا ہے جس کا وہ بندہ ہے۔“حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ نے ارشاد فرمایالصوفی ساکن الجوارح مطمئن الجنان مشروح الصدر منور الوجہ عامر الباطن غنیا عن الاشیاء لخالقھا
”صوفی پرسکون جسم، دل مطمئن، منور چہرہ، سینہ کشادہ، باطن آباد اور تعلق مع اللہ کی وجہ سے دنیا کی تمام اشیاء سے بے پرواہ ہوتا ہے۔“حضرت شیخ شبلی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہمنقطع عن الخلق و متصل بالحق
”صوفی مخلوق سے آزاد اور خدا سے مربوط ہوتا ہے۔“حضرت ذوالنون مصری علیہ الرحمۃ نے فرمایھم قوم آثروا اللہ عزوجل علیٰ کل شیء
”صوفیاء کرام وہ ہیں جو ہر چیز سے زیادہ اللہ کی رضا کو ترجیح دیتے ہیں۔“حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ اپنی کتاب ”المنقذ من الضلال“ میں پوری امت مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیںو علمت ان طریقتھم انما تتم بعلم و عمل و کان حاصل علمھم قطع عقبات النفس عن اخلاقھا المذمومۃ و صفاتھا الخبیثۃ حتیٰ یتوسل بھا الیٰ تخلیۃ القلب عن غیر اللہ تعالیٰ و تخلیۃ بذکر اللہ۔
”صوفیاء کرام کا طریقہ علم اور عمل کے ذریعہ مکمل ہوتا ہے اور ان کے علم کا حاصل یہ ہے کہ نفس اخلاق مذمومہ اور صفات خبیثہ سے پاک ہوجائے تاکہ دل غیراللہ سے خالی ہوکر اللہ کے ذکر سے مزین ہوجائے۔“
صوفیائے کرام کے متعلق حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ کی فیصلہ کن رائے

    صوفیاء کرام کا ذکر کرتے ہوئے حضرت امام غزالی ”المنقذ من الضلال“ میں فرماتے ہیںانی علمت یقینا ان الصوفیۃ ھم السالکون بطریق اللہ تعالیٰ خاصۃ و ان سیرتھم احسن السیر و طریقھم اصوب الطرق و اخلاقھم ازکی الاخلاق بل لو جمع عقل العقلاء و حکم الحکماء و علم الواقفین علیٰ اسرار الشرع من العلماء لیغیروا شیئا من سیرھم و اخلاقھم و یبدلوہ بما ھو خیر منہ لم یجدوا الیہ سبیلا فان جمیع حرکاتھم و سکناتھم فی ظاھرھم و باطنھم مقتبسۃ من نور مشکوٰۃ النبوۃ و لیس وراء نور النبوۃ علیٰ وجہ الارض نور یستضاء بہ۔    ”مجھے یہ بات پورے یقین سے معلوم ہوئی کہ صوفیاء کرام ہی اللہ کے راستہ پر چلنے والے ہیں، ان کی سیرت تمام سیرتوں سے بہتر ہے، ان کا طریقہ تمام طریقوں سے سیدھا ہے، ان کا اخلاق تمام لوگوں کے اخلاق سے زیادہ پاک ہے، بلکہ اگر تمام تمام عقلاء کی عقل کو اکٹھے کیا جائے، تمام حکماء کی حکمت کو جمع کیا جائے، علماء کے علم کو یکجا کیا جائے تاکہ صوفیاء کرام کے طریقہ کے متبادل کوئی طریقہ تلاش کیا جاسکے جو ان سے بہتر ہو تو لم یجدوا الیہ سبیلا یعنی اس طرح ہوہی نہیں سکتا، کیونکہ ان کی تمام حرکات و سکنات ظاہری ہوں یا باطنی نبوت کے نور سے لی ہوئی ہیں اور پورے کرۂ ارض پر نور نبوت کے علاوہ کوئی ایسا نور نہیں جس سے روشنی حاصل کی جاسکے۔“
صوفی کی وجۂ تسمیہ

صوفی کی وجہ تسمیہ میں چند اقوال ہیں۱۔ صوفی صفا سے مشتق ہے اور صفا سے مراد قلب کی صفائی ہے۔ صوفی کو صوفی اس لیے کہا گیا ہے کہ اس کا قلب باطنی بیماریوں سے صاف ہوتا ہے۔۲۔ صوفی صف سے مشتق ہے۔ صف سے مراد صف اول ہے۔ چونکہ صوفیاء کرام خدا تعالیٰ کے نزدیک صف اول کے بندے ہیں اس وجہ سے ان کو صوفی کہا جاتا ہے۔۳۔ صوفی صفہ سے مشتق ہے۔ صفہ سے مراد مسجد نبوی صلّی اللہ علیہ وسلم کا صفہ ہے۔ یہ لفظ اہل صفہ کی طرف منسوب ہے۔ اہل صفہ وہ چند صحابہ کرام تھے جنہوں نے اپنے آپ کو دنیوی معاملات سے علیحدہ کرکے رسول اللہ کی بارگاہ کے لئے وقف کردیا تھا، گویا یہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص طالب علم تھے۔ یہ لوگ سادہ لباس پہنتے تھے اور غذا بھی سادہ استعمال فرماتے تھے۔ چونکہ صوفیاء کرام کی زندگی میں اصحاب صفہ کی زندگی کی جھلک موجود ہوتی ہے، اس وجہ سے ان کو صوفی کہا جاتا ہے۔فائدہ: حضرت علامہ ابن تیمیہ علیہ الرحمۃ کی تحقیق کے مطابق یہ آخری وجہ ہی صحیح ہے، کیونکہ اوپر کے اشتقاقوں میں اصولا کچھ صرفی اور نحوی کمزوریاں ہیں۔ لہٰذا آخری وجہ ہی زیادہ معتمد ہے۔    اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں بحوالہ رسالہ قشیریہ مذکور ہے کہ صوفی کی وجہ تسمیہ میں کوئی ایک پہلو ملحوظ نہیں بلکہ وہ تمام پہلو ملحوظ ہیں جن کی طرف اس لفظ سے اشارہ ملتا ہے۔ اگر اس لفظ کا صرف ایک پہلو ملحوظ رہتا تو صوفیاء کرام اس لفظ کو اپنے لئے مخصوص نہ بناتے، بلکہ صوفی کا لفظ ان تمام حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو صوفی کے لفظ یا مناسبت سے ہیں۔ مثلا قلب کی صفائی اور پاکیزگی کی طرف، صفو برگزیدہ انسانوں کی طرف، صفی خالص دوست کی طرف۔ مصطفیٰ کا مادہ بھی صفو ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
لفظ صوفی اور تصوف کی مختصر تاریخ

    حقیقت یہ ہے کہ تصوف جس حقیقت کا نام ہے وہ حقیقت تو عین اسلام ہے۔ اس کا وجود بھی اسلام کے وجود کے ساتھ ساتھ موجود رہا ہے۔ ابتداء اسلام میں اس کو مختلف ناموں سے تعبیر کیا گیا، مثلا زہد، سلوک، احسان وغیرہ۔    حضرت علی ہجویری علیہ الرحمۃ تحریر فرماتے ہیں کہ آج کل تصوف ایک نام ہے بغیر حقیقت کے، لیکن گذشتہ دور میں تصوف کی حقیقت تھی بغیر نام کے۔    غرض یہ کہ حضرت علامہ ابن تیمیہ کی تحقیق کے مطابق صوفی کا لفظ سب سے پہلے بصرہ میں حضرت خواجہ حسن بصری کے متعلقین کے لئے استعمال ہوا۔ کیونکہ بصرہ میں زہد، عبادت اور خوف خدا کا بہت زیادہ مبالغہ تھا۔ اس حد تک کہ یہ مثال مشہور ہوگئی کہ فقر کوفی و عبادت بصری۔ بعض کے قول کے مطابق یہ نام سب سے پہلے جابر بن حیان (جو مشہور عالم کیمیا تھے) پر پڑا، جو زہد کا بہت زیادہ عادی تھا۔ تقریبا ۵۰ پچاس برس بعد دوسری صدی ہجری گذرنے کے بعد مسلمانوں میں لفظ صوفیہ کی اصطلاح عام ہوئی۔ تقریبا ۲۰۰ ہجری کے بعد بغداد کی مساجد میں تصوف کے موضوع پر درس دیئے گئے۔ اس کے بعد وقتا فوقتا تصوف کی اصطلاحات وضع ہوتی رہیں۔    متقدمین صوفیاء کرام کی تعلیمات کو مدون کرنے والے پہلے بزرگ حضرت حارث محاسبی (۲۴۳ھ) ہیں، جنہوں نے الرعایہ کتاب تصنیف کی۔    امام الصوفیاء حضرت جنید بغدادی (۲۹۷ھ) نے پہلی مرتبہ تصوف کو بحیثیت ایک فن کے تدوین کیا۔ آپ کی تدوین کے بعد آپ کے مخالفین نے بھی یہ تسلیم کیا کہ تصوف سنت کے مطابق ہے۔    ابو نصر سراج طوسی (م۳۷۸ھ) نے چوتھی صدی میں کتاب اللمع تصنیف کی، جس میں تصوف کی تمام بنیادی باتوں کو احادیث کی روشنی میں ذکر کیا۔ چوتھی صدی میں ہی التعرف بخارا میں لکھی گئی جس میں صوفیاء کے عقائد اور احوال کا ذکر کیا گیا۔ حضرت ابوطالب مکی (سنہ ۳۸۶ھ) نے بھی چوتھی صدی ہجری میں ہی قوب القلوب لکھی۔ پانچویں صدی میں طبقات الصوفیہ نیشاپور میں لکھی گئی اور ابو نعیم اصفہانی نے سنہ ۴۳۰ھ میں حلیۃ الاولیاء اصفہان میں لکھی۔ علامہ قشیری (م۴۶۵ھ) نے پانچویں صدی میں رسالۂ قشیریہ نیشاپور میں لکھا۔ حضرت علی ہجویری نے پانچویں صدی میں کشف المحجوب لکھی۔ پانچویں صدی کے آخر میں حضرت امام غزالی علیہ الرحمۃ نے احیاء علوم الدین اور المنقذ من الضلال کے ذریعے پوری امت مسلمہ کو خطاب کیا اور نہایت ہی مدلل، منظم اور سہل طریقے سے تصوف کی تمام بنیادی باتوں کا ذکر کیا اور المنقذ کے ذریعے اس نظریہ کی تائید کی کہ اہل تصوف کی زندگی ہی بلند ترین زندگی ہے۔ چھٹی صدی میں حضرت شیخ عبدالقادر علیہ الرحمۃ نے اس مسلک کو سنبھالا۔ اس طریقے سے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی، حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی، حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین اور کئی بزرگان دین نے اپنی تقریر، تبلیغ اور تحریر کے ذریعے تصوف کی اشاعت فرمائی۔    تصوف کی اصطلاحات میں وحدت الوجود (ہمہ اوست) کی اصطلاح اور اس کے اصول سب سے پہلے حضرت شیخ ابن عربی نے وضع کئے۔ اس کے مقابل حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمۃ نے ہمہ از اوست کی اصطلاح اور اصولوں کی اشاعت کی۔ علامہ ابن قیم نے ایک حنبلی صوفی عبداللہ الہروی کی کتاب منازل السائرین کی شرح لکھی ہے اور اس میں ذکر کیا ہے کہ صوفیاء کے آگے بہت بڑے بڑے فقیر اور متکلمین بھی سر جھکاتے تھے۔ مفتی محمد عبدہ نے لکھا ہے کہ وہ عارف جو سلوک کی آخری منزل پر پہنچ جاتے ہیں، وہ انبیاء کے بعد انسانی کمال کے بلند مرتبے پر فائز المرام ہیں۔
تصوف کے متعلق چند شبہات اور ان کے جوابات

سوال ۱۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں تصوف کا کوئی وجود یا تذکرہ نہ تھا۔ اگر اسلام میں تصوف کی کوئی حقیقت ہوتی تو اس کا تذکرہ لازما اس مبارک دور میں ملتا، لہٰذا تصوف کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں؟جواب۔ رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم یا خلفاء راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دور میں لفظ تصوف رائج نہ ہونے کی وجہ سے یہ کہنا کہ اس کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اپنے جہل کا ثبوت اور اسلام سے ناانصافی ہے۔ کیا وہ علوم جو اس وقت اسلامی علوم کے نام پر رائج ہیں اور تمام مدارس اسلامیہ میں پڑھائے جاتے ہیں مثلا علم الصرف، علم الںحو، علم اصول الفقہ، علم اصول الحدیث، علم اصول التفسیر، کیا ان علوم کا وجود رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا؟ کیا صحابہ کرام نے ان اصولوں پر کبھی غور و فکر کیا؟ کیا یہ اصطلاحیں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رائج تھیں؟ اگر جواب نفی میں ہے اور یقینا ہے تو پھر علم تصوف پر اعتراض کیوں؟ تصوف جس حقیقت کا نام ہے مثلا تزکیۂ نفس وغیرہ اس کے متعلق تو قرآن کریم یا احادیث مبارکہ میں ایک جگہ پر نہیں بلکہ متعدد مقامات پر ذکر موجود ہے۔ اور جس طرح رسول کریم صلّی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ اطہر میں قرآن اور حدیث کو سمجھنے کے لئے کسی دوسرے فن کو پڑھنے کی ضرورت نہ تھی، اسی طرح تزکیۂ نفس حاصل کرنے کے لئے کسی دوسرے ورد وظیفے کی ضرورت نہ تھی۔ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر انور انسان کو کامل سے کامل ترین بنانے کے لئے کافی تھی اور چونکہ اس وقت باقی تمام فنون کو پڑھنے پڑھانے اور سمجھنے کا بنیادی مقصد قرآن و حدیث کا سمجھنا ہے، اسی طرح تصوف کی تمام باتوں کا بنیادی مقصد تزکیۂ نفس کا حصول ہے اور قرآن کریم نے انسان کی فلاح کی بنیاد تزکیۂ نفس پر رکھی ہےقد افلح من تزکّیٰ (الاعلیٰ)
”بیشک مراد کو پہنچا وہ جو ستھرا ہوا۔“قد افلح من زکٰھا و قد خاب من دسھا (شمس)
”بیشک مراد کو پہنچا جس نے اسے ستھرا کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اسے (گناہوں میں) چھپایا۔“فائدہ: یہ بات ہمیشہ کے لئے ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہر لحاظ سے کامل و اکمل، تمام اوصاف جمیلہ کا مجموعہ، تمام علوم عقلیہ و نقلیہ کا منبع اور مصدر تھی۔ آپ صلّی اللہ علیہ وسلم بیک وقت معلم بھی تھے اور مجاہد بھی، فقیر بھی تھے تو غنی بھی۔ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بھی آدمی آپ کی مثل باکمال نہیں ہوسکتا، اور اللہ پاک آپ صلّی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو تاقیامت زندہ رکھنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے آپ کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے لئے مختلف اوقات میں مختلف شخصیات پیدا کیں۔ اگر قرات اور تجوید کے فن کو زندہ رکھنے کے لئے قراء سبعہ کو پیدا کیا تو احادیث کو محفوظ رکھنے کے لئے ائمہ حدیث یعنی امام بخاری علیہ الرحمۃ اور امام مسلم علیہ الرحمۃ جیسے اماموں کو پیدا کیا۔ فقہ کے فن کو اجاگر کرنے کے لئے ائمہ اربعہ یعنی امام ابوحنیفہ اور امام شافعی وغیرہما جیسے اماموں کو پیدا کیا۔ لوگوں کے تزکیۂ نفس کے لئے شیخ عبدالقادر جیلانی اور امام ربانی مجدد الف ثانی وغیرہما جیسے امام پیدا کئے۔ ان تمام محدثین کرام، ائمہ عظام اور شیخ کرام کا مقصد رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے کسی نہ کسی پہلو کی خدمت کرنا ہے۔سوال ۲۔ تصوف میں ہر عمل کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ۱۔ ظاہری، ۲۔ باطنی۔ علم کی دو اقسام بیان کی جاتی ہیں، ۱۔ ظاہری ۲۔ باطنی۔ جبکہ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جو کچھ تھا ظاہر ہی تھا؟جواب۔ ظاہر اور باطن اہل تصوف کی ایک اصطلاح ہے۔ پہلے اس کا مفہوم سمجھ لینا چاہئے۔ علم ظاہر سے مراد ان باتوں کا علم یا ان اعمال کا علم ہے جن کا تعلق انسان کے ظاہری اعضاء سے ہے اور علم باطن سے مراد ان احکامات کا علم ہے جن کا تعلق باطنی اعضاء سے ہے، اور دونوں انواع کے احکامات قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں کثرت سے ہیں۔ مثلا رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے ریا، بغض اور حسد رکھنے سے سختی سے منع فرمایا ہے، جبکہ ان باتوں کا تعلق صرف اور صرف انسان کے دل سے ہے۔ خود اللہ پاک نے اپنے کلام مقدس میں فرماییوم لا ینفع مال و لا بنون۔ الا من اتی اللہ بقلب سلیم۔ (الشعراء)
”جس دن یہ مال کام نہیں آئے گا مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا سلامت دل لیکر۔“قد افلح من تزکیٰ۔ و ذکر اسم ربہ فصلّی۔ (الاعلیٰ)
”بیشک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لیکر نماز پڑھی۔“وغیرہ، تو ان باتوں کا تعلق صرف اور صرف باطن سے ہے۔ اہل تصوف کے پاس ان اعمال کا علم جن کے ذریعے قلب سلیم اور تزکیۂ نفس حاصل ہو علم باطن کہا جاتا ہے۔ بعض اعمال ایسے ہیں جو اپنے اندر دو پہلو رکھتے ہیں، ایک کا تعلق ظاہر سے اور دوسرے کا تعلق باطن سے ہوتا ہے۔ مثلا نماز کے متعلق نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز پڑھتے وقت اپنا منہ کعبۃ اللہ کی طرف کریں، کپڑے پاک رکھیں وغیرہ، ان احکامات کا تعلق صرف ظاہری اعضاء کے ساتھ ہے اور نماز کے متعلق ہی نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نماز میں ریا نہ ہو اور فرمایا ”صل کانک تراہ“ خدا کی عبادت ایسے کرو کہ گویا تم خدا کو سامنے دیکھ رہے ہو۔ ان احکام کا تعلق باطن سے ہے۔ اب صوفیاء کرام کا خیال یہ ہے کہ انسان کے باطن کی اتنی ترقی ہو کہ وہ ”صل کانک تراہ“ کے مقام کو حاصل کرسکے۔ اب ہر ذی شعور خود فیصلہ کرے کہ علم باطن بھی شرعی علم ہے کہ نہیں۔سوال ۳۔ صوفیاء کرام کے پاس شریعت کے علاوہ کچھ دوسرے تصورات بھی ہیں، مثلا طریقت، حقیقت، معرفت وغیرہ، جبکہ ایک مسلمان کے لئے صرف شریعت کی اطاعت ہی لازمی ہے اور شریعت ہی سب کچھ ہے؟جواب۔ سب سے پہلے ان اصطلاحات کا مختصر طور پر مطلب سمجھ لینا چاہیے۔حقیقت: حقیقت سے مراد شریعت کی حقیقت ہے (حقیقتِ شریعت)۔طریقت: یعنی شریعت کی حقیقت معلوم کرنے اور حاصل کرنے کا طریقہ۔ مثلا مذکورہ بالا مثال میں یہ عرض کیا گیا کہ نماز کے لئے مختلف قسم کے احکام وارد ہیں، بعض کا تعلق ظاہری اعضاء سے ہے اور بعض کا تعلق باطن سے ہے۔ اب کامل نماز وہ ہے جس میں ان تمام حقوق کی رعایت کی جائے اور جو نماز کا مقصد ہے اسے حاصل کیا جائے۔ ایک شخص نماز کے ظاہری احکامات کو پورا کرتا ہے، اس کے کپڑے پاک ہیں جسم بھی پاک ہے، قبلہ کی طرف رخ بھی ہے وغیرہ۔ اب ظاہری طور پر تو ہم اس کو نمازی ہی کہیں گے، لیکن اگر اس کے دل میں ریا ہے یا اس کا دل نماز میں حاضر نہیں ہے تو حقیقت میں یہ شخص نمازی نہیں یا کم از کم اس کی نماز کامل نہیں ہے۔ اب اس نماز کو کامل بنانے کا حکم بھی شریعت میں موجود ہے۔ بزرگان دین نے ایسے طریقے وضع کیے ہیں جن کو اختیار کرنے سے دل میں خشوع، خضوع اور نیت کا اخلاص حاصل ہوتا ہے اور اس نماز کو حقیقی نماز سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس حقیقت کے حاصل کرنے کو ”حقیقت“ اور اس حقیقت تک پہنچنے کے لئے جو طریقہ وضع کیا گیا ہے اس کو ”طریقت“ کہتے ہیں۔    کیا اب بھی کوئی ذی علم یا ذی شعور یہ کہہ سکتا ہے کہ حقیقت اور طریقت اسلام یا شریعت کے مخالف ہیں؟ جبکہ ان کے حاصل کرنے کا حکم خود نصوص قطعیہ (قرآن و حدیث) میں موجود ہے۔ اس بات کو حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی نے اس طرح بیان کیا ہے کہ شریعت کے تین اجزاء ہیں: ۱۔ علم ۲۔ عمل ۳۔ اخلاص۔ عمل کے بغیر علم بیکار ہے۔ اسی طرح اخلاص کے بغیر عمل بیکار ہے۔ علم و عمل کا مقصد اخلاص کا حصول ہے۔ طریقت اور حقیقت شریعت کے خدام ہیں۔ طریقت اور شریعت کا مقصد شریعت کی تکمیل ہے۔فائدہ: البتہ یہ بات لازم ہے کہ شریعت کی حقیقت حاصل کرنے کے لئے جو بھی طریقہ وضع کیا جائے وہ یا تو قرآن و حدیث سے ثابت ہو یا کم از کم قرآن و حدیث کے خلاف نہ ہو۔خلاف پیغمبر کسے رہ گزید    کہ ہرگز بمنزل نہ خواہد رسیدمعرفت: معرفت سے مراد اللہ کی معرفت ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ پر اس کا حکم ہے۔ یا نفس کی معرفت ہے جس کے متعلق مشہور ہے ”من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔“    حقیقت، طریقت اور معرفت کے مفہوم سمجھنے کے بعد ہر ایک خود بخود سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب عین شریعت ہے۔سوال ۴۔ لفظ صوفی ایک یونانی لفظ سوفوس کی نقل ہے اور یہ نظریہ یونان سے درآمد شدہ ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں؟جواب۔ صوفی کے لفظ کی تحقیق میں یہ بات تفصیل سے عرض کی گئی ہے کہ صوفی کس سے مشتق ہے۔ اس لفظ کی ابتدا کس طرح ہوئی۔ مزید برآں یہ بھی ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ اسلامی انسائیکلوپیڈیا کی تحقیق کے مطابق خود یونان میں استعمال ہونے والی آزمی زبان میں کوئی ایسا لفظ موجود نہیں جس میں اور لفظ صوفی میں کوئی قدر مشترک ہو۔سوال ۵۔ عام طور پر اپنے آپ کو صوفی بتانے والوں کے کردار اور بعض باتوں کی طرف نگاہ کرنے سے سامنے آتا ہے کہ ان باتوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، تو پھر ایسے لوگوں کے طریقے کو کس طرح صحیح جانا جائے؟جواب۔ کسی شخص کی ذاتی بری حرکتوں کی وجہ سے کسی نظریہ کو غلط کہنا جہل مرکب کے مترادف ہے۔ آج کل عمومًا مسلمانوں کے کچھ اعملا ایسے بھی ہیں جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، مثلًا چوری، ڈاکہ زنی، قتل، خونریزی وغیرہ۔ تو کیا بعض مسلمانوں کے غلط اعمال کی وجہ سے اسلام کو ہی برا بھلا کہا جائے گا؟ معاذاللہ بلکہ ان مسلمانوں کو سمجھایا جائے گا کہ آپ کے یہ اعمال اسلام کے مخالف ہیں، ان سے باز آجاؤ۔ کیا کوئی عالم برا کام کرے تو علم کو بھی خراب کہیں گے؟ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بے عمل اور جاہل صوفیوں کو تصوف کی حقیقت سے آگاہ کیا جائے تاکہ سارے تصوف کو برا نہ کہا جائے۔سوال ۶۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ”لا رھبانیۃ فی الاسلام“ اور صوفی ازم بھی رہبانیت کی ہی تصویر ہے۔ لہٰذا اس کے لئے اسلام میں کوئی جگہ نہیں؟جواب۔ یہ کہنا کہ تصوف رہبانیت کی تصویر ہے عین جہالت ہے۔ رہبانیت میں تو حقوق العباد کا مکمل خاتمہ ہے، جبکہ تصوف حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کو بھی پوری طرح ادا کرنے کا درس دیتا ہے۔    یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام سے پہلے کئی ایسی باتیں تھیں جن کی بنیاد تو کسی پسندیدہ حقیقت پر تھی لیکن بعد میں لوگوں نے اپنی طرف سے ان میں افراط و تفریط کی۔ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو ان باتوں کا اصل صحیح طریقہ افراط و تفریط سے چھانٹ کر بتایا۔ مثلًا نماز، روزہ، حج وغیرہ یہ عبادات اسلام سے پہلے بھی موجود تھیں، لیکن ان کا صحیح تصور دنیا سے غائب ہوچکا تھا۔ بعد میں نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس کی صحیح تصویر پیش کی۔ اسی طرح رہبانیت کے سلسلہ میں (سورۃ حدید پارہ ۲۷) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایو جعلنا فی قلوب الذین اتّبعوہ رافۃ و رحمۃ و رھبانیۃ ن ابتدعوھا ما کتبناھا علیھم الا ابتغآء و رضوان اللہ فما رعوھا حق رعایتھا (سورۃ الحدید)
”اور اس کے پیروؤں کے دلوں میں نرمی اور رحمت رکھی ہے اور راہب بننا، تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی، ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی۔ ہاں انہوں نے یہ بدعت اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لئے پیدا کی پھر اسے نہ نبھایا۔“    اس آیت مبارکہ سے صاف معلوم ہوا کہ رہبانیت کے اصل وجود کو تبدیل کیا گیا۔ اگر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے رہبانیت سے منع فرمایا تو وہ اس وقت کی موجود رہبانیت تھی۔ اس کی جگہ پر رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی زبان سے تزکیہ کا صحیح تصور اور اس کا صحیح طریقہ پیش کیا۔ تصوف کا بنیادی مقصد صرف اور صرف تزکیۂ نفس کا حصول ہے۔ واللہ اعلم بالصوابفائدہ: اگر کوئی شخص رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے علاوہ کسی اور طریقے سے تزکیۂ نفس اور صفائی قلب کی کوشش کرے گا تو اس کا قلب صاف ہونے کے بجائے مزید گندہ ہوگا۔ اس کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص اپنے کپڑے کو پانی کے بجائے پیشاب سے پاک کرنے کی کوشش کرے۔سوال ۷۔ موجودہ دور مادی ترقی کا دور ہے، اس دور میں تصوف کے کونسے فوائد ہیں؟جواب۔ جو شخص اس بات تسلیم کرتا ہے کہ اسلام ہر دور کی ضرورت ہے تو اس کو یہ بات بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ تصوف بھی ہر دور کی ضرورت ہے۔ کیونکہ تصوف اسلام کے مختلف اجزاء میں سے ایک اہم جزء ہے۔ رسول اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں تلاوت آیات کلام الٰہی، تعلیم کتاب الٰہی، تعلیم حکمۃ اور تزکیۂ نفس کا تذکرہ بھی آتا ہے۔ جس طرح تعلیم کتاب کے بغیر اسلام نامکمل ہے، اسی طرح تزکیۂ نفس کے بغیر بھی اسلام نامکمل ہے اور تصوف کی بنیادی مقصد تزکیۂ نفس کا حصول ہے جو کہ رضاء الٰہی، قرب الٰہی اور دینی و دنیوی سعادت کے حصول کا ذریعہ ہے۔ معلوم ہوا کہ تصوف کے بغیر کوئی انسان کامل مسلمان نہیں ہوسکتا۔ جب تک کوئی کامل مسلمان نہیں بنتا تب تک وہ کامل انسان بھی نہیں ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں جو خامیاں موجود ہیں، مثلًا دنیوی ترقی میں ہم پیچھے ہیں، ہر جگہ پر دنگا فساد برپا ہے، دوسری وجوہات کے ساتھ ساتھ ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا تصوف کا پہلو یا تو بالکل ناپید ہے یا کم از کم نامکمل ہے۔ اگر یہ پہلو ہمارے اندر مکمل ہوجائے تو نہ صرف دینی بلکہ دنیوی طور پر بھی ہم کامیابی سے آگے بڑھ سکتے ہیں۔ دنیوی طور پر ترقی نہ کرنے کی وجوہات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارا نظام حکومت صحیح نہیں ہے۔ نظام حکومت کیوں صحیح نہیں ہے؟ اس لئے کہ ہمارے اندر اتحاد نہیں ہے۔ اتحاد کیوں نہیں ہے؟ اس لئے کہ ہر ایک فرد میں لالچ، حرص، تکبر اور بغض موجود ہے، کسی میں بھی تواضع موجود نہیں۔ تصوف پر عمل کرنے سے انسان میں تواضع پیدا ہوتا ہے، حرص، لالچ اور بغض جیسے امراض ختم ہوجاتے ہیں۔ جب یہ امراض ختم ہوں گے تو ہر ایک دوسرے کے ماتحت قومی مفاد کے لئے کام کرنا شروع کردے گا۔ ہمارے اندر اجتماعیت، اتحاد، نظم و ضبط پیدا ہوگا اور ان صفات کے ذریعہ ہی ہم نظام حکومت کو بہتر بناسکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ مادی ترقی کرسکتے ہیں۔    مذکورہ بالا صفات عام مسلمانوں میں تو کجا بعض علماء میں بھی افسوسناک حد تک نایاب ہیں۔ لہٰذا علماء کے لئے زیادہ ضروری ہے کہ باطن کی اصلاح کی طرف توجہ دیں، تاکہ ان کا ہر کام اللہ کی رضا کے لئے ہوجائے۔ انصاف کی بات تو یہ ہے کہ اگر علماء میں صحیح معنوں میں تواضع آجائے جو کہ علم کا خاصہ ہے تو مختلف فیہہ مسائل میں ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھانے کی کوشش ہوگی، ایک دوسرے کے پاس جانا گراں نہیں گزرے گا۔ امتِ مسلمہ کے لئے ایک متفقہ لائحہ عمل تیار ہوگا۔ تو آج بھی مسلم قوم کا بخت بیدار ہوسکتا ہے اور نہ صرف دینی بلکہ دنیوی اور مادی ترقی بھی زیادہ سے زیادہ ہوسکتی ہے۔
تحریر لطیف

خواجہ محمد طاہر عباسی نقشبندی مجددی مدظلہ العالی


خدا کے بہت سے بندے ایسے بھی ہیں جو دیدارِ الہٰی کے مقابلے میں جنت کو بھی اچھا نہیں سمجھتے
حضرت بایزید بسطامیؒ
تذکرۃُ الاولیاء

No comments:

Post a Comment