ایس اے ساگر
مشہور سیاح علامہ ابن بطوطہ رحمةاللہ علیہ نے جزائر مالدیپ میں انسانی بلی چڑھائے جانے کے واقعے کو نقل کیا ہے۔ اس وقت ہندوحکمراں راجہ دھرم سانت نے بھی اسلام قبول کیا۔ مشہور مسلمان مورخ ابن بطوطہ بھی مالدیپ آئے اوریہاں بطورقاضی کام کرتے رہے۔اس سیاح اور مورخ کا مکمل نام ابوعبداللہ محمدا بن بطوطہ ہے جو مراکش کے شہر طنجہ میں پیدا ہوئے۔ ادب، تاریخ، اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعدانھوں نے محض اکیس سال کی عمر میں پہلا حج کیا۔ اس کے بعد شوق سیاحت نے انھیں افریقہ کے علاوہ روس سے ترکی پہنچا دیا۔ انھوں نے جزائر شرق الہند اور چین کی بھی سیاحت کی۔ عرب، ایران ، شام ، فلسطین ، افغانستان ، اور ہندوستان کی سیر کی۔ چار بار حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے اور محمد تغلق کے عہد میں ہندوستان آئے تھے۔ سلطان نے ان کی بڑی آو بھگت کی اور قاضی کے عہدے پر سرفراز کیا۔ یہیں سے ایک سفارتی مشن پر چین جانے کا حکم ملا۔ 28 سال کی مدت میں انھوںنے 75ہزار میل کاسفر کیا۔ آخر میں فارس کے بادشاہ ابوحنان کی دربار میں آئے اور ان کے کہنے پر اپنے سفر نامے کو کتابی شکل دی۔ اس کتاب کا نام عجائب الاسفارنی غرائب الدیار ہے۔ یہ کتاب مختلف ممالک کے تاریخی و جغرافیائی حالات کا مجموعہ ہے۔ابن بطوطہ کا سفرنامہ مالدیپ کے قدیم احوال کے بارے میں اولین تاریخی دستاویزشمار ہوتی ہے۔
اپنے سفرنامہ میں وہ تحریر کرتے ہیں کہ جب وہ جزائر مالدیپ میں سیاحت کرتے ہوئے پہنچے تو دیکھا کہ تمام ملک اذان کی صداو¿ں سے گونج رہاہے اور ساری زمین سجدہ ہائے نماز کی کثرت سے ٹپی پڑی ہے۔ انہیں اس سے بہت تعجب ہواکہ کیوں کہ ان کے علم کے مطابق کوئی مسلمان اس میں فاتحانہ یا تاجرانہ حیثیت سے کبھی نہیں پہنچاتھا۔ انہوں نے وہاں کے لوگوں سے پوچھا کہ یہ دور دراز سرزمین اسلام کے نور سے کیسے روشن ہوئی؟وہاں کے اہل علم نے بتایاکہ عربوں کا کوئی تجارتی جہاز مشرقی اقصیٰ کی طرف جارہا تھا۔ یہ مشرقی جزائر کے قریب تھا کہ سمندر میں سخت طوفان آیا اور جہاز تباہ وبرباد ہوگیا۔ اس کے مسافروں میں سے ایک مسلم تاجر کسی تختہ پر بیٹھ کربچ گیا۔اللہ کے فضل سے ہمارے جزیرہ کے ساحل پر آلگا۔ یہ ایک مراکشی عرب تھا۔ چونکہ جزیرہ میں اس کا کوئی یارومددگار نہ تھا۔ اس لئے اس نے ایک بڑھیاکے گھر پناہ لی۔ وہ جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتاتھا اور انہیں فروخت کرتاتھا۔ ایک عرصہ تک اسی پر گزراوقات کرتا رہا۔ ایک دن جب یہ عرب گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ بڑھیا روپیٹ رہی ہے اور پاس ہی اس کی نوجوان لڑکی سر پیٹ رہی ہے۔
عرب نے پوچھا۔’یہ مصیبت کیسی ہے؟‘
بڑھیا نے جواب دیاکہ آج یہ میری اکلوتی بچی مرجائے گی۔ عرب نے پوچھا کہ کیسے مرجائے گی؟ یہ تو تندرست ہے اور عالم الغیب تو خدائے تعالیٰ ہی ہے۔‘ بڑھیا نے انگلی کے اشارے سے بتایا کہ وہ سامنے دیکھو موت کھڑی ہے۔‘عرب نے حیرت زدہ ہوکر دیکھا تو فوجی سوار سامنے کھڑے تھے۔ اس نے حوصلہ مندی سے دریافت کیا کہ کیا یہ تمہاری لڑکی کو قتل کردیں گے؟‘بڑی بی نے کہا کہ یہ بات نہیں‘دراصل یہ سپاہی میری لڑکی کو لینے آئے ہیں کیونکہ ہمارے اس جزیرہ میں ہرمہینہ کی ایک مقررہ تاریخ کو ایک سمندری بلا نمودار ہوتی ہے جس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم اس جزیرہ والوں کی طرف سے ایک کنواری لڑکی اسی تاریخ کو غروب آفتاب کے بعد ایک مندر میں جو سمندر کے کنارے ہے پہنچادیتے ہیں۔ دوسری صبح کو جب حکومت کے آدمی ساحل سمندر پر جاتے ہیں تو وہ لڑکی مردہ ملتی ہے‘اور اس کا کنوارہ پن زائل شدہ۔ ہرسال قرعہ اندازی سے فیصلہ کیا جاتاہے کہ کون لڑکی بھیجی جائے؟ ‘یہاں تک بیان کرکے بڑھیا زیادہ روئی اور کہنے لگی کہ اس مرتبہ قرعہ میری لڑکی کے نام نکلاہے جو میری اکلوتی بیٹی ہے اس وجہ سے ہم رورہے ہیں۔
جب عرب نے یہ دردناک کہانی سنی تو کہاکہ تسلی رکھو میں اس سمندر میں بلا یعنی خبیث جنات کا علاج میں جانتاہوں۔ آج رات میں خود اس سمندر میں جاوں گاتاکہ تمہاری اکلوتی لڑکی کی بجائے اپنی جان قربان کردوں۔ تم مجھے اپنی لڑکی کے زنانہ کپڑے پہنادو تاکہ کوئی شخص مجھے پہچان نہ سکے ۔مراکشی عرب ان لوگوں میں سے تھا جن کے ڈاڑھی مونچھ صفر کے برابر یابالکل نہیں ہوتی۔ بڑھیا نے عرب کی یہ تجویز منظور کرلی اور اسے زنانہ کپڑے پہنادئے۔ جب سپاہی آئے تو بڑھیا نے اس کو ان کے ساتھ بھیج دیا۔ جو اس کو مندر میں بٹھاکر چلے آئے۔ یہ عرب قرآن پاک کے حافظ تھے۔ان کا نام ابو البرکات تھا۔جب حکومت کے سپاہی دور چلے گئے تو انہوں نے نہایت اطمینان سے وضو کیا۔ عشاءکی نماز پڑھی پھر اپنے سامنے ننگی توار ڈال کر سمندر کی موجوں کودیکھنے لگے اور قرآن پاک کی تلاوت شروع کردی۔
رات نہایت خوفناک ،اندھیرا چھایا ہوا اور جزائر مالدیپ کی ساری کائنات نیند کے سمندر میں غرق تھی۔ سوائے تین روحوں کے جن کی آنکھوں پر نیند کی لذت حرام تھی۔ ان میں سے ایک بہادر شیر دل عرب تھا جس کی آنکھوں میں پانی کا سمندر تھا اور سینہ میں ایمان کا سمندر دوسری غریب بڑھیا تھی جسے اپنی اکلوتی بیٹی کی زندگی پرشاد ہونا چاہئے تھا لیکن مراکشی غریب الوطن کی شہادت کا غم اس کے دل وجگر کو چھیلے ڈال رہا تھا۔ تیسری روح جزیرہ کی وہ معصوم لڑکی جس کو قرعہ حکومت نے موت اور ذلت کیلئے۔ مگر قسام ازل نے زندگی اور عزت کیلئے منتخب کرلیا تھا۔ وہ شریف اور بہادر عرب کے غم میں نڈھال تھی۔ اور روئے جاتی تھی۔
شریف اور بہادر مراکشی عرب نے دل کش آواز کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت شروع کردی اور اسی عالم میں رات کے بارہ بج گئے۔ ناگہاں افق سمندر سے ایک جہاز جیسی عجیب خوفناک شکل نمودار ہوئی جس میں بے شمار خانے بنے ہوئے تھے۔ یہ شے آہستہ آہستہ کنارے کی طرف آئی اور مندر کے پاس آکر رک گئی۔ مراکشی غازی اپنی تلاوت میں مصروف رہا۔ نتیجہ یہ ہواکہ یہ خوفناک بلا آگے نہ بڑھ سکی اور تھوڑی دیر ٹھہر کر آہستہ آہستہ واپس چلی گئی۔ یہاں تک کہ نظروں سے غائب ہوگئی۔
صبح کے وقت جب حکومت کے سپاہی ۔ لڑکی کی نعش لینے آئے تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ وہاں کوئی نعش موجود نہ تھی۔ لڑکی غائب اور اس کی بجائے ایک بہادر جواں مرد مسلمان موجود تھا سپاہی اس غازی اسلام کے پاس آئے اور اس کو راجہ کے پاس لے گئے۔ راجہ نے ساری داستان سنی اطمینان کیلئے جرح کی۔ پھر بڑھیا اور اس کی بیٹی کو بلایاجنہوں نے تمام واقعات کی تصدیق کردی شریف عرب نے راجہ کو بتایاکہ میرا یہ فعل شریعت اسلام کے مطابق اوربوڑھی خاتون کے احسان کا معمولی سا بدلہ ہے۔ راجہ’ معمولی‘ لفظ سے بے حد متاثر ہوا۔ پھرراجہ نے پوچھا تم اتنی بڑی بلاکے سامنے تن تنہا جاکھڑے ہوئے۔
مراکشی عرب نے کہاکہ میں اکیلا نہیں تھابلکہ میرا خدا میرے ساتھ تھا ۔‘
راجہ نے پوچھا کہ لیکن تم ڈرے کیوں نہیں؟ مجاہد عرب نے جواب دیا کہ مسلمان خداکے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔‘راجہ نے جوش سے کہا کہ اگر اس مرتبہ بھی تم اکیلے گئے اور سلامت واپس آگئے تو ہم سب اسلام کی صداقت کے سامنے سرتسلیم خم کردیں گے۔ تمام اہل دربارنے اس کی تائید کی۔ اس کے بعد جب دوسری تاریخ آئی تو بہادر عرب پھر مندر میں چلاگیا اور صحیح وسلامت واپس آگیا۔
اس مرتبہ کسی بلانے سمندر کا رخ نہیں کیا۔ جب راجہ اور اس کی رعیت کو یہ معلوم ہواکہ اس مسلمان کے فیض قدم سے اہل جزیرہ کو خوفناک سمندر ی بلا اور شیاطین سے ہمیشہ کیلئے نجات مل گئی ہے تو تمام ملک میں اسلام کی صداقت کا غلغلہ بلند ہوگیا۔ سب سے پہلے بڑھیا اور اس کی بیٹی مسلمان ہوئی اس کے بعد راجہ اور اس کے درباریوں نے اسلام قبول کیا اور پھر تمام جزائر میں لاالہ الااللہ، محمد الرسول اللہ کی دھوم مچ گئی۔اس طرح مالدیپ میں اسلام پہلی صدی ہجری میںعرب تاجروں کی وساطت سے آیا۔یہ واقعہ1314کا ہے۔ مالدیپ کے لوگ اسے اب تک ’روحانی انقلاب ‘ کے نام سے یادکرتے ہیں۔ اس وقت سے اب تک پرتگالیوں کے مختصراًعہداقتدار کے سوا مالدیپ اسلامی سلطنت چلی آر ہی ہے۔ مالدیپ کا شماربھی قدیم اسلامی سلطنت میںہوتاہے۔1581میں ان جزائر پرپرتگالیوں نے قبضہ کرلیا لیکن70ویں صدی میں دلندیزیوں کی نگرانی میں آگیا ‘جوسری لنکا کے بھی حاکم تھے۔1887 میں ایک معاہدے کے تحت برطانیہ براعظم پاک وہند کے ساتھ مالدیپ کا بھی حکمران تسلیم ہوا۔
No comments:
Post a Comment