Tuesday 24 March 2020

وباء، طاعون اور کورونا؟

وباء، طاعون اور کورونا؟
           ————
بہت کم وقت میں انسانی معاشرہ کے متعدد افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لینے والے سریع الانتشار ہر  متعدی مرض کو “وباء“  کہتے ہیں۔ جیسے ملیریا، ہیضہ اور پلیگ وغیرہ ۔
عالمی ادارہ صحت نے نومولود “کورونا وائرس“ کو بھی وباء ڈکلئیر کردیا ہے 
وباء کبھی نیشنل ہوتا ہے اور کبھی انٹر نیشنل!
کورونا کی ایذاء رسانی کا دائرہ سرحدوں اور مذہبوں سے ماوراء ہے، اسے قطعی لحاظ نہیں ہوتا کہ آپ موحد ہیں یا مشرک؟  مسلم ہیں یا یہودی وعیسائی وملحد، عربی ہیں یا عجمی؟ حکمراں ہیں یا رعایا؟ امیر ہیں یا غریب؟ 
اس لئے یہ وباء ہی نہیں عالمی وباء ہے۔
ہاں اس وبائی مرض میں اموات کی شرح طاعون و ملیریا کی بہ نسبت برائے نام ایک یا دو فی صد ہے 
جبکہ ملیریا اور طاعون جیسے وبائی مہلک بیماریوں میں شرح اموات کورونا کی بہ نسبت بہت زیادہ چالیس فی صد سے زیادہ ہے 
طاعون (پلیگ) بھی وبائی مہلک مرض ہے، جو بیکٹیریا کے ذریعہ دوسرے شخص میں متعدی ہوجاتا ہے 
طاعون میں گردن، بغل اور ران کی جڑ میں آم کی گٹھلی کے برابر گلٹیاں نکل آتی ہیں، جن میں سوزش  وجلن کے ساتھ ناقابل برداشت تکلیف ہوتی ہے، سخت بخار آتا ہے اور آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں، مریض شدت درد اور شدید بے چینی وبے قرری میں تڑپ تڑپ کر مرجاتا ہے 
جناتی اور شیطانی دخل واثر انگیزی سے یہ بیماری پھیلتی ہے۔ یہ خدائی عذاب ہے 
بنی اسرائیل پہ خدا نے اسے نازل کیا تھا:
فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِّنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (البقرہ :59)
چونکہ سریع الانتشار اور متعدی ہونے میں طاعون کی طرح کورونا بھی مشترک ہے؛
اس لئے وباء کا اطلاق دونوں پہ ہوگا، یعنی یہ دونوں کا “مابہ الاشتراک“ وصف ہوا 
البتہ طاعون کی گلٹی وتکلیف کورونا سے علیحدہ ہے؛ اس لئے مرض کی اس تکلیف میں دونوں ایک دوسرے سے جدا ہوئے اور یہ دونوں کا “مابہ الامتیاز“ وصف ہوا 
منطقی اصطلاح میں ہر طاعون وباء ہوگا؛ لیکن ہر وباء طاعون نہیں ہوسکتی۔
یعنی کورونا کو اصالۃً طاعون نہیں کہہ سکتے؛ جبکہ طاعون  کو کورونا کہا جاسکتا ہے 
کورونا کو اصلاً طاعون نہ کہنے 
کی دلیل یہ ہے کہ صحیحین کی حدیث میں ہے کہ طاعون مدینہ داخل نہیں ہوسکتا (عَلَى أنْقَابِ المَدِينَةِ مَلَائِكَةٌ لا يَدْخُلُهَا الطَّاعُونُ، ولَا الدَّجَّالُ.صحيح البخاري: 1880.ومسلم (1379)
جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مدینہ ہجرت کے بعد وہاں لوگ طرح طرح کی بلائوں میں مبتلا ہوگئے ، یوں لگتا تھا جیسے دنیا میں سب سے زیادہ وبائیں یہی ہو (قالَتْ: وقَدِمْنَا المَدِينَةَ وهي أوْبَأُ أرْضِ اللَّهِ، قالَتْ: فَكانَ بُطْحَانُ يَجْرِي نَجْلًا تَعْنِي مَاءً آجِنًا۔عن عائشة أم المؤمنين.
صحيح البخاري.الرقم: 1889.)
نیز قبیلہ عُکل اور عُرَینہ کے کچھ نوجوانوں کو مدینہ آنے کے بعد وہاں کی آب وہوا راس نہ آئی اور وہاں کی وباء کی لپیٹ میں وہ آگئے، جس کے بعد صدقہ کے اونٹ کا دودھ وپیشاب پینے کی تجویز بطور علاج انہیں دی گئی۔ (بخاری حدیث نمبر 5727)
ان روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ 
مدینہ میں وباء تو موجود تھی اور موجود رہے گی؛ 
لیکن طاعون داخل نہیں ہوسکتا، اگر طاعون اور وباء ایک ہی چیز کے دو نام ہوں تو مذکورہ روایتوں میں تطبیق کی کیا شکل ہوگی؟
روز مرہ نئے نئے متعدی امراض اور وائرس پیدا ہورہے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں کو اپنے لپیٹ میں لے لیتے ہیں، ان سے اموات کی جو کثرت ہورہی ہے انہیں  یقیناً وباء کہا جائے گا 
لیکن طاعون ایک خاص قسم کی وباء ہے، طاعون سے مرنے والے کو شہید کا ثواب ملتا ہے 
کرونا وائرس کو حقیقی طور پہ طاعون کہنا بہت مشکل ہے 
مجاز میں چونکہ توسع ہوتا ہے 
اس لئے مجازا اگر کوئی کورونا کو طاعون کہہ دے تو کہہ سکتا ہے، لیکن اطلاق حقیقی میں بہت  کچھ موقع کلام ہے 
درج ذیل “الاسلام“ سوال وجواب پیج پہ اس سے متعلق تفصیلی تحریر موجود ہے، بعض احباب کی طلب پر اس کا خلاصہ یہاں پیش کردیا گیا:
https://islamqa.info/ar/answers/
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
http://saagartimes.blogspot.com/2020/03/blog-post_24.html?m=1

No comments:

Post a Comment