Tuesday 5 February 2019

تصوف اور روحانیت ....اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں

تصوف اور روحانیت ....اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں!

اسلام میں روحانیت کا صحیح مفہوم ”قرب الٰہی“ ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ کے جتنا قریب ہوتا ہے، اتنی ہی بڑی روحانی شخصیت ہوتا ہے۔ اسلام میں قرب الٰہی کے حصول کا دار و مدار قرآن و سنت پر عمل کرنے میں ہے۔ انسانیت کے پاس دینی و سماوی علم کا سرچشمہ اب صرف قرآن کریم ہے اور سنت رسول ﷺ اس علم کی تشریح و تجسیم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:
((تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّهِ))(1)
ایک اور حدیث قدسی کے مطابق دین کے تین درجے ہیں:
(1) اسلام،
(2) ایمان اور
(3) احسان۔
اسلام یہ ہے کہ انسان زبان سے اس بات کا اقرار کرے کہ ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ ایما ن یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کا مقصد و مفہوم انسان کے قلب میں راسخ ہوجائے اور عمل میں ڈھل جائے، بلکہ اس کی زندگی کا شعار بن جائے۔ علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں کہ
چوں می گوئم مسلمانم، بلرزم
کہ دانم مشکلات لا الہ الا اللہ!

علامہ اقبال ؒ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ہونے کا اقرار کرکے مَیں احساس ذمہ داری سے کانپ اٹھتا ہوں، کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ لا الہ الااللہ کا اقرار کرکے کیا کچھ عمل کرنا پڑتا ہے اور کیا چھوڑنا پڑتا ہے۔ احسان یہ ہے کہ اسلام اور ایمان انسان کے عمل میں حسن کے ساتھ ظاہر ہوں اور جھلکتے ہوئے نظر آئیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ روحانیت کا تعلق مرتبہ احسان میں مسلسل ترقی کرتے رہنے سے ہے، ایک انسان کی زندگی جیسے جیسے مرتبہ احسان میں آگے بڑھتی جاتی ہے، اس کی روحانیت میں بھی اسی طرح اضافہ ہوتا جاتا ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روحانیت کے اصل ماڈل اور ماہتاب کامل ہیں، خود اللہ تعالیٰ نے قیامت تک کے انسانوں کے لئے نبی اکرم 
صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو بہترین نمونے قرار دے دیا اور اسی نمونہ کو اپنانے اور اس کی پیروی کرنے کا حکم دیا۔
(لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ  كَثِيرًا)
صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین جنہوں نے رسول اللہ 
صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بہترین نمونے کو اپنایا اور اسی راہ راست پر چلتے ہوئے اپنی جانیں تک قربان کردینے کے لئے تیار ہوجاتے تھے، جن کی زندگیوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روشن ستاروں (اصحابی کالنجوم) (2)کی مانند قرار دیا اور فرمایا کہ جو میرے صحابہ ؓ کی زندگیوں کو اپنائے گا، وہ راہ راست پر ہوگا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بلاشبہ تصوف اور روحانیت کی معراج پر تھے۔ تمام صحابہ ؓ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی بھی پیروی کی جائے ہدایت پالی جائے گی۔
دوسری اور تیسری صدی ہجری کے تابعین اور تبع تابعین جن میں امام حسن بصری، ابراہیم ادھمؒ، فضیل بن عیاضؒ، معروف کرخیؒ، سفیان ثوری، جنید بغدادیؒ، ابو طالب مکی ؒ اور چھٹی صدی ہجری کے شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہم اللہ جیسے بزرگ، جن کو تمام صوفیاء اپنے مقتداء اور پیشوا مانتے ہیں، اسلام کے شیوخ ہیں۔ یہ سب حضرات اہل علم تھے، کتاب و سنت کے پابند تھے، نہایت صالح، صلح کل، حقوق اللہ اور حقوق العباد پر زور دینے والے اور اکل حلال (حلال روزی کماکر کھانے) کی تلقین کرتے تھے۔باطن کی صفائی پر زور دیتے تھے اور تکبر اور غرور والوں سے ہمیشہ دور رہنے والے تھے۔ یہ حضرات علمی لحاظ سے بھی ممتاز تھے اور اپنے علم کے مطابق عمل کے لحاظ سے بھی۔ ان حضرات نے تقرب الہٰی کے مسنون طریقوں کا اہتمام کیا اور عبادت الٰہی اور حسن عمل کے بہترین نمونے پیش کئے۔ انہوں نے تقرب الٰہی کے وہی طریقے اپنائے جن کا ذکر قرآن و سنت میں پایا جاتا ہے۔ یہ حضرات اپنی انفرادی کوششوں سے اپنے ارد گرد کے ماحول کو منور رکھتے اور فکر آخرت کے دیپ جلاتے رہے۔ یہ سب شیوخ زہد وتقویٰ میں یگانہ روزگار اور دین کی گہری بصیرت رکھنے والے تھے۔
چوتھی صدی ہجری میں فقہائے اسلام اور محدثین کرام نے بعض صوفیاء کی کچھ حرکتوں کو خلاف قرآن و سنت پاکر ان سے سخت اختلاف کیا۔ بعض صوفیاء نے کئی خلاف شریعت باتیں کیں، مثلاً حسین ابن منصور حلاج نے انا الحق (میں ہی حق ہوں) کا نعرہ مستانہ بلند کردیا۔ کسی کو خط لکھا تو اس طرح شروع کیا کہ:
”یہ خط ہے رحمان اور رحیم کی طرف سے“
کسی نے کہا کہ تم نے ربوبیت کا دعویٰ کردیا ہے تو حلاج نے جواب دیا کہ مَیں نے دعویٰ نہیں کیا، البتہ یہ وہ چیز ہے جو ہم صوفیوں کے نزدیک ”عین الجمع“ سے تعبیر کی جاتی ہے۔
افسوس ہے کہ بعد کے زمانوں میں علم اور اخلاق کے زوال سے جہاں اور بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں، تصوف کے پاک چشمے کو بھی گندا کردیا گیا۔ لوگوں نے گمراہ قوموں سے طرح طرح کے فلسفے سیکھے، یونانی فلسفے کی کئی کتابوں کا عربی میں ترجمہ کیا گیا، تصوف کے نام سے ان فلسفیانہ مباحث کو بھی شامل کردیا گیا، ایران کی زردشتی تہذیب کے کچھ مظاہر کا اثر قبول کرلیا گیا، ہندوانہ تہذیب کا بھی اثر ہوا، عجیب عجیب قسم کے عقیدوں اور طریقوں پر تصوف کا نام چسپاں کردیا گیا، جن کی کوئی اصل قرآن و حدیث میں نہیں ہے، پھر اس قسم کے لوگوں نے رفتہ رفتہ اپنے آپ کو شریعت کی پابندیوں سے بھی آزاد کرلیا، طریقت کے نام پر نیا راستہ اختیار کرلیا اور یہ گمراہ کن دعویٰ بھی کردیا کہ تصوف کو شریعت سے کوئی واسطہ نہیں ہے، اس قسم کی لغویات اکثر جاہل صوفیوں سے سننے میں آتی ہیں۔
اسلام میں ایسے کسی تصوف کی گنجائش نہیں جو شریعت کے احکام سے بے تعلق ہو۔ کسی صوفی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ نماز، روزے، حج اور زکوٰة کی پابندی سے خود کو آزاد قرار دے یا دوسروں کو آزادی کے سرٹیفکیٹ بانٹتا پھرے۔کوئی صوفی ان قوانین کے خلاف عمل کرنے کا حق نہیں رکھتا جو معاشرت اور معیشت، اخلاق اور معاملات، حقوق و فرائض اور حلال و حرام کی حدود کے متعلق اللہ اور اس کے رسول 
صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں اور جن کا ذکر قرآن و حدیث میں موجود ہے۔
تصوف تو دراصل خدا اور رسول 
صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت، بلکہ عشق کا نام ہے۔ عشق کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بال برابر بھی انحراف نہ کیا جائے، پس اسلامی تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے، بلکہ شریعت کے احکام کو انتہائی خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ بجا لانے اور اطاعت میں اللہ کی محبت اور اس کے خوف کی روح بھر دینے ہی کا نام تصوف ہے۔
صوفیاء نے سلوک کی منازل طے کروانے کے لئے تین درجے مقرر کئے۔
(1) فنا فی الشیخ
(2) فنا فی الرسول
(3) فنا فی اللہ
فنا فی الشیخ ہونے کے نام پر بہت سی بدعات کو رواج دیا گیا۔ میرے خیال میں حدیث قدسی میں دین کے جو تین درجے اسلام ایمان اور احسان بیان کئے گئے ہیں، انہی کا لحاظ رکھنا چاہئے اور اسلام اور ایمان کے بعداحسان کے درجے میں تکمیل کی کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ علامہ اقبال ؒ فقر کی تعریف اس طرح کرتے ہیں:
فقر جوع و قص و عریانی کجا است
فقر سلطانی است رہبانیت کجا است

یعنی فقر بھوکا رہنا، ناچنا یا ننگے ہوجانا نہیں ہے، فقر تو حکمرانی ہے، رہبانیت یعنی ترک دنیا نہیں ہے .... فقر کے بارے میں حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒکہتے ہیں، فقر کی اصل متاع دنیا کا ترک اور اس سے علیحدگی نہیں، بلکہ دل کو دنیا کی محبت سے خالی اور رغبت سے بے نیاز کرنا ہے، اس کے پاس سرے سے خواہ کچھ بھی موجود نہ ہویا اس کے پاس دنیا کے سارے اسباب ہی موجود کیوں نہ ہوں دونوں میں سے کسی حالت میں اس کی کسی چیز میں خلل نہ آئے۔ پس ذات خداوندی کے ماسوا دل کو فارغ رکھنے کا نام فقر ہے، فقر کی اصل عزت یہ ہے کہ اس کے تمام اعضاء و جوارح خدا کی نافرمانی سے محفوظ ہوں“۔
ایک حقیقی صوفی کی مثال جنگلی بطخ کی سی ہے جو پانی میں رہتی ہے، مگر اس کے پر گیلے نہیں ہوتے، یعنی حقیقی صوفی ترک دنیا کی بجائے دنیا کے اندر رہتے ہوئے اس کی آلائشوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہے۔
بعض لوگ آنحضور 
صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت سے قبل غار حرا میں جانے کے واقعہ کو بنیاد بناکر تقرب الٰہی کے لئے رہبانیت کی زندگی اختیار کرنے اور تارک الدنیا ہونے کی دلیل دے کر شریعت کی پابندیوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں، لیکن انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت عطا نہیں کی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فطرت سلیم کی بدولت اس وقت کے عرب معاشرے میں پائی جانے والی بدترین خرابیوں، عبادت کے نام پر ہونے والے ننگے ہوکر طواف کرنے اور جھوٹ، مکر و فریب، شراب نوشی اور گناہ پر اترانے والے معاشرے سے نکل کر غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے اور کئی کئی گھنٹوں، بلکہ دنوں تک دنیا کے خالق ومالک اور ذات باری تعالیٰ کی ہستی پر غور و خوض اور فکر وسوچ و بچار کرتے اور اللہ سے ہدایت طلب کرتے رہتے تھے،لیکن جب انہیں نبوت عطا فرمادی گئی اور غار حراء میں حضرت جبرائیل ؑ حاضر ہوئے اور آپ سے کہا کہ "وما أقرأ؟"(3) یعنی پڑھئے! اور آپ ﷺ نے فرمایا کہ:
"ما أنا بقارئ"(4)
جبرائیل نے اللہ تعالی ٰ کی طرف سے آپ 
صلی اللہ علیہ وسلم کو سورہ اقراء کی پہلی پانچ آیات کی وحی پہنچادی تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کتاب ہدایت دیدی گئی اور اللہ رب العزت نے حکم دیا کہ لوگوں کو کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر توحید و رسالت اور آخرت کے عقیدے کی دعوت دو، اس کے مطابق فیصلے کرو اور لوگوں کی زندگیوں کو اس نور سے منور کرو، مولانا الطاف حسین حالی کے الفاظ میں:
نکل کر حراسے سوئے قوم آیا
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا
مس خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کردکھایا
اب قرآن کریم اور آپ 
صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوئہ مبارک ہی قرب الہٰی کے حصول کا اصل سرچشمہ ہے، اس سے دور جاکر کوئی شخص اللہ کے مقرب بندوں میں شامل نہیں ہوسکتا۔ حقیقی تصوف اور روحانیت کے مدارج اسلام اور ایمان کے مطابق عمل صالح اور احسان کے درجے کی تکمیل ہیں۔
------------------------
(1) عن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: (تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما: كتاب الله وسنة رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم) رواه الإمام مالك وعن ابن عباس رضي الله عنهما أن رسول الله صلى اله عليه وآله وسلم خطب في حجة الوداع فقال: (إني تركت فيكم ما إن اعتصمتم به فلن تضلوا أبداً: كتاب الله وسنة نبيه) صححه الحاكم. وروى مسلم رحمه الله من خطبته صلى الله عليه وآله وسلم قوله (وقد تركت فيكم ما لن تضلوا بعده ان اعتصمتم به كتاب الله وانتم تُسأَلون عني فما أنتم قائلون؟، قالوا: نشهد أنك قد بلغت وأديت ونصحت، فقال باصبعيه السبابة يرفعها إلى السماء، وينكتها إلى الناس: اللهم اشهد، اللهم اشهد، ثلاث مرات). وعن زيد بن أرقم رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال: إني تارك فيكم ما إن تمسكتم به لن تضلوا بعدي احدهما اعظم من الآخر كتاب الله حبل ممدود من السماء إلى الأرض، وعترتي أهل بيتي، ولن يتفرقا حتى يردا على الحوض، فانظروا كيف تخلفوني فيهما. رواه الترمذي والله تعالى أعلم.
-----------------------
(2) مذکورہ حدیث الفاظ کے اختلاف لیکن معانی کی یکسانیت کے ساتھ درج ذیل کتب میں منقول ہے: 
ابن عبد البر کی جامع بیان العلم وفضلہ صفحہ 895،
ابن حزم کی الاحکام جلد 6 صفحہ 244،
خطیب کی الکفایۃ فی علم الروایۃ صفحہ 48،
بیہقی کی المدخل صفحہ 152
دیلمی کی فردوس جلد 4 صفحہ 75 اور دیلمی ہی کی مسند جلد 2 صفحہ 190
تاریخ ابن عساکر جلد 19 صفحہ 383
-----------------------
(3) السيرة النبوية لابن إسحاق، تحقيق أحمد فريد المزيدي، منشورات دار الكتب العلمية، بيروت، ط1، 2004، ص. 167.
(4) صحيح البخاري، دار ابن كثير، دمشق بيروت، ط1، 2002، ص. 8.
==============
https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_95.html

No comments:

Post a Comment