Monday 18 February 2019

دوسرے مذاہب کی کتابوں کا تقابلی مطالعہ کرنا کیسا ہے؟

دوسرے مذاہب کی کتابوں کا تقابلی مطالعہ کرنا کیسا ہے؟
السلام علیکم
دوسرے مذاہب کی کتابوں کا تقابلی مطالعہ کرنا کیسا ہے جبکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہودیوں کے صحائف لانے کی وجہ سے غضب ناک انداز میں پیش آئے تھے؟ براہ کرم قرآن و حدیث کے حوالہ سے جواب مرحمت فرمائیں۔
حافظ محمد تابش، پہلواری شریف، پٹنہ
الجواب وباللہ التوفیق:
مسند احمد اور دارمی کی ایک حدیث ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کے تورات کے مطالعے پر ناگواری کا اظہار کیا اور ان کو "تنبیہ" کی۔
اس حدیث کو بعض محدثین نے صحیح جبکہ دیگر بعض محققین محدثین نے ضعیف کہا ہے؛
عن جابر بن عبد الله: أنَّ عمر بن الخطَّاب أتى النَّبيَّ صلَّى الله عليه وسلّم بكتابٍ أصابَه من بعض أهل الكُتُبِ [في (ق) ونسخة في (س): الكتاب.] فقَرَأه على [لفظة ((على)) سقطت مِنْ (م).] النَّبيّ صلَّى الله عليه وسلّم فغضب وقال: ((أَمُتَهَوِّكُونَ فيها يا ابْنَ الخطَّاب، والَّذي نَفْسي بِيَده، لقد جِئتُكم بها بيْضاء نَقيَّة، لا تَسألوهُم عنْ شيءٍ فيخبِروكُم بِحَقٍّ فَتُكَذِّبوا به، أو بِبَاطلٍ فَتُصَدِّقوا به، والَّذي نَفْسِي بِيَده، لو أنَّ موسى كان حيًّا، ما وَسِعَه إلاَّ أنْ يَتْبَعَني)). [إسنادُه ضعيف لضعف مجالد: وهو ابن سعيد. ونَقَل ابْنُ حَجَر في ترجمة عبد الله بن ثابت مِنَ ((الإصابة)) 4/30 عَنِ البُخاريّ أنَّه قال: قال مجالد عَنِ الشَّعبيِّ عنْ جابر: إنَّ عُمَرَ أتى بكتاب، ولا يصحّ. قلنا: وقوله: ((ولا يصحّ)) لم يَرِدْ في المطبوع مِنَ ((التّاريخ الكبير)) للبخاريّ 5/39.
وأخرجه أبو عُبَيْد في ((غريب الحديث)) 3/28-29، وابن أبي شيبة 9/47، وابن أبي عاصم في ((السُّنَّة)) (50)، والبزَّار (124-كشف الأستار)، والبيْهقيّ في ((شُعَبِ الإيمان)) (177)، والبَغَوِيّ في ((شرح السُّنَّة)) (126)، وابن عبد البرّ في ((جامع بيان العلم وفضله)) 2/42 مِنْ طُرُق عنْ هشيم بن بشير، بهذا الإسناد. وتحرَّف ((هشيم)) في المطبوع مِنْ ((مُصَنَّف ابن أبي شيبة)) و((شرح السُّنَّة)) إلى: هشام.
وأخرجه بنحوه الدّارميّ (435) مِنْ طريق ابْنِ نمير، عن مجالد، به.
وسلف مِنْ طريق حمّاد بْنِ زيد، عنْ مجالد برقم (14631).
وسيأتي قريبٌ منه في ((المسند)) 4/265 مِنْ طريق جابر الجعفيّ، عن عامر الشّعبيّ، عن عبد الله بن ثابت قال: جاء عمر بن الخطّاب إلى النّبيّ صلّى الله عليه وسلّم... فذَكَر نَحْوَه، وهذا إسناد ضعيف، جابر بن يزيد الجعفيّ ضعيف.
وأخرج ابن الضّريس في ((فضائل القرءان)) (89)، وأبو عُبَيد في ((غريب الحديث)) 3/29، ومِنْ طريقه البيهقيّ في ((الشُّعَب)) (178) عَنِ الحَسَن البصريّ: أنَّ عمر بن الخطَّاب قال: يا رسول الله، إنَّ أهل الكتاب يُحَدِّثوننا بأحاديث قد أخذت بقلوبنا وقد همَمْنا أنْ نَكتُبَها، فقال: ((يا ابْنَ الخطَّاب أمُتَهَوِّكُونَ أنتم كما تَهوَّكَتِ اليَهُودُ والنَّصارى؟ أما والَّذي نَفْسُ محمّد بيده لقد جئتُكم بها بيضاء نقيَّة، ولكنِّي أُعْطِيتُ جوامِعَ الكَلِم، واخْتُصِرَ لِيَ الحديثُ اختِصارًا))، ورجالُه ثقات إلاَّ أنَّه مِنْ مراسيل الحسن البصريّ.
وأخرج نحوه العقيليّ في ((الضُّعَفاء)) 2/21 مِنْ طريق عليّ بْنِ مسهر، عَنْ عبدِ الرَّحمن بن إسحاق، عن خليفة بن قيس، عن خالد بن عرفطة، عن عمر بن الخطّاب قال: انْتَسَخْتُ كتابًا مِنْ أهل الكتاب... فَذَكَرَه. وهذا إسناد ضعيف، عبد الرّحمن بن إسحاق -وهو أبو شيبة الواسطيّ- ضعيف، وخليفة بن قيس مجهول، وقال البخاريّ في ترجمته مِنَ ((التّاريخ)) 3/192: لم يصحَّ حديثُه. يعني هذا الحديث كما يُفْهَم مِنْ ترجمته عند العقيليّ.
وفي الباب عن أبي الدّرداء، قال: جاء عمر بجوامع مِن التّوراة إلى رسول الله صلّى الله عليه وسلّم... فَذَكَرَه. أورده الهيثميّ في ((مجمع الزّوائد)) 1/174 وقال: رواه الطَّبرانيّ في ((الكبير)) وفيه أبو عامرٍ القاسمُ بْنُ محمّد الأسديّ ولم أرَ مَنْ ترْجَمَه، وبقيَّة رجاله موثَّقون.]
ابتدائے اسلام میں اسرائیلیات سے بیان کرنا اور اس سے روایتیں لینا یا اس کا مطالعہ کرنا ممنوع تھا 
جب اسلام صحابہ کے دلوں میں راسخ ہوگیا تو اب یہ ممانعت زائل ہوگئی 
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح حدیث میں اس شرط کے ساتھ اس کی اجازت دیدی کہ قواعد اسلامیہ اور قرآن وسنت کے خلاف اور احکام شرعیہ سے متصادم و متضاد کوئی روایت توریت و انجیل وغیرہ کی نہ لی جائے یہ مشروط اجازت اس حدیث سے صراحۃ ثابت ہے:
- بَلِّغُوا عَنِّي ولو آيَةً، وَحَدِّثُوا عن بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ، وَمَن كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ..
    الراوي: عبدالله بن عمرو 
    المحدث: البخاري
    المصدر:  صحيح البخاري
    الصفحة أو الرقم:  3461 
    خلاصة حكم المحدث:  [صحيح]
آج بھی اسی شرط کے ساتھ دیگر آسمانی مذاہب کی کتابوں کا تقابلی مطالعہ جائز ہے کہ ان کے مطالعہ سے  اسلامی احکام وقواعد میں اشتباہ یا شکوک وشبہات پیدا نہ ہوں 
اگر ذہنی الجھنوں یا اسلام پہ اعتراضات واشکالات پیدا ہونے کا خدشہ ہو تو ان کتابوں کے مطالعہ سے روکا جائے گا 
تقابلی مطالعہ کسی مستند ادارے سے فارغ التحصیل عالم دین کی نگرانی میں ہونا از بس ضروری ہے 
عالم دین کی نگرانی و رہنمائی کے بغیر اپنے طور پر تقابلی مطالعہ تجرباتی طور پر خاصا خطرناک ثابت ہوا ہے 
ایسا بندہ دیر سویر باطل افکار وخیالات کے تزویراتی دام کا آسان شکار بن جاتا ہے 
واللہ اعلم 
شکیل منصور القاسمی
<https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_18.html>

No comments:

Post a Comment