Tuesday 19 February 2019

لطیف شکایت اور اس کا حکیمانہ ازالہ

لطیف شکایت اور اس کا حکیمانہ ازالہ
امام شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس ایک عورت آئی اور اس نے کہا: "امیر المؤمنین! میرے شوہر جیسا نیک آدمی شاید دنیا میں کوئی نہيں، وہ دن بھر روزہ رکھتے اور رات بھر نماز پڑھتے رہتے ہیں." یہ کہہ کر وہ خاموش ہوگئی- حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کی بات کا منشا پوری طرح نہ سمجھ پائے اور فرمایا: الله تمہیں برکت دے اور تمہاری مغفرت کرے۔ نیک عورتیں اپنے شوہر کی ایسی ہی تعریف کرتی ہیں۔“
عورت نے یہ جملہ سنا، کچھ دیر جھجکی رکی اور پھر واپس جانے کے لئے کھڑی ہوگئی۔
کعب بن سوار رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی موجود تھے، انھوں نے عورت کو واپس جاتے دیکھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہا:
”امیر المومنین! آپ اس کی بات نہیں سمجھے، وہ اپنے شوہر کی تعریف نہیں، شکایت کرنے آئی تھی، اس کا شوہر جوش عبادت میں زوجیت کے پورے حقوق ادا نہیں کرتا۔“
”اچھا یہ بات ہے۔“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”بلاؤ اسے!“
وہ پھر عورت واپس آئی، اس سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ واقعی حضرت کعب بن سوار رضی اللہ عنہ کا خیال صحیح تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ: ”اب تم ہی اس کا فیصلہ کرو۔“
”امیر المومنین! آپ کی موجودگی میں کیسے فیصلہ کروں؟“ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا۔
”ہاں تم نے ہی اس کی شکایت کو سمجھا تم ہی اس کا ازالہ کرو.“ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا.
اس پر حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ”امیر المومنین اللہ تعالیٰ نے ایک مرد کو زیادہ سے زیادہ چار عورتوں سے نکاح کی اجازت دی ہے، اگر کوئی شخص اس اجازت پر عمل کرتے ہوئے چار شادیاں کرے تو بھی ہر بیوی کے حصے میں چار میں سے ایک دن رات آتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہر چوتھا دن رات ایک بیوی کا حق ہے۔ لہٰذا آپ فیصلہ دیجئے کہ اس عورت کا شوہر تین دن عبادت کرسکتا ہے، لیکن چوتھا دن لازماً اسے اپنی بیوی کے ساتھ گزارنا چاہئے۔“
یہ فیصلہ سن کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ پھڑک اٹھے اور فرمایا: ”یہ فیصلہ تمہاری پہلی فہم و فراست سے بھی زیادہ عجیب ہے۔“
اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو بصرہ کا قاضی بنا دیا۔
(ابن عبد البرؒ الاستیعاب تحت الاصابہ ص ٢٨٦ ج ٣ مطبعة مصطفیٰ محمد مصر ١٣٥٨ھ)
https://saagartimes.blogspot.com/2019/02/blog-post_19.html

No comments:

Post a Comment