Tuesday 6 November 2018

کیا دیوالی کے موقع پر غیر مسلم لوگ کو مبارک بادی دینا درست ہے؟

کیا دیوالی کے موقع پر غیر مسلم لوگ کو مبارک بادی دینا درست ہے؟
سوال # 146186
جزاکم اللہ حضرت جوابات دینے کے لئے،
(۱) کیا دیوالی کے موقع پر غیر مسلم لوگ کو مبارک بادی دینا درست ہے؟
وہ لوگ عید کی مبارک بادی دیتے ہیں۔ 
(۲) کیا دیوالی کی مٹھائی وغیرہ لینا اور کھانا جائز ہے؟
(۳) کیا پٹاخے کا کاروبار کرنا اور بیچنا جائز ہے؟
مجھے ان سوال کے جوابات با حوالہ مطلوب ہیں۔
نوازش و احسان ہوگا جزاکم اللہ 
Published on: Nov 20, 2016
جواب # 146186
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 178-157/M=2/1438
(۱) اسلامی تہوار خوشی منانے کا پاکیزہ طریقہ ہے وہ اس لائق ہے کہ اس کی مبارکبادی دی جائے، اگر غیر مسلم لوگ عید کی مبارکباد دیتے ہیں تو دینے دیں، مسلمانوں کو غیر مسلم کے تہواروں پر مبارکباد دینے سے احتراز کرنا چاہئے۔
(۲) اگر یقین و اطمینان ہوکہ مٹھائی وغیرہ دیوی دیوتاؤں کے نام چڑھائی ہوئی نہیں ہوتی ہے اور حرام و ناپاک چیز کی آمیزش بھی نہیں ہوتی ہے تو استعمال ناجائز نہیں تاہم احتیاط اولیٰ ہے۔
(۳) نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹🔹
سوال # 146218
محترم مفتی صاحب۔ کیا غیر مسلم پہچان والوں کو اُن کے تہواروں کے موقع پر یا دوسرے مواقع پر ایسا کہنا یا مسیج کرنا کے
\"میری نیک تمنّائیں تمہارے ساتھ ہیں\"
اور نیت یہ ہو کہ
\" اللہ تعالیٰ تم کو ایمان نصیب فرمائے \" درست ہے؟
یہ لوگ ہماری عید کے مواقع پر بڑے اہتمام سے مبارک بادیاں دیتے ہیں۔
Published on: Nov 28, 2016
جواب # 146218
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 131-116/N=2/1438
ہندوؤں کے یہاں چوں کہ وحدتِ ادیان کا نظریہ پایا جاتا ہے؛ اس لیے وہ لوگ اسلامی تہواروں کے موقع پر مسلمانوں کو خوب دل کھول کر مبارک بادی دیتے ہیں، لیکن مذہبِ اسلام میں صرف اسلام ہی حق اور صحیح مذہب ہے، باقی سب مذاہب باطل ہیں؛ اس لیے مسلمان کے لیے کوئی ایسا کام جائز نہیں، جس سے غیروں کی کسی مذہبی چیز کی تعظیم وتکریم یا اس کی تعریف وغیرہ لازم آتی ہو؛ بلکہ اس طرح کی چیزوں میں کفر کا اندیشہ ہوتا ہے؛ اس لیے مسلمانوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ہولی یا دیوالی کے موقع پر غیر مسلموں کو مبارک بادی دیں، اس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے؛ البتہ اگر سخت مجبوری کی صورت ہو مثلاً کوئی ایسا کاروباری ساتھی یا ما تحت ملازم یا کمپنی کا مالک ہے کہ اگر اس موقعہ پر اس سے مسرت کا اظہار نہ کیا جائے تو اس کی جانب سے ضرر کا اندیشہ ہے یا ملک میں مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے والوں کو مزید منافرت پھیلانے کا موقع ملے گا تو ایسی مجبوری میں مجمل الفاظ کہنے کی گنجائش ہوگی، مثلاً یوں کہہ دے کہ میری نیک تمنائیں تمھارے ساتھ ہیں اور نیت یہ ہو کہ اللہ تعالی تم کو ایمان نصیب فرمائیں، تہوار وغیرہ کی تعظیم یا تعریف وغیرہ ہرگز مقصود نہ ہو توشرعاً ان شاء اللہ اس کی گنجائش ہوگی۔
اجتمع المجوس یوم النیروز فقال مسلم: خوب سیرت نہاوند یکفر(الفتاوی البزازیة علی ھامش الھندیة، ۶: ۳۳۳، ط: مکتبة زکریا دیوبند)،وما یھدی المجوس یوم النیروز من أطعمتھم إلی الأشراف ومن کان لھم معرفة لا یحل أخذ ذلک علی وجہ الموافقة معھم وإن أخذہ لا علی ذلک الوجہ لا بأس بہ والاحتراز عنہ أسلم (المصدر السابق)۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
--------
سوال و جواب
(مسئلہ نمبر 224)
ہولی، دیوالی کی  مٹھائی کھانے اور اس موقع پر مبارکبادی دینے کا شرعی حکم
سوال: غیرمسلموں کے تہواروں (دیوالی) وغیرہ میں ان کی طرف سے ملنے والی مٹھائیاں کھانا کیسا ہے؟ کیا ہم غیروں کو ان کے تہواروں میں مٹھائیاں دے سکتے ہیں یا نہیں؟ کیا ہم ان کے تہواروں میں مبارکبادی دے سکتے ہیں یا نہیں؟
(سید ابراہیم بھٹکل کرناٹک)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب و بااللہ التوفيق:
صحیح روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے غیر مسلموں کی بھی دعوت قبول کی ہے اور ان کے ہدیہ و تحائف بھی قبول کئے ہیں؛
اور ان کی دعوت بھی کی ہے اور ہدیہ و تحائف بھی دیئے ہیں(۱)
چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا اسلام قبول کرنے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت مین ہدیہ پیش کرنا اور آپ کا بصد خوشی قبول فرمانا اور ابولہب و ابوجہل جیسے کفار مکہ کو دعوت طعام دینا کتب حدیث و سیرت کا مشہور واقعہ ہے۔
اس لئے عام دنوں میں اور عام حالات میں غیر مسلموں کی دعوتیں اور ہدایا و تحائف قبول کرنے اور انکی دعوت کرنے اور ہدیہ دینے میں چنداں مضائقہ نہیں(۲)۔
لیکن تہوار وں کے موقع سے یہ ہدیہ و تحائف اگر مٹھائی وغیرہ کی شکل میں ہوں اور مندر پر یا بت وغیرہ پر چڑھائی گئی ہوں تو پھر اسے قبول کرنا اور کھانا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ قرآن مجید میں چڑھاوے کی چیزوں کی حرمت موجود ہے(۳)
البتہ اگر بت وغیرہ پر نہ چڑھائی ہو تو اسے قبول کر سکتے ہیں لیکن پھر بھی تہوار وغیرہ کے مواقع پر نہ لینا ہی افضل ہے؛ تاکہ کفر و شرک کی حوصلہ افزائی کا شبہ پیدا نہ ہو(۴)۔
غیر مسلموں کے تہوار چونکہ بت پرستی پوجا پاٹ اور کفر و شرک پر مبنی ہوتے ہیں اس لئے ان کے تہوار پر خوشی کا اظہار کرنا ان میں شریک ہونا اور غیر مسلموں کو مبارکباد دینا جائز نہیں ہے(۵)
اس لئے کہ اس میں کافروں سے مشابہت اور ان کے کفر و شرک سے رضامندی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ واقعی وہ اچھا کام کر رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے مشرکانہ معاملات میں ان کی حوصلہ افزائی کرنا کیونکر جائز اور درست ہوسکتا ہے؟
اس لئے غیر مسلموں کے مذہبی تہوار پر انہیں مبارکباد دینے سے بچنا واجب ہے۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب۔
والدلیل على ما قلنا
(۱) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ يَهُودِيَّةً أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ مَسْمُومَةٍ، فَأَكَلَ مِنْهَا فَجِيءَ بِهَا فَقِيلَ أَلاَ نَقْتُلُهَا. قَالَ: ((لاَ)). فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحيح البخاري حديث نمبر 2617)
》وَقَالَ سَعِيدٌ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ أَنَسٍ إِنَّ أُكَيْدِرَ دُومَةَ أَهْدَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. (صحيح البخاري حديث نمبر 2616)
(۲) ولابأس بطعام المجوس کلہ إلا الذبیحۃ۔(ہندیۃ، کتاب الکراہیۃ، الباب الرابع عشرفی أہل الذمۃ، زکریا قدیم۵/۳۴۷، جدید۵/۴۰۱) _
》لو أهدى لمسلم و لم يرد تعظيم اليوم بل جرى على عادة الناس لا يكفر وينبغي أن يفعله قبله أو بعده نفيا للشبهة (الدر المختار مع رد المحتار 486/10 زكريا)
(۳) حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ ۗ الْيَوْمَ يَئِسَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ۚ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (المائدة 3)
(۴) والأولی للمسلمین أن لا یوافقہم علی مثل هذہ الأحوال لإظہار الفرح والسرور۔ (شامي، کراچي ۶/۷۵۵، زکریا ۱۰/۴۸۶)
(۵) اجتمع المجوس يوم النيروز فقال مسلم خوب سيرت نہاوند يكفر (الفتاوى الخانية 185/3 كتاب أحكام المرتدين الفصل السادس)
》اجتمع المجوس يوم النيروز فقال مسلم خوب رسمے نہادہ اند  أو قال نیک آئین نہادہ اند يخاف عليه الكفر (الفتاوى التاتارخانية 515/5 كتاب أحكام المرتدين كراتشي)
》ويحرم تهنئتهم وتعزيتهم وعيادتهم ( ; لأنه تعظيم لهم أشبه السلام .) وعنه تجوز العيادة ( أي : عيادة الذمي ) إن رجي إسلامه فيعرضه عليه واختاره الشي (كشف القناع عن متن الإقناع للعلامة البهوتي 3/131)
》قال الإمام ابن الق
يم: وأما التهنئة بشعائر الكفر المختصة به فحرام بالاتفاق، مثل أن يهنئهم بأعيادهم وصومهم، فيقول: "عيدمبارك عليك"، أو تهنأ بهذا العيد ونحوه، فهذا إن سلم قائله من الكفر فهو من المحرمات، وهو بمنزلة أن يهنئه بسجوده للصليب، بل ذلك أعظم إثماً عند الله، وأشد مقتاً من التهنئة بشرب الخمر وقتل النفس وارتكاب الفرج الحرام ونحوه.وكثير ممن لا قدر للدين عنده يقع فيذلك، ولا يدري قبح ما فعل، فمن هنأ عبداً بمعصية أو بدعة أو كفر فقد تعرض لمقت الله وسخطه... (أحكام أهل الذمة 1/161 فصل في تهنئة أهل الذمة)
العبد الفقير محمد زبیر الندوی
مركز البحث والإفتاء جامعة اسلامية اشرف العلوم نالا سوپاره ممبئی انڈیا
مؤرخہ 18/10/2017
رابطہ 9029189288
دینی مسائل عام کرنا ثواب جاریہ ہے
-------
سوال # 49528
دیوالی کے موقع پر ہندو مسلمانوں کے یہاں جو مٹھائی بھیجتے ہیں اس کا کھانا کیسا ہے؟
Published on: Nov 30, 2013
جواب # 49528
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 20-22/N=1/1435-U
اگر وہ پوجاپاٹ کی مٹھائی نہ ہو تو اس کا لینا اور کھانا درست ہے، البتہ بدلہ کی طرح معاملہ نہ رکھے کہ عید وغیرہ کے موقعہ پر ان کے یہاں بھی مٹھائی وغیرہ بھیجے کیونکہ کافروں سے دلی محبت کا تعلق جائز نہیں،*
قال اللہ تعالیٰ: لَا تَتَّخِذُوْا الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ (سورہٴ آل عمران آیت: ۲۸)،
باقیاتِ فتاوی رشیدیہ (ص: ۴۴۱-۴۴۳) میں اس سلسلہ میں متعدد فتاوی ہیں، ان سب کا خلاصہ یہی ہے کہ دلی محبت اور دلی دوستی کی بناپر ان سے مٹھائی وغیرہ کا لین دین درست نہیں اور اگر ظاہری رواداری کی بنا پر یا محکوم ملازم یا رعایا وغیرہ ہونے کی وجہ سے اپنے تہوار کے موقعہ پر کچھ دیں تو لینے کی اجازت ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
---------
سوال # 145649
میرا سوال یہ ہے کہ ہمارے علاقے میں کچھ مسلم نوجوان اپنے ہندو دوستوں کو واٹس ایپ کے ذریعہ
Durga Pujaان کے تہوار درگا پوجا یا دیوالی کے موقع پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
Happy Durga Puja, Happy Diwali
جیسے الفاظ کے ساتھ،کیا اس طرح مبارکباد پیش کرنے سے وہ من رای منکرا...... ومن لم یستطع فبقلبہ وذالک....کی وجہ سے ایمان سے خارج ہوگا؟ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ اگر اس میں گناہ ہے تو کس درجے کا؟ برائے مہربانی مفصل و مدلل جواب دیں۔
Published on: Nov 17, 2016
جواب # 145649
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 103-121/L=2/1438
غیر مسلم حضرات کے تہوار وغیرہ ان کے مشرکانہ اعتقاد پر مبنی ہوتے ہیں؛ اس لیے ہمارے لیے مشرک سے برأت اور بے تعلقی کا اظہار ضروری ہے، اور چونکہ مبارکبادی دینے میں ان کے فکر و عقیدے کی توثیق و تائید ہوتی ہے؛ اس لیے اس سے احتراز ضروری ہے بسا اوقات یہ سلبِ ایمان کا بھی باعث ہوسکتا ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment