Friday 16 November 2018

جذب اور طریقت مجذوب اور سالک

جذب اور طریقت 
مجذوب اور سالک 

بقاء ہوش وحواس کے ساتھ عمل بالشریعہ کو سلوک وطریقت اور عامل کو “سالک“ 
غیبی وارد سے مغلوب الحال ہوجانے، جمال یار کے مشاہدہ پہ ہوش وہواس سے بیگانہ ہوجانے اور از خود رفتہ ہوجانے کو جذب اور اس کیفیت سے مغلوب ہوجانے والے کو “مجذوب “ جمع مجاذیب کہتے ہیں 

مجذوبیت دلیل کمال نہیں 
حسن یار کو اپنے اندر برداشت کرکے دلوں میں سمیٹے رہنا اور حضرت حق سے مربوط رہنا 
اصل کمال ہے 
جذب دلیل کمال ہوتا تو سوا لاکھ انبیاء اور قریب اِسی تعداد میں اصحاب رسول 
بھی از خود رفتہ ہوجاتے 
جبکہ ہمارے ہادی ومعلم اعظم کا حال یہ ہے کہ :
موسی ز ہوش رفت بہ یک جلوہ صفات
تو عین ذات می نگری در تبسمی

﴿موسی تو محض ایک صفاتی جلوہ سے اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ وہ عین ذات کا مشاہدہ کرتے بھی حالت تبسم میں ہیں﴾

اصحاب رسول کی نبوی تربیت کی کرشمہ سازی تھی کہ انہیں جمال یار کی حسن تابیوں سے چھلک جانا نہیں آیا۔
مجاذیب کی شناخت جامع طریقت و شریعت شخصیات ہی کرسکتی ہیں 
یا پہر جن کی طرف وقت کے اولیاء اللہ وصلحاء کی کشش یا میلان ہو وہ مجذوب ہوسکتا ہے  ان کی تعظیم کی جانی چاہئے۔ اور  بی ادبی توقیری سے بچنا چاہیے ۔
خستہ حالی اور اوّل فول بکنے اور بڑبڑانے کی وجہ سے کوئی  
مجذوبیت کے رتبے کو نہیں پہنچ سکتا 
مجاذیب کی کئی قسمیں ہیں
بعض عام انسانوں کی طرح عقل وخرد اور فہم وفراست رکھتے ہیں 
جبکہ بعض عقل سے محروم ہوتے ہیں 
عقل سے محروم مجاذیب میں مدار تکلیف “عقل “ کے فقدان کی وجہ سے وہ دیگر حیوانات کی طرح غیر مکلف رہتے ہیں 
ایسوں کے اعمال قابل اتباع نہیں ہوتے 
سلوک جذب پہ مقدم ہے 
سالک اعمال سے مربوط رہتا ہے اس کی ترقی ہوتی رہتی ہے 
جبکہ جذب ترک عمل کا نام ہے اس سے ترقی مسدود ہوجاتی ہے مجذوب کو اپنی ذات سے سروے کار ہوتا ہے جبکہ سالک دوسروں کے لئے گھلتا اور پگھلتا ہے 
اس لئے سالک مجاذیب سے بہرحال افضل وبہتر ہے 
شکیل منصور القاسمی
بیگوسرائے

No comments:

Post a Comment