Tuesday 13 November 2018

احتفال يوم الأطفال

احتفال يوم الأطفال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: شكيل منصور القاسمي
الأطفال أمانة في أيدي الأباء .وهم أمل الأمة وجيل المستقبل. وفلذات أكبادنا .وهم الثروة الحقيقية الذين نؤمل الأمال الكبرى والطموحات الضخمة. فالعناية بشؤنهم قضية في غاية الأهمية والحساسية. وبمقدار العناية بشؤنهم يتحدد مصير الأمة والمجتمع الإسلامي في التقدم والتأخر. لن يكفيها "يوم احتفالي " بل لابد من جهد متواصل مستمر دائم متعدد الجوانب في كافة الأصعدة والمستويات.ولم يزل موضوع الأطفال يشغل بال المصلحين والمفكرين والدعاة في البحث عن طرق التربية الكاملة.وعاد الموضوع من أعظم المسائل المطروحة اليوم.وقد اعتنى الإسلام بتربية البشرية في كافة مراحل الإنسان : وليدا وطفلا وشابا وكهلا وشيخا كبيرا. وأوجد لها الأحكام المؤمنة السعادة .فليس أن الإسلام طلب  مجرد تربية الأطفال من الآباء والأمهات. بل أخذ بأيديهم إلى أقوم الطرق. و وضع لهم منهجا كاملا في تربية الأولاد يبتدى قبل الولادة بل من عند اختيار الزوجة .ويصاحب هذا  المنهج الولد في طفولته ومراهقته وبلوغه وشبابه .
فعلى الآباء المخلصين لدينهم والمتألمين بشؤنهم أن يحميهم قبل كل شئ الغزو الفكري والثقافي.وأن يحفظهم من التيارات الفاسدة والمبادئ الهدامة عبر الشاشة المرئية المستوردة الأجنبية الماجنة.
كي تكون الأجيال خير خلف لخير سلف .ولاتبقى أحرار الجسد  أرقاء الفكر.ولن يبررنا التاريخ إذا احتفلنا بيوم واحد ونتقاعد ببقية الأيام !!!! والله الموفق لكل سداد.
شكيل منصور القاسمي
مركز البحوث الإسلامية العالمي.

یوم اطفال کی تقریب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچے والدین کے پاس خدا کی امانت ہیں، قوم و ملت کی نخل تمنا اور مستقبل میں نسل انسانی کا حصہ اور ہمارے جگر پارے ہیں۔ حقیقی سرمایہ ہونے کے ناطے بچوں سے ہماری بڑی توقعات وابستہ ہیں؛ اس لیے بچوں کے امور پر توجہ اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ نازک ہے۔ جتنا بچوں پر خصوصی توجہ دی جائے گی قوم کی ترقی یا تنزلی کا مدار اسی پر ہوگا۔ صرف ایک دن بچوں کی بابت تقریب منعقد کرکے سرخیاں بٹورنے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے لئے ہر پہلو سے مستقل جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔
بچوں کا موضوع، تعلیم اور تربیت کے حوالے سے ہر دور میں سماج کے اصلاح پسندوں اور دانشوروں کی فکر مندی کا حصہ رہا ہے، موجودہ وقت میں اس  موضوع پر دور ماضی سے زیادہ بحث و گفتگو ہونے لگی ہے۔ دین اسلام میں انسان کی زندگی کے مختلف مراحل بچپن، جوانی اور بڑھاپا میں تربیتی پہلو پر خاصی توجہ دی گئی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ایسے احکام و اصول وضع کیے گئے جو یقینی طور پر انسان کو سعادت مندی اور سرخروئی سے بہرہ ور کرسکے۔ اسلام میں صرف والدین سے بچوں کی تربیت کا مطالبہ نہیں کیا گیا ؛ بلکہ اسلام نے شاہراہ حق کی رہنمائی کرتے ہوئے تربیت کا ایسا جامع اور مرتب نظام  پیش کیا جو بچے کی پیدائش سے قبل شادی کے لیے بیوی کے انتخابی مراحل سے گزر کر عہد طفولت مراہقت، شباب اور کہولت  تک محیط ہے۔
بچوں کے مسائل کا ادراک اور پیچیدہ مشکلات کا درد رکھنے والے مخلص والدین سے گزارش کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے انھیں مغرب کی فکری اور ثقافتی یلغار سے بچانے کی کوشش کریں اور بیرون سے در آمد کردہ ٹیلیویزن وغیرہ دیگر برقی اسکرین پر دکھائے جانے والے مخرب اخلاق، فحش ویڈیو اور گندی فلموں کہانیوں کے آگے بند باندھنے کی جتن کریں؛ تاکہ آنے والی نسل انسانی فکری غلامی کا شکار ہونے کی بجائے اپنے صالح پیش رو کا سچا نمونہ بن سکے۔ اگر سال میں صرف ایک دن یوم اطفال کی تقریب منعقد کرکے بقیہ دنوں لاابالی پن اور تغافل کا شکار رہے تو تاریخ ہمیں ہرگز معاف نہیں کرے گی۔ خدا ہمیں حسن عمل کی توفیق بخشے آمین۔
تحریر: مفتی شکیل منصور قاسمی
ترجمانی: محمد شاہنواز قاسمی  بیگوسرائیوی، حال مقیم کویت)

No comments:

Post a Comment