Wednesday 7 March 2018

اجتماع کی فاضل چٹائی کا مصرف کیا ہو؟

اجتماع کی فاضل چٹائی کا مصرف کیا ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا فرماتے ہین مفتیان کرام شرع دین متین اجتماع کیلئے  جو مصلی خریدا گیا تها اس پر کسکی ملکیت ہوگی شوری والون کی یا سعد صاحب والونکی اگر کوئی جبرا دوسرے فریق سے لیکر چلاجائے تو کیا اسمین نماز ہوجائگی ؟
دوسری بات کیا اس طرح لینا غصب کہلائگا ؟؟
اگری معطی جو اختلاف سے پہلے مصلی دیا تہا اب وہ جس فریق کو دیناچاہ رہاہے دوسرے فریق اسے نہین دیکر خود رکه لین تو اس کا کیا حکم ہے؟ براہ مہربانی عجلت مین باحوالہ  جواب کی ضرورت ہے حضرات مفتیان کرام جواب دیکر عندللہ ماجور ہوں۔
سبیل الرشاد قاسمی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق
جب لوگ مسجد میں یا اجتماع کے لئے چٹائی وقف کرچکے تو اب اس چٹائی کو پھر واپس لینا یا خود اسے یا کسی دوسرے شخص کو اس میں کسی بھی قسم کا تصرف کرنا شرعا ناجائز ہے۔ اگر واقفین نے چٹائی کے دیکھ بھال کی ذمہ داری کسی پہ سونپی ہو تو اس کی مشاورت واجازت سے اس کا استعمال ہونا چاہئے۔ ورنہ عمومی طور پر اعلان کرکے سارے مصلیوں سے اس بابت استصواب کرلیا جائے۔ یا بہتر یہ ہے کہ یہ مصلی آئندہ اجتماعات کے لئے رکھ دیئے جائیں۔ جہاں پہلے سے تھے وہیں چھوڑدیئے جائیں۔ کسی ایک فریق کا وہاں لے جانا درست نہیں۔ الا یہ کہ دینے والے اس بابت کوئی تفصیل بتادیں تو اس کے مطابق عمل کیا جائے۔
واقف مصلی وقف کرنے کے لئے کسی کو مامور بنایا ہے تو وہ شخص اسی کو مصلی دینے کا مجاز ہے۔ کسی اور کو نہیں دے سکتا۔
اگر وہ کسی اور کو مصلی دیدیا  تووہ مصلی کا ضامن ہوگا ۔منشاء واقف کے خلاف وصی کو کرنا جائز نہیں ہے ۔اگر کوئی شخص واقف کی منشاء یا تصریح کے بغیر  اس چٹائی کو کہیں اور لے جائے یا خود رکھ لے تو یہ بحکم غصب ہوکر ناجائز ہوگا۔جن لوگوں کو اس واقعہ کی اصلیت کا علم ہو ان کی نماز اس چٹائی پہ نہ ہوگی۔ کیونکہ صحت نماز کے لئے نماز پڑھی جانے والی جگہ وکپڑے وغیرہ کا مملوکہ /ماذونہ یا مباح ہونا  ضروری ہے۔ اور جنہیں اصلیت کا پتہ نہ ہو تو ان کی نماز صحیح ہوجائے گی۔
الإذن والاجازة توكيل. شرح المجلة للشيخ خالد الاناسي. كتاب الوكالة .45/4. رقم المادة 1452.
وفي ’’السنن الکبری للبیہقي‘‘: ’’لایحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفس منہ‘‘ ۔ (۶/۱۶۶، کتاب الغصب ، مشکوۃ المصابیح :ص/۲۵۵، السنن الدارقطني :۳/۲۲، کتاب البیوع ، رقم الحدیث:۲۸۶۲
وفي ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : لا یجوز التصرف في مال غیرہ بلا إذنہ ۔
(۹/۲۹۱، کتاب الغصب ، مطلب فیما یجوز من التصرف بمال الغیر)
و في ’’درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام‘‘ : لا یجوز لأحد أن یتصرف في ملک الغیر بلا إذنہ۔
(۱/۹۶، المادۃ)
والواقف لوعين إنسانا للصرف تعين. حتى لوصرف الناظر لغيره كان ضامنا. البحر الرائق. كتاب الوقف 381/5 رشيدية.
المغني 1 : 660 ، الشرح الكبير 1 : 498 ، المحرر في الفقه 1 : 43 ، العدة شرح العمدة : 66، المجموع 3 : 180.
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی ١٧\٦\١٤٣٩هجرية



No comments:

Post a Comment