Friday 2 March 2018

مسلمان کی خیرخواہی : البيعة على النصيحة لكل مسلم : Being A Well-Wisher Of Muslim

سوال: کسی صحابی کا کوئی ایسا واقعہ ہے جس میں انھوں نے ایک گھوڑا خریدا اور مطالبہ سے کہیں زیادہ قیمت ادا کی؟

جواب: جی ایسا واقعہ گزرا ہے،
شرح مشکوۃ میں حضرت جریر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا واقعہ ہے.
ایک مرتبہ حضرت جریر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ایک گھوڑا تین سو درہم کے عوض خرید لیا، انہوں نے بیچنے والے سے کہا کہ تمہارا یہ گھوڑا تو تین سو درہم سے زیادہ قیمت ہے تم اس کی قیمت چار سو درہم لوگے؟
اس نے کہا ابن عبداللہ تمہاری مرضی پر موقوف ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تو گھوڑا چار سو درہم سے بھی زیادہ کا معلوم ہوتا ہے تم کیا اس کی قیمت پانچ سو درہم لینا پسند کرو گے؟
وہ اسی طرح اس کی قیمت سو سو درہم بڑھاتے گئے اور آخرکار انہوں نے اس گھوڑے کی قیمت میں آٹھ سو درہم ادا کئے جب لوگوں نے ان سے گھوڑے کی قیمت بڑھانے کا سبب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ بیعت کی تھی کہ ہر مسلمان سے خیر خواہی کروں گا (چنانچہ جب میں نے دیکھا کہ اس گھوڑے کا مالک وہ قیمت طلب نہیں کررہا جو حقیقت میں ہونی چاہئے تو میں نے اس کی خیر خواہی کے پیش نظر اس کو زیادہ سے زیادہ قیمت ادا کی۔
شرح مشکوۃ
........
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو حکم دیا کہ ایک گھوڑا خرید کر لاؤ وہ تین سو درہم میں گھوڑا خریدکر لایا، ساتھ قیمت دلانے کے لئے گھوڑے کے مالک کو بھی لیتا آیا. حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو مقرر شدہ تین سو درہم رقم بتلائی اور گھوڑا بھی پیش کردیا گیا. حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے اندازہ کیا کہ گھوڑے کی قیمت تین سو درہم سے کہیں زیادہ ہے. آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے گھوڑے کے مالک سے کہا: آپ کا یہ گھوڑا تین سو درہم سے زیادہ قیمت کا ہے، کیا آپ چار سو درہم میں فروخت کریں گے؟
اس نے جواب دیا: ابو عبداللہ جیسے آپ کا جی چاہے.
حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آپ کے گھوڑے کی قیمت چار سو درہم سے زیادہ ہے کیا آپ پانچ سو درہم میں فروخت کریں گے؟
اس نے کہا: میں تیار ہوں.
الغرض حضرت جریر رضی اللہ عنہ گھوڑے کی قیمت میں سو سو درہم بڑھاتے چلے گٰٰئے یہاں تک کہ آٹھ سو درہم میں گھوڑا خریدا اور رقم مالک کے حوالے کردیا.
حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا: جب مالک تین درہم پر راضی تھا تو آپ نے اسے آٹھ سو درہم دے کر اپنا نقصان کیوں کیا؟
آپ نے اسے فرمایا: بات یہ ہے کہ گھوڑے کے مالک کو اس کی صحیح قیمت کا اندازہ نہ تھا، میں نے خیر خواہی کرتے ہوئے اس کو پوری قیمت ادا کی کیوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا تھا کہ ہمیشہ ہر مسلمان کی خیر خواہی کروں گا میں نے اس وعدہ کو پورا کیا۔۔۔
نووی شرح مسلم ص 55 ج 1
......

ورد في معجم الطبراني أن جرير بن عبد الله البجلي أرسل غلامه ليشتري فرساً، والتجارة شطارة -كما يقال- فكلما ساومت صاحب البضاعة ورخّصت السعر كنت (شاطراً)، فغلام جرير كان هكذا، ذهب إلى السوق فوجد فرساً أعجبه، فأخذ يساوم صاحبه حتى وصل إلى ثلاثمائة درهم، وكان الفرس يستحق أكثر من ذلك، لكن الغلام (فطن)، فاتفقوا على السعر وذهب الرجل والغلام بالفرس إلى جرير ، فقال له جرير : بكم اشتريت الفرس؟ قال: بثلاثمائة درهم، فقال جرير لصاحب الفرس: يا صاحب الفرس! فرسك يساوي خمسمائة، فاستاء الغلام جداً من هذه الكلمة، فقال الرجل: رضيت!، قال: يساوي ثمانمائة درهم، فقال له: رضيت!، وأعطاه الثمانمائة درهم وأخذ الفرس، فقال الغلام: ما هذا؟ فقال جرير : (يا بني! إني بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم على النصح لكل مسلم!).فهل هذا المثل موجود في غير الصحابة -إلا من رحم الله وقليل ما هم-؟ لا يمكن له أن يفض البيعة بخمسمائة درهم! فأي وقت هذا، هناك رجل يفض عقده مع الله وهو عقد العبودية مثل منعم كارلس كان مسلماً فكفر لكي يصبح رئيس جمهورية، لأن من شروط رئيس الجمهورية أن يكون نصرانياً، فكفر ونقض العقد والبيعة؛ حتى يصبح رئيساً.

No comments:

Post a Comment