Tuesday 27 January 2015

مولانا علی میان ندوی کی دعوت

مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی علیہ الرحمہ شاہ فیصل سے ملاقات کیلئے جب ان کے محل تشریف لے گئے، تو محل کی خوبصورتی، اس کی سجاوٹ اور اس کی آرائش و زیبائش دیکھ کر شاہ فیصل سے یوں گویا ہوئے:میں سوچ رہا ہوں اور مجھے یاد آرہا ہے کہ ہمارے ہندوستان میں بھی ایک بادشاہ گذرا ہے، اس کی سلطنت آج کے پورے ہندوستان اور پاکستان پر نہیں بلکہ نیپال، سری لنکا اور افغانستان تک پھیلی ہوئی تھی، اس نے 52 سال اتنی بڑی سلطنت پر حکومت کی، مگر اقتدار کے 52 سالوں میں سے 20 سال گھوڑے کی پیٹھ پر گذارے، اس کے دور میں مسلمان آزاد تھے، خوشحال تھے،

ان کیلئے ہر قسم کی آسانیاں تھیں لیکن بادشاہ کا حال یہ تھا کہ وہ پیوند لگے کپڑے پہنتا تھا، قرآن مجید کی کتابت کر کے اور ٹوپیاں سی کر اپنا خرچ چلاتا تھا، خزانے کو ﷲ کی اور اس کی مخلوق کی امانت سمجھتا تھا، وہ خود روکھی سوکھی کھاتا، مگر دوسروں کیلئے لنگر چلاتاتھا، وہ خود تنگ دست تھا مگر دوسروں کیلئے موتی لٹاتا تھا، وہ فقیر تھا مگر دل کھول کر غریبوں کی مدد کرتا تھا۔
عیاشی کے تمام سامان اس کے ایک اشارے پر فراہم ہو سکتے تھے، مگر وہ آخرت کو یاد کرکے روتا تھا۔ راتوں کو پروردگار کے حضور میں کھڑا رہتا تھا، اور اپنی کوتاہیوں پر رو رو کر معافی مانگتا تھا، اپنے دربار میں وہ بادشاہ تھا، لیکن اﷲ کے دربار میں فقیر بن کر کھڑا رہتا، اور آنسوؤں کا نذرانہ پیش کرتا، اس وقت مسلم حکمراں غریب اور سادہ تھے، مگر عوام خوشحال اور آسودہ تھے۔
آج آپ کا یہ محل دیکھا تو خیال آیا کہ سب کچھ کتنا بدل گیا ہے، آج ہمارے بادشاہ خوشحال ہیں اور عوام غریب و محتاج۔ بادشاہ شاندار محلوں میں رہتے ہیں، مگر رعایا کو جھونپڑی بھی میسر نہیں۔ پہلے کے بادشاہ پوری قوم کیلئے درد مند تھے مگر اب بادشاہوں کو کسی کا کوئی خیال ہی نہیں۔ اپنی عیاشی میں مست ہیں۔ 
فلسطین کے عربوں کو دیکھئیے کہ کیا حال کر دیا ہے ان کا یہودیوں اور نصرانیوں نے، فلسطین میں مسلمان بے گھر ہیں، کشمیر میں ان کا لہو ارزاں ہے، وسط ایشیاء میں وہ اسلام کی شناخت سے محروم ہیں۔ آج میں نے آپ کے محل میں قدم رکھا تو اسلام کی پوری تاریخ میری نظر میں گھوم گئی اور پہلے کے اور اب کے بادشاہوں کے تقابل میں کھوگیا۔ 
جب مولانا خاموش ہوئے تو شاہ فیصل کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہوچکا تھا، اب ان کی باری تھی لیکن وہ زار و قطار رو رہے تھے، رونے کی آواز سن کر محافظ دوڑتے ہوئے آئے، تو شاہ فیصل نے ہاتھ کے اشارے سے باہر جانے کیلئے کہا اور مولانا سے مخاطب ہوکر بولے: وہ بادشاہ اس لئے تھے کہ انہیں آپ کے جیسے بے باک اور مومنانہ شان رکھنے والے ناصح میسر تھے۔ آپ تشریف لاتے رہیں تاکہ ہم کمزوروں کو نصیحت ملتی رہے۔ 
اس واقعہ سے جہاں حضرت علی میاں علیہ الرحمۃ کی حق گوئی و بے باکی کا اظہار ہوتاہے وہیں شاہ فیصل کا تحمل، اپنی کمزوریوں پر احساس ندامت اور اہل علم اور خامیوں پر ٹوکنے والوں سے ناراضگی کی بجائے ان کی قدر شناسی بھی جھلکتی ہے-

No comments:

Post a Comment