Wednesday, 24 September 2025

مزارعت کا شرعی حکم اور ڈاکٹر اسرار مرحوم کی تردید

مزارعت کا شرعی حکم اور ڈاکٹر اسرار مرحوم کی تردید

سوال: آج کل ڈاکٹر مرحوم کا ایک ویڈیو بیان گشت کررہا ہے، جس کا مضمون یہ ہے: زمین کو ٹھیکے پر دینا یعنی کسی کو زمین کاشت کے لیے دینا اور اس سے اس کی اجرت وصول کرنا حرام ہے، اسی طرح کسی کو زمین اس طرح کاشت کے لیے دینا کہ مثلا آدھی فصل کاشتکار کی اور آدھی زمین دار کی، مطلق حرام ہے، فقہ حنفی اور امام ابو حنیفہ کا فتوی یہی ہے، متعدد احادیث میں یہ وارد ہے کہ جس کے پاس زمین ہے یا تو خود کاشت کرے یا اپنے کسی بھائی کو ویسے ہی دیدے، اس سے نہ اجرت وصول کرے اور نہ کاشت میں حصہ رکھے، اگر کسی کو دیکر اجرت یا کاشت میں بھی حصہ رکھا جائے گا، یہ سود ہے، جو حلال نہیں ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں کیا یہ بات صحیح ہے؟ اگر یہ صیح نہیں تو اس کے بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟

جواب: مزارعت کے سلسلہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی مختلف ہیں اور مزارعت کی صورتیں بھی متعدد رائج ہیں ، مزارعت کا معاملہ نہ کلی طور پر حرام و ناجائز ہے اور نہ کلی طور پر جائز وحلال، بلکہ اس میں درج ذیل تفصیل ہے:

(الف) زمین کو روپیہ پیسہ یا کسی اور جنس کے عوض کرایہ پر دیا جائے، پھر خواہ کرایہ دار اس میں کاشت کرے یا اس کو کسی اور کام میں استعمال کرے۔۔ بخاری و مسلم اور دیگر کتب حدیث میں اس کا جواز مصرح ہے، اس وجہ سے ائمہ اربعہ بلکہ جمہور فقہاء اس کے جواز پر متفق ہیں ، صرف علامہ ابن حزم ظاہری سے اس کا عدم جواز منقول ہے، جس کو شاذ کہا گیا ہے۔

(ب) زمین کو پیداوار کے کچھ حصہ کے عوض کرایہ پر دیا جائے، جس کی کئی صورتیں ہیں

ا۔ پیداوار کے ایک معینہ حصہ (مثلا : پچاس کوئنٹل) کے عوض کرایہ پر دیا جائے۔ یہ صورت باتفاق ائمہ اربعہ ناجائز

ہے، کیوں کہ ممکن ہے کہ کہ اتنی پیداوار نہ  ہو یا صرف اس قدر پیداوار ہو، لہذا ایسی صورت میں کاشتکار کو کچھ نہ مل سکے گا۔

۲۔ زمین کے کسی مخصوص حصہ کی پیداوار کے عوض زمین کو کرایہ پر دیا جائے (مثلا: یوں کہا جائے کہ فلاں حصہ کی پیداوار میری ہوگی ) ۔ یہ صورت بھی باتفاق ائمہ اربعہ نا جائز ہے، کہ ممکن ہے صرف اس حصہ میں پیداوار ہو یا قابل استعمال صرف اسی حصہ کی پیداوار ہو، پس اس صورت میں بھی کاشت کار محروم رہ جائے گا۔

۳۔ زمین کو پیداوار کے فی صدی حصہ کے لحاظ سے کرایہ پر دیا جائے ( مثلا نصف نصف پیداوار دونوں کی طے ہو)۔ اس صورت کے جواز و عدم جواز کے بارے میں فقہائے مجتہدین کے مابین اختلاف ہے :

(الف) امام ابو یوسف و محمد اور امام احمد بن حنبل اس کے مطلقا جواز کے قائل ہیں اور امام مالک و شافعی کچھ شرطوں کے ساتھ اس کو جائز فرماتے ہیں، الحاصل یہ حضرات شرط یا بلا شرط اس کے جواز پر متفق ہیں۔

(ب) امام ابو حنیفہ اس صورت کو بھی ناجائز فرماتے ہیں۔

اس صورت کے حکم میں اختلاف کا منشاء یہ ہے کہ در اصل حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسم نے اپنے بعض

ارشادات میں مزارعت سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، ایک حدیث کے الفاظ ہیں: من لم يدع المخابرة فليؤذن بحرب من الله ورسوله (ابوداود، كتاب البيوع ، باب فى المخابرة) یعنی جو مزارعت ترک نہ کرے تو وہ اللہ ورسول سے اعلان جنگ سن لے۔

مگر جمہور فقہاء فرماتے ہیں کہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مزارعت کے معاملہ کا ثبوت ہے، آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے خیبر کی زمینیں یہود خیبر کو نصف پیداوار کے عوض کاشت پر دیں ، حضرات صحابہ کے مابین اور قرون مشہود لها بالخیر میں مزارعت کے معاملات کا بکثرت رواج رہا ہے، نیز اس کی ضرورت بھی ہے، جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا ، لہذا ان اسباب اور دلائل کی بناء پر مزارعت کا معاملہ جائز اور درست ہے، اور ممانعت کی احادیث کا محمل مزارعت کی وہ صورتیں ہیں جو اوپر ذکر کی گئیں، جوذکر کردہ خرابیوں کے پیش نظر ممنوع ہیں۔

متاخرین فقہاء احناف نے اس معاملہ میں دلائل کی قوت، تعامل امت اور ضرورت کی بنیاد پر حضرات صاحبین اور جمہور فقہاء کے جواز کے قول کو ترجیح دی ہے اور اس کے جائز ہونے کا فتوی دیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ موصوف مرحوم کا مزارعت کے معاملہ کو سودی معاملہ کہہ کر کا الاطلاق حرام کہنا اور اس کو فقہ حنفی کا فتوی قرار دینا درست نہیں ہے، فقہ حنفی کا فتوی اس کے جائز ہونے کا ہے، البتہ وہ صورتیں ممنوع و نا جائز ہیں جو اوپر ذکر کی گئیں۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: ہدایہ ۴۰۸/۴، تکملہ فی المسلم ۴۱۱/۱)

مفتی بشیر احمد سہارنپوری

نائب مفتی دارالافتاء مظاہر علوم سہارنپور

(ماہنامہ مظاہر علوم نومبر 2024) (واقعات الفتاوى) (فتاوی مظاہرعلوم سہارنپور) ( #ایس_اے_ساگر )

https://saagartimes.blogspot.com/2025/09/blog-post_24.html






No comments:

Post a Comment