Friday, 5 September 2025

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں (قسط) (۲)

مدارس کے چراغ اور معیشت کی آندھیاں
قسط (۲)
-------------------------------
-------------------------------
اسلام ایک ایسا آفاقی اور کامل دین ہے جس نے مزدوروں اور محنت کشوں کو محض خادم یا نوکر نہیں بلکہ انہیں "بھائی" قرار دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے انسانیت کو وہ عظیم اصول عطا فرمایا جس نے دنیا کو مزدور کی عظمت کا سبق سکھایا:
إِخْوَانُكُمْ خَوَلُكُمْ جَعَلَهُمُ اللَّهُ تَحْتَ أَيْدِيكُمْ، فَمَنْ كَانَ أَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ فَلْيُطْعِمْهُ مِمَّا يَأْكُلُ وَلْيُلْبِسْهُ مِمَّا يَلْبَسُ، وَلَا تُكَلِّفُوهُمْ مَا يَغْلِبُهُمْ، فَإِنْ كَلَّفْتُمُوهُمْ فَأَعِينُوهُمْ (صحیح البخاری، حدیث: 30)—-یہ تمہارے بھائی ہیں، اللہ نے انہیں تمہارے ماتحت کیا ہے؛ پس جو خود کھاؤ وہی انہیں کھلاؤ، جو خود پہنو وہی انہیں پہناؤ، ان پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالو، اگر ڈالو تو خود ان کی مدد کرو)۔
مزید برآں، آپ ﷺ نے مزدوری طے کیے بغیر کسی کو ملازم رکھنے سے منع فرمایا:
نَهَى رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَنْ اسْتِئْجَارِ الْأَجِيرِ حَتَّى يُبَيَّنَ لَهُ أَجْرُهُ (مسند أحمد، حدیث: 11743)
اور تاکید فرمائی:
أَعْطُوا الْأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُهُ (سنن ابن ماجہ، حدیث: 2443)
یعنی مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی اجرت ادا کرو۔
قرآن مجید نے بھی صاف اعلان کیا:
﴿وَلا تَبخَسُوا النّاسَ أَشياءَهُم﴾ (الاعراف: 85)
—-یعنی لوگوں کے حقوق میں کمی نہ کرو۔
بلکہ ایک اور حدیث میں سخت وعید آئی ہے:
قَالَ اللَّهُ: ثَلَاثَةٌ أَنَا خَصْمُهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ … وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِيرًا فَاسْتَوْفَى مِنْهُ، وَلَمْ يُعْطِهِ أَجْرَهُ
(صحیح البخاری، حدیث: 2227—اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قیامت کے دن تین اشخاص سے میں خود جھگڑوں گا… ان میں ایک وہ ہے جس نے کسی مزدور سے پورا کام لیا مگر اس کی مزدوری ادا نہ کی)۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق اجرت محض لین دین نہیں، بلکہ مزدور کی عزتِ نفس کی حفاظت اور اس کے گھرانے کی ضروریاتِ زندگی کی کفالت کا ضامن ہے۔تن خواہ کا بنیادی مفہوم بھی تو یہی ہے!
ریاستی قوانین بھی اسی عدل کے تابع ہیں۔ ہندستان کی عدالتِ عظمیٰ نے 31 اکتوبر 2018 کو مزدوروں کے لئے کم از کم اجرت مقرر کی:
غیر تربیت یافتہ: یومیہ 538، ماہانہ 14,000
کم تربیت یافتہ: یومیہ 592، ماہانہ 15,400
تربیت یافتہ یا میٹرک پاس: یومیہ 652، ماہانہ 16,962
گریجویشن یا اس سے زائد: یومیہ 710، ماہانہ 18,462
افسوس صد افسوس! کہ ملک کے مرکزی اداروں کو چھوڑ کر بیشتر مدارس میں آج بھی اساتذہ کو اس معیار سے کہیں کم تنخواہیں دی جارہی ہیں۔ بلند و بالا عمارتوں پر لاکھوں اور کروڑوں خرچ ہوتے ہیں، مگر وہ استاد، جو علم کے چراغ جلا کر نسلوں کو روشنی دیتے ہیں، دس تا پندرہ ہزار کے قلیل مشاہرے پر زندگی کی کٹھنائیوں کا سامنا کرتے ہیں۔ یہ وہ المیہ ہے جو ذہین فضلاء کو تدریس سے کنارہ کشی پر مجبور کررہا ہے۔ اگر یہی طرزِ عمل جاری رہا تو مدارس کی روشن قندیلیں ایک ایک کرکے بجھ جائیں گی، اور علم و عرفان کی بزم ویرانی میں بدل جائے گی۔
آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اربابِ مدارس اساتذہ کو "بھائی" سمجھیں، اجرت کے فرسودہ اور ظالمانہ نظام کو ختم کریں، اور عدالت کی مقررہ کم از کم شرح کو اخلاقی معیار بنائیں۔ اساتذہ کی بنیادی ضروریات کی کفالت کریں، مشاہرات وقت پر ادا کریں، ایمرجنسی حالات کے لئے قرضِ حسنہ کا نظام وضع کریں، اور اچھی کارکردگی پر انعام و اکرام کا سلسلہ جاری کریں۔اضافی خدمات ومحنتوں پہ معقول اضافی اجرت دیں، ان کی مجبوریوں سے فائدہ نہ اٹھائیں!
یاد رکھئے! عمارتیں نہیں؛ بلکہ "اساتذہ کرام" مدارس کی جان وشہ رگ ہیں۔ ان کی عزت و آسودگی میں ہی امت کی بقاء اور مدارس کی روشنی مضمر ہے۔ تدریس کے سپاہی یوں ہی سرکاری اسکولوں کا رُخ نہیں کرررہے ہیں، بلکہ ظالمانہ و فرسودہ "تنخواہی نظام" انہیں اس ہجرت وانحراف پر مجبور کررہا ہے۔
مدارس کو حقیقی معنوں میں اگر زندہ رکھنا ہے تو سب سے پہلے اساتذہ کے دلوں کو زندہ رکھنا ہوگا۔ عالی شان عمارتیں مدارس کو وقار نہیں دیتیں، بلکہ وہ اساتذہ کرام ہی ہیں جو ان عمارتوں کو معنی بخشتے ہیں۔ اگر ان کے گھروں کے چولہے بجھ گئے تو مدارس کی روشنی بجھتے دیر نہیں لگے گی۔ 
اب وقت ہے کہ ہم اپنے نظامِ تنخواہ کو عدل و کرم کا آئینہ بنائیں، نصاب درس ونظام تربیت کی طرح دارالعلوم دیوبند کے نظام مشاہرات کو بھی آئیڈیل بنانے کی کوشش کریں؛ تاکہ مدارس کے چراغ معیشت کی آندھیوں میں بھی ہمیشہ روشن رہیں۔
ای میل: Email: muftishakeelahmad@gmail.com
 (جمعہ، 12 ربیع الاوّل 1447ھ 5 ستمبر 2025ء) ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2025/09/blog-post_5.html

No comments:

Post a Comment