اپنے خالق کےحضور میں میاں جی عظمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ
میں نے تقریبا 1995 اور ء1994ء کے دوران اپنے تبلیغی شعور کے آغاز میں، میاں جی کو دیکھا اور سنا،اور تب سے اب تک نہ جانے کتنی مرتبہ دیکھنے، سننے اور ملنے کا موقع ملا، ہم انہیں جب دیکھتے اللہ یاد آجاتا، جب ان کے بیانات سنتے، اللہ کی عظمت سے دل لبریز ہوجاتا اور آخرت کی یاد تازہ ہوجاتی، یہ بات مبالغہ نہیں حقیقت ہے اور اس حقیقت کا اعتراف کرنے والے سینکڑوں نہیں ہزاروں اور لاکھوں ہیں اور اس کی شہادت دینے والے عوام ہی نہیں علماء بھی ہیں_
وہ امی تھے، میرا اپنا خیال ہے کہ قرآن کریم کے علاوہ وہ اردو زبان بھی ٹھیک سے نہیں پڑھ سکتے تھے ان کے لہجے اور تعبیرات میں میواتیت غالب ہوا کرتی تھی، ان سب کے باوجود عوام وخواص ان کے بیانات کے طالب اور متمنی ہوا کرتے، ان کے بیانات نظام الدین میں بھی ہوتے تھے اور چھوٹے، بڑے اجتماعات میں بھی، بھوپال کے عالمی اجتماع میں بھی، رائیونڈ اور ککریل میں بھی، کئی مرتبہ میں نے خالص علماء کے بڑے مجمع میں بھی ان کا بیان سنا ہے، بسا اوقات دوران بیان ان کی آنکھ سے آنسو رواں ہوجاتے اور سامعین کی آنکھیں بھی نم ہوجاتیں_
ان کا بیان ان کے نام کا پرتو ہوا کرتا، عظمت اللہ ان کا نام تھا اور عظمت الہی ہی ان کے بیان کا غالب حصہ ہوا کرتا ہے، دو، ڈھائی گھنٹے کے بیان میں وہ اللہ کی قدرت اور عظمت اس قدر سمجھاتے کہ ہر سامع اپنے دل میں ایمان کی حلاوت اور ترقی محسوس کرتا، مولنا یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے دور کے لوگ کہتے کہ ان کا بیان مولنا کے بیان سے ماخوذ ومستفاد ہے، بیان سننے والا غیراللہ کو بے حیثیت وبے قیمت سمجھنے لگتا، صاحب قدرت رب کے سامنے خود کو ذلیل و بے بس محسوس کرتا_
غالبا 2014 کی بات ہوگی، رمضان کا مہینہ تھا، دارالعلوم دیوبند کے ایک صاحب تحقیق وتصنیف، موقر استاد، نظام الدین تشریف لائے. عصر کے بعد مسجد میں میاں جی کا بیان تھا، مجھ سے کہنے لگے چلو بیان میں شرکت کرتے ہیں، مجھے کچھ تردد ہوا کہ کہیں میاں جی کی خالص دیہاتی زبان واسلوب کسی بدگمانی کا سبب نہ بن جائے کہ یہ عالمی مرکز ہے لیکن بیان کے بعد استاد محترم کا تاثراتی جملہ تھا کہ "بھئی ایسے ہی لوگوں کے بیان سے ایمان میں تازگی پیدا ہوتی ہے."
میاں جی کو میں جب بھی دیکھتا کسی نہ کسی اجتماعی یا انفرادی عمل میں مشغول پاتا، وہ یاتو بیان کررہے ہوتے، یا پھر تلاوت یا ملنے والوں کو ترغیب ونصیحت کرریے ہوتے، مجھے ان کی عملی اور مقصدی زندگی پر ہمیشہ رشک آتا.
انہیں عمر طویل (95) عطاہوئی اور اچھا عمل نصیب ہوا، گویا آپ اس حدیث کا مصداق تھے، جس میں سائل نے بہترین آدمی کا سوال کیا تو زبان رسالت مآب سے جواب ملا:
من طال عمره وحسن عمله،
جس کی عمر طویل اور عمل اچھا ہو.
وہ بلاشبہ اس دور میں ایمان، توکل، سادگی، تواضع، اخلاق واخلاص کے اعلی معیار پر تھے اور فکر، دعوت، عبادت وقربانی وعزیمت کے باب میں دعوت و تبلیغ کے سابقین اولین کا نمونہ تھے، انہوں نے راہ خدا میں طویل مدتی ومسافتی سفر خوب کیا. کسی زمانے میں امریکہ میں سال لگایا، چار ماہ چالیس مرتبہ سے زائد لگایا. بسا اوقات ایسا بھی ہوا کہ چار ماہ کے خروج سے واپسی پر جماعت تشکیل کرکے مرکز لائے. امیر نہ ملنے پر دوبارہ خود ہی لے کر چلے گئے. پھر دوبارہ سہہ بارہ ایسا ہوا، اس طرح "چار ماہ" سال ڈیڑھ سال میں پورا ہوا، علماء کی جماعتیں بھی خوب چلائیں. جب تک سفر کے قابل تھے، سال لگانے والے علماء کی تمنا ہوتی تھی کہ ہمارا کچھ وقت میاں جی کے ساتھ لگ جائے. میاں جی مشورے سے انہیں لے جاتے، وقت لگانے والے علماء ان کے ساتھ گذرے ایام کو انتہائی مفید بتاتے.
میاں جی عجائب قدرت کو خوب کھول کھول کر بیان کرتے،اور بذات خود قدرت کا عجوبہ اور انا عند ظن عبدی بی کا نمونہ تھے، مشہور ہے کہ تقریبا پچیس سال قبل ایک بڑے مسلم ڈاکٹر (جنہیں میں بھی جانتا ہوں ) نے میاں جی سے کہا: ہمارے فن اور میڈیکل سائنس کے اعتبار سے آپ چند مہینوں سے زیادہ زندہ نہیں رہیں گے. میاں جی نے برجستہ کہا: دیکھ نہ تو اپنا ایمان خراب کر ، نہ ہی میرا ایمان خراب کر، (اللہ کی) قدرت سے اب تک زندہ رہے ہیں، آئندہ بھی جب تک قدرت (الہی) چاہے گی زندہ رہیں گے، اس کے بعد ایک عرصے تک نہ صرف بقیدحیات رہے بلکہ سارے اعمال وأسفار بھی کرتے رہے، تقریبا چار سال قبل ان کے لائق وفائق فرزند مولانا فاروق صاحب جو والد کی خدمت میں رہتے تھے ، طبیعت کی ناسازی کے بعد دہلی کے ایک اسپتال میں لے گئے. ڈاکٹروں نے ڈائلسس تجویز کیا، میاں جی نے منع کردیا اور واپس آگئے اور پھر معمول کے مطابق سارے اعمال یہاں تک کہ بیان بھی کرتے رہے. اسپتال کے مالک کو جب اس کی خبر ہوئی تو وہ بہت معتقد ہوگیا، وہ ملنے آتا اور اپنے نئے اسپتال کا افتتاح اس نے میاں جی سے یہ کہتے ہوئے کروایا کہ "یہ ہمارے میڈیکل اصول وضوابط سے مستثنی ہیں، یقینا یہ کوئی خاص مقام رکھتے ہیں."
میاں جی نے ہجرت بہت کی تھی اس لئے ان کی خواہش تھی کہ میرا انتقال یا تو خروج فی سبیل اللہ میں ہو یا پھر مرکز نظام الدین میں، کرونا کے زمانے میں جتنے دنوں مرکز کے باہر رہے، مرکز آانے کے لئے بے قرار رہتے، ہر دن دعاء کرتے کہ: "مولی مجھے گھر پر موت نہ آئے." بالآخر تمنا پوری ہوئی. مولی کےا س سچے عاشق نے مرکز میں قیام کے دوران جمعہ کے مبارک دن اپنی جان، اسی قدرت والے مولی کے سپرد کردی جس کی قدرت سمجھنے اور سمجھانے میں اپنی زریں عمر کا ایک ایک لمحہ خرچ کردیا، وہ درد بدر پھرتا رہا، جوانی میں بھی ، ضعیفی میں بھی ، پیدل بھی، سواری سے بھی.
جان ہی دے دی جگر نے آج پائے یار پر
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
میرا اپنا حسن ظن ہے (ولا ازكي أحدا علي الله) کہ انہیں 'نفس مطمئنة'حاصل تھا. مجھے امید کہ میاں جی کو یہ نوید جانفزا سننے کو ملے گی
يايتها النفس المطمئنة،ارجعي الي ربك راضية مرضية، فادخلي في عبادي،وادخلي جنتي.
محمد اشرف علی محمد پوری
23/9/2023 ( #ایس_اے_ساگر )
No comments:
Post a Comment