Monday, 27 November 2023

تشہد میں انگشتِ شہادت اٹھانے کا مسنون طریقہ اور اس کی وجہ وحکمت؟

تشہد میں انگشتِ شہادت اٹھانے کا مسنون طریقہ اور اس کی وجہ وحکمت؟
-------------------------------
--------------------------------
سوال: (1) قعدہ میں التحيات پڑھتے ہوئے کلمہ (لا) پر شہادت کی انگلی اٹھانے کا کیا حکم ہے؟
سنت ہے یا واجب؟
(2) شہادت کی انگلی اٹھاتے وقت بلا اختیار خنصر انگلی بھی ساتھ ساتھ اٹھ جاتی ہے تو کیا اس ڈر سے کہ خنصر انگلی بھی اٹھ جاتی ہے شہادت کی انگلی ہی نہ اٹھانے کے جواز کا کوئی قول فقہائے کرام میں سے کسی کا ہے؟
(3) اگر دونوں انگلیاں (شہادت اور خنصر) ساتھ ساتھ بالاختیار اٹھادے تو اس سے کیا خرابی لازم آئے گی؟
محمد مناظر احسن قاسمی 
حال مقیم قطر 
الجواب وباللہ التوفیق:
لاالٰہ پڑھتے وقت دو کام کرنا ہے. ایک چھنگلی اور اس کے ساتھ والی انگلی بند کرنا، اور ابہام کو وسطی کے ساتھ حلقہ بنانا ہے. 
دوسرا اس کے ساتھ ہی مسبحہ کو اوپر کرنا ہے،  "الا اللہ" پڑھتے ہوئے اسے چھوڑ دینا ہے۔ لیکن انگلیوں کے حلقہ بنانے اور چھوٹی انگلیوں کو بند رکھنے کی کیفیت کو آخر تشہد تک باقی رکھنا ہے۔
یہ عمل مسنون ہے:
عن عبدالله بن الزبير قال: "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا قعد في الصلاة جعل قدمه اليسرى بين فخذه وساقه وفرش قدمه اليمنى ووضع يده اليسرى على ركبته اليسرى ووضع يده اليمنى على فخذه اليمنى وأشار بإصبعه" . رواه مسلم (579) .
وفي النسائي (1270) وأبي داود (989) "كان يشير بأصبعه إذا دعا ولا يحركها."
اب رہا آپ کا یہ خلجان کہ رفع سبابہ سے ماسوی اللہ کی نفی کیسے ہوگی؟
تو وہ اس طرح ہوگی کہ انگلیاں یا ہاتھ "اوپر اٹھانا" کسی چیز کو پس پشت ڈالنے اور انکار کرنے کو مشیر ہوتا ہے. اسی لئے تکبیرتحریمہ کے وقت رفع یدین کے من جملہ حکمتوں میں "طرح الدنیا" کو بھی بتایا جاتا ہے. جب "ہاتھ اٹھانا" طرح وانکار ونفی“ ہوسکتا ہے تو اب تشہد میں کوئی ہاتھ کیسے اٹھائے گا ؟ اب کلمہ توحید پڑھتے ہوئے اس کے لئے یہی کچھ ممکن ہے کہ  "جزو ید" مسبحہ اٹھاکر ماسوی اللہ کا طرح وانکار مراد لیا جائے۔ چنانچہ جب رفع سبابہ سے عملاً اور "لاالٰہ" پڑھ کر قولاً ہر دو طریقوں سے ما سوی اللہ کی مکمل نفی ہوگئی تو اب مقصد حاصل ہوگیا اور "الا اللہ" کہتے ہوئے یعنی اثبات توحید لذات اللہ کے وقت انگلی نیچے رکھ دے.
کمرے کی بجلی اور لائٹ آف کرنے "نفی نور" کے لئے بھی سوئچ کو اوپر "رفع" کیا جاتا ہے، اور اثبات نور "لائٹ آن" کرنے کے لئے سوئچ کو نیچے "وضع" کیا جاتا ہے۔ 
رفع سے نفی اور وضع سے اثبات کا فلسفہ آپ اس سے بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں 
هذا ما فتح الله عليَّ علٰى هذا الفقير، والله سبحانه و تعالى أعلم بالصواب 
شكيل منصور القاسمی 
سوال 
——-
جزاکم اللہ خیرا 
بڑی خوبی سے اور بالخصوص بذریعہ عام فہم تمثیل سے مفتی صاحب آپ نے (رفع برائے نفی) اور (وضع برائے اثبات) سمجھا دیا ۔۔ بس اب یہ بات بھی آپ اپنے خوبصورت انداز میں سمجھادیجئے کہ (سبابہ اور خنصر) کا ایک ساتھ رفع ہو یا سبابہ کے ساتھ اور کسی بھی انگلی کا ایک ساتھ رفع ہو دو یا تین وغیرہ انگلیوں کا ایک ساتھ رفع ہو تو کیا حکم ہے؟
بالاخیار اور بدون خطا کے ۔۔ کیا حکم ہے؟
اور بلا اختیار لیکن مع التکرار اور لاابالی پن میں ۔۔ تو کیا حکم ہے۔۔
کسی نمازی نے سوال کیا ہے۔
شکریہ
الجواب وباللہ التوفیق:
اس جزئیہ کا جواب بھی اسی میں موجود ہے. رفع سبابہ کے ساتھ ابہام کو وسطی سے ملائیں گے اور بقیہ انگلیوں کو حلقے سے مربوط اور موڑ کے یعنی کہ بند رکھیں گے، سبابہ کے ساتھ کسی بھی دوسری انگلی کو اٹھانا خلافِ سنت ہے. بندہ اختیار کی حد تک ہی مکلف ہے، بقیہ انگلیوں کو حلقے سے جوڑ کے اور موڑ کے رکھنے کی پوری کوشش کرے، اس کی باضابطہ عادت ڈالے، اگر بامر مجبوری ممکن نہ ہو تو غیراختیاری طور پہ عارضی حالت میں اس عمل سے نماز میں کراہت نہ آئے گی 
البتہ اگر کوئی عمداً ایسا کرتا ہے تو یہ عمل مکروہ ہوگا. کیونکہ ہمارے یہاں رفع سبابہ کے ساتھ اسے مزید یمیناً وشمالاً آخر تشہد تک حرکت دیتے رہنا جب مکروہ ہے:
فی اعلاء السنن (۱۱۲/۳): قال الطحطاوی في حاشیته علی مراقي الفلاح: قوله،وتسن الاشارۃ،أی من غیرتحریك فإنه مکروہ عندنا۔
حالانکہ بعض احادیث سے اس کے ثبوت کے اشارے بھی ملتے ہیں تو رفع خنصر — جس کا کہیں سے کوئی ثبوت نہیں ہے— تو بدرجہ اولیٰ ناپسندیدہ عمل ہوگا۔ 
اس ناپسندیدہ، وقار نماز کے منافی اور غیر ثابت عمل کی اصلاح کی جانب پوری توجہ مبذول کی جائے۔
شامی میں ہے:
وشیخ الاسلام الجد وغیرھم أنه یشیر لفعله علیه الصلاۃ والسلام ونسبوہ لمحمد والامام بل فی متن دررالبحار وشرحه غرر الاذکار المفتی به عندنا انه یشیر باسطا أصابعه کلھا ، وفی الشرنبلالیۃ عن البرھان الصحیح أنه یشیر بمسبحته وحدھا یرفعھا عند النفی ویضعھا عند الاثبات واحترز بالصحیح عما قیل لایشیرلأنه خلاف الدرایۃ والروایۃ وبقولنا بالمسبحۃ عما قیل یقعد عند الاشارۃ وفی العینی عن التحفۃ الاصح انھا مستحبۃ۔
وفی القھستانی: وعن اصحابنا جمیعاً انہ سنۃ فیحلق ابھام الیمنی ووسطھا ملصقا رأسہا برأسھا ویشیر بالسبابۃ فھذہ النقول کلھا صریحۃ بان الاشارۃ المسنونۃ انما ھی علی کیفیۃ خاصۃ الخ الدر المختار مع رد المحتار: (508/1، ط: دارالفکر)۔
وفي حاشیة ابن عابدین: والصحیح المختار عند جمھور أصحابنا أنه یضع كفيه علی فخذیه ثم عند وصوله إلی کلمۃ التوحید یعقد الخنصر والبنصر ویحلق الوسطی والإبھام ویشیر بالمسبحة رافعا لھا عند النفی وواضعا لھا عند الاثبات ثم یستمر علی ذلک...
(ج :1/134)
والله أعلم بالصواب 
مرکز البحوث الإسلامية العالمي ( #ایس_اے_ساگر )
https://saagartimes.blogspot.com/2023/11/blog-post_27.html



No comments:

Post a Comment