Sunday 22 November 2020

غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں کے موقعوں پر انہیں مبارکباد دینا؟

غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں کے موقعوں پر انہیں مبارکباد دینا؟
-------------------------------
--------------------------------
سوال: السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ بعافیت ہوں گے۔ دیوالی وہولی وغیرہ غیرمسلموں کے تہوار کے موقع پر مبارکباد دینا جائز نہیں ہے، عام کتابوں میں یہی لکھا ہے۔ بھارت کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو مسلمانوں کے لیے ایک طرف نفرت وشدت میں ہر دن اضافہ ہے اور شدت پسندی کا الزام بھی،دوسری طرف مسلمانوں اور غیروں کے درمیان سماجی، سیاسی اور تجارتی رابطے آپس میں بہت گہرے بھی ہیں اور بوقت ضرورت یہی را‌بطے باہمی فتنہ وفساد کی آگ کو بجھانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اسی بنیاد پر عید ملن دیوالی ملن وغیرہ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور دونوں طرف کے سرکردہ حضرات شرکت بھی کرتے ہیں، حالات ایسے ہیں کہ آپ عید ملن پارٹی میں ان کو بلائیں گے تو آپ کو بھی ان  کی ہولی ملن پارٹی میں شامل ہونا پڑے گا، مسلم و غیرمسلم تنظیموں کے ذریعے یہ عمل ملک بھر میں جاری ہے، دوسری بات یہ ہے کہ سیاسی، سماجی اور تجارتی حضرات اس موقع پر مبارکباد بھی دیتے اور قبول کرتے ہیں، مقصد یہاں بھی نفرتوں کا خاتمہ اور مضرت کا دفعیہ ہے، مشرکانہ عمل میں شرکت یا اس پر رضامندی نہیں ہے، مثلاً دیوالی مبارک ہو، ہیپی دیوالی وغیرہ، بسا اوقات ان مواقع پر سرکاری افسران وعہدے داران کی طرف سے فون آتے ہیں اور وہ اپنی طرف سے پہل کرتے ہوئے دیوالی مبارک کہتے ہیں تو پھر جواب بھی دینا ہوتا ہے۔ ان حالات میں "الا ان تتقوا منھم تقاۃ" کے پیش نظر مسلم سماج کے مخصوص وسرکردہ حضرات کے لئے غیرمسلموں کو مبارکباد پیش کرنے کی اور ان کا جواب دینے کی کوئی گنجائش ہے نہیں، براہ کرم بھارت کی موجودہ صورت حال کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے مدلل جواب سے نوازیں گے، شکریہ جزاکم اللہ خیرا
سوال کنندہ۔ ذکاوت حسین قاسمی، مقیم دہلی
الجواب وباللہ التوفیق:
مذہب، مسلک، رنگ، نسل زبان وتہذیب کی تفریق کے بغیر تمام ہی انسانوں کے ساتھ محبت، مودت، نرمی، احسان، حسن خلق، حسن معاشرت، مہربانی، شرافت، اخلاق وانسانیت کے ساتھ پیش آنا، دکھ درد میں کام آنا اسلام کی تعلیم وہدایت ہے اور اس کا امتیاز بھی۔ اسلام کے اس اعلی ترین اخلاقی ورواداری کے اصول و تعلیم کی تصریح قرآن کریم میں اس طرح ہے:
(وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا)  [البقرة: 83۔۔۔ لوگوں سے بھلی باتیں کیا کرو]
(إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَان) [النحل: 90 ۔۔ یقیناً اللہ برابری اور احسان کا حکم کرتا ہے]
لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (الممتحنة :8)
”جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تمہیں جلاوطن کیا اللہ ان کے ساتھ حسن سلوک اور منصفانہ برتاؤ کرنے سے تمہیں منع نہیں کرتا۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے، اللہ تو تمہیں صرف ان لوگوں سے تعلق محبت رکھنے سے روکتا ہے، جنہوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگیں لڑیں اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا اور ان جلاوطن کرنے والوں کی مدد کی، جو لوگ ایسے کافروں سے تعلق محبت قائم کریں تو وہی لوگ ظالم ہیں“۔ ان نصوص  قرآنیہ سے واضح ہے کہ اسلام کی تعلیم یہ نہیں کہ اگر غیرمسلموں کی ایک قوم مسلمانوں سے برسرپیکار ومحارب ہے تو تمام غیرمسلموں کو بلاتمیز ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا شروع کردیا جائے! ایسا کرنا حکمت وانصاف کے خلاف ہوگا۔ دیگر تمام مذاہب والوں کے ساتھ حسن سلوک اور تعاون وعدم تعاون کا اسلامی اصول یہی ہے کہ ’’ان سے مودت وموالات کا تعلق قائم کرنا "ان کے مذہبی  ودینی امور میں اشتراک وتعاون" تعلیمات اسلام کے خلاف ہے“۔ اسے ہمارا مذہب ناجائز وحرام کہتا ہے:
"يَا أيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ". (الممتحنة: 1).
(’’من کثر سواد قوم فهو منهم، ومن رضي عمل قوم کان شریکا في عمله‘‘۔ (كنزالعمال: الرقم: 24730، نصب الرایۃ للزیلعي: 102/5. کتاب الجنایات، باب ما یوجب القصاص وما لا یوجبہ، الحدیث التاسع)
ہاں! ان کے ساتھ "مشترک سماجی، اجتماعی وملکی مسائل ومعاملات" ۔۔ جن میں شرعی نقطۂ نظر سے اشتراک وتعاون میں کوئی ممانعت نہ ہو ۔۔ ان میں ساتھ دینا چاہیے۔ یہ انسانیت کی خدمت ہے اور اسلام کی خاموش دعوت بھی۔ معاشرتی حسن سلوک اور اعلی انسانی اخلاق واقدار کا نمونہ پیش کرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفار کے ہدایا قبول کئے اور غیرمسلم بیمار شخص کی تیمار داری اور مزاج پرسی کی ہے۔ اسلام مستقل دین ،کامل واکمل ضابطہ حیات اور دستور زندگی ہے، ہر مسلمان کو اپنے مذہب کے عقائد واعمال اور احکام و تعلیمات کی صداقت وحقانیت پر دل ودماغ سے مطمئن ہونا اور اعضاء وجوارح سے اس کا عملی ثبوت پیش کرنا ضروری ہے. کسی دوسری قوم کی عادات و اطوار اور تہذیب و تمدن سے استفادہ وخوشہ چینی (شرکیہ و کفریہ طور طریق کو پسند کرنے) کی قطعی کوئی گنجائش نہیں ہے. کفر پسندی یا اس پہ رضا واقرار یا اس کی حمایت ونصرت بندہ مومن کو دین سے خارج کردیتا ہے. اپنے مذہبی حدود وشعار پہ انشراح واستقامت کے ساتھ دیگر اہل مذاہب ہم وطنوں و ہم پیشہ افراد و اشخاص کے ساتھ معاشرتی حسن سلوک و احسان کے تحت اپنی خوشی کے مواقع پہ انہیں بلانا یا شریک طعام کرنا یا خود ان کی خوشی میں ان کی دعوت قبول کرنے کی گنجائش ہے:
ولا بأس بضيافة الذمي، وإن لم يكن بينهما إلا معرفة، كذا في "الملتقط" … ولا بأس بأن يصل الرجل المسلم والمشرك قريبًا كان أو بعيدًا محاربًا كان أو ذميًّا] الفتاوى الهندية" (5/ 347، ط. دار الفكر)
کفار و مشرکین کی شادی: 
مسرت اور دیگر معاشرتی خوشیوں کے مواقع پر حدود شرع کی رعایت کے ساتھ اظہار مسرت کرنا، انہیں تحفے تحائف دینا، نیک خواہشات کا اظہار کرنا ،صحت وعافیت کی دعاء اور مبارکباد دینا ان کے مذہبی معاملات میں اشتراک و تعاون یا مودت و موالات نہیں؛ بلکہ حسن سلوک، خوش خلقی اور بر و احسان کے  قبیل سے ہونے کی وجہ سے جائز ومباح ہے. ان کے مذہبی تہواروں کے موقع سے ان کی خوشی ومسرت پہ دعا دینا، مذہبی ہم آہنگی و رواداری کے جذبے سے نیک خواہشات کا اظہار کرنا اور مبارکباد دینا جائز ہے یا نہیں. اس بابت شروع سے علماء کرام کے دو مختلف نقطہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ علماء کے ایک گروہ کا خیال یہ ہے کہ غیرمسلمین کے مذہبی تہواروں کے موقعوں پر انہیں مبارک دینا مشرکانہ عقائد و شعائر کی تعظیم و توثیق کے مشابہ ہونے کے باعث ناجائز ہے۔ جبکہ علماء کے دوسرے گروہ کا خیال یہ ہے کہ ان کے مذہبی تہواروں کے موقعوں  پر کفریہ وشرکیہ امور کی ادنی تعظیم وتوقیر کے بغیر، دل میں کفر سے نفرت و کراہیت رکھے ہوئے صرف ان کی خوشی ومسرت پہ اچھے جذبات ونیک خواہشات کا اظہار کرنا، انہیں خوشی وشادمانی اور فرحت ومسرت اور آسودگیِ حال کی دعائیں دینا (مبارکباد دینا) حسن سلوک، بِرّ واحسان، مواسات ومدارات کے قبیل سے ہونے کی وجہ سے جائز ہے. کفریہ وشرکیہ تہواروں کو "مبارک" کہنا علیحدہ ہے جس کی گنجائش نہیں ہے کہ یہ شعائر کفار کی تائید وتحسین کے زمرے میں آتا ہے جبکہ ان تہواروں کے مواقع پہ حاصل "ان کی خوشیوں" پہ مبارکباد دینا، نیک خواہشات کا اظہار کرنا اور ہدایتِ حق یا دنیوی منافع کی دعائیں کرنا امرآخر ہے۔ مختلف مذاہب وکلچر والے ملک کی مخلوط آبادی میں بین مذہبی معاشرتی تنائو کی فضا قائم کرنا مفید و دانشمندانہ عمل نہیں۔ ہم وطن، پڑوسی، ہم پیشہ برادران وطن سے کٹ کے رہنا اور انکی خوشیوں پہ منہ چڑھائے رہنا اسلام کے حسن سلوک اور بر واحسان کے اصول سے ہم آہنگ نہیں ہے. مذہبی تہواروں کے موقعوں پر خوشی ومسرت پہ دعائیہ جملوں کا تبادلہ کرنا ان کے کفریہ وشرکیہ عقائد کی نہ تائید ہے، نہ کفر پسندی ہے اور نہ اعمال کفر پہ رضا ورغبت کی دلیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی کے لئے مال واولاد کی کثرت، درازیِ عمر اور صحت وعافیت کی یوں دعاء فرمائی ہے: 
«أَكْثَرَ اللَّهُ مَالَكَ، وَوَلَدَكَ، وَأَصَحَّ جِسْمَكَ، وَأَطَالَ عُمُرَكَ» (مصنف  ابن ابی  شیبہ 105/6)
یہودی کے لئے درازی عمر کی دعاء اگر اس کے کفریہ اعمال کی تائید نہیں ہے تو کفار و مشرکین کی مذہبی خوشیوں پہ ان کے لئے اس نوع کی دعائیں کفریہ وشرکیہ اعمال کی تائید و توثیق کیسے ہوجائے گی؟ یہاں کفر وشرک کی تحسین وتبریک ہرگز نہیں ہے بلکہ صرف ان کی خوشیوں ومسرتوں پہ نیک خواہشات کا اظہار مقصود ہے، جس کا اعتقاد ومذہبی معاملات، مودت وموالات یا اس پہ رضا سے نہیں؛ بلکہ سماجی ومعاشرتی امور اور مدارات سے تعلق ہے. عیدین کے مواقع پہ جب وہ ہمیں مبارکباد دیتے ہیں تو ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اسلامی شعائر و تہوار پہ رضا ورغبت کے بعد یا اسلامی عقائد کی تائید و توثیق کے بعد وہ ایسا کرتے ہیں بلکہ صرف سماجی ومعاشرتی حیثیت سے ہی ہمیں مبارکباد دیتے ہیں۔ ان کی مذہبی خوشیوں کے مواقع پر مسلمانوں کی طرف سے مبارکباد بھی اسی سماجی، مکافاتی، معاملاتی ومداراتی حیثیت میں دی جاتی ہے، یعنی کہ عقائد سے اس امر کا تعلق نہیں ہے 
کہ اس کی وجہ سے ملت بیزاری یا کفر کا  خدشہ ہو؛ بلکہ اس کی حیثیت دعاء کی ہے، کفار و مشرکین کے لئے مغفرت ورحمت کے علاوہ دعائیں کرنا، مبارکباد کا پیغام دینا بعض اجلاء صحابہ سے ثابت ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ فرعون بحالت کفر مرا، لیکن وہ اگر مجھے برکت کی دعاء کرتا تو میں بھی اسے بدلے میں مبارکباد دیتا:
عن ابنِ عباسٍ قال لو قال لي فرعونُ: بارك اللهُ فيك، قلت: وفيك، وفرعونُ قد مات۔ (صحيح الأدب المفرد: 848)
اس سے پتہ چلا کہ کافر کو بدلے میں مبارکباد دینا مدارات و معاملات سے تعلق رکھتا ہے. مذہب کے اعتقادی وعباداتی مسائل سے اس کا تعلق نہیں ہے۔ صاحب فیض القدیر علامہ مناوی اور علامہ نووی رحمہ اللہ جیسے محدثین کرام کا خیال یہ ہے کہ کفار و مشرکین کے لئے دنیوی منافع (صحت، عافیت، خوش حالی، فارغ البالی، مال ودولت کی کثرت اور درازی عمر وغیرہ) کی دعائیں کی جاسکتی ہیں. (فيض القدير (1/ 345)، الأذكار/ النووي/ ص 317) 
"سلام" خالص اسلامی تحیہ اور دعا ہے. مسلمان سے ملاقات اور جدائی کے وقت "السلام علیکم ورحمةاللہ وبرکاتہ" کے ساتھ سلام کرنا اور اسی لفظ کے ساتھ جواب دینا مسنون ہے۔ جمہور فقہاء، شراح حدیث اور حنفیہ مالکیہ، شافعیہ اور حنابلہ کا مسلک  یہ ہے کہ کفار ومشرکین کو ابتدا بالسلام ناجائز ہے۔ ہاں اگر کسی ضرورت سے سلام کرنا پڑے تو جائز تو ہے لیکن اسے: 
"السلام علی من اتبع الھدی" 
کہے۔ ہاں اگر وہ سلام کرلیں تو اس کے جواب میں صرف "وعلیکم" یا "وعلیک یا علیکم" بغیر واو کے کہا جائے۔ جواب میں "وعلیکم السلام ورحمة اللہ" کہنا جائز نہیں ہے ۔ جبکہ صحابہ و تابعین کی ایک دوسری جماعت کی رائے یہ ہے کہ اگر کسی ضرورت سے کسی کافر کو ابتداءاً سلام کرلیا جائے، یا اس کے جواب میں ’’وعلیکم السلام‘‘ کہہ دیا جائے تو کوئی حرج نہیں ہے، یہ رائے حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت ابوامامہ، حضرت حسن بصری اور حضرت عمر بن عبدالعزیز رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرف منسوب ہے، ان حضرات کے پیش نظر یہ روایات ہیں:
(1) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ عَنْ رَجُلٍ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ كَتَبَ إلَى رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ: السَّلَامُ عَلَيْك. 
(2) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ إبْرَاهِيمَ قَالَ: إذَا كَتَبْت إلَى الْيَهُودِيِّ وَالنَّصْرَانِيِّ فِي الْحَاجَةِ فَابْدَأْ بِالسَّلَامِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: اُكْتُبْ "السَّلَامُ عَلَى مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَى" . 
( 3 ) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ قَالَ أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: سَأَلَ مُحَمَّدُ بْنُ كَعْبٍ عُمَرَ بْنَ عَبْدِالْعَزِيزِ عَنْ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الذِّمَّةِ بِالسَّلَامِ فَقَالَ: نَرُدُّ عَلَيْهِمْ وَلَا نَبْدَؤُهُمْ، فَقُلْت: وَكَيْفَ تَقُولُ أَنْتَ؟ قَالَ: مَا أَرَى بَأْسًا أَنْ نَبْدَأَهُمْ، قُلْت: لِمَ؟ قَالَ: لِقَوْلِ اللَّهِ فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ. 
(4) حَدَّثَنَا إسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ الْأَلْهَانِيِّ وَشُرَحْبِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ أَنَّهُ كَانَ لَا يَمُرُّ بِمُسْلِمٍ وَلَا يَهُودِيٍّ وَلَا نَصْرَانِيٍّ إلَّا بَدَأَهُ بِالسَّلَامِ .
(مصنف ابن أبي شيبة: 3548 (65) فِي أَهْلِ الذِّمَّةِ يُبْدَءُونَ بِالسَّلَامِ)
قابل غور ہے کہ جب حالات، ضرورت، حکمت ومصلحت کے پیش نظر غیر مسلمین کو صحابہ و تابعین کی ایک جماعت کے نزدیک ابتداء بالسلام کرنا جوکہ خالص اسلامی دعاء ہے جائز ہے. تو تالیف قلب اور مذہبی منافرت کے خاتمہ جیسی اہم ترین ضرورت کے پیش نظر مواقع مسرت کی (مذہبی شعار کی نہیں) انہیں مبارکباد دینے، نیک خواہشات کے اظہار کرنے اور دنیوی برکات کی دعائیں دینے میں بھی مضائقہ نہیں ہونا چاہئے. اہل علم سے یہ بات مخفی نہیں ہے کہ زمان ومکان اور احوال واشخاص کے فرق سے شرعی احکام میں بھی فرق آتا ہے، اگر کسی زمانے میں مخصوص حالات وعرف کے پیش نظر کسی عالم وفقیہ نے اسے ممنوع لکھا ہے تو ہر زمانے اور ہر ملک کے لئے اسے دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔ پھر غیرمسلمین کو تہنیت ومبارکباد دینے کا مسئلہ منصوص نہیں؛ بلکہ مجتہد فیہ ہے، دونوں میں فرق ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ ممانعت پہ کتاب وسنت یا آثار صحابہ و تابعین یا ائمہ اربعہ مجتہدین سے اس بابت کوئی صریح دلیل منقول نہیں، اسی لئے حرمت تہنیت کو اتفاقی کہنا بھی علماء محققین کے ہاں محل نظر ہے۔ ممانعت کے قائلین مختلف نصوص سے دلالۃً واشارۃً اس کی ممانعت مستنبط کرتے ہیں، اگر تہنیت کا معاملہ اتنا ہی حساس واعتقادی ہوتا تو صحابہ و تابعین یا ائمہ مجتہدین سے اس بابت ضرور ممانعت منقول ہوتی۔ ہندوستان کے موجودہ حالات میں مذہبی جنون پرستی اور مسلم اقلیت کے خلاف مذہبی منافرت، فرقہ وارانہ کشیدگی، اشتعال انگیزی، فتنہ پروری، غنڈہ گردی سے ملک کی حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے. ایسے میں اقلیتی طبقے کے سماجی ومذہبی شخصیات پر خصوصا اور ہر مبتلی بہ فرد مسلم پر عموماً ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اپنے عقائدی حدود کی حفاظت اور تہذیبی شناخت کو باقی رکھتے ہوئے اکثریتی طبقہ سے میل جول، انسانی ہمدردی، اور رواداری کے سلسلے کو مزید مضبوط ومستحکم کریں، ان کے دکھ درد اور غمی وخوشی کے مواقع پہ شرعی حدود میں رہتے ہوئے شریک ہوں، اعتدال وتوازن ہر چیز میں مطلوب اور افراط وتفریط ہر شئے میں معیوب ہے۔ بے ضرورت مبارکباد کی ارزانی و فراوانی کردینا بھی بے غیرتی کی بات ہوگی، حسب ضرورت اور قدر ضرورت دفع مضرت“ جیسی مصلحت ومقصد شرعی کے پیش نظر جہاں کاروباری یا رہائشی ارتباط ہو. مذہبی تہواروں کی خوشی ومسرت پہ  نیک خواہشات کے عدم اظہار پہ  ذہنی تحفظات اور بدگمانیاں مزید گہرے ہونے کا جہاں گمان غالب ہو تو وہاں اہل تعلق غیرمسلموں سے”آپ خوش رہیں آباد رہیں.“ آپ کو حقیقی خوشی نصیب ہو“، آپ تندرست وتوانا رہیں.“ یا اس خوشی کے موقع پہ میری طرف سے مبارکباد قبول فرمائیں“ جیسے جملوں سے مبارکباد دینے یا نیک خواہشات کے اظہار میں کوئی شرعی حرج نہیں، یہ صرف دعاء ہے جو انسانی ہمدری و رواداری کے قبیل سے ہے، اسے کفر پسندی  یا مشرکانہ شعائر کی تعظیم، توثیق وتائید سے دور کا بھی واسطہ نہیں، جہاں ضرورت نہ ہو وہاں اس سے احتیاط و پرہیز یقیناً بہتر ہے، خیال رہے کہ مشرکانہ و ہندوانہ تہواروں کو راست "مبارک" کہنے کی گنجائش میرے نزدیک نہیں ہے، صرف اس موقع کی حاصل خوشی پہ مبارکباد یا دعائیں دینے کی گنجائش ہے بشرطیکہ  کسی منکر شرعی کا ارتکاب نہ ہوا ہو!
واللہ اعلم بالصواب 
مركز البحوث الإسلامية العالمي
جمعہ 4 ربیع الثانی 1442ھ 20 نومبر 2020ء (نقلہ: #ایس_اے_ساگر)
https://saagartimes.blogspot.com/2020/11/blog-post_22.html


3 comments:

  1. https://aapkemasailkahal79.blogspot.com/2022/10/Diwali%20-%20Me%20-%20shamil%20-%20hona%20-%20kaisa%20-hai%20-.html

    ReplyDelete