Monday 2 November 2020

عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم

 عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم 

-------------------------------
--------------------------------
سوال نمبر-1: کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام وعلماءعزام اس مسئلہ کےبارے میں کہ...

 ۱۔ عقیدہ حیات انبیاء کرام علیھم السلام کیا ہے..؟

۲۔ دین متین میں اس کی شرعی حثیت کیا ہے..؟

۳۔ اس عقیدہ کے منکر کا کیا حکم ہوگا...؟؟

سوال نمبر۔2: اھلسنت والجماعت کے عقائد میں سے سماع صلوة وسلام قبرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حکم ہے.؟

سوال نمبر-3: روضہ رسول پہ حاضری کے وقت بارگاہ رسالت میں شفاعت کا طلب کرنا کیسا ہے ..؟

سوال نمبر۔4: روضہ رسول پہ حاضری کے متعلق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ کی وفات پر جنازہ مبارک کا لانا اور بارگاہ رسالت سے دروازہ مبارک کا کھلنا، حضرت علامہ جامی رحمہ اللہ کے نعتیہ کلام پہ سلام کا تذکرہ، اور حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کو روضہ مبارک میں سے سلام کا آنا، کیا یہ سارے اور دیگر ان جیسے تمام واقعات اھلسنت کے عقائد کے مطابق صحیح اور درست ہیں...؟

سوال نمبر-5: حج اور عمرہ کی ادائیگی کے لئے جانے والے حضرات کو یہ کہنا کہ روضہ رسول پہ حاضری کے وقت بارگاہ رسالت میں میرا نام لے کر صلوة و سلام عرض کرنا شرعا ٹھیک ہے.؟

سوال نمبر-

6: اس عقیدے کا انکار سب سے پہلے کس نےکیا تھا.؟

٧- ایسے منکرین حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں مستقل طور پہ نمازیں پڑھنا اور انکو امام بنانا صحیح العقیدہ علماء کیلئے اور عوام کیلئے کیا حکم ہے۔؟

ابومحمدیاسرقریشی (پاکستان)

____________________________

بسم اللہ الرحمن الرحیم 

الجواب وباللہ التوفیق: 

دنیا میں آنے والی ہر مخلوق کو یہاں سے سدھارنا اور رحلت کرنا ہے، ایک ذات واجب الوجود کے علاوہ کسی کو بھی دوام وخلود نہیں، سرور کائنات فخر موجودات  خاتم النبیین حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی دنیاوی زندگی کی 63 بہاریں دیکھ کے یہاں سے رحلت فرماگئے، اور عالم برزخ پہنچ گئے، اپنے روضہ مبارکہ وحجرہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا میں آپ مدفون ہوئے۔ قبر مبارک میں آپ کے جسد عنصری ودنیوی میں روح مبارکہ لوٹائی گئی، جسد عنصری اور روح مبارک کا یہ ربط وتعلق شہداء سے بھی زیادہ  مضبوط ومستحکم اعلی و ارفع ہے، جسد عنصری وروح مبارکہ کا غایت تعلق واتصال مشابہ حیات دنیوی ہے، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روضۂ اطہر میں زندہ ہیں، درود وسلام پیش کرنے والوں کے سلام کا جواب دیتے ہیں اور وہ تمام امور جن کی تفصیل ﷲ ہی کو معلوم ہے بجالاتے ہیں، اسی کو "عقیدہ حیات النبی" کہتے ہیں، میرے نبی سمیت  تمام انبیاء کرام کے تعلق سے امت مسلمہ کا یہی اجماعی عقیدہ ہے، جو چودہ سو سال سے جمہور سلف وخلف وائمہ اربعہ مجتہدین اور علامہ ابن تیمیہ وغیرہ کا یہی متفقہ موقف چلا آرہا ہے، یہ "عقیدۂ حیات النبی"  قرآن کریم کی متعدد آیات کے اشارے، دلالت واقتضاء سے جبکہ حدیث سے صراحۃ النص سے ثابت ہے۔

تو اس مسئلے کا ثبوت قطعیات ومسلمات میں سے ہوا، انبیاء کرام علیہم الصلوة والسلام خصوصا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے روضہ مقدسہ میں جسم عنصری کے ساتھ ارواح مبارکہ کا  غایت اتصال وتعلق یعنی حیات برزخی مشابہ حیات دنیوی ثابت نہ کرنا اور جسم کو روح سے بے تعلق ومردہ تصور کرنا خرق اجماع ہے، ایسا عقیدہ رکھنے والا شخص اہل سنت والجماعت سے خارج، متبع ہوی اور گمراہ ہے۔

وَاسْأَلْ مَنْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رُّسُلِنَا أَجَعَلْنَا مِن دُونِ الرَّحْمَٰنِ آلِهَةً يُعْبَدُونَ (الزخرف 45)

اور آپ ان پیغمبروں سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھيجا ہے پوچھ لیجئے کہ کیا ہم نے خدائے رحمن کے سوا دوسرے معبود ٹھہرادئیے تھے کہ ان کی عبادت کرو۔

کبار مفسرین نے اس آیت سے انبیاء علہیم الصلوة والسلام کی حیات پر استدلال کیا ہے: یستدل به علی حیات الانبیاء (مشکلات القرآن للکشمیری : ص 234) روح المعانی:جلد 5 ص89، جمل: جلد 4 ص88، شیخ زادہ جلد 7ص 298، حقاجی: جلد 7 ص 444، تفسیرمظہری: جلد 8 ص353، تفسیرجلالین: ص 408، تفسیر بغوی: جلد 4 ص 141]

 حَدَّثَنَا أَبُو الْجَهْمِ الأَزْرَقُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ الْحَجَّاجِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ" [مسند أبي يعلى الموصلي» بَقِيَّةُ مُسْنَدِ أَنَسٍ, رقم الحديث: 3371 (3425) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز ادا فرماتے ہیں.

حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: و صححہ البیہقی (امام بیہقی نے اس کی تصحیح کی ہے) ۔ [فتح الباری جلد 6 ص 352]

علامہ سیوطی  نے اسے حسن کہا [الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 3089]

علامہ ہیثمی فرماتے ہیں: ابویعلی کی سند کے سب راوی ثقہ ہیں۔ [مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم: 8/214]

حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ، وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، وَسُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: أَتَيْتُ، وَفِي رِوَايَةِ هَدَّابٍ: "مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِي، عِنْدَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ، وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي قَبْرِهِ". [صحيح مسلم» كِتَاب الْفَضَائِلِ» بَابٌ مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلامُ, رقم الحديث: 4386 (2377)]  

ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "معراج کی رات میرا گزر حضرت موسیٰؑ کی قبر پر ہوا، جو سرخ ٹیلے کے قریب ہے، میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں.

 حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَيْمَنَ، عَنْعُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " أَكْثِرُوا الصَّلَاةَ عَلَيَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَإِنَّهُ مَشْهُودٌ تَشْهَدُهُ الْمَلَائِكَةُ، وَإِنَّ أَحَدًا لَنْ يُصَلِّيَ عَلَيَّ إِلَّا عُرِضَتْ عَلَيَّ صَلَاتُهُ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْهَا"، قَالَ: قُلْتُ: وَبَعْدَ الْمَوْتِ، قَالَ: "وَبَعْدَ الْمَوْتِ، إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ، فَنَبِيُّ اللَّهِ حَيٌّ يُرْزَقُ". [سنن ابن ماجه» كِتَاب مَا جَاءَ فِي الْجَنَائِزِ» بَاب ذِكْرِ وَفَاتِهِ وَدَفْنِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ ... رقم الحديث: 1637][الحكم: إسناده متصل، رجاله ثقات]

ترجمہ: حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جمعہ کہ دن مجھ پر کثرت سے درود پڑھا کرو کیونکہ وہ دن حاضری کا ہے۔ اس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ مجھ پر جو کوئی شخص دورد پڑھتا ہے اس کا ددور مجھ پر پیش کیا جاتا ہے حتی کہ وہ اس سے فارغ ہو۔ میں نے کہا فرمایا وفات کے بعد بھی پیش جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! وفات کے بعد بھی پیش کیا جائے گا۔ بے شک ﷲ تعالیٰ نے زمین پر حرام کردیا ہے کہ وہ انبیائے کرام کے اجسام طیبہ کو کھائے۔ سو ﷲ تعالی کا نبی زندہ ہے۔ اس کو رزق ملتا ہے۔

 رجالہ ثقات، تہذیب التہذیب جلد 3 ص 398)

عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ فِيهِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ»، قَالَ: فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ: وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ، وَقَدْ أَرَمْتَ؟ - قَالَ: يَقُولُونَ: بَلِيتَ - قَالَ: «إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِمْ» ۔[سنن ابوداود: باب فی الااستغفار، حدیث نمبر 1531؛ سنن ابن ماجۃ: باب فی فضل الجمعۃ، حدیث نمبر 1085] 

ترجمہ: حضرت اوس ابن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، لوگوں نے پوچھا کہ ہمارا درود آپ پر کیسے پیش کیا جائے گا؟ آپ تو بوسیدہ ہو چکے ہوں گے [ شاید راوی نے ارمت کی جگہ بلیت، کہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے زمین پر نبیوں کے جسموں کو حرام کر دیا کہ وہ کھائے۔

 حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِاللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ، يُبَلِّغُونِي عَنْ أُمَّتِي السَّلَامَ".[مصنف ابن أبي شيبة» كتاب الصلاة» أَبْوَابُ مَسَائِلَ شَتَّى فِي الصَّلاةِ» فِي ثَوَابِ الصَّلَاةِ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ ..., رقم الحديث: 8506 (8789)- صحيح]

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی الله عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول الله صلے الله علیہ وسلم نے فرمایا: "الله کی طرف سے کچھ فرشتے مقرر ہیں جو زمین میں چکر لگاتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں.

قال أبوالشيخ في الكتاب (الصلاة على النبي): حدثنا عبدالرحمن ابن أحمد الأعرج، حدثنا الحسن بن الصباح حدثنا أبومعاوية، حدثنا الأعمش، عن أبي الصالح، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ، قَالَ: "مَنْ صَلَّى عَلِيَّ عِنْدَ قَبْرِي سَمِعْتُهُ، وَمَنْ صَلَّى عَلِيَّ نَائِيًا عَنْهُ أَبْلَغْتُهُ" .[جلاء الافہام، لابن قيم: رقم الحديث: 19؛ مشكوة: جلد 1 حديث 899، برواية الْبَیْھَقِیُّ فِیْ شُعَبِ الْاِیْمَانِ]

ترجمہ: حافظ ابوالشیخ اصبہانی فرماتے ہیں کہ ہم سے عبدالرحمن بن احمد العرج نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے الحسن بن الصباح نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا۔ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے اعمش رحمة اللہ علیہ نے بیان کیا۔ وہ ابوصالح سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے روایت کرتے ہیں اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری قبر کے پاس دورد پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوں اور جس نے مجھ پر دور سے پڑھا تو وہ مجھے پہنچایا جاتا ہے۔ (جلاء الافہام، لابن قيم: رقم الحديث: 19)

"ومما هو مقرر عندالمحققين انه - صلى الله عليه وسلم - حي يرزق متمتع بجميع الملاذ والعبادات غير انه احجب عن إبصار (نوالایضاح، ح١٧٧)

القاصرين عن شريف المقامات ينبغي لمن قصد زيارة النبي صلى الله عليه وسلم ان يكثر الصلاة عليه فانه يسمعها وتبلغ اليه (مراقي الفلاح ص: 405 طبع مير محمد كراجي).

ترجمہ: علامہ شرنبلالی رحمة اللہ علیہ "نورالایضاح، ح ١٧٧ "میں فرماتے ہیں کہ "محققین کے نزدیک یہ طے شدہ ہے کہ حضور انور زندہ ہیں اور آپ کو رزق بھی ملتا ہے اور عبادت سے لذت بھی اٹھاتے ہیں. ہاں اتنی بات ہے کہ وہ  ان نگاہوں سے پردے میں ہیں جو ان مقامات تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں. (نورالایضاح، ح ١٧٧) 

حنفیہ میں علامہ طحطاوي المتوفي 1233 هـ فرماتے ہیں:

(فانه يسمعها) أي إذا كانت بالقرب منه - صلى الله عليه وسلم - (وتبلغ إليه) أي يبلغها الملك إذا كان المصلي بعيدا (الطحطاوي ص: 405 طبع مير محمد كراجي). 

ترجمہ: آپ صلے الله علیہ وسلم صلاة و سلام کو اس وقت خود سنتے ہیں جب قریب سے عرض کیا جارہا ہو اور فرشتے اس وقت پہنچاتے ہے جب یہ دور سے پڑھا جارہا ہو. إمام مالك المتوفي 179 هـ فرماتے ہیں: 

نقل عن الإمام مالك انه كان يكره أن يقول رجل زرت قبر النبي - صلى الله عليه وسلم - قال ابن رشيد من اتباعه أن الكراهية لغلبة الزيارة في الموتى وهو - صلى الله عليه وسلم - أحياه الله تعالى بعد موته حياة تامة واستمرت تلك الحياة وهي مستمرة في المستقبل وليس 

هذا خاصة به صلى الله عليه وسلم بل يشاركه الأنبياء عليهم السلام فهو حي بالحياة الكاملة مع الإستغناء عن الغذاء الحسى الدنيوي (نورالإيمان بزيارة آثار حبيب الرحمن ص: 14 للشيخ عبدالحليم فرنكي محلي, وكذلك في وفاء الوفاء ج: 4 ص: 1373 مصر  

ترجمہ: ابنرشد امام مالک رحمة اللہ علیہ کے مقلدین میں سے ہیں کہ امام مالک رحمة اللہ علیہ کی ناپسندیدگی (کہ میں نے حضور کی "قبر" کی زیارت کی) وجہ یہ ہے کہ زیارتقبر کا لفظ عام طور پر موتى (مردہ) کے متعلق استمعال ہوتا ہے اور حضور وفات شریفہ کے بعد اب حیات تامہ سے زندہ ہیں اور یہ حیات آئندہ بھی اسی طرح رہے گی. یہ صرف آپ ہی کا خاصہ نہیں بلکہ تمام انبیاء اس وصف میں آپ کے ساتھ شریک ہیں. پس آپ دنیوی حسی غذا سے استغناء (بے-پروائی) کے باوجود حیات_کاملہ سے زندہ ہیں. 

شوافع میں علامة تاج الدين سبكي المتوفي 777 هـ فرماتے ہیں:

"لان عندنا رسول الله - صلى الله عليه وسلم - حي يحس ويعلم وتعرض عليه اعمال الأمة ويبلغ الصلاة والسلام على ما بينا" (طبقات الشافغية الكبرى ج: 3 ص: 412 طبعة دار الأحياء بقاهرة)

ترجمہ: ہم شافعیہ کے نزدیک حضور زندہ ہیں اور آپ میں احساس و شعور موجود ہے، آپ پر اعمال_امت بھی پیش ہوتے ہیں اور صلوة و سلام بھی پہچایا جاتا ہے.

حنابلہ میں علامہ ابن عقيل فرماتے ہیں:

"هو - صلى الله عليه وسلم - حي في قبره" (الروضة البهية ص: 14) 

ترجمہ: حضور صلے الله علیہ وسلم اپنی قبرمبارک میں زندہ ہیں اور نمازیں بھی پڑھتے ہیں. 

إمام شمس الدين محمد السخاوي المتوفي 902 هـ:

نحن نؤمن ونصدق بأنه صلى الله عليه وسلم - حي يرزق في قبره وان جسده الشريف لا تأكله الأرض والإجماع على هذا (القول البديع ص: 172 ,طبعة دارالكتب العربي)

ترجمہ: علامہ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہم یقین رکھتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں، آپ کو رزق دیا جاتا ہیں اور آپ کے جسد شریف کو زمین نے نہیں کھایا اور اس پر اجماع ہے۔‘‘ (القول البدیع، علامہ سخاوی ص 335)

علامة عبدالوہاب شعراني المتوفي 973 هـ لکھتے ہیں: 

قد صحت الأحاديث انه - صلى الله عليه وسلم - حي في قبره يصلي بأذان واقامة (منح المنة ص: 92, طبعة مصر) 

شیخ عبد الله بن محمد بن عبدالوهاب النجدي المتوفي 1206 هـ لکھتے ہیں:

والذي نعتقد ان رتبة نبينا - صلى الله عليه وسلم - أعلى مراتب المخلوقين على الإطلاق و انه حي في قبره حياة مستقرة ابلغ من حياةالشهداء المنصوص عليها في التنزيل إذ هو أفضل منهم بلا ريب, وانه يسمع من يسلم عليه (اتحاف النبلاء ص: 415, طبعة كانبور).

قاضي شوكاني المتوفي 1255 هـ لکھتے ہیں:

وقد ذهب جماعة من المحققين إلى أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم حي بعد وفاته وانه يسر بطاعات أمته وان الأنبياء لا يبلون مع أن مطلق الإدراك كالعلم والسماع ثابت بسائر الموتى إلى أن قال وورد النص في كتاب الله فى حق الشهداء أنهم أحياء يرزقون وان الحياة 

فيهم متعلقة بالجسد فكيف بالأنبياء والمرسلين وقد ثبت في الحديث أن الأنبياء أحياء في قبورهم رواه المنذرى وصححه البيهقي وفي صحيح مسلم عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال مررت بموسى ليلة اسري بي عند الكثيب الأحمر وهو قائم يصلي في قبره نيل الأوطار ج: 3 ص: 305 طبعة دارالفكر ببيروت الإمام ابن تيمية يثبت حياة الأنبياء والصالحين في قبورهم

شيخ الاسلام علامہ ابن تيمية مجموع الفتاوى میں لکھتے ہیں  (1/330):

"وكذلك الأنبياء والصالحون وان كانوا أحياء في قبورهم وان قدر انهم يدعون للأحياء وان وردت به آثار فليس لأحد أن يطلب منهم ذلك ولم يفعل ذلك أحد من السلف لأن ذلك ذريعة إلى الشرك بهم وعبادتهم من دون الله تعالى بخلاف الطلب من أحدهم في حياته فانه لا يفضى إلى الشرك"ا.هـ

"فهذه نصوصه الصريحة-أي النبي صلى الله عليه وسلم- توجب تحريم إتخاذ قبورهم مساجد مع أنهم مدفونون فيها وهم أحياء في قبورهم ويستحب إتيان قبورهم للسلام عليهم ومع هذا يحرم إتيانها للصلاة عندها وإتخاذها مساجد"ا.هـ (مجموع الفتاوى (27/502) 

(یہ تمام تفصیلات المہند علی المفند سے مستفاد ہیں) 

ان تمام روایات، اقوال ائمہ واسلاف سے واضح ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت اور وفات کے بعد برزخ میں آپ کو  بہ تعلق روح مع الجسد العنصری ایک خاص واعلی قسم کی برزخی حیات حاصل ہے، جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زائرین کے سلام کو سنتے ہیں اور جواب بھی مرحمت فرماتے ہیں ،آپ کی یہ زندگی شہداء سے بھی زیادہ ارفع و ابلغ ہے ، اسی خاص وممتاز  قسم کی حیات کو علماء اہل حق نے مختلف تعبیرات واسلوب میں بیان کیا ہے؛ لیکن مآل سب کا ایک ہی ہے۔ اس خاص زندگی کی کنہ اور حقیقت کا علم اللہ کے علاوہ کسی کو نہیں۔ (تفصیل ماہنامہ البینات، کراچی، محرم الحرام 1427 ہجری میں دیکھی جاسکتی ہے)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روضہٴ اقدس پر جانے والوں کی باتیں سنتے ہیں اور دوسرے امتی جو آپ کے روضے سے دو رہیں، ان کے اعمال کی خبر اور درود وسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچایا جاتا ہے۔ روضہ رسول پہ حاضری کے وقت دوسروں کے لئے ایذاء رسانی کا سبب بنے بغیر انتہائی پست آواز میں پورے ادب واحترام کی رعایت  کے ساتھ روضے پہ سلام پیش کرنا، آپ کے وسیلے سے دعاء کرنا اور شفاعت کی درخواست کرنا جائزومندوب ہے، ائمہ اربعہ مجتہدین کا اس کے جوازواستحباب پہ اتفاق ہے:

ويسأل الله تعالى حاجته متوسلا إلى الله بحضرة نبيه عليه الصلاة والسلام، وأعظم المسائل وأهمها سؤال حسن الخاتمة والرضوان والمغفرة". (شرح فتح القدير، لإبن الهمام، (39) ، دارالكتب العلمية، بيروت، لبنان، الطبعة الأولى، 1415ه 1995  آداب زيارة قبر النبي صلّى الله عليه وسلّم) 

 ... ثمّ يتوسل به – أي بالنبي صلّى الله عليه وسلّم - في جميع مطلوباته .ثمّ ينتقل قبالة قبر أبي بكر ويقول: "السلام عليك يا خليفة رسول الله ...ثمّ يتوسل به إلى رسول الله صلّى الله عليه وسلّم، ثمّ ينتقل قبالة قبر أمير المؤمنين عمر ويقول: "السلام عليك يا صاحب رسول الله، السلام عليك يا أمير المؤمنين عمر الفاروق ثمّ يتوسل به إلى رسول الله صلّى الله عليه وسلّم ثمّ يأتي إلى البقيع فيسلّم على أهله هكذا ويتوسل بهم إلى رسول الله فلتحفظ تلك الآداب فإنّ من فعلها مع الشوق وفراغ القلب من الأغيار بلغ كل ما يتمنى إن شاء الله تعالى (الشرح الصغير على أقرب المسالك إلى مذهب الإمام مالك، للعلامة أبي البركات أحمد بن محمد بن أحمد الدردي، وبهامشه حاشية العلامة الشيخ أحمد بن محمد الصاوي المالكي، (2 72)، طبعة دار المعارف، القاهرة، لدى ذكره آداب زيارة قبر النبي صلّى الله عليه وسلّم وصاحبيه) 

 وروي عن الإمام مالك بن أنس رضي الله عنه أنّه قال للخليفة المنصور لما حج وزار قبر النبي عليه وعلى آله الصلاة والسلام وسأل مالكا قائلا: يا أبا عبد الله أأستقبل القبلة وأدعو أم أستقبل رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم وأدعو؟ فقال الإمام مالك: "ولم تصرف وجهك عنه وهو وسيلتك ووسيلة أبيك آدم إلى الله تعالى؟ بل استقبل واستشفع به فيشفعه الله فيك."

(.. واعلم أنّ زيارة قبرالرسول صلى الله عليه وآله وسلم من أهم القربات وأنجح المساعي .. إلى أن قال: ويقف ناظرا إلى أسفل ما يستقبله من جدار القبر غاض الطرف في مقام الهيبة والإجلال فيقول: السلام عليك يا رسول الله ... إلى أن قال: ويتوسل به في حق نفسه ويستشفع به إلى ربه سبحانه وتعالى " .(كتاب المجموع  شرح المهذب، للنووي، (8 256 – 257  ، دارإحياء التراث العربي للطباعة والنشر والتوزيع)

وقال الامام تقي الدين أبوالحسن السبكي رحمه الله تعالى من أعلام الشافعية:

(اعلم أنه يجوز ويحسن التوسل والاستغاثة والتشفع بالنبي صلى الله عليه وآله وسلّم إلى ربه سبحانه وتعالى وجواز ذلك وحسنه من الأمور المعلومة لكل ذي دين المعروف من فعل الأنبياء والمرسلين وسيرة السلف الصالحين والعلماء المسلمين). انظ: كتاب شفاء الأسقام في زيارة خير الأنام الباب الثامن  ص 161.وقال: (وأقول: إنّ التوسل بالنبي صلى الله عليه وآله وسلم جائز في كل حال: قبل خلقه وبعد خلقه في مدة حياته في الدنيا وبعد موته في مدة البرزخ وبعد المبعث في عرصات القيامة والجنة) كتاب شفاء الأسقام في زيارة خيرالأنام الباب الثامن ص 161)

وجاء في كتاب (الإقناع، للشربيني،ج 1 ص 374) في آداب زيارة قبر النبي صلّى الله عليه وسلّم : ".... ثمّ يرجع إلى موقفه الأول قبالة وجه النبيّ صلّى الله عليه وسلّم ويتوسل به في حق نفسه ، ويستشفع به إلى ربه، وإذا أراد السفر ودّع المسجد بركعتين وأتى القبر الشريف وأعاد نحو السلام الأول." 

جاء في كتاب الإنصاف، للمرداوي، الحنبلي: "يجوز التوسل بالرجل الصالح على الصحيح من المذهب وقيل يستحب) وقال : (والتوسل بالإيمان به صلّى الله عليه وآله وسلّم وطاعته ومحبته والصلاة والسلام عليه وبدعائه وشفاعته ونحوه ممّا هو من فعله أو أفعال العباد المأمور بها في حقه مشروع إجماعا) كتاب الإنصاف (2/456).

 وقال الإمام أحمد للمروزي رحمهما الله تعالى: (ويتوسل بالنبي صلى الله عليه وآله وسلم في دعائه وجزم به في المستوعب وغيره).

 وجاء في المغني، لإبن قدامة، (ج 3 600) في آداب زيارة قبر النبي صلّى الله عليه وسلّم: "ثمّ تأتي القبر فتولّي ظهرك وتستقبل وسطه وتقول: "السلام عليك أيّها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام عليك يا نبي الله وخيرته من خلقه ... اللهمّ إنّك قلت وقولك الحق: "ولو أنّهم إذ ظلموا أنفسهم جاؤوك فاستغفروا الله واستغفر لهم الرسول لوجدوا الله توّاباً رحيما"  (النساء، 64) وقد أتيتك مستغفرا من ذنوبي مستشفعاً بك إلى ربي فأسألك يا ربّ أن توجب لي المغفرة كما أوجبتها لمن أتاه في حياته، اللهمّ اجعله أول الشافعين وأنجح السائلين وأكرم الآخرين والأولين، برحمتك يا أرحم الراحمين" .

 قاضی شوکانی لکھتے ہیں: 

وقال: (ويتوسل إلى الله بأنبيائه والصالحين) أقول: ومن التوسل بالأنبياء: وذكر قصة الأعمى، وأما التوسل بالصالحين حديث استسقاء سيدنا عمر بسيدنا العباس رضي الله عنهما)   انظر: (كتاب تحفة الذاكرين ص (37)

جہاں تک حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تدفین کے وقت قبر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کرنے اور روضے سے اجازت ملنی والی بات کا تعلق ہے تو یہ کسی صحیح، معتبر یا مستند روایت سے ثابت تو نہیں ہے؛ البتہ یہ واقعہ السيرة الحلبية، 3: 493 ، الخصائص الکبریٰ للسيوطی، 2: 492، تاريخ دمشق الکبي، ابن عساکر، 30: 436 میں درج ہے، ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں اس طرح کی ایک روایت سند کے ساتھ اس طرح ذکر کی ہے: 

أنبأنا أبوعلي محمد بن محمد بن عبدالعزيز بن المهدي وأخبرنا عنه أبوطاهر إبراهيم بن الحسن بن طاهر الحموي عنه أنا أبو الحسن أحمد بن محمد بن أحمد العتيقي سنة سبع وثلاثين وأربع مائة نا عمر بن محمد الزيات نا عبدالله بن الصقر نا الحسن بن موسى نا محمد بن عبدالله الطحان حدثني أبو طاهر المقدسي عن عبد الجليل المزني عن حبة العرني عن علي بن أبي طالب قال لما حضرت أبا بكر الوفاة أقعدني عند رأسه وقال لي يا علي إذا أنا مت فغسلني بالكف الذي غسلت به رسول الله (صلى الله عليه وسلم) وحنطوني واذهبوا بي إلى البيت الذي فيه رسول الله (صلى الله عليه وسلم) فاستأذنوا فإن رأيتم الباب قد يفتح فادخلوا بي وإلا فردوني إلى مقابر المسلمين حتى يحكم الله بين عباده قال فغسل وكفن وكنت أول من يأذن إلى الباب فقلت يا رسول الله هذا أبوبكر مستأذن فرأيت الباب قد تفتح وسمعت قائلا يقول ادخلوا الحبيب إلى حبيبه فإن الحبيب إلى الحبيب مشتاق" (تاریخ دمشق، جلد 30، صفحہ 437)

ترجمہ: جناب علی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے مجھے اپنے سرہانے بٹھاکر مجھے فرمایا: اے علی! کہ جب میں فوت ہوجاؤں تو مجھے غسل وغیرہ دے کر روضہ رسول کے سامنے رکھ دینا اور اجازت طلب کرنا، تو اگر درازہ کھول دیا جائے، تو مجھے اندر لے جانا، بصورت دیگر مجھے عام مسلمانوں کے قبرستان لے جانا، جناب علی فرماتے ہیں کہ (وصیت کے مطابق) انہیں غسل، کفن دینے کے بعد ہم انہیں لے کر روزہ شریفہ کے پاس پہنچے اور سب سے پہلے میں عرض کی۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! یہ ابوبکر ہیں جو آپ کی اجازت کے طلب گار ہیں ،تو میں نے دیکھا کہ دروازہ کھل گیا، اور کہنے والے کا کہنا سنا کہ محب کو حبیب کے پاس پہنچا دو ، کیونکہ آقا اس محب کی (ملاقات) کے مشتاق ہیں۔"

امام ابن عساکر یہ روایت نقل کرکے فرماتے ہیں:

هذا منكر وراويه أبوالطاهر موسى بن محمد بن عطاء المقدسي وعبدالجليل مجهول

والمحفوظ أن الذي غسل أبا بكر امرأته أسماء بنت عميس"

یہ روایت منکر ہے، اور اس کے دو راوی موسی بن محمد اور عبدالجلیل مجھول ہیں،

اور ثابت بات یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر کو ان کی زوجہ محترمہ سیدہ اسماء بنت عمیس نے غسل دیا تھا (نہ کہ جناب علی نے)

تفسیر رازی میں اس واقعے کو حضرت ابوبکر رضی اللہ کی کرامت شمار کیا گیا ہے، وہاں  یہ واقعہ بلاسند کے منقول ہے: 

«أَمَّا الْآثَارُ» فَلْنَبْدَأْ بِمَا نُقِلَ أَنَّهُ ظَهَرَ عَنِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ مِنَ الْكَرَامَاتِ ثُمَّ بِمَا ظَهَرَ عَنْ سَائِرِ الصَّحَابَةِ، أَمَّا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَمِنْ كَرَامَاتِهِ أَنَّهُ لَمَّا حُمِلَتْ جِنَازَتُهُ إِلَى بَابِ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنُودِيَ السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَذَا أَبُو بَكْرٍ بِالْبَابِ فَإِذَا الْبَابُ قَدِ انْفَتَحَ وَإِذَا بِهَاتِفٍ يَهْتِفُ مِنَ الْقَبْرِ أَدْخِلُوا الْحَبِيبَ إِلَى الْحَبِيبِ ۔( تفسير الرازي = مفاتيح الغيب أو التفسير الكبير (21/ 433)

حضرت عبدالرحمن ملا جامی رحمہ اللہ کے لئے روضہ رسول سے مصافحہ کے لئے  ہاتھ نکلنا اسی طرح  حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے لئے روضے سے جواب سلام آنا تو اس سلسلے میں جامعہ بنوری ٹائون نے جو  تفصیلی فتوی جاری کیا ہے وہ انتہائی چشم کشا اور مدلل ہے، اسے ہم یہاں بعینہ نقل کررہے ہیں: 

"سید الرسل و خاتم الانبیاء، سیدنا ومولانا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبرِمبارک میں حیات ہیں، اور آپ درود وسلام  پڑھنے والوں کے درود و سلام کا جواب دیتے ہیں، یہ بات مسلم ہے اور صحیح احادیث سے ثابت ہے، اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ دنیوی میں خرق عادت کے طور پر چند امور بطورِ معجزہ  ظاہر ہوئے ہیں، اور ان کا صدور مسلم عقیدہ ہے اسی طرح آپ کی حیاتِ برزخیہ دنیویہ جسدیہ میں اگر اس طرح کے کچھ واقعات صادر ہوں تو  یہ نہ عقلاً ممتنع ہے اور نہ ہی شرعاً، اس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے، نیز اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ  اولیاء کی کرامات حق ہیں، لہذا اگر اللہ کے کسی ولی کے لیے خرقِ عادت کے طور پر روضہ اقدس سے سرورِ کائنات حضرت رسولِ مقبول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دستِ مبارک باہر آئے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اقدس سے کسی کے سلام کا بلند آواز سے جواب دیا جائے تو یہ ممکن ہے، بلکہ اس قسم کے ایک نہیں کئی واقعات موجود ہیں، جن  کو اہلِ علم نے  اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے، سرِ دست اس سلسلے میں سید احمد رفاعی رحمہ اللہ کا مشہور واقعہ ذکر ہے جو کہ مشہور صوفی بزرگ ہیں، ان کا واقعہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ’’الحاوی للفتاوی‘‘ میں نقل کیا ہے:

سید احمد رفاعی رحمہ اللہ جب 555 ھ میں حج سے فارغ ہوکر زیارت کے لیے حاضر ہوئے اور قبرِاطہر کے مقابل کھڑے ہوئے تو یہ دو شعر پڑھے:

فِي حَالَةِ الْبُعْدِ رُوحِي كُنْتُ أُرْسِلُهَا ... تُقَبِّلُ الْأَرْضَ عَنِّي فَهْيَ نَائِبَتِي

وَهَذِهِ نَوْبَةُ الْأَشْبَاحِ قَدْ حَضَرَتْ ... فَامْدُدْ يَمِينَكَ كَيْ تَحْظَى بِهَا شَفَتِي

ترجمہ: "دوری کی حالت میں، میں اپنی روح کو خدمتِ اقدس میں بھیجا کرتا تھا، وہ میری نائب بن کر آستانہ  مبارک چومتی تھی ، اب جسموں کی حاضری کی باری آئی ہے، اپنا دست مبارک عطا کیجیے، تاکہ میرے ہونٹ اس کو چومیں"۔

اس پر قبر شریف سے دستِ مبارک نکلا اور انہوں نے اس کو چوما۔ انتھی

’’وَفِي بَعْضِ الْمَجَامِيعِ: حَجَّ سَيِّدِي أحمد الرفاعي فَلَمَّا وَقَفَ تُجَاهَ الْحُجْرَةِ الشَّرِيفَةِ أَنْشَدَ: 

فِي حَالَةِ الْبُعْدِ رُوحِي كُنْتُ أُرْسِلُهَا ... تُقَبِّلُ الْأَرْضَ عَنِّي فَهْيَ نَائِبَتِي

وَهَذِهِ نَوْبَةُ الْأَشْبَاحِ قَدْ حَضَرَتْ ... فَامْدُدْ يَمِينَكَ كَيْ تَحْظَى بِهَا شَفَتِي

فَخَرَجَتِ الْيَدُ الشَّرِيفَةُ مِنَ الْقَبْرِ الشَّرِيفِ فَقَبَّلَهَا‘‘. (الحاوی للفتاوی، 2/ 314)

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے فضائل حج میں ’’البنیان المشید‘‘ کے حوالہ سے لکھا ہے کہ اس وقت تقریباً  نوے ہزار کا مجمع  مسجد نبوی میں تھا، جنہوں نے اس واقعہ کو دیکھا، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ مبارک کی زیارت کی، جن میں حضرت محبوبِ سبحانی، قطبِ ربانی شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ  کا نام نامی بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ (فضائل حج ص 197، آداب زیارت)

اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ  نے سلام کے جواب آںے سے متعلق بھی واقعات نقل کیے ہیں، نمونہ کے طور پر چند کا تذکرہ ذیل میں ہے:

1) سید نورالدین ایجی شریف عفیف الدین رحمہ اللہ کے والد ماجد کے متعلق لکھا ہے کہ  جب وہ روضہ مقدسہ پر حاضر ہوئے اور عرض کیا: "السلام علیک أیها النبي ورحمة الله وبرکاته"  تو سارے مجمع نے جو وہاں حاضر تھا  سناکہ قبر شریف سے "وعلیک السلام یا ولدي" کا جواب ملا۔

’’وَفِي مُعْجَمِ الشَّيْخِ برهان الدين البقاعي قَالَ: حَدَّثَنِي الْإِمَامُ أبو الفضل بن أبي الفضل النويري أَنَّ السيد نور الدين الإيجي وَالِدَ الشريف عفيف الدين لَمَّا وَرَدَ إِلَى الرَّوْضَةِ الشَّرِيفَةِ وَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، سَمِعَ مَنْ كَانَ بِحَضْرَتِهِ قَائِلًا مِنَ الْقَبْرِ يَقُولُ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ يَا وَلَدِي‘‘. (الحاوی للفتاوی، 2/ 314)

2) شیخ ابو نصر عبدالواحد  بن عبدالملک بن محمد بن ابی سعد الصوفی الکرخی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں حج سے فراغت کے بعد زیارت کے لیے حاضر ہوا، حجرہ شریفہ کے پاس بیٹھا تھا کہ شیخ ابوبکر دیار بِکری رحمہ اللہ تشریف لائے، اور مواجہ شریفہ کے سامنے کھڑے ہوکر عرض کیا: "السلام علیک یا رسول الله" تو میں نے حجرہ شریفہ کے اندر سے یہ آواز سنی: "وعلیک السلام یا أبابکر" اور ان سب لوگوں نے جو اس وقت حاضر تھے اس کو سنا۔

’’وَقَالَ الْحَافِظُ محب الدين بن النجار فِي تَارِيخِهِ: أَخْبَرَنِي أبو أحمد داود بن علي بن هبة الله بن المسلمة أَنَا أبو الفرح المبارك بن عبد الله بن محمد بن النقور قَالَ: حَكَى شَيْخُنَا أبو نصر عبد الواحد بن عبد الملك بن محمد بن أبي سعد الصوفي الكرخي قَالَ: حَجَجْتُ وَزُرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ الْحُجْرَةِ إِذْ دَخَلَ الشَّيْخُ أبو بكر الدياربكري وَوَقَفَ بِإِزَاءِ وَجْهِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَسَمِعْتُ صَوْتًا مِنْ دَاخِلِ الْحُجْرَةِ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ يَا أبا بكر، وَسَمِعَهُ مَنْ حَضَرَ‘‘. (الحاوی للفتاوی، 2/ 314)

حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے ’’فضائل حج‘‘ اور ’’فضائل درود شریف‘‘ میں اس طرح کے کئی واقعات  کئی کتابوں سے نقل کیے ہیں، لہذا اس سے معلوم ہوا کہ اولیاء اللہ کے لیے اس قسم کے واقعات کا پیش آجانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

آپ نے جن دو واقعات کا ذکر کیا ہے ان میں سے پہلا واقعہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ نے ’’فضائل درود شریف‘‘  میں نقل کیا ہے:

(1)   حضرت شیخ فرماتے ہیں کہ میں نے ملا جامی رحمہ اللہ  کی کتاب ’’یوسف زلیخا‘‘ اپنی دس سال کی عمر میں والد صاحب سے پڑھی، اور ان ہی سے یہ قصہ سنا کہ حضرت مولانا جامی رحمۃ اللہ علیہ یہ نعت (جو یوسف زلیخا نامی کتاب کے شروع میں ہے)  لکھنے کے بعد جب ایک مرتبہ حج  کے لیے تشریف لے گئے، ان کا ارادہ  یہ تھا کہ روضہ اقدس کے پاس کھڑے ہوکراس نظم  کو پڑھیں گے، چناچہ جب حج کے بعد  مدینہ منورہ حاضری کا ارادہ کیا تو  امیر مکہ نے خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں ان سے ارشاد فرمایا کہ  اس کو (یعنی جامی کو) مدینہ نہ آنے دیں، امیرِمکہ نےممانعت کردی، مگر ان پر جذب وشوق اس قدر غالب تھا کہ یہ چھپ کر مدینہ منورہ  کی طرف چل دیے، امیرِ مکہ نے دوبارہ خواب دیکھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ  آرہا ہے اس کو یہاں نہ آنے دو، امیرِمکہ نے آدمی دوڑائے اور ان کو راستہ سے پکڑوا کر بلایا، ان پر سختی کی اور جیل خانہ میں ڈال دیا، اس پر امیرِ  مکہ  کو تیسری  مرتبہ حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوئی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ کوئی مجرم نہیں ہے، بلکہ اس نے کچھ اشعار کہے ہیں، جن کو یہاں آکر میری قبر پر کھڑے ہوکر پڑھنے  کا ارادہ کررہا ہے، اگر ایسا ہوا تو قبر سے مصافحہ کے لیے ہاتھ نکلے  گا جس میں فتنہ ہوگا، اس پر ان کو جیل سے نکالا گیا اور بہت اعزار واکرام کیا گیا۔ (فضائل درود شریف ص 198)

(2)     اور دوسرا واقعہ ’’الجمعیۃ،  شیخ الاسلام نمبر‘‘ میں اس طرح مذکور ہے: مشہور عالم اور بزرگ مولانا مشتاق احمد انبیٹھوی مرحوم نے بیان فرمایا کہ ایک بار زیارتِ بیت ﷲ سے فراغت کے بعد دربارِ رسالت میں حاضری ہوئی تو مدینہ طیبہ کے دورانِ قیام مشائخِ وقت سے یہ تذکرہ سناکہ اِمسال روضہ اطہر سے عجیب کرامت کا ظہور ہوا ہے، ایک ہندی نوجوان نے جب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر صلاۃ وسلام پڑھا تو دربارِرسالت سے ”وعلیکم السلام یا ولدي“ کے پیارے الفاظ سے اس کو جواب ملا۔ اس واقعہ کو سن کر قلب پر ایک خاص اثر ہوا۔ مزید خوشی کا سبب یہ بھی تھا کہ یہ سعادت ہندی نوجوان کو نصیب ہوئی ہے۔ دل تڑپ اٹھا اور اس ہندی نوجوان کی جستجو شروع کی؛ تاکہ اس محبوبِ بارگاہِ رسالت کی زیارت سے مشرف ہوسکوں اور خود اس واقعہ کی بھی تصدیق کرلوں۔ تحقیق کے بعد پتا چلا کہ وہ ہندی نوجوان سید حبیب ﷲ مہاجر مدنی رحمہ ﷲ کا فرزندِ ارجمند ہے۔ گھر پہنچا ملاقات کی، تنہائی پاکر اپنی طلب وجستجو کا راز بتایا، ابتدا میں خاموشی اختیار کی،  لیکن اصرار کے بعد کہا: ”بے شک جو آپ نے سنا وہ صحیح ہے۔“ یہ نوجوان تھے مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ‘‘۔ (الجمعیۃ  شیخ ا لاسلام نمبرص۹۴)

  نیز حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خان صاحب رحمہ اللہ نے درسِ ختمِ بخاری شریف جامع مسجد سورتی، رنگون، برما میں حضرت شیخ الاسلام حسین احمد مدنی صاحب رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: "میں نے پڑھا ہے اور اپنے بعض بزرگوں سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ آپ روضہٴ رسول اکرم صلی اللہ  علیہ وسلم پر حاضر ہوئے، سلام پڑھا ’’الصلاة والسلام علیک یا رسول الله‘‘۔ روضہٴ اقدس سے رسول اللہ صلی اللہ  علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: ”وعلیک السلام یاولدي․“ (ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1437ھ)

لہذا اس طرح کے واقعات کا ظہور  کوئی اَن ہونی بات ہے، نہ ہی  ناممکن ہے،  جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں بے شمار معجزات عطا فرمائے، دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی بطورِ معجزہ کسی خرقِ عادت کا ظہور اہلِ سنت والجماعت کے ہاں باعثِ تعجب یا انکار نہیں ہے، بلکہ یہ محبت اور دلی شوق کی باتیں ہیں، اللّٰهم أرنا الحق حقاً وارزقنا اتباعه!  فقط واللہ اعلم" 

فتوی نمبر: 143909200177- دارالافتاء: جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن) 

حجاج ومعتمرین کی معرفت روضہ رسول پہ سلام بھجوانا ظاہری علماء کو چھوڑ کے جمہور علماء کے ہاں جائز ہے، کیونکہ باتفاق جمہور  حضور اپنی قبر میں خاص زندگی رکھتے ہیں، جس طرح  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سلام بھیجنا ثابت ہے ویسا ہی بعد وفات بھی سلام بھیجنا جائز وباعث اجر ہوگا۔ مکرمی مفتی عبد الباقی اخونزادہ صاحب  نے اپنے قیمتی سلسلہ "تنبیہات " میں اسے مفصل لکھا ہے، عموم فائدہ کے لئے جواب  بلفظہ پیش ہے : 

"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبارک میں حیات ہیں (اور یہی جمہورامت کا عقیدہ ہے)،  لہذا جیسا کہ آپ کی زندگی میں آپ کی طرف سلام کا بھیجنا ثابت اور باعث اجر تھا ویسے ہی آپ کے انتقال کے بعد بھی ایسا کرنا درست ہے۔

آپ علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں سلام بھیجنے کا ثبوت:

١. ابوعامر رضی اللہ عنہ کا سلام کہلوانا:

ایک صحابی نے دوسرے صحابی سے کہا کہ اے بھتیجے!  آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر میرا سلام پیش کردو.

ابْنَ أَخِي! انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: يَقُولُ لَكَ أَبُوعَامِرٍ: اسْتَغْفِرْ لِي. (صحیح مسلم: 2498، کتاب فضائل الصحابة)

٢. سعد بن الربیع رضی اللہ عنہ کا سلام کہلوانا:

فَقَالَ لَهُ سَعْدُ بْنُ الرَّبِيعِ: مَا شَأْنُكَ؟ فَقَالَ الرَّجُلُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِآتِيَهُ بِخَبَرِكَ، قَالَ:  فَاذْهَبْ إِلَيْهِ،  فَاقْرَأْهُ مِنِّي السَّلَامَ. (موطا امام مالك: 1338، کتاب الجهاد)

٣. محمد بن المنکدر کا حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ان کے انتقال کے وقت حضور علیہ السلام کو سلام پیش کرنے کی درخواست:

فَقَالَ لَهُ سَعْدُ بْنُ الرَّبِيعِ: مَا شَأْنُكَ؟  فَقَالَ الرَّجُلُ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِآتِيَهُ بِخَبَرِكَ، قَالَ: فَاذْهَبْ إِلَيْهِ، فَاقْرَأْهُ مِنِّي السَّلَامَ. (موطا امام مالك: 1338، کتاب الجهاد) أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللهِ وَهُوَ يَمُوتُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَقْرِئْ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي السَّلَامَ. (مسند احمد: 11660)

٤.  ایک اور صحابی:

إِنَّ أَبِي يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، فَقَالَ: "وَعَلَيْكَ وَعَلَى أَبِيكَ السَّلَامُ". (ابوداود: 2934، کتاب الخراج، وکتاب الادب:5231)

آپ علیہ السلام کی قبر مبارک پر سلام بھجوانے کا سلف کا معمول:

١. حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ سے باقاعدہ سلام کا بھیجنا ثابت ہے.

◄ یزید المہدی کہتے ہیں کہ جب میں نے عمر بن عبدالعزیز سے اجازت چاہی تو انہوں نے فرمایا کہ میری ایک حاجت ہے اور وہ یہ ہے کہ جب تم آپ علیہ السلام کی قبر پر حاضر ہو تو میرا سلام عرض کردینا۔

عن يزيد المهدي قال: لما ودّعت عمر بن عبدالعزيز قال: إن لي إليك حاجة؛ قلت ياأمير المؤمنين كيف ترى حاجتك عندي؟ قال: أنى أراك إذا أتيت المدينة سترى قبرالنبي فأقرئه منى السلام.

◄ حاتم بن وردان کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ باقاعدہ لوگوں کو سلام کیلئے شام سے مدینہ منورہ روانہ کرتے تھے.

وعن حاتم بن وردان قال: كان عمر بن عبدالعزيز يُوجّه البريد قاصدا من الشام إلى المدينة ليُقرئ عنه النبي السلام. [ذكره القاضي عياض في الشفاء في باب الزيارة (ج: 2، ص: 83)]

◄ ابوسعید کہتے ہیں کہ مجھ سے عمر بن عبدالعزیز نے فرمایا کہ تم مدینہ جاؤگے اور اللہ کے نبی کی قبر دیکھوگے تو وہاں میرا سلام عرض کردینا.

وعن ابی سعید قال: قال لی عمر بن عبدالعزیز: إذا اتیت المدینة ستری قبر النبی فاقرئه منی السلام. (خلاصة الوفاء: 359)

٢. خفاجی کہتے ہیں کہ سلف کا طریقہ کار رہا ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کی خدمت میں سلام پیش کروایا کرتے تھے اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کا بھی یہی طریقہ کار رہا کہ وہ آپ علیہ السلام اور ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی خدمت میں سلام بھجوایا کرتے تھے.

وذكر الخفاجى: كان من دأب السلف أنهم يرسلون السلام إلى رسول الله وكان ابن عمر يفعله ويرسل له عليه الصلاة والسلام ولأبى بكر وعمر رضي الله عنهما

٣. خفاجی رحمه اللہ لکھتے ہیں کہ اگرچہ آپ علیہ السلام کی خدمت میں فرشتوں کے ذریعے سلام پہنچادیا جاتا ہے لیکن اس صورت (یعنی سلام بھجوانے کی صورت) میں آپ علیہ السلام سے مخاطب ہونے کی اور آپ علیہ السلام کی طرف سے جواب کی فضیلت حاصل ہوتی ہے۔

ورسول الله صلى الله عليه وسلم وإن كان يبلغه سلام من سلم عليه وان كان بعيدا عنه لكن في هذا فضيلة خطابه عنده ورده عليه السلام بنفسه. [من نسيم الرياض للخفاجى (ج:3، ص:516) وذكرها الفيروزآبادى في الصلاة والبشر (ص:(153])

٤. اسی طرح امام نووی کہتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی کو اس بات کی وصیت/تلقین کی کہ میرا سلام پہنچادے تو اسے چاہئے کہ باقاعدہ سلام پیش کرے کہ فلاں بن فلاں آپ کو سلام عرض کررہا ہے۔

الإمام النووي قال في "المجموع شرح المهذب": وَإِنْ كَانَ قَدْ أُوصِيَ بِالسَّلَامِ عَلَيْهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وآله وَسَلَّمَ قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْك يَارَسُولَ الله من فلان بن فُلَانٍ، وَفُلَانُ بْنُ فُلَانٍ يُسَلِّمُ عَلَيْك يَارَسُولَ اللهِ، أَوْ نَحْوَ هَذِهِ الْعِبَارَةِ.

٥. اسی طرح فقہ کی معتبر کتب میں بھی اس بات کی وضاحت ہے کہ سلام پیش کردینا چاہئے۔

جاء في”الاختيار لتعليل المختار”(1/176) وفي "الفتاوى الهندية" (1/265-266): وَيُبَلِّغُهُ سَلَامَ مَنْ أَوْصَاهُ فَيَقُولُ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَارَسُولَ اللهِ مِنْ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ، يَسْتَشْفِعُ بِكَ إِلَى رَبِّكِ فَاشْفَعْ لَهُ وَلِجَمِيعِ الْمُسْلِمِينَ، ثُمَّ يَقِفُ عِنْدَ وَجْهِهِ مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَةِ، وَيُصَلِّي عَلَيْهِ مَا شَاءَ. ویبلغه سلام من اوصاہ فیقول: السلام علیك یارسول الله من فلان بن فلان. (الفقه علی المذاهب الاربعة)

خلاصہ کلام:

درود اور سلام کی کثرت مطلوب بھی ہے اور محبوب بھی، لہذا ہر مسلمان کو اس کی پابندی کرنی چاہئے، اور اگر کبھی ایسا موقعہ ہو کہ کوئی سفر مدینہ پر جانے والا ملے تو اس سے بھی اپنا سلام عرض کردینے کا ضرور کہنا چاہئے کہ اس میں آپ علیہ السلام سے محبت وعقیدت کے اظہار کے ساتھ ساتھ سلف صالحین کی اتباع بھی ہے. واللہ اعلم بالصواب" 

کتبہ: عبدالباقی اخونزادہ

عقیدہ حیات النبی حیات بعد الوفات ہی کی ایک فرع ہے، تنعیم وتعذیب بعد الوفات حیات بعد الوفات پہ موقوف ہے، لہذا متواتر درجے کی روایات سے حیات بعد الوفات ثابت ہوئی، اجماع امت مسلمہ اس پہ امر مستزاد ہے، عقیدہ حیات النبی کا منکر مبتدع ، متبع ہوی خارج عن اہل سنت والجماعت ہے. اس کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی ہے: 

اُن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہوتی ہے اور عقائد کا تعلق اگرچہ اندرون اور دل سے ہے؛ لیکن ظاہری قال الحصکفي: و یکرہ امامة العبد۔۔۔۔۔و مبتدع، أي: صاحب بدعة، و ھی اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول ۔۔۔۔لایکفر بھا ۔۔۔وان کفر بھا، فلا یصح الاقتداء بہ أصلاً ۔قال ابن عابدین: قولہ: (وہي اعتقادالخ) عزا ھذا التعریف في ھامش الخزائن الی الحافظ ابن حجر في شرح النخبة، ولا یخفی أن الاعتقاد یشمل ما کان معہ عمل أولا؛ فان من تدین بعمل لا بد أن یعتقدہ۔۔۔۔(الدر المختار مع رد المحتار: ۲/۲۵۴۔۔۲۵۷، ط: داراحیاء التراث العربي، بیروت)

"جو شخص اس کے (عقیدہ حیات النبی کے) خلاف عقیدہ رکھتاہے وہ میرے اکابرؒ کے نزدیک گمراہ ہے اس کی اقتداء میں نماز پڑھنا جائز نہیں، اس کی تقریر سننا جائز نہیں اوراس کے ساتھ کسی قسم کا تعلق روا نہیں۔" فتاوی بینات، ج 1 ص 601، یونیکوڈ) 

واللہ اعلم بالصواب 

شکیل منصور القاسمی 

مركزالبحوث الإسلامية العالمي 

31 اکتوبر 2020، روز ہفتہ

https://saagartimes.blogspot.com/2020/11/blog-post.html



No comments:

Post a Comment