Sunday 23 September 2018

مولانا ابو الکلام کا ایک خط امامِ انقلاب عبیداللّٰلہ سندھی کے نام

مولانا ابو الکلام کا ایک خط امامِ انقلاب عبیداللّٰلہ سندھی کے نام
مولانا ابو الکلام آزاد نے اپنے ایک خط میں امامِ انقلاب عبیداللّٰلہ سندھی کی بے مثل خدمات اور وفات حسرت آیات کا نقشہ کچھ یوں کھینچا ہے،
یہ خط ماہنامہ الرحیم حیدرآباد ماہ جولائی اگست 1968ء میں مطبوعہ ہے اور یہ مولانا سندھی رحمہ اللہ کے نواسے مولانا میاں ظہیر الحق دین پوری کے نام لکھا گیا تھا، ملاحظہ فرمائیں:
’’دہلی
15 ستمبر 47ء
عزیز القدر مولوی ظہیر الحق دین پوری سلمہٗ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ نے آزادی پر مبارک باد کا پیغام بھیجا۔ شکریہ! خط پڑھتے ہی مولانا عبید اللّٰلہ سندھی رحمۃ اللّٰلہ علیہ کی یاد آئی اور اس طرح آئی کہ صدائے درد زبان تک پہنچی اور زبان نے نوک قلم کے حوالہ کیا۔ قصہ بہت طویل ہے اسے مختصر کیا جاتا تب بھی وقت سازگاری نہیں کرتا۔
1914ء کی عالمگیر جنگ کے ایام تھے۔ ولی اللّٰہی قافلہ کے امیر حضرت مولانا محمود حسن قدس سرہٗ نے انتہائی نامساعد حالات میں مولانا عبید اللّٰلہ سندھی کو کابل بھیج دیا۔ ان کو وہاں مختلف ممالک کے سیاسی رہنماؤں سے مل کر کام کرنے کا موقع ملا۔ ان مین جرمن ، فرانسیسی اور جاپانی سیاستدان چند ایک ایسے بھی تھے جو آج اپنے اپنے ملک میں برسر اقتدار ہیں اور عنانِ حکومت انہی کے ہاتھ میں ہے۔یہ لوگ اس وقت کے سیاسی رفیق یا مشیر ہیں کہ جب مولانا نے کابل میں حکومت مؤقتہ قائم کی خود اس کے وزیر ہند منتخب ہوئے اور ریشمی خطوط کی تحریک چلا کر برٹش حکومت کو للکارا اور میدانِ جنگ میں شکست دے کر اپنا مؤقف منوایا۔ برطانوی نمائندہ نے جنگ کے خاتمہ پر مصالحتی دستاویز پر دستخط کرتے ہوئے حکومت کابل کی خود مختاری کا اعلان کیا۔ ہندوستان کے مطالبۂ آزادی کو تسلیم کیا اور بتدریج ہند کو چھوڑ دینے کی وضاحت کر دی۔ اس کا انتقام برٹش حکومت نے امیر امان اللّٰلہ خان سے لے لیا ، مگر مولانا عبید اللّٰلہ سندھی رحمۃ اللّٰلہ علیہ کا کچھ نہ بگاڑ سکی۔ یہ مولانا کا ذاتی سیاسی اثر تھا جس سے وہ مرعوب تھی۔
پچیس سال کی جلا وطنی کے بعد 1939ء میں جب یہاں پہنچے تو دوسری جنگ کا آغاز تھا۔ انہوں نے اپنی تحریک کانگرس میں پیش کرنے کے لئے میدان ہموار کیا۔ گاندھی جی تک نے اس تحریک کی مخالفت کی۔ اس کے باوجود ہندوستان چھوڑ دو کا نعرہ ہاؤس نے مار دیا اور اس کی گونج بیکنگھم پیلس سے ٹکرائی۔ یہ سب کچھ مولانا نے باہر بیٹھ کر کیا۔ کسی بھی بحث میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی کبھی کسی اجلاس میں شرکت کی، یہ فن صرف وہی جانتے تھے۔
ایک ملاقات میں چائے پر میں نے ان کے چہرہ سے کچھ ایسا تاثر قبول کیا کہ جس کی بنا پر ان سے پوچھ بیٹھا فرمایا کہ چاہتا ہوں سوبھاش اسی وقت باہر چلے جائیں۔ کچھ دیر خاموش ہو کر رخصت ہوئے اور اوکھلے اپنی قیام گاہ پر چلے گئے۔ دوسرے دن اوکھلے سے دہلی کو ملانے والی آٹھ میل لمبی سڑک کے ایک ویران گوشہ میں سوبھاش سے ان کی ملاقات ہو گئی۔ دوسری ملاقات ان کی بالی گنج کلکتہ میں ہوئی۔ اسی ہی ملاقات میں اسے جاپان جانے کیلئے رخصت کیا۔ حکومت جاپان کے نام وزیر ہند حکومت مؤقتہ کی حیثیت سے اسے ایک شناختی کارڈ دیا اور وہاں کے فوجی بورڈ کے سربراہ کے نام اپنا ذاتی پیغام۔ سوبھاش کے وہاں پہنچنے پر حکومت جاپان نے فوج میں ان پر اپنے اعتماد کا اعلان کیا۔ ادھر اعلان ہونا تھا کہ ادھر احمد نگر کے قلعہ سے کانگرس ہائی کمان کی رہائی بلا شرط منظور کر لی گئی ، ورنہ حکومت کا یہ فیصلہ تھا کہ پورے قلعہ کو بمع سیاسی قیدیوں کے بم سے اڑا دیا جائے۔ ساتھ ہی ہند کی آزادی کا اعلان کر دیا اور ہم آزاد ہو گئے ، کون جانتا ہے کہ کس کی قربانیاں ہیں؟
جاپانی حکومت نے حضرت مولانا پر اعتماد کیا۔ اس جرم کی سزا اسے ہیروشیما میں بھگتنی پڑی۔ حضرت مولانا کو ایسا زہر دیا کہ جس نے ان کی ہڈیوں سے کھال کھینچ لی۔پھر ان کی دونوں آنکھیں نکال لیں اور 22 اگست 1944ء کو اس مقام میں پہنچے جو پہلے ہی دن سے اللّٰلہ تعالیٰ نے ان کے لئے اپنے حضور میں مخصوص کر رکھا تھا یُدْخِلُھُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَھَالَھُمْ۔ اس وقت آسمان اشک بار تھا۔ زمین رو رہی تھی۔ ہندوستان سوگوار تھا۔ جرمن اور جاپان کا علمی اور سیاسی طبقہ بھی شریکِ ماتم تھا , مگر حکومت برطانیہ نے اس خبر کو افواہ سمجھا۔ تاج کے حکم سے وائسرائے ہند کے ذریعہ ایک تحقیقاتی محکمہ قائم ہوا۔ اس نے برطانیہ کے تمام سفارت خانوں سے رابطہ قائم کیا۔ تب کہیں جا کر اطمینان نصیب ہوا اور یکم ستمبر 45ء کو پورے ایک سال نو دن بعد سرکاری طور پر اس امر کی تصدیق کی کہ مولانا واقعی فوت ہو گئے ہیں۔
ایک انقلابی کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈال دیں اور پوری دنیا کو دوسرے پلڑے میں تو وہ ایک پوری دنیا پر بوجھل ہوتاہے۔ اب صرف ایک بات باقی ہے اور اس یاد کے ساتھ غم ، غم صرف اس کا نہیں کہ یہ لوگ جدا ہو گئے۔ غم اس کا ہے کہ وہ دنیا ہی مٹ گئی جس دنیا کی یہ مخلوق تھے۔ ہم اس کاروانِ رفتہ کے پسماندگان رہ گئے ہیں۔ جنہیں نہ تو قافلہ کا سراغ ملتا ہے نہ منزل سے آشنا ہو سکتے ہیں۔ نہ ہمیں کوئی پہچانتا ہے نہ ہم کسی کے شناسا ہیں۔ فَمِنْھُمْ مَنْ قَضَیٰ نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَنْ یَّنْتَظِرْ۔ آزادی صد مبارک، ان شہداء کو اور اللّٰلہ تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ان کی تربت پر ہوں۔ میں خیریت سے ہوں۔ الحمد للّٰلہ اپنی خیریت سے مطلع کرتے رہا کریں۔ والدہ صاحبہ کی خدمت میں سلام عرض کر دیں!
والسلام۔
ابو الکلام۔‘‘

No comments:

Post a Comment