Tuesday 4 September 2018

امام سے مبادرت وسبقت کے احکام

امام سے مبادرت وسبقت کے احکام
امام کی متابعت کا حکم
نماز کے ارکانِ فعلیہ میں مقتدی کے لیے امام کی متابعت لازم ہے، اوراس پر علماء کا اتفاق ہے، ”کبیری“ میں ہے:
لاَ خِلافَ فِی لُزُومِ المُتَابَعَةِ فی الأرکانِ الفِعْلیةِ․ (کبیری، ص:۴۵۲، نعمانیہ: کوئٹہ)
قراء ت وغیرہ بعض امور کے استثناء کے ساتھ یہ کہنا بھی بجا ہے، کہ نماز کی ہر حالت میں امام کی متابعت کا حکم دیاگیا ہے، خواہ اس کا تعلق قول سے ہو یا فعل سے ہو۔ ”صحیح بخاری“ میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
انَّما جُعِلَ الامامُ لیوٴتَمَّ بِہ، فَاذَا رَکَعَ فَارْکَعُوا، وَاذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَاذَا قَالَ: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ فقولوا: رَبَّنا وَلَکَ الْحَمْدُ․ (الصحیح للبخاری، کتاب الأذان، باب انما جعل الامام لیوٴتم بہ، ص:۹۵، ج:۱، قدیمی)
”امام اسی لیے بنایا گیا ہے، کہ اس کی پیروی کی جائے، لہٰذا جب وہ رکوع کرے، تو تم رکوع کرو، جب وہ (رکوع سے) سر اٹھائے، تو تم سر اٹھاؤ، اورجب وہ سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہے، تو تم ربنا ولک الحمد کہو․․․“
”صحیح مسلم“ میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ ہے:
انَّما جُعِلَ الامامُ لیوٴتَمَّ بِہ، فاذَا کَبَّرَ فَکَبِّرُوْا، واذَا سَجَدَ فَاسْجَدُوا، واذَا رَفَعَ فَارْفَعُوا، وَاذا قال: سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہ فقولوا: ربَّنا وَلَکَ الْحَمْد․․․ (الصحیح لمسلم، کتاب الصلوة، باب ائتمام المأموم بالامام، ص:۱۷۷، ج:۱، قدیمی)
”امام اسی لیے بنایاگیا ہے، کہ اس کی پیروی کی جائے؛ لہٰذا جب وہ تکبیر کہے، تو تم تکبیر کہو، جب وہ سجدہ کرے، تو تم سجدہ کرو، جب وہ (رکوع اور سجدہ سے) سر اٹھائے، تو تم سراٹھاؤ،اورجب وہ سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہے، تو تم ربنا ولک الحمد کہو․․․“
متابعت کا مطلب
امام کی متابعت کے دو مطلب ہیں:
(۱) امام سے عدم مسابقت: یعنی امام جس رکن کو ادا کرے، مقتدی امام کے ساتھ یا امام کے بعداس رکن کوادا کرے، امام سے قبل ادا نہ کرے۔ اس معنی کے اعتبار سے متابعت فرض ہے؛ چناں چہ اگر کسی مقتدی نے امام سے پہلے رکوع کرکے اپنا سر رکوع سے اٹھالیا، پھر امام نے رکوع کیا،اور مقتدی نے اپنے امام کے ساتھ یا امام کے بعد دوبارہ رکوع نہ کیا، تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔
(۲) امام کے ساتھ مشارکت: یعنی ارکان کی ادائیگی میں امام کے ساتھ اس طرح مشارکت کہ کسی رکن کو نہ امام سے قبل ادا کرے، نہ امام کے اس رکن کو ادا کرچکنے کے بعد ادا کرے۔ اس معنی کے اعتبار سے متابعت واجب ہے، ہاں اگر کوئی دوسرا واجب اس کے معارض ہو، تو مناسب یہ ہے، کہ اولاً واجب کو ادا کرے، پھر امام کی متابعت کرے، جیسے مقتدی کا تشہد پورا ہونے سے پہلے امام تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا، تو اس صورت میں مقتدی تشہد پورا کرے، جو واجب ہے، پھر کھڑا ہوکر امام کی متابعت کرے۔ اسی طرح قعدئہ اخیرہ میں مقتدی کے تشہد ختم ہونے سے پہلے امام نے سلام پھیردیا، تو مقتدی تشہد پورا کرے، پھر سلام پھیرے۔
فی العلائیة: بقی من الفروض․․․ ومتابعتہ لامامہ فی الفروض․
وفی الشامیة: قولہ: ”ومتابعتہ لامامہ فی الفروض“ أی بأن یأتی بہا معہ أو بعدہ، حتی لو رکع امامہ ولم یرکع ثانیا مع امامہ أو بعدہ بطلت صلاتہ، فالمراد بالمتابعة عدم المسابقة؛ نعم متابعتہ لامامہ بمعنی مشارکتہ لہ فی الفرائض معہ لا قبلہ ولا بعدہ واجبة․ (رد المحتار علی الدر المختار، کتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ص: ۱۳۸، ۱۳۹، ج:۲․ ونحوہ فی باب صفة الصلاة، مطلب مہم فی تحقیق متابعة الامام، ص:۱۶۶، ج:۲، العلمیة: بیروت)
متابعت کے مفہوم میں یہ امر تو غیرمختلف فیہ ہے، کہ مقتدی کی تکبیر تحریمہ، رکوع، سجدہ وغیرہ ارکان کی ادائیگی امام سے پہلے نہ ہو، امام ترمذی رحمة اللہ علیہ حضرت براء رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث جو آئندہ آرہی ہے، کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
وبہ یقول أہل العلم: ان من خلف الامام انما یتبعون الامام فیما یصنع، ولا یرکعون الا بعد رکوعہ، ولا یرفعون الا بعد رفعہ، ولا نعلم بینہم فی ذلک اختلافا․ (جامع ترمذی، أبواب الصلوة باب ما جاء فی کراہیة أن یبادر الامام فی الرکوع والسجود، ص:۳۶، ج:۱، قدیمی)
”اہلِ علم اسی کے قائل ہیں، کہ جو لوگ امام کے پیچھے ہیں، وہ افعال میں امام ہی کی اتباع کریں، امام کے رکوع کے بعد ہی رکوع کریں،اور اس کے سر اٹھانے کے بعد ہی سراٹھائیں، اور ہم اس مسئلے میں علماء کا کوئی اختلاف نہیں جانتے۔“
پھر ایک قول کے اعتبار سے حنفیہ کے یہاں حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرات صاحبین: امام ابویوسف اور امام محمد رحمہم اللہ کے درمیان یہ امر بھی متفق علیہ ہے، کہ ارکان کی ادائیگی میں مقارنت یعنی امام کے ساتھ ساتھ ادا کرنا اورمعاقبت یعنی امام کے بعدادا کرنا دونوں جائز ہیں؛ البتہ امام ابوحنیفہ رحمة اللہ علیہ کے ہاں مقارنت افضل ہے اور حضرات صاحبین: امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک معاقبت افضل ہے۔
معاقبت یعنی امام کے بعدادا کرنے کا مطلب یہ نہیں، کہ امام اس رکن کو اداکرلے، اس کے بعد مقتدی اس رکن کو ادا کرنا شروع کرے۔ یعنی بَعدیت سے بَعدیت مطلقہ اور بَعدیت کاملہ مراد نہیں؛ بلکہ بَعدیت متصلہ بالفاظِ دیگر بَعدیت مع الوصل مراد ہے۔ یعنی ارکان کی ادائیگی میں مقتدی امام سے ذرا پیچھے رہے، امام کسی رکن میں تھوڑا پہلے جانا شروع کرے، اور مقتدی اس کے کچھ بعد اس رکن میں جانا شروع کرے، امام اس رکن میں تھوڑا پہلے پہنچے گا اور مقتدی تھوڑا بعد میں پہنچے گا۔ پھر امام اس رکن سے کچھ پہلے اورمقتدی تھوڑا بعد میں اٹھنا شروع کرے گا۔ اس اعتبار سے اس رکن کی ادائیگی میں جتنا وقت امام کا لگے گا، اتنا ہی وقت مقتدی کا بھی لگے گا۔ ”صحیح مسلم“ وغیرہ میں ہے؛ حضرت ابوموسویٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو خطبہ دیا، پس ہمارے لیے ہماری سنت کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا، اور ہم کو ہماری نماز کا طریقہ سکھایا؛ چناں چہ آپ نے فرمایا: جب تم نماز پڑھنے لگو، تو اپنی صفوں کو درست کرو، پھرتم حاضرین میں سے کوئی تمہاری امامت کرے۔ جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو، جب وہ غیر المغضوب علیہم ولا الضالین کہے تو، تو تم آمین کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری دعا قبول فرمائیں گے۔ جب وہ تکبیر کہتا ہوا رکوع کرے، تو تم تکبیر کہتے ہوئے رکوع کرو، بے شک امام تم سے پہلے رکوع کرتا ہے اور تم سے پہلے رکوع سے سر اٹھاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا رکوع سے بعد میں سر اٹھانا امام کے رکوع میں پہلے جانے کے مقابلے میں ہوگیا، جب وہ سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہے، تو تم اللّٰہم ربنا لک الحمد کہو، اللہ تعالیٰ تمہاری حمد سنیں گے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی … کی زبان مبارک سے یہ بات جاری فرمائی: سمع اللّٰہ لمن حمدہ․ (جس نے اللہ تعالیٰ کی حمد کی، اللہ تعالیٰ نے اس کی (حمد) سن لی) اور جب امام تکبیر کہتے ہوئے سجدے میں جائے ، تو تم تکبیر کہتے ہوئے سجدے میں جاؤ۔ بے شک امام تم سے پہلے سجدہ کرتا ہے، اورتم سے پہلے سجدہ سے سراٹھاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تمہارا سجدے سے بعد میں سراٹھانا امام کے سجدے میں پہلے جانے کے مقابلے میں ہوگیا․․․“ (صحیح مسلم، ج۱، ص:۱۷۴)
اگر امام بہت موٹا ہو یا بہت بوڑھا ہو، یا کوئی اور عذر ہو، جس کی وجہ سے اٹھنے بیٹھنے میں دشواری ہو اور ایک رکن سے دوسرے رکن میں منتقل ہونے میں تاخیر ہوتی ہو، تو ایسی صورت میں مقتدی پر لازم ہے، کہ امام کے اگلے رکن میں منتقل ہوجانے کے بعد انتقال شروع کرے، تاکہ انتہاءً بَعدیتِ متصلہ پائی جائے؛ کیوں کہ اس صورت میں امام نے جس رکن کو ادا کرنا شروع کیا،اگر مقتدی بھی ابتداء میں بَعدیتِ متصلہ کے ساتھ شروع کرے گا، تو ممکن ہے، کہ مقتدی کی فراغت امام کی فراغت سے قبل پائی جائے، اور مقتدی کی امام سے سبقت لازم آجائے، جو منہی عنہ ہے۔ ”سنن ابی داود“ میں حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما سے مروی ہے؛ آپ فرماتے ہیں:
قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: لا تبادرونی برکوع ولا بسجود، فانہ مہما اسبقکم بہ اذا رکعت، تدرکونی بہ اذا رفعت، انی قد بدنت․ (سنن أبی داود، کتاب الصلاة، باب ما یوٴمر بہ المأموم اتباع الامام، ص:۹۱، ج:۱، ایچ ایم سعید)
”رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، کہ تم مجھ سے رکوع اور سجدے میں مبادرت مت کرو، اس لیے کہ اگر میں تم سے رکوع کے وقت میں سبقت کروں گا، تو جب میں سراٹھاؤں گا، تم میرے اس وقت کو پالوگے۔ بے شک میری عمر زیادہ ہوگئی ہے یا میرا بدن بڑھ گیا ہے۔“
”حضرت ابوموسیٰ (اشعری) رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہ … نے ارشاد فرمایا: بے شک میری عمر زیادہ ہوئی ہے، یا میرا جسم موٹاپا اختیار کرچکا ہے، اس لیے جب میں رکوع میں جاؤں، تو تم رکوع میں جاؤ۔ جب میں(رکوع سے) سر اٹھاؤں، تو تم (رکوع سے) سر اٹھاؤ۔ اور جب میں سجدے میں جاؤں، تو تم سجدے میں جاؤ۔ سنوا! میں کسی کو ہرگز اپنے سے پہلے رکوع اور سجدے میں جاتے ہوئے نہ پاؤں۔“
”صحیح بخاری“ وغیرہ میں حضرت براء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛ آپ فرماتے ہیں:
کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اذا قال: ”سمع اللّٰہ لمن حمدہ“ لم یحن أحد منّا ظہرہ حتی یقع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ساجدا، ثم نقع سجودا بعدہ․
(الصحیح للبخاری، کتاب الأذان، باب متی یسجد من خلف الامام، ص: ۶۹، ج:۱، قدیمی)
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سمع اللّٰہ لمن حمدہ فرماتے تھے، تو ہم میں سے کوئی اپنی پشت کو نہیں جھکاتا تھا، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں چلے جاتے تھے، پھر اس کے بعد ہم سجدے میں جاتے تھے۔“
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی اس روایت میں جو صورت بیان ہوئی ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کبرسنی یا بدن مبارک بڑھ جانے کے زمانے کی ہے، جیساکہ الکوکب الدری، ص:۱۳۷، ج:۱ میں ہے۔
امام سے مبادرت کی ممانعت:
افعالِ صلاة کی ادائیگی میں امام سے مبادرت ممنوع ہے۔ اس سلسلے کی دو روایتیں ماقبل میں مذکور ہوئیں۔ مزید چند روایات ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
عن أبی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال: کان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یعلّمنا یقول، لا تبادروا الامام․ اذا کبر فکبروا، واذا قال: ولا الضالین فقولوا: آمین، واذا رکع فارکعوا، واذا قال: سمع اللّٰہ لمن حمدہ فقولوا: اللّٰہم ربنا لک الحمد․
وفی طریق آخر: ولا ترفعوا قبلَہ․ (الصحی لمسلم، کتاب الصلاة، باب ائتمام المأموم بالامام، ص:۱۷۷، ج:۱، قدیمی)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛ آپ فرماتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو (نماز کے احکام وغیرہ) سکھاتے تھے: فرماتے تھے:
امام سے مبادرت وسبقت مت کرو، جب وہ تکبیر کہے، تو تم تکبیر کہو، جب وہ ولا الضالین کہے، تو تم آمین کہو۔ جب وہ رکوع کرے، تو تم رکوع کرو، اور جب وہ سمع اللّٰہ لمن حمدہ کہے، تو تم اللّٰہم ربنا لک الحمد کہو۔“ اور دوسرے طریق میں ہے: ”امام سے پہلے سر نہ اٹھاؤ۔“
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: صلی بنا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم، فلما قضی الصلاة، أقبل علینا بوجہہ: فقال: أیہا الناس، انی امامکم فلا تسبقونی بالرکوع ولا بالسجود ولا بالقیام ولا بالانصراف․․ (الصحیح لمسلم، کتاب الصلاة، باب تحریم سبق الامام برکوع أو سجود ونحوہما، ص:۱۸۰، ج:۱، قدیمی)
”رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہم کو نماز پڑھائی۔ جب نماز ختم فرمائی، تو آپ نے ہماری جانب رخ کرکے فرمایا: اے لوگو! یقینا میں تمہارا امام ہوں؛ لہٰذا تم رکوع، سجدہ، قیام اور سلام میں مجھ سے سبقت نہ کرو․․․“
”صحیح بخاری“ وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أما یخشی أحدکم أو ألا یخشی أحدکم اذا رفع رأسہ قبل الامام أن یجعل اللّٰہ رأسہ رأس حمار أو یجعل اللّٰہ صورتہ صورةَ حمار؟ (الصحیح للبخاری، کتاب الأذان، باب اثم من رفع رأسہ قبل الامام، ص:۹۶، ج:۱)
”کیا تم میں سے کوئی امام سے پہلے اپنا سر اٹھاتے وقت اس سے نہیں ڈرتا، کہ اللہ تعالیٰ اس کے سر کو گدھے کے سر کے مانند یا اس کی صورت کو گدھے کی صورت کے مانند بنادے؟“
صحیحن، سنن ترمذی اور سنن نسائی کی روایات میں امام سے قبل مطلقاً سر اٹھانے کا ذکر ہے۔ سنن ابی داود کی روایت میں امام کے سجدے کی حالت میں ہونے کے وقت سر اٹھانے کا ذکر ہے، لیکن امام ابوداود رحمة اللہ علیہ نے اس حدیث پر ”التشدید فیمن یرفع قبل الامام أو یضع قبلہ“ (امام سے پہلے سر اٹھانے یا رکھنے والے کے متعلق وعید) کا باب قائم کرکے عموم کی طرف اشارہ کیاہے۔

          یہ حدیث خبر نہیں ہے، کہ جو بھی امام سے قبل سر اٹھائے گا، تواس کا سر گدھے کے سر سے یا اس کی صورت گدھے کی صورت سے بدل دی جائے گی؛ بلکہ یہ وعید وتہدید ہے، کہ ایسا ہوسکتا ہے۔

          زمانہٴ ماضی میں امام سے قبل سر اٹھانے کی وجہ سے کسی کا چہرہ گدھے کی طرح ہوگیا ہو، جیسا کہ مرقاة شرح مشکاة (ص:۹۸، ج:۳) وغیرہ میں مذکور ہے، تو اس فعل کی ممانعت اور وعید کی شدت واضح ہے ہی، لیکن اگر اس طرح کا کوئی واقعہ پیش نہ آیا ہو، جیساکہ بعض علماء کا خیال ہے، (ملاحظہ ہو: تحفة الالمعی، ص:۴۷۱، ج:۲) تب بھی حدیث پاک کے الفاظ سے اس فعل کی ممانعت اور وعید کی شدت مخفی نہیں؛ کیوں کہ آج تک ایسا واقعہ پیش نہ آنے سے یہ لازم نہیں آتا، کہ آئندہ زمانے میں بھی پیش نہیں آسکتا۔ پھر اس وعید کا تعلق بظاہر دنیا سے ہے، لیکن اس احتمال کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا، کہ یہ وعید آخرت سے متعلق ہو، ہوسکتا ہے، کہ امام سے قبل سراٹھانے والے کا سر یا چہرہ قیامت کے دن گدھے کے مانند بنادیا جائے۔

          مذکورہ بالا روایات کے پیش نظر حضرات فقہاءِ کرام نے افعالِ صلاة کی ادائیگی میں امام سے قصداً مبادرت اور سبقت کرنے کو بالاتفاق مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے۔ ”مراقی الفلاح“ میں ہے:

          یکرہ للمصلی سبعة وسبعون شیئا تقریباً لا تحدیدا: ترک واجب أو سنة عمداً․․․ کمسابقة الامام․ (مراقی الفلاح علی ہامش الطحطاوی، ص:۱۸۹، قدیمی)

          ”مصلی کے لیے ستہتّر چیزیں مکروہ ہیں۔ اور یہ عدد تقریبی ہے، تحدید کے لیے نہیں ہے: واجب یا سنت کا قصداً چھوڑ دینا․․․ جیسے امام سے سبقت کرنا۔“

          علامہ انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

          ”فاعلم أنہ اتفق کلہم علی أن المبادرة من الامام مکروہ تحریماً․ (فیض الباری، ص:۲۱۶، ج:۲، المجلس العلمی: ڈابھیل)

          ”جان لو، کہ سب فقہاء اس بات پر متفق ہیں، کہ امام سے سبقت کرنا مکروہِ تحریمی ہے۔“

          اور مکروہِ تحریمی درحقیقت حرام یا قریب بحرام ہوتا ہے۔ چناں چہ ”ہدایہ“ میں ہے:

          ”فقہاء نے مکروہ کے معنی میں اختلاف کیاہے۔ امام محمد رحمة اللہ علیہ سے نصاً مروی ہے، کہ ہر مکروہ حرام ہے،مگر یہ کہ جب انھوں نے اس میں کوئی نص قطعی نہیں پائی، تو اس پر لفظ حرام کا اطلاق نہیں کیا۔ اور امام ابوحنیفہ اورامام ابویوسف رحمہما اللہ سے مروی ہے، کہ مکروہِ تحریمی حرام کے زیادہ قریب ہے۔“ (ہدایة مع فتح القدیر، ص:۴۴۰، ج:۸، رشیدیہ: کوئٹہ)

          ”فتح القدیر“ میں ہے، کہ ”یہ مکروہِ تحریمی کی تعریف ہے۔“

          ”القاموس الفقہی“ میں ہے:

          والمکروہ تحریما عند الحنفیة: ہو ما کان الی الحرام أقرب․ ویسمیہ محمد رحمہ اللّٰہ حراما ظنیا․ (القاموس الفقہی، ص:۳۱۸، ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة: کراچی)

          امام سے سبقت کے معاملے میں غور طلب بات یہ ہے، کہ عام حالات میں مقتدی امام سے قبل سلام پھیر نہیں سکتا۔ جب امام سلام پھیرے گا، اسی وقت مقتدی بھی سلام پھیرسکے گا، تو پھر امام سے سبقت کس لیے؟ اور بلا وجہ مبادرت کا کیا فائدہ، خصوصاً جب کہ مکروہِ تحریمی کا وبال بھی اپنے سر پر آرہا ہو؟

مبادرت کا تدارک

          اگر مقتدی امام کو پچھلے رکن میں چھوڑ کر اگلے رکن میں چلاگیا، تو اس کے لیے مناسب ہے، کہ دوبارہ پچھلے رکن میں چلا آئے۔ مثلاً مقتدی نے امام سے قبل رکوع یا سجدہ سے سر اٹھالیا، تو اس کو دوبارہ رکوع یا سجدہ میں لوٹ آنا چاہیے، تاکہ امام کے ساتھ موافقت ہوجائے اور اس کی مخالفت زائل ہوجائے۔ ”مصنف عبدالرزاق“ میں اسنادِ صحیح کے ساتھ مروی ہے کہ:

          ”حارث ابن مخلد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، کہ جو بھی آدمی امام سے قبل رکوع یا سجدے سے اپنا سر اٹھالے، تو چاہیے کہ وہ اپنے سر کو اٹھانے کے بقدر رکوع میں جھکادے یا سجدے میں رکھ دے۔“ (المصنف لعبد الرزاق، باب الذی یخالف الامام، ص:۳۷۵، ج:۲، المجلس العلمی: ڈابھیل)

          ”صحیح بخاری“ میں ہے: وقال ابن مسعود: اذا رفع قبل الامام یعود، فیمکث بقدر ما رفع، ثم یتبع الامام․ (الصحیح اللبخاری، کتاب الأذان، باب انما جعل الامام لیوٴتم بہ، ص:۹۵، ج:۱، قدیمی)

          ”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب مقتدی امام سے قبل سر اٹھالے، تو وہ (سابقہ رکن میں) لوٹ آئے اور سراٹھالینے کے بقدر (اس رکن میں) ٹھہرے پھر امام کے ساتھ مل جائے۔“

          ”مصنف ابن ابی شیبہ“ میں سندِ صحیح کے ساتھ مروی ہے:

          ”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے؛ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رکوع وسجدے میں اپنے اماموں سے جلدی مت کرو، اور جب تم میں سے کوئی امام کے سجدے میں ہونے کی حالت میں اپنا سر (سجدے سے) اٹھالے، تو چاہیے کہ وہ (دوبارہ) سجدے میں جائے، پھر امام سے سبقت کے بقدر وقت سجدے میں ٹھہرے۔“ (المصنف لابن أبی شیبة، کتاب الصلاة، باب الرجل یرفع رأسہ قبل الامام من قال: یعود فیسجد، ص: ۴۸۴، ج:۳، دار قرطبة: بیروت)

          علامہ طحطاوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

          ”فعلی ارکان میں مقتدی کی اپنے امام کی متابعت واجبات میں سے ہے؛ لہٰذا اگر مقتدی نے امام سے قبل اپنا سر رکوع یا سجدے سے اٹھالیا، تو اس کے لیے مناسب ہے، کہ وہ (اس رکن میں) لوٹ آئے، تاکہ موافقت کے ذریعے مخالفت زائل ہوجائے۔ اور یہ لوٹ آنا (رکوع یا سجدے کی) تکرار شمار نہیں ہوگا۔ اور حلبی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب (غنیة المستملی) کے آخر میں (اس رکن میں) لوٹ آنے پر جزم کیاہے۔“ (حاشیہ الطحطاوی علٰی مراقی الفلاح، ص:۱۳۹، قدیمی)

          علامہ شیخ ابراہیم حلبی رحمة اللہ علیہ کی عبارت یہ ہے:

          رفع رأسہ من الرکوع أو السجود قبل الامام عاد لتزول المخالفة بالموافقة․ (غنیة المستملی، ص:۵۳۳)

          ”مقتدی نے رکوع یا سجدے سے امام سے پہلے اپنا سر اٹھالیا، تو وہ لوٹ آئے؛ تاکہ موافقت کے ذریعے مخالفت زائل ہوجائے۔“

          علامہ حلبی رحمة اللہ علیہ نے اس میں ”ینبغی“ (مناسب ہے) کی بجائے جزماً لوٹ آنے کا ذکر کیا ہے۔                                                            


سوال # 60048
(۱) تکبیر تحریمہ اور سلام کے لفظ سلام اور اللہ میں مدکی مقدارکیاہے ؟
(۲) مقتدی اگرتحریمہ اور سلام میں امام پر سبقت کرے تو کیاحکم ہے ؟
(۳) کیا سبقت علی الامام کا ذمہ دار فقط مقتدی ہے یا امام کو بھی اس کی رعایت کرنا چاہئے ۔
بعض ائمہ تحریمہ اور سلام میں مدکرتے ہیں اور عوام کومسائل کا علم نہیں ہوتا، ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟
Published on: Aug 17, 2015 
جواب # 60048
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa ID: 742-707/Sn=11/1436-U
(۱) دونوں میں ایک ”الف“ کے بہ قدر ”مد“ ہے۔
(۲) تکبیر تحریمہ کے وقت اگر مقتدی امام کے ”اللہ اکبر“ مکمل کہنے سے پہلے ہی اپنی تکبیر پوری کرلے تو اس سے مقتدی نماز میں شامل نہ ہوگا، اگر وہ دوبارہ تکبیر کہہ کے نماز میں داخل نہ ہوا تو پڑھی گئی یہ نماز اس کے حق میں کالعدم ہے، اس پر دوبارہ نماز پڑھنا ضروری ہے؛ البتہ اگر سلام میں امام سے سبقت کرجائے یعنی امام سے پہلے اپنا سلام مکمل کرلے تو نماز بہ کراہت ادا ہوجائے گی؛ لیکن بلاعذر ایسا کرنا گناہ ہے؛ اس لیے کہ ”سلام“ میں بھی امام کی متابعت واجب ہے۔ ولو افتتح مع الإمام وفرغ من قولہ ”اللہ“ قبل فراغ الإمام من قولہ ”اللہ“ لا یصیر شارعًا ولو قال ”اللہ“ مع قول الإمام لا یصیر شارعًا ولو قال ”اللہ“ مع قول الإمام اللہ أو بعدہ وفرغ من قولہ ”أکبر“ قبل فراغ الإمام من ”أکبر“ لا یجوز (شروعہ) أیضًا؛ لأنہ یصیر شارعًا بالکل (أي بمجموع ”اللہ أکبر“ لا بقولہ ”اللہ“ فقط فیقع الکل فرضًا إلخ (منیة المصلي مع غنیة المستملي، ص: ۲۶۰، ط: اشرفی) اور شامی میں ہے: أي لو أتمّ الموٴتمّ التشہّد بأن أشرَع فیہ وفرغ منہ قبل إتمام إمامہ فأتی بما یخرجہ من الصلاة کسلام أو کلام أو قیام جاز أي صحت صلاتہ لحصولہ بعد تمام الأرکان؛ لأن الإمام وإنما کرہ للموٴتم ذلک لترکہ متابعة الإمام بلا عذر إلخ (شامي: ۲/۲۴۰، زکریا) وانظر إمداد الفتاوی: ۱/ ۴۰۲، ط: زکریا، سوال: ۳۲۲۔
(۳) دونوں کو رعایت کرنی چاہیے؛ البتہ مقتدی کی ذمے داری زیادہ بنتی ہے؛ اس لیے کہ مقتدی کی نماز ہی خطرے میں ہوتی ہے نہ کہ امام کی۔
(۴) عوام پر ضروری ہے کہ نماز روزہ جیسے ضروری عبادات کے احکام ومسائل علماء سے سیکھیں نیز علماء کو بھی چاہیے کہ وقتا فوقتا ضروری مسائل عوام کو بتلاتے رہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment