Sunday 23 September 2018

مسئله حقہ، بیڑی، سگریٹ وغیرہ پینا کیسا ہے

مسئله حقہ، بیڑی، سگریٹ وغیرہ پینا کیسا ہے

(سوال ۲۷۰) مجالس الا برار کی تیسویں مجلس میں لکھا ہے کہ حقہ پینا ناجائز اور حرام ہے اور اس کے لئے عقلی ونقلی دلائل پیش کئے گئے ہیں۔ لیکن دور حاضر کا اہل علم طبقہ حقہ نوشی میں مبتلا ہے۔ کیا اب کوئی صورت جواز کی نکل آئی ہے؟ بالتفصیل جواب فرمایئے کہ عام بیماری ہے۔ بینوا توجروا۔

(الجواب) جس حقہ میں ناپاک یا نشہ آور چیزیں نوش کی جاتی ہیں وہ بالا تفاق حرام ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں، لیکن جس حقہ، بیڑی سگریٹ وغیرہ تمباکو نوشی کا رواج ہے اس کی حرمت متفق علیہ نہیں ہے۔ اکثر علماء فقہاء کی رائے جواز کی ہے۔ ’’شامی‘‘ میں ہے۔
فیفھم حکم التنباک وھو اباحۃ علی المختار والتوقف وفیہ اشارۃ الی عدم تسلیم اسکارہ وتفتیرہ واضرارہ (ج۵ ص ۴۰۷ کتاب الا شربۃ)
یعنی اصل اشیاء میں اباحت یا توقف ہے اس قانون کے مطابق تمباکو کا حکم سمجھ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مختار قول کے مطابق اباحت ہے یا توقف اور اس میں اشارہ ہے اس بات کی طرف کہ یہ نشہ آور اور فتور پیدا کر نے والا اورضرر رساں نہیں ہے۔(شامی) مگر تمباکو نوشی سے منہ میں بدبو پیدا ہوتی ہے لہذا صحیح ضرورت کے بغیر حقہ نوشی وغیرہ کراہیت سے خالی نہیں۔ تمباکو بنفسہ مباح ہے۔ اس میں کراہیت بدبو کی بنا پر عارضی ہے کراہت تحریمی ہو یا تنزیہی۔ بہر حال قابل ترک ہے۔ اس کی عادت نہ ہونی چاہئے۔ اس کی کثرت اسراف اور موجب گناہ ہے۔ جو لوگ ہر وقت کے عادی ہیں ان کا منہ ہمیشہ بدبو دار رہتا ہے جس سے آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بہت زیادہ نفرت تھی حدیث میں ہے:۔
عن ابی سعید الخدری ان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مر علی زراعۃ بصل ھو واصحابہ فنزل ناس منھم فاکلوا منہ ولم یا کل اخرون فرحنا الیہ فدعا الذین لم یاکلوا البصل واخر الا خرون حتی یذھب ریحھا۔
یعنی حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہماجمعین پیاز کے کھیت کے قریب سے گذرے ۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہاں ٹھہر گئے۔ ان میں سے بعض نے اس میں سے کھایا اور بعض نے نہیں کھایا پھر سب بارگاہ نبوی میں پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے پیاز نہ کھانے والوں کو قریب بلایا اور پیاز کھانے والوں کو بدبو زائل ہونے تک پیچھے بٹھایا۔ (صحیح مسلم ج۱ ص ۲۰۹باب نہی عن اکل سوم اوبصل الخ) شریعت میں منہ کی صفائی کے متعلق نہایت تاکید اور فضیلت وارد ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے۔
السواک مطھرہ للفم ومرضاۃ للرب
یعنی۔ مسواک۔ منہ کی پاکی کا ذریعہ ہے اور رب ذوالجلال کی خوشنودی کا سبب۔ (مشکوٰۃ شریف ص ۴۴ باب السواک)
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کا بیان ہے کہ آنحضرت ﷺ جب باہر سے تشریف لاتے تو اولا مسواک کرتے تھے (مسلم شریف ج۱ ص ۱۲۸)
اکثر تمباکو نوش حضرات منہ کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے ۔ جب دیکھے منہ میں بیڑی، سگریٹ ہوتی ہے ۔ مسجد کے دروازہ تک پیتے چلے جاتے ہیں بقیہ حصہ کو پھینک کر مسجد میں داخل ہوتے ہیں، شاید کوئی مسواک کرتا ہوگا یا منجن استعمال کرتا ہوگا۔ محض کلی پر اکتفا کر کے نماز شروع کر دیتے ہیں ۔ کہیں ایسوں کے ساتھ نماز پڑھنے کی نوبت آجاتی ہے نماز پڑھنی دشوار ہوجاتی ہے آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے کہ جو کوئی اس بدبودار درخت (پیاز یا اس کی آل) کو کھائے وہ (منہ صاف کئے) بغیر (توکا نبائی جائے) ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کہ جس چیز سے آدمی کو تکلیف ہوتی ہے فرشتوں کو بھی اس سے تکلیف ہوتی ہے (مسلم شریف ج۱ ص ۲۰۹ ایضاً) فقہاء کرام تحریر فرماتے ہیں کہ بدبو دار چیز کھانے، پینے کے بعد منہ صاف کئے بغیر مسجدو مدرسۂ عید گاہ، نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ اور مجلس تعلیم اور وعظ و تبلیغی اجتماعات میں شریک ہونا مکروہ ہے (نووی شرح مسلم ج۱ ص ۲۰۹ ایضاً) مسلمانوں کا کون سا وقت ذکر اﷲ اور ذکر رسول اﷲﷺسے خالی رہتا ہے ۔ قدم قدم پر بسم اﷲ الخ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ درود ودعا،سبحان اﷲ ،الحمد ﷲ، اﷲ اکبر، ماشاء اﷲ، لا حول ولا قوۃ الا باﷲ ، استغفر اﷲ انا اﷲ الخ مصافحہ کے وقت یغفر اﷲ، چھینک پر الحمد ﷲ یر حمکم اﷲ یہدیکم اﷲ وغیرہ وغیرہ ورد زبان رہتا ہے ، لہذا حتی الوسع منہ کی صفائی ضروری ہے ۔ خدائے پاک کے ہزارہا احسانات اور فضل و کرم ہے کہ اس نے اپنے رسول اﷲ ﷺ کے مقدس و مبارک نام لینے کی ہمیں اجازت دی ہے ۔ --------------------------------------------------
(۶) مفتی عزیز الرحمن صاحب کا دوسر افتویٰ:۔ (الجواب) تمباکو کھانا، پینا، سونگھنا مباح ہے مگر غیر اولیٰ جس کا حاصل یہ ہے کہ مکروہ تنزیہی ہے اور تجارت تمبا کو کی درست ہے۔
(فتاویٰ دارالعوم دیو بند ج۷۔۸ص۲۳۶) ---------------------------------------------
(۷) حضرت مفتی شفیع صاحب کا فتویٰ البتہ اگر بلاضرورت پیئے تو مکروہ تنزیہی ہے اور ضرورت میں کسی قسم کی کراہت نہیں۔ منہ صاف کرنا بدبو سے ہر حال میں ضروری ہے۔ (فتاویٰ درالعلوم دیو بند (ج۷۔۸ ص۲۹۲) فتاوی رحیمہ جلد 10 کا مضمون ہے.

No comments:

Post a Comment