Sunday 30 April 2017

حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اللہ علیہ

سوال: حضرت جی مولانا الیاس صاحب نور اللہ مرقدہ کا نسب نامہ کیا ہے۔؟
ان کی مختصر حالات زندگی؟
نیز ان پر دعوت و تبلیغ کا کام کس طرح کھولا گیا؟ اور یہ کام کس طرح شروع ہوا؟
بحوالہ مدلل سیر حاصل بحث فرمائیں

الجواب وباللہ التوفيق:
حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی:
حضرت مولانا محمد الیاس ۱۳۰۳؁ھ میں پیدا ہوئے مولانا محمد اسماعیل صاحب کاندھلوی کے چھوٹے صاحبزادے تھے اور مولانا محمد یحیٰ صاحب کے بھائی،الیاس اختر تاریخی نام تھا مولانا مظفر حسین صاحب کاندھلوی کی صاحبزادی ’’امی بی‘‘جو رابعہ سیرت خاتون تھیں اور اپنے زمانہ کی نہایت عابد اور زاہد اور خدا رسیدہ بی بی تھیں آپ کی نانی تھیں ان کو آپ سے انتہائی محبت تھی وہ آپ کو بچپنے ہی میں دیکھ فرماتی تھیں۔
’’اختر مجھے تجھ سے صحابہ کی خوشبو آتی ہے۔‘‘ آپ کا بچپن نانہال کاندھلہ اور والد بزرگوار کے پاس بستی نظام الدین دہلی میں گزارا قرآن مجید کی تعلیم کاندھلہ میں ہوئی اور والد صاحب کے پاس قرآن شریف حفظ کیا ابتدائی کتابیں اپنے والد صاحب اور مولانا ابراہیم صاحب کاندھلوی سے پڑھیں بچپن ہی سے اکابر و مشائخ کے محبوب رہے اس لئے کہ شروع ہی سے آپ میں صحابہ کرام کے والہانہ انداز اور دینی بیقراری کی جھلک پائی جاتی تھی۔
ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے بڑے بھائی کے پاس گنگوہ چلے گئے یہ ۱۳۱۴؁ھ کا سال تھا اور حضرت گنگوہی کی بارگاہ صلحاء اور علماء کامرکز بنی ہوئی تھی ،آپ کو ان علماء کی صحبت نصیب ہوئی خصوصاحضرت گنگوہی کی خدمت میں ہر وقت رہنا ہوا اور حضرت کی شفقتوں سے سرفراز ہوتے رہے جس کی وجہ سے آپ کے اندر دینی جذبات کی پرورش ہوتی رہی ،تعلیم اپنے بھائی سے حاصل کرتے رہے اور صحبت حضرت گنگوہی کی میسر آتی رہی اور کچھ عرصہ کے بعد حضرت گنگوہی نے آپ کے غیر معمولی حالات و کیفیات کو دیکھ کر بیعت فرمالیا۔
۱۳۲۳؁ھ میں حضرت گنگوہی کا وصال ہوا تو آپ بالیں پر موجود تھے اور سورہ یٰسین پڑھ رہے تھے فرماتے ہیں۔
’’دوہی غم میری زندگی میں سب سے بڑھ کر ہوئے ایک والد کا انتقال ،ایک حضرت کی وفات‘‘
حدیث کی کتابیں اپنے بھائی مولانا محمد یحیٰ صاحب سے پڑھیں اور ۱۳۲۶؁ ھ میں دیوبند جاکر حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب کے حلقہ میں بیٹھ کر بخاری اور ترمذی کی سماعت کی۔
حضرت گنگوہی کے بعد حضرت شیخ الہند سے بیعت ہونے کو عرض کیا لیکن انکے مشورہ سے حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نور اﷲ مرقدہ سے بیعت ہوئے اور انکی ہی نگرانی ہی میں منازل سلوک طے کئے اور نیابت و خلافت سے سرفراز ہوئے ۔
شوال ۱۳۲۸؁ھ میں مدرسہ مظاہر علوم میں مدرس ہوئے ۱۳۳۳؁ھ میں حضرت شیخ الہند اور حضرت سہارنپوری کی معیت میں پہلا حج کیا ،۱۳۳۴؁ ھ میں اپنے بھائی مولانا محمد یحیٰ صاحب کے انتقال کا بڑا اثر لیا اور اس چوٹ کا درد محسوس کیا اس کے بعد متواتر والدہ صاحبہ کا نتقال ہوا اور بڑے بھائی مولانا محمد صاحب جو بستی نظام الدین میں اپنے والد ماجد کی جگہ دعوت و تبلیغ کاکام انجام دے رہے تھے وفات پاگئے ،اس بناء پر اہل تعلق نے اصرار کیا کہ آپ مدرسہ چھوڑ کو اپنے والد اور بھائی کی جگہ نظام الدین تشریف لاکر تبلیغ و دعوت کا کام کریں آپ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب کی اجازت پر بستی نظام الدین تشریف لے گئے یہ زمانہ بڑی تنگدستی اورعسرت کا تھا،اکثر اوقات فاقے ہوتے تھے مولانا کا یہ دور بڑے مجاہدے ،جفا کشی اور ریاضت کا گزرا۔
میوات جو دہلی کے قریب مسلمان میواتیوں کا ایک بڑا زرخیز علاقہ ہے ،میواتی مدتوں سے دینی تعلیم سے نا آشنا تھے اور تھوڑا بہت تعلق آپ کے والد اور بھائی سے رکھتے تھے وہ میوات دعوت و تبلیغ کا مرکز بنا اول اول آپ نے اس علاقہ میں مکاتب قائم کئے اور میوات جانا شروع کیا اس طرح میوات کے لوگوں کو آپ سے گہرا تعلق قائم ہوگیا اور وہ لوگ آپ کی خدمت میں آنے جانے لگے،آپ نے ان کے نزاعات اور جھگڑوں کو اپنی حکمت اور روحانیت سے ختم کیا اور پھر ان میں ایک عوامی دینی تحریک چلائی جو آگے چل کر ایک منظم اور کامیاب تحریک بن گئی۔
۱۳۴۴؁ ھ میں علماء و مشائخ کی ایک جماعت کے ساتھ حضرت مولانا خلیل احمد صاحب نوراﷲ مرقدہ میوات تشریف لے گئے شرکاء کا بیان ہے کہ انسانوں کا ایک جنگل تھا جو اس علاقہ میں جمع تھا۔
۱۳۴۴؁ھ ہی میں اپنے مرشد و شیخ کی معیت میں دوسرا حج کیا حج سے واپسی پر پوری تند ہی سے تبلیغی کام میں لگ گئے اور آپ کی مسلسل کوششوں سے ایسا نظام بنا کہ میوات میں ایک وقت میں گشت ،ایک وقت میں اجتماع ،ایک وقت میں تعلیم عام ہونے لگی اور ہر وقت دعوتی سفر ہونے لگے اور جماعتیں پھر پھر کر تبلیغی کام کرنے لگیں گویا کہ تبلیغی جماعت ایک چلتی پھرتی خانقاہ ،متحرک دینی مدرسہ ،اخلاقی اور دینی تربیت گاہ بن جاتی تھی ۔
۱۳۵۱؁ ھ میں تیسرا حج فرمایا اور حج سے واپسی پر میوات کے دو دورے کئے جو تبلیغی کام کیلئے انتہائی مفید اور مؤثر ثابت ہوئے پورے میوات میں جماعتوں کا ایک جال بچھا دیا۔
۱۳۵۶؁ھ میں آپ نے آخری حج کیا اس حج میں جہاز سے لیکر حجاز تک تبلیغ و دعوت کا بڑا چرچا ہوا اہل عرب نے اس کو سنا اور سراہا حج سے واپسی پر اس مبارک کام میں آپ نے اپنی ساری متاع زندگی لگادی،میواتیوں کی جماعیتں مختلف صوبوں اور شہروں میں بھیجیں ،اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف عربی مدارس کے طلباء اور علماء نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر اپنے اپنے مقامات پر کام شروع کیا۔
۱۳۶۰؁ھ میں قصبہ نوح (میوات)میں ایک بڑا تبلیغی اجتماع کیا میوات کی سرزمین میں اس سے پہلے اتنا بڑا اجتماع نہیں ہوا تھا،یہ انسانوں کا جنگل ایک جلسہ بھی تھا ایک خانقاہ بھی اور ایک مدرسہ بھی اس اجتماع کے بعد میواتی،دہلی کے تاجر مدارس کے علماء کالجوں کے طلباء اور استاذ باہم مل کر جماعتیں بنا بنا کر ہندوستان کے مختلف علاقوں میں پھرنے لگے۔
۱۳۶۲؁ھ میں آپ ایک بڑی جماعت کے ساتھ لکھنؤ تشریف لائے ۔اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مہمان خانہ میں کئی دن قیام فرمایا جس سے لکھنؤ کی فضا دعوت و تبلیغ کی آواز سے گونجھ اٹھی اور سو تا ہوا شہر صدائے ایمان و یقین سے جاگ اٹھا۔
مسلسل دعوت نے پیہم،دوروں نے ،بے انتہا مجاہدوں نے آپ کو بیمار کردیا اور کام کی بیچینی اور مسلسل بیقراری نے اندر اندر آپ کو گھلا دیا ،آپ لاغر ہوئے اور ایسے ہوئے کہ صاحب فراموش ہوگئے،دو آدمیوں کے سہارے جماعت میں شریک ہوتے کبھی کبھی غفلت ہونے لگی اور دورے پڑنے لگے جب بھی ہوش آتا تو دین کی وہی بیقراری سامنے آجاتی ایک بار دو گھنٹے کی غشی طاری ہوئی یکایک آنکھیں کھلیں تو زبان پر یہ کلمات جاری تھے الحق تعلوولا یُعلیٰ پھر ایک وجد کی کیفیت طاری ہوگئی پھر تین دفعہ فرمایا کان حقا علینا نصر المومنین ،پھر کچھ دیر بعد فرمایا کاش علماء اس کام کو سنبھال لیتے اور پھر ہم چلے جاتے۔
زندگی کی آخری شب میں جو ۲۱ِ رجب۱۳۶۳؁ھ کو تھی اپنے صاحبزادے مولانا محمد یوسف صاحب کو بلایا اور فرمایا یوسف آمل لے ہم تو چلے اور صبح کی آذان سے پہلے جان جاں آفریں کے سپرد کردی۔ نے اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر تبلیغ و دعوت کی اس تحریک کو ہندوستان گیر سے عالمگیر بنایا اور دنیا کے ہر ہر خطہ میں پہونچا یا وہ بھی ۱۳۸۵؁ھ میں اپنے والد ماجد سے جاملے ،روحانی یادگار عالمگیر تحریک تبلیغ ہے،جو اس وقت کروڑوں انسانوں کی فلاح و بہبود کا ذریعہ بنی ہے اور برابر اس میں وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے آپ نے اپنے انتقال سے پہلے فرمایا تھا۔
’’لوگ آدمی چھوڑ کرجاتے ہیں میں اپنے پیچھے الحمد ﷲ پورا ملک چھوڑ کر جارہاہوں۔‘‘
فقط
....
فقہی سمینار  
آج کا سوال نمبر 206
112رجب المرجب؁ھ1438
مطابق
10 اپریل ؁2017ع بروز دو شنبہ

No comments:

Post a Comment