Sunday 2 April 2017

عمل کثیر کے مسائل

کوئی شخص نماز کے دوران ہاتھ چھوڑ کر جو بھی کرے وە عمل کثیر ہے ... ہر وہ عمل کثیر جب وہ نماز کی جنس سے نہ ہو یا نماز کی اصلاح کی غرض سے نہ ہو تو نماز فاسد ہو جاتی ہے.
اگر وہ نماز کی جنس سے ہو مثلاً 1 رکعت میں 2 رکوع یا 3 سجدے کرے.
اور نماز کی اصلاح کی غرض سے ہو مثلاَ حالت نماز میں وضو ٹوٹ جانے پر وضو کرنے کے لئے جائے تونماز فاسد نہ ہوگی....

عمل کثیر میں 5 قول ہیں....

1) دور سے دیکہنے والا یعنی جس کے سامنے نمازی نے نماز شروع نہ کی ہو یہ یقین کرے یا اس کو غالب گمان ہو کہ یہ نماز میں نہیں ہے تو وہ عمل کثیر ہے..
اور دیکہنے والا اگر شک کرے کہ (یہ نماز میں ہے یا نہیں) وہ قلیل ہے.

یہی اصح قول ہے.اور اسی پر فتوی ہے..
صاحب بدائع نے اس کو صحیح قرار دیا.
اور ان کی متابعت کی ہے زیلعی اور والولوالجی نے.
اور صاحب محیط نے احسن قرار دیا ہے.
اور صدر الشریعہ نے "الصواب" فرمایا ہے.
اور خانیہ & خلاصہ میں "اختیار العامہ" قرار دیا ہے.. رحمہم اللہ
( از رد المحتار. شامی)

2) جس کام کی عادت دونوں ہاتھ سے کرنے کی ہوتی ہے وہ عمل کثیر ہے.اگر چہ وہ نمازی اس کو 1 ہی ہاتھ سے کرے.جیسے عمامہ,کرتہ,اور پائجامہ پہننا...

3) 3 حرکتیں متصل لگاتار کرنا عمل کثیر ہے..

4) جس کے لئے فاعل کو علحدہ مجلس کرنا مقصود ہو جیسے بچہ کو دودھ پلانا وغیرہ.

5) جس کو نماز پڑھنے والا اپنی رائے میں کثیر سمجھے وہ کثیر ہے.اور جس کو قلیل سمجھے وہ قلیل ہے.
یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول کے زیادہ قریب ہے (امام صاحب ایسے مواقع میں رائے مبتلا بہ کے سپرد کرتے ہیں)

لیکن شرح منیہ میں ہے کہ یہ قول مضبوط نہیں کیونکہ عوام کو اپنی رائ پر چھوڑنا مناسب نہیں ہے.
اسی لئے پہلا قول اختیار کیا گیا ہے.....

اور حالت قیام میں 3 بار کھجلانے سے فساد کا حکم اس وقت ہے جب کہ ہر بار کھجلانے کے بعد ہاتھ باندھے پھر کھجلائے.
اور بغیر ہاتھ باندھے  چند بار کھجلائے تو 1 ہی بار کھجلانا کہا جائے گا اس سے نماز فاسد نہ ہوگی...
البتہ بلا ضرورت 1 بار کھجلانا بھی مکروہ ہے.....(از عمدة الفقه & شامی)
واللہ تعالی اعلم وعلمہ اتم واحکم.....

واللہ تعالی اعلم......
العبد محمد بن سراج عفی عنہ
......


دورانِ نماز ہاتھ پیر کو حرکت دینا؟


سوال(۴۶۷):- کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ: میں نے سنا ہے کہ نماز میں ہاتھ پاؤں؛ بلکہ کسی عضو کو حرکت نہیں دینا چاہئے اور یہ کہ تین مرتبہ ہاتھ چھوڑ دینے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، کیا یہ صحیح ہے؟
باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:نماز میں خشوع و خضوع اور سکون واطمینان مطلوب ہے، اس لئے پوری کوشش کرنی چاہئے کہ نماز شروع کرنے کے بعد نمازی کا کوئی عضو بلاوجہ حرکت نہ کرے؛ تاہم معمولی حرکت سے نماز نہیں ٹوٹتی؛ بلکہ نماز اس وقت فاسد ہو تی ہے جب کہ یہ حرکت اس قدر کثیر ہو کہ دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ شخص نماز میں نہیں ہے، مثلاً ایک رکن میں مسلسل تین مرتبہ کھجالیا، اور سوال میں یہ جو لکھا گیا ہے کہ تین مرتبہ ہاتھ چھوڑ دینے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے، یہ صحیح نہیں ہے؛ کیوںکہ یہ عمل کثیر میں داخل نہیں ہے؛ تاہم یہ حرکت خلافِ ادب ہے۔
اعلم أن أصل الصلاۃ ثلاثۃ أشیاء: أن یخضع للّٰہ تعالیٰ بقلبہ، ویذکر اللّٰہ بلسانہ، ویعظمہ غایۃ التعظیم بجسدہ، فہٰذہ الثلاثۃ أجمع الأمم علی أنہا من الصلاۃ۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ ۲؍۳۰)
وأصل الصلاۃ ثلاثۃ أشیاء: أن یخضع القلب عند ملاحضتہ جلال اللّٰہ وعظمتہ ویعبر اللسان عن تلک العظمۃ وذلک الخضوع أفصح عبارۃ، وأن یؤدب الجوارح حسب ذٰلک الخضوع۔ (حجۃ اللّٰہ البالغۃ ۱؍۵۱۵)
قال في الحلیۃ: وقد حکی إجماع العارفین علیہ، وإن من لوازمہ ظہور الذل، وغض الطرف، وخفض الصوت، وسکوت الأطراف۔ (شامي / مطلب في الخشوع ۲؍۴۰۷ زکریا)
ویفسدہا کل عمل کثیر لیس من أعمالہا ولا لإصلاحہا، وفیہ أقوال خمسۃ: أصحہا مالا یشک الناظر في فاعلہ أنہ لیس فیہا۔ (درمختار) وفي الشامیۃ: الثالث الحرکات الثلاث المتوالیۃ کثیر وإلا فقلیل۔ (درمختار مع الشامي ۲؍۲۸۵ زکریا، طحطاوي علی المراقي ۳۲۲) فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتاب النوازل
......
نماز کے اندر کسی رکن میں تین مرتبہ کوئی عمل کرنا عمل کثیر ہے تو سوال یہ ہے کہ جب رکعات لمبی ہو تو مصلی اس صورت میں کبھی سر کھجا لے ، کبھی ہاتھ ، کبھی پیر اس طرح ایک ہی رکن میں یعنی قیام میں چار پانچ مرتبہ کھجانے کا عمل کرلیا تو کیا نماز فاسد ہوجائے گی؟ یا مکروہ ؟

۳) کسی ایک رکن میں تین دفعہ کھجلانے سے مطلق نماز فاسد نہیں ہوتی بلکہ یہ اس وقت مفسد ہے کہ ہردفعہ کھجلانے کے لیے مستقل ہاتھ اٹھائے، اگر ہردفعہ ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ ایک ہی دفعہ ہاتھ اٹھاکر تین دفعہ کھجلایا تو نماز فاسد نہیں ہوگی، نیز اگر ایک دفعہ کھجلانے کے بعد بقدر ایک رکن توقف کیا پھر دوبارہ کھجلایا تو اس طرح تین بار کھجلانے سے بھی نماز فاسد نہیں ہوگی۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

No comments:

Post a Comment