Monday, 10 April 2017

عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر بہتان تراشیاں

ایس اے ساگر

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بزرگی مسلم ہے کہ آپ کو یہ سعادت کئی مرتبہ حاصل ہوئی کہ وحیِ خداوندی نے ان کی رائے کی تائید کی۔ حافظ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے “تاریخ الخلفاء” میں ایسے بیس اکیس مواقع کی نشاندہی کی ہے، اور امام الہند شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدس سرہ  نے “ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء” میں دس گیارہ واقعات کا ذکر کیا ہے لیکن اس کا کیا کیجئے کہ شرپسند عناصر نے آپ رضی اللہ عنہ کی کردار کشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے.
اہل علم حضرات کے نزدیک:
۱:…حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ جنگِ بدر کے قیدیوں کو قتل کیا جائے، اس کی تائید میں سورة الانفال کی آیت:۶۷ نازل ہوئی۔
۲:…منافقوں کا سرغنہ، عبداللہ بن اُبیّ مرا تو آپ کی رائے تھی کہ اس منافق کا جنازہ نہ پڑھایا جائے، اس کی تائید میں سورة التوبہ کی آیت:۸۴ نازل ہوئی۔
۳:…آپ مقامِ ابراہیم کو نمازگاہ بنانے کے حق میں تھے، اس کی تائید میں سورہٴ بقرہ کی آیت:۱۲۵ نازل ہوئی۔
۴:…آپ ازواجِ مطہرات کو پردہ میں رہنے کا مشورہ دیتے تھے، اس پر سورہٴ احزاب کی آیت:۵۳ نازل ہوئی اور پردہ لازم کردیا گیا۔
۵:…ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر جب بدباطن منافقوں نے نارَوا تہمت لگائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (دیگر صحابہ کے علاوہ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بھی رائے طلب کی، آپ نے سنتے ہی بے ساختہ کہا: “توبہ! توبہ! یہ تو کھلا بہتان ہے!” اور بعد میں انہی الفاظ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برأت نازل ہوئی۔
۶:…ایک موقع پر آپ نے ازواجِ مطہرات کو فہمائش کرتے ہوئے ان سے کہا کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں طلاق دے دیں تو اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تم سے بہتر بیویاں عطا کردے گا، اس کی تائید میں سورة التحریم کی آیت نمبر:۵ نازل ہوئی، وغیرہ وغیرہ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ولادت و شہادت
س… امیرالموٴمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تاریخ ولادت اور تاریخ شہادت کون سی ہے؟
ج… ولادت ہجرت سے چالیس سے قبل ہوئی۔ ۲۶/ذی الحجہ ۲۳ھ بروز چہارشنبہ مطابق ۳۱/اکتوبر ۶۴۴ء کو نمازِ فجر میں ابولوٴلوٴ مجوسی کے خنجر سے زخمی ہوئے، تین راتیں زخمی حالت پر زندہ رہے، ۲۹/ذی الحجہ (۳/نومبر) کو وصال ہوا۔ یکم محرم ۲۴ھ کو روضہٴ اطہر میں آسودہٴ خاک ہوئے، حضرت صہیب نے نماز جنازہ پڑھائی۔
حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے خلاف بہتان تراشیاں
س… میں نے آج سے کچھ عرصہ پہلے جمعہ کے وعظ کے دوران ایک واقعہ امام صاحب سے سنا تھا۔ وہ یہ ہے کہ: “حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو قبر میں عذاب ہوا، (معاذ اللہ!) جس سے ان کی پنڈلی کے ٹوٹنے کی آواز باہر تک لوگوں نے سنی، اس عذاب کی وجہ یہ تھی کہ ان پر ایک دفعہ پیشاب کا ایک چھینٹا پڑ گیا تھا۔”
جنابِ عالی! اس وقت تو مجھے اتنا شعور نہیں تھا، لیکن آج میں اس واقعہ پر غور کرتا ہوں تو میرا دل نہیں مانتا کہ یہ واقعہ سچ ہوگا، لیکن پھر یہ بھی سوچتا ہوں کہ یہ واقعہ ایک عالم دین کی زبانی سنا ہے، عجیب کشمکش کا شکار ہوں، امید ہے آپ میری اس کشمکش کو دور فرمادیں گے، میرے خیال میں یہ واقعہ صریحاً غلط ہے۔
ج… مجھے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایسے کسی واقعہ کا علم نہیں، پہلی بار آپ کی تحریر میں پڑھا، میں اس کو صریحاً غلط اور بہتان عظیم سمجھتا ہوں، ان واعظ صاحب سے حوالہ دریافت کیجئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کشف
س… بہت سے عالموں سے سنا ہے کہ خلیفہٴ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے اور ملک شام میں ان کی فوج کافروں سے لڑ رہی تھی، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھتے پڑھتے فوج کے جرنیل ساریہ رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ:
“اے ساریہ! پہاڑ کو سنبھالو” چنانچہ ساریہ رضی اللہ عنہ نے عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی آواز سنی، اور پہاڑ کو سنبھالا، اس طرح ان کو فتح نصیب ہوئی۔ کیا یہ صحیح ہے؟
ج… یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کشف اور کرامت تھی، یہ واقعہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ (دیکھئے: حیاة الصحابہ ج:۳ ص:۵۶۸، الاصابہ ج:۲ ص:۳، البدایہ والنہایہ ج:۷ ص:۱۳۱)۔

http://googleweblight.com/?lite_url=http://alasirchannel.blogspot.com/2012/06/blog-post_401.html?m%3D1&ei =RyX0j9ba&lc=en-IN&geid=28&s=1&m=65&host=www.google.co.in&ts=1491843190&sig=AJsQQ1BYtQ7yH3h6Y9cztfkj4QzkEoN_LA

حضرت عمر فاروق کا بیٹی کو زندہ درگور کرنے کا واقعہ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا اپنی بیٹی کو زندہ درگور کرنے کے واقعہ کی حقیقت

میرا سوال ہے کہ : کیا یہ بات ثابت ہے کہ : حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے
جاہلیت کے زمانہ میں اپنی بیٹی کو زندہ درگور (دفن ) کیا تھا  ؟
جواب : قرآن کریم سے یہ تو ثابت ہے کہ جاہلیت میں بعض عرب ایسا کرتے تھے ، جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :( وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالْأُنْثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ (58) يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلَا سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ (59) [ النحل ] وقال : ( وَإِذَا المَوْؤُودَةُ سُئِلَتْ (9) بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ  (10)[التكوير]  .
لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اس طرح کے فعل کی نسبت باطل اور سراسر جھوٹ ہے ، اس میں روافض کا  دخل بھی ہوسکتاہے ۔
اس لئے کہ یہ بات تاریخ سےثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی پہلی بیوی تھیں : حضرت زینب بنت مظعون رضی اللہ عنہا ، ان سے حضرت عمر کی اولاد میں سے : ام المؤمنین حضرت حفصہ  ،عبد اللہ بن عمر، عبدالرحمن بن عمر رضی اللہ عنہم پیدا ہوئے ۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش جاہلیت کے زمانہ میں بعثتِ نبوی سے پانچ سال قبل ہوئی ، جیساکہ مستدرکِ حاکم کی روایت ہے کہ : حضرت حفصہ کی پیدائش اس وقت ہوئی جس وقت قریش خانہ کعبہ کی تعمیر میں مصروف تھے ۔ اور وہ حضرت عمر کی سب سے بڑی اولاد ہیں ، تو جب ان کو درگور نہیں کیا ، تو ان سے کوئی چھوٹی بیٹی کو کیوں کرتے ؟ اور اگر کرتے تو ان کا ذکر تاریخ میں ضرور ہوتا ، چونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تمام اولاد کی پیدائش شادی وغیرہ کی تفصیل  تاریخ کی کتابوں میں ہے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرف وأد البنات کی نسبت غلط ہونی کی دوسری وجہ یہ ہے کہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بہنوئی حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ کے والد حضرت زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ عنہ  جو حضرت عمر کے چچا زاد بھائی بھی ہوتے ہیں وہ اس طرح لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے سے منع کرتے تھے ، اور اس کے والد کو معاوضہ دے کر اس کی زندگی بچاتے تھے، کما فی "مستدرک الحاکم" (وكان يُحيي الموؤودةَ، يقول للرجل إذا أراد أن يقتل ابنتَه: مَهلا، لا تقتُلها، أنا أكفيكَ مُؤونتها، فيأخذُها. فإذا تَرَعرعَت، قال لأبيها: إن شئتَ دفعتُها إليك، وإن شئتَ كفيتُك مُؤونتها) قال الحاكم : صحيح على شرط الشيخين، ولم يخرجاه .
تو کوئی واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایسا ہوتا تو یہ قریبی رشتہ دار کی وجہ سے سامنے آجاتا ۔
واللہ اعلم
أبو معاذ المکی
http://googleweblight.com/?lite_url=http://hadithqa.blogspot.com/2017/01/58-59-9.html?m%3D1&ei=HUWZ03C5&lc=en-IN&geid=28&s=1&m=65&host=www.google.co.in&ts=1491842064&sig=AJsQQ1A9k2DrKS5LPZHu5aWZ4ZmLC7cQ3Q

مشہور واقعہ ابوشحمہ ابن عمرؓ پر حدّ جاری کرنے کی حقیقت

امیرالمؤمنین فاروق اعظم حضرت عمر ؓ کی حق پرستی، انصاف پروری، اجراء حدود الٰہی میں عزیز و بے گانہ کے ساتھ ان کے یکساں برتاؤ کی روشن اور درخشاں حیثیت کو (ان کے فرزند ابو شحمہ) کے متعلق ایک بے بنیاد و بے اصل خود ساختہ واقعہ کے ذریعہ منظر عام پر لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حالانکہ امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ کی بےنظیر انصاف پروری اور عدل گستری آپ کے دور خلافت کے طریق کار یہ سب ایسے صحیح اور معتبر تاریخی روایات سے ثابت اور مشہور ہیں کہ ان کے بعد اس قسم کے گھڑے ہوئے قصوں کے ذریعے ان کی انصاف پروری اور دینی صلاحیت کو اجاگر کرنے کی مطلقاً ضرورت نہیں ہے حضرت ابوشحمہ کے متعلق قصہ داستان گو واعظین،غیر محتاط صوفیاء اور غیر محقق واقعہ نگاروں کی رنگ آمیزیوں کا رہین منت ہے۔ اصل حقیقت کچھ او رہے جو ان کی رنگ آمیزیوں میں گم ہوکر رہ گئی او رحضرت ابوشحمہ کا پاک دامن غلط کاری کےمکروہ و معیوب دھبوں سے داغدار ہوگیا ہمیں افسوس ہے کہ بعض مصنفین نے ایک ایسے واقعہ کو جس کا تعلق برگزیدہ مقدس ہستیوں سے ہے، تاریخ اور اصول روایت کے مطابق چھان بین کئے بغیر شائع کردیا۔

اس واقعہ کے متعلق ماہرین فن اور معتبر مستند مؤرخین کی تصریحات درج کی جاتی ہیں تاکہ ناظرین کو اصل واقعہ معلوم ہوجائے اور یہ حقیقت ان کے ذہن نشین ہوجائے کہ ابوشحمہ کا دامن معصیت کے داغ سے پاک و صاف ہے۔

علامہ جلال الدین سیوطی المتوفی 911ھ نے اپنی مشہور کتاب اللآلی المصنوعة في الأحادیث الموضوعة میں اس قصہ کو مختصر او رمطول دو طرح سے ذکر کیا ہے۔ مختصر واقعہ جس میں بیان کیا گیا ہے کہ پچاس کوڑے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے مارے اور پچاس کوڑے حضرت علیؓ کے ہاتھ سے۔ علامہ سیوطی نے اس واقعہ کے متعلق اپنا تحقیقی فیصلہ اور تحقیقی ریمارک یوں تحریر فرمایا ہے۔

موضوع وضعه القصاص وفي الإسناد من ھو مجھول۔

''یہ واقعہ سرتاپا بے اصل و بے بنیاد گھڑا ہوا ہے جسے داستان گو واعظین نے بنا اور گھڑ لیا ہے سلسلہ سند میں نامعلوم اشخاص موجود ہیں۔''

اور مطول قصے کے بعد لکھتے ہیں:

موضوع فیه مجاھيل قال الدارقطني حدیث مجاھد من ابن عباس في حدیث أبي شحمة لیس بصحیح وروي من طریق عبدالقدوس ابن الحجاج عن صفوان عن عمر و عبدالقدوس كذاب یضع بینه و بین عمر رجال۔

''یہ گھڑی ہوئی او ربالکل بے سند بات ہے سلسلہ سند میں کئی نامعلوم افراد ہیں۔ دارقطنی کہتے ہیں کہ مجاہد کی وہ حدیث جو ابن عباس سے ابوشحمہ کے بارے میں روایت کی جاتی ہے۔ صحیح نہیں ہے۔ عبدالقدوقس بن حجاج سے بھی یہ قصہ مروی ہے لیکن یہ عبدالقدوس جھوٹا اور کذاب ہے ۔حدیثیں خود اپنی طرف سے بنا بنا کر بیان کرتا ہے او راس کے اوپر راوی صفوان اور عمر کے درمیان سلسلہ سند منقطع ہے۔''

علامہ محمد طاہر تذکرۃ الموضوعات صفحہ 180 میں لکھتے ہیں:

حدیث أبي شحمة ولد عمرؓ و زناه و إقامة عمر علیه الحدود مرتبته بطوله لا یصح بل وضعه القصاص انتھیٰ أوھکذا في الفوائد المجموعة صفحہ 69 للعلامۃ الشوکانی و مجمع (بحار الانوار صفحہ 517ج3)

''ابوشحمہ ابن عمرؓ کا واقعہ زنا۔ ان پر حد جاری کرنا اور اس کی وجہ سے ان کی موت پر یہ پورا قصہ غلط ہے او رگھڑا ہوا ہے۔''

اصل واقعہ: علامہ ابن سعد و علامہ ابن الجوزی وغیرہم کی تصریحات کے مطابق واقعہ اس قدر ہ کہ ابوشحمہ رضی اللہ عنہ مصر میں جہاد کی غرض سے تشریف فرما تھے۔ عرب میں نبیذ استعمال کرنے کا عام دستور تھا۔ کھجور یا کشمش شام کو پانی میں بھگو دیتے ۔ صبح تک پانی میٹھا ہوکر شربت بن جاتا۔ صبح کےناشتے یا کھانے کے ساتھ اس شربت کو استعمال کرتے اور اسی طرح صبح کوبھگو دیتے اور شام کو کھانے کے ساتھ یہ شربت پیتے۔ اس شربت کو جس میں نہ کوئی خاص بو پیدا ہوتی اور نہ ذرہ بھر نشہ۔نبیذ کہا جاتا ہے جس کا استعمال باتفاق علماء جائز او رمباح ہے۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے استعمال فرماتے تھے۔ (ابوداؤد صفحہ 166 ج2 بروایت حضرت عائشہؓ) نشہ کا شبہ اور گمان ہوجانے کے بعد جس کی خاص ظاہری علامتیں ہیں نبیذ کا پینا حرام اور ممنوع ہے)

حضرت ابوشحمہؓ جو نہایت متورع او رمتدین شخص تھے۔ سنت نبوی کے مطابق نبیذ استعمال فرماتے۔ ایک دن کاواقعہ ہے کہ اس اطمینان کے بعد کہ نبیذ میں سکر (نشہ) کا اثر نہیں ہے آیا ہے انہوں نے نبیذ استعمال کی کچھ دیر کے بعد انہیں نشہ کا معمولی اثر محسوس ہوا۔ شرعاً انہوں نے کوئی تقصیر نہیں کی تھی اس لیے ملامت یا تعزیر و حد کے مستوجب قطعاً نہ تھے۔ نہ دیانتہً اور قضاً لیکن غلبہ خوف الہٰی اور غایت درع و خشیت الہٰی کی وجہ سے انہوںن اپنے کو قصور وار سمجھا محض اس لیے کہ اس معاملے میں جس غایت درجہ احتیاط او راطمینان کی ضرورت تھی اس سے انہوں نے کام نہ لیا۔ بہرکیف وہ حضرت عمرو بن العاص (فاتح مصر) گورنر کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کرتے ہیں کہ مجھ پر حد شرعی جاری کیجئے ورنہ دربار خلافت میں رپورٹ کردوں گاکہ عمرو بن العاص حدود الہٰی کے جاری کرنے میں کمزور اور سست ہیں۔ فاروق اعظم کے جلال اور تصلب فی الدین کا نقشہ سامنے آگیا۔ ابوشحمہ پر ان کے اطمینان قلب کے لیے حد جاری کردی لیکن قصر حکومت میں جہاں عام مجمع نہ تھا۔ واقعہ نگاروں نے اس واقعہ کی اطلاع دربار خلافت میں کردی۔ امیرالمؤمنین نے گورنر مصر کو ملامت آمیز خط لکھا کہ میرے بیٹے ابوشحمہ کے ساتھ اجراء حدود الٰہی میں عام مسلمانوں جیسا برتاؤ کیوں نہیں کیا؟ یعنی عبرت کے لیے عام مجمع میں کیوں نہ حد جاری کی گئی؟ پھر جب ابوشحمہ مدینے پہنچے تو خلیفہ وقت نے عام مجمع میں ابوشحمہ کو بے احتیاطی کرنے پر جسمانی سزا دی جیسے باپ بیٹے کو اس کے کسی قصور پر سزا دیا کرتا ہے کچھ دنوں کے بعد ابوشحمہ اتفاق سے بیمار پڑ گئے اور اسی بیماری میں انتقال فرمایا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔

یہ ہے اصل واقعہ جس کو داستان گو واعظین نے کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔

علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ یہ واقعہ اس طرح لکھتے ہیں:

عبدالرحمٰن بن عمر الأوسط ھو أبوشحمة وھو الذي ضربه عمر و بن العاص بمصر في الخمر حمله إلی المدینة فضربه أبوه الوالد ثم مرض ومات بعد شھر ھکذا یرويه معمر عن الزھري عن سالم عن أبيه۔ وأما أھل العراق فیقولون إنه مات تحت سیاط عمرو ذالك غلط وقال الزبیر أقام عليه عمر حد الشرب فمرض و مات۔ (الاستیاب: صفحہ 395 ج2)

علامہ طاہر رحمہ اللہ اس واقعہ کا ذکر اس طرح فرماتے ہیں:
ماروي أن عبدالرحمٰن الأوسط من أولاد عمر ویکنی أبا شحمة غازیا بمصر فشرب نبیذا فجاء ملی ابن العاص وقال أقسم علی الحدود فامتنع فقال أخبر أبي إذا قدمت فضربه الحد في داره فلامه عمر قائلا إلافعلت به ماتفعل بالمسلمین فلما قدم علی ضربه واتفق أن مرض فمات( مجمع بحار الانوار: صفحہ518 ج3)

ٹھیک یہی واقعہ علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ اللآلی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ میں لکھتے ہیں|:

''زبیر بن بکار او رابن سعد نے طبقات میں او ران کےعلاوہ دوسرے لوگوں کا بھی قول ہے کہ عبدالرحمٰن الاوسط جن کی کنیت ابوشحمہؓ تھی مصر میں مجاہد اور غازی کی حیثیت سے تھے۔ ایک رات کونبیذ پی لی جس سے کچھ نشہ محسوس کیا، اس وقت عمرو بن العاصؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہا کہ مجھ پر حد لگائیے (چونکہ شرعی نقطہ نظر سے حد کے سزاوار نہ تھے اس لیے عمروبن العاصؓ نےاقامت حد سے انکار کیا۔لیکن ابوشحمہ اپنے اوپر حد لگوانے اڑے رہے او رکہا کہ اگر آپ اس سے گریز فرمائیں گے تو میں اپنے باپ حضرت عمرؓ کے پاس آپ کے وہاں پہنچنے پر اس کی شکایت کردوں گا۔ الغرض عمرو بن العاص نے ابوشحمہ کے (اصرار پر) قصر حکومت کے اندر ان پرحد قائم کی جس پر حضرت عمرؓ نے عمروبن العاص کو ملامت آمیز لہجہ میں تحریر فرمایا کہ جس طرح عام مسلمین پرحدیں جاری کی جاتی ہیں اس طرح ابوشحمہ پر بھی حد کیوں نہ قائم کی گئی؟ پھر جب ابو شحمہ واپس (مدینہ) آئے تو خود حضرت عمرؓ نے (تادیبی طور پر) جسمانی سزا دی اس کے بعد اتفاق طور پر عبدالرحمٰن بیمار ہوئے او ریہی علالت ان کی وفات کا باعث بنی۔'' (وہکذا فی فوائد المجموعہ صفحہ 69 وتذکرۃ الموضوعات صفحہ 180 و اسد الغابۃ صفحہ 213 ج3 ۔وآخردعوانا ان الحمدللہ رب العالمین)
http://googleweblight.com/?lite_url=http://magazine.mohaddis.com/shumara/240-june-1979/2652-waqia-abu-shahma-had-haqiqat&ei=r_EqBrRI&lc=en-IN&geid=28&s=1&m=65&host=www.google.co.in&ts=1491842549&sig=AJsQQ1BnnMezqHqVx6FvKGFNKrNcAfL19A

No comments:

Post a Comment