Sunday, 12 March 2017

کفیل احمد علوی؛ حیات اور خدمات

کفیل احمد علوی؛
عالم، مصنف، صحافی، شاعر اور میرے استاذ

مولانا کفیل احمد علوی کا سانحۂ ارتحال میرے لیے ذاتی رنج و الم کا باعث ہے کیوں کہ میں نے قلم و قرطاس سے وابستگی کے سفر کی باقاعدہ شروعات انہی کی رہنمائی و تربیت میں کی تھی، وہ ایک مخلص ترین استاذ تھے اور سادہ ترین انسان، دوسال مسلسل میں نے انھیں قریب سے دیکھا، ان کی اپنی ہی دنیا تھی، گردوپیش کے ہاؤہو سے بے نیاز وہ اپنے آپ میں مگن رہتے، بغل میں ایک چھوٹاسا بیگ دبائے پابندی سے شیخ الہند اکیڈمی آتے، صحافت و تحریر کے حوالے سے طلبہ کی رہنمائی کرتے، صبح سے شام تک مختلف مرحلوں میں چائے کا دور چلتا اور تعلیمی وقت کے اختتام کے ساتھ ہی وہ اپنے گھر کو روانہ ہوجاتے، کم و بیش پچاس سال انھوں نے دارالعلوم دیوبند کے مختلف شعبوں میں استاذ، نگراں یا ذمے دارکی حیثیت سے گزارے، مگر وہ کسی بھی قسم کی انتظامی یا غیر انتظامی سیاست سے یکسر الگ رہے، اسی کی دہائی میں احاطۂ دارالعلوم میں جو سونامی آئی تھی، اس کے وہ چشم دید گواہ تھے؛بلکہ کئی بار انھوں نے مجھے اس دورکے بعض دلچسپ واقعات بھی سنائے لیکن اس پورے ایپی سوڈ میں وہ کسی بھی قسم کے تنازع سے دور ہی رہے۔ ان کی نگاہ معاملہ شناس اوردل دماغ بیدارتھے، اس لیے وہ جھوٹی عقیدت و محبت کے پردے میں کسی کا آلۂ کار یا کسی استحصالی نظام کا حصہ بننے سے محفوظ رہے ـ
ان کے والد مولانا جلیل احمد کیرانوی دارالعلوم کے استاذِ حدیث تھے، سوان کی پوری تعلیم از ابتدا تا انتہا وہیں ہوئی، اس کے بعد تازندگی دارالعلوم ہی میں تدریسی، تصنیفی، صحافتی خدمات انجام دیں۔ ان کا اصل میدانِ عمل تحریروتصنیف اور شعر وشاعری تھا، 1950ء سے انھوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا تھا اور تجلی، ماہنامہ دارالعلوم اور چراغِ حرم جیسے رسائل میں چھپنے لگے تھے، اس کے بعد مختلف ادوارمیں ان کے قلم سے تقریرِبخاری، اسلام مدینہ سے مدائن تک، اعجازِ نبوی اور راہِ حق کے مسافر جیسی کتابیں منظرِعام پر آئیں، نئی انتظامیہ کے تحت جب پندرہ روزہ دارالعلوم نامی اخباری جریدے کا اجرا عمل میں آیا، تو اس کی ادارت انھیں سونپی گئی اور اپریل 2009ء تک انھوں نے اس پرچے کی بخوبی ادارت کی، اس دوران ملکی و عالمی حالات پر انھوں نے بیش قیمتی شذرات تحریر فرمائے، جب روزنامہ سہارا شروع ہوا، تو ابتدامیں ایک عرصے تک اس میں کالم لکھا، پھران کی بے نیازطبیعت آڑے آگئی اور یہ سلسلہ رک گیا، اخبار والے مضمون کا مطالبہ کرتے اور وہ انھیں ٹالتے رہتے۔
کفیل صاحب طلبہ کی تربیت بڑے خلوص اور لگن کے ساتھ کرتے تھے ، اپنے شاگردوں کی کامیابی پربہت خوش ہوتے اور اس کا اظہار بھی کرتے،ان کے زیر تربیت کوئی طالب علم اگر اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتا، تودوسروں کے لیے اسے نمونہ قرار دیتے، کسی طالب علم کا کوئی مراسلہ یا مضمون کسی اخبار میں شائع ہوتا، تو بے پناہ خوش ہوتے، خود بھی کئی بار پڑھتے اور دوسروں کوبھی پڑھنے کے لیے دیتے، ہمارے ایک ساتھی تھے،جن کو پڑھنے لکھنے سے کے علاوہ دوسری بہت سی مصروفیات درپیش رہتی تھیں، انھیں بہت جلد اندازہ ہوگیا کہ کفیل صاحب اپنے شاگردوں کی تحریر اخبار میں چھپنے سے بہت خوش ہوتے ہیں، سو وہ اپنی عادت کے مطابق کلاس سے ہفتہ پندرہ دن غیر حاضر رہتے، پھر جب آتے اور مولانا ڈانٹنے کا موڈ بنا رہے ہوتے تو وہ فوراً ہی اپنا مراسلہ ان کے سامنے پیش کردیتے، اتنا دیکھتے ہی ان کا غصہ کافور ہوجاتا اور اس بندے کا جرم معاف. اکیڈمی میں قیام کے دوران ہی میں نے پاکستان کے معروف ادیب، صحافی و شاعر آغا شورش کاشمیری مرحوم کی مختلف تصانیف سے مضامین کا ایک انتخاب مرتب کیا اور اسے شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی، تو کفیل صاحب نے خوب حوصلہ افزائی کی اور کتاب پر تحسین آمیز تشجیعی کلمات بھی تحریر فرمائے، اس کے علاوہ دارالعلوم دیوبند کی صحافت پر اپنا تحقیقی پروجیکٹ (جو دارالعلوم دیوبند کا صحافتی منظرنامہ کے نام سے شائع ہوا) میں نے انہی کی رہنمائی میں مکمل کیا، شروع سے آخر تک مجھے ان کی نگرانی حاصل رہی بلکہ انھوں نے پورے مقالے کو تقریباً حرف بحرف پڑھا، حسبِ ضرورت ترمیم و اصلاح کی اور بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ شیخ الہند اکیڈمی کا قیام 1995 میں عمل میں آیا اور تب سے وہی اس کے مدیر تھے، اس عرصے میں ان کی تربیت کی بدولت دیوبند سے کئی ایسے فضلا نکل کر سامنے آئے ، جنھوں نے صحافت یا تصنیف و تحقیق میں خاصی شہرت حاصل کی اور متعلقہ حلقوں میں پنے آپ کو تسلیم کروایا، جب کفیل صاحب کو اپنے ایسے شاگردوں کے بارے میں پتا لگتا، تو ان کے چہرے کی چمک دیدنی ہوتی۔ وہ واقعی معنوں میں ایک مخلص استاذ تھے۔ سادگی ان کے رگ و پے میں ایسی تھی کہ انھیں دیکھ کر کوئی اندازہ نہیں لگاسکتا کہ وہ کس مرتبے کے انسان ہیں؛شہرت و ناموری سے گویا ساری عمر وحشت زدہ رہے، بے نیازی ایسی کہ ان کی تحریروں نے کئی ایک تیزطرار مولویوں کو صاحبِ تصنیف بنادیا۔کفیل صاحب نے ایک بار نے مجھے بتایا تھا کہ انھوں نے دارالعلوم دیوبند کی ایک تاریخ لکھی ہے، جو ابھی مسودے کی شکل میں ہے، میں نے انھیں دکھانے کو کہا تو وہ ٹال گئے، انھوں نے بتایا کہ اس میں انھوں نے اپنے آنکھوں دیکھے اور برتے ہوئے مختلف حالات وواقعات کوپوری غیر جانب داری کے ساتھ بیان کیا ہے، خاص طور پر انقلاب کے زمانے کے حالات کسی بھی رنگ آمیزی سے احتراز کرتے ہوئے اور جوں کے توں ذکر کئے ہیں، اس میں انھوں نے بعض موجودہ اکابرِ امت کے اُس زمانے کے ’’کارناموں‘‘ سے بھی پردہ اٹھایا ہے، جب وہ ’’اکابر‘‘ نہیں بنے تھے، پتا نہیں وہ مسودہ اکیڈمی میں ہی تھا یا ان کے گھر تھا، بہرحال اگر وہ دستیاب ہو اور چھپ کر آئے تو ایک دلچسپ چیز ہوگی۔
شعری خصوصیات بھی ان کے اندر بہت زیادہ پائی جاتی تھیں، وہ اگر کسی اور موزوں اور ادب پرور ماحول میں ہوتے تو ان کی طبیعت کے بے پناہ جوہر کھل کر سامنے آتے، فنی اعتبار سے شاعری کے رموز و اسرار انھوں نے عامر عثمانی سے سیکھے تھے اور پھر خود قادرالکلام شاعر ہوگئے تھے، آئینۂ دارالعلوم کے صفحات پر موقع بموقع ان کی خوبصورت غزلیں اور نظمیں مسلسل شائع ہوتی تھیں، ان کا ایک شعری مجموعہ بھی’’شوقِ منزل‘‘ کے نام سے طبع شدہ ہے، ان کی شاعری عامر عثمانی کی طرح مقصدیت سے معمور ہے،عموماً چھوٹی چھوٹی بحروں اور سادے الفاظ میں بڑی قیمتی بات کہہ جاتے ہیں، سماج اور معاشرے میں پائی جانے والی خامیوں، کمزوریوں اور ملک و ملت کے ناگفتہ بہ احوال کے پس منظرمیں ان کے بہت سے اشعار اور نظمیں خاص معنویت کی حامل ہیں، معروف شاعر ڈاکٹر کلیم احمدعاجز کی دعائیہ نظم ’’رات جی کھول کے پھرمیں نے دعا مانگی ہے‘‘ کی زمین میں کفیل صاحب کی بھی ایک طویل نظم ہے، جوآئینۂ دارالعلوم میں شائع ہوئی تھی، اس کے الفاظ، اسلوب، مشمولات، طرزِ اظہار واحساس میں بھی وہی نازکی، گدازوسوز پائے جاتے ہیں، جو کلیم عاجز صاحب کی نظم میں ہیں۔ بہر کیف کفیل صاحب نے بھرپور زندگی گزاری اور ہزاروں لوگوں کے لئے نفع بخش ثابت ہوئے، خلوت نشینی و بے نیازی نے اس دنیا میں انھیں شہرت وناموری سے دور رکھا، مگر امیدِ قوی ہے کہ اللہ عزوجل کے یہاں ان کی جملہ خدمات وحسنات کا بہتر سے بہتر بدلہ مقدر ہوگا۔
(نایاب حسن)
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1307472445977012&id=120477478009854

No comments:

Post a Comment