Thursday 16 March 2017

ان اللہ یحب التوابین

ایس اے ساگر
ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ نے لکھا ہے نیزمولانا شاہ حکیم اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک بیان میں بھی نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں جارہے تھے تو دیکھا کہ زازان نامی گویّا ساز بجابجا کر گا رہا تھا اور شائقینِ خمر یعنی شرابی اس کو گھیرے میں لیے ہوئے تھے۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کاش یہ اس اچھی آواز سے قرآن پڑھتا، 
یہ بات اس تک پہنچ گئی،
اس نے پوچھا مَن ھٰذا یہ کون ہے؟
لوگوں نے بتایا،
ھٰذَا صَاحِبُ رَسُولِ اﷲ
ِیہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے صحابی ہیں،
اس گویّے نے پوچھا
اَیش قَال؟
انھوں نے کیا کہا؟
لوگوں نے کہا
یٰالَیتَ ھُو یَقرَاُ القُراٰنَ بِھٰذَا الصَّوتِ الحَسَنِ
کاش یہ اس اچھی آواز سے قرآن پڑھتا۔
بس اس نے ساز توڑ دیا اور حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قدموں سے لپٹ گیا اور کہا کہ میں توبہ کرتا ہوں اور رونے لگا، 
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس شرابی اور گانے بجانے والے کو گلے لگا کرخود بھی رونے لگے، سب نے اعتراض کیا کہ ایک فاسق و فاجر کو جو ابھی ابھی گندے ماحول سے آرہاہے، آپ نے اتنا اونچا درجہ دے دیا کہ آپ اس سے لپٹ کر رو رہے ہیں؟ تو فرمایا کہ

ان اللہ یحب التوابین

جب اس نے توبہ کرلی تو قرآن میں خدا کا وعدہ ہے کہ ہم توبہ کرنے والوں کو اپنا محبوب بنالیتے ہیں تو جب خدا کا محبوب مجھ سے لپٹ کر رو رہا ہے تو میں کیوں نہ رووں؟
خواجہ صاحب کا شعر ہے
نیا توبہ شکن جب داخلِ مے خانہ ہوتا ہے
نہ پوچھو رنگ پر پھر کس قدر مے خانہ ہوتا ہے
اس شعر کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی گنہگار دین میں داخل ہوتا ہے تو بتاو کتنی خوشی ہوتی ہے، کوئی ڈاکو، کوئی چور، کوئی شرابی کبابی توبہ کرکے خانقاہ میں آجائے اور اللہ کی یاد میں رونے لگے تو دل چاہتاہے کہ اس کے قدم چوم لیں۔
.....

ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻳﻐﻨﻲ ﻳﺸﺮﺏ ﺍﻟﻤﺴﻜﺮ ، ﻭﻳﻀﺮﺏ ﺑﺎﻟﻄﻨﺒﻮﺭ، ﺛﻢ ﺭﺯﻗﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺘﻮﺑﺔ ﻋﻠﻰ ﻳﺪ ... ﻋـﺒـﺪ ﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﺼﺎﺭ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻣﻦ ﺧﻴﺎﺭ ﺍﻟﺘﺎﺑﻌﻴﻦ ، ﻭﺃﺣﺪ ﺍﻟﻌﻠﻤﺎﺀ ﺍﻟﻜﺒﺎﺭ ، ﻭﻣﻦ ﻣﺸﺎﻫﻴﺮ ﺍﻟﻌﺒﺎﺩ ﻭﺍﻟﺰﻫﺎﺩ .
ﻭﺇﻟﻴﻚ ﻗﺼﺔ ﺗﻮﺑﺘﻪ ، ﻛﻤﺎ ﻳﺮﻭﻳﻬﺎ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻧﻔﺴﻪ ﻗﺎﺋﻼً :
‏» ﻛﻨﺖ ﻏﻼﻣﺎً ﺣﺴﻦ ﺍﻟﺼﻮﺕ ،
ﺟﻴﺪ ﺍﻟﻀﺮﺏ ﺑﺎﻟﻄﻨﺒﻮﺭ ،
ﻓﻜﻨﺖ ﻣﻊ ﺻﺎﺣﺐ ﻟﻲ ﻭﻋﻨﺪﻧﺎ ﻧﺒﻴﺬ ﻭﺃﻧﺎ ﺃﻏﻨﻴﻬﻢ ،
ﻓﻤﺮ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻓﺪﺧﻞ ﻓﻀﺮﺏ ﺍﻟﺒﺎﻃﻴﺔ ‏( ﺍﻹﻧﺎﺀ ‏) ﻓﺒﺪﺩﻫﺎ ﻭﻛﺴﺮ ﺍﻟﻄﻨﺒﻮﺭ
ﺛﻢ ﻗﺎﻝ :
ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﻣﺎ ﻳﺴﻤﻊ ﻣﻦ ﺣﺴﻦ ﺻﻮﺗﻚ ﻳﺎ ﻏﻼﻡ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ ﻛﻨﺘﺄﻧﺖ ﺃﻧﺖ
ﺛﻢ ﻣﻀﻰ،
ﻓﻘﻠﺖ ﻷﺻﺤﺎﺑﻲ : ﻣﻦ ﻫﺬﺍ؟
ﻗﺎﻟﻮﺍ : ﻫﺬﺍ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ،
ﻓﺄُﻟْﻘِﻴﺖ ﻓﻲ ﻧﻔﺴﻲ ﺍﻟﺘﻮﺑﺔ ، ﻓﺴﻌﻴﺖ ﺃﺑﻜﻲ، ﻭﺃﺧﺬﺕ ﺑﺜﻮﺑﻪ،
ﻓﺄﻗﺒﻞ ﻋﻠﻲّ ﻓﺎﻋﺘـﻨـﻘـﻨﻲ ﻭﺑﻜﻰ
ﻭﻗﺎﻝ : ﻣﺮﺣﺒﺎً ﺑﻤﻦ ﺃﺣﺒﻪ ﺍﻟﻠﻪ، ﺍﺟﻠﺲ، ﺛﻢ ﺩﺧﻞ، ﻭﺃﺧﺮﺝ ﻟﻲ ﺗﻤﺮﺍً ‏« .
ﻭﻫﻨﺎ ﻧﻠﻤﺲ ﺻﺪﻕ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻭﺣﺴﻦ ﻧﻴﺘﻪ، ﻭﺻﺤﺔ ﻗﺼﺪﻩ ﻓﻲ ﺩﻋﻮﺗﻪ ﻟﺰﺍﺫﺍﻥ، ﻣﻤﺎ ﻛﺎﻥ ﺳﺒﺒﺎً ﻓﻲ ﻫﺪﺍﻳﺔ ﺍﻟﺮﺟﻞ ﻭﺗﻮﺑﺘﻪ
ﻟﻘﺪ ﺿﺮﺏ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻣﺜﺎﻻً ﺭﺍﺋﻌﺎً ﻓﻲ ﺍﻟﺸﺠﺎﻋﺔ ﻭﺍﻹﻗﺪﺍﻡ ﻋﻠﻰ ﺍﻟﺼﺪﻉ ﺑﺎﻟﺤﻖ، ﻭﺗﻐﻴﻴﺮ ﺍﻟﻤﻨﻜﺮ، ﻻ ﻳﺨﺎﻑ ﻓﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻟﻮﻣﺔ ﻻﺋﻢ، ﻣﻊ ﻛﻮﻧﻪ ﻭﺣﻴﺪﺍً، .... ﻭﻫﻢ ﺟﻤﺎﻋﺔ ﻛﻤﺎ ﻫﻮ ﻇﺎﻫﺮ ﺳﻴﺎﻕ ﺍﻟﻘﺼﺔ ، ﺇﺿﺎﻓﺔ ﺇﻟﻰ ﻗﺼﺮﻩ ﻭﻧﺤﺎﻓﺘﻪ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ .
ﻟﻜﻦ ﻟﻤﺎ ﻛﺎﻥ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻣﻌﻈﻤﺎً ﻟﺤﺮﻣﺎﺕ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻭﺷﻌﺎﺋﺮﻩ ﺃﻭﺭﺛﻪ ﺫﻟﻚ ﻣﻬﺎﺑﺔً ﻭﺇﺟﻼﻻً .. ﻭﺻﺪﻕ ﻋﺎﻣﺮ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ ﺍﻟﻘﻴﺲ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﺣﻴﺚ ﻳﻘﻮﻝ :
‏» ﻣﻦ ﺧﺎﻑ ﺍﻟﻠﻪ ﺃﺧﺎﻑ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﻨﻪ ﻛﻞ ﺷﻲﺀ، ﻭﻣﻦ ﻟﻢ ﻳﺨﻒ ﺍﻟﻠﻪ، ﺃﺧﺎﻓﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻣﻦ ﻛﻞ ﺷﻲﺀ ‏« .
ﻓﺈﻧﻨﺎ ﻧﺪﺭﻙ ﻣﺪﻯ ﺷﻔﻘﺔ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻭﻛﻤﺎﻝ ﺭﻓﻘﻪ، ﻓﺈﻥ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻟﻤﺎ ﺃﻗﺒﻞ ﺗﺎﺋﺒﺎً، ﺃﻗﺒﻞ ﻋﻠﻴﻪ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻭﻋﺎﻧﻘﻪ ﻭﺑﻜﻰ ﻓﺮﺣﺎً ﺑﺘﻮﺑﺔ ﺯﺍﺫﺍﻥ، ﻭﺣﻴﺎﻩ ﺑﺄﺟﻤﻞ ﻋﺒﺎﺭﺓ ﻣﺮﺣﺒﺎً ﺑﻤﻦ ﺃﺣﺒﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻛﻤﺎ ﻗﺎﻝ ﺳﺒﺤﺎﻧﻪ ‏( ﺇﻥ ﺍﻟﻠﻪ ﻳﺤﺐَ ﺍﻟﺘﻮﺍﺑﻴﻦ ﻭﻳﺤﺐَ ﺍﻟﻤﺘﻄﻬﺮﻳﻦ ‏) ، ﻟﻴﺲ ﻫﺬﺍ ﻓﺤﺴﺐ ﺑﻞ ﺃﺟﻠﺴﻪ ﻭﺃﺩﻧﺎﻩ ، ﻭﺃﻋﻄﺎﻩ ﺗﻤﺮﺍً .
ﻭﻫﻜﺬﺍ ﻛﺎﻥ ﺃﻫﻞ ﺍﻟﺴﻨﺔ ﻭ ﺍﻟﺴﻠﻒ ﻳﻌﻠﻤﻮﻥ ﺍﻟﺤﻖ ﻭﻳﺪﻋﻮﻥ ﺇﻟﻴﻪ، ﻭﻳﺮﺣﻤﻮﻥ ﺍﻟﺨﻠﻖ ﻭﻳﻨﺼﺤﻮﻥ ﻟﻬﻢ .
ﻛﻤﺎ ﻧﻠﺤﻆ ﻣﻦ ﻫﺬﻩ ﺍﻟﻘﺼﺔ ﺫﻛﺎﺀ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﻭﻓﻄﻨﺘﻪ ، ﻓﺎﻧﻈﺮ ﻛﻴﻒ ﺍﺳﺘﺠﺎﺵ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺘﻮﺑﺔ، ﻓﺈﻥ ﺯﺍﺫﺍﻥ ﻛﺎﻥ ﻣﻐﻨﻴﺎً ﺣﺴﻦ ﺍﻟﺼﻮﺕ، ﻓﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ :
‏» ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﻣﺎ ﺳﻤﻊ ﻣﻦ ﺣﺴﻦ ﺻﻮﺗﻚ ﻳﺎ ﻏﻼﻡ ﺑﺎﻟﻘﺮﺁﻥ ﻟﻜﻨﺖ ﺃﻧﺖ ﺃﻧﺖ ‏«
ﻭﻓﻲ ﺭﻭﺍﻳﺔ ﻗﺎﻝ :
‏» ﻣﺎ ﺃﺣﺴﻦ ﻫﺬﺍ ﺍﻟﺼﻮﺕ ! ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﺑﻘﺮﺍﺀﺓ ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﻠﻪ ﺗﻌﺎﻟﻰ ﻛﺎﻥ ﺃﺣﺴﻦ ‏« .
ﺇﻥ ﺗﻮﺟﻴﻪ ﺍﻟﻤﻮﺍﻫﺐ ﻭﺍﻟﻘﺪﺭﺍﺕ، ﻭﻭﺿﻌﻬﺎ ﻓﻲ ﻣﺤﻠﻬﺎ ﺍﻟﻤﻼﺋﻢ ﺷﺮﻋﺎً، ﻣﻊ ﻣﺮﺍﻋﺎﺓ ﻃﺒﻴﻌﺔ ﺍﻟﻨﻔﺲ ﺍﻟﺒﺸﺮﻳﺔ، ﻭﺍﻟﻌﻠﻢ ﻭﻣﺸﺎﻋﺮﻫﺎ، ﻋﺎﻣﻞ ﻣﻬﻢ ﻟﻨﺠﺎﺡ ﺍﻟﺪﻋﻮﺓ ... ﻓﺈﻥ ﺍﻟﻨﻔﻮﺱ ﻻ ﺗﺘﺮﻙ ﺷﻴﺌﺎً ﺇﻻ ﺑﺸﻲﺀ ﻓﻼﺑﺪ ﻣﻦ ﻣﺮﺍﻋﺎﺓ ‏» ﺍﻟﺒﺪﻳﻞ ‏« ﺍﻟﻤﻨﺎﺳﺐ، ﻭﻫﺬﺍ ﻣﺎ ﻓﻘﻬﻪ ﺍﺑﻦ ﻣﺴﻌﻮﺩ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ

http://googleweblight.com/i?u=http://fatakat.com/thread/2050029&grqid=Al46M0hF&hl=en-IN


No comments:

Post a Comment