خالق کائنات نے عالم ارواح میں تمام بنی نوع انسان سے عہد الست لیا تھا جہاں سب نے اس کی ربوبیت کا اقرار کرکے یہ وعدہ کیا تھا کہ مرتے دم تک تیرے گھر سے جڑے رہیں گے، پھر جب اولاد آدم کو دھرتی پر بسایا گیا تو اسے آگاہ کردیا گیا تھا کہ شیطان تمہارا ازلی دشمن ہے وہ تمہیں اپنے گھر سے نکالنے کی انتھک کوشش کرے گا لیکن اس کے فریب میں مت آنا، آدم کی اولاد دس صدیوں تک وعدے پر قائم رہی اور اپنے اسی گھر میں بودوباش اختیار کرتی رہی جس میں اسے اس کے خالق نے بسایا تھا، لیکن دس صدیاں بیتنے کے بعد شیطان آدم کی اولاد کے پاس آیا اور انہیں اکسایا کہ تمہارے بڑے بڑے اولیاء جو اس دنیا سے جاچکے ہیں ان کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ان کے مجسمے بناکر اپنی نشست گاہوں میں رکھا کرو، اولاد آدم کو بات اچھی لگی اور انہوں نے مجسمے بناکر اپنی نشست گاہوں میں نصب کردیا، جب مرور ایام کے ساتھ مجسمے بنانے والے گذر گئے تو شیطان نےان کی اولاد کے پاس آکر یہ کہنا شروع کردیا کہ تمہارے آباءو اجداد مصیبت میں ان مجسموں سے مانگتے تھے اور انہیں ملا کرتا تھا، یہ پہلا وقت تھا جب شیطان نے اولاد آدم کو اس کے اصلی گھر سے نکال باہر کیا تھا اور علیحدہ گھر بناکر اس میں اولاد آدم کو بسانے میں کامیابی حاصل کرلی تھی، لیکن اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور انسانوں کو اپنا بھولا ہوا سبق یاد دلانے اور اپنے اصلی گھر کی طرف لوٹانے کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کو بھیجا، نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک بندوں کو ان کے اصلی گھر کی طرف بلاتے رہے۔ جب اکڑفو قوم گھر واپسی کے لیے تیار نہ ہوئی تو طوفان نوح کے ذریعہ انہیں نشان عبرت بنادیا گیا، پھر ہر زمانے میں اسی گھر کی طرف واپس کرنے کے لیے انبیاء کرام مبعوث کیے گئے جن کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار تک پہنچتی ہے، سارے انبیاء کا نعرہ ایک ہی تھا اور وہ تھا گھر واپسی، یہ گھر مکمل خوبصورتی اور عمدگی کے ساتھ بنایا گیا تھا البتہ اس کے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی، گویا لوگ اس کے گرد چکر لگاتے اور اس پرخوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں” یہ اینٹ کیوں نہ لگائی گئی؟” جب ساتویں صدی عیسوی میں دنیا اپنی پوری جوانی کو پہنچ گئی تو اللہ نے گھر کی اس اینٹ کو بھی مکمل کردیا، اور اس گھر کو ایسا مضبوط قلعہ اور حصن حصین بنا دیا کہ تمام جن وانس کی دنیوی اور اخروی کامیابی اسی گھر میں پناہ لینے پر موقوف ٹھہری، جس نے اس میں پناہ لی وہ دنیوی و اخروی زندگی میں کامیاب اور شادکام ہوا اور جو اس گھر سے باہر رہ گیا وہ دنیا و آخرت میں ناکام ونامراد رہا۔
چنانچہ سعادت مند روحیں انسانوں کے بنائے ہوئے کچے گھروندوں کو توڑ کر اس مضبوط گھر میں پناہ لینے لگیں جو اس کے خالق کا گھر تھا اور جس میں اسی کا قانون چلتا تھا، حتی کہ دنیا کے چپہ چپہ میں اس گھر کی طرف نسبت کرنے والے پھیل گئے اور انسانیت کے سامنے اس کا تعارف کرایا اور ایسا عملی نمونہ پیش کیا کہ پوری دنیا اس کی طرف لپکنے لگی۔
لیکن جب مسلمانوں کے ذہن و دماغ سے اس گھر کی عظمت نکل گئی، ان کے اندر سے دعوتی شعور نکل گیا اور وہ گھر واپس کرانے میں سستی برتنے لگے تو شیطان کے چیلے چست ہوگئے، ہر طرف کچے کچے گھروندے بنالیے گئے اور اس پر طرفہ تماشا یہ کہ مسلمانوں کو ایسے ہی گھروندوں میں پناہ لینے کی طرف دعوت دی جانے لگی جو تار عنکبوت سے بھی زیادہ کمزور ہیں۔
پچھلے دنوں ہندوستان کی فرقہ پرست جماعتیں آر ایس ایس اور بجرنگ دل جن کے وجود کا مقصد ہندوستان کو ہندو راشٹر میں بدلنا اور ہندو تہذیب کا احیاء ہے،نے تاج محل کے شہر آگرہ میں چند غریب مسلمانوں کو کارڈ بنوانے کا سبز باغ دکھا کرانہیں ایک مذہبی تقریب میں شریک کیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ انہوں نے ہندو دھرم قبول کرلیا ہے حالانکہ انہیں خود پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں، اگلے دن میڈیا والوں نے ان کی شاطرانہ چال کو بے نقاب کیا تب حقیقت سامنے آسکی۔ ان ہندو کٹر پنتھیوں نے اس عمل کو گھر واپسی کا نام دیا لیکن سوال یہ ہے کہ گھر ہے کہاں کہ گھر واپسی ہوگی، ہندو دھرم اپنے تضادات، اختلافات اور مذہبی ناہمواریوں کے باعث اپنے اندر کسی طرح کی کشش نہیں رکھتا، شرک اور متعدد خداؤں کی پوجا پر مشتمل دھرم آخر فطرت پر پیدا ہونے والوں کا دھرم کیسے ہوسکتا ہے، ایک مسلمان خواہ کتنا ہی کمزور ہو اسلام کی آفاقی تعلیمات کو چھوڑ کرخودتراشیدہ مذہب کو گلے نہیں لگا سکتا، اس کا احساس خود اسلام دشمن طاقتوں کو ہے کہ انہوں نے جس شاخ نازک پر اپنا آشیانہ بنا رکھا ہے نہایت ناپائیدار ہے بلکہ مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے، وہ یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ اسلام اپنی فطری تعلیمات کی بنیاد پر دنیا کے چپہ چپہ میں پھیل رہا ہے، اس لیے انہوں نے گھر واپسی کا ایجنڈا بنایا ہے تاکہ ہندوؤں میں اپنے مذہب کے تئیں احساس برتری پیدا کرسکیں کہ جب ہندوؤں کے اندر برتری کا احساس پیدا ہوگا تو خود بخود اسلام کا فروغ مدھم پڑ جائے گا۔ اسی طرح وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان میں تبدیلی مذہب کا قانون لاگو ہوجائے تاکہ کوئی تبدیلی مذہب کی جرأت نہ کرسکے ۔
ایسے نازک حالات میں مسلم قائدین کی بہت بڑی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، پلاننگ کے ساتھ ان خطوں میں جہاں مسلمان دین سے دور ہیں دعوتی وفود بھیجے جائیں، ان کے ذہن د دماغ میں اسلام کی عظمت اور آفاقیت بٹھائی جائے، اور یہ احساس پیدا کیا جائے کہ وہ دینے والی قوم ہے لینے والی نہیں، وہ متاثر کرنے والی قوم ہے متاثر ہونے والی نہیں، وہ داعی ہے مدعو نہیں۔ ہر بستی اور قصبہ میں امت کے نونہالوں کے لیے تعلیمی مکاتب قائم کیے جائیں، جہاں تعلیم بالغاں کا بھی اہتما م ہو۔مساجد کو محض نمازوں کی ادائیگی تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اسے فعال اور تربیتی مرکز بنایاجائے، اصحاب ثروت اپنے صدقات و خیرات کے ذریعہ غریب مسلمانوں کے مسائل حل کریں کہ بسااوقات جہالت اور مالی تنگی کے باعث کچھ لوگ اپنے ایمان کو بیچ ڈالتے ہیں۔اور داعیان دین کو چاہیے کہ گھرواپسی کوموضوع بنا کر غیرمسلموں کواسلام کی طرف دعوت دیں کہ اصل گھر واپسی تو اسلام کی طرف پلٹنا ہےجس پر ہربچے کی پیدائش ہوتی ہے، ہندودھرم کی مذہبی کتابیں بھی توحیدو رسالت اور یوم آخرت کی تائید کرتی ہیں اور ان میں رحمت عالم ﷺ کی بعثت کی پیشین گوئیاں بھی موجود ہیں، خود ان کے بڑے بڑے پنڈتوں نے اپنی مذہبی کتابوں کے حوالے سے ثابت کیا ہے کہ ویدوں میں ۳۱ جگہ پر نراشنس اور پرانوں میں کلکی اوتار کے جو صفات بیان کیے گئے ہیں ان سے مراد محمد ﷺ ہی ہیں جن کو مانے بغیر ہندوؤں کو نجات نہیں مل سکتی، اس طرح اگر داعیان دین نے پلاننگ کی تو گھر واپسی کا یہ ایشو ان شاءاللہ ہندوؤں کی اسلام کی طرف واپسی کا ذریعہ بنے گا۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔
تحریر
صفات عالم
Friday, 28 August 2015
کسے کہتے ہیں گھر واپسی؟
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment