Wednesday 5 August 2015

علما،طلبہ اورذمہ دارانِ مدارس سے کچھ باتیں!

ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً چودہ فیصداورمجموعی تعدادلگ بھگ پچیس کروڑہے۔ہندوستانی مسلمانوں کی معاشی اور تعلیمی حالت کے جائزے پر مشتمل سچرکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق صرف چارفیصدیا اس سے بھی کم مسلمان ایسے ہیں جن کے بچے مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔باقی کے چھیانوے فیصدمیں سے غیر معمولی تعداد ایسے بچوں کی ہے،جنھوں نے یا تو اسکول کالج کا منہ ہی نہیں دیکھایادیکھاتوابتدائی سالوں سے آگے نہ بڑھ سکے اورڈراپ آؤٹ ہوگئے۔ایسے میں ہندوستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے ہزارہامدارس کا یہاں کے مسلمانوں پر عظیم احسان ہے کہ وہ ان کے بچوں کونہ صرف تعلیم دیتے ہیں،بلکہ انھیں اعلیٰ اخلاق سے بھی آراستہ کرتے ہیں اور انھیں زندگی گزارنے کے ایسے اصول ونظریات سے آگاہی بخشتے ہیں،
جو ربانی ہدایات پر مبنی ہوتے اور دنیا وآخرت دونوں میں کام آنے والے ہوتے ہیں۔یہ مدارس نہ صرف مسلمانوں کے مذہبی تشخص اور ان کی شناخت کے محافظ ہیں بلکہ یہ ملک کو باوقار اور ذمہ دار شہری بھی فراہم کرتے ہیں۔آنے والی حکومتیں تعلیم کو فروغ دینے کے نام پر عوام کا اچھا خاصا پیسہ صرف کرنے کے باوجود بھی اُس منظم انداز میں تعلیم کوبڑھاوانہیں دے پاتیں،جس منظم اندازمیں ہمارے مدارس یہ کام کرتے ہیں۔ان مدرسوں کی ایک بڑی اور ناقابل فراموش خوبی یہ ہے کہ یہاں بچوں کی تعلیم سے لے کر ان کی رہایش ، طعام اوربہت سی جگہوں پر علاج معالجے تک کی ضروریات بلا کسی عوض اور فیس کے پوری کی جاتی ہیں،دارالعلو دیوبندجیسے آفاق گیرادارے میں داخلے کے لیے مقابلہ جاتی امتحان میں کامیاب ہونے کے بعدصرف پچاس روپے میں داخلے کی تمام کارروائیاں مکمل ہوجاتیں اوراس کے بعدقیام وطعام سے لے کرپڑھنے کی کتابیں تک مفت مہیاکرائی جاتی ہیں،مزیدیہ کہ طلبہ کوہرماہ وظائف بھی دیے جاتے ہیں۔مدارس اسلامیہ کا یہ کردار ایسا ہے کہ اس کا اعتراف نہ صرف مسلمانوں کو کھلے دل سے کرنا چاہیے بلکہ حکومتِ وقت کوبھی ان کا احسان مندہونا چاہیے کہ انھوں نے حکومت کاکام اپنے ذمے لے رکھاہے۔
البتہ کچھ پہلوایسے ہیں جن پرموجودہ ماحول کو دیکھتے ہوئے اربابِ مدارس کوتوجہ دینی چاہیے۔ان میں سے ایک تو نصاب کا مسئلہ ہے،جووقفے وقفے سے ہمیشہ زیر بحث آتارہتاہے۔ایک طبقہ ایسا ہے جویہ کہتاہے کہ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے نام پر مدارس کے تعلیمی نصاب و نظام میں اساسی تبدیلی کی ضرورت ہے ،جبکہ ایک دوسراطبقہ روایت سے سرِموہٹنے کو تیار نہیں۔حالاں کہ یہ دونوں خیالات انتہاپسندی اور افراط وتفریط پر مبنی ہیں۔کیوں کہ نہ تو مدارس کے نصاب کو سرے سے بدل دینا درست تجربہ ثابت ہوگا اور نہ ہی دوسو،ڈھائی سو سال پہلے کے نصاب پر اڑے رہناطلبۂ مدارس کے حق میں مفید ثابت ہوگا۔اہلِ نظراور روشن دماغ علمائے کرام کی معتدبہ جماعت کا یہ خیال ہے کہ وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق نصاب میں تبدیلی کی جانی چاہیے اورخوددارالعلوم دیوبند سمیت متعددمرکزی اداروں میں یہ تجربہ کیاجاچکااور کیاجاتارہتاہے،یہی رائے اور عمل درست بھی معلوم ہوتاہے۔
چوں کہ شوال کے مہینے میں ہی مدرسوں کے تعلیمی سال کا آغاز ہوتاہے؛اس لیے اس کے پیش نظرراقم کچھ ضروری باتوں کی جانب توجہ دلانا چاہتا ہے۔ ایک تو یہ کہ مدرسوں میں جونصاب بھی پڑھایاجاتاہے،اس میں بچوں کورسوخ پیداکرنے کی بھرپورمحنت اور جدوجہد ہونی چاہیے،اساتذہ محنتی ،بچوں کے حق میں مخلص اورنیک ہوں،تاکہ طلبہ پران کا اثرپڑے اوروہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ان کے اخلاق و کردار سے بھی متاثر ہوں۔عربی درجات میں شروع سال میں جن اساتذہ کے سپردجوکتابیں کی جائیں،تواولاً توان کی دلچسپی ،صلاحیت اور قابلیت کوملحوظ رکھاجائے اور دوسرے یہ کہ انھیں اس بات کا مکلف بنایا جائے کہ وہ تعلیمی سال کے آغازسے ہی اسباق میں ایک منطقی توازن اوراعتدال ملحوظ رکھیں تاکہ آسانی کے ساتھ مقررہ نصاب مکمل ہوسکے۔اس کا بڑا فائدہ یہ ہوگاکہ نہ تو بچوں کے ذہن و دماغ پربوجھ پڑے گا،نہ اساتذہ کو سال کے آخرمیں زیادہ محنت کرنے اور تعلیمی اوقات کے علاوہ میں سبق پڑھانے کی نوبت آئے گی اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگاکہ طلبہ پڑھائے جانے والے مضمون پر حاوی ہوجائیں گے اوروہ متعلقہ کتابیں اچھی طرح یادرکھ سکیں گے اور سمجھ سکیں گے۔درجات حفظ میں بھی اساتذہ کا قرآن کریم کی قراء ت کے اصول و قواعدسے اچھی طرح واقف ہونااورقرآن یاد کروانے کے فن سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔حفظ کے بچے عموماً کم عمراور ناسمجھ ہوتے ہیں،اس لیے انھیں قابومیں رکھنا تھوڑامشکل ضرورہے،لیکن اگر استاذاپنے طلبہ سے محبت کرنے والااور مخلص ہو،توانھیں بآسانی تعلیم کی طرف راغب کرسکتاہے۔بچوں کوبے جا زدوکوب کرنا،نفسیاتی طورپرہراساں کرنا اوربات بات پر ڈانٹناپھٹکارناہرگزبھی مناسب نہیں ہے۔کم عمرکے طلبہ اپنے اساتذہ کے ان رویوں کی وجہ سے اکثروبیشتر تعلیم سے متوحش ہوجاتے اورعموماً ایسے بچے پڑھ ہی نہیں پاتے۔اس لیے حفظ اورپرائمری درجات میں ایسے اساتذہ ہوں،جوبچوں کی نفسیات سے واقف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ذمے داریوں کوبخوبی نبھانے والے بھی ہوں،تاکہ بہتر نتائج برآمدہوں اورقرآن کریم کی تعلیم زیادہ سے زیادہ عام و تام ہوسکے۔
ماضی میں مدارس میں جس قدرزورطلبہ کی تعلیم پر دیاجاتا تھا،اسی قدربلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ توجہ ان کی تربیت پر صرف کی جاتی تھی؛کیوں کہ آج جوبچے ہیں،کل وہ معاشرے کے معمار اور ذمہ دار افراد ہوں گے،ان ہی کے کندھوں پرقوم و ملت کی قیادت و سیادت کی ذمے داری ہوگی،اس لیے انھیں ایسی سیرت اور کردار میں ڈھالنا چاہیے،جوپوری امت ہی نہیں ،برادرانِ وطن کے لیے بھی نمونہ اورباعثِ کشش ہو۔خاص طورسے آج کے ماحول میں جبکہ اخلاقی بے راہ روی اورگراوٹ بہت ہی عام ہوچکی ہے،مدارس کے فضلاہی ہیں،جواسلامی تعلیمات و ہدایات کی روشنی میں مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں،مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ انھیں صرف قرآن و حدیث کی تعلیم ہی نہ دی جائے،بلکہ عملی مشق بھی طالب علمی کے زمانے میں ہی کرائی جائے۔تاکہ یہ لوگ عملی میدان میں آکرمعاشرے کی اصلاح و تعمیرکی مطلوبہ ذمے داری بخیر و خوبی انجام دے سکیں۔آئے دن ملک بھر کے سیکڑوں مدارس میں جلسہ وغیرہ کے مواقع پر جاتا رہتاہوں،اکثروبیشترمجھے وہاں کے روحانی ماحول،طلبہ کے اچھے اخلاق اورعمدہ طرزِزندگی سے خوشی محسوس ہوتی ہے،مگر بعض دفعہ ایسے حالات بھی سامنے آجاتے ہیں،جنھیں دیکھ کرلگتاہے کہ ہمارے مدارس میں تربیت کے پہلوپراتنی توجہ نہیں دی جارہی ہے،جتنی پہلے دی جاتی تھی اور جتنی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ویسے تعلیم اور تربیت دونوں کے سلسلے میں اساتذہ کی ذمے داری توہے ہی،مگرزیادہ ذمے داری مدارس کے مہتممین اور نظماکی ہے،جوان مدارس کے ذمے دار ہی نہیں،ان میں تعلیم حاصل کرنے والے امت کے نونہالوں کے کفیل اور ضامن بھی ہیں۔ان کی ذمے داری صرف یہ نہیں کہ اپنے مدرسوں میں اچھے،محنتی اور قابل اساتذہ بحال کریں،بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اساتذہ کا انتخاب کرتے وقت انھیں یہ بھی ملحوظ رکھنا چاہیے کہ وہ استاذبچوں کی صحیح طورسے تربیت کرسکتے ہیں یانہیں۔نظامت اور اہتمام کوئی منفعت کا سودانہیں،ایک عظیم ذمے داری ہے۔پوری قوم آپ پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے خون پسینے کی کمائی آپ کے سپرد صرف اس لیے کرتی ہے کہ وہ آپ سے یہ امید رکھتی ہے کہ مدارس میں جوغریب،یتیم اور ناداربچے تعلیم حاصل کررہے ہیں،انھیں صحیح تعلیم کے ساتھ ان کی بہتر تربیت بھی کی جائے گی۔اسی طرح مدارس کے نظم و انتظام کوبھی شفاف بنانے پر بھرپورتوجہ دینی چاہیے۔موجودہ دورمیں اسلام اور مسلمان ساری دنیا کے اسلام دشمن عناصرکی نگاہوں میں کھٹک رہے ہیں،وہ کوئی بھی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے،جس کے ذریعے وہ مسلمانوں بطورِعلماے اسلام کوبدنام کرسکیں اور مدارس پرشک کی انگلی کھڑی کرسکیں۔اس لیے ہمیں بہت ہی پھونک پھونک کر قدم بڑھانا چاہیے اور تعلیم و تربیت سے لے کر نظم و انتظام تک کے تمام ترشعبوں میں بھرپوردیانت داری اور امانت داری کا ثبوت دینا چاہیے۔
اورجونئے فضلاتیار ہوکرعملی میدان میں رکھ رہے ہیںیاابھی وہ زیرِ تعلیم ہیں،ان کی یہ دینی،اخلاقی و انسانی ذمے داری ہے کہ اپنے آپ کودین کا بہترین عالم ہی نہ ثابت کریں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایک اچھاانسان بھی بناکر پیش کریں۔اخلاق وکردارکی بہتری،حسن اورخوبی سے ہی ہم اپنے مخالفین کامنہ بند کرسکتے ہیں۔اسلام کی دعوت و تبلیغ اور اشاعت میں بھی حسن اخلاق ایک اہم ترین عنصرکی حیثیت رکھتاہے اورمدارس چوں کہ تعلیم گاہ ہی نہیں،رجال سازی ومردم گری کے کارخانے بھی ہیں؛اس لیے ان کے فارغین و فضلاکااعلیٰ اخلاق و کردار سے متصف ومزین ہونا ازحدضروری ہے۔
مولانااسرارالحق قاسمی

No comments:

Post a Comment