Thursday, 20 August 2015

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب فرضی اقوال

ایس اے ساگر
ان دنوں سوشل میڈیا میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب اقوال کا سیلاب سا آیا ہوا ہے
 ان کے ساتھ نہ تو کوئی مستند حوالہ موجود ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اور ریفرنس۔
حضرت علی رضی اللہ عنہہ کو علم کے شہر کا دروازہ کہا گیا تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اپنی مرضی سے اقوال گھڑ کر ان سے منسوب کرکے اپنی پوسٹ پر لائیک اکٹھے کرنے شروع کردیں۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تصنیف نہج البلاغہ کتاب کے مصنف کا نام بھی صحیح طو ر سے متعین نہیں ہے۔ عمدۃ الطالب کے شیعہ مولف نے الشریف الرضی کا اسکا مصنف جبکہ بعض مورخین نے اسکے بڑے بھائی الشریف المرتضے کو اسکا مصنف بتا یا ہے۔ بعض محقیقین کی تحقیق میں شریف الرضی و شریف المرتضی ہی تنہا اس کتاب کو مصنف نہیں بلکہ چند فصحائے شیعہ کے مقالات کا مجموعہ ہے جسے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کردیا گیا ہے، اور حضرت موصوف کے بعض کلمات کو مسخ کرکے اپنے مقالات میں شامل کردیا گیا ہے۔ علامہ الذہبی نے میزان الاعتدال میں شریف المرتضے کا تعارف ان الفاظ میں کروایا ہے کہ علی بن الحسین الحینی المرتضی المتکلم الرافضی المعزلی صاحب تصانیف میں لکھا ہے کہ نہج البلاغہ کتاب انہوں نے ہی وضع کی ہے۔ مضامین کتاب کے بارے میں علامہ ذہبی فرماتے ہیں۔
خطبوں اور تقریروں کے علاوہ مراسلات اور اقوال و حکم کا پیشتر حضہ وضعی اور جعلی ہے، خصوصا حکم کے اقوال دوسروں کی جیب سے نکال کر اپنے ممدوح کی جیب میں ڈال دئیے ہیں۔ لیکن بہت سی اندرونی شہادتیں، خطبات ، اسلوب بیان اور ایسے معرب الفاظ کو جو لغت میں مولدۃ کہلاتے ہیں اور تیسری چوتھی صدی ہجری میں کتب یونانی وغیرہ کے تراجم کی ضرورت سے وضع ہوئے تھے، اس میں موجود ہیں، جو اس کا بین اور مسکت ثبوت ہیں کہ اس کتاب کا زمانہ تصنیف بنی بویہ کی امیر الامرائی کے زمانے چوتھی ، پانچویں صدی ہجری کے درمیان ہے، بعد میں بھی وقعتا فوفوقتا اضافہ ہوتے رہے ہیں، البتہ جزو قلیل ان خطبات و مراسلات میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فرمودات بھی شامل ہیں جو دوسری کتب مین بھی پایا جاتا ہے، لیکن بیشتر مواد اس کتاب کا محض وضعی ہے۔
اس کتاب کے مصنفین شریف الرضی و شریف المرتضی اور دوسرے غالی روافض کی سکونت بغداد کے محلے الکرخ میں تھی۔ کتب تاریخ میں خاص کر علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ کی البدایہ والنھایہ میں ان فسادات کے تذکرے ہیں جو تقریبا ہر سال بغداد میں محلہ الکرخ کے غالی رافضیوں کے جارحانہ طرز عمل سے ہوتے رہتے تھے، بنی بویہ کی حمایت نے انہیں دلیر کردیا تھا کہ وہ صحابہ کی علی الاعلان بدگوئی کریں، حتی کہ مہیار ویلمی شاعر جو مجوسی تھا اور بقول الفمی شریف الرضی کے غلاموں میں سے تھا، وہ بھی اپنے آقا کی طرح غالی تھا۔ وہ بھی صحابہ کی بدگوئی کرنے لگا ۔ ابوالقاسم بن برہان نے اس پر ، اس سے کہا تھا، مہیار! تم جہنم کے ایک کنارے سے ہٹ کر اسی کے دوسرے کنارے پر جاپہنچے ، یعنی تم مجوسی تھے، اسلام لے آئے، مگر پھر صحابہ کی بدگوئی کا ارتکاب کرنے لگے۔ یہ شریف الرضی ہی کی صحبت کا نتیجہ تھا کہ ایک نومسلم بھی سب صحابہ کا ارتکاب کرنے لگا۔ غرضیکہ سب و شتم صحابہ کی اس فضا میں بنی بویہ کی حمایت کے بھروسہ پر یہ کتاب مرتب و مدون ہوئی، جو فروغ رفض کے دوسرے کاموں کی طرح بنی بویہ کے عہد کی یادگار ہے ، مگر اسکی شہرت زمانہ تصنیف سے تقریبا دو صدی بعد اس وقت ہوئی جب آخری خلیفہ عباسی کے رافضی وزیر ابوطالب علقمی نے ابن الحدید (یہ بھی ایک تقیہ باز شیعہ تھا، جو اہل سنت کالبادہ اوڑھ کر انکی صفوں میں گھسا ہوا تھا) سے اسکی شرح لکھوائی۔
کسی کو شک ہو تو وہ
حقیقت سید و سادات
 از علامہ محمود احمد عباسی  
صفحہ ۱۴۲ ۔ ۱۴۱
سے رجوع کر سکتا ہے...

No comments:

Post a Comment