Thursday, 27 August 2015

قادیانی اور مسلمان میں تفاوت

مسلمان اور
قادیانی کے کلمہ
اور
ایمان میں
کیا ہے
بنیادی فرق؟؟؟

وہ حضرات جو دین کا زیادہ علم نہیں رکھتے لیکن مسلمانوں کے آپس کے افتراق سے بیزار ہیں، قادیانیوں کے سلسلہ میں بڑے گومگو میں ہیں، ایک طرف وہ جانتے ہیں کہ کسی کلمہ گو کو کافر نہیں کہنا چاہئے، جبکہ قادیانیوں کو کلمہ کا بیج لگانے کی بھی اجازت نہیں ہے، دوسری طرف وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جھوٹا دعوی نبوت کیا تھا،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قادیانی جو مسلمانوں کا کلمہ پڑھتے ہیں کیونکر کافر ہیں؟

اہل علم نے اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ قادیانیوں سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ اگر مرزا غلام احمد قادیانی نبی ہیں، جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے، تو پھر آپ لوگ مرزا صاحب کا کلمہ کیوں نہیں پڑھتے؟ مرزا صاحب کے صاحب زادے مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے اپنے رسالہ “کلمة الفصل” میں اس سوال کے دو جواب دئیے ہیں۔ ان دونوں جوابوں سے آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے کلمہ میں کیا فرق ہے؟ اور یہ کہ قادیانی صاحبان “محمد رسول اللہ” کا مفہوم کیا لیتے ہیں؟
مرزا بشیر احمد صاحب کا پہلا جواب یہ ہے کہ:
“محمد رسول اللہ کا نام کلمہ میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ نبیوں کے سرتاج اور خاتم النبیین ہیں، اور آپ کا نام لینے سے باقی سب نبی خود اندر آجاتے ہیں، ہر ایک کا علیحدہ نام لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
ہاں! حضرت مسیح موعود (مرزا صاحب) کے آنے سے ایک فرق ضرور پیدا ہوگیا ہے اور وہ یہ کہ مسیح موعود (مرزا صاحب) کی بعثت سے پہلے تو محمد رسول اللہ کے مفہوم میں صرف آپ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء شامل تھے، مگر مسیح موعود (مرزا صاحب) کی بعثت کے بعد “محمد رسول اللہ” کے مفہوم میں ایک اور رسول کی زیادتی ہوگئی۔
غرض اب بھی اسلام میں داخل ہونے کے لئے یہی کلمہ ہے صرف فرق اتنا ہے کہ مسیح موعود (مرزا صاحب) کی آمد نے محمد رسول اللہ کے مفہوم میں ایک رسول کی زیادتی کردی ہے اور بس۔”
یہ تو ہوا مسلمانوں اور قادیانی غیرمسلم اقلیت کے کلمے میں پہلا فرق! جس کا حاصل یہ ہے کہ قادیانیوں کے کلمہ کے مفہوم میں مرزا قادیانی بھی شامل ہے، اور مسلمانوں کا کلمہ اس نئے نبی کی “زیادتی” سے پاک ہے، اب دوسرا فرق سنئے! مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے لکھتے ہیں:
“علاوہ اس کے اگر ہم بفرض محال یہ بات مان بھی لیں کہ کلمہ شریف میں نبی کریم کا اسم مبارک اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ آخری نبی ہیں تو تب بھی کوئی حرج واقع نہیں ہوتا، اور ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت پیش نہیں آتی، کیونکہ مسیح موعود (مرزا صاحب) نبی کریم سے کوئی الگ چیز نہیں ہے۔ جیسا کہ وہ (یعنی مرزا صاحب) خود فرماتا ہے: “صار وجودی وجودہ” (یعنی میرا وجود محمد رسول اللہ ہی کا وجود بن گیا ہے۔ از ناقل) نیز “من فرق بینی وبین المصطفیٰ فما عرفنی وما رأیٰ” (یعنی جس نے مجھ کو اور مصطفی کو الگ الگ سمجھا، اس نے مجھے نہ پہچانا، نہ دیکھا۔ ناقل) اور یہ اس لئے ہے کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کرے گا (نعوذ باللہ! ناقل) جیسا کہ آیت آخرین منھم سے ظاہر ہے۔
پس مسیح موعود (مرزا صاحب) خود محمد رسول اللہ ہے، جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے، اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں! اگر محمد رسول اللہ کی جگہ کوئی اور آتا تو ضرورت پیش آتی․․․․․ فتدبروا۔”
(کلمة الفصل ص:۱۵۸، مندرجہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز جلد:۱۴، نمبر:۳، ۴ بابت ماہ مارچ و اپریل ۱۹۱۵ء)
یہ مسلمانوں اور قادیانیوں کے کلمہ میں دوسرا فرق ہوا کہ مسلمانوں کے کلمہ شریف میں “محمد رسول اللہ” سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مراد ہیں اور قادیانی جب “محمد رسول اللہ” کہتے ہیں تو اس سے مرزا غلام احمد قادیانی مراد ہوتے ہیں۔
مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے جو لکھا ہے کہ: “مرزا صاحب خود محمد رسول اللہ ہیں جو اشاعت اسلام کے لئے دنیا میں دوبارہ تشریف لائے ہیں” یہ قادیانیوں کا بروزی فلسفہ ہے، جس کی مختصر سی وضاحت یہ ہے کہ ان کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں دو بار آنا تھا، چنانچہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں تشریف لائے اور دوسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرزا غلام احمد کی بروزی شکل میں ․․․ معاذ اللہ!․․․ مرزا غلام مرتضیٰ کے گھر میں جنم لیا۔ مرزا صاحب نے تحفہ گولڑویہ، خطبہ الہامیہ اور دیگر بہت سی کتابوں میں اس مضمون کو بار بار دہرایا ہے۔
(دیکھئے خطبہ الہامیہ ص:۱۷۱، ۱۸۰)
اس نظریہ کے مطابق قادیانی امت مرزا صاحب کو “عین محمد” سمجھتی ہے، اس کا عقیدہ ہے کہ نام، کام، مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے مرزا صاحب اور محمد رسول اللہ کے درمیان کوئی دوئی اور مغائرت نہیں ہے، نہ وہ دونوں علیحدہ وجود ہیں، بلکہ دونوں ایک ہی شان، ایک ہی مرتبہ، ایک ہی منصب اور ایک ہی نام رکھتے ہیں۔ چنانچہ قادیانی․․․ غیرمسلم اقلیت․․․ مرزا غلام احمد کو وہ تمام اوصاف و القاب اور مرتبہ و مقام دیتی ہے جو اہل اسلام کے نزدیک صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے۔ قادیانیوں کے نزدیک مرزا صاحب بعینہ محمد رسول اللہ، محمد مصطفی ہیں، احمد مجتبیٰ ہیں، خاتم الانبیاء ہیں، امام الرسل ہیں، رحمة للعالمین ہیں، صاحبِ کوثر ہیں، صاحبِ معراج ہیں، صاحبِ مقامِ محمود ہیں، صاحبِ فتح مبین ہیں، زمین و زمان اور کون و مکان صرف مرزا صاحب کی خاطر پیدا کئے گئے، وغیرہ وغیرہ۔
اسی پر بس نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بقول ان کے مرزا صاحب کی “بروزی بعثت” آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل بعثت سے روحانیت میں اعلیٰ و اکمل ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ روحانی ترقیات کی ابتداء کا زمانہ تھا اور مرزا صاحب کا زمانہ ان ترقیات کی انتہا کا، وہ صرف تائیدات اور دفع بلیات کا زمانہ تھا اور مرزا صاحب کا زمانہ برکات کا زمانہ ہے، اس وقت اسلام پہلی رات کے چاند کی مانند تھا (جس کی کوئی روشنی نہیں ہوتی) اور مرزا صاحب کا زمانہ چودہویں رات کے بدرِ کامل کے مشابہ ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تین ہزار معجزات دئیے گئے تھے اور مرزا صاحب کو دس لاکھ، بلکہ دس کروڑ، بلکہ بے شمار۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہنی ارتقاء وہاں تک نہیں پہنچا جہاں تک مرزا صاحب نے ذہنی ترقی کی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت سے وہ رموز و اسرار نہیں کھلے جو مرزا صاحب پر کھلے۔
مرزا صاحب کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت و برتری کو دیکھ کر ․․․قادیانیوں کے بقول ․․․
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام نبیوں سے عہد لیا کہ وہ مرزا صاحب پر ایمان لائیں اور ان کی بیعت و نصرت کریں۔ خلاصہ یہ کہ قادیانیوں کے نزدیک نہ صرف مرزا صاحب کی شکل میں محمد رسول اللہ خود دوبارہ تشریف لائے ہیں، بلکہ مرزا غلام مرتضیٰ کے گھر پیدا ہونے والا قادیانی “محمد رسول اللہ” اصلی محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے اپنی شان میں بڑھ کر ہے، نعوذ باللہ! استغفر اللہ!
چنانچہ مرزا صاحب کے ایک مرید (یا قادیانی اصطلاح میں مرزا صاحب کے “صحابی”) قاضی ظہور الدین اکمل نے مرزا صاحب کی شان میں ایک “نعت” لکھی، جسے خوش خط لکھواکر اور خوبصورت فریم بنواکر قادیان کی “بارگاہِ رسالت” میں پیش کیا، مرزا صاحب اپنے نعت خواں سے بہت خوش ہوئے اور اسے بڑی دعائیں دیں۔ بعد میں وہ قصیدہ نعتیہ مرزا صاحب کے ترجمان اخبار بدر جلد:۲نمبر:۴۳ میں شائع ہوا، وہ پرچہ راقم الحروف کے پاس محفوظ ہے، اس کے چار اشعار ملاحظہ ہوں:
امام اپنا عزیزو! اس جہاں میں
غلام احمد ہوا دار الاماں میں
غلام احمد ہے عرش رب اکبر
مکاں اس کا ہے گویا لامکاں میں
محمد پھر اتر آئے ہیں ہم میں!
اور آگے سے ہیں بڑھ کر اپنی شاں میں
محمد دیکھنے ہوں جس نے اکمل#
غلام احمد کو دیکھے قادیاں میں
(اخبار بدر قادیان ۲۵/اکتوبر ۱۹۰۶ء)
مرزا صاحب کا ایک اور نعت خواں، قادیان کے “بروزی محمد رسول اللہ” کو ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہتا ہے:
صدی چودہویں کا ہوا سر مبارک
کہ جس پر وہ بدر الدّجٰی بن کے آیا
محمد پئے چارہ سازیٴ امت
ہے اب “احمد مجتبیٰ” بن کے آیا
حقیقت کھلی بعثتِ ثانی کی ہم پر
کہ جب مصطفی میرزا بن کے آیا
(الفضل قادیان ۲۸/مئی ۱۹۲۸ء)
یہ ہے قادیانیوں کا “محمد رسول اللہ” جس کا وہ کلمہ پڑھتے ہیں۔
چونکہ مسلمان، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین اور آخری نبی مانتے ہیں، اس لئے کسی مسلمان کی غیرت ایک لمحہ کے لئے بھی یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہونے والے کسی بڑے سے بڑے شخص کو بھی منصبِ نبوت پر قدم رکھنے کی اجازت دی جائے۔ کجا کہ ایک “غلامِ اسود” کو ․․․ نعوذ باللہ!․․․ “محمد رسول اللہ” بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اعلیٰ و افضل بنا ڈالا جائے۔ بنابریں قادیان کی شریعت مسلمانوں پر کفر کا فتویٰ دیتی ہے، مرزا بشیر احمد ایم اے لکھتے ہیں:
“اب معاملہ صاف ہے، اگر نبی کریم کا انکار کفر ہے تو مسیح موعود (غلام احمد قادیانی) کا انکار بھی کفر ہونا چاہئے، کیونکہ مسیح موعود نبی کریم سے الگ کوئی چیز نہیں، بلکہ وہی ہے۔”
“اور اگر مسیح موعود کا منکر کافر نہیں تو نعوذ باللہ نبی کریم کا منکر بھی کافر نہیں۔ کیونکہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پہلی بعثت میں تو آپ کا انکار کفر ہو، مگر دوسری بعثت (قادیان کی بروزی بعثت ․․․ناقل) میں جس میں بقول مسیح موعود آپ کی روحانیت اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے ․․․․․․ آپ کا انکار کفر نہ ہو۔”
(کلمة الفصل ص:۱۴۷)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
“ہر ایک ایسا شخص جو موسیٰ کو تو مانتا ہے مگر عیسیٰ کو نہیں مانتا، یا عیسیٰ کو مانتا ہے مگر محمد کو نہیں مانتا، یا محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعود (مرزا غلام احمد) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر، بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔” (ص:۱۱۰)
ان کے بڑے بھائی مرزا محمود احمد صاحب لکھتے ہیں:
“کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود (مرزا غلام احمد) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے، خواہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔”
(آئینہ صداقت ص:۳۵)
ظاہر ہے کہ اگر قادیانی بھی اسی محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھتے ہیں جن کا کلمہ مسلمان پڑھتے ہیں تو قادیانی شریعت میں یہ “کفر کا فتویٰ” نازل نہ ہوتا، اس لئے مسلمانوں اور قادیانیوں کے کلمہ کے الفاظ گو ایک ہی ہیں مگر ان کے مفہوم میں زمین و آسمان اور کفر و ایمان کا فرق ہے۔

No comments:

Post a Comment