Sunday, 30 August 2015

قوت حافظہ کا راز!

تابعین میں سے ایک حاکم تھا.. مروان... اسے ایک دفعہ خیال آیا کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بہت احادیث کی روایت کرتے ہیں.. آیا یہ روایات من و عن وہی ہیں یا بالمعنی ہیں.. یعنی ایک یہ ہوتا ہے. کہ میں نے آپ کی بات سنی اور اپنے لفظوں میں. ہو بہو. مفہوم آگے ادا کر دیا.. اس کو روایت بالمعنی کہتے ہیں.. یعنی. معنی وہی مگر الفاظ اپنے.

ایک دوسری صورت ہوتی ہے کہ جو الفاظ سنے من و عن اسی طرح آگے بیان کر دیے.. یعنی الفاظ بھی وہی اور معنی بھی وہی. اس کو روایت باالمتن کہتے ہیں..

مروان کے ذہن میں اشکال پیدا ہوا. یہ تو اس کو پتہ تھا کہ یہ جو بات کرتے ہیں سچی ہے. اس میں اس کو شبہ نہیں تھا. اس کے دل میں اشکال یہ آیا کہ یہ اپنے الفاظ میں مفہوم بیان کرتے ہیں.. یا واقعی الفاظ بھی وہی اور معنی بھی وہی ہوتا ہے.. اس نے سوچا چلو. اس کا پتہ کر لیتے ہیں. اب وقت کے بادشاہ کی اپنی ترتیب ہوتی ہے ہر کام کی. اس نے ترتیب یہ بنائی کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور بہت سارے دوسرے حضرات کو کھانے کی دعوت دی، بہت سارے صحابہ کرام اور بھی تھے..

چنانچہ جب کھانے سے فارغ ہوئے تو اس نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بات کہی کہ آپ نبی علیہ السلام کی بہت باتیں سناتے ہیں... ہمیں بھی آج آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی باتیں سنایئے..

ساتھ ہی ایک پردہ تھا اس کے پیچھے اس نے دو تیز لکھنے والے کاتب بٹھائے ہوئے تھے. اور کسی کو پتہ نہیں تھا کوئی یہاں ہے یا نہیں..
تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سینکڑوں احادیث روایت فرمائیں.. لمبی محفل تھی.. جو کچھ وہ کہتے رہے. پردہ کے پیچھے دو بندے لکھتے رہے. دو بندے اس لئے بٹھائے کہ اگر کوئی غلطی لگے تو دوسرا ٹھیک ٹھیک لکھ لے، آپس میں تقابل بھی کرسکیں، لہٰذا پوری محفل کی روداد انہوں نے قلم بند کی. کسی کو پتہ ہی نہیں تھا. کانوں کان خبر ہی نہیں..

اس کے بعد ایک سال گزر گیا. ایک سال بعد مروان نے دوبارہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو دعوت دی، کھانے پہ بٹھایا، وہ جو دو بندے پچھلے سال والے تھے. ان کو پھر پردے کے پیچھے بٹھایا اور ان کو سمجھایا کہ میں عرض کروں گا کہ ہمیں پچھلے سال والی حدیثیں سنائیں.
اور جب وہ سنائیں تو تم نے جو پچھلے سال کا لکھا ہوا ہے اس کے ساتھ (موازنہ) کرتے جانا ہے کہ کہاں کہاں فرق پڑتا ہے صاف ظاہر ہے کہ پچھلے سال کی کئی باتیں اس سال تو یاد نہیں ہوتیں. یہ اس نے چیک کر نے کا. ایک ڈھنگ ایک طریقہ نکالا.

چنانچہ جب کھانے سے فارغ ہوئے تو اس نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ حضرت جو پچھلے سال آپ نے حدیثیں سنائی تھی نا.. وہ پھر سنا دیجئے.

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے وہی حدیثیں سنانا شروع کیں. سینکڑوں وہی احادیث اس محفل میں سنائیں. کاتب حضرات نے گواہی دی کہ کہیں ایک لفظ کا فرق بھی نہیں تھا. یہ قوت حافظہ ان کو اللہ تعالٰی نے عطا فرمائی تھی.

یہ نعمت اللہ تعالٰی طلبہ کو بھی دیتے ہیں بس اس میں ایک ہی چیز رکاوٹ بنتی ہے اور اسے کہتے ہیں.. گناہ.. جو طالب علم تقوی اور پرہیز گاری کی زندگی گزارتا ہے اس کی قوت حافظہ کو اللہ تعالٰی بہت بہتر کردیتے ہیں. بس. (فوٹو گرافک میموری) بن جاتی ہے جو کچھ سنتا ہے. اس کی چھاپ لگ جاتی ہے، ایسی یاد داشت عطا فرمادیتے ہیں. اور یہی چیز حضرات محدثین میں تھی..

دعا ہے اللہ رب العزت ہم سب کو گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے

تقوی اور پرہیز گاری والی زندگی عطا فرمائے

اور ہم سب کا حافظہ قوی فرمائے آمین ثم آمین
ماخوذ
خطبات ذوالفقار

No comments:

Post a Comment