Friday 21 August 2015

یعقوب میمن کے بارے میں دو باتیں اور

انتہائی محبت کرنے والے اپنے قارئین کرام سے عرض کرنا ہے کہ یعقوب میمن کی پھانسی کے متعلق جو لکھنا تھا وہ ٹھنڈے دماغ سے انتہائی تفصیل سے لکھ دیا تھا اور یہ سوچ کر لکھا تھا کہ اپنے زخموں سے ہر دن چھیڑچھاڑ سے صرف تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے اور کچھ نہیں۔ ہمیشہ کی طرح ٹی وی چینلوں کو ایک چٹ پٹا موضوع اور مل گیا۔ اب وہ یا تو پارلیمنٹ پر مذاکرے کرارہے ہیں یا یعقوب میمن کی پھانسی کو جائز ٹھہرا رہے ہیں۔ کل ایک مذاکرے میں زیادہ سنجیدگی سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی کہ معزز جج صاحبان نے دنیا بھر میں جو دہشت گردی کے خلاف سخت اقدامات ہورہے ہیں اسی کے پیش نظر یہ سزا ضروری سمجھی ہے۔ اس مذاکرے میں مسٹر اسدالدین اویسی کی ایک تقریر کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میمن کو پھانسی دو تو ان سب کو بھی پھانسی دو جنہیں پھانسی کی سزا دینے کے بعد عمرقید میں تبدیل کردیا ہے۔ راجیو گاندھی کے قاتلوں کو بھی پھانسی دو اور 1984 ء میں ہزاروں سکھوں کو موت کی نیند سلانے والوں کو بھی پھانسی دو وغیرہ وغیرہ۔
ہم محترم جج صاحبان اور مودی سرکار کے معزز وزیروں سے یہ درکواست کرنا چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کی ایک جامع تصویر بنا دی جائے۔ عدالت کے فیصلہ کی حمایت کرنے والے یہ کہہ رہے تھے کہ بارہ بم دھماکوں کی وجہ سے وہ دہشت گردی ہے۔ گویا اگر دھماکے دس ہوں یا پانچ ہوں تو دہشت گردی نہیں ہے؟ تو پھر اجمل قصاب اور افضل گرو کی بھی پھانسی غلط ثابت ہوگی کیونکہ ان میں بم کا کوئی دھماکہ نہیں ہوا۔ اجمل پر گولیاں چلانے کا الزام ہے اور افضل مرحوم پر سازش تیار کرنے کا الزام ہے۔ اندرا گاندھی کو بم سے نہیں گولی سے مارا گیا تھا اس کے باوجود بینت سنگھ کو پھانسی دی گئی اور راجیو گاندھی کو بم سے مارا گیا تھا ان کے مارنے والے عمرقید کے مزے لوٹ رہے ہیں اور سپریم کورٹ کے تازہ فیصلہ کی وجہ سے وہ شاید اگست میں ہی تمل ناڈو کی وزیر اعلیٰ جے للتا کے ساتھ ہار پھولوں سے لدے نظر آئیں گے۔ اور وہ سب بھی جنہوں نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو مارا درجنوں بچوں کو بھون کے کھا لیا وہ سب جن کی تفصیل ہم پرسوں لکھ چکے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں دہشت گردی کی تعریف یہ ہے کہ اگر مسلمان کرے تو دہشت گردی ہے اور ہندو کرے اور چاہے جو کرے وہ دہشت گردی نہیں جرم جیسی کوئی چیز ہے۔ ہم بڑے ادب سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ جن مجرموں کی سپریم کورٹ نے پھانسی کی سزا کی تصدیق کردی۔ صدر جمہوریہ نے جن کی رحم کی اپیل مسترد کردی، سپریم کورٹ نے پھر اپیل خارج کردی، ان کی پھانسی کی تاریخ بھی مقرر کردی اس کے بعد ان کی سزا کو عمرقید میں کیوں تبدیل کیا؟ اور کیا یہ غلط ہے کہ ایک سکھ کی پھانسی صرف اس لئے عمرقید میں بدلی گئی کہ سردار بادل نے وزیر اعظم کو دھمکی دے دی کہ پنجاب میں حالات بگڑ جائیں گے اور انہوں نے دماغی توازن ٹھیک نہ ہونے کو بہانہ بنالیا اور 9 ججوں نے حکومت کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا۔
ہم اس بزدلی کو کیسے معاف کریں کہ اوپر سے نیچے تک سب کا رویہ یہ ہے کہ ملک ہندوئوں کا ہے۔ حکومت ہندوئوں کی ہے اس لئے ہندو کو اس کے ہی ملک میں پھانسی نہیں دی جائے گی۔ مالیگائوں بم دھماکے کے اصل ملزموں کے چہرے سے مسلمانوں کے بہت بڑے محسن ہیمنت کرکرے نے پردہ ہٹا دیا تھا جس کی سزا موت کی شکل میں ہندو دہشت گردوں نے دے دی۔ اور جن کو بے نقاب کیا تھا ان کو نہ سزا دی جارہی ہے نہ بری کیا جارہا ہے۔ بس اس کا انتظار ہے کہ مودی سرکار کے مقرر کئے ہوئے جج کرسیوں پر بیٹھ جائیں تو فیصلے پی ایم آفس سے ٹائپ ہوکر جایا کریں گے اور ان سب کو قانون کی خانہ پری کرنے کے لئے عمرقید دی جائے گی پھر ایک سال کے بعد مہاراشٹر حکومت کو حق ہوگا کہ وہ رہا کرکے دوسرے دھماکوں کے لئے ان کی ڈیوٹی لگادے۔
آزاد ہندوستان میں پہلی بار یہ آواز سنی ہے کہ عدالت کیا کرے کیا نہ کرے؟ مہاراشٹر حکومت ہر حال میں 30 جولائی کو یعقوب میمن کو پھانسی دینا چاہتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اسے اس لئے پھانسی دینا ضروری ہے کہ وہ ٹائیگر میمن کا بھائی ہے؟ ہر مسلمان جو میمن کی مغفرت کی دعائیں یاد کررہا ہے وہ اچھی طرح یاد کرلے اس لئے کہ موہن بھاگوت کی گود کا پالا ہوا وہ سب کرسکتا ہے جو ہندو راشٹر کے اعلان کے بعد کیا جاتا۔ مثال کے لئے افضل گرو کا پورا مقدمہ گواہ ہے کہ ایک ہندوئوں کے ملک کی ہندو حکومت میں ایک مسلمان کے ساتھ کیا کیا کیا جاسکتا ہے؟ کہ جسم سے جان نکالنے کے بعد بھی اس کی مٹی کوبھی کافروں کے ہاتھوں مٹی میں دبا دے۔ اور کشمیر کا مسلمان وزیر بادل کی طرح دِکھا تو کیا حکومت سے شکایت کرنے کی بھی ہمت نہ کرسکے۔ اور اجمل قصاب جو دائود کے بعد دوسرے نمبر کا مجرم کہا جاتا تھا اس کی لاش یہی حکومت مسلمانوں کو تحفہ کے طور پر دے کر ان کے زخموں پر نمک چھڑک رہی تھی اور مسلمانوں نے اپنے قبرستان میں دفن کرنے سے انکار کرکے ثابت کردیا تھا کہ وہ مسلمان نہیں تھا۔
ایک بات آخری اور عرض کرنا ہے کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان میں سے شاید ہی کسی نے اپنے کسی دوست کو جیل میں بنی پھانسی کی کوٹھری میں موت کا انتظار کرتے دیکھا ہو؟ ہم وہ بدنصیب ہیں جس نے اپنے ایک دوست کو اس کوٹھری میں جانے کے صرف شاید تین مہینے یا اور کم میں دیکھا تھا۔ ایک انتہائی خوب رو قابل رشک صحت کا پٹھان ایک قتل کے الزام میں جیل میں ہمارے ساتھ تھا۔ ہر وقت ہنسنا ہنسانا اس کا مشغلہ تھا اسے یقین تھا کہ اسے سزا ہوگی تو شاید دس سال۔ ایک دن وہ فیصلہ سننے کے لئے عدالت گیا تو شام کو سب کے ساتھ واپس نہیں آیا۔ ساتھیوں نے بتایا انہیں پھانسی کی سزا دے دی ہے اس لئے اس وقت وہ اکیلے جیل کی کوٹھری میں پہنچا دیئے گئے۔
ہم اخبار والے تھے۔ جیلر صاحب سے درخواست کی کہ ہمیں چند منٹ کے لئے ملوا دیجئے۔ انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ آپ جب رہا ہوجائیں گے، قانون کے اعتبار سے تب مل سکیں گے۔ آخر وہ وقت آیا کہ ہمارے رہائی کے کاغذات مکمل ہوگئے اور ہتھیلی پر مہرلگ گئی۔ تب جیلر صاحب نے ایک سپاہی کے ساتھ بھیجا۔ دیکھا تو وہ برسوں کے بیمار لگے۔ شاید 25 کلو وزن کم ہوچکا تھا۔ پندرہ منٹ کا وقت دیا تھا اس میں 13 منٹ صرف رونے میں کٹ گئے اور دو منٹ میں صرف اتنا کہا کہ باہر جانا مبارک ہو۔ میرے لئے جو بھی کرسکتے ہیں کیجئے گا کوئی کسر نہ چھوڑیئے گا اور پھر آنسو برسنا شروع ہوگئے۔
پاکستان کے سب سے پھرتیلے ذہن کے وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی دینے والے جلاد تارا مسیح نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ جب ان کو پھانسی کے لئے لے جانے کے لئے پولیس کے جوان گئے تو وہ نہ کھڑے ہوسکے اور نہ چل سکے دو کے کاندھوں پر جھولتے ہوئے پائوں رگڑتے ہوئے لائے گئے تھے۔ یعقوب میمن آٹھ برس سے ہر دن موت کے خواب دیکھ رہے ہوں گے۔ یہ یا تو بے گناہی کے یقین کی طاقت ہے یا ایمان کی کہ ان کے جتنے فوٹو اور جتنی خبریں آئی ہیں ان سب میں وہ بس ایسے نظر آئے ہیں جیسے 21 برس جیل میں رہنے والے نظر آتے ہیں۔ شاید ان کا ایمان ہے کہ موت اور زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کس کو کب کہاں اور کیسے موت آئے گی؟ یہ صرف پروردگار جانتا ہے۔ محترم جج صاحبان ذرا اُس آدمی کا تصور کریں جو آٹھ برس سے پھانسی کی کوٹھری میں زندگی گذار رہا ہے جہاں سے نہ سورج دکھائی دیتا ہے نہ چاند۔ جس کے سامنے صرف ایک بیت الخلاء ہوتا ہے اور ایک میٹر کی چوڑی راہداری۔ اس کا کھانا نہانا عبادت کرنا اور اپنے دشمنوں کو ہدایت کی دعا کرنا اور اگر آجائے تو نیند کے دبائو سے سونا صرف ایک سات فٹ مربع کوٹھری میں ہوتا ہو۔ یعقوب میمن کی بیٹی 21 برس کی ہے یعنی اس کی سالگرہ اور باپ کی جیل کی عمر ایک ہے۔ کون بیٹی کا باپ ہوگا جس کا کلیجہ اس کی داستان اور جذبات سن کر پھٹ نہ جائے؟ آئیے دعا کریں اس کی 43 سالہ بیوی اور 21 سالہ بیٹی کے لئے کہ مالک دو جہاں انہیں پہاڑ سے زیادہ بھاری غم برداشت کرنے کی ہمت دے۔ آمین
حفیظ نعمانی

No comments:

Post a Comment