Thursday 20 August 2015

مولود کعبہ کون : حضرت علی یا حکیم بن حزام

مولود کعبہ کون : حضرت علی یا حکیم بن حزام

تاریخ اسلام سے شغف رکھنے والا ہر فرد اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ جس دن مرغزار عرب سے اسلام کا ظہور ہوا ، وہیں سے اسلام دشمنی کا سلسلہ بھی شروع ہوا ، اور سلسلہ مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا ، مشرکین مکہ ہوں یا مدینہ اور اس کے نواحی کے یہود و نصاری کسی نے بھی اسلام کی عظمت و برتری اور کامیابی و کامرانی کو برداشت نہیں کیا، تاہم پوری اسلام تاریخ میں جو قوم سب سے زیادہ اسلام دشمنی میں معروف و مشہور رہی وہ قوم یہود ہے ، یقننا اس باطل پرست مکارقوم نے اسلام کے خلاف جن حیلوں اور حربوں کا اسعتمال کیا وہ انتہائی خطرناک ثابت ہوئے ، شیعی عقائد کی ترویج و اشاعت اسی قوم کا دین ہے ، شیعیت کا موجد دشمن اسلام عبداللہ بن سبا یہ وہی یہودی ہے جس نے آل بیت کا جھوٹا دعوٰی ٹھونک کر اسلام اور مسلمانوں کی وحدت امت کو پارہ پارہ کر نے میں اہم رول ادا کیا ، انہیں افسانوں قصوں اور جھوٹے اختراعات میں سے ایک اختراع حضرت علیرضی اللہ عنہ کو یقینی طور پر مولود کعبہ بتانا ہےـ 
پیش نظر مقالہ میں اس بات کا تحقیقی جائزہ لیا گیا ہے کہ مولود کعبہ کون تھے ؟ علی ؓ یا حکمیم بن حزامؓ ؟
شیعی روایات و اقوال
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مولود کعبہ ثابت کرنے کے لئے شیعوں کی طرف سے یا ان کے ہم خیالوں کی طرف سے جو روایات یا اقوال پیش کیے جاتے ہیں وہ درج ذیل ہیں :
پہلا قول : امام حاکم نے حکیم بن حزامؓ کے حالات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ '' وقد تواترت الاخبار ان فاطمه بن اسد ولدت امیر المؤمنین علی بن طالب کرم الله وجه فی جوف الکعبه (1)
'' یعنی یہ تواتر سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد نے حضرت علیؓ کو کعبہ کے اندر جناـ
المستدرك على الصحيحين 483/3 
علامہ ابن ظہیرہ نے اپنی کتاب '' الجامع اللطیف '' بصیغہ مجہول یہ قول نقل کیا ہے کہ حضرت علی ؓ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے
الجماع اللطیف : 338 ، بحواله اخبار المکرم بآخبار المسجد الحرام : 194
دوسرا قول : اس سلسلے میں سب سے مشہور روایت جو نقل کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ '' حلمیہ بنت ابی ذوہیب عبداللہ بن الحارث سعدیہ ایک مرتبہ حجاج بن یوسف کے دور خلافت میں ان سے ملنے کے لیے گئیں ـ حجاج نے کہا : ائے حلمیہ ! اللہ تجھے میرے پاس لایا ، میں چاہتا ہوں کہ تجھے بلاؤں اور تم سے انتقام لوں ، حلمیہ نے کہا: اس سورش و غصہ کا کیا سبب ہے ؟ حجاجج نے جواب دیا : میں نے سنا ہے کہ تم علی ؓ کو ابوبکرؓ اور عمرؓ فضیلت دیتی ہو ، حلمیہ نے کہا : حجاج ! خدا کی قسم میں اپنے امام کو اکیلی حضرت عمرؓ و ابوبکرؓ پر فضلیت نہیں دیتی ہوں ، ابوبکرؓ و عمرؓ میں کیا لیاقت ہے کہ حضرت علیؓ سے ان کا موازنہ کیا جائے ، میں تو اپنے امام کو آدم ، نوح ، ابراہیم ، سلمیان ، موسی اور عیسی پر بھی فضیلت دیتی ہو، حجاج نے برآشفتہ ہو کر کہا میں تجھ سے دل برداشتہ ہوں ، میرے بدن میں آگ لگ گئی ہے ، اگر تو نے اس دعوٰی کو ثابت کردیا تو ٹھیک ورنہ میں تجھے ٹکڑے ٹکڑے کردوں گا ، تاکہ تم دوسروں کے لئے عبرت حاصل کرنے کا ذریعہ بن جائے ، پھر حلمیہ نے ایک ایک کر کے دلائل کے ساتھ علیؓ کی برتری ثابت کردی ـ یہاں تک کہ جب حجاج نے کہا تو کس دلیل سے علیؓ کو عیسی علیہ السلام پر ترجیح دیتی ہے ؟ حلمیہ نے کہا ئے حجاج سنو ! جب مریم بن عمران بچہ جننے کے قریب ہوئی جب کہ وہ بیت المقدس میں ٹھہری تھی ، حکم الہی آیا کہ بیت المقدس سے باہر نکل جاؤ اور جنگل کی طرف رخ کرو تاکہ بت المقدس تیرے نفاس سے ناپاک نہ ہوجائے ، اور جب حضرت علیؓ کی ماں فاطمہ بن اسد وضع حمل کے قریب ہوئیں تو وحی آئی کہ کعبہ میں داخل ہو جاؤ اور میرے گھر کو اس مولود کی پیدائش سے مشرف کر، پھر حلمیہ کہنے لگی ائے حجاج اب تم ہی انصاف کروکہ دونوں بچوں میں کون شریف ہو گا ؟ حجاج یہ سن کر راضی ہو گیا اور حلمیہ کا وظیفہ مقرر کردیا
آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز صاحب محد دہلوی ص 111-113
تیسرا قول : ایک اور روایت امام زین العابدین کی طرف یون منسوب کی جاتی ہے کہ انہوں نے فرمایا :
ام عمارہ بن عباد الساعدیہ کی طرف سے زہد بنت عجلان الساعدیہ نے مجھے خبردی ، کہا کہ میں ایک دن عرب کی چند عورتوں میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اچانک ابوطالب غمگین ہو کر آیا ، میں نے کہا : کیا حال ہے ؟ تو ابوطالب نے کہا : فاطمہ بنت اسد دردزہ میں مبتلا ہے اور وقت ہو جانے کے باوجود بچہ پیدا نہیں ہو رہا ، پھر ابوطالب اپنی بیوی فاطمہ کو خانہء کعبہ کے اندر لے آیاـ اور کہا کہ اللہ کے نام پر بیٹھ جاؤ ، بیٹھ گئی اور پھر دردزہ شروع ہو گیا ، اور ایک پاکیزہ بچہ پیدا ہوا جس کا نام ابوطالب نے علی رکھاـ
آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز صاحب محد دہلوی ص 111-113
یہ ہیں وہ روایات جن کی بنیاد پر علیؓ کو مولود کعبہ کہا جاتا ہے آئندہ سطور میں ان روایت کا تحقیقی جائزہ ملاحظہ فرمائیں ـ
پہلی روایت : اس میں امام حاکم نے تواتر کا دعوٰی کیا ہے ، حالانکہ قابل اعتبار و قابل اعتماد مؤرخین میں سے کسی نے بھی اس بات کا یقین کے ساتھ تذکرہ نہیں کیا کہ حضرت علیؓ کعبہ کے اندر پیدا ہوئے تھے ــ لہذا یہاں تواتر کا معنی پایا نہیں جاتا ـ
* نہج البلاغہ کے شارح علامہ بن ابی الحدید اس روایت کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ سیدنا علی علیہ السلام کی جائے پیدائش کے بارے میں اختلاف ہے ، تاہم محدثین کرام نے علی ؓ کے مولود کعبہ کو تسلیم نہیں کیا ہے اور اس روایت کو محض جھوٹ و اختراع قرار دیا ہے ، ان کا خیال ہے کہ کعبہ میں جن کی ولادت ہوئی وہ حکیم بن حزام بن خولد ہیں
شرح نہج البلاغہ لابن الحدید 14/1 لابی الحسن الندوی ص 49
دوسری روایت : ابن ظہیر نے بصیغہ مجہول یہ بیان یا : قیل : انہ ولد بالکعبہ '' یعنی یہ کہ علیؓ کعبہ میں پیدا ہوئے اور اس مجہول کے مقابل میں ایک معروف قول بھی نقل کیا اور اس میں علیؓ کی جائے پیدائش وہ جگہ بتلائی گئی جو شعب علی سے مشہور ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جائے پیدائش سے قریب واقع ہے
الجماع اللطیف : 338 ، بحواله اخبار المکرم بآخبار المسجد الحرام : 194
لہذا مولود کعبہ ہونے کی روایت مرجوح ہے ـ
* گیارہویں صدی ہجری کے نامور مصنف احمد بن محمد الاسد المکی نے بن ظہیرہ کے بصیغہ مجہول نقل کردہ قول '' انہ ولد بالکعبہ '' کو امام نوری کے قول کے ذریعہ ضعیف قرار دیا ہے ـ
الجماع اللطیف : 338 ، بحواله اخبار المکرم بآخبار المسجد الحرام : 194
تیسری روایت : اس روایت میں جو واقعہ بنان کیا گیا ہے وہ سر تا پا جھوٹ و کذب او بہتان سے لبریز ہے ، کیونکہ :
* تراجم کی کتاب میں کہیں یہ مذکور نہیں کہ حلمیہ بنت ابی ذویب السعدیہ حجاج بن یوسف کے عہد تک زندہ تھیں اور نہ ہی کہیں کسی نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے ـ
ملاحظہ ہو : سیرت ابن ہشام 1/160 ، اسد العابہ 76/8
آئینہ مذاہب امامیہ کے مصنف علامہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ '' حلیمہ بن ابی ذویب مورخین کے اتفاق رائے سے حجاج بن یوسف کے زمانے تک زندہ نہیں رہی ـ
آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز صاحب محد دہلوی ص 111-113
اس روایت کو صحیح ماننے سے اہل السنہ و الجماعہ کے اصولوں کی مخالفت لازم آئے گی کیونکہ اس روایت میں علیؓ کو عمرین یعنی ابوبکر وعمرؓ پر فوقیت دینے کی کوشش کی گئی ، جبکہ اہل النسہ والجماعہ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ تمام صحابہ کرام میں سب سے زیادہ افضل ابوبکرؓ پھر عمرؓ پھر عثمانؓ پھر علیؓ اور ان کے بعد عشرہ مبشرہ ؓ ہیں ـ
* خود حلمیہ سعدیہ کے ایمان لانے اور نہ لانے کے سلسلے میں مؤرخین کا اختلاف ہے ـ
مجموعہ فتوٰی ابن تیمیہ رحمہ اللہ 152/2
* اس اختلاف سے عیاں ہوتاہے کہ حضرت سعدیہ بعثت نبوی کے آخر دور سے پہلے ہی وفات پا گئی تھیں ، اگر اس زمانے تک باحیات ہوتیں تو ان کے ایمان سے اختلاف منقول نہیں ہوتا ـ
* عیسی علیہ السلام کی ولادت سے متعلق جو بات اس روایت میں کہی گئی ہے وہ محض بکواس ہے اور تاریخ کے خلاف ہے کسی مؤرخنے اس کا تذکرہ نہیں کیا ہے ، اس کے برخلاف نص قرآن اس بات پر واضح دلالت کرتی کہ مریم علیہ السلام دردزہ سے پریشان ہو کر اس بات پر آمادہ ہوئیں کہ وہ کسی چیز پر تکیہ کریں اور جب اس حالت میں جنگل میں جانا اور کسی کی مدد کے بغیر وضع حمل ہونا دشوار محسوس کیا تو انہوں نےاختیار موت کی خواہش کی ـ باخذھا المخاص الی جذع النخلہ ، قالت یا لیتنی مت قبل ھذا او کنت نسیا منسیا ـ سورہ مریم
* اور یہ جو بیان کیا گیا ہے کہ فاطمہ بن اسد کو بھی وحی ہوئی کہ خانہ کعبہ میں جاکر وضع حمل کرے ـ یہ بلکل جھوٹ ہے ، کیونکہ اسلامی ور غیر اسلامی فرقوں میں سے کوئی بھی فاطمہ بن اسد کی نبوت کا قائل نہیں ہے ، جبکہ یہاں وحی جو لفظ ہے وہ انبیاٰء کے لئے خاص ہے ـ
چوتھی روایت میں : امام زین العابدین کی طرف منسوب روایت پر جرح کرتے ہوئے شاہ عبد العزیز دہلوری فرماتے ہیں کہ صحیح اسلام تاریخ کے خلاف یہ محض بکواس ہے
آئینہ مذاہب امامیہ ترجمہ اردو تحفہ اثنا عشریہ از شاہ عبدالعزیز صاحب محد دہلوی ص 111-113
* میں کہتا ہوں کہ شیعت کے پیروکار جس قدر علیؓ کو مولود کعبہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے دلائل اتنے ہی بے وقعت اور کمزور ہیں اور سادہ لوح عوام کو گمراہ کرنے کے لئے ایک اختراع ہے ـ کیونکہ:
* خانہ کعبہ جیسے معزر گھرمیں کسی کی بھی ولادت ہو وہ ایک عظیم شہرت کی بات ہے ، مؤرخین اس کا تذکرہ ہرگز ترک نہیں کر سکتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ :
1- امام سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء' میں تقریبا 22 صفحات پر علیؓ کے فضائل کو بیان کیا ہے اس میں مولود کعبہ ہونے کا ذکرنہیں ـ
تاریخ الخلفاء للسیوطی 185/207
2- امام ذہبی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب '' تاریخ اسلام و وفیات الاعلان ''میں تقریبا 32 صفحات پر علیؓ کی ولادت سے لیکر وفات تک زندگی کے مختلف گوشوں پر بحث کی ہے اور بے شمار خصوصیات کا ذکر کیا ہے لیکن اس میں مولود کعبہ ہونے کا ذکرنہیں ہے ـ
تاریخ الاسلام للذھبی : 641/652
3- استعیاب ابن عبدالبر نے 40 سے زائد صفحات پر خصائص علیؓ کا اور دیگر کامفصل تذکرہ کیا ہے ، لیکن مولود کعبہ ہونے کی بات نہیں لکھی ہے ـ
- استعیاب 11٫4- 1089 /3 
ان کے علاوہ قابل ذکر و معتبر مؤرخین و محدثین میں سے ابن الاثیر نے اپنی کتاب اسد الغابہ 134-100/4 ،
ابونعیم اصفہانی نے معرفتہ الصحابہ 1970-1986
امام مزی نے تہذیب الکمال 472/20
امام مسلم نے '' باب '' من فضائل علی ابن ابی طالب '' میں
امام المحدثین محمد بن عبداللہ بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ نے '' باب مناقبعلی بن ابی طالب ''میں
حضرت علی کے بے شمار فضائل ذکر کیا ہے ، لیکن کہیں بھی کسی نے مولود کعبہ ہونے کی بات نہیں لکھی ـ
اس کے برخلاف حکیم بن حزام کے بارے میں جس نے بھی قلم اٹھایا تقریبا سبھی لوگوں نے ان کو مولود کعبہ کی بات کی ہے مثلا
اسد الغابہ 58/2 میں ,تہذیب الکمال 173/7 ,تاریخ اسلام 277/2 ، الاصابہ (رقم : 1800 ) ,تہذیب التہذیب 447/2 ,البدایہ واالنہایہ 68/8, الاستعاب 362/1
جمہرہ انساب العرب 121 
مذکورہ تمام کتابوں کے مصنفین نے حکیم بن حزامؓ کے بارے میں مولود کعبہ ہونے کی بات کہی ہے ـ
خلاصہء کلام ـ
یہ مذکورہ حقائق اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ علیؓ کو مولود کعبہ بتانا ایک اختراع باطل ہے ـ اس کی کوئی حقیقت نہیں ، صحیح تاریخ جو ثابت ہے وہ یہی ہے کہ حکیم بن حزامؓ ہی کعبہ میں پیدا ہوئے ، تاہم علیؓ کی ولادت کہاں ہوئی ؟ اس میں سب سے زیادہ صحیح اور راجح قول یہی ہے کہ ان کی پیدائش نبی اکرم ؓ کی جائے پیدائش سے قریب ایک گھاٹی میں ہوئی جو کہ شعب علی سے معروف ہے ـ
الجماع اللطیف : 338 ، بحواله اخبار المکرم بآخبار المسجد الحرام : 194[/QH]
لہذا بے اصل روایتوں کو سہار بنا کر علیؓ کو مولود کعبہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ، اس لیے علیؓ کی ذات میں کوئی کمی نہیں آتی بلکہ علیؓ کی ذات عبقری ہے ، اور بے شمار فضائل کا مالک ہے ، جھوٹے واقعات و قصص سے بلکل بے نیاز ہے ـ
اللهم ارنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وارنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه إنک جواد کَریم غفور رحیم

کمپوزو ترتیب : عُکاشة​
تحریر :: امیرا السلام بحرالحق  


No comments:

Post a Comment